دفتر 6 حکایت 92: چوہے کا خوشامد اور زاری بے حد کرنا اور پانی کے مینڈک سے رابطہ چاہنا

دفتر ششم: حکایت: 92



مبالغه کردنِ موش در لابہ و زاری و وصلت جُستن از چغزِ آبی

چوہے کا خوشامد اور زاری بے حد کرنا اور پانی کے مینڈک سے رابطہ چاہنا

1

گفت اے یارِ عزیزِ مہرکار من ندارم بے رُخت یک دم قرار

ترجمہ: (چوہے نے) کہا اے یارِ عزیز، محبت کرنے والے! میں تیرے چہرے (کا دیدار کیے) بدون ایک دم قرار نہیں پا سکتا۔

2

روز نور و مکسَب و تابم توئی شب قرار و سلوت و خوابم توئی

ترجمہ: دن کو (جو روشنی میں اپنی طاقت سے کام لینے اور کمانے کا وقت ہے) میرا نور اور کمائی اور طاقت تو ہی ہے۔ (اور) رات کو (جو آرام لینے اور سونے کا وقت ہے)، میرا سکون و اطمینان اور خواب تو ہی ہے۔

3

از مروّت باشد ار شادم کنی وقت و بیوقت از کرم یادم کنی

ترجمہ: (یہ تیری) مروّت کی بات ہو گی اگر (کبھی میرے بلانے سے آ جایا کرے اور) مجھے خوش کر دیا کرے (اور) گاه بیگاہ مہربانی سے مجھے (بھی) یاد کر لیا (اور بلا لیا) کرے۔

4

در شباں روزے وظیفۂ چاشت گاه راتبہ کردی وصال اے نیک خواہ

ترجمہ: اے نیک خواہ! (بے شک میں تیرا ممنون ہوں کہ) رات دن میں ایک مرتبہ پھر دن چڑھے ملنے کا دستور تو نے مقرر کر لیا ہے۔

5

من بدیں یکبار قانع نیستم در ہوایت طُرفہ انسانیستم

ترجمہ: (مگر) میں اس ایک مرتبہ (کی ملاقات) پر قناعت نہیں کر سکتا۔ میں تیرے عشق میں عجیب طرح کی ہستی ہوں۔ (انسان بمعنی آدمی قرار دینا غیر صادق ہو گا۔)

6

پانصد استسقاستم اندر جگر با ہر استسقا قریں جُوْعُ الْبَقَر

ترجمہ: میرے جگر میں (ایک دو نہیں پورے) پانچ سو استسقاء ہیں (اور) ہر استسقاء کے ساتھ کھانے کی بھوک (شامل) ہے۔

مطلب: میں تیرے دیدار کا اس قدر بے صبری کے ساتھ بھوکا پیاسا ہوں جیسے پانچ سو استسقاؤں کا مریض پانی کی چھاگلوں کی چھاگلیں چڑھا جائے۔ پھر بھی پانی سے صبر نہ کرے اور پانچ سو جُوعُ البقَروں کا مریض خوانوں کے خوان چٹ کر جائے پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرے۔

7

بے نیازی از غمِ من اے امیر ده زکاتِ حُسن و بنگر در فقیر

ترجمہ: اے (اقلیمِ بحر کے) امیر! تو میرے غم سے بے پروا ہے (برائے خدا اپنے) حسن کی زکات دے اور (اس) محتاج پر (مہربانی کی) نظر کر۔ (آگے انتقال ہے محبوبِ مجازی کے خطاب سے محبوب حقیقی کے خطاب کی طرف:)

8

ایں فقرِ بے ادب نا درخور ست لیک لطفِ عامِ تو زاں برتر ست

ترجمہ: (اے محبوبِ حقیقی!) یہ محتاج جو (اعلیٰ) ادب (کے زیور) سے عاری ہے (بے شبہ) ترے (قرب کے) قابل نہیں لیکن ترا لطفِ عام اس (اعلیٰ قابلیت و لیاقت کی شرط) سے بالاتر ہے (ع برمن منگر بر کرمِ خویش نگر)۔

مطلب: لیاقت و قابلیت کے لیے اعلیٰ کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ ضروری لیاقت جس کا مصداق مطلق ایمان ہے، توجّہِ لطف کے لیے شرط ہے۔ کیونکہ یہاں لطف سے مراد وہ رحمت ہے جو اہلِ ایمان سے مختص ہے ورنہ جو رحمت کفار کو بھی شامل ہے۔ خردمند اس کی طلب پر اکتفا نہیں کر سکتا۔(کلید)

9

مے نجوید لطفِ عامِ تو سند آفتابے بر خدشہا مے زند

ترجمہ: تیرا لطفِ عام (استحقاق کی) سند نہیں ڈھونڈتا بلکہ آفتاب (کی طرح گوبر لید وغیرہ) نجاستوں (تک) پر اثر کرتا ہے۔

10

نورِ او را زاں زیانے نا بده واں حَدث از خشکیے ہیزم شده

ترجمہ: اُس (آفتاب) کے نور کو اس (نجاست) سے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ (گوبر لید وغیرہ) نجاست (دھوپ میں) خشک ہو جانے سے (اوپلوں کی شکل میں) ایندھن بن گئی۔

11

تا حَدث در گلخنے شد نور یافت بر در و دیوارِ حمّامے بتافت

ترجمہ: یہاں تک کہ (وہ) نجاست (حمّام کی) بھٹی میں پہنچی (اور جل کر) روشن ہو گئی۔ (اور اس کی روشنی) حمّام کے در و دیوار پر تاباں ہوئی۔

12

بود آلائش شد آرائش کنُوں چوں برو برخواند خورشید آں فسوں

ترجمہ: پہلے وہ (ایک گندی و ناپاک) آلائش تھی اب (روشن ہو کر) آرائش (کا سامان) بن گئی جب سورج نے اس پر(اپنی دھوپ کا) وہ منتر پھونکا۔

13

شمس ہم معدۂ زمیں را گرم کرد تا زمیں باقی حدث ہا را بخورد

ترجمہ: نیز آفتاب نے زمین کے معدے کو گرم کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ باقی (مانده) نجاستوں کو کھا گئی۔ (جو نجاستیں مدت تک زمین پر پڑی رہتی ہیں۔ ان کی عفونت دھوپ کی حرارت سے اڑ جاتی ہے۔ اور باقی اجزاء مٹی میں مل کر مٹی بن جاتے ہیں۔)

14

جزوِ خاکی گشت و رست از وے نبات ھٰکَذَا یَمْحُوْ الْاِلٰہُ السَّیِّئٰات

ترجمہ: وہ (نجاست زمین کا) خاکی جز بن گئی اور اس سے (مختلف) بوٹیاں اگ پڑیں (جس طرح یہ نجاست مٹ گئی) اسی طرح اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (﴿وَ يُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيِّئٰاتِكُمْ (الانفال: 29))

15

جزوِ خاکی گشت از وے پر ز نور ھٰکَذَا یَغْفِرُ لِمَنْ یُّعْطِی الغَفُوْر

ترجمہ : (وہ نجاست) زمین کا خاکی جز بن گئی اور وہ (سبزہ زار و) پُر نور ہو گئی۔ (جس طرح نجاست کو یہ درجہ عطا ہوا) اسی طرح خداوندِ غفور جس پر عطا فرماتا ہے اس کو بخش دیتا ہے۔ (﴿وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (الاحزاب: 71))

16

جزوِ خاکی گشت از وے با رِشاد ھٰکَذَا یَرْحَمُ اِلٰہٌ بِالْعِبَاد

ترجمہ:۔ وہ خاکی جزو اس (آفتاب) سے باصلاحیت ہو گیا۔ (جس طرح وہ باصلاحیت ہو گیا) اسی طرح اللہ تعالیٰ (اپنے) بندوں پر رحم کرتا (اور ان کو با سامان کر دیتا ہے۔ ﴿اُوْلٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ (التوبۃ: 71))

17

با حَدث کاں بدترین ست ایں کُند کِش نبات و نرگس و نسریں کُند

18

تا بہ نسرینِ مناسک در وفا حق چہ بخشد در جزا و در عطا

ترجمہ: (جب وہ آفتابِ معنوی گناہوں کی) نجاستوں کے ساتھ جو بدترین (اشیاء) ہیں یہ (سلوک) کرتا ہے کہ ان کو (اجرِ آخرت کا) سبزہ اور نرگس اور سیوتی بنا دیتا ہے۔ تو خیال فرمایئے کہ حق تعالىٰ وعدہ وفا کرنے میں عبادات و حسنات کے (گل و) نسرین پر کیا کچھ جزا و عطا بخشے گا۔

19

چوں خبیثاں را چنیں خلعت دہد طیّبیں را تا چہ بخشد در رسد

ترجمہ: جب ناپاک لوگوں کو ایسا خلعت بخشتا ہے تو پاک لوگوں کو کیا کچھ حصّہ میں عطا کرے گا۔

20

آں دہد حقِ شاں کہ لَا عَیْنٌ رَأَتْ کاں نگنجد در زبان و در لغت

ترجمہ: حق تعالیٰ ان کو وہ کچھ دے گا جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا (اور) جو کسی زبان اور لغت میں (بیان ہونے کی) گنجائش نہیں رکھتا (اشارہ بحدیثِ قدسی ’’اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَ لَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطرَ عَلیٰ قَلْبٍ بَشَرٍ‘‘ (مشکوٰۃ))

21

ما کئیم ایں را بیاں کن یارِ من روزِ من روشن کن از خُلقِ حَسن

ترجمہ: ہم کون ہیں (جو ان نعمائے آخرت کو بیاں کریں) اے میرے محبوب! اس کو تو ہی بیان کر دے۔ (اور) اس کے ساتھ میرے دن کو حسنِ خلق سے روشن کر دے۔ (یعنی ان نعمتوں کو بیان بھی کر دے اور اپنے فضل و کرم سے عطا بھی فرما دے تاکہ میرا دن خوشی سے میرے لیے نورانی ہو جائے۔)

22

منگر اندر زشتی و مکروہیم کہ ز پُر زہری چو مارِ کوہیم

ترجمہ: (بے شک میں اس احسان کے قابل نہیں مگر) تو میرے بُرا اور ناقابلِ پسند ہونے کو نہ دیکھ (برمن منگر بر کرم خویش نگر) کیونکہ میں (گناہوں کے) زہر سے پُر ہونے کے لحاظ سے پہاڑی سانپ کی مانند ہوں۔

23

اےکہ من زشت و خصالم جُملہ زشت چوں شوم گل چوں مرا او خار کشت

ترجمہ: اے (محبوب! میں مانتا ہوں) کہ میں برا ہوں اور میری تمام خصلتیں بری ہیں۔ مگر جب اس نے مجھے کانٹا بنا دیا تو میں پھول کیونکر بن جاؤں؟

مطلب: اس میں التفات ہے۔ خطاب سے غیبت کی طرف اور اس سے اپنا عذر بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اپنا عجز ظاہر کرنا مطلوب ہے۔ تاکہ زشتی کا درجۂ بالغہ ثابت ہو جائے۔ مگر عجز بدرجۂ جبر نہیں، ورنہ زشتی کو اپنی اور اپنے خصال و افعال کی طرف منسوب نہ کرتے کیونکہ افعالِ اضطراریہ قبح و ذم کے ساتھ منسوب نہیں ہوتے (کلید)۔ آگے خطاب کے صیغوں کے ساتھ کہتے ہیں:

24

نو بہارا حُسنِ گل دِہ خار را زینتِ طاؤس دِہ ایں مار را

ترجمہ: اے نوبہار! کانٹے کو پھول کا سا حسن عطا فرما (اور) اس سانپ کو مور کی سی سجاوٹ بخش دے۔

مطلب: بدکار کو نیکوکار بنا دے اور اس کی بدیوں کو نیکیوں سے بدل دے ﴿فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ (الفرقان: 70)۔ گل و خار میں تقابل اور طاؤس و مار میں حضرت آدم علیہ السلام کے قصے کے لحاظ سے مناسبت پُر لطف ہے۔

25

در کمالِ زشتیم من منتہی لطفِ تو در فضل و در فن منتہی

ترجمہ: میں برائی کے کمال میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہوں۔ (اور) تیرا لطف فضل اور ہنر میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ (یہ بطور مُشاکَلہ کہہ دیا، ورنہ خدا کے لطف و فضل کی کوئی انتہاء نہیں۔)

26

حاجتِ ایں منتہی زاں منتہی تو بر آر اے غیرتِ سروِ سہی

ترجمہ: اے غیرتِ سروِ سہی! اس (قبیح) کامل کی حاجت اُس (حسنِ) کامل سے بر لا۔ (یہاں تک محبوبِ حقیقی سے خطاب اور مناجات تھا جو "موش کا خطاب بغوک" کے ضمن میں درج ہوگیا۔ آگے پھر محبوبِ مجازی کے خطاب کی طرف عود ہے:)

27

چوں بمیرم فضلِ تو خواہد گریست از کرم، گر چہ زِ حاجت او بری ست

ترجمہ: (غرض چوہے نے کہا پیارے مینڈک!) جب میں مر جاؤں گا تو تیری عنایات بتقاضائے کرم مجھے روئیں گی اگرچہ وہ (رونا میری طرف) محتاج ہونے سے بری ہے۔ (یعنی وہ رونا اس لیے نہ ہوگا کہ رونے والے کی کوئی حاجت میرے مرنے سے فوت ہو گئی۔)

28

بر سرِ گورم بسے خواہد نشست خواہد از چشمِ لطیفش اشک جَست

ترجمہ: (ہاں لوگو!) وہ (محبوب) میری قبر پر بہت دونوں بیٹھا رہے گا (اور) اس کی چشمِ پُر لطف سے آنسو بہہ نکلے گا۔

29

نوحہ خواہد کرد بر محرُومیَم چشم خواہد بست از مظلومیم

ترجمہ: وہ (محبوب اپنے وصل سے) میرے محروم رہ جانے پر نوحہ کرے گا۔ (اور) میری مظلومی سے (نادم ہو کر) آنکھیں بند کرے گا (کہ کسی پر نگاہ پڑنے سے شرمندہ نہ ہو)۔

30

اندکے زاں لطفہا اکنوں بکن حلقۂ در گوش من زیں سخن

ترجمہ: (پیارے مینڈک!) ان مہربانیوں میں سے (جو تو میرے مرنے پر کرے گا) کسی قدر ابھی (مجھ پر مبذول) کر دے (اور میری) اس غرض پر (توجہ کر کے) مجھے اپنا حلقہ گوش بنا لے۔

31

آنکہ خواہی گفت تو با خاکِ من برفشاں بر مدرکِ غمناکِ من

ترجمہ: جو باتیں تو میری تربت سے (مخاطب ہو کر) کہے گا (ان میں سے کچھ ابھی) میرے غمزدہ ادراک پر بکھیر دے۔

32

دست گیرم در چنیں بیچارگی شاد گردانم دریں غمخوارگی

ترجمہ: ایسی بے چارگی میں میری دستگیری کر۔ ایسی غمخوارگی میں مجھے شادماں کر دے۔ (غرض جو کچھ قلیل و کثیر عنایت پھر کرے گا، وہ ابھی کر دے۔ مجھے وعدے پر صبر نہیں تھوڑا سا نقد زیادہ کے ادهار سے اچھا۔ جیسے کہ ایک مثال ہے کہ:)

33

صوفی را گفت خواجۂ سیم پاش اے قدمہائے تُرا جانم فراش

ترجمہ: ایک سردار نے جو (محتاجوں پر) چاندی بکھیرتا تھا کسی درویش کو کہا اجی (شاه صاحب)! تمہارے قدموں کے لیے میری جان فرش ہے۔

34

یک درم خواہی تو امروز اے شہم یا کہ فردا چاشتگاہے سہ درم

ترجمہ: اے میرے شاہ صاحب! تم آج (صرف) ایک درم (لینا) پسند کرتے ہو یا کل کو پہر دن چڑھے تین درم۔

35

گفت من بر درہمے راضی ترم کہ دہی امروز و فردا صد درم

ترجمہ: اس نے کہا میں اس ایک ہی درم پر بہت خوش ہوں جو مجھے آج دے دو اور کل کو (اس کے بجائے) سو درم (بھی دو تو مجھے منظورنہیں)۔

36

سیلئے نقد از عطائے نسیہ بہ نِک قفا پیشت کشیدم نقد دِہ

ترجمہ: (اجی جناب! نقد تو ایسی چیز ہے کہ) نقد چپت (بھی) ادھار کے انعام سے بہتر ہے۔ ایلو! میں نے اپنی گدی آپ کے سامنے کر دی (اور نہیں تو اس پر) نقد (چیت ہی لگا) دو۔ (یہ تقاضائے نقد کو مؤکّد کرنے کے لیے بطور مبالغہ کہا ہے۔)

37

خاصہ آں سیلی کہ از دستِ تو است ہم قفا ہم سیلیش مستِ تو است

ترجمہ: خصوصًا وہ چپت جو تمہارے ہاتھ سے ہے۔ میری گدی بھی اور اس کا چپت (کھانا) بھی تم پر فریفتہ ہیں۔ (تمثیل کے بعد مولانا نقد کے لفظ کی مناسبت سے محبوبِ حقیقی کے نقد دیدار کے لیے اظہارِ شوق کرتے ہیں:)

38

ہیں بیا اے شادیِ جان و جہاں خوش غنیمت دار نقدِ ایں زماں

ترجمہ: ہاں! آجا اے جہان و جان کی خوشی! (اور) اس وقت کے نقد کو خوب غنیمت سمجھ۔

39

درمَدُزد آں روے ماہ از شب رواں سر مکش زیں جوۓ اے آبِ رَواں

ترجمہ: وہ چاند کا سا چہرہ رات کے مسافروں سے نہ چھپا (جو چاندنی کے محتاج ہیں)۔ اے آبِ رواں! اس ندی سے (جو پانی کی محتاج ہے) سر مت پھیر۔

40

تا لبِ جو خندد از ماءِ معیں وز لبِ جو سر برارد یاسمیں

ترجمہ: تاکہ صاف پانی سے نہر کا کنارہ چھلکنے لگے اور نہر کے کنارے سے یاسمین (وغیرہ ہر قسم کا پھول پودا) اُگ پڑے۔

مطلب: تینوں شعروں کا یہ ہے کہ اے محبوبِ حقیقی! میرے لیے یہ شدتِ شوق کا وقت غنیمت ہے۔ تو اپنے فضل و کرم کی توجہ سے مجھے محروم نہ رکھ کہ میں اس کا بے حد محتاج ہوں۔ تیری طرف سے برکات شاملِ حال ہوں تو میں فضائلِ اعمال سے مالا مال ہو جاؤں۔ آگے مولانا لبِ جو کی سرسبزی و شادابی کے ذکر سے اہلِ نسبت کی شناخت کے مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:

41

چوں بہ بینی بر لبِ جو سبزہ مست پس بداں از دور کانجا آب ہست

ترجمہ: جب تم ندی کے کنارے پر سبزہ لہلہاتا دیکھو۔ تو دور سے سمجھ لو یہاں (ندی کے اندر) پانی (بہ رہا) ہے۔

42

گفت سِیْمَاھُمْ وُجُوْہٌ کردگار کہ بود غمّازِ باراں سبزه زار

ترجمہ: حق تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ (الفتح: 29) (یعنی ’’ان کی علامات ان کے چہروں میں ہیں‘‘) کیونکہ سبزہ زار بارش کا مخبر ہوتا ہے۔ (یعنی جب تم کسی شخص پر انوار و برکات کا مشاہدہ کرو تو سمجھ لو کہ وہ صاحبِ نسبت ہے۔)

43

گر ببارد شب نہ بيند ہیچ کس کہ بود در خواب ہر نَفْس و نَفَس

ترجمہ: اگر شب کو بارش ہو (اور) کوئی نہ دیکھے کیونکہ (اس وقت) ہر شخص اور (اس کا) سانس نیند میں (بے خود) ہوتے ہیں۔

44

تازگئی ہر گلستانِ جمیل ہست بربارانِ پنہانی دلیل

ترجمہ: تو ہر خوبصورت باغ کی تازگی (جو صبح کو نظر آئے گی) بارانِ مخفی پر شاہد ہو گی۔

مطلب: اسی طرح گو کسی شخص پر فیضانِ غیب کا نزول تم نہیں دیکھتے مگر اس کے احوال و اعمال کی پاکیزگی اور اس کے چہرے پر انوار و برکات کا ظہور اس کے موردِ فیض ہونے کی دلیل ہے۔ آگے پھر قصے کی طرف رجوع ہے: