دفتر 6 حکایت 95: دریائی بیل کے گوہرِ شب چراغ کی روشنی میں گھاس چرنے اور تاجر کے اس گوہرِ درخشاں پر مٹی ڈالنے کا قصّہ

دفتر ششم: حکایت: 95



قصّۂ چریدنِ گاوِ بحری در نورِ گوہرِ شب چراغ و ریختنِ تاجر خاک بر سرِ گوہرِ تابندہ

دریائی بیل کے گوہرِ شب چراغ کی روشنی میں گھاس چرنے اور تاجر کے اس گوہرِ درخشاں پر مٹی ڈالنے کا قصّہ

1

گاوِ آبی گوہر از بحر آورد بنہد اندر مرج و گردش مے چرد

ترجمہ: دریائی بیل (کی عادت ہے کہ رات کے وقت) دریا سے گوہر (شب چراغ) نکال لاتا ہے۔ (پھر اُسے) سبزہ زار میں رکھ دیتا ہے اور اس کے گرد چرتا ہے۔

2

 در شعاعِ نورِ گوہر گاوِ آب مے چرد از سنبل و سوسن شتاب

ترجمہ: وه آبی بیل نورِ گوہر کی روشنی میں جلدی جلدی سنبل اور سوسن (وغیره) چرتا ہے۔

3

زاں فگندۂ گاوِ آبی عنبر ست کہ غذایش نرگس و نیلوفر ست

ترجمہ: اسی لیے تو آبی بیل کا (پس) فگنده (یعنی گوبر) عنبر ہے، کیونکہ اس کی غذا نرگس اور نیلوفر ہے.

مطلب: عنبر ایک مشہور اور قیمتی اور نہایت خوشبودار چیز ہے بشکلِ موم۔ قدیم زمانہ سے خیال تھا کہ یہ کسی دریائی جانور کا سرگین ہے۔ اسی خیال کی بنا پر مولانا نے فرمایا ہے۔ "فگندۂ گاوِ آبی عنبر ست" پھر وسطی زمانہ کے حکماء نے یہ سمجھا کہ یہ ایک قسم کی مکھی کا چھتّا ہے۔ جو دریا میں گر کر بہتا ہوا کنارہ پر آ پڑتا ہے یا سطحِ آب پر تیرتا ہوا ہاتھ آتا ہے۔ چنانچہ صاحبِ مخزن الادویہ نے اس خیال کی تصدیق کی ہے۔ مگر صحیح تحقیقات سے یہ خیال بھی غلط نکلا۔ اب یہ ثابت ہوا ہے کہ عنبر وہیل مچھلی کے پیٹ سے نکلتا ہے۔ جو ایک بزرگ جثہ اور کئی ہاتھیوں کے لگ بھگ بحری جانور ہے۔ بہرکیف مولانا پُرانے خیال کی بنا پر فرماتے ہیں کہ دریائی بیل نفیس بوٹیاں چرتا ہے تو ایک نفیس چیز بطور سرگین گراتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ سبق دیتے ہیں کہ اچھی غذا کا اچھا اثر اور بُری غذا کا بُرا اثر لازمی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

4

ہر کہ باشد قوتِ او نورِ جلال چوں نزاید از لبش سحرِ حلال

ترجمہ: جس شخص کی (روحانی) غذا (ذکر و طاعت کی بدولت) نورِ جلال ہو، اس سے (کلامِ مؤثر کا) سحرِ جلال کیوں سرزد نہ ہو۔

5

ہر کہ چوں زنبور وحیستش نفل چوں نباشد خانۂ او پُر عسلِ

ترجمہ: جس شخص کا حصّہ شہد کی مکھی کی طرح الہام (حق) ہو اس کا گھر کیوں (ثمراتِ حسنہ کے) شہد سے پُر نہ ہو گا۔

مطلب: اس میں اس بیانِ قرآنی کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ۔ ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا (النحل: 68-69)(اے پیغمبر) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ ڈال دیا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور لوگ جو اونچی ٹٹیاں بناتے ہیں، ان میں چھتے بنا۔ پھر ہر طرح کے پھلوں میں سے ان کا عرق، چوستی پھر (مزے سے) اپنے پروردگار کے (بتائے ہوئے) آسان طریقوں پر چلی جا“۔

6

مے چرد در نورِ گوہر آں بقر ناگہاں گردد ز گوہر دُور تر

ترجمہ: (غرض) وہ بیل گوہر کی روشنی میں چرتا ہے تو اچانک گوہر سے دُور چلا جاتا ہے۔

7

تاجرے بر دُر نہد وحلِ سیاه تا شود تاریک مرج و سبزه گاه

ترجمہ: ایک (جواہرات کا) تاجر اس گوہر پر کالا کیچڑ تھوپ دیتا ہے (جو اسی موقع کے انتظار میں کہیں چھپا ہوتا ہے۔ اور حصولِ گوہر کے لیے اس کا یہی دستور ہے) حتٰی کہ چراگاہ اور سبزہ زار تاریک ہو جاتا ہے۔

8

پس گریزد مردِ تاجر بر درخت گاو جویاں مرد را با شاخ سخت

ترجمہ: پھر مرد تاجر (اندھیرے میں (موقع پا کر) دوڑ جاتا ہے۔ (اور کسی) درخت پر (جا چڑھتا ہے) بیل سخت (نوکیلے) سینگ کے ساتھ (اس) مرد کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

9

چند بار آں گاو تازد گردِ مرج تا کند آں خصم را در شاخ درج

ترجمہ: وہ بیل کئی بار چراگاہ کے گرد دوڑتا ہے تاکہ اس مخالف کو (جس نے گوہر کو چھپا دیا ہے۔ اپنے) سینگ میں پرو دے۔

10

چُوں ازو نوميد گردد گاوِ نَر آید آنجا کہ نہادہ بُد گہُر

ترجمہ: جب (وہ) بیل اس سے نا امید ہو جاتا ہے تو اس جگہ آتا ہے جہاں موتی رکھا تھا۔

11

وحل بیند فوقِ دُرِّ شاہوار پس ز طیں بگریزد او ابلیس وار

ترجمہ: (پس) وہ اس موتی پر جو بادشاہ کے لائق ہے۔ کیچڑ (پڑی) دیکھتا ہے تو وہ ابلیس کی طرح کیچڑ سے بھاگتا ہے۔

مطلب: ابلیس کے ساتھ بیل کو تشبیہ اس لحاظ سے دی کہ جس طرح ابلیس حضرت آدم علیہ السلام کے قالبِ خاکی کو دیکھ کر ان سے متنفر ہوگیا اور ان کے کمالاتِ باطنی کی طرف اس نے توجہ نہ کی۔ اس طرح اس بیل نے کیچڑ سے نفرت کی اور یہ نہ سمجھا کہ میرا مطلوب اسی کے اندر پنہاں ہے۔ آگے اس کی تصریح فرماتے ہیں:

12

کاں بلیس از متنِ طین کور و کر ست گاو کے داند کہ در گِل گوہر ست

ترجمہ: کیونکہ (جس طرح) وہ ابلیس قالبِ خاکی کے باطن سے اندھا اور بہرا ہے۔ (اسی طرح) بیل کیا جانے کہ گارے کے اندر موتی ہے۔ (آگے بدن کے اندر روح کے مخفی ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:)

13

اِھْبِطُوْا افگند جاں را درحضِیض از نمازش کرد محروم آں مَحِیض

ترجمہ : اِھْبِطُوْا (اتر جاؤ) کے حکم نے جان کو (تعلقِ جسم کی) پستی میں ڈال دیا۔ (اور) اس (ارتکابِ معاصی کے) حیض نے (جو تعلقِ جسم کا نتیجہ ہے) اس کو (قربِ حق کی) نماز سے محروم کر دیا۔

مطلب: روحِ انسانی دنیا میں متعلق بجسم ہو کر گناہوں کے سبب سے قربِ حق کی دولت سے محروم ہو گئی۔ مولانا بحرالعلوم فرماتے ہیں کہ محمد رضا نے محیض کا استعارہ ابلیس کے لیے سمجھا ہے، اور یہ بھی بعید نہیں کیونکہ ابلیس قرب سے محروم ہونے کا سبب ہے۔ جو ارتکابِ معاصی کے لیے بندے کو بہکاتا رہتا ہے۔ ولی محمد نے کہا ہے محیض سے وہی ہبوط اور تعلق بجسم مراد ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس ہبوط نے اس کو قرب سے محروم کر دیا۔ یہ بعیدِ محض ہے۔ کیونکہ روح کا ہبوط بدن میں ہوتا۔ اگر وہ مہذب ہو جائے تو زیادتِ قرب کا باعث ہے۔ خواہ بخلقت جیسے انبیاء علیہم السلام ہیں، یا باتباعِ انبیاء جیسے اولیاء کے لیے (انتہٰی)۔ آگے گناہ سے بچنے کی ہدایت فرماتے ہیں:

14

رفیقاں زیں مقیل و زاں مقال اِتَّقُوْا اِنَّ الْھَوٰی حَيْضُ الرِّجَال

ترجمہ: اے رفیقو! اس خوابِ نیم روز (یعنی عیشِ غیر مباح) اور اس (قسم کی فاسقانہ) گفتگو سے پرہیز کرو، بے شبہ خواہشِ نفسانی (جو معاصی ہو) مردوں کا حیض ہے (جو ان کو دولتِ قرب سے محروم رکھتا ہے)۔

مطلب: جس طرح عورتوں کا حیض ان کو قربت سے مانع ہے۔ ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيضِ (البقرہ: 222) اسی طرح یہ حیض الرّجال یعنی غیر مباح عیش و کامرانی اور فاسقانہ بدزبانی مردوں کو قربِ حق سے محروم رکھتی ہے۔ آگے اس اِھْبِطُوْا کی تفسیر ہے:

15

اِهْبِطُوْا افگند جاں را در بدن تا بگِل پنہاں بود دُرِّ عدَن

ترجمہ: اِھْبِطُوا (کے حکم) نے روح کو بدن میں ڈال دیا۔ تاکہ (بدی کی) مٹی میں (روح کا) دُرِّ عدَن پنہاں ہو جائے۔

16

تاجرش داند ولیکن گاو نے اہلِ دل دانند بر گِل گاو نے

ترجمہ: (اور جس طرح) اس (گوہرِ شب چراغ) کو (اس کا قدر دان) تاجر (ہی) جانتا ہے۔ (کہ یہاں ہے) لیکن بیل نہیں (جانتا۔ اسی طرح باکمال روح کے گوہر کو) اہلِ دل جانتے ہیں۔ ہر مٹی کا کھودنے والا (یعنی احکامِ جسم میں بحث کرنے والا) نہیں جانتا۔ (آگے "اہلِ دل دانند" کا بیان ہے):

17

ہر گلِے کاندر دلِ او گوہریست گوہرش غمّازِ طینِ دیگریست

ترجمہ: جس خاکی وجود کے درمیان کوئی روحِ صاحب کمال ہے اس کی یہ روح دوسرے وجود (کے احوال) کی (بھی) مخبر ہے۔

18

واں گِلے کز رَشِّ حق نورے نیافت صحبتِ گِلہائے پُردُر برنتافت

ترجمہ: اور جس خاکی وجود نے حق کی نور پاشی سے نور نہیں پایا۔ وہ پُرجوہر وجودوں کی صحبت برداشت نہیں کر سکا۔

مطب: جو لوگ شریر الطبع ہیں وہ اخیار کی صحبت کے متحمل نہیں ہوتے بلکہ اُن سے متنفر رہتے ہیں۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

زاہدے درمیانِ رنداں بود زاں میاں گفت شاہد بلخی

گر ملونی میانِ ما منشیں کہ تو ہم درمیانِ ما تلخی

مصرعۂ اولی میں اس حدیثِ مرفوع کی طرف اشارہ ہے جو مشکوٰۃ میں بروایتِ احمد و ترمذی درج ہے۔ "إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ خَلْقَهٗ فِيْ ظُلْمَةٍ، فَاَلْقٰى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهٖ، فَمَنْ أَصَابَهٗ مِنْ ذَالِکَ النُّوْرِ اهْتَدٰى، وَ مَنْ أَخْطَأَهٗ ضَلَّ۔" یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا۔ پھر ان پر اپنا نور ڈالا۔ پس جس پر یہ نور پڑ گیا وہ ہدایت پا گیا اور جس پر نہ پڑا وہ گمراه ہو گیا (انتہٰی)۔ آگے موش و چغز کے قصہ کی طرف رجوع ہے۔

18

ایں سخن پایاں ندارد موشِ ما ہست بر لبہائے جُو در گوشِ ما

ترجمہ: یہ مضمون (کہ گدڑی میں لال چھپے ہوتے ہیں) انتہا نہیں رکھتا (اس کو رہنے دو اور قصہ پورا کرو۔ کیونکہ) ہمارا (ہیرو) چوہا نہر کے کناروں پر (منتظر ہے۔ اور اس کی آواز) ہمارے کان میں (گونج رہی) ہے۔