دفتر ششم: حکایت: 99
آمدنِ جعفر رضی اللہ عنہ بہ تنہا بگرفتنِ قلعہ و مشورت کردنِ مَلِکِ آں قلعہ با وزیر در دفعِ اُو، و گفتنِ وزیر مَلِک را کہ زنہار مُلک را بوے تسلیم کن کہ او مؤیّد ست
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا تن تنہا ایک قلعہ پر قبضہ کرنے کے لیے آنا اور اس قلعہ کے بادشاہ کا وزیر کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے مشورہ کرنا، اور وزیر کا بادشاہ کو کہنا کہ خبردار ملک اس کے حوالے کر دیجئے، کیونکہ اس کے ساتھ خدا کی تائید ہے
(حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا حال مفتاح العلوم کی آٹھویں جلد میں بالتفصیل سپردِ قلم ہو چکا ہے)
1
چونکہ جعفر رفت سوئے قلعۂقلعہ پیشِ کامِ خشکش جرعۂ
ترجمہ:- جب حضرت جعفر ایک قلعہ پر حملہ آور ہوئے (اور کوئی) قلعہ (خواہ کیسا ہی مستحکم ہوتا وہ) ان کے (گھوڑے کے) تالو کے لیے (پانی کی) ایک گھونٹ (کے برابر) تھا (کہ اس سے سیری نہ ہوتی تھی اور دوسری فتوحات کا اشتیاق رہتا تھا۔ اس میں یہ پُر لطف مبالغہ ہے کہ ان کا گھوڑا بھی اس قدر شجاع تھا)۔
2
یکسواره تاخت تا قلعہ بہ کرّتا درِ قلعہ بہ بستند از حذر
ترجمہ: تو وہ تنِ تنہا قلعہ پر حملہ آور ہو کر چڑھ دوڑے۔ یہاں تک کہ (ان کے) خوف سے (قلعہ والوں نے) قلعہ کا دروازہ بند کر لیا۔
3
زہرہ نے کس را کہ پیش آید بجنگاہلِ کشتی را چہ زہره با نہنگ
ترجمہ: کسی کا (یہ) حوصلہ نہیں (تھا) کہ لڑنے کے لیے سامنے آئے (اور) کشتی والوں کا حوصلہ (ہی) کیا (کہ) مگر مچھ کے ساتھ (مقابلہ کریں)۔
4
روے آورد آں ملک سوے وزیرکہ چہ چاره است اندریں وقت اے مشیر
ترجمہ: وہ بادشاه وزیر سے مخاطب ہوا (اور بولا) کہ اے مشورہ دینے والے اس وقت کیا تدبیر درکار ہے۔
5
گفت آنکہ ترک گوئی کبر و فنپیشِ او آئی بہ شمشیر و کفن
ترجمہ: اس نے کہا (بس چاره کار) یہی (ہے) کہ (اب) خود سری اور جلد بازی چھوڑ دیجئے۔ (اور اظہارِ عجز کے لیے) شمشیر و کفن کے ساتھ اس کے سامنے آئیے (بقول کسے ؎
گر قتل ہے منظور چل آ بسم اللہیہ تیغ ہے حاضر یہ گلا بسم اللہ
پھر امید ہے کہ وہ رحم کرے گا):
6
گفت آخر نے یکے مردیست فردگفت منگر خوار در فردیِ مرد
ترجمہ: (بادشاہ نے) کہا کیا وہ ایک اکیلا آدمی نہیں ہے (پھر اس سے اس قدر ڈرنے کے کیا معنی؟ وزیر نے) کہا اس مرد کی تنہائی کو کچھ ایسا ویسا نہ سمجھو۔
7
چشم بکشا قلعہ را بنگر نکوہمچو سیماب ست لرزاں پیشِ او
ترجمہ: (حضور) آنکھ کھولیے اور قلعہ کو اچھی طرح دیکھئے (کہ) وہ اس (مرد) کے سامنے (اس وقت) پارے کی طرح کانپ رہا ہے۔
8
شستہ در زیں آنچناں محکم پے استگوئیا مشرقی و غربی با وَے است
ترجمہ (اور اس جوانمرد پر بھی نظر ڈالیے کہ) وہ (گھوڑے کے) زین میں اس طرح استقلال کے ساتھ) جما بیٹھا ہے گویا (تمام) مشرق و مغرب کی کائنات اس کے ہمراہ آمادۂ امداد ہے۔
9
چند کس ہمچو فدائی تاختندخویشتن را پیشِ او انداختند
ترجمہ: (حضور دیکھئے ابتدائے مقابلہ میں ہمارے) چند آدمی (شاہی) جاں نثاروں کی طرح (اس پر) لپکے (اور) اپنے آپ کو اس سے جا بھڑایا۔
10
ہر یکے را او بگرزے مے فگندسرنگوں سار اندر اقدامِ سمند
ترجمہ: (مگر) وہ ہر ایک (سپاہی) کو گرز (کی ضرب) کے ساتھ مار گراتا تھا (اور وہ) سر کے بل گھوڑے کے قدموں میں (گرتا تھا)۔
11
داده بودش صنعِ حق جمعیّتےکو ہمیزد یک تنَہ بر امّتے
ترجمہ: (اس وقت) حق تعالیٰ کی قدرت نے اس کو ایک ایسی دلجمعی عطا فرمائی تھی کہ وہ ایک اکیلا ایک قوم پر حملہ کر رہا تھا۔ (یہ مولانا کی بلاغت کا کمال ہے کہ میدانِ جنگ کے منظر حضرت جعفر کی شجاعت و دلاوری کا نقشہ وزیر کی زبان سے کھینچ دیا۔)
12
چشمِ من چوں دید روے آں قبادکثرتِ اعداد از چشمِ فتاد
ترجمہ: جب میری نظر (اس وقت) اس عظیم الشان (ہستی) پر پڑی۔ تو (فوج کی) کثرتِ تعداد میری نظر سے گر گئی (اور مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص کو خداداد دلجمعی حاصل ہو۔ اس کے آگے ایک فوج بھی بے وقعت اور عاجز ہے۔ آگے مولانا اس کی چند مثالیں ارشاد فرماتے ہیں):
13
اختراں بسیار خورشید از یکے ستپیشِ او بنیادِ ایشاں مُندَکے ست
ترجمہ: اگرچہ ستارے بہت اور آفتاب ایک ہے مگر اس کے آگے ان کی بنیاد برباد ہے۔
14
گر ہزاراں موش پیش آرند سرگُربہ را نَے ترس باشد نَے حذر
ترجمہ: اگر ہزاروں چوہے (بلوں سے) سر نکالیں (اور آمادۂ جنگ ہوں) تو بلّی کو نہ (ان سے) اندیشہ ہوتا ہے نہ بچاؤ (کی ضرورت)۔
15
گُُربہ پیش آیند موشاں اے فلاںنیست جمعیّت درُونِ جانِ شاں
ترجمہ: اے صاحب! اگر بہت سے چوہے جمع ہو کر بلی کے سامنے آ جائیں تو (بھی) ان کی جان کے اندر جمعیت نہیں ہے (بلی کی ایک ہی میاؤں ان کو تتر بتر کر دے)۔
16
ہست جمعیت بہ صورتہا فُشارجمعِ معنیٰ خواہ ہِیں از کردگار
ترجمہ: (پس معلوم ہوا کہ ظاہری) صورتوں کی جمعیت فضول ہے۔ ہاں خداوند تعالیٰ سے باطنی جمعیت طلب کر۔
17
نیست جمعیّت ز بسياریِ جِسمجسم را برباد قائم داں چو اسم
ترجمہ: جمعیت کثرتِ اجسام سے نہیں ہے۔ جسم کو تو نام کی طرح ہوا میں سمجھو۔
مطلب: نام کا قائم بالہواء ہونا بوجہ اس کے کہ وہ ایک آواز ہے ظاہر ہے، پس اسی طرح شبہ کو ناپاک و ناقابلِ اعتبار سمجھو۔ اور وجہِ تشبیہ بھی ناپائیداری ہے کہ جسم ہوا پر قائم نہیں۔ پس اس تکلّف کی ضرورت نہیں جو بعض ہمنشیں نے کیا ہے کہ اجسامِ حیوانات بر انفاس قائم اندو انفاس ہوا اند۔ (کلید)
18
دَر دلِ مُوش ار بدے جمعیّتےجمع گشتے چند موش از حمیتے
ترجمہ: اگر چوہے کے باطن میں جمعیت ہوتی تو چند چوہے (اپنی) حفاظت کی غرض سے جمع ہو جاتے۔
19
بر زدندے چوں فدائی حملۂخویش را بر گربۂ بے مہلۂ
ترکیب: جملہ مجرور ہے، جس کے ماقبل "در" حرفِ جار مقدر ہے۔ یا "فدائی حملہ" مضاف الیہ اور مضاف ہیں باضافتِ معکوس، یہ صورت بلحاظِ ترجمہ زیادہ برجستہ ہے۔
ترجمہ: 1۔ (اور) وہ بلا مہلت اپنے آپ کو فدائی کی طرح ایک (ہی) حملہ میں بلی پر دے مارتے۔
ترجمہ: 2۔ (اور) وہ بلا مہلت اپنے آپ کو فدائی کے حملہ کی طرح بلی پر دے مارتے۔
20
آں یکے چشمش بکندے از ضرابواں دگر گوشش دریدے ہم بناب
ترجمہ: وہ ایک (چوہا تو پنجہ کی) ضرب سے اس کی آنکھ نکال لیتا اور وہ دوسرا (چوہا) بھی (اپنی تیز) کچلی سے اس کا کان چیر ڈالتا۔
21
واں دگر سوراخ کردے پہلوشاز جماعت گم شدے بیروں شوش
ترجمہ: اور وہ دوسرا (چوہا) اس کے پہلو میں سوراخ کر ڈالتا (غرض چوہوں کی) جماعت سے اس (بلی) کی خلاصی (کی صورت) مفقود ہو جاتی (یا جماعت کی بدولت ان چوہوں کی راہِ گریز ہی مٹ جاتی)۔
22
لیک جمعیت ندارد جانِ موشبجہد از جانش ببانگِ گربہ ہوش
ترجمہ: مگر چوہے کی جان میں جمعیت نہیں ہے (چنانچہ) بلی کی میاؤں کے ساتھ اس کی جان سے ہوش (و حواس) پرواز کر جاتے ہیں۔
23
گر بود اعدادِ موشاں صد ہزارخشک گردد از یکے گربۂ نزار
ترجمہ: اگر چوہوں کی تعداد ایک لاکھ ہو تو (بھی) وہ ایک مریل بلی (کے خوف) سے خشک ہو جاتے ہیں۔
24
از رمَہ انبُہ چہ غم قصّاب راانبہیِ ہُش چہ بندد خواب را
ترجمہ: گلہ کی کثرت سے قصائی کو کیا غم ہے۔ ہوش کی کثرت نیند کو کیا روک سکتی ہے۔
25
مالک الملک ست جمعیت دہدشیر را تا برگلۂ گوراں جہد
ترجمہ: (وہی) مالک الملک تعالیٰ شانہٗ ہے جو شیر کو ایسی دلجمعی عطا فرماتا ہے کہ وہ گورخروں کے گلہ پر حملہ کرتا ہے۔
26
در زمانے شاں بسازد ترت و مرتکس نیارد گفتنش از راہ پرت
ترجمہ: وہ ایک لمحہ میں ان کو زیر و زبر کر دے کوئی اس کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ راستے سے ہٹ جا۔
27
صد ہزاراں گورِ دَہ شاخہ دلیرچوں عدَم باشند پیشِ ہولِ شیر
ترجمہ: لاکھوں گورخر جو دس دس سینگوں والے اور دلیر ہوں شیر کی ہیبت کے آگے کالعدم ہو جاتے ہیں۔
مطلب: پیچھے ذکر یہ چلا آ رہا تھا کہ جس کو جمعیت حاصل ہے وہ اگر ایک بھی ہو تو لاکھوں پر بھاری ہوتا ہے اس ضمن میں یہ فرمایا کہ یہ جمعیت عطیۂ حق ہوتی ہے۔ اب عطائے حق کے قرینہ سے حق تعالیٰ کے بعض دیگر عطیات کا ذکر فرماتے ہیں کہ منجملہ ان کے ایک حسن ہے:
23
مَالِكُ الْمُلْك ست بدہد مُلکِ حُسنیوسفے را تا بود چوں ماءِ مُزن
ترجمہ: وہ ملک کا مالک ہے جو کسی (حسین) یوسف (ثانی) کو حسن کی قلمرو عطا فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ (حسین اس حُسن کی بدولت) سفید بادل کے (صاف) پانی کی مثل ہو جاتا ہے۔ (یعنی جس طرح یہ پانی نباتات کو سر سبز کرتا ہے اسی طرح اس حسین کا دیدار دلوں کو زندگی بخشتا ہے)۔
29
در رُخے بنہد شعاعِ اخترےکہ شود شاہے غلامِ دُخترے
ترجمہ:وہ کسی چہرے میں ایک آفتاب کی سی شعاع رکھ دیتا ہے کہ (اس کی وجہ سے) ایک بادشاہ (بھی) کسی لڑکی کا غلام بن جائے (تو محلِ تعجب نہیں)۔
مطلب: یعنی جب مثلاً کسی لڑکی میں اللہ تعالیٰ وہ تابشِ حسن رکھ دیتا ہے۔ خواہ وہ لڑکی کسی بھی ادنیٰ گھرانے سے ہو یا کنیز ہی ہو۔ تو ایک بادشاہ بھی اس کے دیدار سے اس پر فریفتہ اور اس کا غلام ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ بادشاہ کیسا ہی با شان و شکوہ ہو۔ یہ حسن کا کرشمہ ہے۔ جیسے مثنوی کے آغاز میں بادشاہ اور کنیز کا قصہ گزر چکا ہے کہ ؎
یک کنیزک دید شہ در شاہراہشد غلامِ آں کنیزک جانِ شاه
یہ تو جمالِ ظاہری ہے مگر بعض بندوں کو اللہ تعالیٰ جمالِ باطنی عطا فرماتا ہے۔ آگے اس کا ذکر ہے:
30
بنہد اندر رُوے دیگر نُورِ خُودکہ بہ بیند نیم شب ہر نیک و بد
ترجمہ: وہ دوسرے (شخص کے) رخ (باطن) میں اپنا نور ودیعت کر دیتا ہے۔ جس سے وہ (صاحبِ نور) آدھی رات میں ہر نیک و بد کو (نمایاں) دیکھ لیتا ہے۔
مطلب: نیم شب سے مراد وہ امور ہیں جس سے حق و باطل اور نیک و بد میں اشتباه واقع ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جن حضرات میں یہ خداداد باطنی نور ہوتا ہے۔ وہ اسبابِ التباس کے باوجود حق و باطل میں پوری تمیز رکھتے ہیں اور نیک و بد میں ان کو کبھی اشتباه واقع نہیں ہوتا۔ یہاں رخ سے رخِ باطنی مراد ہے کیونکہ مذکورہ بصیرت سے رُخِ باطنی ہی موصوف ہو سکتا ہے نہ کہ ظاہر۔ ہاں رخِ باطن کے حسن کا پرتو رُخِ ظاہر پر نمایاں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آگے یہی مذکور ہے:
31
یُوسفؑ و موسٰیؑ ز حق بُردند نُوردر رُخ و رخسار و در ذاتِ الصُدور
ترجمہ: حضرت یوسف اور حضرت موسٰی علیہما السّلام نے حق تعالیٰ سے (اپنے) چہرہ اور رخسار اور سینہ والے (قلب) میں خاص سوز حاصل کیا تھا۔
مطلب: منقول ہے کہ حضرت یوسف اور حضرت موسٰی علیھما السّلام ایسے نور کے ساتھ مخصوص تھے جو آفتاب کی روشنی پر غالب تھا اور یہ نورِ الٰہی تھا جو حضرتِ حق سے بطورِ معجزہ پہنچا تھا (بحر العلوم) آگے نورِ موسوی اور نورِ یوسفی کی تفصیل ہے۔ پہلے نورِ موسوی کا ذکر چلتا ہے۔ پھر چھتّیس اشعار کے بعد نورِ یوسفی کا ذکر آئے گا:
32
روئے موسٰیؑ بارِقے انگیختہپیشِ رُو او پردۂ آویختہ
ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام کا چہرہ ایک برق پیدا کرتا تھا (جس کے دیکھنے کی کوئی تاب نہ لا سکتا تھا۔اس لیے) انہوں نے چہرہ کے سامنے نقاب لٹکا رکھا تھا۔
مطلب: بعض نے لکھا ہے کہ تجلّیِ طور کے بعد موسٰی علیہ السّلام کے حسن کی یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ کوئی شخص دیکھ نہیں سکتا تھا جو دیکھ لیتا اندھا ہو جاتا تھا۔ اس لیے آپ چہرہ پر نقاب رکھتے تھے۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت شاه بدیع الدین قطب مدار اسی نشانِ موسوی سے مشرف تھے اس لیے ان کے چہرہ میں بھی یہی اثر تھا۔ اور وہ بھی نقاب رکھتے تھے۔ واللہ اعلم (کلید)
33
نُورِ رویش آنچناں بُردے بصرکہ زمرّد از دو دیدۂ مارِ کر
ترجمہ: ان کے چہرہ کا نور اس طرح نگاہ کو سلب کر لیتا تھا جس طرح زمرد بد سے بدتر سانپ کا دونوں آنکھوں سے (نور سلب کر لیتا تھا)۔
34
او ز حق درخواستہ تا توبرهگردد آں نورِ قوی را ساتره
ترجمہ: انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ نقاب اس طاقتور نور کے لیے ستر بن جائے۔
مطلب: یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ باطنی نور تھا جس کو کوئی ظاہری نقاب و حجاب مستور نہیں کر سکتا۔ ورنہ ظاہری نور نقاب میں بآسانی چھپ سکتا تھا اس کے لیے دعا کی ضرورت نہ تھی۔
35
توبرہ گفت از گلیمت ساز ہِیںكاں لباسِ عارفے آمد یقیں
ترجمہ : ارشاد ہوا کہ نقاب اپنے کمبل کا بنالو۔ ہاں (اس میں ستر و حجاب کا خاصہ پیدا ہو جائے گا) کیونکہ وہ یقیناً (تم جیسے) عارف کا لباس ہے۔
36
کاں کسا بر نُور صبرے یافتہ استنورِ جاں در تار و پودش تافتہ است
ترجمہ: کہ اس لباس نے (عارف کے) نور پر تحمّل (کرنے کا شیوہ) پایا ہے (اور یہ) روحانی نور اس کے تانے بانے میں درخشاں رہ چکا ہے۔
37
جز چنیں خرقہ نخواہد شد صِواںنُورِ مارا برنتابد غيرِ آں
ترجمہ: سوائے ایسے خرقہ کے (کوئی اور لباس اس نور کا) حامل نہیں ہو گا۔ ہمارے نور کو اس کے سوا (کوئی اور حجاب) برداشت نہیں کر سکتا۔
38
کوہِ قاف ار پیش آید بہرِ سدہمچو کوهِ طور نورش بر درد
ترجمہ: اگر کوہِ قاف (بھی اس کے) بند کرنے کو سامنے آ جائے۔ (تو یہ) نور اس کو کوہِ طور کی طرح پاش پاش کر دے گا۔ (سوائے اس لباسِ موسوی سے جو متحمّلِ نور ہے۔ تو اب اہل اللہ کے ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں کہ وہ بھی متحملِ نور ہیں):
39
از کمالِ قدرت ابدانِ رجالیافت اندر نُور بیچوں احتمال
ترجمہ: قدرت (حق) کے کمال سے مردانِ خدا کے ابدان نے نورِ بے کیف میں تحمّل حاصل کیا ہے۔
40
آنچہ طورش برنتابد ذرّۂقُدرتش جا سازد از قارُورۂ
ترجمہ: جس چیز کو طور ذرہ برابر برداشت نہیں کر سکا۔ قدرتِ حق اس کی جگہ ایک بوتل میں بنا دیتی ہے (بوتل یا قارورہ سے مراد قلب ہے۔ اوپر قالب کے تحمّل کا ذکر تھا۔ یہاں قلب کی برداشت کا ذکر ہے)۔
41
آنچہ طورش برنتابد اَے کیاقدرتش اندر زجاجے ساخت جا
ترجمہ: اے دانا جس چیز کو کوہِ طور برداشت نہیں کر سکتا۔ قدرت (حق) اس کی جگہ شیشے کی ایک قندیل میں بنا دیتی ہے۔
مطلب: ان اشعار میں اگر جگہ سے مراد خود نور کی جگہ ہے تو نورِ حق سے مراد نور آفریدۂ حق ہے۔ یعنی معرفت، محبت، علم، حال وغیرہ اور اگر نورِ حق سے نورِ قدیم مراد ہے جیسے کہ "آنچہ نورش برنتابد" سے ظاہر یہی ہے تو جگہ سے مراد نور کی جگہ نہیں بلکہ اس نور کے ظہور و تعلقِ حادث کی جگہ مراد ہے۔ (کلید) آگے قالب کے تحمّل میں قلب کے واسطہ ہونے کی تصریح ہے:
42
گشت مشکوٰۃِ زجاجی جائے نُورکہ ہمے درّد ز نُورِ آں قاف و طور
ترجمہ: شیشے کی قندیل والا چراغدان (بھی) نور کی جگہ بن گیا۔ کہ (اس) نور سے وہ کوہِ قاف کوہِ طور (بھی) پھٹا جاتا ہے۔
مطلب : یہ تلمیح خاص اس آیت کی طرف ہے: ﴿مَثَلُ نُورِهٖ كَمِشْكوٰةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ ٱلْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ﴾ (النور: 35) ”اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے (اور) طاق میں ایک چراغ (رکھا ہے اور) چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہے"۔ اس آیتِ نور کی مبسوط تفسیر مفتاح العلوم کی جلد پنجم کے اواخر میں سپرد قلم ہو چکی ہے۔ جس کی نظیر کسی کتابِ تفسیر میں نہیں ملے گی۔ یہاں شعر میں اشارہ ہے اس کی تاویلِ خاص کی طرف کہ مشکوٰۃ بمعنی طاقچہ، چراغ سے مراد مومن کا جسم ہے۔ اور زجاجہ بمعنی شیشہ سے مراد حرص کا قلب ہے، اور مصباح سے نورِ حق کہ زجاجۂ مذکورہ سے اس کا تعلق اوّلاً ہے اور مشکوٰۃ سے ثانیاً۔ پسں مشکوٰة کو زجاجہ کے ساتھ موصوف کرنے میں اس تعلقِ اوّل و ثانی کی طرف اشارہ ہو گیا۔ چنانچہ آگے اس تفسیر کی تصریح بھی فرماتے ہیں:
43
جسمِ شاں مشکوٰة داں دلشاں زُجاجتافتہ بر عرش و افلاک ایں سراج
ترجمہ: ان (مردانِ حق) کے جسم کو چراغدان سمجھو اور ان کے قلب کو شیشے کی قندیل (اور پھر ثالثاً اس چراغدان و قندیل کے واسطہ سے) یہ چراغ (یعنی نورِ حق) عرش و افلاک پر تاباں ہے (پس اوّلاً عنایتِ حق انسان پر متوجہ ہے اور ثانیاً باقی مخلوق پر، جس میں سب علویات و سفلیات آ گئے)۔
44
نورِ شاں حیرانِ ایں نور آمدهچوں ستارہ زیں ضحٰی فانی شده
ترجمہ: ان (عرش و فلک) کا نور (جو خاص ان کی استعداد کے موافق ان کو عطا ہوا ہے) اس (مردانِ حق کے) نور سے دنگ رہ گیا (اور) وہ (نورِ عرش و افلاک) ستارے کی مانند اس (نور) چاشت سے کالعدم ہو گیا۔
45
زیں حکایت کرد آں ختمِ رُسُلؐاز ملیکِ لَا يَزَالُ وَ لَمْ يَزَلْ
ترجمہ: اسی لیے خالقِ خاتم النبین صلّی اللہ علیہ و سلّم نے خداوندِ ابدی و ازلی سے یہ بات (یعنی حدیثِ قدسی) بیان فرمائی ہے (جو صوفیہ میں مشہور ہے)۔
46
کہ نگنجیدم در افلاک و خلادر عقول و در نفوسِ باعلا
ترجمہ: کہ میں افلاک میں اور خلا میں (یعنی عرش سے اوپر) اور عقول اور نفوسِ علوی میں نہیں سماتا۔
47
در دلِ مومن بگنجیدم چو ضیفبے ز چوں و بے چگونہ و بے ز کیف
ترجمہ: (لیکن) میں مومن کے دل میں ایک مہمان کی طرح سما گیا ہوں (اور یہ سمانا ظرفیت کا نہیں بلکہ) بلا چوں و بلا چگونہ اور بلا کیف ہے (آگے اس سمانے کی ایک حکمت مذکور ہے):
48
تا بدلّالِیِّ آں دل فوقِ تحتیابد از من بادشاہی ہا و بخت
ترجمہ: تاکہ اس (نورِ حق والے) قلب کے ذریعہ مخلوقاتِ سماویہ و ارضیہ مجھ سے سلطنتیں اور سعادت پائیں۔
مطلب: فیوضِ غیب سے تمام مخلوقاتِ علوی و سفلی کا استفادہ انسان کے توسط سے ہے۔ کیونکہ مقصود دونوں عالم سے انسان ہے۔ خصوصاً انسانِ کامل۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِن دَآبَّةٍ۔۔۔(الآیۃ)﴾ (الفاطر: 45) ”اور اگر خدا لوگوں کی بد اعمالیوں کی پاداش میں پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو باقی نہ چھوڑتا۔۔۔“ پھر انسان کی ہلاکت کا سب کی ہلاکت کو مستلزم ہونا انسان کے شرف اور اس کی مقصودیت پر دال ہے۔ ان اشعار میں جس حدیثِ قدسی کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے: "مَا وَسَعَنِیْ اَرْضِیْ وَ لَا سَمَائِیْ وَ لٰكِنْ وَسَعَنِیْ قَلْبُ عَبْدِی الْمُُؤْمِنِ" یعنی ”میں نہ اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ اپنے آسمان میں۔ لیکن اپنے بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ (انتہٰی) حضرت ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث احیاء العلوم میں مندرج ہے۔ عرابی نے کہا ہے مجھے اس کے لیے کوئی اصل نظر نہیں آتی۔ اور (ابن تیمیہ نے کہا ہے وہ اسرائیلیات میں مذکور ہے اور اس کے لیے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم سے کوئی مشہور اسناد نہیں۔ اور اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مومن بندے کے قلب میں مجھ پر ایمان لانے اور مجھ سے محبت رکھنے کی گنجائش ہے۔ ورنہ حلول کا قائل ہونا کفر ہے۔ (زرکشی نے کہا ہے کہ اس کو ملحدوں نے وضع کیا ہے۔ سیوطی نے کہا ہے اس کو امام احمد رحمۃ الله علیہ نے زید بن وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے کہ الله تعالیٰ نے خرقیل کے لیے آسمان کشادہ کر دیے یہاں تک کہ انہوں نے عرش تک نظر کی، پھر خرقیل نے کہا اے پروردگار تو پاک ہے تیری شان کس قدر بڑی ہے۔ تو الله تعالیٰ نے فرمایا آسمان و زمین میرے لیے گنجائش رکھنے سے عاجز آ گئے اور مومنِ پرہیزگار، نرم مزاج بندے کے دل میں میری گنجائش ہوئی (انتہٰی)۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ﴾ (الاحزاب: 72) یعنی ”ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر امانت پیش کی تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے عذر کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا“ (موضوعاتِ کبیر) آگے اسی حدیث کی تفسیر کا تتمہ چل رہا ہے:
49
بے چنیں آئینہ ایں خوبیِ منبرنتابد نے زمین و نے زمن
ترجمہ: (قلبِ انسان کے) ایسے آئینہ کے بدوں میرے اس جمال کو کوئی برداشت نہیں کر سکتا نہ زمین اور نہ آسمان (چونکہ زمانہ کو آسمان کی مقدارِ حرکت سمجھا گیا ہے اس لیے آسمان کی تعبیر زمان سے کی ہے)۔
50
بر دو کَون اسپِ تَرَحُّم تاختیم بس عریضِ آئینہ بر ساختیم
ترجمہ: ہم نے دونوں جہانوں پر ترحّم کا گھوڑا دوڑایا (اور) ہم نے بہت وسیع آئینہ بنایا (یہاں وسعتِ حکمی مراد ہے اس حیثیت سے کہ وہ تجلیِ واسع كا محل ہے۔ آگے اس آئینہ کی عظمت کا ذکر ہے):
51
ہر دمے زیں آئینہ پنجاه عُرسبشنو آئینہ ولے شرحش مپرس
ترجمہ: ہر لمحہ اس پچاس شادی والے آئینے سے آئینہ (کا نام) سنتے رہو۔ لیکن اس کی تفصیل مت پوچھو۔
مطلب: اس آئینے کے احوال و حکایات میں سے صرف اتنا سن لینا کافی سمجھو کہ یہ ایک عجیب آئینہ ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اجمالاً اس کا حال سن لو جتنا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ تفصیل مت پوچھو۔ کیونکہ اس کے آئینہ ہونے کی حقیقت اس کے تجلی گاہ ہونے کے ادراک پر موقوف ہے۔ اور یہ ادراک موقوف ہے ادراکِ تجلّیات پر۔ اور یہ امر ذوقی ہے جو شرح اور قال سے منکشف نہیں ہوتا۔ اور انہی تجلیاتِ حق کے لحاظ سے کہ ان میں ہر تجلی مایۂ صد سرور ہے، قلب کو آئینۂ پنجاہ عرس کہا ہے۔ قلب کا متحملِ نورِ حق ہونا جمالِ موسوی کے ذکر میں ضمناً مذکور ہو گیا آگے پھر جمالِ موسوی کا ذکر چلتا ہے:
52
حاصلِ آں کز لُبسِ خویشش پرده ساختکہ نفوذِ آں قمر را مے شناخت
ترجمہ: حاصل یہ کہ موسٰی علیہ السّلام نے اپنے ہی لباس سے اس (نور) کا پردہ بنایا کیونکہ وہ اس مہتابِ (نورِ حق) کے (ہر حجاب سے) پار ہو جانے کو پہچانتے تھے (کہ وہ ایسے ویسے حجابات سے مستور ہونے والا نہیں۔ اس کے لیے لباسِ موسوی چاہیے)۔
53
گر بُدے پرده ز غيرِ لُبسِ اُوپارہ گشتے گر بُدے کوہِ دُوتو
ترجمہ: (چنانچہ) اگر ان کے لباس کے سوا کوئی اور نقاب ہوتا تو وہ پارہ پارہ ہو جاتا اگرچہ وہ دوہرا پہاڑ ہی (کیوں نہ) ہوتا۔
54
زاہنیں دیوارہا نافذ شدےتو بره با نورِ حق چہ فن زدے
ترجمہ: اور لوہے کی دیواروں سے پار ہو جاتا (اور نقاب (بے چارہ) تو نورِ حق کے سامنے کیا تیر مارتا۔ (آگے یہ بیان کرتے ہیں کہ پھر ایسے شدید النفوذ اور بے پناہ نور کو حضرت موسٰی علیہ السّلام کے نقاب نے کیونکر مستور کیا):
55
گشتہ بود آں توبرہ صاحبِ تفےبود وقتِ سوز خرقۂ عارفے
ترکیب: "گشتہ بود" فعلِ ناقص، "آں" اسمِ اشارہ جس کا مشارٌ الیہ "توبرہ" مقدّر ہے، اس کا اسم "توبرہ" "صاحبِ تفے" بترکیبِ اضافی اس کی خبر۔ یا "گشتہ بود" فعلِ ناقص، "آں توبرہ" اسم، "صاحبِ تفے" اس کی خبر۔ ترجمہ بہر دو تقدیر ملاحظہ ہو۔
ترجمہ: وہ (نقاب) ایک حرارتِ (عشق) والے کا نقاب رہ چکا تھا۔ (یا وہ نقاب (خود) حرارت (عشق) کا مصاحب رہ چکا تھا) (یعنی) وہ (حضرت موسٰی علیہ السّلام کے) سوز (عشق) کے وقت ایک عارفِ کامل (یعنی موسٰی علیہ السّلام) کا خرقہ رہ چکا تھا۔
56
گشتہ بود آں توبره ستّارِ نورزانکہ بود از خرقۂ یک با حضور
ترجمہ: وہ نقاب (جو) نور کو مستور کرنے والا بن گیا تو اس لیے کہ وہ ایک (عارف) یا حضور (یعنی موسٰی علیہ السّلام کا) خرقہ تھا (پس وہ اسی قربِ حرارت کا معتاد ہونے کی وجہ سے اس نور کا متحمل ہو گیا)۔
57
زاں شود آتش رہینِ سوختہکو ست با آتش ز پیش آموختہ
ترجمہ: آگ اسی لیے تو سوختہ کی مقبوض ہے کہ وہ پہلے سے آگ کے ساتھ خو آموختہ ہے۔
مطلب: اگلے زمانے میں دیا سلائی نہ تھی۔ ایک خاص قسم کا پتھر یا لوہا پاس رکھتے تھے۔ جس کو دوسرے پتھر یا لوہے پر مارتے تو ان سے شرارے جھڑتے۔ ان شراروں کو ایک پارچہ پر لے لیتے تو اس میں شراروں کے سرایت کر جانے سے آگ تیار ہو جاتی تھی۔ یہ پارچہ پہلے جلا ہوا ہوتا تھا۔ تاکہ شراره جلدی اس میں اثر کرے۔ اس لیے اس پارچہ کو سوختہ کہتے تھے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ سوختہ میں جو آگ فوراً لگ جاتی ہے اور گویا اس کی گرفت میں آ جاتی ہے تو اس لیے کہ وہ پہلے سے آگ کا معتاد و خوگر ہے۔ یعنی آگ کھا چکا ہے اور اسی لیے سوختہ کہلاتا ہے۔ آگے جمالِ موسوی کے نا قابلِ برداشت ہونے کے متعلق خود ان کے گھر کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
58
وز ہواے و عشقِ آں نورِ رشادخود صفورا ہر دو دیده باد داد
ترجمہ: اس ہدایت کے نور کے عشق و محبت سے خود (حضرت) صفورا نے دونوں آنکھیں برباد کر لیں۔
59
اوّلاً بر بست یک چشم و بدیدنورِ روئے او، و آں چشمش پرید
ترجمہ: پس انہوں نے ایک آنکھ بند کی اور (ایک آنکھ سے) ان کے چہرہ کا نور دیکھا اور ان کی وہ آنکھ جاتی رہی۔
60
بعد ازاں صبرش نماند و آں دگربر کشاد و کرد خرجِ آں قمر
ترجمہ: اس کے بعد آنکھ کھونے پر بھی ان کو (جمالِ موسوی کے دیدار سے) صبر نہ رہا اور وہ دوسری (آنکھ) کھول دی اور اس چاند پر خرچ کر دی۔ (آگے اس کی ایک مثال ارشاد ہے):
61
ہمچناں مردِ مجاہد ناں دہدچوں برو زد نورِ طاعت جاں دہد
ترجمہ: اسی طرح مجاہدہ کرنے والا آدمی (پہلے تو) روٹی (کو اپنے مجاہدہ پر قربان کر) دیتا ہے، پھر جب اس پر نورِ طاعت پورا اثر کرتا ہے تو جان بھی دے ڈالتا ہے۔ (پہلے وہ ریاضت و مجاہدہ کی غرض سے تکثیرِ صیام و تقلیلِ طعام اختیار کرتا ہے۔ جب شوقِ طاعت اور محبتِ حق ترقی کر جاتی ہے تو جان کے جاتے رہنے کی بھی پروا نہیں کرتا)۔
62
پس زنے گفتش کہ چشم عبہریکہ زدستت رفت حسرت میخوری
ترجمہ: تو ایک عورت نے ان کو کہا کہ تمہاری چشمِ نرگس جو ہاتھ سے جاتی رہی تو تم کو (اس پر) حسرت آتی ہو گی۔
63
گفت حسرت میخورم کہ صد ہزاردیده بودے تا ہمے کردم نثار
ترجمہ: انہوں نے کہا مجھے تو یہ حسرت ہے کہ (کاش) لاکھ آنکھ ہوتی تو میں اس کو (جمالِ موسوی پر) قربان کر دیتی۔
64
روزنِ چشمم ز مَہ وِیراں شد استلیک مہ چُوں گنج در ویراں نشست
ترجمہ: میری آنکھ کا دریچہ (اس) ماہتاب (حسن کی شدید تابانی) سے ویران ہو گیا مگر (میں خوش ہوں کیونکہ اس) ماہتاب (کا تصور) خزانہ کی طرح (میرے دماغ کے) ویرانہ میں جم گیا۔
65
کے گذارد گنج کایں ویرانہ امیاد آرد از رواق و خانہ ام
ترجمہ:۔ یہ (دماغی) خزانہ کب یہ نوبت آنے دے گا کہ میرا یہ ویرانہ (وجود) میرے ایوان و خانہ کو یاد کیا کرے (محبوب کا تصور مجھے اپنی ہستی کے احساس کا موقع ہی کب دے گا کہ میں اپنی آنکھوں کو یاد کروں)۔
66
حق شنید ایں زود چشمش باز داددیدِ موسٰیؑ را ز نورش ساز داد
ترجمہ : حق تعالیٰ نے (صفورا) کی یہ بات بسمعِ قبول، سنی (اور) فورًا ان کی آنکھیں پھر ان کو دے دیں۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کے دیدار کے لیے اپنے نور (خاص) سے ان کو سامان دے دیا۔
68
از نظر آں نورِ زو پنہاں نشداز خزینۂ خاص بُد ویراں نشد
ترجمہ: (پھر) وہ (دوبارہ دیا ہوا) نور (حضرت موسٰی علیہ السّلام کے چہرہ پر) نظر کرنے سے نابود نہیں ہوا (کیونکہ خداوند تعالیٰ کے) خاص خزانہ سے تھا (اس لیے) ضائع نہیں ہوا۔
69
نورِ روے یوسفی وقتِ عبورمے فتادے در سباکِ ہر قصور
ترجمہ: حضرت یوسف علیہ السّلام کے چہرہ کا نور (ان کے راستوں پر) چلتے وقت ہر محل کی جالیوں میں پڑتا۔
70
پس بگفتندے درونِ خانہ دريوسف ست ایں سو بسیراں در گذر
ترجمہ: تو لوگ گھروں کے اندر (بیٹھے) کہتے کہ یوسف ادھر کو چلتے ہوئے گزرے ہیں۔
71
زانکہ بر دیوار دید مرے شعاعفہم کردندیش اصحابِ بقاع
ترجمہ: کیونکہ وہ دیوار کے اوپر شعاع دیکھتے تھے (تو) اس کو گھروں والے سمجھ جاتے (کہ یہ جمالِ یوسفی کا پرتو ہے۔ آگے محبوبِ حقیقی کی تجلّی کی طرف انتقال ہے):
72
خانۂ را کش دریچہ ست آں طرفدارد از سَیرانِ آں يوسف شرف
ترجمہ: جس خانہ (دل) کا دریچہ اس (محبوبِ حقیقی) کی طرف ہے، وہ اس محبوب کی توجہ سے شرف رکھتا ہے۔
73
ہِیں دریچہ سوئے یوسف باز کنوز شگافش فُرجۂ آغاز کن
ترجمہ: ہاں (اس) یوسف کی طرف (دل کا) دریچہ کھول لو اور اس کے شگاف سے (سیر اور) تفرّج شروع کر دو۔ آگے دریچہ کھولنے کی تفسیر ہے):
74
عشق ورزی آں دریچہ کردن ستکز جمالِ دوست دیده روشن ست
ترجمہ: عشق اختیار کرنا وہ دریچہ (کشادہ) کرنا ہے کہ (اسی کی بدولت) جمالِ محبوب سے چشم (قلب) روشن ہے (چنانچہ ظاہر ہے کہ یُحِبُّونَھُمْ کے لیے یُحِبُّھُمْ لازم ہے۔ اور اس کے لیے قرب و مشاہدہ لازم ہے۔
75
پس ہُما را رُوے معشوقہ نگرایں بدستِ تست شنو اے پسر
ترجمہ : پس (اسی طریق سے) ہمیشہ محبوب کا منہ دیکھتا رہ۔ اے عزیز سن یہ بات تیرے ہاتھ میں ہے۔
76
راه کُن در اندرُونہا خویش رادُور کن اِدْراکِ غیر اندیش را
ترجمہ: (لوگوں کے) قلوب میں راہ بنا (کر گھر کر) لے اور خود اس ادراک کو دور کر دے جو غیر کا تصور کرے (ہمیشہ محبوبِ حقیقی پر نظر رکھ پھر لوگوں کے دلوں میں تیرا گھر ہوگا اور تجھ کو لوگوں کی پروا نہ ہو گی)۔
77
کیمیا داری دواے پوست کندشمناں را زیں صناعت دوست کن
ترجمہ: (تو اپنے پاس عشقِ الٰہی کی) کیمیا رکھتا ہے (جو ذمائم کے لوہے کو حمائد کا سونا بنا دے، پس اس کیمیا سے) تو (اپنے جسم اور اس کی شہوات کے) پوست کی دوا کر (کہ وہ شہوات مبدّل بحمائد ہو جائیں اور اپنے دشمنوں (یعنی نفس و شیطان) کو اس فن (کیمیا) سے دوست بنا لے (تاکہ وہ تیری بد خواہی کے بجائے خیرخواہی کیا کریں)۔
78
چوں شدی زیبا بداں زیبا رسیکہ رہاند روح را از بے کسی
ترجمہ: جب تو (اس تبدیلی سے) جمیل ہو جائے گا تو اس جمیل (مطلق) تک پہنچ جائے گا (جس کے جمال کا ذکر ہو رہا ہے) جو روح کو بے کَسی سے نجات دلاتا ہے۔
79
پرورش مر باغِ جانہا را نمشزنده کرده مردۂ غم را دمش
ترجمہ: (وہ ایسا مر بی و محسن ہے کہ) باغِ ارواح کے لیے اس (کے فضل) کی (ادنیٰ) تری پرورش دینے والی ہے۔ اور مردۂ غم کو اس کے دم (التفات) نے زندہ کیا ہے۔
80
نے ہمہ ملکِ جہانِ دوں دہدصد ہزاراں ملکِ گونا گوں دہد
ترجمہ: (اور) یہی نہیں کہ وہ کل ناچیز دنیا کا ملک دے دیتا ہے (بلکہ) لاکھوں ملکِ گونا گوں دیتا ہے (یعنی محبت و معرفت)۔
81
بر سرِ ملک جمالش داد حقملکتِ تعبیر بے درس و سبق
ترجمہ: (جیسے یوسف علیہ السّلام پر خاص عنایت ہوئی کہ) حق تعالیٰ نے ان کو اقلیمِ جمال کے علاوہ تعبیر (خواب) کی دولت (بھی) بلا درس و تعلیم کے عطا فرمائی (یہ عود اور انتقال نہایت ہی لطیف انداز سے ہوا ہے۔ عود باعتبار نفس کے ہے اور انتقال بلحاظ خصوصیتِ مضمون کے)۔
82
ملکتِ حُسنش سوے زنداں کشیدملکتِ علمش سوے کیواں کشید
ترجمہ: (اور ان کے علمِ تعبیر کی دولت ان کی دولتِ حسن سے بھی اکمل تھی چنانچہ) ان کی دولتِ حسن نے ان کو قید خانہ میں پہنچایا (اور) ان کی دولتِ علمِ تعبیر نے کیواں تک کے بلند مدارج کی طرف پہنچایا۔
مطلب: زلیخا ان کے حسن کی وجہ سے ان پر فریفتہ ہوئی مگر جب انہوں نے زلیخا کی ہوسِ نفس کو پاؤں سے ٹھکرا دیا تو اس نے کس مصلحت سے ان کو قید خانہ بھجوا دیا۔ پس ان کی قید کا باعث حسن ہی ہوا۔ بخلاف اس کے علمِ تعبیر نے ان کو قید خانہ سے نکلوایا۔ یعنی بادشاہ کو ایک ایسا خواب نظر آیا جس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السّلام کے سوا اور کوئی نہ بتا سکا اور یہ ان کے قید خانہ سے نکلنے بلکہ وزارت کے عہدے پر فائز ہونے کا ذریعہ بنا۔ آگے یہی فرماتے ہیں:
83
شہ غلامِ او شد از علم و ہنرملکِ علم از ملکِ حُسن استودہ تر
ترجمہ: (چنانچہ) بادشاہ (مصر ان کے) علم و ہنر کے سبب ان کا غلام ہو گیا (پس ثابت ہوا کہ) دولتِ علمِ دولت حسن سے زیادہ قابلِ تعریف ہے۔
نکتہ: بادشاہ جو حضرت یوسف علیہ السّلام کا اس قدر گرویدہ ہوا کہ ان کو نہ صرف قید خانہ سے نجات دی بلکہ اپنا مقرّب بنا لیا اور وزارت کے عہدۂ عظیم پر ان کو نامزد کر دیا تو اس کا باعث صرف ان کا علمِ تعبیر نہ تھا بلکہ بادشاہ کو اس وقت ان میں اور بھی گونا گوں علم و ہنر کے جوہر نظر آئے اور اس کو معلوم ہو گیا کہ ان کا ثانی قلمروئے مصر میں کوئی نہیں مل سکتا۔ اس لیے وہ آن کی آن میں ”ملکتِ علمش سوئے کیواں کشید“ کے مصداق ہو گئے۔ چنانچہ بادشاہ نے دیکھا کہ (1) وہ ایک دینِ حق کے پر جوش مبلغ اور پر زور متکلم ہیں، اسی لیے قید خانہ کے اکثر لوگ ان کے کلام سے متاثر ہوئے۔ (2) وہ اعلیٰ پایہ کے معبّرِ رؤیا ہیں۔ (3) انہوں نے ہفت سالہ قحط کے مصائب کی روک تھام کی زبردست تدبیر بتائی ہے۔ ﴿فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْبُلِهٖ﴾ (یوسف: 47) (4) وہ کیدِ زنان کے پورے نبض شناس ہیں اور اس جال کی گرفت میں آنے والے نہیں جس میں بڑے بڑے زیرک گرفتار ہو جاتے ہیں
﴿فَاسْاَلْـهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ﴾ (یوسف: 50) (5) وہ اعلیٰ پایہ کے دیانت دار اور حقوق العباد کے پاسدار ہیں۔ ﴿اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ﴾ (یوسف: 52) (6) وہ مکایدِ نفس کی گھاتوں کو پوری طرح سمجھنے والے ہیں ﴿وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِىْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ﴾ (یوسف: 53) (7) ان کو خزائنِ ارض کی حفاظت اور پیداوارِ اراضیات کے انتظام کی اعلیٰ لیاقت اور اس کے متعلق خود اپنے آپ پر اعتماد ہے ﴿قَالَ اجْعَلْنِىْ عَلٰى خَزَآئِنِ الْاَرْضِ﴾ (یوسف: 55) آگے درویش و محتسب کے قصے کی طرف عود ہے: