دفتر 6 حکایت 97: جنّات کا عبدالغوث کو ایک مدت کے لیے اپنے زمرہ میں لے جانا اور اس کے بعد اس کا شہر میں (اپنے) فرزندوں کے پاس آنا اور پھر واپس جنّات کے پاس چلے جانا "

دفتر ششم: حکایت: 97



بُردنِ پریاں عبدالغوث را مدّتے درمیانِ خود و بعد ازاں بشہر آمدن پیشِ فرزنداں و باز پیشِ پریاں رفتن

جنّات کا عبدالغوث کو ایک مدت کے لیے اپنے زمرہ میں لے جانا اور اس کے بعد اس کا شہر میں (اپنے) فرزندوں کے پاس آنا اور پھر واپس جنّات کے پاس چلے جانا

1

بود عبدالغوث ہم جنسِ پری چوں پری نُہ سال در پنہاں پری

ترجمہ:عبدالغوث (نام ایک آدمی) جنّات کا ہم جنس تھا (اور) جنّات کی طرح نو سال خفیہ اُڑنے میں رہا۔

مطلب: عبدالغوث کا واقعہ مولانا کے زمانہ کا واقعہ ہوگا۔ کوئی تاریخی و روایتی واقعہ نہیں کہ اس کا ذکر کسی اور کتاب میں ہوتا اور خفیہ اڑنا بذاتِ خود نہیں کہ یہ آدم زاد کے لیے محال ہے۔ بلکہ جنّات ہی اس کو لیے پھرتے ہوں گے۔ جس کی تائید اگلے شعر سے بھی ہوتی ہے۔ اور نہ یہاں اس کا بذاتِ خود اڑنا مقصود بالذکر ہے۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ جنّات کے ساتھ مانوس و مالوف ہو گیا تھا۔ کیونکہ اس کی طبع و سرشت ان کے ساتھ مناسب واقع ہوئی تھی۔ اور اسی کو ہم جنسیت کہتے ہیں۔ اگر چہ اس کی اور جنّات کی منطقی جنس الگ الگ تھی۔

2

چونکہ بربودند او را از وطن گشت ناپید از فرزند و زن

ترجمہ: جب وہ (جنّات) اس کو وطن سے لے اڑے۔ تو وہ فرزند و زن سے غائب ہو گیا۔

3

شد زنش را نسل از شوے دگر واں یتیمانش ز مرگش در سَمَر

ترجمہ: (ادھر) اس کی بیوی (نے انتظار کے بعد دوسرا نکاح کر لیا اور اس) کے دوسرے شوہر سے بچے پیدا ہو گئے۔ اور وہ عبدالغوث کے یتیم (بچے) اس کی موت کا (یوں) تذکرہ رکھتے ہیں:

4

کہ مرد را گرگ زد یا رہزنے یا فتاد اندر چَہے یا مکمنے

ترجمہ: کہ اس کو بھیڑیے نے مار ڈالا ہو گا یا کسی ڈاکو نے (قتل کر دیا ہو گا) یا کسی کنویں میں گر پڑا یا کسی پوشیده جگہ (غار وغیرہ) میں (جا گرا)۔

5

جُملہ فرزندانش در اشغال مست خود نگفتندے کہ باباے بدست

ترجمہ: اس کے تمام بیٹے کاروبار میں مست تھے۔ اتنا بھی نہ کہتے کہ ہمارا کوئی باپ تھا (یعنی کوئی اظہارِ حسرت نہ کرتے۔ اوپر جو اس کو تذکرہ کرنا مذکور ہوا وہ ایک اجنبیانہ تذکرہ مراد ہے۔)

6

بعد نُہ سال آمد آں ہم عاریہ گشت پیدا باز شد متواریہ

ترجمہ:(آخر) وہ نو سال کے بعد (گھر واپس) آیا۔ وہ بھی عارضی طور پر ظاہر ہوا (اور) پھر مخفی ہو گیا۔

7

یک بیک فرزند و زن را دید باز گشت پنہاں کس ندیدش باز راز

ترجمہ: اچانک اس نے (اپنے) فرزند و زن کو (آ) دیکھا (اور) پھر چھپ گیا۔ (اس کے بعد) پھر کسی نے اس کا راز نہ پایا۔

8

یک مہے مہمانِ فرزندانِ خویش بود و زاں پس کس ندیدش رنگ پیش

ترجمہ: ایک ماہ وہ اپنے فرزندوں کا مہمان رہا اس کے بعد کسی نے اس کا (وجود تو در کنار اس کے وجود کا) رنگ (تک) سامنے نہ دیکھا۔

مطلب: مہمان غیر ہوتا ہے، کنبے کا فرد نہیں ہوتا۔ اس لیے یہاں مہمان کے لفظ سے یہ اظہار مقصود ہے کہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں سے بالکل اجنبی و بیگانہ بن چکا تھا۔ اب وہ چند دنوں کے لیے ایک مالکِ خانہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ مہمان کی حیثیت سے آیا اور جب وہ واپس گیا تو اس کو جنّات ہی اٹھا کر لے گئے ہوں گے۔ مگر اس کا یہ جانا بطوعِ نفس و طیبِ خاطر ہوگا۔ اس لیے یہ واقعہ ایک انسان کے جنّات کے ساتھ طبعی مناسبت رکھنے کی مثل میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی بنا پر آگے فرماتے ہیں:

9

بُرد ہم جنسیِ پریانش چناں کہ رباید روح را زخمِ سناں

ترجمہ: جنّات کی ہم جنسی اس کو اس طرح اڑا لے گئی جیسے کہ روح کو نیزہ کا زخم اڑا دیتا ہے۔

مطلب: یعنی پھر روح عود ہی نہیں کرتی عبدالغوث بھی ایسا غائب ہوا کہ پھر اس نے عود ہی نہ کیا۔ وجۂ تشبیہ یہی ہے۔ جنّات کا کسی انسان کو لے اڑنا فرضی قصّہ و افسانہ نہیں جیسے آج کل کے مدعيانِ سائنس کا دعوٰی ہے۔ بلکہ اس قسم کے واقعات کی صحت پر قوی شہادتیں موجود ہیں۔ عرصہ ہوا شاید 1906ء کا واقعہ ہے کہ راقم نے اخبار میں ایک مصدّقہ خبر پڑھی تھی کہ جنّات ایک لڑکے کو شب کے وقت اس کی چارپائی سمیت لے اڑے تھے۔ اور پھر چند روز کے بعد اس کو زندہ و سلامت چھوڑ گئے۔ اس خبر میں تفصیلی واقعات بھی تھے جو اب مجھے بالکل یاد نہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سلّمہٗ اس شعر کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ "کئی سال ہوئے کہ مدرسہ دیوبند میں ایک نوعمر بنگالی طالبِ علم جو صبیح تو نہ تھا مگر قدرے ملیح تھا، تحصیلِ علم کرتا تھا۔ ایک شب اس پر کچھ اثر ہوا جو جن کا اثر سمجھا گیا۔ اس شب میں احقر وہاں حاضر تھا۔ مجھ سے بھی اس نے قصّہ بیان کیا۔ بعد چندے سُنا گیا کہ اس کو جن اڑا لے گئے۔ اور ایک حسین لڑکی کے سامنے جا بٹھایا۔ اور ہر قسم کے اسباب عیش و راحت کے وہاں مہیا پائے اور اس سے فرمائش کی گئی کہ اس سے نکاح قبول کرو۔ اس نے رونا شروع کیا اور نامنظوری ظاہر کی اور بتصريحِ علماء ہماری شریعت میں واقعی جن کے ساتھ آدمی کا نکاح جائز بھی نہیں۔ پھر وہ لوگ اس کو اسی طرح لے کر اڑے اور سہارن پور کے جنگل میں چھوڑ گئے۔ پھر وہ دیوبند پہنچا اور اس کے بعد رام پور چلا گیا۔ غالبًا اخبار میں دیکھا تھا کہ وہاں سے بھی اسی طرح غائب ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ ممکن ہے کہ عبدالغوث کو بھی کوئی ایسا قصّہ پیش آیا ہو۔ مگر اتنا فرق رہا کہ عبدالغوث ان میں رم گیا اور یہ طالب علم ان سے رم کر گیا۔ واللہ اعلم (انتہٰی)۔ آگے قصّے سے انتقال ہے ارشاد کی طرف جس میں مضمونِ سابق کی طرف عود ہے کہ جنسیت کا مدار مناسبتِ اوصاف پر ہے:

10

چُوں بہشتی جنسِ جنّت آمده ست ہم ز جنسيّت شود یزداں پرست

ترجمہ: چونکہ بہشتی بہشت کی جنس (سے) ہے۔ (اس) جنسیت کی وجہ ہی سے وہ خدا پرست ہوتا ہے۔

مطلب: یہ مناسبت ایک حدیث سے ہے۔ کہ "اِنَّ َ تَعَالیٰ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلاً وَّ خَلَقَ لِلنَّارِ اَھْلاً" (مشکوٰۃ) یعنی الله تعالىٰ نے بہشت کے لیے بہشتی لوگ پیدا کئے ہیں اور دوزخ کے لیے دوزخی لوگ بنائے ہیں“۔

11

نے نبی فرمُود جود و مَحمَدَہ شاخِ جنّت داں بدُنیا آمدہ

ترجمہ: کیا نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (یہ) نہیں فرمایا کہ سخاوت و ستائش کو بہشت کی شاخ سمجھو جو دنیا میں رہ گئی ہے۔

مطلب: اس مرفوع حدیث کے الفاظ یوں ہیں۔ "اَلسَّخَاءُ شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ فَمَنْ كَانَ سَخِيًّا اَخَذَ بِغُصْنٍ مِّنْهَا فَلَمْ یَتْرُُکْہُ الْغُصْنُ حَتّٰی یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَ الشُُّحُّ شَجَرَةٌ فِی النَّارِ فَمَنْ كَانَ شَحِيْحاً اَخَذَ بِغُصْنٍ مِّنْهَا فَلَمْ یَتْرُكْهُ الْغُصْنُ حَتّٰی يُدْخِلَهُ النَّارَ" (مشکوٰۃ) یعنی ”سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے۔ پس جو شخص سخی ہو اس نے اس درخت کی ایک شاخ پکڑ لی تو یہ شاخ اس کو بہشت میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ اور بخل دوزخ کا ایک درخت ہے تو جو شخص بخیل ہو اس نے اُس درخت کی شاخ پکڑ لی۔ پس یہ شاخ اس کو دوزخ میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی“۔ جنّت کے ساتھ جنّتی کی مناسبت پہلی حدیث یعنی "اِنَّ اللّٰهَ تَعَالىٰ خَلَقَ۔۔۔ الخ" سے اور جنّت کے ساتھ عبادت کی مناسبت اس دوسری حدیث سے ثابت ہوئی اور مناسب کا مناسب مناسب ہوتا ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ جنّتی اور عبادت میں بھی مناسبت ہے۔ اور یہی معنی ہیں اس بات کے کہ جنّتی عبادت کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے عبادت گزار ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر فرمایا "ہم ز جنسیت شود یزداں پرست"۔ اور جُود کو دخولِ جنّت کی شرط ٹھہرانا بطورِ نمونہ ہے۔ ورنہ باقی تمام طاعات و عبادات بھی اس شرطیت میں اس کے برابر ہیں۔

12

مہرہا را جملہ جنسِ مہر خواں قہرہا را جملہ جنسِ قہر خواں

ترجمہ: (اسی طرح) محبتوں کو تمام تر محبت کی جنس کہو۔ اور قہروں کو تمام تر قہروں کی جنس کہو۔

13

لا ابالی، لا ابالی آورد زانکہ ہم جنسند ایشاں در خرد

ترجمہ: بے باک آدمی، بے باک آدمی کو (اپنی طرف) لاتا ہے کیونکہ عقل کے نزدیک وہ دونوں ہم جنس ہیں۔

14

بود جنسیت در ادریسؑ از نجوم ہشت سال اُو با زحل بُد ہم قدوم

ترجمہ: (اسی طرح) حضرت ادریس علیہ السلام میں کواکب کی جنسیت تھی۔ (اس لیے) آٹھ سال وہ زحل کے ساتھ شریکِ سیر رہے۔

مطلب: کواکب سے ملائکۂ کواکب مراد ہیں جو ان کو سیر و گردش کا عمل لانے پر مامور ہیں اور ان کے ساتھ ان کی مناسبت عبادت کی وجہ سے تھی۔ چنانچہ خازن میں یہ روایت لکھی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کی عبادت جب عالمِ بالا میں پیش ہوئی تو وہ سارے اہلِ زمین کی مجموعی عبادت کے برابر نکلی۔ اس سے ملائکہ کو ان کے دیدار کا شوق ہوا۔ فرشتہ مؤکلِ شمس کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کا ملاقی و مجالس ہونا روایات میں آیا ہے۔ شاید زحل کے لفظ سے یہی مراد ہو۔ چنانچہ اگلے شعر میں دو مشارق و مغارب کے لفظ سے اس کی تائید محسوس ہوتی ہے۔ یا شاید مؤکلِ زحل کی ملاقات کی کوئی روایت مولانا کو پہنچی ہو۔

15

در مشارق در مغارب يارِ اُو ہم حدیث و محرمِ اسرارِ اُو

ترجمہ: وہ مشرق و مغرب کی سمتوں میں اس (ستاره یا ستارے کے مؤکل فرشتے) کے ساتھی رہے اور اس کے ساتھ ہمکلام اور محرمِ اسرار رہے۔

16

بعد غيبت چونکہ آورد او قدوم در زمیں میگفت او درسِ نجوم

ترجمہ: (اس شیرِ فلک کی) غیبت کے بعد جب وہ (واپس) زمین پر آتے، تو (لوگوں کو) کواکب کا درس دیتے تھے۔

مطلب: یعنی کواکب کے آثار و خواص کو جن پر اپنے قیامِ فلک میں مطلع ہو گئے تھے بیان کرتے تھے۔ تفسیِر مدارک میں لکھا ہے: "هُوَ اَوَّلُ مَنْ نَظَرَ فِیْ عِلْمِ النُّجُوْمِ وَ الْحِسَابِ" یعنی ”سب سے پہلے انہوں نے علمِ نجوم و حساب پر نظر کی ہے“۔ اس سے ان کے درسِ نجوم کا ثبوت ملتا ہے۔ اور علمِ نجوم کے حسن یا غیر حسن ہونے کی پوری تحقیق ہم اس شرح کی جلدِ اول میں درج کر چکے ہیں۔ جس سے معلوم ہو جائے گا کہ علمِ نجوم کا بطلان کس لحاظ سے ہے، اور حضرت ادریس علیہ السلام کے درسِ نجوم کی کونسی مستحسن صورت ہو سکتی ہے۔ آگے اس مجلسِ درس کی کیفیت بیان فرماتے ہیں:

17

پیشِ او استارگاں خوش صف زدہ اختراں در درسِ او حاضِر شده ی

ترجمہ: (ان کا درسِ نجوم ایسا مؤثر و دلنشین ہوتا تھا کہ گویا) ان کے (اور سامعین کے) سامنے ستارے بخوبی صف بستہ (نظر آجاتے) تھے۔ کواکب ان کے (حلقۂ) درسِ میں حاضر (دکھائی دیتے) تھے۔

مطلب: حضرت ادریس علیہ السلام نجوم کے ذکر و بیان میں اپنی خوبیِ تحقیق اور صفائیِ تقریر سے ستاروں کا ایسا نقشہ باندھ دیتے تھے کہ حاضرین کو ہو بہو ستارے نظر آنے لگے اور سامعین ان اجرامِ فلکیہ کو باہمہ شان و عظمت گویا آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے، ایک شارح صاحب یہاں ستاروں کی صف بستگی اور کواکب کی حاضری کو یعنی ظاہر پر محمول کر کے ان کا فی الواقع ادریس علیہ السلام کے حلقۂ درس میں شریک ہونا تسلیم کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی جب ان اجرامِ فلکیہ کا زمین پر آنا اور مجتمع ہونا جن میں سے بعض اجرام زمین سے بدرجہا بڑے ہیں ناممکن خیال کیا تو اس کی ایسی تاویلیں کیں جن کو پڑھ کر لوگ ہنستے ہوں گے۔ ہاں اگر نجوم کی حاضری سے ملائکۂ موکلینِ نجوم کی حاضری مراد لی جائے جس کی بعض روایات سے تائید بھی ہوتی تو بھی ایک بات تھی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰهِ تَعَالیٰ عَلٰی مَا اَلْهَمَنِیْ تَاوِيْلًا لِهٰذِهِ الْعِبَارَةِ، لَا یَتَوَجَّهُ اِلَيْهِ قَدْحُ نَادِحٍ وَلَا جَرْحِ جَارِحٍ۔

ستاروں کا بنفسہا مجلسِ ادریس علیہ السّلام میں حاضر ہونا نہ صرف بایں معنیٰ خلافِ عقل ہے کہ بعض ستارے مثلًا زحل اور مشتری زمیں سے ہزاروں گنا بڑے ہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے بھی بے معنیٰ ہیں کہ ایک تو خود نجوم کو درسِ نجوم سننے کی کیا ضرورت؟ دوسرے ستاروں کی سیر و گردش سنّت اللہ کے ماتحت اس قدر متعین و منضبط ہیں کہ اس سے وہ ایک ذرہ کے برابر پس و پیش نہیں ہو سکتے۔ چہ جائے کہ وہ کسی مجلسِ درس میں شامل ہونے کے لیے اپنے مرکزِ حرکت کو چھوڑ کر زمین پر اتر آئیں۔ ﴿وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب: 62)۔ اگلے اشعار میں بھی معنیِ ظاہر کے استحالہ اور تاویل کی مناسبت کی یہی کیفیت ہے۔

18

آنچنانکہ خلق آوازِ نجوم! مے شنیدند از خصوص و از عموم

ترجمہ: (حضرت ادریس علیہ السلام احوالِ نجوم کو ایک دلنشین انداز میں) اس طرح (بیان کرتے تھے کہ گویا خود نجوم اپنا حال سنا رہے ہیں حتٰی) کہ خاص و عام لوگ (اپنے گوشِ وجدان سے) ستاروں کی آواز سنتے تھے۔

19

جذبِ جنسیت کشیده تا زمیں اختراں را پیشِ او کرده مبیں

ترجمہ: (پس یہ) جنسیت کے جذبہ (ہی کا تو کرشمہ تھا جس) نے کواکب کو آسمان سے کھینچ کر ان کے سامنے متشکّل کر دیا۔

مطلب: حضرت ادریس علیہ السلام کو کواکب کے ساتھ پوری مناسبتِ معنوی اور اعلٰی جنسیتِ وصفی تھی۔ اس لیے ان کے ذکرِ نجوم کے بیان میں ایک ایسا جوشِ حقانیت آ جاتا تھا کہ اس کے اثر سے وہ کواکب خود حضرت ادریس علیہ السلام کے سامنے اوّلاً اور دیگر حاضرین و سامعین کے سامنے ثانیًا متشکل و متصور ہو جاتے تھے۔ نظرِ غائر سے کام لینے والا اشعار کے لفظوں کو بھی ہمارے تاویلی معنیٰ کا مؤید اور ظاہری معنیٰ سے آبی پائے گا۔

20

ہر یکے نامِ خود و احوالِ خود باز گفتہ پیشِ او شرحِ رصد

ترجمہ: (حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکرِ نجوم ایسا دلنشین تھا کہ گویا) ہر ایک (ستارے) نے خود اپنا نام اور اپنا حال آپ کے سامنے آلاتِ رصدیہ کی شرح کے مطابق بیان کر دیا ہے۔

مطلب: یعنی آپ جو کچھ بیان فرما رہے ہیں وہ ایسے یقینی پیرایہ میں ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے اپنے کانوں ستاروں سے سنا ہے۔ 

مطلب: یعنی آپ جو کچھ بیان فرما رہے ہیں وہ ایسے یقینی پیرایہ میں ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے خود اپنے کانوں ستاروں سے سنا ہے۔ اوپر سے یہ بیان چلا آرہا ہے کہ جنسیت کے لیے اوصاف میں اشتراک لازم ہے۔ اب ان اوصاف میں سے بعض افراد مثلاً فکر و نظر کو پیش کر کے اس میں اشتراک ہونے کا ذکر فرماتے ہیں:

21

چیست جِنسیّت؟ یکے نوعِ نظر کہ بداں یابند رہ در ہمدگر

ترجمہ: جنسیت کیا ہے؟ دو شخصوں میں ایک ہی قسم کی نظر ہونا کہ جس کی بدولت وہ ایک دوسرے میں راہ پائیں (یعنی دونوں ایک ہی طرح کی نظر سے دوسرے کے اسرار کا ادراک کریں۔)

22

آں نظر کہ کرد حق دروے نہاں چوں نہد در تو، تو گردی جنسِ آں

ترجمہ: وہ نظر (اور طریقِ استدلال) جس کو حق تعالیٰ نے اس میں ودیعت کیا ہے جب وہ تجھ میں رکھ دے تو، تو اس کا ہم جنس ہو جائے گا۔

مطلب: یعنی ایک شخص کو جس قسم کا علمی ذوق ملا ہو اگر وہی ذوق دوسرے میں ہو تو دونوں ایک ہی مشرب کے ہوں گے۔ اس قسم کا اتحادِ ذوق زیادہ تر صحبت سے پیدا ہوتا ہے۔ خصوصاً کہ علم والے علم کے مشرب کے ہوں گے۔ چنانچہ جس مذہب و مشرب کے لوگوں کی صحبت کا اتفاق ہو انہی کا سا ذوق پیدا ہو جاتا ہے۔ صالحین کے پاس بیٹھنے سے صلاح و تقوٰی کی رغبت ہوتی ہے۔ دہریے کی ہمنشینی دہریہ کر دیتی ہے ملاحدہ کی صحبت الحاد پر آمادہ کیا کرتی ہے۔ مطالعۂ کتب کا اثر بھی صحبت کے اثر سے کچھ کم نہیں۔ جس مذہب و مشرب کی کتابیں زیرِ مطالعہ رہیں، طبیعت میں اسی مذہب کے خیالات و معتقدات کی طرف میلان پیدا ہو جائے گا۔ ہندوستان کے ایک مشہور مسلمان مصنف و مضمون نگار کو ہندوؤں کے تیرتھوں کی سیر اور ان کے مذہبی پیشواؤں سے گفتگو کرنے کا اور ان کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا، تو وہ بت پرستی کا مؤید ہو گیا۔ اس کے ایک دو مضمون جو بت پرستی کی تائید میں لکھے گئے تھے میں نے بھی اخبارات میں پڑھے ہیں، آخر جب مسلم طبقات میں ہر طرف سے اس پر رائے شروع ہوئی تو وہ ان خیالات کے اظہار سے باز آ گیا۔ اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کے مطالعۂ توریت پر ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ "عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِّنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ هَذِه نُسْخَةٌ مِّنَ التَّوْرَاةِ۔ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَ وَجْهُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ، أَمَا تَرٰى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ غَضَبِ اللّٰهِ وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِه، رَضِينَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِيناً وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِه لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسٰى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لاَتَّبَعَنِي۔ (الدارمى)

" یعنی ”حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے پاس توریت کا ایک نسخہ لائے۔ پھر عرض کیا یا رسول اللہ یہ تورایت کا نسخہ ہے تو آپ خاموش رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پڑھنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوتا جاتا تھا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ کو روئیں رونے والياں تو نہیں دیکھتا کہ رسول الله صلّی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیا حالت ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلّی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں الله کے غضب سے اور اس کے رسول کے غضب سے ہم اللہ کو اپنا پروردگار مانتے ہیں اسلام کو اپنا دین اور محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی۔ تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلّی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، اگر موسٰی تمہارے سامنے آ جائیں پھر تم مجھ کو چھوڑ کر ان کے متبع ہو جاؤ تو تم سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو ضرور وہ میرا اتباع کرتے“ (دارمی) 

خیال فرمایئے جب توارت کے متعلق رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے جو ایک آسمانی کتاب ہے اور ایک پیغمبرِ حق پر نازل ہوئی ہے تو مذاہبِ باطلہ کی کتب مثلاً وید، شاستر، رامائن، مہا بھارت، کنہیا بھاگوت، گرنتھ وغيرہ کا پڑھنا کیوں محلِ خطر اور متحملِ ضرر نہ ہوگا۔ اوائلِ عمر میں راقم ہندو اور سکھ معاصرین کی دعوت پر ان کی مجالس میں چلا جاتا تھا۔ انہی دنوں کسی دوست کے سوال پر اس کے جواب میں ہی قطعہ لکھا ؎

کہا یاروں نے اچھے مولوی ہو روز جاتے ہو کبھی ہندو سبھا میں اور کبھی سکھوں کے دیوان میں

کہا اہلِ نظر کا مدعا ہے وسعتِ بینش یہی مقصد بیابان میں ہے ان کا جو ہے بستان میں

مگر تھوڑی مدت کے بعد مجھ کو تنبہ ہوگیا کہ میری سخت غلطی اور گمراہی تھی، آئندہ کے لیے میں نے اپنی اس عادت سے توبہ کی اور اس قطعہ کو بیاض میں سے قلم زن کر دیا۔ میں تعلیماتِ کتبِ شرعیہ اور ہدایاتِ اکابر اور خود اپنے تجربہ کی بنا پر اپنے احباب و اعزہ کو تاکید کرتا ہوں کہ مذاہبِ غیر کی کتابوں کے مطالعہ سے، ان کی مجلس کی شرکت سے، ان کے معلمین کے ساتھ ذکر و فکرِ کاملت سے قطعاً پرہیز رکھیں۔ یہ باتیں ایک با علم یا کم علم مسلمان کی قوت ایمانی کے لیے مہلک ہیں، خصوصاً شکی مزاج انسان کے لیے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مذہب کی روایات و معتقدات کے خلاف نہ کوئی بات کسی سے سنے اور نہ کوئی ایسی کتاب آنکھوں کے سامنے لائے جن میں ان کے خلاف باتیں لکھی ہوں۔ یہ امور ایک قوی العقیدہ انسان کے لیے بھی ضرر سے خالی نہیں۔ اور مذبدب و مشکک کا تو خدا حافظ۔

آگے فرماتے ہیں کہ اس تجانس کا اعتبار نظر و فکر اور ذوق و وجدان سے ہے نہ کہ جسم سے۔ جسم اس نظر و فکر کا تابع ہوتا ہے:

23

ہر طرف چہ مے کشد تن را؟ نظر بے خبر را کہ کشاند؟ باخبر

ترجمہ: کون سی چیز جسم کو ہر طرف کھینچ رہی ہے؟ نظر۔ (اس) بے خبر (وجود) کو کون کھینچ رہا ہے؟ (ایک) با خبر (مختلف مذاہب کے لوگ گو لباس و عادات میں مختلف ہوں مگر خیالات کی یک رنگی (ان کو ایک سٹیج پر جمع کر سکتی ہے۔ یہی جنسیت ہے)۔

24

چونکہ اندر مرد خوے زن نہد او مخنّث گردد و کُون مے دہد

ترجمہ:جب مرد کے اندر (حق تعالیٰ) عورت کی خاصیت رکھ دے تو وہ مخنّث ہو جاتا ہے۔ اور بدفعلی کرانے لگتا ہے (یہ مرد باوجود اختلافِ صنف کے عورتوں کا ہم جنس ہے)۔

25

چوں نہد در زن خدا خوئے نری طالبِ زن گردد آں زن سعتری

ترجمہ: جب حق تعالیٰ عورت میں نر ہونے کی خاصیت رکھ دیتا ہے تو وہ بدکار عورت (کسی دوسری عورت کے ساتھ جماع کرنے) کی طالب ہوتی ہے (یہ عورت مردوں کی ہم جنس ہے)۔

26

چوں نہد در تو صفاتِ جبرئیل ہمچو فرخے بر ہوا جوئی سبِیل

ترجمہ: جب (حق تعالیٰ) تیرے اندر جبرئیل علیہ السلام کی صفات (ملکوتیہ) رکھ دے تو تو بچۂ طائر کی مانند عالمِ بالا کی طرف راستہ ڈھونڈنے لگے (اور ملائکہ کے ہم جنس ہو جائے)۔

27

منتظر بنہادہ دیدہ در ہوا از زمیں بیگانہ عاشق بر ہما

ترجمہ: (اور اس حالت میں) تو عالمِ بالا کی طرف نگاہ جمائے ہوئے منتظر رہے گا۔ عالمِ سفلی سے بیگانہ اور عالمِ علوی پر عاشق (ہو گا)۔

28

نہد در تو صفتہائے خری صد پرت گر ہست بر آخُر پری

ترجمہ: جب تجھ میں گدھے پن کی صفت رکھ دے تو اگر تیرے (عالمِ بالا کی طرف اڑنے کے قابل) سو پر بھی ہوں تو بھی تو اُخور ہی کی طرف اڑ کر جائے گا۔

29

از پے صورت نیامد موش خوار از خبیثی شد زبونِ موش خوار

ترجمہ: (دیکھو) چوہا (اپنی مکروہ) صورت کی وجہ سے ذلیل نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنی ناپاک خصلت کی وجہ سے (نا قابلِ حفاظت و حمایت سمجھا گیا، اس لیے) وہ چوہے کھانے والے جانور کے آگے مغلوب ہو گیا۔

مطلب: بہتیرے جانور مکروہ صورت رکھتے ہیں۔ مگر وہ اپنے اچھے اوصاف کی وجہ سے عزیز ہیں۔ مثلاً بھینس ایک بھدا جانور ہے۔ مگر وہ دودھ دینے کی وجہ سے عزیز ہے۔ مگر چوہے میں کوئی بھی اچها وصف نہیں اس کے جو وصف ہیں سو برے۔ چنانچہ وہ بزدل ہے، تاریکی پسند ہے، نقصان رساں ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی اس کا حامی و مددگار نہیں۔ بلی اس کو ڈھونڈ کر پکڑتی اور کھاتی ہے تو کوئی اس کو نہیں چھڑاتا۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ "از خبیثی شد زبونِ موش خوار"۔ ورنہ اگر اس میں کوئی بھی اچھا وصف ہوتا تو اس کی مرغی کے چوزوں کی طرح حمایت و حفاظت کی جاتی اور اس کو کوئی جانور نہ ستاتا۔ آگے اس کے اوصافِ بد کی تفصیل ہے:

30

طُعمہ جوی و خائن و ظلمت پرست از پنیر و فُستق و دوشاب مست

ترجمہ: لقمہ کا طالب ہے، چور ہے، تاریکی پسند ہے۔ پنیر اور پستہ اور دوشاب سے مست ہے۔

مطلب: اسے ہر وقت کھانے کی دھن ہے۔ اور اس دھن کو چوری اور خیانت سے پورا کرتا ہے اور چوری خیانت کے لیے کونوں کھدروں، الماریوں، صندوقوں کی آڑوں، اندھیری کوٹھریوں اور بند طاقوں کو اپنی کمین گاہ بناتا ہے اور یہ ساری باتیں اس کی رذالت پر دال ہیں جن سے تنگ آ کر لوگ اس کو پکڑنے کے لیے پنجرے رکھتے ہیں۔ اس کو ہلاک کرنے کے لیے زہریلی شکر آمیختہ گولیاں بکھیرتے ہیں۔ بلی پالتے ہیں اور بیسیوں حیلے کرتے ہیں۔

انتباہِ اھم: گھروں میں چوہوں کی کثرت نہ صرف پارچات وغیرہ سامان کی بربادی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کھانے کی چیزوں کے اندر چوہا منہ ڈال دے، ان کے استعمال سے انسان کو طاعون وغیرہ مہلک امراض کا اندیشہ ہوتا ہے۔ آٹے دال وغیره میں چوہے کی مینگنی پڑ جائے تو اس کے کھانے سے مرضِ خنازیر کا خوف ہے۔ حدیث شریف میں مرفوعاً آیا ہے: "غُطُّوا الْاِنَاءَ وَ اَوْكُوْا السِّقَاءَ فَاِنَّ فِی السَّنَةِ لَيْلَةٌ یَنْزِلْ فِيْهَا وَبَاءٌ لَا يَمُرُّ بِاِنَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ غِطَاءٌ اَوْ سِقَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ وِكَاءٌ اِلَّا نَزَلَ فِيْهِ مِنْ ذَلِكَ الْوَبَاءِ" (مشکوۃ) یعنی ”برتنوں کو ڈھک دیا کرو اور مشک کا منہ باندھ دیا کرو۔ کیونکہ سال میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جس میں وبا اترتی ہے۔ وہ جس ننگے برتن یا کھلی مشک پر گزرتی ہے تو اس میں داخل ہو جاتی ہے“ اس فرمان نبویِ میں جو برتنوں میں وبا کا نازل ہونا مذکور ہے، تعجب نہیں کہ وہ انہی چوہوں کے ذریعہ نازل ہوتی ہو۔ جو ان برتنوں میں منہ ڈال دیتے ہیں۔ اور رات کے ذکر سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے کیونکہ چوہوں کا عمل و دخل زیادہ تر رات کی تاریکی ہی میں ہوتا ہے چوہوں کی کثرت اور ان کی افراطِ نسل کے زیادہ تر خود گھر والے ذمہ دار ہیں۔ جب کھانے پینے کی چیزیں، پکے پکائے کھانے، چاول، کھیر روٹی، دال اور کچی اجناس گھی، گڑ شکر، کھانڈ، آٹا، اناج وغیرہ اشیا گھر میں کھلی پڑی رہیں تو گویا خود گھر والے چوہوں کے لیے غذا مہیا کرتے ہیں اور ان کی نسل کو بڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ بلادِ فرنگ میں کھانے کی ہر چیز الماریوں اور صندوقوں میں مقفّل رہتی ہے۔ وہاں چوہوں کو کھانے کے لیے ایک دانہ میسّر نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ کہ ان ممالک میں چوہا کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔ ایک دن ایک ہمسایہ کے لڑکے نے مجھ سے آ کر کہا۔ میری ماں نے کہا ہے کہ کتے کو مار ڈالنے والی گولیاں دیجئے۔ کیونکہ آج ایک کتا ہماری روٹیاں اٹھا لے گیا۔ اس کو یہ گولیاں کھلائی جائیں گی۔ میں نے کہا یہ قصور کتے کا نہیں۔ اس کا تو دستور ہی ہے کہ جب موقع پائے گا روٹی اڑا لے جائے گا۔ اصلی قصور تمہاری ماں کا ہے جس نے کتے کو یہ موقع دیا۔ اس لیے گولیاں تمہاری ماں کو کھلانی چاہئیں۔

غرض مولانا فرماتے ہیں۔ کہ جب چوہے کی ذلّت کا مدار اس کے اوصافِ خبیثہ پر ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ:

31

بازِ اشہب را چو باشد خُوئے موش ننگِ موشاں باشد و عارِ وحُوش

ترجمہ: اگر چتکبرے باز میں (جو سب سے اچھی قسم کا باز ہوتا ہے) چوہے کی سی خصلت ہو تو وہ (باز) چوہوں کے لیے (بھی) باعثِ شرم اور (باقی سب) جانوروں کے لیے باعثِ عار ہوگا۔

32

خُوے آں ہاروت و ماروت اے پسر چوں بگشت ودادشاں خوئے بشر

33

در فتادند از لَنَحْنُ الصَّافُّوْنَ در چَہِ بابل بہ بستہ واژگوں

ترجمہ: (اسی طرح) اے عزیز! جب ہاروت و ماروت کی (فرشتوں والی) خصلت بدل گئی اور (حق تعالیٰ نے) ان کو انسان کی خصلت دے دی تو وہ لَنَحْنُ الصَّافُّوْنَ (کے مقام سے (تنزل کر کے) چاہِ بابل میں گر گئے۔ اس حال میں وہ کہ وہ الٹے جکڑے ہوئے ہیں۔

مطلب:۔ تیسرے مصرعہ میں اس آیت سے اقتباس ہے: ﴿وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ۔ وَّ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَۚ۔ وَ اِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ (الصّٰفٰت: 164-166) اور (فرشتے کہتے ہیں کہ) ہم میں سے ہر ایک کا درجہ مقرر ہے اور ہم تو (ہمہ وقت خدا کی بندگی میں) دست بستہ (حاضر) ہیں اور ہم تو (ہمہ وقت اس کی) تسبیح (و تقدیس) میں لگے رہتے ہیں“۔ ابنِ عبّاس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ آسمانوں پر بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں جس میں کوئی فرشتہ مشغول بہ نماز یا تسبیح نہ ہو۔ (خازن)

ہاروت و ماروت کے قصّے کی تحقیق مفتاح العلوم کی جلدِ اول اور جلدِ چہارم میں درج ہو چکی۔

34

لوحِ محفوظ از نظرِ شاں دور شُد لوحِ ایشاں ساحر و مسحُور شُُد

ترجمہ: لوحِ محفوظ (جس کا وہ پہلے مطالعہ کر لیا کرتے تھے)۔ ان کی نظر سے دُور ہو گئی (اور بجائے لوحِ محفوظ کے) ان کی لوح (جو اُن کے مطالعہ میں رہنے لگی) ساحر اور مسحور (کے اشغال) رہ گئے۔

35

سر ہماں و پر ہماں ہیکل ہماں موسُیی بر عرش و فرعَونی مُہاں

ترجمہ: (دیکھو ان ہاروت و ماروت کا اب بھی) سر وہی ہے۔ پر وہی ہے (اور) وجود وہی ہے (جو فرشتوں کا ہوتا ہے۔ مگر ان کے ساتھ سلوک فرشتوں کا سا نہیں ہو رہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) موسویت (کے اوصاف عرش پر) اور فرعونی (اوصاف) ذلیل (و خوار) ہیں۔

مطلب: اگر صورت کا اعتبار ہوتا تو ہاروت و ماروت کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو فرشتوں کے مناسبِ حال ہے۔ کیونکہ ان کی صُورت اب بھی فرشتوں کی سی تھی۔ مگر نہیں یہاں اعتبار اوصاف کا ہے۔ چنانچہ ان میں ساحرانہ اشغال کی وجہ سے فرعونیت آ گئی تھی۔ بدیں لحاظ کہ فرعون بھی سحر و ساحر پر اعتماد کرتا تھا۔اس لیے وہ فرعون کی طرح موردِ عتاب ہو گئے اور ملکی اوصاف جو موسویت کے مترادف تھے ان سے زائل ہو گئے۔ اس لیے وہ علوِ مراتب سے گر گئے۔ آگے یہ اشارہ ہے کہ جب ثابت ہو گیا کہ صورت کا اعتبار نہیں بلکہ اوصاف کا اعتبار ہے تو بہتر یہ ہے کہ اپنے اندر اچھے اوصاف پیدا کرو۔ اور اخیار و ابرار کی صحبت اختیار کرو تاکہ تم میں اچھے اوصاف پیدا ہو جائیں۔

36

درپے خُو باش و با خوش خُو نشیں خو پذیریِ گل و روغن ببیں

ترجمہ: خصالِ (حسنہ) کی طلب میں رہو اور (ان کی طلب و تحصیل کی آسانی کے لیے) خوش خصال (بزرگوں) کے پاس بیٹھو۔ گل اور روغن (کو باہم ملا کر رکھ دینے سے روغن) کا (گل کی) خو اختیار کرنا دیکھ لو۔

مطلب: خوشبودار روغن اسی طرح تیار کئے جاتے ہیں کہ روغن کو خوشبو دار پھولوں کے ساتھ ملا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ جب روغن میں پھولوں کی خوشبو بس جاتی ہے تو اس کو صاف کر لیتے ہیں۔ یہ مثال ہے اس کی کہ خوش خصال لوگوں کی صحبت سے ان کے خصالِ حسنہ کی تاثیر اہلِ صُحبت میں ہو جاتی ہے۔

37

خاکِ گور از مردِ حق یابد شرف تا نہد بر گورِ او دل روے و کف

ترجمہ: (ان بزرگانِ خوش خصال کی صُحبت کا اثر تو اس قدر ہے کہ ایک) مردِ حق (کی وفات کے بعد اس کی صحبت) سے قبر کی مٹی (بھی) شرف پاتی ہے حتىٰ کہ (زائر کا) دل اس کی قبر پر ( اپنا) چہرہ اور ہاتھ رکھتا ہے۔

مطلب: یہاں قبر پر ظاہری چہرہ اور ہاتھ رکھنا مراد نہیں کہ سجدۂ قبور لازم آئے۔ جو شرعاً ممنوع اور داخلِ شرک ہے۔ بلکہ دل کا چہرہ اور ہاتھ رکھنے سے مراد توجۂ قلب ہے اور یہ کسی کامل صاحبِ قبر سے فیض حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جو بزرگانِ دین سے ماثور و منقول ہے۔ اور ہر چند اس توجہ سے مقصود صاحبِ قبر ہے۔ لیکن جہتِ توجہ تو قبر ہی ہے۔ پس متوجہ بقبر ہونا صحیح ہوا۔ جس طرح نماز میں معبود حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہے مگر جہتِ عبادت بیت اللہ ہے۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ قبر کے لیے جہتِ توجہ ہونا شرفِ ظاہر ہے اور بعض قبور کے لیے اس کے علاوہ اور شرف بھی بدلیل مستقل ثابت ہے۔ جیسے روضہ پاکِ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں علماء نے لکھا ہے کہ "جس خاک سے جسم مبارک واصل ہے وہ عرش سے بھی افصل ہے"۔ کذاحقّقہ العلامۃ الشامی۔ انتہٰی۔ آگے صاحبِ قبر کے شرف بالذات اور اس کی قبر کے شرف بالغرض سے ایک سبق دیتے ہیں کہ:

38

خاک از ہمسائیگیِ جسمِ پاک چُوں مشرّف آمد و اقبالناک

39

پس تو ہم اَلْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ گو گر دلے داری برو دلدار جو

ترجمہ:- جب خاک (بھی) ایک جسمِ پاک کی ہمسائیگی سے مشرف اور اقبال مند ہو گئی (تو ہم کیوں نہ ہوں گے) پس تم بھی (یہ) کہو (کہ پہلے نیک) ہمسایہ (کی طلب ضروری ہے) پھر گھر (کی) اگر تم دل رکھتے ہو تو جاؤ دلدار کو تلاش کرو (دلدار سے مراد مرشدِ کامل ہے۔ آگے خاصانِ حق کی قبور کا شرف بیان فرماتے ہیں):

40

خاکِ او ہم سیرتِ جاں مے شود سرمۂ چشمِ عزیزاں مے شود

ترجمہ:- اس (قبر) کی خاک (بعض برکات کے اعتبار سے) جان کی ہم سیرت ہو جاتی ہے (یعنی) وہ معزز لوگوں کی آنکھ کا سرمہ بن جاتی ہے۔

مطلب: سرمہ کی خاصیت ہے افزائشِ نور۔ پس حاصل اس کا یہ ہوا کہ صاحبِ نسبت کا نور اہلِ قبور کے فیض سے بڑھ جاتا ہے۔ پس گویا اس شعر میں "خاکِ گور الخ" کی تاکید کے ساتھ ان کے ایک جزو "تا نہد بر گور او الخ" یعنی توجہ کا ثمره بھی مذکور ہو گیا۔ یعنی طالبانِ برکات اس طرف صرف متوجہ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ توجہ مفید بھی ہوتی ہے۔ اور اس لفظ سرمہ میں اس فائدہ کی تعیین کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ جس کا ذکر اُوپر ہو چکا ہے اور وہ تقویتِ نسبت ہے۔ شرح اس کی یہ ہے کہ اہلِ قبور سے نسبت کا استفادہ تو نہیں ہو سکتا اس کے لیے تو محبتِ حیّ کی ضرورت ہے۔ البتہ نسبتِ حاصلہ کی تقویت ہوجاتی ہے۔ پس اس شعر میں دو مسئلے مذکور ہو گئے۔ ایک اثباتِ افادۂ اہلِ قبور، دوسرے اس فائدہ کی تعیین جو اہلِ قبور سے حاصل ہوتا ہے (کلید)۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جن کامل بزرگوں سے ان کی وفات کے بعد اس قدر فیوض و برکات متوقع ہیں تو ان کی زندگی بھی عام لوگوں کی زندگیوں سے ممتاز ہو گی۔ آگے یہی فرماتے ہیں:

41

اے بسا در گور خفتہ خاک وار بہ ز صد احيا بہ نفع و ابتشار

ترجمہ: اے (مخاطب) بہت سے (بزرگ) قبر میں خاک (بے جان) کی طرح (چپ چاپ) سوئے ہوئے نفع اور بشارت میں سینکڑوں زندہ لوگوں سے اچھے ہیں۔

42

سایۂ بُود او و خاکش سایہ مند صد ہزاراں زندہ در سایۂ وَیَند

ترجمہ۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ (اپنی زندگی میں بھی مخلوق کے سر پر بمنزلہ) سایہ تھا اور (اب) اس کی مٹی (بھی مخلوق) پر سایہ دار ہے (اور) سینکڑوں زندہ لوگ اس کے سایہ میں (پناہ گیر) ہیں۔ (آگے اس کی تائید میں ایک سخی آدمی کا قصہ ارشاد ہے جس نے مرنے کے بعد بھی ایک مصیبت زدہ کی دستگیری کی):