دفتر ششم: حکایت: 96
رجُوع بقصّۂ مُوش و چغز و ربُودنِ زاغ مُوش را
چوہے اور مینڈک کے قصے کی طرف رجوع اور کوّے کا چوہے کو اڑا لے جانا
1
آں سرشتۂ عشق رشتہ مے کشدبر امیدِ وصلِ چغزِ با رَشَد
ترجمہ: وہ عشق کا خمیر کیا ہوا (چوہا) راه یافتہ مینڈک کے وصل کی امید پر ڈور کھینچ رہا ہے۔
2
مے تند بر رُستۂ دل دَمبَدمکہ سر رشتہ بدست آورده ام
ترجمہ: وہ (مینڈک کے ساتھ اپنے) قلبی تعلق پر دم بدم اکڑتا (اور ناز کرتا) ہے کہ میں نے (اس کا ایک) ذریعہ حاصل کر لیا۔
3
ہمچو تارے شد دل و جاں در شہودتا سرِ رشتہ بمن روئے نمود
ترجمہ: (اور اپنے جی میں کہہ رہا ہے کہ) دل اور جان مشاہدہ (یار کے شوق) میں ایک تار کی طرح (زارو نزار) ہو گئی۔ تب (کہیں جا کر) یہ سر رشتہ مجھے میسر ہوا ہے۔ (اب دیکھئے کہ اس بیہودہ تدبیرِ وصل اور اس بے جوڑ ارتباط انجام کیا ہوتا ہے۔)
4
چُوں غُرَابُ الْبَیْن آمد ناگہاںدر شکارِ موش بُردش زاں مکاں
ترجمہ: (اتنے میں) جونہی فراق کا (باعث) کوّا چُوہے کے شکار میں ناگہاں گرا تو اس کو وہ اس جگہ سے (جہاں وہ بیٹھا تھا) اڑا لے گیا۔
5
چوں برآمد بر ہوا موش از غرابمنسحب شد چغز نیز از قعرِ آب
ترجمہ: (اور) جب چوہا کوّے (کی گرفت) سے ہوا پر پہنچا (تو ڈورے کی کشش سے) مینڈک بھی پانی کی گہرائی سے کھنچتا چلا آیا۔
6
موش در منقارِ زاغ و چغز ہمدر ہوا آویختہ پا در رُتَم
ترجمہ: (اب صورتِ حال یہ تھی کہ) چوہا کوّے کی چونچ میں (تھا) اور (ساتھ ساتھ) مینڈک بھی ہوا میں لٹکتا (جاتا) تھا جس کا پاؤں ڈور میں (بندھا) تھا۔
7
خلق مے گفتند زاغ از مکر و کیدچغزِ آبی را چگونہ کرد صَيد
ترجمہ: لوگ کہتے تھے کہ کوّے نے مکر و فریب سے پانی کے (جانور) مینڈک کو کیونکر شکار کر لیا۔
8
چُوں شد اندر آب و چونش در ربُودچغز آبی کے شکارِ زاغ بُود
ترجمہ: وہ (کوّا) پانی میں کیونکر گیا اور (چوہے) کو کس طرح اچک لے گیا (ورنہ بھلا) پانی کا (جانور) مینڈک کوّے کا شکار کیونکر ہو سکتا تھا۔
9
چغز گفتا ایں سزاے آنکسےکو چو بے آباں شود جفتِ فسے
ترجمہ: مینڈک نے کہا یہ اس شخص کی سزا ہے جو بے آبرو لوگوں کی طرح کمینوں کا رفیق ہو جائے۔ (یعنی یہ بُرے لوگوں کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ اور چونکہ ایسی صحبت بے آبروئی کا سبب ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی صحبت والے کو بے آبروؤں کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور "بے آباں" میں یہ عجیب لطیفہ ہے کہ وہ چغز آبی تھا اور موش بے آب)۔
10
اے فغاں از یارِ ناجنس اے فغاںہمنشینِ نیک جوئید اے مہاں
ترجمہ: اے لوگو! فریاد ہے، نا جنس دوست سے فریاد ہے۔ اے بزرگو! نیک ہمنشین ڈھونڈو۔
مطلب: ناجنس سے مراد یہ ہے کہ وہ نیکوں کا ہم جنس نہیں ہے۔ اور "ہمنشینِ نیک جوئید" میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مینڈک کو جو چوہے کی صحبت سے نقصان پہنچا تو وہ اختلافِ صنفی کی وجہ سے نہیں پہنچا، چنانچہ اگر چوہا عاقل ہوتا تو یہ اختلاف مضر نہ تھا، کیونکہ وہ ایسی بیہودہ حرکت ہی نہ کرتا۔ بلکہ اس لیے ضرر ہوا کہ چوہا نیک یعنی عاقل نہ تھا۔ پسں مجالست سے مراد اوصافِ حمیدہ میں اشتراک ہے نہ کہ جنس و نوعِ منطقی میں۔ اسی طرح ناجنسی سے مراد اوصافِ مذکورہ میں اختلاف ہے۔ پس اب یہ شبہ بھی نہ رہا کہ انسان اگر کسی بُرے انسان کی صحبت میں ہو تو وہ کیوں مذموم ہے؟ وہ تو دونوں متجانس ہیں۔ چنانچہ اشعار میں آگے کی سُرخی تک یہی مضمون ہے۔ اس تقریر میں وہاں تک کا ربط ظاہر ہو گیا۔ (کلید)
11
عقل را افغاں ز نفسِ پر عُیوبہمچو بینیِ بَدے بر روئے خُوب
ترجمہ:- (اسی بنا پر) عقل (یعنی روح ذی عقل) کو نفسِ پُر عیوب سے فریاد (کرنی پڑتی) ہے۔ (کیونکہ وہ نقش اس روح کے لیے باعتبار اختلاف اوصاف کے ایسا ہے۔) جیسے خوبصورت چہرے پر بُری ناک۔
12
عقل مے گفتش کہ جنسیت یقیںاز رهِ معنی ست نے از آب و طیںِ
ترجمہ : عقل (یعنی روح) اس (نفس) سے (فریاد کے وقت) کہتی تھی کہ جنسیت یقیناً اوصافِ باطن کے اعتبار سے ہے۔ نہ کہ (وجودِ ظاہری کے) آب و گِل سے (یعنی گو مجھ کو اور تجھ کو پیدائش کے لحاظ سے باہم جنسیت حاصل ہے مگر ہم اوصاف کے لحاظ سے ہم جنس نہیں ہیں۔ آگے مولانا اس کی تحقیق میں فرماتے ہیں:)
13
ہیں مشو صورت پرست و ایں مگوسِرِّ جنسیت بصورت در مجو
ترجمہ: (ہاں) تم (شرکتِ پیدائش کو ملحوظ رکھنے میں) صورت پرست مت بنو۔ اور یہ مت کہو (کہ وجودِ ظاہری معتبر ہے اور) جنسیت کی حقیقت کو وجودِ ظاہری میں مت ڈھونڈو۔
14
صورت آمد چوں جماد و چوں حَجرنیست جامد را ز جسنیت خبر
ترجمہ: صورت (جسمانی) جمادات کی مانند اور پتھر کی مانند ہے۔ اور جماد کو جنسیت کی (کچھ) خبر نہیں۔
مطلب: اس شعر میں دو مقولے منطق کے قیاسِ اقترانی کی شکلِ اوّل کے اسلوب پر واقع ہوئے ہیں، جن کا نتیجہ یہ کہ صورت کو جنسیت کی کُچھ خبر نہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک یہ مقدمہ ملانا ہوگا کہ جنسیتِ مقصودہ جو یہاں زیرِ بحث ہے وہ ہے جس کی جنس کو خبر بھی ہو۔ اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جو کلیدِ مثنوی میں منقول ہے کہ: "اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْھَا ائْتَلَفَ وَ مَا تَنَاکَرَ مِنْھَا اخْتَلَفَ۔" (صحیح مسلم) یعنی "روحیں باترتیب فوجیں ہیں۔ پس جو ان میں سے باہم جان پہچان رکھتی ہیں، ان میں الفت ہوتی ہے۔ اور جو اجنبیت رکھتی ہیں ان میں اختلاف ہے۔" (انتہٰی)۔ اس حدیث میں باہمی الفت کو جو تناسبِ اخلاق و اوصاف کو مستلزم ہے تعارف پر مبنی کہا گیا ہے۔ اور تعارف و عدمِ تعارف دونوں خبر و شعور کو مستلزم ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ جنسیت وہی معتبر ہے جس کی اس متجانس کو خبر بھی ہو۔ پس جب صورت کو جنسیت کی خبر نہیں تو اس کا تجانس معتبر بھی نہیں۔ آگے اس صورت کے جنسیت سے بے خبر ہونے کو ایک مثال واضح فرماتے ہیں، جس سے اس کی باخبری ثابت ہوتی ہے۔ پھر یہ مذکورہ دعوٰی کیونکر صحیح ہوگا؟ حاصل دفع کا یہ ہوگا کہ اس کو حسّاس سمجھنا دھوکا ہے۔ درحقیقت حسّاس روح ہے جسم نہیں۔ اسی طرح متحرک وہ خود نہیں بلکہ اس کی محرّک روح ہے۔ وہ مثال یہ ہے کہ:
15
جاں چو مور و تن چو دانۂ گندمے مے کشاند سو بسویش ہر دمے
ترجمہ: روح چیونٹی کی مانند اور بدن دانۂ گندم کی مثل ہے۔ وہ چیونٹی اس (دانہ) کو ہر دم اِدهر اُدھر کھینچے لیے پھرتی ہے۔ (یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ دانہ اگر چیونٹی کی جنس سے نہیں تو چیونٹی کو اس کی رغبت کیوں ہے اور اگر جنس ہے تو جب دانہ یقیناً جنسیت سے بے خبر ہے تو ماننا پڑے گا کہ جنسیت کے لیے با خبری ضروری نہیں۔ آگے اس سوال کا جواب ہے:)
16
مور داند کاں حبوبِ مرتہنمستحیل و جنسِ من خواہد شُدن
ترجمہ: چیونٹی جانتی ہے کہ وہ مقبوضہ دانے (گو میری جنسیت سے نہیں۔ مگر وہ) میرے (وجود میں) ڈھل جانے والے اور میرے ہم جنس ہو جانے والے ہیں۔ (اس لیے اس کو ان کی طرف رغبت ہے۔ یہاں ایک اور شبہ وارد ہوتا ہے کہ اگر اجسام با خبر نہ ہوتے تو ان کا ایک دوسرے کی طرف چلنا پھرنا کیونکر ممکن ہوتا۔ آگے اس کا جواب ہے:)
17
آں یکے مورے گرفت از راہ جَومورِ دیگر گندمے گرفت و دَو
ترجمہ: ایک چیونٹی نے راستے (ایک دانہ) جو اٹھا لیا۔ دوسری چیونٹی نے ایک (دانہ گندم لیا اور دوڑنا (اختیار کیا)
18
جَو سُوئے گندم نمے تازد ولےمور سُوئے مور مے آید بلے
ترجمہ: (اب دیکھو کہ) دانۂ جو دانۂ گندم کی طرف (خود بخود) نہیں دوڑا آتا۔ جی ہاں چیونٹی (دوسری) چیونٹی کی طرف آ رہی ہے (اور ان کے اتباع میں دانہ بھی دانے کی طرف آ رہا ہے)۔
19
رفتنِ جو سوئے گندم تابع ستمور را بیں کو بہ جنسش راجع ست
ترجمہ: (پس یہ) جو کا گندم کی طرف چلنا (چیونٹی کے چلنے کا) تابع ہے (اور واقع میں) چیونٹی کو دیکھو کہ وہ اپنی ہم جنس (چیونٹی) کی طرف جا رہی ہے۔
20
تو مگو گندم چرا شد سوئے جَو چشم را بر خصم نِہ نے بر گرو
ترجمہ: تم (تعجب کے ساتھ یہ) نہ کہو کہ گیہوں کا دانہ جو کے دانہ کی طرف کیوں گیا۔ (بلکہ اپنی) نظر صاحبِ معاملہ (یعنی چیونٹی) پر ڈالو نہ کہ (اس کے) مقبوض (دانہ) پر۔ (یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ ہم تو اجسام کو متحرک دیکھتے ہیں، ہم روح کا تو نام ونشان بھی نہیں پاتے۔ آگے اس کا جواب ہے):
21
مورِ اسود برسرِ لبدِ سیاهمور پنہاں دانہ پیدا پیشِ راه
ترجمہ: (فرض کرو کہ) ایک کالی چیونٹی کالے نمدے پر (جا رہی ہے۔ تو) چیونٹی (نظر سے) مخفی (رہے گی اور) دانہ نمایاں (طور سے) راستے پر (چلتا نظر آئے گا)۔
22
عقل گوید چشم را نیکو نگردانہ ہرگز کے رود بے دانہ بر
ترجمہ: (لیکن) عقل (آنکھ سے کہے گی (کہ) خوب غور سے دیکھ (تو تجھے معلوم ہو گا کہ کوئی چیز اس دانہ کو لیے جارہی ہے۔ ورنہ) دانہ ہرگز کسی دانہ لے جانے والے (کی گرفت) کے بدوں نہیں جا سکتا۔
مطلب: حاصلِ جواب یہ ہوا کہ اسی طرح یہاں گو روح مشاہدہ میں نہیں آتی، مگر دلیلِ عقل سے ثابت ہے کہ وہی محرّک ہے۔ پس یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ جنسیت میں شرکتِ پیدائش معتبر نہیں بلکہ شرکِ اوصاف کا اعتبار ہے۔ آگے اس حکم پر بعض تصریحات آتی ہیں:
23
زیں سبب آمد سوئے اصحاب کلبہست صورتہا حبُوب و مور قلب
ترجمہ: اسی (حکمِ مذکور کے) سبب سے اصحابِ (کہف) کی طرف کتا (دوڑ کر) آیا۔ کیونکہ صورتیں بمنزلہ دانوں کے ہیں اور قلب بمنزلہ چیونٹی کے۔
مطلب: اس کتے کے قلب میں اصحابِ کہف کی طرح توحید و معرفت اور حُبِّ حق تھی۔ اس لحاظ سے اس میں اور اصحابِ کہف میں ہم جنسیت تھی۔ گو صورتِ ظاہریہ میں وہ اصحابِ کہف سے مختلف تھا۔ یہ فرع ہوئی شرکتِ اوصاف پر معتبر ہونے کی۔ آگے دُوسری تفریع ہے:
24
زاں شود عیسیٰؑ سوئے پاکانِ چرخبُد قفسہا مختلف یک جنسی فرخ
ترجمہ: اسی (حکمِ مذکور کے) سبب سے عیسیٰ علیہ السلام قدسیانِ چرخ کی طرف جاتے ہیں (کہ ان کے اور ان کے) پنجرے (یعنی قالب تو) مختلف ہیں (لیکن) چوزے (یعنی ارواح) ایک جنس ہیں۔
مطلب: گو ان متجانسین میں سے ایک بشر اور دوسرے ملائکہ ہیں۔ مگر اوصافِ روحیہ کے اشتراک سے ان میں ایسا تجانس تھا کہ اس کے بعض آثار نہایت قوی اور خارقِ عادت، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تَکَلُّم فِی الْمَہْد اور ان کا عُرُوْج اِلَی السَّمَاء ظاہر ہوئے، اور آخر وہ ملحق بملائکہ ہو گئے۔ آگے پھر روح کے اختفاء کا ذکر فرماتے ہیں، جو اکثر اس حکمِ مذکور میں شبہ واقع ہونے کا باعث ہوا۔
25
ایں قفس پیدا و آں فرخش نہاں بے قفس کش کے قفس گردد رواں
ترجمہ: یہ قفس (قالب) ظاہر ہے اور اس کا وہ طائر (روح) مخفی ہے (لیکن) (عقل سے کام لینا اور سمجھنا چاہیے کہ) قالب بدون قالب کو کھینچنے والے کے کب چلتا ہے۔
مطلب: یہاں روح کی تشبیہ چوزے یا طائر کے ساتھ اس کے پنجرے میں مقیّد ہونے کے لحاظ سے ہے۔ اور اسی لحاظ سے یہی تشبیہ اوپر بھی گزری ہے۔ باقی دوسرے مصرعہ میں جو یہ کہا ہے کہ روح کے تصرّف کے بدوں بدن حرکت نہیں کرتا، جیسے پنجرا، کہ پنجرا لے جانے والے کی گرفت کے بدوں دوسری جگہ نہیں جاتا، تو اس میں روح کو تشبیہ کسی پنجرا لے جانے والے شخص کے ساتھ دی ہے۔ یہاں طائر مشبّہ بہ نہیں۔ کیونکہ اس کا پنجرے کو لیے پھرنا خلافِ واقع ہے۔ آگے پھر عقل کی مدح فرماتے ہیں:
26
اے خنک چشمے کہ عقلستش امیرعاقبت بیں باشد و حبر و قریر
ترجمہ: اے (مخاطب) ٹھنڈی رہے وہ آنکھ جس پر عقل حاکم ہو۔ وہ (آنکھ) عاقبت اندیش اور دانشمند اور مطمئن ہوتی ہے (آنکھ کا عقل کے زیرِ حکم ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنے مُدرَکات میں عقل کے تابع رہے، اور جہاں اس کے مشاہدہ کو اس کے حکم کے خلاف پائے تو اپنی غلطی سمجھے۔)
27
فرقِ زشت و نغز از عقل آوریدنے ز چشمے کز سیہ گفت و سپید
ترجمہ:۔ اچھے اور بُرے کا فرق عقل سے سیکھو نہ کہ آنکھ سے جو (صرف) سیاہ اور سفید کے بارہ میں (فرق) بیان کرتی ہے (یعنی وہ محض ظاہری رنگ کا ادراک کرتی ہے۔ حقائق کو نہیں دیکھتی۔)
28
چشم غَرّہ شد بخضرائے دَمَنعقل گوید بر محکِّ ماش زن
ترجمه: آنکھ (کی ظاہر پرستی کا تو یہ عالم ہے کہ وہ) سرگین پر جمے ہوئے سبزه پر فریفتہ ہوگئی۔ عقل کہتی ہے کہ اس کو ہماری کسوٹی پر لگا۔
مطلب: "خضرائے دمن" یعنی گندگی کے ڈھیر پر پیدا ہونے والا سبزه جو بظاہر دلفریب و خوشنما ہوتا ہے۔ مگر اس کی نشوونما بالکل نجاست و پلیدی سے ہوتی ہے، یہ کنایہ ہے اس خوبصورت عورت سے جو کسی رذیل و ذلیل خاندان سے ہو۔ ظاہر بین آنکھ اس کے عشوہ و کرشمہ اور ناز و انداز کو دیکھ کر فریفتہ ہوجاتی ہے۔ مگر عقلِ دور اندیش کہتی ہے کہ بد اصل عورت آخر کبھی نہ کبھی فسق و بدکاری یا بے وفائی و غداری پر آ جائے گی۔ اس سے بچنا چاہیے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
عروسِ کج شبستان را نشایدنرنج موم بستان را نشاید
29
آفتِ مرغ ست چشمِ کام بِیںمخلصِ مرغ ست عقلِ دام بیں
ترجمہ: مرغوب (دانہ) کو دیکھنے والی آنکھ پرندے کے لیے بلا ہے۔ پرندے کی خلاصی (کا سبب تو وہ) عقل ہے جو (دانہ کے نیچے) جال کو دیکھنے والی ہے۔ (عقل کی تعریف سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس کو دلائلِ سمعیہ پر بھی ترجیح ہے۔ آگے اس شبہ کو رفع کرتے ہیں):
30
دامِ دیگر بُد کہ عقلش درنیافتوحیِ غائب بیں بداں سوزاں شنافت
ترجمہ: ایک جال اور تھا جس کو عقل (مذکور بھی) دریافت نہ کر سکی۔ اس لیے وحیِ غیب بین اس (عقل کی) طرف دوڑی (تاکہ اس کو اس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔)
مطلب:- گو ہم نے اوپر عقل کے بارہ میں یہ کہا ہے کہ وہ جال کو دیکھنے اور اس سے بچانے والی ہے۔ مگر بعض امورِ مستورہ خفاء کے ایسے سخت حجاب میں ہیں کہ عقل اس کے رفع سے قطعاً قاصر و عاجز ہے۔ مثلاً ابتدائے آفرینش کا راز اور ما بعد الموت کا معاملہ۔ عقل اس قسم کے اسرار کے ادراک سے بالکل بے دست و پا ہے۔ عمرخیام ایک رباعی میں کہتا کہ "میں نے حضیضِ خاک سے لےکر اوجِ زحل تک کے تمام علمی راز معلوم کر لیے، اور مجھے جو بھی مشکل پیش آئی اس کو حل کر لیا مگر ایک موت کا عقده حل نہ ہوا"۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ان مشکل اسرار پر صرف وحی کے ذریعہ روشنی پڑتی ہے۔ فلاسفہ وغیرہ جنہوں نے محض عقل کے ذریعہ ان رازوں کو دریافت کرنا چاہا وہ دامِ خطا میں مبتلا ہو کر رہے۔ اس دام سے بچانے اور راہِ صواب دکھانے والی محض تعلیمِ وحی ہے۔ "شنافتن" میں رحمتِ حق کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جس طرح بچّے کو کنویں وغیرہ میں گرنے سے بچانے کے لیے اس کا شفیق باپ دوڑتا ہے اسی طرح رحمتِ حق اس کو بچانے پر مائل ہوتی ہے۔ اس شعر میں استعمالِ عقل کی تعدیل کر کے اب پھر اسی مضمون کی طرف عود ہے کہ تجانس میں اوصاف معتبر ہیں صورت نہیں، اور اس کے ادراک میں عقل سے کام لینا چاہیے۔
31
جنس و ناجنس از خرد تانی شناختسُوئے صورتہا نشاید زُود تاخت
ترجمہ: جنس اور نا جنس کو تم عقل سے دریافت کر سکتے ہو۔ (جو بتاتی ہے کہ اس میں اوصاف معتبر ہیں) صورتوں کی طرف (بے سوچے سمجھے) جلدی دوڑنا نہ چاہیے۔
32
نیست جنسیت بصُورت لِىْ وَ لَکعیسیٰؑ آمد در بشر جنسِ ملک
ترجمہ: جنسیت صورت کے ساتھ نہیں جو مجھ کو اور تم کو (حاصل) ہے (بلکہ جنسیت اوصاف سے ہے چنانچہ) عیسیٰ علیہ السلام (نوعِ) بشر میں (سے ہوتے ہوئے بھی) جنسِ ملائکہ سے تھے۔
33
برکشیدش فوقِ ایں نیلی حصارمُرغِ گردونی چو چغزش زاغ وار
ترجمہ: (اسی لیے) طائرِ (قدسی) آسمانی نے اُن کو (آسمان کے) نیلگوں قلعہ کے اوپر مینڈک کی مانند کوّے (کے کھینچ لینے) کی طرح کھینچ لیا۔ (آگے اس بات کی تائید میں ایک قصّہ ارشاد ہے کہ جنسیت کا مدار تناسبِ وصفی پر ہے نہ تتارکِ نوعی پر):