دفتر ششم: حکایت: 91
تدبیرِ موش با چغز کہ میان وسیلتے باید کہ بوقتِ حاجت نمے توانم بر تو آمدن و سخن گفتن
چوہے کا مینڈک کے آگے تدبیر پیش کرنا کہ ہمارے درمیان کوئی رابطہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ میں بوقتِ ضرورت تیرے پاس آنے اور بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتا
1
ایں سخن پایاں ندارد گفت موشچغز را روزے کہ اے فخرِ وحوش
ترجمہ: یہ مضمون تو انتہا نہیں رکھتا (اس لیے قصہ سنو کہ) چوہے نے ایک دن مینڈک سے کہا کہ اے جانوروں کے فخر!
2
وقتہا خواہم کہ گویم با تو رازتو درونِ آب داری ترکتاز
ترجمہ: بسا اوقات میں چاہتا ہوں کہ تجھ سے (دل کا) بھید بیان کروں (مگر) تو پانی کے اندر دوڑ لگاتا پھرتا ہے۔
3
بر لبِ جُو من ترا نعره زناںنشنوی در آب بانگِ عاشقاں
ترجمہ: میں نہر کے کنارے پر (گلا پھاڑ کر) تجھ کو پکارتا ہوں تو پانی کے اندر عاشقوں کی آواز نہیں سنتا۔
4
من دریں وقتِ معیّن اے دلیرمن نگردم از محاکاتِ تو سیر
ترجمہ: اے (پانی کے) دلیر! (تیراک) اس محدود وقت میں تیری ہمکلامی سے میرا جی نہیں بھرتا۔ (یہاں سے اس مضمون کی طرف انتقال ہے کہ عاشقانِ حق بھی مشاہدۂ حق سے سیر نہیں ہوتے:)
5
پنج وقت آمد نماز اے رہنمونعاشقاں را فِىْ صَلٰوةٍ دَآئمُوْن
ترجمہ: اے رہنما! (عام مسلمانوں کے لیے) نماز پانچ وقت وارد ہوئی ہے۔ لیکن عاشقوں کے لیے (یہ وارد ہے کہ) وہ ہمیشہ نماز میں ہیں۔
مطلب: اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں (انسان کی طبعی کم ظرفی اور کنجوسی کا ذکر کر کے فرماتا ہے۔ ﴿اِلَّا الْمُصَلِّیْنَۙ۔ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ﴾ (المعارج: 22-23) ”مگر (ان لوگوں کا ہرگز ایسا حال نہیں ہے) جو نماز گزار ہیں اور وہ اپنی نماز میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتے“ اس سے ظاہر ہے کہ آیت میں دوامِ نماز سے مراد محافظتِ نماز ہے۔ نہ کہ ایسا دوام کہ کوئی وقت نماز سے خالی نہ جائے۔ چنانچہ اس سے آگے دس آیتوں کے بعد اس مقصود کی توضیح اس آیت سے ہوتی ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَلىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ﴾ (المعارج: 34)۔ مگر مولانا نے بطور اعتبار اس سے یہ مضمون اخذ فرمایا کہ عاشقوں کے لیے نماز کے دوام سے استمرارِ نماز مراد ہے۔ اس اعتبار کی بنا اس بات پر ہو سکتی ہے کہ دوام سے دوامِ فرضیت مراد نہیں کیوں کہ عاشقوں پر فرض تو پانچ ہی نمازیں ہیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے اکثر اوقات نوافل میں گزرتے ہیں اور "حُکْمُ الْاَکْثَرِ حُكْمُ الْكُلِّ" مسلّم ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک نماز کے بعد ان کا سارا وقت دوسری نماز کے انتظار میں گزرتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ ’’لَا یَزَالُ اَحَدُکُمْ فِیْ صَلٰوۃٍ مَّا انْتَظرَ الصَّلٰوۃ الخ‘‘ (مشکوٰۃ) ”جب تک کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے اس کا یہ سارا وقت نماز میں شمار ہوتا ہے۔“ اور یہ کثرتِ نوافل یا دنیا کے سارے کاموں سے زیادہ نماز کا اہتمام و انتظار کرنا عاشقانِ حق کی ہی شان ہے عوام کی نہیں۔
6
نے بہ پنج آرام گیرد آں خمارکاندراں سرہا ست نے پانصد ہزار
ترجمہ: (گو عاشقوں پر بھی فرض صرف پانچ نمازیں ہیں ۔ مگر ان کا) وہ خمارِ (عشق) جو ان (کے) سروں میں ہے نہ پانچ (نمازوں) سے سکون پاتا ہے نہ پانچ لاکھ سے۔
7
نیست زُرْ غِبًّا نشانِ عاشقاںسخت مستسقی ست جانِ صادقاں
ترجمہ: (اس حکم کا مخاطب ہونا کہ) ایک دن چھوڑ کر زیارت کیا کرو عاشقوں کا نشان نہیں۔ کیونکہ صادق (العشق) لوگوں کی جان (دیدارِ الٰہی کی) نہایت پیاسی (ہوتی) ہے۔ (وہ ایک دن زیارت کے ناغہ کی متحمل نہیں ہو سکتی)۔
مطلب: ظاہر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان اعزّہ کے عاشق نہ تھے جن کی ملاقات کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ کبھی کبھی ملنے جایا کرو بلکہ ان کے ساتھ تو ابھی ازدیادِ محبت کی بھی کسر باقی تھی۔ چہ جائے کہ عشق ہوتا جبھی تو زیارت بتفاریق کو ازدیادِ محبت کے لیے مفید فرمایا کہ کثرتِ ملاقات سیری و ملال کا باعث ہوتی ہے۔ ہاں وہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے عاشق تھے۔ سو یہاں ان کو یہ ہدایت نہیں کی جا سکتی تھی کہ کبھی کبھی ملنے آیا کرو۔ ورنہ یہ ان کے عدمِ عشق کی دلیل ہوتی۔ بلکہ یہاں ان کی شان یہ تھی جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ ’’کُنْتُ اَلْزَمَهُمْ لِصُحْبَةِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم الخ‘‘ ”میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی صحبت کو اپنے لیے سب سے زیاده لازم رکھا تھا۔“ اس بیان سے ظاہر ہے کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول جو ان کی کتاب گلستان میں ہے درست نہیں کہ ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر روز بخدمتِ محمد مصطفٰی صلّی اللہ علیہ وسلّم آمدے گفت ’’یَا اَبَا ھُرَیْرَۃَ زُرْنِی غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا الخ‘‘ ہر روز میا تا محبت زیاده گردد۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں کہیں سے چل کر آنا کیا معنی رکھتا ہے جب کہ وہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت سے کبھی الگ ہی نہیں ہوتے تھے، اور ان کا عشق الگ ہونے بھی کیسے دیتا تھا۔ محدثین ان کی نسبت لکھتے ہیں "ثُمَّ اَلْزَمَہٗ وَ اَظْھَرَ عَلَیْہِ رَاغِباً فِی الْعِلْمِ رَاضِیاً بِشِبْعِ بَطْنِہٖ، وَ کَانَ یَدُوْرُ مَعَہٗ حَیْثُ مَا دَارَ" (كما فی اسماء الرجال)۔ آگے بھی عاشقوں کی اسی شان کا ذکر ہے:
8
نیست زُرْ غِبًّا وظیفۂ ماہیاںزانکہ بے دریا ندارند اُنسِ جاں
ترجمہ: زُرْ غِبًّا (پر عمل کرنا) مچھلیوں کا شیوہ نہیں ہے کیونکہ وہ دریا کے بدوں اور کسی سے روحانی الفت نہیں رکھتیں (پھر ان سے دریائی ملاقات ناغہ کیوں کر سکتی ہے)۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
سیری زِ وصل نیست دلِ بے قرار رااز کاه حرص کسی رہا کم مے نشود
9
آبِ ایں دریا کہ ہائل بقعہ ایستبا خمارِ ماہیاں خود جُرعہ ایست
ترجمہ: اس دریا کا پانی (با وجودے) کہ ایک ہولناک مقام ہے۔ (مگر) مچھلیوں کے (عشق کا یہ عالم ہے کہ ان کے) خمار (شوق) کے آگے (وہ پانی گویا) ایک ہی گھونٹ ہے۔
؎عاشق بفنا سیر زِ معشوق نگرددماہی طلبِ آب کند گر چہ غذا شد
10
یک دمِ ہجراں برِ عاشق چو سالوصل سالِ متصل پیشش خیال
ترجمہ: عاشق کے نزدیک جدائی کا ایک لمحہ بھی سال کے برابر ہے (اور) متواتر ایک سال کا وصل اس کے آگے ایک خیال (موہوم) ہے۔ کما قیل:
؎حیف در چشم زدن صحبتِ یار آخر شدروئے گل سیر ندیدم و بہا بہ آخر شد
گو صد روزِ حشر بپایاں نمے رسدصد روزے آں بیک شبِ ہجراں نمی رسد
11
عشق مستسقی ست مستسقی طلبدرپئے ہم این و آں چوں روز و شب
ترجمہ: (خود) معشوق (بھی عاشق کا) پیاسا ہے۔ (اور معشوق کے) پیاسے (یعنی عاشقی) کا طالب ہے۔ یہ اور وہ (دونوں) دن اور رات کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے ہیں۔
مطلب: یہاں عشق بمعنی معشوق آیا ہے جیسے دیباچہ دفتر اول کے اس شعر میں یہی معنی تھے۔
؎چوں نباشد عشق را پرواے اواو چو مرغے ماند بے پرواے او
اور معشوق کا طالب ہونا بایں معنی ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی مجھ پر عاشق ہو اور اس کے عاشق خواہ کتنے ہو جائیں یا ایک ایک عاشق خواہ عشق کی کسی حد تک پہنچ جائے، مگر معشوق اس میں بس نہیں کرتا زیادہ سے زیادہ کثرتِ عشّاق یا شدتِ عشق کو پسند کرتا ہے۔ شب و روز کی جو مثال پیش کی ہے حق تعالیٰ کے اس قول کے مطابق ہے ﴿یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ﴾ (الاعراف: 54) (کلید)۔ آگے اس تمثیل کی شرح فرماتے ہیں:
12
روز بر شب عاشق است و مضطر ستچوں بہ بینی شب برو عاشق تر ست
ترجمہ: دن (تو) شب پر عاشق ہے (ہی) اور (اس کے عشق میں) بے قرار ہے (مگر) جب (بغور) دیکھو تو شب اس پر زیادہ عاشق ہے۔
13
نیست شاں از جستجو یک لحظہ ایستازپئے ہم شاں یکے دم ایست نیست
ترجمہ: ان (دن اور رات) کو (ایک دوسرے کی) طلب سے ایک لمحہ (بھی) توقف نہیں۔ ان کو ایک دوسرے کے پیچھے (دوڑنے) سے ایک دم قیام نہیں۔
14
ایں گرفتہ پائے آں، آں گوشِ ایںایں براں مدہوش و آں مدہوشِ ایں
ترجمہ: اس نے اُس کا پاؤں پکڑ رکھا ہے (اور) اُس نے اس کا کان۔ یہ اس پر مست ہے اور وہ اُس پر لٹو۔
15
در دلِ معشوق جملہ عاشق ستدر دلِ عذرا ہمیشہ وامق ست
ترجمہ: (غرض) معشوق کے دل میں بالکل عاشق (ہی کا خیال چھا رہا) ہے۔ عذرا کے دل میں ہمیشہ وامق (کا خیال جا گزیں) ہے۔
16
در دلِ عاشق بجز معشوق نیستدرمیانِ شاں فارق و مفروق نیست
ترجمہ: (اس طرح) عاشق کے دل میں سوائے معشوق کے (اور کسی کا تصوُّر) نہیں۔ (پس) ان (عاشق و معشوق دونوں) کے درمیان کوئی امتیازی نشان اور کوئی حالتِ ممتاز نہیں۔ (گویا عاشق خود معشوق ہے اور معشوق خود عاشق ہے۔)
17
بر یکے اشتر بود ایں دو دَراپس چہ زُرْ غِبًّا بگنجد ایں دو را
ترجمہ: (گویا دونوں) ایک اونٹ پر دو جرس ہیں (یعنی دو مغز بیک پوست) تو پھر ان دونوں کے لیے (یہ کہنا کہ) کبھی کبھی ملاقات کیا کرو کہاں گنجائش رکھتا ہے۔
18
ہیچ کس با خویش زُرْ غِبًّا نمودہیچ کس با خود بنوبت یار بود
ترجمہ: (ان دونوں کا باہم اتحاد ایسا ہے جیسے ہر شخص کا اتحاد خود اپنے وجود کے ساتھ) بھلا کسی شخص نے خود اپنے ساتھ بھی زُرْ غِبًّا (کا سلوک) کیا ہے؟ (ہرگز نہیں) بھلا کوئی شخص خود اپنے ساتھ بھی ناغہ کے ساتھ مصاحب ہوا ہے۔ (ہرگز نہیں تو پھر عاشق و معشوق سے یہ کب متوقع ہے۔ آگے اس محبتِ مجازی کے ذکر سے محبتِ حقیقی کی طرف انتقال ہے:)
19
آں یکیے نے کہ عقلش فہم کردفہمِ ایں مَوقُوف شد بر مرگِ مرد
ترجمہ: (محّب اور محبوبِ حقیقی کا) اتحاد ایسا نہیں جو عقل نے سمجھ لیا ہے۔ اس کا سمجھنا تو آدمی کی موت پر موقوف ہے۔
مطلب: محبوبِ حقیقی کا جو خاص اتحاد اپنے بندوں کے ساتھ ظاہر ہے وہ ایک امرِ ذوقی ہے۔ جو عام لوگوں پر ذکر و بیان سے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ ہاں مرنے کے بعد ان پر ظاہر ہوگا مگر اللہ کے خاص بندے زندگی میں ہی اس اتحاد کا ادراک کر لیتے ہیں۔ آگے ان خاص بندوں کا ذکر ہے:
20
جز مگر مردے کہ پیش از مرگ مُردرختِ ہستی را بسوئے یار بُرد
ترجمہ: مگر سوائے اس شخص کے جو موت (کے آنے) سے پہلے مر گیا (اور اپنی) ہستی کے اسباب کو محبوبِ (حقیقی) کی طرف لے گیا۔ (جو بندہ اصطلاحی موت پر جس کو فنا فی اللہ کہتے ہیں فائز ہو گیا اور اس نے اپنی زندگی حق تعالیٰ کی نذر کر دی وہ اس اتحاد کا ذوق رکھتا ہے۔)
21
ور بعقل ادراکِ ایں ممکن بُدےقہرِ نفس از بہرِ چہ واجب شدے
ترجمہ: (غرض اس اتحاد کا ادراک فنائے اضطراری یا اختیاری ہی سے ممکن ہے عقل سے ممکن نہیں) ورنہ اگر اس کا ادراک عقل سے ممکن ہوتا (تو پھر) مجاہدۂ نفس کس لیے واجب ہوتا۔ ہر شخص تکلّفِ مجاہدہ کے بغیر اپنی عقل سے اس کا ادراک کر لیتا۔
22
با چناں رحمت کہ دارد شاہِ ہُشبے ضرورت چوں بگوید نَفس کُش
ترجمہ: (کیونکہ) ایسی رحمت کے باوجود جو وہ عقلوں کا بادشاه تعالیٰ شانہٗ وہ (اپنے بندوں پر) رکھتا ہے بلا ضرورت کیوں فرماتا کہ نفس کشی کرو۔
مطلب: شاہِ ہش یعنی سلطانِ عقل کے لفظ میں یہ اشارہ مرکوز ہے کہ وہ عقل کا فرمانروا ہے۔ اور اس سے ہر قسم کے شائستہ کام لینے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ جا بجا فرماتا ہے: اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ، بہت جگہ ارشاد ہے: لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ، کسی جگہ فرمایا: اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ اگر عقل سے اس اتحاد کا ادراک ممکن ہوتا تو اس میں بھی عقل سے کام لینے کا حکم فرماتا۔ پھر جو مجاہدہ کا حکم فرمایا تو معلوم ہوا کہ یہ عقل کے بس کا کام نہ تھا۔ صائب ؎
عشق مستسقی ست ار تدبیر عقلِ حیلہ گر
شیر کے سازد عصائے حور دُمِ روباه را
چنانچہ مجاہدہ کا حکم کئی جگہ فرمایا ہے۔ مثلاً: ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾ (العنکبوت: 69) ”اور جن لوگوں نے ہمارے دین کی کوشش کی عنقریب ان کو ہم اپنے راستے دکھائیں گے‘‘۔ اور اس میں اس قسم کے وجدانی معارف کے بذریعہ مجاہدہ حاصل ہونے کا اشارہ بھی موجود ہے۔