دفتر ششم: حکایت: 94
حکایتِ سلطان محمود غزنوی و رفاقتِ او شب با دُزداں
سلطان محمود غزنوی کی کہانی اور اس کا رات کو چوروں کے ساتھ رفاقت کرنا
1
شب چو شہ محمود بر میگشت فردبا گروہِ دُزد شب رو بازخورد
ترجمہ: سلطان محمود غزنوی جو (ایک مرتبہ) شب کو تنہا پھر رہا تھا تو رات کو چلنے والے چوروں کی جماعت کے ساتھ اس کی مڈ بھیڑ ہوگئی۔
2
پس بگفتندش کۂٖ اے ابو الوفاگفت شہ من ہم یکے ام از شما
ترجمہ: تو انہوں نے اس سے کہا اے صاحبِ وفا! تو کون ہے؟ بادشاہ نے کہا میں بھی تم میں سے ایک ہوں۔
مطلب : بظاہر بادشاہ نے یہی بات ان کے ذہن نشین کرنی چاہی کہ میں بھی تمہارا ہم پیشہ ایک چور ہوں تاکہ وہ باطمینان اس کو شریکِ کار کر لیں۔ اور بادشاہ بآسانی ان کے اعمال و افعال کا احتساب کر سکے اور یہی اس کا مقصد تھا۔ مگر یہاں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سلطان محمود جیسے متورّع بادشاہ سے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ دروغ گوئی و غلط بیانی کا مرتکب ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بادشاه نے صریحاً نہیں کہا کہ میں چور ہوں یا نقب زن یا ڈاکو ہوں۔ بلکہ یہی کہا کہ "یکے ام از شما" جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں بھی تم سا ایک انسان ہوں، یا ابنِ آدم یا ہم وطن ہوں، اور یہ صحیح تھا۔ مگر ظاہری الفاظ نے چوروں کو دوسرے معنی کی طرف متوجہ کر دیا۔ اس طرح کے کلام کو "توریہ" کہتے ہیں۔ جو عند الضرورت جائز ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بھی اس کو استعمال فرمایا ہے۔ غرض چوروں نے سلطان کے توریہ سے سمجھا کہ وہ بھی کوئی چور ہے اور وہ مطمئن ہو کر باہم باتیں کرنے لگے۔
3
آں یکے گفت اے گروہِ مکر کیش!ہِیں بگوئید از فن و فرہنگِ خویش
ترجمہ: ایک نے کہا اے فریب پیشہ جماعت! ہاں سب اپنے اپنے فن اور دانائی کو بیان کرو۔
4
تا بگوید با حریفاں در سمرکو چہ دارد در جبلت از ہنر
ترجمہ: تاکہ (ہم میں سے ہر ایک اپنے) رفیقوں سے افسانہ گوئی میں بیان کرے کہ وہ اپنی خصلت میں کیا ہُنر رکھتا ہے۔
5
آں یکے گفت اے گروہِ فن فروشہست خاصیت مرا اندر دو گوش
6
کہ بدانم سگ چہ میگوید ببانگقوم گفتندش ز دیناری دو دانگ
ترجمہ: (چوروں میں سے) ایک نے کہا اَے (اپنے اپنے) فن کی تعریف کرنے والی جماعت میری (ہنرمندانہ) خاصیّت تو دونوں کانوں میں ہے کہ میں (یہ) معلوم کر لیتا ہوں کہ کتا اپنی آواز میں کیا کہتا ہے۔ (ان) لوگوں نے اس کو کہا (بھئی واہ! یہ کہاں کی بڑی ہنرمندی ہے، تو بس) تم اٹھنی میں سے ایک پیسہ (کے برابر) ہو۔
مطلب: چوروں نے اپنے اس رفیق کے اس ہنر کی جو تحقیر کی تو اس کی وجہ یہ کہ سب سے پہلے اس نے اپنے ہنر کو پیش کیا تھا۔ اور ابھی ان کو اپنے دوسرے رفقاء کے ناشنیدہ ہنروں کو سننے کا اشتیاق تھا۔ جن کے متعلق ان کو عجیب سے عجیب اور نادر سے نادر ہنر ہونے کی توقع تھی، اور ایسی صورت میں سب سے پہلے پیش کردہ ہنر کو غیر وقیع ٹھہرانا عادتاً لازم ہے۔ ورنہ سگ کی بولی سمجھنے کا ہنر ورثۂ سلیمان علیہ السّلام ہونے کے لحاظ سے باقی چوروں کے تمام ہنروں سے، جن میں نقب زنی یا کمند افگنی وغیره داخل ہیں، اور جن کا ابھی ذکر آتا ہے، بمدارج افضل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر وہ خود چور اعتراف کریں گے کہ ؎
ہر یکے خاصیتے خود وا نمودآن ہنرہا جُملہ بدبختی فزود
اور اس کتے کی آواز کو سمجھنے والے کے متعلق یہ قول آئے گا ؎
خاصیّتِ در گوش ہم نیکو بودکہ بیانگِ سگ ز شیر آگہ شود
7
آں دگر گفت اے گروہِ زر پرستجملہ خاصیّت مرا چشم اندر ست
ترجمہ: دُوسرے نے کہا اے جماعتِ طالبِ زر! میری ساری خاصیّت تو (میری) آنکھ میں ہے۔
8
ہر کرا شب بینم اندر قیرواں!بشناسم مر او را بے گماں
ترجمہ: (چنانچہ) میں جس شخص کو قیر کی سی (کالی) رات میں (بھی) دیکھ لوں، دن کے وقت اس کو بلاشبہ پہچان لیتا ہوں۔
9
گفت یک، خاصیتم در بازو ستکہ زنم من نقبہا با زورِ دست
ترجمہ: ایک نے کہا میری خاصیّت بازو میں ہے کہ میں ہاتھ کے زور سے سنگین دیواروں میں بھی سیندھ لگا لیتا ہوں۔
10
گفت یک، خاصیّتم در بینی ستکارِ من در خاکہا بُو بینی ست
ترجمہ: ایک نے کہا میری خاصیت ناک میں ہے۔ میرا کام قطعاتِ زمین میں بُو کو دریافت کر لینا ہے (آگے مولانا کیفیاتِ اندرونِ زمین دریافت کر لینے کے ذکر کی مناسبت سے اسی چور کی زبانی قیافہ و مردم شناسی کی طرف توجہ فرماتے ہیں):
11
سِرُّ النَّاسُ مَعَادِنُ داد دستکہ رسولؐ آں راپئے چہ گفتہ است
ترجمہ: اس سے (مجھے) لوگوں کے (بمنزلہ) معدن ہونے کا راز معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس کو کس لیے ارشاد فرمایا ہے۔
مطلب:حدیث کے کلمات یہ ہیں:۔ "اَلنَّاسُ مَعَادِنُ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ، خِيَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامِ" (صححيح البخاري) یعنی ”لوگ (اپنے حسب و نسب کے لحاظ سے مختلف) معدن ہیں۔ جو لوگ عہدِ جاہلیّت میں اچھے ہیں، وہ اسلام میں (بھی) اچھے (نکلتے) ہیں۔“ جس طرح معدنیات کا حال ہے، کہ مثلاً سونا معدن میں سونا ہے تو معدن سے نکل کر بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔ لوہا معدن کے اندر لوہا ہے تو معدن سے نکل کر بھی اتنی ہی قیمت پاتا ہے جو لوہے کے لائق ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی دھات معدن میں کم رُتبہ تھی مگر معدن سے نکل کر زیادہ قدر پانے لگی۔ اسی طرح جو شخص قبلِ اسلام شریف و نیک ذات ہوگا، اسلام میں بھی اس کے یہ جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔ میں نے کسی کتاب میں دیکھا تھا کہ یہ حدیث حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ کیونکہ ان کے اخلاق و اطوار قبلِ اسلام بھی نہایت شریفانہ و بزرگانہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ملک کا باشندہ اور ایسی قوم کا فرد ہوتے ہوئے جن میں مے نوشی عام تھی کبھی اس امُّ الخبائث سے اپنے کام کو آلودہ نہیں کیا۔ پھر اس "خیر فی الجاہلیۃ" پر جب اسلام کی فضیلت کا اضافہ ہوا تو وہ "خیر فی الاسلام" کے اس درجہ پر فائز ہو گئے کہ خلیفۂ اوّل اور افضل البشر بعد الانبیاء قرار پائے۔ بیدل غفر لہٗ ؎
ابوبکر شد سرخوشِ جام صدقشرابِ وفا یافت در کامِ صدق
مہیں شاہدِ مجلس احمدیز دل سرخوش ساغرِ سرمدی
تہی از غبارِ ریا سینہ اشبہارِ صفا فرشِ آئینہ اش
گویا یہ بُو شناس چور کہہ رہا ہے کہ مجھے جو قطعاتِ ارض کی بو سونگھ کر ان کے اندرونی خزائن و معادن کا کھوج لگانے کا ہنر ملا ہے تو اس سے مجھے اس حدیث کا راز معلوم ہو گیا۔ یعنی اسی طرح ہر انسان کے باطنی وجود میں بھی نیک و بد خصائل کے معادن مُضمَر ہیں جو قیافہ و فراست کی بُو شناسی سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ آگے پھر وہ چور کہتا ہے:
12
من ز خاکِ تن بَدانم کاندراںچند نقد ست و چہ دارد او ز کاں
ترجمہ: میں وجود (زمین) کی خاک (کو سونگھنے) سے سمجھ جاتا ہوں کہ اس میں کس قدر نقدی ہے اور کیا معدن رکھتی ہے۔
13
در یکے کاں زرِّ بے اندازه درجواں دگر دخلش بود کمتر ز خَرج
ترجمہ: (چنانچہ) کسی کان میں بے اندازہ سونا پڑا ہوتا ہے اور اس دوسرے (کان) کی آمدنی (اس کی کھدائی کی محنت کے) خرچ سے کم ہوتی ہے۔
14
ہمچو مجنُوں بُو کنم ہر خاک راخاکِ لیلٰے را بیابم بے خطا
ترجمہ: میں مجنُوں کی طرح ہر خاک کو سونگھ لیتا ہوں۔ اور لیلٰی کے (مدفن) کی خاک کو بلا غلطی معلوم کر لیتا ہوں۔
مطلب: لیلٰی سے چور کی مُراد خزانہ ہے۔ یعنی جس طرح مجنوں نے بے دیکھے لیلٰی کی قبر محض وجدان اور حسِّ باطن سے معلوم کر لی تھی۔ اسی طرح میں خزانہ کا سراغ لگا لیتا ہوں۔ مشہُور ہے کہ مجنوں نے از خود دور ہی سے لیلٰی کی قبر کو پہچان لیا تھا۔ عارف نظامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ؎
چوں دید جمالِ تربت از دُوراُفتاد بسانِ سایہ از نُور
15
بُو كنم دانم ز ہر پیراہنےگر بود یوسف دگر آہرمنے
ترجمہ: میں ہر قمیض کو سونگھ کر جان لیتا ہوں۔ اگر وہ (قمیض والا شخص) یوسف ہو (تب بھی) اور اگر دیو ہو (تب بھی) (یعنی زمین کے اندر خزانہ ہو یا سانپ ہو میں سُونگھ کر معلوم کر لیتا ہوں۔)
16
ہمچو احمدؐ کو بُرد بُو از یمنزاں نصیبے یافت ایں بینیِ من
ترجمہ: جس طرح حضرت احمد صلّی اللہ علیہ وسلّم، کہ آپ یمن سے (اویسِ قرنیؒ کی) خوشبُو پاتے ہیں۔ اس (بُو شناسی) سے میری اس ناک نے بھی کچھ حصّہ پایا ہے۔
مطلب: اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ: "اِنِّیْ لَاَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمٰنِ مِنْ ھُنَا - يُشِيْرُ إِلَى الْیَمَنِ" (طبراني) یعنی "آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: میں ادھر سے رحمٰن کی کشایش پاتا ہوں۔" اس کو سنجرانی نے روایت کیا ہے۔ جس کا مصداق اویس قرنیؒ خصوصاً اور دیگر ناصرینِ اسلام عموماً ہیں۔ بُو شناسی کے حصّے سے مراد مطلق ادراک بالشّامہ ہے نہ کہ ادراکِ مدلولِ حدیث۔ (کلید) غرض وہ کہتا ہے کہ میری ناک بھی محسوس کر لیتی ہے کہ۔
17
کہ کدامی خاک ہمسایۂ زر ستیا کدامی خاک صِفر و ابتر ست
ترجمہ: کہ کون سی مٹی سونے کی ہمسایہ ہے۔ یا کون سی مٹی خالی اور بیکار ہے۔
18
گفت یک آں خاصیّت در پنجہ امکہ کمندے افگنم طولِ عَلَم
ترجمہ: ایک بولا وہ خاصیّت (عجیبہ جو تم چاہتے ہو) میرے پنجہ میں ہے کہ (اس کے زور سے) میں پہاڑ کی سی بلندی تک کمند پھینک دیتا ہوں۔ (علَم بمعنی کوہ کذا فی المنتخب)۔
19
قصر اگرچہ چند باشد بس بلندکنگره اش در سخت گردانم کمند
ترجمہ: محل اگرچہ کتنا ہی بلند ہو میں اس کے کنگرہ کے اندر کمند کو مضبوط لگا دیتا ہوں۔
20
ہمچو احمدؐ کہ کمند انداخت جائشتا کمندش برد سوئے آسمانش
ترجمہ: جس حضرت احمد صلّی اللہ علیہ وسلّم کی روح پاک نے (عشق کی) کمند ڈالی۔ حتٰی کہ اس کی (یہ) کمند آپ کو آسمان کی طرف لے گئی۔
مطلب: آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی روحِ پاک اللہ کی عاشق تھی۔ یہ عشق آپ کی محبوبیت کا باعث ہوا اور اس محبوبیت کا ایک نتیجہ معراج تھا۔ روح میں عروج الی الحق کا جذبہ تھا۔ روح کے اقتران سے جسم میں بھی یہ خاصہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے وہ بھی روح کے ساتھ ہفت سمٰوات کو طے کرتا چلا گیا۔ آگے پھر یہی مضمون ذرا بلند پیرایہ میں ہے:
21
ہمچو احمدؐ کہ کمند انداخت سختکہ کمندش بُرد سُوئے تخت بخت
ترجمہ: جس طرح حضرت احمد صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (عشقِ الٰہی کی) سخت کمند پھینکی حتٰی کہ (وہ) کمند آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو (عرش کے) تخت اور (مقامِ قریب کے) بخت (بلند) تک لے گئی۔
22
گفت حقش اے کمند اندازِ بیت آں زِ من داں مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ
ترجمہ: حق تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ اَے بیت (المعمور) کے کمند انداز اس (کمند اندازی) کو (اپنی طرف سے نہیں بلکہ) میری طرف سے سمجھو (جس طرح جنگِ بدر میں) جب سنگریزے تم نے پھینکے تو تم نے نہیں (بلکہ اللہ نے) پھینکے تھے۔
مطلب: ليلۃ المعراج میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم بیت المعمور میں پہنچے تھے، اس بنا پر کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے اپنے زورِ عشق سے اس مقام پر پہنچنے والے تم اس جذب و کشش کو خود اپنی طرف سے ہی نہیں بلکہ میری طرف سے سمجھو۔ جس کی قیاسی دلیل: ﴿مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لَکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی﴾ (الانفال: 17) ہے۔ پس جس طرح سنگریزه انداز گو بظاہر تم تھے مگر واقع میں، میں تھا کہ میں نے اس کو محلِ مقصود تک پہنچایا۔ اسی طرح کمند اندارِ محبت گو ظاہر میں تم ہو مگر واقع میں، میں ہوں کہ میں نے ہی اس کو محلِ مقصود تک پہنچایا اور اس محبت پر مجبوبیت کا ثمره مرتب کیا۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے:
23
پس بپرسیدند ازاں شہ کاے سندمر ترا خاصیت اندر چہ بود
ترجمہ: پھر سب (چوروں) نے اس بادشاہ سے (جو شاملِ جماعت تھا) پوچھا کہ اے معتمد! تیری کس چیز میں خاصیت ہے۔
24
گفت در ریشم بود خاصیّتمکہ رہانم مجرماں را از نقم
ترجمہ: اس نے کہا میری خاصیّت میری ڈاڑھی میں ہے کہ میں (ڈاڑھی کی حرکت سے) مجرموں کو سزا سے چھڑا دیتا ہوں۔
25
مجرماں را چوں بجلاداں دہندچوں بجنبد ریش من ایشاں رہند
ترجمہ: جب مجرموں کو جلادوں کے سپرد کیا جاتا ہے (کہ ان کو قتل کریں) تو جونہی میری ڈاڑھی حرکت میں آتی ہے وہ چھوٹ جاتے ہیں۔
مطلب: جنبشِ ریش سے مراد اشارۂ سر ہے۔ جو کسی کی معافی و رستگاری کے لیے کیا جائے۔ اور اشارۂ سر کے ساتھ لمبی ڈاڑھی کا متحرک ہونا لازم ہے۔ اشارۂ سر کے ساتھ مجرم کی جان بخشی کرنا ایک سلطان ہی کی شان ہے، مگر بادشاہ نے اس کو خاصیتِ ریش سے تعبیر کیا تاکہ چوروں پر یہ راز افشاں نہ ہو کہ یہ بادشاہ ہے۔
26
چوں بجنبانم برحمت ریش راطے کنند آں قتل و آں تشویش را
ترجمہ : جب میں رحمت کے ساتھ اپنی ڈاڑھی کو ہلا دیتا ہوں تو اس سے قتل اور ایذا رسانی کو بند کر دیتے ہیں۔
27
قوم گفتندش کہ قطبِ ما توئی کہ خلاصِ روزِ محنت ہا توئی
ترجمہ: ان لوگوں نے اس سے کہا پھر تو ہمارے قطب تم ہی ہو، کہ تم ہماری مشقت و مصیبت کے دن نجات (کے باعث) ہو (چوری کے سلسلہ میں سب سے بڑا ہنر تو یہی ہے کہ جب پکڑے جائیں تو پھر چھوٹ بھی جائیں۔ اس لحاظ سے ہم میں سب سے بڑے ہنر مند اور ہمارے سردار تم ہی ہو۔)
28
بعد ازاں جملہ بہم بیروں شدندسوئے قصرِ آں شہِ میموں شدند
ترجمہ: اس کے بعد سب کے سب باہر نکلے اور اس بادشاہ مبارک کے محل کی طرف چلے۔
29
چوں سگے بانگے بزد از دستِ راستگفت میگوید کہ سلطاں با شما ست
ترجمہ: جب ایک کتا دائیں ہاتھ (کی طرف) سے بھونکا تو اس (کتے کی آوز پہچاننے والے نے) کہا وہ کہتا ہے کہ تمہارے ساتھ بادشاہ ہے۔
مطلب: اگر چوروں کو کتے کی آواز اور اس آواز کو سمجھنے والے کی بات پر یقین ہوتا تو لازم تھا کہ وہ بادشاہ کی معیت معلوم کر کے متنبہ ہو جاتے اور چوری کرنے سے باز آتے، مگر الٹا اب وہ چوری کرنے جاویں گے بلکہ خود بادشاہ کے محل میں چوری کریں گے۔ تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے ہمراہی کی بات کی چنداں پروا نہیں کی۔ یا تو اس کو غلط سمجھا اس لیے کہ یہ عادةً محال ہے کہ کوئی مالکِ تاج و تخت رات کی تاریکی میں چوروں کے ساتھ ٹھوکریں کھاتے پھرنا منظور کرے۔ یا اگر اس کو صحیح سمجھا تو ان کے نزدیک اس کی یہ تاویل ہوگی کہ آئندہ چل کر ہم میں سے کوئی شخص بادشاہ بننے والا ہے۔ پس گو اس وقت اس بانگ شناس کی بات چنداں قابلِ اعتنا نہ تھی مگر صبح کو جب بادشاہ کی عدالت میں ان کو شبہ ہوگا کہ شاید یہی تاجدار ہمارے ساتھ شریکِ شب روی تھا۔ تو یہ بات ان کے شبہ کی تصدیق کرے گی اور اس وقت ان کو اپنے ہمراہی کے اس ہنر کی قدر معلوم ہو گی۔ اب چوری کی واردات شروع ہوتی ہے:
30
خاک بو کرد آں دگر از ربوۂگفت کایں ہست از وثاقِ بیوۂ
ترجمہ: اس دوسرے نے ایک ٹیلے کی مٹی کو سونگھا (با ہوشیاری خاک کو سونگھا اور) کہا یہ کسی بیوہ کے گھر کا (کھنڈر) ہے۔ (اثنائے راہ میں اس نے اپنا کمال دکھانے کے لیے یہ بات بتا دی)۔
31
پس کمند انداخت استادِ کمندتا شدند آں سوئے دیوارِ بلند
ترجمہ: پھر (آگے گئے تو شاہی محلات کے احاطے کی دیوار سامنے آ گئی) کمند (اندازی) کے ماہر نے کمند پھینکی یہاں تک کہ (اس کے ذریعہ) سب (ہمراہی) دیوارِ بلند کی دوسری طرف (اتر) گئے۔
32
جائے دیگر خاک را چوں بوے کردگفت خاکِ مخزنِ شاہی ست فرد
ترجمہ: (دیوار سے اتر کر) دوسری جگہ جب (محلِ شاہی کے پاس) مٹی سونگھی تو کہا یہ تو شاہی خزانہ کی نرالی مٹی ہے (یعنی اس سے مال و دولت کی وہ بو آتی ہے جو کسی دوسری مٹی میں نہیں)۔
33
نقب زن زد نقب و در مخزن رسیدہر یکے از مخزن اسبابے رسید
ترجمہ: سیندھ لگانے والے نے (محلِ شاہی میں) سیندھ لگائی اور ہمراہیوں سمیت) خزانہ میں جا پہنچا (پھر) ہر ایک نے خزانہ سے کچھ کچھ مال نکالا۔
34
پس زر و زربفت و گوہر ہائے زفتقوم بردند و نہاں کردند تفت
ترجمہ: وہ لوگ بہت سا سونا اور زربفت اور بڑے بڑے موتی (چرا) لے گئے اور جلدی جلدی (ان کو) چھپا دیا۔
35
شاه معیّن دید منزل گاہِ شاںحلیہ و نام و پناه و راہِ شاں
ترجمہ: بادشاہ (بھی ان کے ساتھ تھا، چنانچہ اس) نے ان کا ٹھور ٹھکانا غور سے دیکھ لیا اور ان کا حلیہ اور نام اور حفاظت کی جگہ اور راستہ (معلوم کر لیا)۔
36
خویش را دُزدید ازیشاں باز گشتروز در دیواں بگفت آں سرگزشت
ترجمہ: اپنے آپ کو ان سے مخفی کر لیا اور واپس چلا گیا۔ دن کو عدالت میں وہ (رات کی) سر گزشت بیان کی-
37
پس رواں گشتند سرہنگانِ مستتا کہ سرہنگ دُزدے را بہ بست
ترجمہ: پھر (اس کے حکم سے) وہ سپاہی (جو داروگیر کے جوش میں) مست (تھے) روانہ ہوۓ (اور چوروں کے ڈیرے میں جا پہنچے) حتٰی کہ سپاہی نے ایک ایک چور کو باندھ لیا۔
38
دست بستہ سوئے دیواں آمدندوز نہيبِ جاں ہمہ لرزاں شدند
ترجمہ: (سب چور) مَشکیں کسی ہوئی (ہونے کی حالت میں) عدالت میں حاضر ہوئے اور جان کے خوف سے سب کانپنے لگے۔
39
چونکہ استادند پیشِ تختِ شاهیارِ شب شاں بود آں شاہ چو ماه
ترجمہ: جب وہ بادشاہ کے تخت کے سامنے کھڑے ہوئے (اور) وہ بادشاہ قمر اشتباه ان کا رفیقِ شب تھا۔ تو:۔ (یہ شعر شرط تھا اگلا شعر جزا ہے شب کے ساتھ ماہ کی مناسبت پُر لطف ہے):
40
آنکہ شب بر ہرکہ چشم انداختےروز دیدے بے شکش بشناختے
41
شاه را بر تخت دید و گفت ایںبود با ما دوشِ شب گرد و قریں
ترجمہ: (ان میں سے) اس (چور) نے (جس میں یہ خاصیت تھی) کہ وہ جس شخص پر رات کے وقت نظر ڈالتا تھا تو دن میں اس کو دیکھتے ہی بے شبہ پہچان لیتا تھا، بادشاہ کو تخت پر (بیٹھے) دیکھا اور کہا۔ یہی (عالی جناب) کل ہمارے ساتھ شب گرد اور ساتھی تھے۔
42
آنکہ چندیں خاصیت در ریشِ اوستایں گرفتِ ما ہم از تفتیشِ اوست
ترجمہ: (یہ) وہی (تو ہیں) جن کی ڈاڑھی میں اتنی بڑی خاصیت ہے (کہ مجرموں کو گرفتاری سے چھڑا دیں اور) ہماری یہ گرفتاری بھی انہی کے تجسس سے ہے۔
مطلب: یہ سلطان ہی شب کو ہمارے ساتھ تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ہمارا حلیہ اور ہمارا مقام دیکھ لیا، اسی لیے ہم جلدی گرفتار ہو گئے۔ اور ان فرمانروا کی ڈاڑھی میں یہ خاصیت کیوں نہ ہو، کہ اگر از راهِ ترحّم وہ اشارۂ عفو کے لیے سر ہلا دیں گے تو ڈاڑھی بھی حرکت کرے گی جس سے ہماری جاں بخشی ہو جانا یقینی ہے۔ اس شعر میں بعبارتِ مولانا یہ اشارہ مضمر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عفو و غفران کی امید باعتدال چاہیے۔ یعنی اس کے رحم و کرم کے بھروسے پر گناہوں میں دلیر نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ قاہر و جبار اور منتقم بھی ہے۔ بندہ کی ہر حرکت و فعل کو دیکھتا ہے، اور اس کی سیاست آمادۂ مؤاخذت رہتی ہے۔ آگے مولانا اس شہ شناس چور کے بارے میں کہتے ہیں:
43
عارفِ شہ بود چشمش لا جَرَمبرکشاد از معرفت لب با چشم
ترجمہ: اس کی (شناسا) آنکھ بادشاہ کو جانتی پہچانتی تھی (اسی) جان پہچان کی بدولت اس نے مجمع کے سامنے لب کشائی کی (یعنی اس کو اپنی شناخت پر یقینِ تام تھا اس لیے مجمع کو اس کی اطلاع دی، ورنہ ظن و تخمین سے اس کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہو سکتی تھی کہ شب کو ہمارے ساتھ بادشاہ شاملِ واردات تھا۔)
44
وَهُوَ مَعَکُمْ گفت او ایں شاه بودفعلِ ما مے دید و سرِ ما مے شنود
ترکیب: "گفت" فعل، "او" ضمیر راجع "بشناسائے شاہ" اس کا فاعل۔ "بود" فعلِ ناقص، "وَ ہُوَ مَعَکُمْ" اس کا اسم، "ایں شاه" اس کی جزا۔ یہ جملہ اسمیہ منقولہ ہوا "گفت" کا۔
ترجمہ: اس نے کہا (رات کو جو) معیتِ حق (کا ایک مظہر ہمارے ساتھ ساتھ تھا، وہ) یہی بادشاہ تھا وہ ہمارے دزدانہ فعل کو دیکھتا اور ہماری چھپی باتیں سنتا تھا۔
مطلب: دوسرے مصرعہ میں آیت کے آخری کلمات کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی وہ بادشاہ بصیرتِ حق کا مظہر بھی تھا، حق تعالیٰ اعمالِ عباد کو دیکھتا ہے۔ وہ بادشاہ اس صفت کا مظہر ہو کر ہمارے دزدانہ افعال کو دیکھ رہا تھا۔ اس میں بھی بعبارتِ مولانا بس اشاره مضمر ہے کہ حق تعالیٰ کا سمیع و بصیر ہونا ہر وقت نصب العین رکھنا چاہیے۔ تاکہ ارتکابِ معاصی کی جرأت نہ ہو۔ وہی چور کہتا ہے:
45
چشمِ من رَہ برد شب شہ را شناختجملہ شب با روئے ماہش عشق باخت
ترجمہ: میری آنکھ نے رات کے وقت سراغ پا لیا تھا۔ (چنانچہ اب) اس نے بادشاہ کو پہچان لیا (اور اب وہ کیوں نہ پہچانتی کہ) ساری رات اس کے چاند کے (سے) چہرے کے ساتھ عشق بازی کرتی رہی ہے۔
46
امّتِ خود را بخواہم من ازُوکو نگرداند عارفِ ہیچ رو
ترجمہ: (اب) میں (بادشاہ کو ان کے ہنرِ ریش جنبانی کی یاد دہانی کرا کر) ان سے اپنی جماعت کی جان بخشی کرا لوں گا کیونکہ وہ اپنی جان پہچان والے (کی التماس) سے ہرگز روگردانی نہ کریں گے۔
مطلب: امّت کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اسی طرح قیامت کے روز جنابِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اپنی امت کو اور دوسرے اولیاء و عارفین بھی اپنے اپنے اتباع کو حق جَلَّ وَ عَلَا کی بارگاہ میں شفاعت کر کے ان شاء اللہ تعالیٰ بخشوا لیں گے۔ اور عارف کے لفظ میں یہ نکتہ ملحوظ ہے کہ ان حضرات کی شفاعت قبول ہونے کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ عارفِ حق ہیں، کیونکہ ان کی اس معرفت یعنی علم مع عمل و حال کی بنا پر ان کو حق تعالیٰ کے ساتھ محبت ہے اور ان کی اس محبت نے ان کو بھی خدا کا محبوب بنا دیا ہے، اور خداوند تعالیٰ اپنے محبوب کی درخواست کو کیوں رد کرنے لگا۔ پس قبولِ شفاعت کا اصل باعث معرفت ہوئی جس سے یہ کہنا صحیح ہے کہ عارف گنہگاروں کی جاں بخشی و نجات کا ذریعہ ہو سکتا ہے- یہ بات اوپر تو اشارۃً کہی تھی آگے صراحۃً فرماتے ہیں۔
47
چشمِ عارف داں امانِ ہر دو کونکہ بدو یابید ہر بہرام عَون
ترجمہ: عارف کی آنکھ کو دونوں جہانوں کے لیے (باعثِ) امن سمجھو۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہر بادشاہ نے مدد پائی ہے۔
مطلب: بادشاہ سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے پاس ظاہری اسباب و سامان بکثرت ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس دنیاوی سازوسامان کی بہتات ہے، وہ بھی حصولِ مرادات میں خاصانِ حق کی نظرِ عنایت کے محتاج ہیں۔ کیونکہ دنیوی اسباب انجاحِ اغراض اور دفعِ بلاء کے لیے کافی نہیں۔ اس میں بڑی حد تک اللہ کے مقبول بندوں اور اسی کی مرحوم مخلوق کی برکت کا دخل ہے۔ مشکوٰۃ میں حدیث ہے: "ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَآئِکُمْ" یعنی ”تم کو تمہارے ضعیف لوگوں کی بدولت ہی تو مدد اور رزق ملتا ہے“۔ اور تمییز الطیب میں طبرانی وغیرہ سے یہ حدیث منقول ہے: "لَوْ لَا عِبَادٌ رُكَّعٌ، وَ صِبْیَۃٌ رُضَّعٌ، وَبَهَآئِمُ رُتَّعٌ، لَصُبَّ عَلَیْکُمُ الْبَلَاءُ صَبًّا" یعنی ”اگر نمازی بندے اور شیر خوار بچے اور چرندہ جانور نہ ہوتے تو تم پر بلا بری طرح برس پڑتی‘‘- انتہٰی۔ چشمِ عارف میں چشم کا ذکر بایں لحاظ آ گیا کہ اس چور کو بادشاہ کا شناسا آنکھ نے ہی بنایا تھا۔ اور عارف کو بھی دولتِ عرفان بصیرتِ باطن ہی کی بدولت میسر ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنے محبوبِ حقیقی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ پس اس کی اس فضیلت کا اصل ذریعہ بصیرتِ باطن ہے۔ جس کو چشم کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اگلے اشعار میں بھی چشم اور اس کے لوازم کا ذکر چلا جاتا ہے:
48
زاں محمدؐ شافعِ ہر داغ بودکہ زِ جز حق چشمِ او مَا زَاغ بود
ترجمہ: (اور کیوں نہ ہو) حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم (روزِ ازل سے) اسی لیے تو ہر گناہگار کی شفاعت کرنے والے (قرار پا چکے) تھے کہ آپ کی چشمِ مبارک مَا سِوی اللہ کی وجہ سے (حق تعالیٰ کی طرف سے) پھرنے والی نہ تھی۔
مطلب: آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کو اس درجہ کی محبتِ حق ہے کہ آپ کی نظر کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر مَا سِوَی اللہ کی طرف ملتفت ہونے والی نہیں، اور آپ کی اس محبت نے آپ کو محبوبیت کا وہ درجہ بخشا ہے کہ آپ ہر گنہگار کی شفاعت کر کے اس کو بخشوا لینے کی کامل امید رکھتے ہیں۔ ایک شارحِ علّام نے یہاں "مَا زَاغَ" کو بمعنی ظاہری درج کرنے میں مشکل محسوس فرمائی ہے۔ چنانچہ اس مصرعہ کا ترجمہ یوں لکھا ہے "غیر حق سے ان کی آنکھ (بدلیل) مَا زَاغَ (ہٹی ہوئی) تھی"۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: "تقریرِ ترجمہ سے تقدیر کلام کی ظاہر ہو گئی اور بدوں تقدیر کے ظاہرِ عبارت مشکل ہے۔ کیونکہ "مَا زَاغَ" کا مدلول تو یہ ہے کہ "مَا زَاغَ عَنِ الْحَقِّ" اور اس مصرعہ کے ظاہر سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ "مَا زَاغَ عَنْ غَيْرِ الْحَقِّ"۔ (انتہٰی) ہم التماس کرتے ہیں کہ یہاں مولانا کی مراد "مَا زَاغَ عَنِ الْحَقِّ" ہی ہے۔ "مَا زَاغَ عَنْ غَيْرِ الْحَقِّ" نہیں۔ اور مذکورہ مشکل اسی لیے پیش آئی کہ عبارت "ز جز حق" میں حرفِ زاء کو بمعنی "عَنْ" سمجھ لیا گیا۔ جو شارح کے ہر دو بیان کرده مدلول و مفہوم سے ظاہر ہے۔ لیکن اگر اس حرفِ زاء کو بمعنی علّت قرار لیا جائے جیسا کہ ترجمۂ بالا میں ہے۔ تو ساری مشکل رفع تھی۔ یہاں تک لکھ چکنے کے بعد "منہج القوٰی" کو کھولا تو اس کو بھی اپنے اس مذاق کی دید پایا۔ فالحمد لله علٰى ذالک۔ چنانچہ اس کتاب میں اس شعر کا ترجمہ یوں لکھا ہے: "فَاِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَانَ شَفِيْعاً لِكُُلِّ زَاغٍ وَ بَاغٍ لِاَنَّ عَيْنَہٗ لِرُؤْيَۃِ اللهِ تَعَالیٰ صَارَتْ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی لِغَيْرِ اللّٰهِ تَعَالىٰ۔ وَ بِھٰذَا كَانَ شَفِيْعاً لِاَهْلِ الْكَبَائِرِ، فَاِنَّهٗ رَأٰی غَرَائِبَ الْمَلَكُوْتِ وَ لَمْ يَلْتَفِتْ اِلَیْھَا"۔
49
در شبِ دنیا کہ محجوب ست شیدناظرِ حق بود و زو بُودش امید
ترجمہ: دنیا کی (تاریک) رات میں (جہاں) کہ آفتاب (حقیقی نگاہوں سے) مخفی ہے (وہاں بھی) آپ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے اور آپ کو اسی سے (قبولِ شفاعت کی قوی) امید (بدرجۂ یقین) تھی۔
مطلب: اس شعر میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی لاثانی محبتِ حق کا اظہار ہے۔ یعنی محبوب کی جلوہ پاشی کی حالت میں اہلِ دید کا مستغرقِ نظارہ ہو جانا تو عام بات ہے۔ آپ دنیا ہی میں اپنے محبوبِ حقیقی کے ساتھ ہر وقت لو لگائے ہوئے ہیں، جہاں وہ تمام نگاہوں سے مستور ہے کیونکہ دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار نا ممکن ہے اور یہ بات دلیل ہے اس کی کہ آپ کو حق تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی محبت ہے۔ دنیا کو شب کے ساتھ اور محبوبِ حقیقی کو آفتاب کے ساتھ تشبیہ دینے میں یہ لطف ملحوظ ہے کہ شب کے وقت آفتاب مخفی ہوتا ہے۔ آپ کا قبولِ شفاعت کی امید رکھنا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس کا وعدہ فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم اپنی امت کے خیال سے کہ قیامت میں ان کا کیا حشر ہوگا، آبدیدہ ہوئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پیغام لائے: "اِنَّا سَنُرْضِیْكَ فِیْ اُمَّتِكَ وَلَا نَسُوْءُکَ" یعنی ”ہم تم کو تمہاری امت کے بارہ میں خوش کر دیں گے اور غمگین نہ ہونے دیں گے۔ (مشکوٰۃ)
50
از اَلَمْ نَشْرَحْ دو چشمش سرمہ یافتدید آنچہ جبرائیل آں بر نتاخت
ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کے) اس (ارشاد) سے کہ ”کیا ہم نے (تمہارے سینے کو) کشادہ نہیں کر دیا“ آپ کی دونوں آنکھوں نے بصیرت کا سرمہ پایا اور آپ نے اس بصیرت کی بدولت وہ بات دیکھی جس (کو دیکھنے) کی جبرئیل تاب نہ لا سکے۔
مطلب: الم نشرح کے کلمہ سے اس سورۃ کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم پر آپ کے شرحِ صدر کرنے اور آپ کے سینۂ مبارک کو ہدایت و عرفان سے بھر دینے کا احسان جتلایا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس شرحِ صدر کی بدولت آپ کی معرفت و بصیرت میں ترقی ہو گئی، جیسے سرمہ سے بصر میں ترقی ہوتی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ شبِ معراج میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سدرۃ المنتہیٰ کے اوپر آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کے ساتھ جانے سے عذر کیا اور کہا کہ اگر میں یہاں سے ایک انگشت کے برابر بھی اوپر جاؤں تو تجلیاتِ الٰہیہ مجھ کو پھونک ڈالیں۔ پس آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم بحکمِ الٰہی اکیلے ہی آگے گئے۔
51
مر یتیمے را کہ سرمہ حق کشدگردد او دُرِّ یتیمِ با رَشد
ترجمہ: (اور کیوں نہ ہو) جس یتیم کے حق تعالیٰ سرمہ لگائے۔ وہ دُرِّ یتیم (کی مانند جو قیمت میں یکتا ہوتا ہے، بصیرت میں یکتا) اور با ہدایت ہو ہی جائے گا۔
52
نورِ او بر دُرّہا غالب شودآنچناں مطلوب را طالب شود
ترجمہ: (اور) اس نور (اس سرمۂ حق) سے دوسرے موتیوں پر (یعنی اور انوار پر) غالب ہو جائے گا۔ اور افزونیِ نور کی بدولت حقائق کا ادراک زیادہ ہو جانے سے وہ ایسے مطلوب (سرمہ کش) کا طالب ہو جائے گا (چنانچہ ایسا ہی ہوا)۔
مطلب: ادراکِ حقائق کا دخل اس میں ظاہر ہے اس لیے اس ادراک سے معلوم ہوا کہ مطلوبِ حقیقی بنانے کے قابل وہی ہے جس نے یہ نور عطا فرمایا۔ بصیرت کے اس خاصہ کا حاصل تو یہ ہوا کہ حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی۔ اب دوسرا خاصہ آگے مذکور ہے کہ حقائقِ مُحْدَثَہ کی بھی معرفتِ كاملہ آپ کو حاصل ہوئی، اور کاملہ سے مراد محیط نہیں کہ خواص باری تعالیٰ سے ہے، بلکہ نبوت کے لیے جتنے مراتب کی ضرورت ہے ان میں کوئی کمی نہیں رہی۔ آئندہ اشعار میں جہاں جہاں الفاظ ظاہرةُ العموم ہیں جیسے: "مقاماتُ العباد۔ پنہاں نماند۔ ہیچ چیز" اور "در ہنر نزاع" وہاں استغراقِ عرفی مراد ہے حقیقی نہیں۔ اور جو الفاظ مطلق ہیں جیسے: "ندارد سر گریز، دید اسرار را۔ اور سرِّ روح مومن و کفار را" وہ اور بھی سہل ہے۔ کیونکہ اطلاق مستلزم عموم کو نہیں (کلید مثنوی) پس آپ کی جو معرفت محدثات سے متعلق ہے۔ ان کا بیان یہ ہے:
53
در نظر بُودش مقاماتُ العبادلا جَرَم نامش خدا شاہِد نہاد
ترجمہ: آپ کی نظر میں بندوں کے (احوال و اعمال وغیرہ) مقامات تھے (جو محلِ جزا ہیں) اس لیے خداوند تعالیٰ نے آپ کا نام شاہد (یعنی دیکھنے والا) رکھا ﴿اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا﴾ (الاحزاب: 45)
54
آلتِ شاہد زبان و چشمِ تیزکہ ز شب خیزش ندارد سر گریز
ترجمہ: (اس) شاہد کا آلہ (شہادت) زبان اور تیز نظر ہے (اور تیز نظر سے مراد یہ ہے) کہ آپ کے شب بیدار (قلب) سے راز (متعلق مقامات العباد) گریز نہیں کرتا۔
مطلب: شاہد کی آنکھ تحمّلِ شہادت کے لیے اور زبان ادائے شہادت کے لیے ہے۔ اس مجموعہ سے شہادت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ کا شاہد نام رکھا جانا تحمّلِ شہادتِ چشم اور ادائے شہادت بزبان دونوں کی دلیل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَجِئْنَا بِكَ عَلىٰ هٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (النساء: 41) اور فرمایا: ﴿وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا﴾ (البقرۃ: 143)۔ چونکہ مصرعۂ اولیٰ میں چشمِ تیز کے لفظ سے مشاہدہ کا حکم متبادر ہوتا ہے اور آپ نے جمیع واقعات کا مشاہدہ نہیں فرمایا اس لیے دوسرے مصرع میں تصریح کر دی کہ چشمِ تیز سے یہاں باصرہ مراد نہیں بلکہ بصیرت اور ادراکِ قلب مراد ہے۔ اور بصیرت آپ کو بواسطہ عرضِ اعمال و اعلامِ حق تعالیٰ سب واقعاتِ مشہود فیہا کے متعلق حاصل ہے۔ شب خیز کہنے میں اس حدیث کے مضمون کی طرف اشارہ ہے کہ: "تَنَامُ عَيْنَایَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِیْ" (جامع صغیر) یعنی رسول اللہ صلّی اللہ عالیہ و سلّم فرماتے ہیں: ”میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا“ (کلید ملخصاً) یہاں تک خاص آپ کے شاہد ہونے کے مدار یعنی عارف ہونے کا ذکر تھا۔ اب مطلق شاہد میں مدارِ شہادتِ معرفت کا ہونا اور شاہد کی فضیلت بیان فرماتے ہیں:
55
گر ہزاراں مدعی سر برزندگوش قاضی جانبِ شاہد کند
ترجمہ: (شاہد کی فضیلت و مقبولیت یہاں تک ہے کہ) اگر مدعی ہزار سر پٹکے تو بھی حاکم شاہد ہی کی سنتا ہے (یہ ظاہر ہے کہ مدعی کیسا ہی ثقہ کیوں نہ ہو مگر مدعا علیہ کے انکار پر محض مدعی کے دعوے سے حق نہیں دلایا جاتا بلکہ شاہد کے قول پر دلایا جاتا ہے۔)
56
قاضیاں را در حکومت ایں فن ستشاہدِ ایشاں را دو چشمِ روشن ست
ترجمہ: حکام کے دستورِ حکومت میں یہی ہے (کہ شاہد پر مدارِ فیصلہ رکھتے ہیں کیونکہ) شاہد ان کے لیے (گویا) دو روشن آنکھیں ہیں (کہ ان کے ذریعہ اصلیت نظر آ جاتی ہے۔ بلکہ اس مسئلہ کی رو سے کہ قاضی کا خود اپنے علم کی بنا پر فیصلہ دینا جائز نہیں تا وقتیکہ شہادتِ شاہد کی حجت قائم نہ ہو جائے یہ مشاہدۂ حکمیہ مشاہدۂ حقیقیہ پر بھی ترجیح رکھتا ہے۔
57
گفت شاہد زاں بجائے دیدہ استکہ بدیدہ بے غرض زیں دیده است
ترجمہ: شاہد کا قول (قانوناً) اس لیے بجائے مشاہدہ کے ہے کہ اس نے بے غرض نظر سے اصلیّت کو دیکھا ہے۔
58
مدّعی دیدہ است اما با غرضپرده باشد دیدۂ دل را غرض
ترجمہ: (گو اصلیت کو) دیکھا مدعی نے (بھی) ہے مگر غرض مندانہ (دیکھا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے۔) خود غرضی دل کی آنکھوں کے لیے حجاب بن جاتی ہے (آگے ارشاد ہے کہ جس طرح قاضی ایک شاہدِ بے غرض کی شہادت کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے، اسی طرح اللہ کے نزدیک بھی وہی شاہد معتبر ہے جو بے غرض ہو۔ یعنی اغراضِ دنیویہ سے غنی اور بے رغبت ہو۔)
59
حق ہمے خواہد کہ تو زاہد شویتا غرض بگذاری و شاہد شوی
ترجمہ: حق تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم زاہد ہو جاؤ تاکہ (زہد کے سبب سے) اغراض (دنیویہ) کو چھوڑ دو اور شاہد (بننے کے قابل) ہو جاؤ۔
60
حق ہمے گوید غرض را ترک کُنتا قبول افتد ترا با ما سخن
ترجمہ: حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم غرض کو چھوڑ دو تاکہ ہمارے حضور میں تمہاری بات مقبول ہو جائے۔ ﴿لِتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (البقرۃ: 143)
61
کایں غرض پردۂ دیده بودبر نظر چوں پردۂ پیچیده بود
ترجمہ: (اور قبولِ سخن کا معیار ترکِ غرض پر اس لیے رکھا گیا) کہ یہ اغراض آنکھوں کا حجاب ہوتی ہیں (جو) آنکھوں پر پردہ کی طرح رہتی ہیں۔ ﴿وَ عَلٰی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ﴾ (البقرۃ: 8)
62
پس نہ بیند جُملہ را با طِمّ و رِمّحُبُّکَ الْاَشْيَاءَ یُعْمِىْ وَ يُصِمّ
ترجمہ: پس وہ (نظر) سارے (واقعہ) کو (اس کے) رطب و یابس سمیت نہیں دیکھتی (کیونکہ حدیث میں ہے کہ) ہمارا (بعض) اشیاء سے محبت کرنا (ان کے عیوب سے تم کو) اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔
مطلب : حدیث "حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَ یُصِمُّ" کو ابو داؤد نے بروایت ابی الدرداء مرفوعاً روایت کیا ہے۔ امام صنعانی نے اس کو موضوع ثابت کرنے پر زور دیا ہے۔ عراقی نے کہا ہے کہ ابوداؤد کا اس پر سکوت اختیار کرنا ہمارے لیے کافی ہے۔ پس وہ موضوع نہیں اور نہ شدید الضعف ہے بلکہ حسن ہے۔(تمییز الطیب) یہاں تک شاہد کی فضیلت اور شہادت کے لیے اس کی بے غرضی کا اشتراط بیان کر کے پھر آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کی عارفیت کے ذکر کی طرف عود فرماتے ہیں۔ جس پر آپ کی شاہدیت کا مدار ہے:
63
در دلش خورشید چوں نورے فشاندپیشش اختر را مقادیرے نماند
ترجمہ: (غرض آپ کی عارفیت کی شان ہے کہ) جب آپ کے قلب میں آفتاب (معنوی یعنی حضرتِ حق) نے نور افشانی فرمائی تو آپ کے سامنے کواکب کی کوئی قدر و منزلت نہ رہی۔
مطلب: قلب میں نور افشانی کرنے سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی صفتِ علم کا فیض مکمل نازل فرمایا۔ کواکب کی قدر نہ رہنے سے مقصود یہ کہ تمام اہلِ علوم اور اہلِ معارف سے آپ کا درجہ بڑھ گیا۔ غرض جب حق تعالیٰ نے آپ پر اپنا فیضانِ علم نازل فرمایا تو:
64
پس بدید او بے حجاب اسرار راسیرِ روحِ مومن و کُفّار را
ترجمہ: تو آپ نے چھپی باتوں کو کھلم کھلا دیکھ لیا (یعنی) مومنوں اور کافروں کی ارواح کے (اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف) جانے کو۔ (یعنی جس طرح آپ نے مقاماتُ العباد یعنی بندوں کے اعمال کا مشاہدہ فرمایا جو اوپر مذکور ہو چکا۔ آپ نے ان کے اعمال کی جزا بھی دیکھ لی۔)
65
در زمین حق را و در چرخِ سمینیست پنہاں تر ز روحِ آدمی
ترجمہ: (دیکھو) زمین میں اور چرخِ بلند میں حق تعالیٰ کی کوئی چیز روحِ انسانی سے زیادہ مخفی نہیں۔ (آگے اس خفائے روح کی دلیل ہے):
66
باز کرد از حق دو چشمِ خویشتنآنکہ صاحبِ رفعت آمد در سنن
ترجمہ: (چنانچہ) (دیکھو) جو شخص (آیات و) احادیث (کے علم) میں صاحبِ رفعت (یعنی بڑے پایہ کا عالم (فاضل) ہے اس نے حق تعالیٰ (کی تعلیم) سے اپنی دونوں آنکھیں کھول لی ہیں۔
67
باز کرد از رطب و یابس حق نوردروح را مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ مُہر کرد
ترجمہ: (ساتھ ہی) حق تعالیٰ نے (قرآن و حدیث میں سب ضروری) خشک و تر (امور) سے (خفا کا) بند اٹھا دیا، (حتّٰی کہ کوئی علمی مسئلہ چھپا ڈھکا نہیں رہا۔ لیکن باوجود اس کے) روح (کی حقیقت) پر "مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ" کی مہر لگا دی (اور اس کا ان علماء و فضلاء پر اظہار ہونے نہیں دیا)۔
مطلب: اشارہ ہے اس ارشادِ خداوندی کی طرف: ﴿وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85) اور (اے پیغمبر!) لوگ تم سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے) کہہ دو کہ روح (بھی) میرے پروردگار کا ایک حکم ہے کہ تم لوگوں کو (اسرارِ الٰہیہ میں سے) بس تھوڑا ہی سا علم دیا گیا ہے۔
غرض قرآن مجید میں روح کے متعلق اجمالی جواب پر اکتفا کیا گیا ہے حالانکہ اس میں دیگر منیہات کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ اسی طرح حدیث میں جنت و دوزخ، حور و غلمان، ملائکۂ عرش، کرسی، بیت المعمور، سدرۃ المنتہٰی وغیرہ سب کا مفصل ذکر آیا ہے۔ مگر روح کی حقیقت کا ذکر کہیں نہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ زمین و آسمان میں روح سے زیادہ مخفی الحقیقت اور مستور الماہیت کوئی چیز نہیں۔
68
پس چو دید آں روح را چشمِ عزیزپس برو پنہاں نماند ہیچ چیز
ترجمہ: پس جب (خدا کے اس) محبوب کی آنکھ نے اُس (سب سے زیادہ مخفی چیز یعنی) روح کو دیکھ لیا تو (ظاہر ہے کہ) آپ پر کوئی چیز مخفی نہ رہی ہو گی۔
69
شاہدِ مطلق بود در ہر نزاعبشکند گفتش خمارِ ہر صداع
ترجمہ: (اس سے ثابت ہوا کہ) آپ ہر جھگڑے میں (جو قیامت کو واقع ہو گا) شاہدِ کامل ہیں (اور آپ کے شاہد ہونے سے ثابت ہوا کہ) آپ کا قول ہر دردِ سر کا خمار زائل کر دیتا ہے۔ (چنانچہ شاہد کی شان یہی ہوتی ہے کہ اس سے اختلاف و خصومت کی تکان رفع ہو جاتی ہے۔ آگے آپ کی مقبولیت و محبوبیت کا ذکر ہے):
70
نامِ حق عدل ست و شاہدِ آں اوستشاہدِ عدل ست زیں او چشمِ دوست
ترجمہ: حق تعالیٰ کا نام عدل (بمعنی عادل) ہے اور (عدلِ مطلق کا) شاہد اس (مطلق حاکمِ عادل کا برگزیدہ ہوتا ہے اس لیے (یہ) شاہدِ عدل (یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم) محبوبِ (حقیقی تعالیٰ شانہ) کے (لیے بمنزلہ) باصرہ ہیں۔ (اس تشبیہ میں احتیاج ملحوظ نہیں جیسے کہ نفس کو احساسِ مُبصَرات کے لیے باصرہ کی طرف احتیاج ہے۔ تَعَالیٰ اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ)۔
71
منظرِ حق دل بود در دو سراکہ نظر در شاہد آید شاه را
ترجمہ: اور شاہد کے محبوب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ) قلب دونوں جہانوں میں حق تعالیٰ کا مطمحِ نظر بن گیا (اس لیے) کہ بادشاہ (حاکم) کی نظر شاہد میں ہوتی ہے۔
مطلب: پہلا مصرعہ اس حدیث کے مضمون پر مشتمل ہے "اِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ اِلٰى اَجْسَامِكُمْ وَ لَا اِلٰی صُوَرِكُمْ وَ لٰكِنْ يَنْظُرُ اِلٰى قُلُوْبِكُمْ" (صحيح مسلم) اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور قلب میں شاہدیت کی شان اس حدیث سے ثابت ہے۔ کہ "اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ" یعنی اپنے دل سے پوچھو (الترغيب و الترهيب) پس اس سے بھی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے محبوب ہونے کی تائید ہو گئی۔ آگے یہ ذکر آپ کی محبوبیت تمام محبوبین کی محبوبیت سے افضل و اکمل ہے۔
72
عشقِ حق و سرِّ شاہد بازیشبود مایہ جُملہ پردہ سازیش
ترجمہ: حق تعالیٰ کی محبت جو آپ کے ساتھ ہے اور حق تعالیٰ کے اظہارِ محبت کا راز (جو آپ کے متعلق ہے) وہ اس کی تمام پرده سازی (یعنی ایجادِ عالم) کا سرمایہ تھا۔
مطلب: حق تعالیٰ نے جو اپنی معرفت شناسائی کے لیے مخلوق کو پیدا کیا تو اس کا اصلی باعث آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت تھی۔
73
پس ازاں لَوَلَاكَ گُفت اندر بقادر شبِ معراج شاہد بازِ ما
ترجمہ: جبھی تو ہمارے (رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے ساتھ) اظہارِ محبت کرنے والے نے شبِ معراج میں (آپ کی) ملاقات کے وقت یہ فرمایا تھا کہ اگر تم نہ ہوتے (تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا) (حدیثِ لَولَاکَ کی تنقیح مفتاح العلوم کی جلد ششم میں درج ہو چکی ہے۔ آگے پھر بمثلِ سابق مطلق شاہد کی تعریف میں اس کا ایک خاصہ بیان فرماتے ہیں):
74
ایں قضا بر نیک و بد حاکم بودبر قضا شاہد نہ حاکم مے شود؟
ترجمہ: (قاعدہ ہے کہ) یہ (حاکم کی) حکومت (سب) نیک و بد پر نافذ ہوتی تو کیا (اس) حکومت پر (بھی) شاہد کو فوقیت نہیں؟
مطلب: فصلِ خصومات کی طاقت جو حکام کو حاصل ہوتی ہے وہ سب نیک و بد، ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و فقیر پر جاری ہے۔ مگر اس طاقت کا ظہور شاہد کی شہادت کے بعد ہوتا ہے۔ اگر گواہ نہ ہو تو حاکم کچھ نہیں کر سکتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ شاہد کی شان بہت بلند ہے جب کہ حاکم کی حکومت بھی اس کے تابع ہے۔ یہ ایک قاعدۂ عامہ ہے اسی سے حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی شاہدیت کا علوِّ شان سمجھ لو کہ:
75
شد اسیرِ آں قضا میر قضاشاد باش اے چشمِ تیزِ مرتضٰی
ترجمہ: جو ذات (نبویہ) کہ (عبدیت کی حیثیت سے) قضائے الٰہی کی مقید تھی وہ (محبوبیتِ مطلق کی حیثیت) سے قضا (ئے الٰہی پر فرمایش کنندہ) ہو گئی، اے (خدا کے) پسندیده (رسول) کی تیز بِین آنکھ تو خوش رہے۔
مطلب: امیرِ قضا کے معنی یہ نہیں کہ آپ قضائے الٰہی پر فرمانروا اور اس کے متبوع ہیں۔ استغفر اللہ من ذالك۔ بلکہ مراد ہے کہ قضائے الٰہی آپ کی رضا کے موافق ہو جاتی ہے، وہ بھی اضطراراً نہیں ۔نعوذ باللہ۔ بلکہ اختیاراً، اور یہ کہ قضائے الٰہی اختیاراً آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کی رضا کے موافق ہو جاتی ہے۔ دلائلِ صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ لَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى﴾ (الضحٰی: 5) ”اور آگے چل کر تمہارا پروردگار تم کو اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ اور فرمایا ﴿فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا﴾ (البقره: 144) ”تو جو قبلہ تم چاہتے ہو ہم اس کی طرف پھر جانے کا تم کو حکم دیں گے“۔ آگے پھر عود ہے اس مضمونِ سابق کی طرف کہ ؎ چشمِ عارف داں امانِ ہر دو کون الخ اس میں عارف سب کے لیے دعا کر رہا ہے اور اس کی دعا بمنزلۂ امان ہے:
76
عارف از معروف بس درخواست کردکاے رقیبِ ما تو اندر گرم و سرد
ترجمہ: عارف نے برابر خداوند تعالیٰ سے یہ درخواست (و مناجات) کی ہے کہ اے ہمارے راحت و تکلیف کے احوال میں واقف!
77
اے مشیرِ ما تو اندر خیر و شراز اشارتہائے دلِ ما بے خبر
ترجمہ: ہم کو نیکی میں (اثرِ غیب کا) اور بدی میں (تخویف کا) اشارہ کرنے والے (اور وہ اشاره ہمارے دل میں القا ہوتا ہے مگر) ہم (غافل) دل کے اشارات سے بے خبر (رہتے ہیں)۔
مطلب: آدمی جب کوئی نیک کام کرتا ہے تو قلب کو لازمی طور پر سرور و طمانیت کی کیفیت محسوس ہوتی ہے اور جب بُرا کام کرنے لگتا ہے تو قلب میں ایک کدورت اور ثقل کا احساس ہوتا ہے۔ یہی قلبی اشارات ہیں جو انسان کے قلب میں من جانب اللہ القاء ہوتے ہیں۔ جن کو آج کل کے عرف میں "ضمیر کی آواز" کہتے ہیں۔ عاقبت اندیش و صاحبِ حیثیت ان اشارات کو ملحوظ رکھتا ہے، اور غافل و سنگدل ان کی پروا نہیں کرتا۔ ان اشارات سے متنبہ ہونے کے ارشادات حدیث میں آۓ ہیں۔ چنانچہ فرمایا: "اَلْاِثْمُ مَا حَاكَ فِیْ صَدْرِکَ" (صحيح مسلم) ”گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے“۔ اور فرمایا: "فَإِنَّ اَلصِّدْقُ طَمَانِيْنَةٌ و الْکِذْبُ رَیْبَةٌ" (ترمذی) ”سچائی اطمینان کا ذریعہ ہے، اور جھوٹ شک کی بات ہے“۔
78
اے یَرَانَا لَا نَرَاهُ روز و شبچشم بندِ ما شدہ دیدۂ سبب
ترجمہ: اے وہ کہ ہم کو روز و شب دیکھتا ہے (اور) ہم اس کو نہیں دیکھتے، (اور) ہماری چشمِ (بصیرت) کی بندش سبب سی بن گئی ہے۔
مطلب: ظاہر ہے کہ اسبابِ دنیا اکثر کے لیے معرفتِ حق اور ادراکِ حقیقت سے حجاب بن جاتے ہیں۔
اس تمام مناجات میں عارف نے جن اصول کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ان میں سے بعض شانِ عارف پر منطبق نہیں ہوتے۔ جیسے اشاراتِ دل سے غافل رہنا اور اسبابِ دنیا کا چشم بند ہو جانا وغیرہ۔ سو ان کی دو توجیہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو تواضع و کسرِ نفسی پر محمول کیا جائے۔کیونکہ ہر مرتبہ میں مرتبۂ فوق کی طلب ہوتی ہے۔ تو زیریں ناقص نظر آتا ہے۔ دوسری یہ کہ عارف نے اس درخواست میں عوام عارفین کو بھی شریک کر رکھا ہے، پس ایسے احوال ان کے اعتبار سے ذکر کئے گئے ہیں۔ (کلید)
79
چشمِ من چشمہا بگزیده شدتا کہ در شب آفتابم دیدہ شد
ترجمہ: تیری آنکھ (اور) آنکھوں سے ممتاز ہو گئی۔ یہاں تک کہ ظلمتِ (دنيا) میں مجھ کو آفتاب دکھائی دے گیا (یعنی مجھ کو حسبِ استعداد معرفت کی نعمت نصیب ہوئی)۔
80
لُطفِ معروفِ تو بود اے منتہیپس کَمَالُ الْبِرِّ فِیْ اِتْمَامِهٖ
ترجمہ: اے کامل (جب) تیرا یہ لطف معروف (اور معمول) ہو چکا ہے تو کمالِ احسان اس (احسان) کی تکمیل میں ہے۔
81
رَبِّ اَتْمِمْ نُوْرَنَا فِیْ السَّاھِرَہاَنْجِنَا مِنْ مُفْضِحَاتِ الْقَاھِرَہ
ترجمہ: (یعنی) اے ہمارے پروردگار ہمارے نور کو میدانِ محشر میں مکمل کر دے اور ہم کو رسوا کرنے والے قہروں سے نجات دے۔
82
یارِ شب را روزِ مہجوری مدِهجانِ قربت دیده را دوری مدِه
ترجمہ: رات کے رفیق کو فراق کا دن مت دے۔ قرب دیکھنے والی جان کو دوری نہ دے۔
مطلب: شب سے مراد دنیا ہے۔ جیسے کہ دو شعر اوپر بھی شب سے مراد دنیا تھی۔ یعنی ہم دنیا میں تیری معرفت سے محظوظ تھے، اب ہم کو دولتِ قربت سے محروم نہ رکھ۔ روز و شب کا تقابل پُر لطف ہے۔ یارِ شب کے ذکر میں سلطان محمود کی رفاقتِ شب کے قصّہ کی رعایت ہے۔ جیسے کہ کئی دیگر اشعار میں بھی یہ رعایت ہے۔ چونکہ اسی قصے سے ان مضامین کی طرف انتقال ہوا ہے۔ اس لیے اس رعایت میں ایک خاص ادبی شان ہے۔
83
بُعدِ تو مرگے ست با درد و نکالخاصہ بُعدے کاں بود بعد الوصال
ترجمہ: تیری دوری ایک (سخت) موت ہے۔ جس کے ساتھ درد و عذاب (شامل) ہے۔ خصوصًا وہ دوری جو وصل کے بعد ہو۔
84
آنکہ دیدستت مکن نادیده اشآب زن بر سبزۂ بالیده اش
ترجمہ: جس نے تجھ کو (نظرِ معرفت سے) دیکھ لیا اس کو (درگاہ سے دھتکار کر) نادیدہ نہ کر۔ (بلکہ) اس (کی معرفت) کے (نو روئیدہ) سبزہ پر پانی چھڑک (تاکہ وہ زیادہ نشو و نما پائے)۔
85
من نکردم لا اُبالی در روشتو مکن ہم لا ابالی در خلش
ترجمہ: میں نے سلوک (طریق) میں بے پروائی نہیں کی، تو بھی مجھ سے عذاب میں بے پروائی نہ کر۔
مطلب: یعنی میرے گناہوں پر عذاب دینے میں بے پروائی نہ کر اور سلوک میں بے پروائی یوں ہو سکتی ہے کہ نہ قرب کی طلب ہو اور نہ بُعد سے استفادہ۔ مطلب یہ کہ گو مجھ کو اسبابِ قرب کی کم توفیق ہوئی مگر اسی دُھن میں رہا۔ اس سے دعوائے فضائل مقصود نہیں، بلکہ اعتراف نعمت اور نعمت کے لیے ادائے شکر اور بقیہ نعمت کی درخواست مدِ نظر ہے یعنی جب تو نے اس قدر نعمتیں دے رکھی ہیں تو اور بھی عطا فرما تاکہ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ کا مصداق ہو۔
86
ہِیں مراں از روئے خود او را بعيدآنکہ او یکبار آں رُوئے تو دید
ترجمہ :ہاں ایسے شخص کو اپنے قُرب سے دور نہ نکال۔ جس نے ایک بار (بنظرِ معرفت) تیرا دیدار کر لیا۔
87
دیدِ رُوئے جز تو شد غُلِّ گلوکُلُّ شَیْءٍ مَا سِوَی اللہَ بَاطِلٗ
ترجمہ: تیرے سوا کسی اور چیز کے چہرہ کا دیدار طوقِ گلو ہے۔ (کیونکہ) تمام اشیاء جو اللہ کے سوا ہیں، فانی ہیں۔
88
باطلند مے نمانیدم رَشَدزانکہ باطل باطلاں را میکشد
ترجمہ :سب باطل (وفانی) ہیں اور مجھ کو صواب دکھائی دیتی ہیں (اور مجھے ان کا صواب نظر آنا) اس سبب سے (ہے) کہ (میں خود باطل ہوں اور) باطل باطلوں کا خواہاں ہوتا ہے۔ (جس کی دلیل یہ ہے کہ):
89
ذرّه ذرّه کاندریں ارض و سماستجنسِ خود را ہر یکے چوں کہرباست
ترجمہ: ذره ذره جو اس زمین و آسمان میں ہے ہر ایک اپنی (ہم) جنس (شے) کے لیے کہربائی کی طرح (کشش رکھتا) ہے (یہاں ہم جنسں سے وہ چیز مراد ہے جو دوسری چیز سے مناسبت رکھتی ہو)۔
90
معده ناں را مے کشد تا مُستقرمے کشد مر آب تفِّ جگر
ترجمہ: (چنانچہ) معدہ روٹی کو (اس کی) قرارگاہ تک کھینچتا ہے (اور) پانی کو جگر کی حرارت کھینچتی ہے (ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ یہاں جنس سے معنیِ اصلاحی مراد نہیں بلکہ مطلق مناسب مراد ہے۔ گو ان میں اصطلاحی تجانس نہ ہو۔ آگے بھی یہی معنی ملحوظ ہیں):
91
چشم جذّابِ بُتاں زیں کویہامغز جویاں از گلستاں بویہا
ترجمہ: (اسی طرح) آنکھ ان کوچوں سے معشوقوں کو جذب کرنے والی ہے۔ (اور اسی طرح) دماغ باغ سے خوشبوؤں کا طالب ہے (معشوق بھی کسی کے مقبولِ نظر ہونے کے لیے ہی سنور کر کوچوں میں نکلتے ہیں، بس نگاہ ہی ان کی جاذب ہوئی)
92
زانکہ حِسِّ چشم آمد رنگ کشمغز و بینی مے کشد بوہائے خوش
ترجمہ: (اور آنکھ جاذبِ بُتاں) اس لیے (ہے) کہ آنکھ کی حسّ (باصرہ) رنگ (و روپ) کو جذب کرتی ہے (اور دماغ خوشبوؤں کا طالب) اس لیے (ہے) کہ مغز اور ناک خوشبوؤں کو جذب کرتے ہیں۔
93
زیں کششھا اے خدائے رازداںتو بجذبِ لُطفِ خود ماں ده اماں
ترجمہ: اے خدائے رازداں (اشیائے باطلہ فانیہ کی) اس کشش سے (جو ہمارے لیے مضر و مہلک ہے) اپنی مہربانی کی کشش کی بدولت ہم کو امن دے۔
94
غالبی بر جاذباں اے مشتریشاید ار درماندگاں را وا خری
ترجمہ: اے (مومنوں کی جان و مال کے) خریدار! تو سب کشش کرنے والی مخلوقات پر غالب ہے۔ شاید عاجزوں کو (ان جذبات سے) خر ید لے (اور آزاد کر دے)۔
مطلب : اس میں الله تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾ (التوبه: 111) ”اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال (اس وعدے پر) خرید لیے ہیں کہ ان کے بدلے ان کو جنت دے گا“ آگے بقیہ قصّہ آتا ہے:
95
رو بشہ آورد چوں تشنہ بابرآنکہ بود اندر شبِ قدر او چُو بدر
ترجمہ: اس (رات کے مردم شناس) نے بادشاہ کی طرف منہ کیا جیسے پیاسا بادل کی برف دیکھتا ہے۔ وہ (بادشاہ) جو شب قدر میں بدر کی طرح (درخشاں) تھا۔
مطلب: یعنی بادشاہ اپنے فضائل کے لحاظ سے شبِ چہاردہم کی طرح پُر نور تھا اور اس کی بدولت وہ رات بھی، جس میں اس کا دیدار اس چور کو ہوا، شبِ بدرِ ثانی تھی۔ چنانچہ سلطان محمود کے مناقب مشہُور و مسلّم ہیں۔
96
چوں لسان و حالِ او بودُ آنِ اُوآنِ او با او بَود گستاخ گو
ترجمہ: چونکہ اس (مردم شناس) کی زبان اور (اس کا) حال اس (بادشاہ) کے ساتھ خصوصیت رکھتا تھا (اور یہ قاعدہ ہے کہ) جو کسی کے ساتھ خصوصیّت رکھتا ہو۔ وہ اس کے ساتھ جرأت سے کلام کرے گا۔
97
گفت ما گشتیم چوں جاں بندِ طینآفتابِ جاں توئی در یومِ دیں
ترجمہ: (چنانچہ) اس نے (جرأت کر کے) عرض کیا (حضور) ہم (اس وقت عتابِ شاہی میں) اس طرح (گرفتار) ہیں جس طرح رُوحِ خاکی جسم کی مقید ہے۔ آپ آفتابِ روح ہیں روزِ جزا میں۔
مطلب: بادشاہ کو آفتاب کے ساتھ تشبیہ اس پر بنا پر دی کہ آفتاب سے روح کو جیسے کہ اطباء نے کہا ہے انشراح وانبساط حاصل ہوتا ہے۔ اور ان مقیدین کا انشراح موقوف ہے خلاص پر۔ حاصل یہ کہ آج کا دن یومِ جزاء سے مشابہ ہے اور اس میں آپ ہماری خلاصی کا سبب بن سکتے ہیں۔ جس کا طریقہ نیچے کے شعر میں آتا ہے:
98
وقت آں شد اے شہِ مکتوم سیرکز کرم ریشے بجنبانی بخَیر
ترجمہ: اے بادشاہ! جن کا (شب کے وقت) چلنا (دوسرے لوگوں سے) مخفی ہے (اب) اس بات کا وقت آ گیا کہ براہِ کرم (اپنی) ڈاڑھی نیکی (کے ارادہ) سے ہلا دیجیے۔
99
ہر یکے خاصیتِ خود وا نمُودآں ہنرہا جملہ بدبختی فزود
ترجمہ: ہر شخص اپنی اپنی خاصیت دکھا چکا (جس کا رات تذکرہ تھا مگر) ان تمام کمالات نے (ہماری) بدبختی میں ہی اضافہ کیا۔
100
آں ہنرہا گردنِ ما را بہ بستزاں مناصب سرنگوں سازیم و پست
ترجمہ: ان ہنروں نے ہماری گردن باندھ دی (اور) ہم ان (اپنے) منصبی کاموں سے سرنگوں اور پست ہیں۔
101
آں ہنر فِیْ جِیْدِھَا حَبْلُ مَسَدْروزِ مردن نیست زاں فن مدد
ترجمہ: وہ ہمارا ہُنر (ایسا ہے جیسے ابولہب کی) عورت کی گردن میں مونج کی رسّی ہے۔ (قید و بند میں) مرنے کے دن ان ہنروں سے کوئی مدد نہیں (ملتی)۔
مطلب: مصرعۂ اولیٰ میں سورۃ لہب کی ایک آیت کے کلمات درج ہیں۔ جس کا ترجمہ، تفسیر اور شانِ نزول پچھلی جلدوں کی جگہ سپردِ قلم ہو چکا ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح زنِ ابی لہب کا ہنرِ خار کشی جس سے وہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی، ایک صورتِ عذاب اختیار کر کے اس کے گلے کا طوق بن گیا۔ اسی طرح ہمارے وہ ہنر جو مہین و ردی ہیں، مثلاً زمین کو سونگھ کر اس کے دفائن کا سراغ پانا، کمند ڈال کر دیوار پر چڑھ جانا اور عمارتوں میں نقب لگانا، ہمارے لیے سود مند ہونے کے بجائے باعثِ قید و بند ہو گئے۔ چونکہ کتے کی آواز کا مطلب سمجھ جانے کا ہنر اور رات کو دیکھے ہوئے شخص کو دن میں پہچان لینے کا ہنر بدبختی افزا نہیں ہیں، بلکہ باعثِ نجات ہیں۔ چنانچہ اگر وہ کتے کی آواز سے اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ بادشاہ ہمارے ساتھ ہے تو چوری کے جرم سے باز آتے اور گرفتاری سے بچ جاتے اور مردم شناسی کے ہنر کے باعث نجات ہونا تو ظاہر ہی ہے کہ اب اسی کی بدولت ان کی خلاصی ہو گی۔ علاوہ ازیں شناخت بمعنی معرفت خود ایک ممتاز فضیلت ہے اور اس مناسبت سے اوپر مولانا نے اس شاہ شناس کے ذکر سے عارف کے ذکر کی طرف انتقال فرما کر معرفت کی پُر زور مدح فرمائی تھی۔ اس لیے مولانا ان دونوں ہنروں کو اس عموم سے مستثنٰی کرتے اور فرماتے ہیں:
102
جز ہماں خاصیتِ آں خوش حواسکہ بشب بُد چشمِ او سلطاں شناس
ترجمہ : سوائے اس خوش حواس کی اسی خاصیّت کے جس کی آنکھ رات کے وقت بادشاہ کو (دیکھ کر دن کو) پہچاننے والی تھی۔
103
آں ہنرہا جُملہ غولِ راه بودغير چشمے کو ز شاه آگاه بود
ترجمہ: وہ سب ہنر راستے کا چھلاوا تھے (جو راہرو کو گمراہ کر دیتا ہے) سوائے اس آنکھ کے جو بادشاہ سے آگاہ تھی۔
104
شاه را شرم آمد از وے روزِ بارکہ بشب بر روئے شہ بودش نَظّار
ترجمہ: بادشاه کو (ان ملزموں کی) پیشی کے دن اس (شہ شناس چور) سے شرم آ گئی (اس لیے) کہ رات کے وقت اس کی نظر بادشاہ کے چہرے پر تھی۔
مطلب: یعنی بادشاہ کو اس بات سے شرم آ گئی کہ جب اس نے رات کے وقت مجھے دیکھ کر دن کو پہچان لیا تو میرے لیے اس کی رفاقت اور محّبت اولاً اور بلا واسطہ اور دوسروں کی ثانیاً اور اس کے واسطے سے ثابت ہو گئی، تو ایسے لوگوں کو کیا سزا دوں جو ایک طرح میرے رفیق و مُحِب ہو چکے اور ان کو اس کا علم بھی ہے۔ شرم کی وجہ ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ دل میں کہیں گے کہ بادشاہ سلامت رات کے وقت کو۔ ”من ہم یکے ام از شما“ کہہ کر ہمارے ساتھ شاملِ وارداتِ بد ہو گئے اور اب تخت پر بیٹھ کر داروگیر کرنے لگے۔ یہ کہاں کی صاف معاملگی ہے۔ ہاں اگر ان چوروں پر بادشاہ کی معیت کا راز ظاہر نہ ہوتا تو نہ ان کے دل میں یہ خیال گزرنا ممکن ہوتا اور نہ بادشاہ کو شرم آتی۔ یہ دوسری وجہ قوی ہے۔ آگے اس اکابر شناسی کی مدح میں تائید فرماتے ہیں۔ جو کتے کی آواز سمجھنے والے کی تعریف کی تمہید بھی ہے۔
105
واں سگ آگاہ از شاہِ ودادخود سگِ کہفش لقب باید نہاد
ترجمہ: اور وہ کتا تو شاہ محبوب سے آگاہ تھا۔ اس کا لقب تو سگِ (اصحابِ) کہف رکھنا چاہیے (کہ اس نے بھی اصحابِ کہف کو، جو گویا شاہانِ دین تھے، پہچانا تھا اور ان کے ساتھ ہولیا تھا۔ اس کتے کے ذکر میں دوسرے ہنرمند کی تعریف کی تمہید اس لیے ہوئی کہ اس نے اس کتے کی آواز کو سمجھا تھا۔)
106
خاصیّت درگوش ہم نیکو بود کو ببانگِ سگ ز شیر آگہ شود
ترجمہ: (اور کتے کی آواز کو سمجھنے والے کے) کان میں (جو آواز فہمی کی) خاصیّت (تھی وہ) بھی خوب تھی۔ کیوں کہ وہ کتے کی آواز کے ساتھ شیر سے آگاہ ہو جاتا ہے۔
مطلب: مولانا کی تقریر کا ما حصل یہ ہوا کہ چوروں کے سارے ہنر مضر اور مہلک تھے۔ سوائے اس چور کی خاصیّت کے جس نے رات کے وقت بادشاہ کو دیکھ کر دن کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ دوسرے چور کی کان کی خاصیّت بھی اچھی تھی جس نے کتے کی آواز کا مطلب سمجھ لیا۔ ”درگوش ہم“ میں کلمہ ہم اس بات کا مظہر ہے کہ رؤیت کا مرتبہ بڑھ کر ہے۔ اگر یہ میسّر نہ ہو تو پھر استماعِ حق بھی اچھا ہے۔ جیسے بعض حواشی سے منقول ہے کہ "مرتبۂ صاحبِ دید از ہمہ بالاتر ست، رد گر آں نبود۔ مرتبۂ سیۂ کہ گفتن کسے از حق آگاه شود، ہم کمالے است۔" كما قال الله تعالىٰ: ﴿وَ قَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي اَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (الملك: 10) ”اور کہیں گے اگر ہم نے پیغمبروں کے کہنے کو سنا یا سمجھا ہوتا تو (آج کو) دوزخیوں میں نہ ہوتے“۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر محقق نہ ہو تو مقلد ہی ہو۔ آگے مولانا سگ کی دید سے اس مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں کہ۔ کسی حقیر ہستی کی حقارت پر قیاس کر کے اس سے متنفر نہ رہنا چاہیے کیا معلوم قدرت نے اس کے اندر کیا جوہر مضمر کیا ہے۔
107
سگ چو بیدار ست شب چوں پاسباںبے خبر نبود ز شب خیز شہاں
ترجمہ: جب (یہ بات معلوم ہے کہ) کتا رات کے وقت پہرہ دار کی طرح بیدار ہے۔ (اور یہ بھی معلوم ہے کہ) وہ شاہانِ (دین) کی شب بیداری سے بے خبر نہیں ہے (تو:)
108
ہِیں ز بدناماں نباید ننگ داشتہوش بر اسرارِ شاں باید گماشت
ترجمہ: ہاں (اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ) بد نام لوگوں سے (محض ان کی بدنامی کے سبب سے) نفرت نہ کرنی چاہیے۔ بلکہ ان کے باطنی احوال پر غور کرنا چاہیے۔
109
ہر کہ او یک بار خود بدنام شدخود نہ نباید نام جُستِ خام شد
ترجمہ: جو شخص ایک بار بدنام ہو گیا ہو تو (دوسروں کو بھی اس کی) بدنامی کی ٹوہ لگانا اور خود ناقص رہنا نہیں چاہیے (کسی کے ظاہر پر قیاس اس سے دور اور متنفر رہنا اپنے آپ کو خام رکھنے کا سامان ہے کیونکہ اہلِ کمال کا ظاہر عمومًا ناقابلِ پسند ہوتا ہے۔ پس ان سے متنفر ہونا۔ خود حصولِ کمال سے محروم رہنا ہے)۔
110
اے بسا زر کہ سیہ تابش کنندتا شود ایمن تاراج و گزند
ترجمہ: اے (میاں!) بہتیرے سونے (کے سکے) ہیں جن کو (قصدًا) سیاہ کر دیا جاتا ہے۔ تا کہ وہ لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہیں (اور دیکھنے والے ان کو لوہا سمجھ کر چھوڑ دیں)۔
111
ہر کسے کے پے بَرَد در سرِّ ماباز کن دو چشم سوئے ما بیا
ترجمہ: (اس وقت وہ سونا بزبانِ حال کہتا ہے کہ) ہر شخص ہمارے مخفی راز کا سراغ کب لگا سکتا ہے۔ اے طالب، تو دونوں آنکھیں کھول اور ہماری طرف آ (کہ پاس آ کر کسوٹی سے پتا لگے گا۔ دُور دور رہ کر جاہل و محروم رہے گا) آگے اس بات کی تائید میں حکایت ارشاد ہے کہ کسی کے ظاہر کو دیکھنا اور باطن کو ملحوظ نہ رکھنا باعثِ حرمان ہے: