دفتر 6 حکایت 93: چوہے اور پانی کے مینڈک کے قصے کی طرف رجوع

دفتر ششم: حکایت: 93



رجوع بحکایتِ موش و چغزِ آبی

چوہے اور پانی کے مینڈک کے قصے کی طرف رجوع

1

اے اخی من خاکیم تو آبیی لیک شاہِ رحمت و وھّابیی

ترجمہ: اے بھائی! (بے شک) میں خاکی ہوں (اور) تو آبی ہے (اس لیے میری رابطۂ دائمی کی درخواست کو پورا کرنا تیرے لیے مشکل ہے) مگر (چونکہ) تو (اقلیمِ) رحمت کا تاجدار اور (خداوندِ) وہّاب سے منسوب ہے (اس لیے امید ہے کہ میری درخواست کو رد نہ کرے گا)۔ 

2

آں چناں کن از عطا و از قَسم کہ گہ و بیگہ بخدمت میرسم

ترجمہ:۔ از راهِ عطا و بخشش کچھ ایسا (حیلہ) کر کہ میں وقت بے وقت (تیری) خدمت میں پہنچ جایا کروں۔

3

بر لبِ جُو من بجاں می خوانمت مے نہ بینم از اجابت مرحمت

ترجمہ: (اب تو یہ کیفیت ہے کہ) میں لبِ نہر پر (آ کر دل و) جان سے تجھ کو بلاتا ہوں (مگر) میں منظوری (دعوت) کی عنایت نہیں دیکھتا۔

4

آمدن در آب بَر من بستہ شُد زانکہ ترکیبم زِ خاکی رُستہ شُد

ترجمہ: (پھر چاہتا ہوں کہ خود حاضرِ خدمت ہوں مگر) پانی میں آنا مجھ پر (فطرةً) بند ہے۔ کیونکہ میری بناوٹ (سطحِ) خاک والی (مخلوق کی قبیل) سے بنی ہے۔ (جو پانی کے اندر زندہ نہیں رہ سکتی۔)

5

یا رسُولے یا نشانے کُن مَدد تا تُرا از بانگِ من آگہ کُند

ترجمہ: (لہٰذا) یا تو کسی قاصد سے یا کسی نشان سے مدد کر تاکہ وہ تجھ کو میرے پکارنے سے مطلع کردیا کرے۔

6

بحث کردند اندریں کار آں دو یار آخرِ آں بحث ایں آمد قرار

ترجمہ: (غرض) ان دونوں دوستوں نے اس بارے میں بحث کے آخر میں (چوہے کی زبان سے) یہ قرار پایا کہ:

7

کہ بدست آرند یک رشتہ دراز تا زِ جذبِ رشتہ گردد کشفِ راز

ترجمہ: کہ ایک لمبا ڈورا مہیا کیا جائے۔ (جو دنوں فریقوں میں تنا رہے) تاکہ (ایک فریق کے) ڈورا کھینچنے سے (دوسرے فریق پر طلبی کا) راز ظاہر ہو جائے۔

8

یک سرے بر پائے ایں بندۂ دُوتو بستہ باید، دیگرش بر پائے تو

ترجمہ: (اور اس کی صورت یہ ہو کہ ڈورے کا) ایک سرا اس بندے کے پاؤں سے بندھا ہو جو دوہرا (ارادتمند) ہے (یا خدمت میں جھکا رہتا ہے اور) دوسرے سرا تیرے پاؤں سے۔

9

تا بہم آئیم زیں فن ما دو تن اندر آمیزیم چوں جاں با بدن

ترجمہ: تاکہ اس تدبیر سے ہم دو شخص (جب چاہیں) اکٹھے ہو جایا کریں (اور) آپس میں اس طرح آن ملا کریں جس طرح جان بدن کے ساتھ ملی ہوتی ہے (آگے ظاہری قصّے سے باطنی حصّے کی طرف انتقال ہے:)

10

ہست تن چوں ریسماں بر پائے جاں مےکشاند بر زمینش زِ آسماں

ترجمہ: (یہ) بدن (اور روح کا تعلق) رسّی کی مانند ہے۔ (جو) روح کے پاؤں سے (بندھی ہے۔ اور) اس کو آسمان سے زمین پر کھینچ لائی ہے۔ صائب؎

میانِ سوز و ظلمت التیامے نیست حیرانم کہ چوں پیوست جانِ آسمانی با زمینی ها

غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ندارد رہ بگردوں روح تا باشد نفس در تن رسائی نیست در پرواز مرغ رشتہ بر پا را

11

چغزِ جاں در آبِ خوابِ بیہُشی رستہ از موشِ تن آید در خوشی

ترجمہ: (چنانچہ) رُوح کا مینڈک بے ہوشی کی نیند کے دریا میں (تیرتا اور) جسم کے چوہے سے چُھوٹ کر خوشی خوشی میں آتا ہے۔

12

موشِ تن زاں ریسماں بازش کشد چند تلخی زیں کشش جاں مے چشد

ترجمہ: بدن کا چوہا اس (تعلق کی) رسّی کے ذریعہ اس (روح) کو پھر کھینچ لیتا ہے۔ (اور) روح اس کھینچے جانے سے بہت تلخیاں محسوس کرتی ہے۔

13

گر نبودے جذبِ موشِ گنده مغز عیش ہا کردے درونِ آب چغز

ترجمہ: اگر (جسم کے) گنده مغز چوہے کی (یہ) کشش نہ ہوتی (جیسے کہ روح و جسم کے تعلق منقطع ہونے کے بعد نہ ہوگی) تو (روح) مینڈک (عالمِ غیب کے) دریا میں مزے اڑاتا۔

14

باقیش چوں روز برخیزی زِ خواب بشنوی از نور بخشِ آفتاب

ترجمہ: (ایک حالت تو اس کشش کی یہ ہے۔ اور اس (مضمون) کا بقیہ جب تم (موعُود) دن (یعنی قیامت) کو خواب (مرگ) سے اٹھو گے (یعنی دوبارہ زندہ ہو گے) تو نور عطا کرنے والے آفتاب سے سن لو گے۔

مطلب : قیامت کے روز حق تعالیٰ سے سُن لو گے کہ روح کے جسم سے جدا ہونے کی کیا کیفیت ہے اور وہ سننا حالی ہوگا جو سماعِ قال سے زیادہ کشف بخشتا ہے۔ غرض اس روز روح کے جسم کی طرف کامل طور پر عود کرنے کا مشاہدہ ہو جائے گا۔ اور اس کا کامل ہونا ظاہر ہے۔ کیونکہ وہ عود مفارقتِ تام کے بعد ہو گا۔ بخلاف جواب کے کہ اس میں مفارقت من وجہ ہوتی ہے۔ اور جس درجہ کی مفارقت ہوگی اسی درجہ کا عود ہوگا اِنْ نَاقِصاً فَنَاقِصٌ وَ اِنْ تَامّاً فَتَامٌّ ۔۔۔ (کلید) آگے پھر مقولہ ہے موش کا:

15

یک سرِ رشتہ گره بر پائے من زاں سرِ دیگر تو بر پا عقد زن

ترجمہ: اس ڈورے کا ایک سرا میرے پاؤں پر گرہ (لگا ہوا ہے) اس دوسرے سرے کی گرہ تو (اپنے) پاؤں پر لگا لے۔

16

تا توانم من دریں خشکی کشید مر ترا نِک شد سرِ رشتہ پدید

ترجمہ: تاکہ میں تجھ کو اس خشکی میں (اپنی طرف) کھینچ (کر بُلا) سکوں (بس) اب مقصود کی تدبیر معلوم ہو گئی۔

17

تلخ آمد بر دلِ چغز ایں حدیث کہ مرا در عقد آرد ایں خبيث

ترجمہ: مینڈک (چپکا اس کی گفتگوسنتا رہا۔ مگر اس) کے دل پر یہ بات ناگوار گذری (اور اس نے اپنے جی میں کہا) کہ یہ خبیث (چوہا) مجھ کو (اپنی) قید میں لانا چاہتا ہے۔ (آگے مولانا مینڈک کے اس قلبی احساس کے متعلق فرماتے ہیں:)

18

ہر کراہت در دلِ مردِ بہی چوں درآید زافتے نبود تہی

ترجمہ: ایک روشن ضمیر آدمی کے دل میں (کسی امر کے متعلق) جو نا پسندیدگی پیدا ہو تو وہ (نا پسندیدگی اس امر کی) آفت (کی اطلاع) سے خالی نہیں ہوتی۔ (’’مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ فَدَعْهُ‘‘ حدیث ہے۔ یعنی ’’جو بات تمہارے سینے میں کھٹکے اس کو چھوڑ دو‘‘ (جامع صغیر)

19

وصفِ حق داں آں فراست را نہ وہم نورِ دل از لَوحِ کُل کردست فہم

ترجمہ: (اور) تم اس فراست کو (جس سے اس امر کی ناپسندیدگی پیدا ہوئی ہے) حق تعالیٰ کا وصف سمجھو نہ کہ وہم (یعنی تمہارے) دل کے نور نے اس کو لَوحِ کل سے معلوم کیا ہے۔

مطلب: وصفِ حق سے یہاں حق تعالیٰ کی صفتِ علم مراد ہے۔ اور اسی کو لوحِ کل بدیں اعتبار کہا ہے کل معلومات اس کے آگے حاضر ہیں اور نورِ دل سے مراد فراست اور نورِ قلب کو نظر سے تعبیر فرمایا ہے۔ حيث قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ’’اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّهٗ يَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰهِ‘‘ (مجمع الزوائد) اور اس فراست کا علمِ حق کی صفت کے ساتھ مستند ہونا اس مسئلہ مسلّمہ پر مبنی ہونا ہے کہ بندے کی صفات حق کی صفات کی مظہر ہیں۔ اور ظاہر و مظہر میں ایک تناسب ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے۔ ’’قَالَ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: اِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالىٰ قَالَ: يَا عِيسٰى اِنِّي بَاعِثٌ مِنْ بَعْدِكَ اُمَّةً اِذَا اَصَابَهُمْ مَا يُحِبُّونَ حَمِدُوا اللهَ وَ اِنْ اَصَابَهُمْ مَا يَكْرَهُونَ احْتَسَبُوْا وَ صَبَرُوْا، وَ لَا حِلْمَ وَ لَا عَقْلَ، فَقَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ يُكُونُ هَذَا لَهُمْ وَ لَا حِلْمٌ وَ لَا عَقْلٌَ؟ قَالَ: اُعْطِيْهِمْ مِنْ حِلْمِیْ وَعِلْمِیْ‘‘ ”رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے الله تعالیٰ سے یہ قول نقل فرمایا کہ الله تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ارشاد کیا۔ کہا اے عیسیٰ میں تمہارے بعد ایک ایسی اُمّت پیدا کرنے والا ہوں کہ جب ان کو کوئی ایسا واقعہ پیش گا آئے جو ان کو ناگوار ہو۔ تو امیدِ ثواب رکھیں گے اور صبر کریں گے۔ حالانکہ (شدتِ غم سے) نہ (ان کی) بردباری (قائم) ہو گی اور نہ عقل۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ اے میرے پروردگار یہ ان سے کیونکر ہوگا حالانکہ نہ بردباری ہو گی اور نہ عقل۔ فرمایا۔ میں ان کو اپنے حلم و علم میں سے کچھ حصہ دے دوں گا۔“ (شعب الإيمان، بیہقی اس فراست کی صحت شب و روز خاص عباد میں مُشاہَد ہے۔ اور کسی جگہ تخلّف ہو جانا اس کی کلّیت کا قادِح نہیں۔ کیونکہ وہ ارتفاعِ عوارض کے ساتھ مشروط ہے۔ اور چونکہ عوارض غیرِ صاحبِ وحی میں ہر وقت محتمل ہیں اس لیے یہ فراست حجتِ شرعیہ نہیں۔ اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح یہ واقعات میں جاری ہے اُسی طرح احکامِ شرعیہ غیر ظاہرة الدلیل میں بھی۔ ’’كَمَا قَالَ عَلَيهِ السَّلَام: اِلْاِثْمُ مَا حَاكَ فِیْ صَدْرِكَ۔۔۔ وَ قَالَ عَلَيهِ السَّلَامُ اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ‘‘ (مسند احمد) (کلید) آگے شعر: "ہر کراہت الخ" اس کی دلیل ہے کہ ایسا احساس انسان میں ہونے پر کیا تعجب ہے۔ بعض اوقات حق تعالیٰ جانوروں کو بھی یہ احساس دے دیتا ہے:

20

امتناعِ پیل از سیراں بہ بَیت با جِدِّ آں پیلباں و بانگِ ہَیت

ترکیب: ’’امتناعِ پیل الخ‘‘ یا تو مبتدا ہے جس کی خبر محذوف ہے۔ یعنی امتناعِ پیل دلیلِ براں ست یا یہ خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ یعنی دلیلِ آں امتناعِ پیل ست۔

ترجمہ۔ (چنانچہ ابرہہ الاشرم کے قصّے میں) ہاتھی کا فیلبان کی کوشش اور چلا آ (چلا آ) پکارنے کے با وجود کعبہ کی طرف چلنے سے رُک جانا (اس کی دلیل ہے)۔

مطلب: یہ اصحابِ فیل کے قصّے کی طرف اشارہ ہے۔ جس کا ذکر سورۃ الفیل میں آیا ہے۔ اور مفتاح العلوم حصہ پنجم و ہشتم میں اس کی تفصیلات درج ہو چکی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ یہ ابرہہ الاشرم نے کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کے لیے ایک فوج اور بہت سے کوہ پیکر ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کیا، سب سے بڑا ہاتھی جس کا نام محمود تھا سب سے پہلے کعبہ کی دیوار پر ٹکر مارنے کے لیے مامور تھا۔ مگر جب اس کے کام کا وقت آیا تو یہ ہاتھی کچھ ایسا جم کر بیٹھا کہ نہ فیلبانوں کا اس کو ہانکنا، پکارنا، چلّانا اپنی جگہ سے ہلاتا تھا اور نہ آنکس پر آنکس کا مارنا اس پر مؤثر ہوتا تھا۔ چنانچہ:

21

جانبِ کعبہ نرفتے پائے پیل با ہمہ لت نے کثیر و نے قلیل

ترجمه: (لاتوں پر) لاتیں مارنے کے باوجود ہاتھی کے پاؤں کعبہ کی طرف نہ تھوڑا نہ بہت (بالکل) نہیں چلتا تھا۔

22

گفتی خود خشک شد پاہائے اُو یا بمُرد آں جانِ ہَول افزاۓ اُو

ترجمہ :۔ (وہ اس طرح ڈھئی دے کر بیٹھ گیا۔ کہ) تم کہو اس کے (چاروں) پاؤں خشک ہو گئے یا اس کی وہ جان جو (دیکھنے والوں کا) خوف بڑھاتی تھی فنا ہو گئی۔

23

چونکہ کردندے سرش سُوئے یمن پیلِ نر دو اسپہ گشتے گام زن

ترجمہ: جب اس کا رخ یمن کی طرف کرتے (جہاں سے وہ لایا گیا تھا) تو وہ نر ہاتھی (نہایت تیزی سے) چلنے لگتا۔

24

حِسِّ پیل از زخمِ غیب آگاه بُود چُوں بود حسِّ ولیِّ با وَرُود

ترجمہ:۔ (خیال کرو۔ کہ جب ایک) ہاتھی کی حسّ غیب کے اثر سے باخبر تھی تو ایک صاحبِ واردات کی حسّ کیا کچھ ہوگی۔

25

نے کہ یعقوبِؑ نبی گفت آں زماں کہ ازو جستند یوسفؑ را نہاں

ترجمہ: (دیکھیے) کیا حضرت یعقوب نبی علیہ السلام نے اس وقت جبکہ ان سے (ان کے بیٹوں نے اپنے بھائی) یوسف علیہ السلام کو (ایک) خفیہ (غرض سے) مانگا، انہیں کہہ (نہیں) دیا (کہ مجھے ان کے جانے کا غم محسوس ہوتا ہے)

26

نے کہ یعقوبِؑ نبی آں پاک خُو بہرِ یُوسفؑ با ہمہ اخوانِ اُو

ترجمہ: کیا یہ بات نہیں ہوئی کہ ان یعقوب نبیِ پاک خُو علیہ السّلام نے یوسف علیہ السّلام کے بارہ میں ان کے سب بھائیوں سے (وہ بات کہہ دی جو آگے آتی ہے)

27

از پدر چوں خواستند آں دادراں تا برندش سُوے صحرا یک زماں

ترجمہ:- جب ان بھائیوں نے (یوسف علیہ السلام کو) باپ سے مانگا تاکہ ان کو کُچھ دیر کے لیے جنگل کی طرف لے جائیں۔

28

جملہ گفتندش میندیش از ضرر یک دو روزش مہلتے دہ اَے پدر

ترجمہ: سب نے ان سے کہا کہ آپ ضرر (و تکلیف) سے اندیشہ نہ کیجئے ابا جان! ایک دو روز ان کومہلت دے دیجئے۔

29

تو چرا ما را نہ پنداری امین یوسفِؑ خود نسپری با حافظین

ترجمہ: آپ ہم کو دیانت دار کیوں نہیں سمجھتے (کہ) اپنے (پیارے) یوسف کو (ہم) محافظوں کے سپرد نہیں کرتے ﴿مَا لَك لَا تَاْمَنَّا عَلىٰ يُوسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنَاصِحُونَ ۔۔۔ (یوسف: 11)

30

تا بہم در مرجہا بازی کنیم ما دریں دعوت امین و محسنیم

ترجمہ: تاکہ ہم سبنره زاروں میں کھیلیں کودیں۔ ہم اس درخواست میں امانت دار اور نیک معاملہ ہیں ﴿اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَ یَلْعَبْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (یوسف: 12)

31

گفت ایں دانم کہ نقلش از برم مے فروزد در دلم رنج و سقم

ترجمہ: انہوں نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ ان کا میرے پاس سے لے جانا میرے دل میں رنج اورکلفت کو بھڑکاتا ہے۔ ﴿قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْۤ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَ اَخَافُ اَنْ یَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَ اَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ (یوسف: 13)

32

ایں دلم ہرگز نمے گوید دروغ کہ ز نورِ عرش دل دارد فروغ

ترجمہ: میرا یہ دل ہرگز غلط نہیں کہتا۔ کیونکہ (یہ) دل عرش کے نور سے روشنی رکھتا ہے۔

رفعِ اشتباہ: کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارہ میں جو یعقوب علیہ السلام نے یہ کہا کہ مجھے خوف ہے کہ اس کو بھیڑیا کھا جائے گا ان کا وہ خیالِ دل تو غلط ثابت ہوا۔ جواب یہ ہے کہ ان کے قلب کو اجمالاً اسی قدر منکشف ہوا تھا کہ کوئی آفت آئے گی۔ اور یہ کشف صیحیح تھا۔ باقی اس آفت کی تعیین منکشف نہ ہوئی تھی۔ اس کو رائے سے بطور احتمال ظاہر فرما دیا۔ اور رائے کا غلط ہو جانا مضر نہیں اور اسی طرح تمام قصۂ یوسفی میں جو خیال یعقوب علیہ السلام کے صحیح ہوئے وہ کشف تھا۔ اور جو صحیح نہیں ہوئے وہ ظن کے درجہ میں رہے اور پھر اجمال کے درجہ میں وہ بھی کشف تھا اور اس درجہ میں ایک بھی غلط نہیں نکلا۔ اور گو کشف و فراست کے خلاف واقع ہونا بوجہ اس کے ظنی ہونے کے ممکن ہے، مگر یعقوب علیہ السلام صاحبِ وحی ہیں۔ اور ظاہر یہی ہے کہ ان کی کشف و فراست مستعد الی الوحی ہے۔ اس لیے اس کو ظنی کہنا زیبا نہیں۔ چنانچہ آگے مولانا بھی اس کو دلیلِ قاطع کہہ رہے ہیں۔ (کلید):۔

33

آں دلیلِ قاطعی بُد بر فساد از قضا او را نکرد او اعتداد

ترجمہ: (ان کے دل کا حزن) خرابی (واقع ہونے) کی قطعی دلیل تھا۔ (لیکن) قضا کے سبب انہوں نے اس کو معتد بہ نہ سمجھا (یعنی وہ حزن گو اعتقادًا دلیلِ خرابی تھا مگر بمقتضائے تقدیر انہوں نے اس کو ملحوظ رکھنے کی پروا نہیں کی)۔

34

درگزشت از وَے نشانے آنچناں کہ قضا در فلسفہ بود آں زماں

ترجمہ: (اس لیے) وه بڑی دلیل جو ایسی (قطعی) تھی ان (کے عمل میں آنے) سے فوت ہو گئی، کیوں کہ قضا اس وقت (اپنی) حکمت میں تھی۔

مطلب: یہ ایک سوالِ مقدّر کا جواب ہے۔ یعنی کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ حزن فتنہ کی دلیل تھا پھر یوسف علیہ السلام کو کیوں ان کے بھائیوں کے ساتھ بھیجا؟ اس کا جواب یوں دیا ہے کہ بے شک دلیل وقوعِ فتنہ پر قطعی تھی۔ لیکن اس وقت قضائے الٰہی نے یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں بند کر دیں اس لیے انہوں نے اس کی چنداں پروا نہ کی اور وہ دلیلِ قطعی ان کے دل سے جاتی رہی، کیونکہ قضا اس واقعہ سے بعض حکمتوں کو ظہور میں لانا چاہتی تھی۔ (بحر) یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ جب وہ نشان قطعی تھا تو اس کو معتد بہ قرار نہ دینا حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ان کو صرف حادثہ کا وقوع منکشف ہوا تھا، سو انہوں نے صرف وقوع کو غیر معتد بہ سمجھا۔ اور یہ حکم ان پر نازل نہیں ہوا۔ اس لیے وہ منکشف بھی نہیں ہوا کہ اس کشف پر عمل کرو اور یوسف علیہ السلام کو جانے نہ دو۔ اس لیے عمل کو غیر معتد بہ اور غیر مہتم بالشان سمجھنا جائز تھا۔ بلکہ جب قضا کا تعلق اس واقعہ سے مع اس کی حکمت کے منکشف ہوا اور ساتھ ہی ارسالِ یوسف کے بارے میں کوئی نہی وارد بھی نہیں ہوئی تو رضا یا قضا کا مقتضٰی یہی عدمِ اعتداد بالکشف بدرجۂ عمل تھا۔ (کلید)

35

ایں عجب نبود کہ کور افتاد بچاه بوالعجب افتادنِ بینائے راه

ترجمہ: یہ (بات) عجیب نہیں کہ (کوئی) نابینا کنویں میں گر جائے بڑا تعجب (کا باعث) تو راستے کو دیکھنے والے کا گرنا ہے۔

انتباہ: یہ واضح رہے کہ یہ تعجب محض ظاہرًا ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ بھی تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ یہ گرنا کسی غفلت یا نادانی سے واقع نہیں ہوا۔ بلکہ اس بینائے راہ کو یہاں اپنے سامنے کنواں نظر آیا وہاں بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ میرا یہ گرنا رضائے مشیت کا مقتضا ہے۔ اس لیے اس میں وہ قصدًا گر پڑا کہ:

ضَرْبُ الْحبِيبِ لِلْعَاشِقِينَ رَبِیْبٗ وَالرِّضَاءُ بِالقَضَاءِ لِعَارِفِينَ نَصيْبٗ

امیر خسروؒ ؎

اے باد اگر برائے سیر آوردۂ پیام بارے دگر بگو سر من کو زبانِ کیست

آگے بھی اسی تعجب باعتبارِ ظاہر پر تفریع ہے:

36

ایں قضا را گونہ گوں تصریفہا ست چشم بندش يَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَا ست

ترجمہ:۔ اس قضائے الہی کے طرح طرح کے تصرفات ہیں۔ اس کا (لوگوں کی) آنکھیں بند کرنا مشیتِ الٰہیہ کے (تقاضے) سے ہے۔

37

ہم بداند ہم نداند دل فنش موم گردد بہرِ آں مہر آہنش

ترجمہ: (وہ چشم بندی یوں ہے۔ کہ اس عارف صاحبِ کشف کا) دل اس (قضا) کے فن (و تدبیر) جانتا بھی ہے اور نہیں بھی جانتا (اس لیے) اس (قضا) کے مہر لگانے کے لیے اس (کے قلب) کا لوہا موم بن جاتا ہے۔

مطلب:۔ وہ عارف مرتبۂ عِلم و اعتقاد میں ان حوادث کو جانتا ہے۔ اور ان سے گریز و پرہیز کو مرتبۂ عمل میں نہ لانے کے لحاظ سے گویا نہیں جانتا۔ بس "نداند" کا مطلب "عمل نمی کرد" ہے۔ اسی کو اوپر "چشم بند" اور اسی کو "تصریفہائے گونہ گوں" کہا ہے۔ مگر یہ چشم بند باعتبار ظاہر کے ہے۔ ورنہ وہ تو جاننے کے بعد تسلیم و تفویض کرتا ہے۔ "آہن قلب" سے مراد قلبِ قوی ہے، جو حوادث سے متاثر نہ ہو۔ اور وہ اہلِ تمکین کا قلب ہے۔ (کلید)

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

دل روشن از انقلاب است ایں زِ طوفانِ خطر آب گوھر دارد

دامن تر نکند تیره دلِ روشن را تیغِ خورشید زِ زنگار چہ پردا دارد

غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

فارغ بود از آفتِ گیتی دلِ روشن از برق زیانے نرسد خرمنِ سر را

مطلب: یہ کہ جو قلب حادثے سے متاثر نہ ہونے میں بمنزلہ فولاد ہے، وہ حکمِ تقدیر کے آگے موم کی طرح نرم ہو جاتا ہے۔ اور اسے خوشی خوشی قبول کر لیتا ہے۔ آگے اس "موم گردد" کی مزید تشریح فرماتے ہیں۔

38

گوئیا دل گوید اے کہ میلِ او چوں وزیں شد ہرچہ باشد باش گو

ترجمہ: گویا (وہ) قلبِ مذکور (اپنے آپ کو) کہتا ہے کہ اے (شخص) جب اس (محجوب حقیقی) کا میلان اسی میں ہے تو پھر جو کچھ بھی ہوتا ہے ہونے دو۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎

عاشقی دامنِ او بگیر دگر گویدت جان بدہ گو بگیر

بہشتِ تن آسانی آنگہ خوری کہ بر دوزخ نیستی بگذری

39

خویش را ہم زیں مغفّل میکند در عقالش جاں معقّل میکند

ترجمہ: وہ (تسلیم و رضا کے سبب سے) اپنے آپ کو اس (احساسِ بلا) سے انجان (اور بھولا بھالا) بھی بنا لیتا ہے (اور) اس (قضا) کی رسّی میں (اپنی) جان کو مقیّد کر لیتا ہے۔

سعدی ؎

جنگ از طرفِ دوست دل آزار نباشد یارے کہ تحمّل نکند یار نباشد

40

گر شود مات اندریں آں بوالعلا آں نباشد مات باشد ابتلا

ترجمہ: اگرچہ (بظاہر) وہ (عارف) صاحبِ مرتبۂ عالیہ اس (معاملہ) میں پست (ہمتی کی وجہ سے تارکِ تدبیر) ہوتا ہے (مگر حقیقت میں) وہ (اس کی) پست (ہمتی) نہیں (بلکہ خدا کی طرف سے عطائے ترقی کے لیے ایک) امتحان ہوتا ہے۔

41

یک بلا از صد بلایش وا خرد یک ہبوطش بر معارجہا برد

ترجمہ: (یہ) ایک بلا اس کو سو بلاؤں سے چھڑا دیتی ہے (اور اس کا یہ) ایک (ظاہری) تنزّل اس کو مراتبِ عالیہ پر لے جاتا ہے (یعنی رضا بالقضا سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور صبر کا اجر جُدا ملتا ہے)

42

خام شوخے کہ رہانیدش مدام از خمارِ صد ہزاراں زشت خام

43

عاقبتِ او پختہ و استاد شد جَست از رقِّ جہاں آزاد شد

ترجمہ: وہ عاشق ناقص (بھی) جس کو (عشقِ الٰہی کی) شراب نے لاکھوں ہوّے (اور) ناقص (خیالات) کے نشے سے چھڑا دیا تھا (جب اس نے صبر و رضا اختیار کیا تو) انجامِ کار وہ کامل اور مکمل بن گیا۔ دُنیا کی غلامی سے نکل گیا اور آزاد ہو گیا۔

مطلب: عاشقِ حق ابتدائے عشق ہی سے تمام رذائلِ اخلاق سے یکسو ہو جاتا ہے۔ مصائبِ عشق کے تحمّل کے ساتھ، جو اس کے لیے بمنزلۂ ریاضت ہے، وہ مبتدی سے منتہی بنتا جاتا ہے۔ یعنی اہلِ حال سے صاحبِ مقام بن جاتا ہے۔ پہلے مرید تھا اب مسندِ ارشاد پر جگہ پاتا ہے اور غیر اللہ کے خیال سے رستگار ہو کر توحیدِ حق کو مطمحِ نظر بناتا ہے۔ غرض تسلیم و رضا کے یہ ثمرات ہیں۔ آگے بھی اس اہلِ رضا کی حالت مذکور ہے:

44

از شرابِ لایزالی گشت مست شد ممّیز از خلائق باز رست

45

ز اعتقادِ سست پُر تقليدِ شاں وز خیالِ دیدهٔ بے دیدِ شاں

ترکیب: دوسرے شعر میں "اعتقاد اور وز خیال" جادو بھرے ہیں۔ اور پہلے شعر کے آخری کلمہ "باز رَست" سے متعلق ہیں۔

ترجمہ: وہ شرابِ لایزالی سے مست ہو گیا۔ (اور اس صفت میں) مخلوقات سے ممتاز ہو گیا۔ اور ان (مخلوقات) کی ضعیف الاعتقادی سے، جو پابندیِ رسم سے پُر ہے۔ اور ان کی چشمِ بے بصیرت کی نمائشی شکلوں سے نجات پا گیا۔

انتباه: مولانا کے سلسلۂ کلام پر ایک نظر ڈالیں "اور موش کی درخواست پر چغز کا ماتھا ٹھنکا" تو اس سے یہ تقریر چھڑ گئی کہ روشن ضمیر آدمی کے دل میں جو ناپسندیدگی کسی بات پر ہو وہ بے معنیٰ نہیں ہوتی۔ اس سے فیلِ محمود کا واقعہ اور پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کا قصّہ بطور مثال پیش فرمایا جنہوں نے برادرانِ یوسف کی درخواست سنتے ہی کہا تھا کہ "اِنِّی لَیَحْزُنُنِیْ" مگر اس کے باوجود پھر جو انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیج دیا، تو اس کے متعلق مولانا نے فرمایا کہ یہ ایک تصرّفِ غیب تھا۔ اس سے تصرّفاتِ غیب کا بیان شروع ہو گیا، جس کے ضمن میں یہ ارشاد فرمایا کہ ان تصرّفاتِ غیب پر رضا و تسلیم سے کام لینے والا مردِ خدا باطنی ترقیات حاصل کرتا ہے۔ اس ضمنی ارشاد کے بعد اب پھر ان تصرّفات کا ذکر فرماتے ہیں۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ یہاں تک تصرّفاتِ قضا کے وہ مصالح مذکور ہوئے جو راجع الى الدّین تھے۔ آگے تصرفاتِ قضا کے وہ مصالح مذکور ہوتے ہیں جو راجع الی الدنیا ہیں۔ جس کا اوپر ذکر تھا۔ یہاں اگلے بیان سے یہ مقصود نہیں کہ ان تصرفات سے آخرکار تفویض سے بھی ترقی ہوتی ہے (انتہٰی)۔

46

اے عجب چہ فن زند ادراکِ شاں پیشِ جزر و مدِّ بحرِ بے نشاں

ترجمہ: بڑی حیرت (کا مقام ہے کہ عام لوگ اوّل تو تصرفاتِ غیب کا اداراک ہی نہیں کر سکتے۔ اگر کر بھی لیں تو ان کا ادراک (ان تصرفات کے) دریائے بے نشاں کے اُتار چڑھاؤ کے آگے کیا تیر مار سکتا ہے۔

مطلب: عالمِ غیب سے جو تصرفاتِ قضا کا سلسلہ چلتا ہے تو مخلوق اس کے آگے بالکل بے بس ہے۔ آگے اس بحرِ بے نشان کے جزر و مدّ یعنی تصرفاتِ قضا کی بعض جزئیات کا ذکر فرماتے ہیں:

47

زاں بیاباں ایں عمارتہا رسید ملک و شاہی و وزارتہا رسید

ترجمہ: یہ (عالمِ شہادت کی تمام) عمارتیں اسی صحرائے عالمِ غیب) سے پہنچتی ہیں۔ سلطنت و بادشاہی اور وزارتیں (بھی اسی مقام سے) پہنچتی ہیں۔

48

زاں بیابانِ عدم مستانِ شوق میرسند اندر شہادت جَوق جَوق

ترجمہ: اس (عالمِ غیب کے) صحرائے عدمِ شوق کے مست گروہ در گروہ (عالمِ) شہادت میں پہنچ رہے ہیں۔

مطلب: گوناگوں مخلوقات عالمِ عدم سے دُنیا میں پَیدا ہوتی جا رہی ہے۔ یہ مخلوقات جو لگا تار اور بلا تاخیر اور بلا توقف پیدا ہو رہی ہے تو گویا اسے قدرت کے حکمِ تکوینی کی اشاعت کا نہایت شوق تھا۔ اور وہ حکم ملتے ہی فورًا پیدا ہو جانے کے لیے آمادہ تھی اس لیے اس کو مستانِ شوق کا لقب بخشا ہے۔

49

کارواں بر کارواں زیں بادیہ مے رسد در ہر مسا و غادیہ

ترجمہ: اس (عالمِ غیب کے) جنگل سے ہر صبح و شام قافلہ پر قافلہ پہنچ رہا ہے۔

عبرت: دنیا کی مثال ایک مسافرخانہ یا ایک ریلوے سٹیشن کی سی ہے۔ جہاں صبح و شام مسافروں کی ایک جماعت کے آنے اور دوسرے جماعت کے کوچ کر جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بقول شاعرِ پنجابی ؎

ایہہ جگ سرائے مسافراں دی اک آوندا تے اک جاوندا اے

ایک قافلہ موالیدِ دنیا میں آتا ہے اور اپنے عمل و دخل کے سلسلے پھیلاتا ہے تو اُدھر پہلا قافلہ جو اپنے عمل و دخل کی میعاد پوری کر چکا ہے، یہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت رفت و منزل بدیگرے پرداخت

آج سے دو سال پہلے اس عاجز کے گھر میں بفضلِ ایزدی پہلا پوتا "صلاح الدین اعظم" پیدا ہوا تو ہر طرف سے مبارک سلامت کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے کہا، بلاشبہ سلسلۂ نام و نسب کے اس نئے علمبردار کی آمد ایک بڑی دنیوی مراد مندی ہے۔ فالحمد لِلہِ ثمّ الحمد لله! مگر ذرا گہری نظر سے دیکھو تو اب ان لوگوں کا آنا ہم لوگوں کے کوچ کا پیغام ہے۔ جو بزبانِ حال یہ کہتے آرہے ہیں کہ آپ اپنی نوبت پوری کر چکے، اب ہماری نوبت ہے۔ اب یہ گھر، یہ اثاثۃ البیت، یہ جائیداد یہ تمام مشاغل ہمارے لیے ہیں اور آپ کے لیے الوداع آ گیا۔ عجیب توارد ہے کہ اس وقت جو بات میری زبان پر اتفاقاً آ گئی تھی۔ آج مولانا کے کلام سے اس کی تصدیق ہو رہی ہے۔ فرماتے ہیں:

50

آید و گیرد وثاقِ ما گرو کہ رسیدم، نوبتِ ما شد، تو رَو

ترجمہ: وہ (پوتوں پڑپوتوں کا نو وارد قافلہ) آتا ہے۔ اور ہمارے گھر کو (اپنے) قبضے میں لے لیتا ہے (اور بزبانِ حال کہتا ہے) کہ میں آپہنچا ہوں، (اب) ہماری باری ہے، تم جاؤ۔

51

چُوں پسر چشمِ خرد را وا کشاد زود بابا رخت بر گردوں نہاد

ترجمہ: جب پوتے نے ہوش کی آنکھ کھول لی تو فورًا دادا نے عالمِ بالا پر ڈیرا جا لگایا۔

انتباہ: پسر کا ترجمہ پوتا اور بابا کا ترجمہ دادا اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ بیٹے کی جوانی تک عموماً باپ اس قدر مضمحل و ضیعف نہیں ہوتا کہ اس پر قریبِ موت ہونے کا اکثری قاعده اطلاق پا سکے۔ یہ بات دادے پر ہی صادق آ سکتی ہے۔

 

52

جادهٔ شاه ست آں زیں سُو رواں واں ازاں سُو صادراں و وارداں

ترجمہ: ایک بڑی سڑک ہے۔ (جس میں) ایک ادھر سے (اُدھر) جا رہا ہے۔ اور دوسرے اُدھر سے (اِدھر) آ رہا ہے تو کچھ جانے والے ہیں اور (کچھ) آنے والے۔

53

نیک بنگر ما نشستہ می رویم مے نہ بینی قاصدِ جائے نویم

ترجمہ: خوب (غور سے) دیکھ لو (کہ) ہم بیٹھے بیٹھے چل رہے ہیں۔ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم ایک نئی جگہ کا قصد کرنے والے ہیں۔

مطلب: بیٹھے بیٹھے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو یومًا فیومًا عالمِ دنیا سے عالمِ عقبٰی کی منزل سے قریب ہوتے جا رہے ہیں تو یہ حرکت فی المکان نہیں بلکہ فی الزمان ہے۔ یعنی جوں جوں عمر گزرتی جاتی ہے۔ موت قریب آ رہی ہے۔ ہم پاؤں سے چل کر موت کی طرف نہیں جا رہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

مے برد قامتِ خم رُوبا جلِ پیراں را ایں گمانے ست کہ چوں تیرِ سبک جولاں مست

54

بہر حالے مے نگیری راسِ مال بلکہ از بہرِ غرضہا در مآل

ترجمہ: (دنیاوی تجارت میں تمہارا دستور ہے کہ) ہم راس المال (کی رقم) کو موجودہ ضروریات (پر صرف کرنے) لیے نہیں لیتے۔ بلکہ (منافع کی ان) اغراض کے لیے (لیتے ہیں جو) آخر میں (بطورِ نتیجہ ظاہر ہوتی ہے۔)

مطلب: تجارت پیشہ آدمی راس المال میں جو تصرف کرتا ہے تو اس سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس کو اپنی مالی ضروریات پر صرف کر ڈالے۔ بلکہ اس تصرف سے اس کو فوائد و منافع مدِّنظر ہوتے ہیں جو اس سے مستقبل میں حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح تم جو دنیا میں زندگی کا راس المال لے کر آئے ہو تو اس سے یہ مقصود نہیں کہ اس حیاتِ مستعار کو دنیا کے موجودہ لذائذِ اکل و شرب وغیرہ پر صرف کر دو۔ بلکہ تمہیں چاہیے کہ اس کو اعمالِ صالحہ کی بجا آوری میں صرف کرو تاکہ اس سے آخرت میں اجر و ثواب کا نفع اٹھاؤ۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ؎

سو برگِ تسلّی ز نخلِ ہستیِ خویش بکوش میوۂ ایں شاخسار را دریاب

غمِ بے حاصلی خویش نخوردی یکبار چند در فکرِ زمیں در غم حاصل باشی

55

پس مسافر آں بودے اے رَه پرست کہ مسیر و رُوش در مستقبل ست

ترجمہ: پس اے ابن السبیل! (ہوشمند) مسافر وہی ہے جس کی سیر اور توجہ مستقبل کی طرف ہو۔

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہشت در قدمِ مردِ عاقبت بیں ست کسیکہ رُو بقضا مے رود قضا نخورد

انتباہ: یہاں تک عالمِ غیب اور عالمِ شہادت کی ان اشیاء کے ورود و صدور کا ذکر تھا جن کو یہاں سے جانے کے بعد پھر آنا نہیں ہوتا۔ آگے ایسی اشیائے صدور و ورود کا ذکر ہے جن کو صدور و ذہاب کے بعد پھر یہی اکثر ورود و ایاب ہو جاتا ہے اور یہ ورود و صدورِ سابق سے زیادہ عجیب ہے۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ اصلی اشیاء موجوداتِ خارجیہ ہیں جو خارج سے معدوم ہونے کے بعد عادتِ الٰہیّہ کے مطابق اس عالم میں پھر عود نہیں کر سکتیں۔ اور یہ اشیاء موجوداتِ ذہنیہ ہیں۔ان کا عود عادتِ الٰہیہ کے خلاف نہیں (کلید)۔

56

ہمچناں کز پردهٔ دل بے کلال دم بدم در میرسد خیلِ خیال

ترجمہ: جس طرح پردۂ دل سے دم بدم سوارانِ خیال بے تکلف (قلبِ صنوبری کی طرف) پہنچا کرتے ہیں۔

مطلب: قلبِ صنوبری یہ قلبِ ظاہری ہے جو ایک عضوِ لحمی ہر انسان کے شیشے میں موجود ہے۔ اور پردۂ دل کے لفظ میں دل سے قلبِ حقیقی مراد ہے جو ایک لطیفۂ مجردہ ہے اور موجوداتِ عالمِ غیب سے ہے۔ اسی لیے مولانا نے اس کو پردہ بمعنی "آنچہ در پرده باشد" سے تعبیر کیا ہے۔ مطلب یہ کہ قلب کے لطیفۂ مجردہ سے خیالاتِ عالیہ قلبِ ظاہری پر وارد ہوتے ہیں۔

57

گر نہ تصورات از یک مغزِ سند در پے ہم سوئے دل چوں میرسند

ترجمہ: اگر یہ تصورات (کے بوٹے پودے) ایک کیاری سے نہیں ہیں۔ تو پھر ایک دوسرے کے پیچھے قلب (صنوبری) میں کیوں چلے آ رہے ہیں (پس ان خیالات کا سلسلہ وار چلے آنا بتا رہا ہے کہ وہ ضرور پہلے کسی محل میں مجتمع تھے اور وہ محل لطیفۂ قلب کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا)۔

58

جُوق جُوق اسپاہِ تصویراتِ ما سوۓ چشمۂ دل شتاباں از ظما

ترجمہ: ہمارے تصورات کا لشکر گروه در گروه (اشتیاق کی) پیاس سے قلب کے چشمے کی طرف دوڑا آ رہا ہے۔ (یعنی ان خیالات کو امرِ تکوینی کے اتباع میں قلب پر وارد ہونے کا شوق ہے۔)

59

جرّہا پُر مے کنند و مے روند دائما پیدا و پنہاں مے شوند

ترجمہ: وہ (خیالات و تصورات) گھڑے بھر بھر کر (واپس) چلے جاتے ہیں اوراسی طرح ہمیشہ ظاہر اور غائب ہوتے ہیں۔

مطلب: ہر خیال جو دل پر وارد ہوتا ہے۔ اپنا خاص اثر ڈال کر غائب ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی خیال کسی خاص ارادہ پر آمادہ کر جاتا ہے۔ کوئی خیال کسی قسم کی تسلّی و دل جمعی بخش جاتا ہے۔ کوئی فکر و تشویش میں ڈال جاتا ہے وَ غَیْرَ ذٰلِکَ۔ اس کے اس اثر ڈالنے کو گھڑے بھرنے سے تعبیر کیا ہے۔ چشمے کی طرف پیاسا آنے کی مناسبت سے جو اوپر مذکور تھا۔

60

فکرہا را اخترانِ چرخ داں دائر اندر چرخِ دیگر آسماں

ترجمہ: (ان) افکار کو آسمان کے ستارے سمجھو۔ جو دوسرے آسمان (کے دائرے) میں دورہ کرتے ہیں (جس طرح آسمان میں ستارے کرتے ہیں اسی طرح قلب میں یہ خیال چکر لگاتے ہیں آگے بطورِ تفریع فرماتے ہیں):

61

سعد دیدی شکر کن ایثار کُن نحس دیدی صدقہ و استغفار کُن

ترجمہ: اگر تم نے (کوئی) مبارک ستارہ دیکھا تو شکر کرو (اور بطور شکرانہ دوسرے لوگوں کو) فائده پہنچاؤ۔ اگر منحوس ستاره دیکھا تو (ردِّ بلاء کے لیے) صدقہ دو اور استغفار کرو۔

مطلب: اگر دل میں کوئی نیک خیال گزرے جو اعمالِ صالح پر آمادہ کرے تو شکر کرو اور اس پر عمل کرو اور اگر بُرا خیال آئے جو گناہوں پر اکسائے تو اس سے بچو اور توبہ کرو۔ بُرے خیال اور وسوسہ کے دل میں آنے اور اس کے معاصی و جرائم پر آماده کرنے کے ذکر سے مولانا پر خوفِ حق طاری ہوتا ہے اس لیے آگے ایک مناجات میں برے خیالات و وساوس سے اللہ کی پناه مانگتے ہیں۔ اور چونکہ پیچھے خیالاتِ بد کا ذکر ستارہ نحس کے استعارہ میں کیا تھا، اس مناسبت سے اس مناجات میں بھی فلکیات کے استعارات استعمال فرمائے ہیں۔

62

ما کیئم ایں را بیا اے شاہِ من طالعم مقبل کن و چرخے بزن

ترجمہ: ہم اس (خیالاتِ سیئہ کے منحوس ستارے سے بچنے) کے لیے کیا (مقدور رکھتے) ہیں اَے میرے شاہ (حقیقی تعالیٰ) تو ہی توجہ فرما اور میرے طالع کو با اقبال کر دے۔ اور (ان خیالاتِ نحس کے ستارے کو) گردش دے (دگرگوں کردے)

63

روح را تاباں کُن از انوارِ ماه زاں کز آسيبِ ذنب شد جاں سیاه

ترجمہ: (میری) روح کو (پاک خیالات کے) چاند کی روشنی سے منور کر دے کیونکہ (خیالاتِ بد کا) صدمہ کسوف سے (یہ) جان (جو بمنزلۂ آفتاب بھی) تاریک ہو گئی۔

64

روح زاں نورِ مہ کُن ملتہب کہ سیاہ شد جانِ من ز آسیبِ تب

ترجمہ: (اس) روح کو (عقائدِ صحیحہ اور آراءِ حسنہ کے) چاند کے اس نور سے منور کر دے۔ کیونکہ میری رُوح (خیالاتِ غضبیہ وغیرہ کی) تپش کے صدمہ سے سیاہ ہو رہی ہے۔

65

از خیال و وہم و ظن بازش رہاں از چَہ و جورِ سِن بازش رہاں

ترجمہ: (باطل) خیال اور (فضول) وہم اور (غلط) گمان سے اس کو چھڑا دے کنویں (میں گرنے) اور (پھر اس سے نکلنے کے لیے) رسّی کی اذیت (سہنے) سے نجات دلا دے (نہ کنویں میں گروں اور نہ رسی میں جکڑ کر نکالا جاؤں۔ اسی طرح نہ بُرے خیالات دل میں آئیں نہ میں ان کا خمیازہ اٹھاؤں۔)

66

تا زِ دلداریِ خوبِ تو دلے پر برارد برپرّد زاب و گِلے

ترجمہ: تاکہ تیری اچھی دلداری سے ایک (عاجز بندے کا) دل (ہمت و مستعدی کے) پر نکالے (اور دنیا کے تعلقات مذمومہ کے) آب و گل سے اُڑ (کر نکل) جائے۔

67

اے عزیرِ مصرِ جانم دستگیر عذرِ ایں زندانیِ خود در پذیر

ترجمہ: اے میری روح (ملکِ) مصر کے بادشاہ (میری) دستگیری کر۔ اس اپنے قیدی کا عذر قبول کر۔

مطلب: حضرت یوسف علیہ سلام بعض بدنیّت عورتوں کی سازش سے قید میں ڈال دیے گئے تو کئی سال کے بعد شاہِ مصر کو ان کی مظلومی کی خبر ہوئی۔ جس کے بہانے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی براءت کا اظہار اور عورتوں نے اپنے قصور کا اقرار کیا، اور پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو باعزاز و اکرام قید خانے سے نکال کر ایک بڑے ملکی عہدے پرمقرر کیا گیا۔ یہاں روح کو حضرت یوسف علیہ السلام سے تشبیہ دی گئی ہے جو زندانِ بدن میں مقید ہے۔ اور حق تعالیٰ کو شاہِ مصر سے تشبیہ دی ہے۔ یعنی میری روح کو متقضیاتِ جسم کی قید سے نجات دلا۔

68

اے عزیزِ مصر در پیماں دُرست یوسفِ مظلوم در زندانِ تُست

ترجمہ: اے مصر (کائنات) کے (واحد) بادشاه جو سچّے عہد والا ہے ﴿وَ مَنْ اَوْفىٰ بِعَهْدِه مِنَ اللّٰهِ (التوبہ: 111) یوسفِ مظلوم تیرے (مقرر کرده) قید خانے میں ہے۔

مطلب: شاہِ مصر نے دستورِ حکومت کے مطابق مجرموں کے لیے قید خانہ بنا رکھا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام مجرم نہ تھے، مگر عورتوں کی سازش سے مجرمانہ حیثیت میں اس قید خانہ کے اندر ڈالے گئے۔ اس لیے وہ بادشاہ کے نہیں بلکہ عورتوں کے مظلوم تھے۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے اپنی قدرت و حکمت کی بنا پر روح کو جسم میں قید کیا۔ وہ نہیں چاہتا کہ روح کوئی مجرمانہ روش اختیار کرے بلکہ اس میں اس کی حکمت یہ ہے کہ بندے کا تعلق ہو۔ روح اس جسم کے ذریعہ اس دار العمل میں اعمالِ حسنہ کا ذخیرہ جمع کر لے۔ پس یہ تعلقِ روح بالجسم الله کی طرف سے کوئی ظلم نہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰه لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ (النساء: 40) اور اسی لیے شعر میں اس کو پیماں درست کہا ہے۔ بلکہ نفس و شیطان اس کو جسم کی مقتضیاتِ فاسدہ میں مبتلا کرتے ہیں۔ پس وہ انہی دونوں کا مظلوم ہے۔ خلاصہ یہ کہ روح کے لیے جسم کا قیدخانہ تو حق تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے۔ مگر ظلم اس پر نفس اور شیطان ہی کرتے ہیں۔ فافہم۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قید سے نکلنے کی صورت یوں ہوئی کہ بادشاہ نے ان دنوں ایک عجیب خواب دیکھا کہ سات لاغر گائیں سات موٹی گایوں کو کھا گئیں۔ اور سات خشک خوشوں نے سات سرسبز خوشوں سے مل کر ان کی سبنری زائل کر دی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر گوئی کے چرچے پہلے ہی سے پھیل رہے تھے۔ لوگوں نے بادشاہ سے عرض کیا کہ قید خانہ میں ایک عبرانی نوجوان ہے وہ اس کی تعبیر بتا سکتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلایا گیا تو انہوں نے بتایا۔ کہ سات موٹی گایوں اور سات سرسبز خوشوں کی تعبیر سات سال ہیں جن میں خوب پیداوار ہو گی۔ اس کے بعد سات سال کا قحط پڑے گا۔ وہ سات دبلی گائیں اور سات خشک خوشے ہیں۔ جن میں سابقہ سرسبزی سب فنا ہو جائے گی۔ اب اگلے اشعار کا مطلب صاف ہے جن میں اس قصّے کے استعارات میں بیانِ مدعا ہے۔

69

در خلاصِ او یکے خوابے ببین زود کَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْن

ترجمہ: (اے بادشاہِ حقیقی!) اس (یوسفِ مظلوم) کو (قید خانہ سے) خلاصی دلانے کے لیے جلدی ایک خواب دیکھ۔ کیونکہ اللہ نیک سلوک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

مطلب: خواب دیکھنے سے یہاں فی الواقع دیکھنے کی التجا مقصود نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی صورت پیدا کر کہ روح مقتضیاتِ جسم کی قید سے چھوٹ جائے جس طرح شاہِ مصر کا دیکھنا حضرت یوسف علیہ السلام کے قید سے نکلنے کا باعث بن گیا تھا۔

70

ہفت گاوے لاغرے و پُر گزند ہفت گاو فربہش را میخورند

ترجمہ: (اخلاقِ رذیلہ کی) سات دبلی اور پُر ضرر گائیں اس (روح کے اخلاقِ فاضلہ) کی سات موٹی گائیوں کو کھائے جاتی ہیں۔

71

ہفت خوشہ خشک زشت و ناپسند سنبلاتِ تازه اش را میچرند

ترجمہ: (احوالِ سیئہ کی) سات خشک اور بری اور نا پسند بالیں اس (روح کے احوالِ سیئہ) کی تازہ (و سرسبز) بالوں کو چرتی جاتی ہیں۔

72

قحط از مصرش برآمد اے عزیز ہیں مباش اے شاہ ایں را مستجیز

ترجمہ: اے بادشاہ اس (روح کے) مصر (وجود) سے (وداعی طاعات کا) قحط ظاہر ہوا ہے۔ ہاں اے بادشاہ! اس کو جائز نہ رکھ (بلکہ اس کے) ازالہ کی تدبیر ہونی چاہیے۔

73

یوسفم در حبسِ تو اے شہ نشاں ہیں ز دستانِ زنانم وا رہاں

ترجمہ: اے بادشاہ میں ایک یوسف تیری قید میں ہوں، ہاں! (ازراہِ کرم) ایک حکم (بھیج دے، اور) مجھے عورتوں کے مکر سے چھڑا دے۔

مطلب: یعنی مجھے دواعیِ نفس کے پنجے سے چھڑا دے۔ آگے فرماتے ہیں کہ یہی شہوتِ نفس میری روح کے مقیدِ جسم ہونے کا باعث ہوئی، اور اس کو ایک لطیفہ کے پیرایہ میں بیان فرماتے ہیں:۔

74

از سوئے عرشے کہ بودم مربطِ او شہوتِ ما درفگندم کہ اِھْبِطُوْا

ترجمہ: عرش (یعنی عالمِ علوی اور عالمِ ارواح) کی جانب سے جو میرا مسکن تھا مجھے میری شہوت نے (عالمِ سفلی میں) گرا دیا کہ (یہاں سے نیچے) اترو۔

75

پس فتادم زاں كمالِ مستتم از فنِ زالے بزندانِ رحم

ترجمہ: پس میں ایک بڑھیا کے (اپنے خاوند کے ساتھ) آمیزش کرنے سے اس کمالِ تام (یعنی سکونتِ عالمِ علوی) سے (محروم ہو کر) رِحم کے قید خانہ میں آ پڑا۔

76

روح را از عرش آرد در حطیم لا جَرَم کیدِ زناں باشد عظیم

ترجمہ: (بڑھیا کی وہ آمیزش) روح کو (مقرون بجسم کرنے کے لیے رِحم کے) ویران گھر میں اتار لاتی ہے۔ اس لیے یہ صحیح ہے کہ عورتوں کا مکر بلا کا ہوتا ہے۔

مطلب: یہ عزيرِ مصر کے اس قول کی طرف تلمیح ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے اور اس نے زلیخا کو اس وقت کہا تھا جب کہ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی اور زلیخا کی فتنہ پردازی آئینہ ہو گئی تھی کہ ﴿اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ (یوسف: 28) اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر فرمایا ہے

کیدِ زن دلِ مرداں را نیم ست زناں را کیدہائے بس عظیم ست

77

اول و آخر ہبوطِ من ز زن چونکہ بودم روح و چوں ہستم بدن

ترجمہ: میرا پہلا نزول (بہشت سے دنیا میں) جبکہ میں روح تھا اور دوسرا (نزول تعلق بہ بدن کی صورت میں) جب کہ میں بدن (بن گیا) ہوں عورت ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔

مطلب: پہلے نزول کے ذکر میں حضرت آدم علیہ السلام کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے مشہور ہے ان کو حوا علیها السلام نے گیہوں کھانے کی ترغیب دی تھی جو ان سب کے بہشتوں سے دنیا میں تنزّل کرنے کا باعث ہوا۔ تو گویا اس تنزّل کا باعث عورت ہی ہوئی اور حضرت آدم و حوا علیہما السلام کا یہ تنزّل تمام اولادِ آدم کے تنزّل کو متضمّن ہوا۔ اس لیے ہبوطِ آدم علیہ السلام کو "ہبوطِ من" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔

78

بشنو ایں زاریِ يوسفؑ در عثار یا براں یعقوبِؑ بیدل رحم آر

ترجمہ: يوسف (روح) کی یہ زاری (جو وہ) ٹھوکر کھانے میں (پریشان ہو کر، کر رہا ہے) سن لیجئے، یا اس یعقوبِ بیدل پر رحم کیجیے۔

مطلب: یعقوب سے مراد شیخِ مرشد ہے یعنی جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کے مربّی تھے اسی طرح شیخ بھی مرید کا مربّی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی اصلاح چاہتا ہے۔ جیسا مولانا اس مقام پر درخواست کر رہے ہیں۔ خواصِ عباد بھی اس کے لیے دعا و ہمت کیا کرتے ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ اگر میری درخواست بوجہ فقدانِ شرائط قابلِ قبول نہیں تو اپنے خاص بندوں کی دعا کی برکت سے ہی میری اصلاح فرمائیے۔ (کلید)

79

نالہ از اخواں کنم یا از زناں کہ فگندندم چو آدم از جناں

ترجمہ: میں بھائیوں (کے حسد) سے روؤں یا عورتوں (کے مکر) سے، جنہوں نے مجھے بہشت (فضائل) سے گرا (کر قعرِ رذائل میں ڈال) دیا۔

مطلب: اخوان سے دوامیِ غضب کی طرف اور زنان سے دوامیِ شہوت کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ دونوں ناپاک مذمات ہی انسان کو رذائل میں مبتلا کرتے اور اس کے روحانی تنزل کا باعث ہوتے ہیں۔

80

زاں مثالِ برگِ دے پژمرده ام کز بہشتِ وصل گندم خورده ام

ترجمہ: میں اس لیے موسمِ خزاں کے پتے کی طرح پژمردہ ہو رہا ہوں کہ میں نے وصل (و قرب) کی بہشت سے (جہاں روح کی مسرت و راحت کے بے حد اثمار و فوائد تھے میں نے بد قسمتی سے) گیہوں (کا شجرۂ ممنوعہ) کھا لیا۔

مطلب: یعنی میں نے بدقسمتی سے مشاغلِ طاعت میں دوامیِ معصیت کی پیروی اختیار کر لی، جس سے میری ترقی مبدّل بہ تنزّل ہوگئی۔ اب میں اسی حالتِ سابقہ کی طرف عود کرنے کا متمنّی ہوں۔ یہاں تک اپنی بدحالی کے ساتھ التجائے رحم تھی۔ آگے حضرتِ حق کے مدائح و محامد کا بیان اور اس کی عنایت کے خواص و آثار کا ذکر کرتے ہیں جو دعا کے آداب سے ہیں۔

81

چوں بدیدم لطف و اکرامِ ترا واں سلامِ سِلم و پیغامِ ترا

82

من سپند از چشمِ بد کردم پدید در سپندم نیز چشمِ بد رسید

ترجمہ: جب میں نے تیرے لطف و اکرام کو دیکھا (جس کا ہر وقت مشاہدہ ہوتا ہے) اور تیرے اس سلامِ صلاح (یعنی وعدۂ قبولِ توبہ) اور تیرے پیغام (دعوت بطرفِ دارالسلام) کو دیکھا تو میں نے چشمِ بد کو دفع کرنے کی غرض) سے سپند کو نکالا، (لیکن اس) سپند (جلانے) میں بھی مجھ کو نظرِ بد لگ گئی۔

مطلب: نظرِ بد کا اثر دور کرنے کے لیے عوام میں اسپند یعنی ہرمل جلانے کا رواج تھا۔ آج کل بھی جنات و آسیب کے دفع کرنے کے لیے تخمِ سپند جلائے جاتے ہیں۔ نظریۂ استعارہ ہے شرِ شیطان اور سپند سوختن استعارہ ہے استعاذه و استغفار و دفعِ شیطان سے۔ سپند میں نظرِ بد پہنچنے سے یہ مراد ہے کہ شیطان ان تدابیر میں بھی طرح طرح کی علمی و عملی غلطیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس اس کے شر سے بچنے کی بہترین تدبیر یہی ہے کہ تیری حفظ و حمایت کی پناہ حاصل کی جاوے۔ آگے یہی کہتے ہیں:

83

دافعِ ہر چشمِ بد از پیش و پس چشمہائے پُر خمارِ تُست و بس

ترجمہ: آگے اور پیچھے (ہر طرف) سے چشمِ بد کو دفع کرنے والی تیری ہی پُرخمار آنکھیں ہیں۔

مطلب: محبوب کی آنکھوں کا پُرخمار ہونا لوازمِ حِس سے سمجھا گیا ہے اور محبوبِ حقیقی کے لیے آنکھوں کا اثبات بطور صنعتِ مشاکلہ ہے۔ صفتِ مشاکلہ کی مثال یہ ہے جیسے کسی عربی شاعر کا شعر ہے ؎

قَالُوا اقْتَرِحْ شَيْئاً نُجِدْ لَکَ طَبْخَهٗ قُلْتُ اطْبَخُوْا جُبَّةً وَ قَمِيْصاً

یعنی ایک شخص جس کے پاس کپڑے نہیں تھے، کہتا ہے کہ مہمانداروں نے مجھ سے کہا تم کسی کھانے کی فرمائش کرو تو تمہارے لیے پکا دیں۔ میں نے کہا میرے لیے جبہ اور قمیص پکا دو۔ جس طرح یہاں طبخِ طعام کی مناسبت سے جبّہ و قمیص کے لیے طبخ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ورنہ مراد اس سے قطع کروانا اور سینا ہے۔ اسی طرح وہاں چشمِ بد کے ذکر کی مناسبت سے عنایتِ محبوبِ حقیقی کی تعبیر چشم کے لفظ سے کی اور محبوبِ حقیقی کے جمالِ بے مثال کی رعایت سے چشم کے لیے پُرخمار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ورنہ مراد اس سے نظرِ عنایت اور نگاهِ کرم ہے ﴿وَ اللّٰهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَاد (آل عمران: 15)۔ کیونکہ حق تعالیٰ شانہٗ اعتمادِ جوارح کی نسبت سے منزّہ ہے۔ فافہم۔

84

چشمِ بد را چشمِ نیکویت شہا مات و مستاصل کند نِعْمَ الدَّوَا

ترجمہ: اے شاہِ (خوباں) تیری چشمِ خوب چشمِ بد کو بے اثر و بے بنیاد بنا دیتی ہے (اور نظرِ بد کی) وہی اچھی دوا (ہے نہ کہ ہماری سپندِ تدابیر)۔

85

بل ز چشمت کیمیاہا مے رسد چشمِ بد را چشمِ نیکو مےکند

ترجمہ: بلکہ تیری چشمِ (عنایت دافعِ نظرِ بد ہونے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یعنی اس) سے کیمیا پہنچتی ہے۔ (اور کیمیا کی تفسیر یہ ہے کہ) وہ چشمِ بد کو چشمِ خوب بنا دیتی ہے۔

مطلب: جب حق تعالیٰ کی نظرِ عنایت ہوتی ہے تو شرِ شیطان بھی باعثِ خیر بن جاتا ہے۔

 ع خدا شرے بر انگیزد کہ خیرِ مادراں باشد۔

جیسے منقول ہے۔ تو شرِ شیطان سے نیند کا ایسا غلبہ ہوا کہ ان کی نمازِ تہجد فوت ہو گئی۔ اس فوتِ طاعت پر انہوں نے بکثرت توبہ و استغفار اور تضرع و ابتہال کیا اور اس سے ان کے مراتب میں وہ ترقی ہوئی جو بروقت ایک نمازِ تہجد پڑھ لینے میں متوقّع نہ تھی۔ اس طرح شیطان کا شر ان کے لیے ثمرِ خیر بن گیا۔ اگلے روز جب پھر تہجد کا وقت آیا تو شیطان ان کے پاؤں دبا دبا کر انہیں جگانے لگا۔ ان بزرگ نے پوچھا؟ یہ کیا بات ہے کہ تو شیطان ہو کر مجھے تہجد کے لیے جگاتا ہے۔ اس نے کہا کل آپ پر غفلت طاری کرنے کا نتیجہ میں دیکھ چکا ہوں جس سے مجھے بہت دکھ پہنچا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ فوتِ تہجد کی نوبت نہ آئے، اور نہ آپ کی توبہ و استغفار مزید ترقیِ مدارج کی باعث ہو۔

محبوبِ حقیقی کی نظرِ عنایت کی دو تاثیریں ہیں ایک ازالۂ شر، دوسری افادۂ خير- ازالۂ شر کی تاثیر کا ذکر اوپر کے تین شعروں میں ہو چکا۔ یعنی وہ شیطان کی نظرِ بد کی دافع بلکہ اس کو بری سے اچھی بنا دینے والی ہے۔ آگے اس کی افادہ خیر کی تاثیر کا ذکر آتا ہے۔ یعنی وہ نظرِ عنایت سالک کے قلب میں ہمت و بلند آہنگی پیدا کر دیتی ہے۔

86

چشمِ شہ بر چشمِ بازِ دل زدست چشمِ بازش سخت با ہمت شُدت

ترجمہ: شاهِ (حقیقی) کی چشم (کرم) نے بازِ قلب کی چشم پر اثر کیا ہے۔ (جس سے) اس (شاه) کے باز کی چشم نہایت باہمت ہو گئی۔

87

تا زِ بس ہمت کہ یابید از نظر مے نگیرد بازِ شہ جز شیرِ نر

ترجمہ: یہاں تک کہ غایتِ ہمت کے سبب جو اس نے نظر (شاہی) پائی ہے، بازِ شاہی سواۓ شیرِ نر کے کسی کو نہیں پکڑتا (یعنی عالمِ شہادت کی طرف التفات نہیں کرتا بلکہ عالمِ غیب کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ آگے اور ترقی ہے):

88

شیر چہ کاں شاہبازِ معنوی ہم شکارِ تست و ہم صیدش توئی

ترجمہ: شیر (کی) کیا (حقیقت ہے) بلکہ وہ (سالک تو جو) شاہبازِ معنوی (ہے) تیرا شکار بھی ہے اور تو اس کا شکار بھی ہے۔

مطلب: مدّعائے ترقی یہ ہے کہ وہ عالمِ غیب کی طرف جو التفات کرتا ہے تو وہ بھی بالذات نہیں کرتا بلکہ وہ التفات تیری طرف متوجہ ہونے کے ضمن میں ہوتا ہے۔ ”صیدش توئی“ کا لفظ جو قاعدۂ ادب سے ساقط معلوم ہوتا ہے، بطور مشاکلہ واقع ہو گیا جو ایک ادبی صنعت ہے۔ اور یہاں صید سے مراد مطلوب و محبوب اور مراد و مقصود ہے۔ اور ان دونوں شعروں کے مضمونوں میں تعارض نہ سمجھا جاۓ۔ کیونکہ عالمِ غیب کی طرف التفات کا اثبات بمقابلہ دنیا کے ہے اور اس کی طرف التفات کی نفی بمقابلہ حق تعالیٰ کے ہے۔ "ہم شکارِ تست و ہم صیدش توئی" کا حاصل ﴿يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗ (المائدۃ: 54) ہے۔ آگے اس شعر پر تفریع ہے۔

89

شد صفیرِ بازِ جاں در مرجِ دیں نعرہائے لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِيْن

ترجمہ: بازِ روح کی آواز دین کی چراگاه (یعنی شکار گاہ) میں یہ نعرے ہیں کہ میں نابود ہو جانے والوں کا طالب نہیں (یعنی کل ممکنات سے میں روگرداں ہوں)۔

90

بازِ دل را کز پئے تو مے پرّید از عطائے بیحدت چشمے رسید

ترجمہ: بازِ قلب کو جو تیرے لیے اڑ رہا تھا۔ تیری عطائے نامحدود سے ایک چشمِ (با بصیرت) حاصل ہو گئی (یعنی قلب کو جو تیری رضا کے لیے مجاہدہ کر رہا تھا دولتِ مشاہده حاصل ہو گئی)۔

91

یافت بینی بوئے و گوش از تو سماع ہر حسے را قسمتے آمد مُشاع

ترجمہ: (چشمِ با بصیرت کے علاوہ اس کی) ناک قوتِ شامہ اور کان نے تیری طرف سے قوتِ سامعہ حاصل کی (اور ان حواسِ مذکورہ میں سے) ہر حس کا حصہ (مدرکات) مشہور (اور معلوم) ہے۔

مطلب: باصرہ، سامعہ، شامہ، وغیرہ میں سے ہر حس کے مددگار عوام کے مدرکات سے الگ اور ممتاز ہیں۔ پس اہل اللہ کی کل قوتِ باصرہ مبصراتِ حقیقی کو دیکھتی ہے اور ان کی قوتِ سامعہ مسموعاتِ حقیقی کو سنتی ہے۔ اور مراد ان کے باصره و سامعہ سے وہ ہے جس کا ذکر اس حدیث میں ہے کہ "كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِهٖ، وَ بَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهٖ" (صحيح البخاري) حاصل یہ کہ ایسا شخص حق کے لیے دیکھنے والا اور حق کے ساتھ دیکھنے والا اور حق کے لیے سننے والا اور حق کے ساتھ سننے والا ہوتا ہے۔ جس کو فانی فی الحق اور باقی بالحق کہا جاتا ہے۔ آگے اسی بقا کا ذکر ہے۔

92

ہر حِسّے را چوں دہی رو سوئے غیب نبود آں حِسّ را فتورِ مرگ و شَیب

ترجمہ: جب تو کسی حس کو غیب کی طرف باریاب کرتا ہے تو اس حس کو موت اور بڑھاپے سے ضعف (عارض) نہیں ہوتا (کیونکہ وہ باقی ببقائے حق ہے)۔

93

مالک الملکی بحِسّ چیزے دہی تاکہ بر حِسہا کند آں حس شہی

ترجمہ: تو مالک الملک ہے۔ حِسّ کو ایسی چیز (یعنی ایسی خاصیت) دے دیتا ہے کہ وہ حِسّ (دوسرے لوگوں کے) حواس پر بادشاہی کرتی ہے۔

94

جہد کن تا حسِ تو بالا رَود تاکہ کارِ حِس ازاں بالا شود

ترجمہ (اے مخاطب!) تم کوشش کرو تاکہ تمہاری حس (درجۂ مذکورہ کی طرف) ترقی کرے تاکہ اس ترقی سے حِس کا کام عالی پایہ ہو جائے (آگے اس مضمون کی تائید میں کہ حِسّ میں ترقی ہونا مفید ہے، سلطان محمود کی حکایت ارشاد ہے:)