دفتر ششم: حکایت: 98
داستانِ آں مردِ وظیفہ دار از محتسبِ تبریز کہ وامہا کرده بود بر اُميدِ وظیفہ و او را خبر نبود از وفاتِ او۔ از ہیچ زنده وام گزاردہ نشد الّا از محتسبِ متوفی گزارده شد
اس شخص کا قصہ جو تبریز کے کوتوال کا وظیفہ خوار تھا۔ جس نے وظیفہ کی اُمید پر بہت قرض کر رکھے تھے اور اس کو اس (کوتوال) کے مرنے کی خبر نہ تھی تو کسی زندہ سے اس کا قرض ادا نہ ہوا مگر کوتوالِ متوفی سے ہی ادا ہوا
1
لَیْسَ مَنْ مَّاتَ فَاسْتَرَاحَ بِمَيْتٍاِنَّمَا الْمَيْتُ مَیِّتُ الاَحْیَاءِ
جو شخص مر کر آرام پا گیا وہ مُردہ نہیں مردہ تو وہ ہے جو زندوں میں شامل ہو کر مُردہ رہے۔
2
آں یکے درویش ز اطرافِ دیارجانبِ تبریز آمد وام دار
ترجمہ: ایک محتاج آدمی جو قرضدار تھا اطرافِ ملک سے (پھر پھرا کر) تبریز کی طرف آیا۔
3
نہ ہزارش وام بود از زر مگربُود در تبریز بدر الدیں عمر
ترجمہ: شاید نو ہزار دینار اس کا قرض تھا۔ (اور) تبریز میں (اس کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں) بدر الدین عمر (نام کا ایک شخص) تھا۔
4
محتسب بُود و بدلِ بحر آمدهہر سرِ مویش یکے حاتم کدہ
ترجمه: وہ (عہدہ کے اعتبار سے) محتسب تھا اور (سخاوت میں) دل کا دریا تھا (بلکہ یوں سمجھو کہ اس کے) ہر بال کا سرا ایک حاتم خانہ تھا (سخاوت کی تعریف میں یہ ایک پُر لطف مبالغہ ہے)۔
5
حاتم ار بودے گدائے او شدےسر نہادے خاکِ پائے او شدے
ترجمہ: اگر حاتم (اس کے عہد میں) ہوتا تو اس (کے دروازہ) کا بھکاری ہوتا۔ (اور اس کے آگے) سر رکھ دیتا (اور) اس کے پاؤں کی خاک ہو جاتا۔
6
گر بدادے تشنہ را بحرِ زلالاز کرم شرمندہ بُودے زاں نوال
ترجمہ: (اور سخاوت کے ساتھ وہ کریم النفس بھی ایسا تھا کہ) اگر وہ کسی پیاسے کو آبِ شیریں کا دریا (کا دریا بھی) دے ڈالتا تو (بجائے اس کے کہ اس پر فخر کرتا، الٹا) کرم کی وجہ سے اس عطا (کو قلیل سمجھ کر اس) سے شرمندہ ہوتا۔
7
ور بکردےِ ذرّۂ را مشرقےبُود آں در ہمتش نالائقے
ترجمہ: اور اگر وہ کسی ذرّہ کو مشرق (یعنی مطلعِ آفتاب بھی) بنا دیتا تو اس کی ہمّت کے مقابلہ میں (یہ بھی) ناسزاوار تھا۔
8
براميدِ او بیامد آں غریبکو غریباں را بُدے خویش و قریب
ترجمہ: (غرض) اس (محتسب) کی (عطا کی) اُمید پر وہ پردیسی (تبریز میں) آیا کیونکہ وہ (محتسب) پردیسیوں کے لیے (ایسا شفیق و محسن تھا گویا وہ ان کا) خویش اور قرابت دار تھا (مگر آج کل تو خویش و اقارب دکھ دینے پر آماده رہتے ہیں اور "اَلْاَقَارِبُ کَالْعَقَارِبِ" کی مثل شاید موجودہ زمانے کے لیے وضع ہوئی تھی۔)
9
با درش بود آں غریب آموختہوامِ بے حد از عطایش توختہ
ترجمہ: وہ غریب الوطن اس کے دروازے کا ہلا ہوا تھا۔ (اور اس کے قبل) بے حد قرض اس کی عطا سے ادا کر چکا تھا۔
10
ہم بہ پشتیِ آں کریم او وام کردکہ بہ بخششہاش واثق بود مرد
ترجمہ: اب بھی اس کریم کے بھروسے پر اس نے قرض کر لیا۔ کیونکہ یہ شخص اس کی بخششوں پر وثوق رکھتا تھا (کہ میں جب اس کے پاس جا کر ادائے قرض کے لیے رقم مانگوں گا وہ فورًا دے دے گا۔)
11
لا اُبالی گشتہ بد و وام جُوبر اُمیدِ قلزمِ اکرام خو
ترجمہ: (پس) وہ (شخص اس) نوازش کی خصلت والے سمندر کی (عطا کی) امید پر (خرچ کرنے میں) بے باک اور طالبِ قرض ہو گیا تھا۔
12
وام داراں رُو ترش او شاد کام ہمچو گل خنداں ازاں رَوْضُ الْكِرَام
ترجمہ: (دوسرے) قرضدار (اپنی زیر باری اور قرض خواہوں کی جفا سے) ترشرو (تھے مگر) وہ اس سخیوں کے باغ (پر بھروسہ رکھنے) سے پھول کی طرح خنداں تھا (سخیوں کا باغ اس لیے کہا کہ اس کو دوسرے سخیوں کے مقابلہ میں بلحاظ شگفتہ مزاجی و خنداں روئی اس طرح ترجیح حاصل تھی جیسے باغ کو صحرا پر)۔
13
گرم شد پستش ز خورشیدِ عربچہ غمستش از سبالِ بولہب
ترجمہ: اس کی پشت آفتابِ عرب (کی امداد) سے گرم ہو گئی (اب) اس کو ابولہب کی مونچھوں (کے مغرورانہ خم و پیچ) سے کیا غم ہے۔
مطلب: جس طرح سردارِ دارین صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حمایت میں آنے والے کو کفار کی شرارتوں سے غم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس غریبُ الوطن کو اس محتسبِ کریم النفس پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے قرض خواہوں کے تقاضے کی مطلق پروا نہ تھی۔ آگے اسی قسم کی دوسری مثال ارشاد ہے:
14
چونکہ دارد عہد و پیوندِ سحابکے دریغ آید ز سقایانش آب
ترجمہ: جب وہ بادل کے ساتھ عہد اور تعلق رکھتا ہے تو اس کو (پانی کی کیا کمی ہے پھر اسے) سقوں سے (ان کو) پانی (دینے) میں کیا مضائقہ ہو۔
مطلب: یہ ظاہر ہے کہ سقّوں کو بے پایاں پانی کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے ساتھ قرضخواہوں کو تشبیہ دی ہے جن کا بے حد لین دین لوگوں کے ساتھ پھیلا ہوتا ہے۔ مگر جو شخص بادل سے پانی لینے کی راہ و رسم رکھتا ہے وہ سقّوں کی مشکوں اور پکھالوں کو بھر دینے میں دریغ نہیں کرے گا۔ اسی طرح جو شخص تبریز کے اس کریم النفس کا وظیفہ خوار ہے اس کو زیادہ سے زیادہ قرض کے زیرِ بار ہونے اور قرض خواہوں کی رقوم ادا کر دینے میں کیا دریغ ہے۔ آگے تیسری مثال ہے:
15
ساحرانِ واقف از دستِ خدا کے نہند ایں دست و پا را دست و پا
ترجمہ: (فرعون کے بلائے ہوئے) جادوگر جو (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صحبت سے) خداوند تعالیٰ کی نصرت (یا قدرت) سے واقف (ہو چکے) تھے (وہ ان ظاہری) ہاتھ پاؤں کو (جن کے کاٹ ڈالنے کی فرعون نے دھمکی دی تھی) کب (قابلِ وقعت) ہاتھ پاؤں سمجھتے ہیں۔ (آگے چوتھی مثال ہے):
16
روبہے کہ ہست او را شیر پشتبشکند کلّۂ پلنگاں را بمُشت
ترجمہ: جس لومڑی کی پشت پناہ شیر ہو وہ گھونسے کے ساتھ تیندووں کے کلے توڑ ڈالے۔ (آگے اس کی تائید میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا قصہ ارشاد ہے جو یکہ و تنہا کفار کی جمیعت سے نہیں ڈرتے کیونکہ ان کی پشت پر خدا اور رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلّم تھے):