دفتر ششم: حکایت: 90
قصّۂ تعلّقِ موش با چغز
ایک چوہے کے مینڈک کے ساتھ تعلق کا قِصّہ
(معنیٰ چغز، بفتحِ جیمِ فارسی و رائے معجمہ، غوک، مینڈک (غیاث))
1
از قضا موشے وچغزے باوفابر لبِ جو گشتہ بودند آشنا
ترجمہ: اتفاقاً ایک چوہا اور ایک وفادار مینڈک کسی نہر کے کنارے پر دوست بن گئے تھے۔
2
ہر دو تن مربوطِ میقاتے شدند ہر صباحے جمع یکجا می شدند
ترجمہ: دونوں ایک (معین) وقت کے پابند ہو گئے تھے۔ ہر صبح کو ایک جگہ جمع ہوا کرتے۔
3
نردِ دل با ہمدگر می باختندوز وساوس سینہ می پرداختند
ترجمہ: (محبتِ) دل کی نرد ایک دوسرے سے کھیلتے تھے اور خیالات (جو دن بھر جمع ہو جاتے ایک دوسرے کو سنا کر ان) سے (اپنے) سینے خالی کر لیتے۔
4
ہر دو را دل از تلاقی متَّسِعہمدگر را قصہ خوان و مُستمع
ترجمہ: دونوں کا دل ملاقات (کے ساتھ خوشی) سے کشادہ ہوتا تھا۔ (دونوں) ایک دوسرے کو باتیں سناتے اور سنتے تھے۔
5
راز گویاں با زبان و بے زباںاَلْجَمَاعَۃُ رَحْمَۃٌ را تاویل داں
ترجمہ: (وه) زبان کے ساتھ (قالاً) اور زبان کے بدون (حالاً ایک دوسرے کے) راز گو تھے (اور حدیث) اَلْجَمَاعَۃُ رَحْمَۃٌ کے معنی سمجھنے والے تھے۔ (تمییز الطیب)
مطلب: حديث ’’اَلْجَمَاعَۃُ رَحْمَۃٌ وَ الْفُرْقَۃُ عَذَابٌ‘‘ یعنی ’’اکٹھے ہونا رحمت ہے، اور جدا ہونا عذاب ہے‘‘۔ اس کو عبد الله بن احمد نے زوايد المسند میں نعمان بن بشیر کی حدیث سے روایت کیا ہے، جو ایک لمبی حدیث کا آخری ٹکڑا ہے۔
6
آں اَشِر چوں جفت ایں شاد آمدےپنج سالہ قصہ اش یاد آمدے
ترجمہ: وہ (ایک) مسرورِ (محبت) جب اس دوسرے مسرورِ (محبت) کا قرین ہوتا تو اس کو پانچ برس کا (بھولا ہوا) قصہ یاد آ جاتا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)
7
جوشِ نطق از دل نشانِ دوستی ستبستگیِ نطق از بے الفتی ست
ترجمہ: گویائی کا جوش (جو) دل سے (اٹھے) دوستی کی علامت ہے (بخلاف اس کے) گویائی کی رکاوٹ بے الفتی کے سبب سے ہے۔ (جس شخص سے محبت ہو اس کے ساتھ باتیں کرنے کو جی بہت چاہتا ہے اور جس کے ساتھ محبت یا قلبی مناسبت نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہمکلام ہونے پر دل مائل نہیں ہوتا۔ الا بمجبوری۔)
8
دل کہ دلبر دید کے ماند تُرشبلبلے گل دید کے ماند خمُش
ترجمہ: جس دل نے دلبر کو دیکھ لیا، وہ کب تُرش (اور منقبض) رہتا ہے (ضرور بولنے ہنسنے لگے گا اور) جس بلبل نے پھول کو دیکھ لیا۔ وہ کب خاموش رہتی ہے۔ (ضرور چہچہانے لگے گی۔)
9
ماہیِ بریاں زِ آسیبِ خضرؑزنده شد در بحر گشت او مستمر
ترجمہ: (جس طرح ایک) بھنی ہوئی مچھلی حضرت خضر علیہ السلام کے اثر سے زندہ ہو گئی۔ (اور) وہ دریا میں چل نکلی۔
مطلب: حضرت موسیٰ عليہ السلام کو ایک مرتبہ حضرت خضر عليہ السلام کی ملاقات کا شوق ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا کہ وہ کہاں مل سکتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ ایک بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لے کر سفر کرو۔ کسی دریا کے کنارے وہ مچھلی زندہ ہو جائے گی اور دریا میں تیرنے لگے گی۔ اس جگہ خضر ملیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جس کے متعلق ارشاد ہے ﴿فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَِهُمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا﴾ (الکهف: 60) ”وہ پھر جب یہ دونوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام اور یوشع بن نون) ان دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچے۔ اپنی (ناشتے کی تلی بوئی) مچھلی (وہیں) بھول اٹھے۔ تو مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا اپنا راستہ بنا لیا“۔ غرض جس طرح مچھلی حضرت خضر علیہ السلام کے قرب کے اثر سے زندہ ہو گئی۔ اسی طرح محبوب کے ملنے سے قلب میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے گفتگو کا جوش اٹھتا ہے۔ آگے بطور انتقال حجت شیخ کی برکات اور اس کے بعض آداب کا ذکر فرماتے ہیں:
10
یار چوں با يارِ خود بنشسته شدصد ہزاراں لوحِ دل دانستہ شد
ترجمہ: جب مرید اپنے مرشد کے پاس بیٹھتا ہے۔ (مرید کو مرشد کے) دل کے لاکھوں صفحات (سے گوناگوں علوم و معارف) معلوم ہو جاتے ہیں۔
11
لوحِ محفوظ ست پیشانیِ یاررازِ کونینش نماید آشکار
ترجمہ: مرشد (کامل) کی پیشانی لوحِ محفوظ (کی مانند) ہے (جو) اس (مرید) پر دونوں جہانوں کے راز کھول دیتی ہے۔
12
ہادیِ راہ ست یار اندر قدوممصطفیؐ زیں گفت اَصْحَابِیْ نُجُوْم
ترجمہ: (اس سے ثابت ہوا کہ) مرشد سلوک میں رہنما ہے۔ اسی وجہ سے مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں۔
مطلب: جس طرح ستاروں کے ذریعہ مسافر کو رات کی تاریکی میں سیدھا راستہ معلوم ہو جاتا ہے اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طرزِ عمل کی تقلید راہِ راست پر لے جاتی ہے۔ اور مرشد کامل بھی صحابہ کا متبع ہے اس لیے اس کا اتباع و محبت بھی باعث ہدایت ہے۔ حدیث کے کلمات یوں ہیں: ’’اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ‘‘ (مشکوٰۃ)
”میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں۔ تم ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پاؤ گے“
13
نجم اندر ریگ و دریا رہنما ستچشم اندر نجم نہ کو مقتدا ست
ترجمہ: (چنانچہ) ستارہ خشکی اور دریا میں (ہر جگہ) رہنما ہے۔ تم ستارے پر نظر رکھو کہ اس کی پیروی کی جاتی ہے۔
14
چشم را با روے او میدار جُفتگرد منگیزاں زِ راہِ بحث و گفت
ترجمہ: تم آنکھ کو اس (مرشدِ کامل) کے چہرہ سے قرین رکھو (اور خلافِ ادب) تکرار اور گفتگو سے اس کے دل میں انقباض کا غبار نہ اٹھاؤ۔
15
زانکہ گردد نجم پنہاں زاں غبارچشم بہتر از زبان باعِثار
ترجمہ: کیونکہ اس غبار سے (فيضان کے انوار بخشنے والا) ستاره چھپ جاتا ہے۔ (پس افادہ کا انتظار اور مرشد کا دیدار کرنے والی) آنکھ اچھی ہے اس زبان سے جو (اعتراض کی) لغزش (کرنے) والی ہو۔ (بحث و تکرار سے مرشد کی طبیعت منقبض ہوتی ہے۔ اور اس کا افاضہ بند ہو جاتا ہے۔)
16
تا بگوید آنکہ وحیستش شعارکاں نشاند گرد و ننگیزد غبار
ترجمہ: تاکہ وہ (بزرگ) جن کا طریقہ وحی (کا اتباع) ہے (خود ہی کچھ) فرمائیں (اور اب ان کی فیض رسانی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو گی) کیونکہ (مرید کا) یہ (طرزِ عمل انقباض کی) گرد کو بٹھا دیتا ہے۔ اور غبار کو اٹھاتا نہیں۔ (آگے مولانا یہ بیان فرماتے ہیں کہ شیخ کامل کے یہ علومِ عطیۂ حق ہیں۔ یعنی وہبی ہیں کسبی نہیں:)
17
چوں شد آدم مظہرِ وحی و وَدادناطقہ او عَلَّمَ الْاَسْمَا کشاد
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام وحی اور محبت (و حق) کے مظہر ہوئے تو ان کی قوتِ ناطقہ نے عَلَّمَ الْاَسْمَاءَ (یعنی ”اللہ نے ان کو سب نام سکھا دیئے“ کے راز) کو کھول کر رکھ دیا۔
مطلب: اوپر مرشد کی تعریف میں کہا تھا کہ وحی کا اتباع اس کا شعار ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ اولیاء اللہ کے علومِ وحی سے مستفاد اور عطیۂ الٰہیہ ہوتے ہیں اور چونکہ اس میں اصل حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں۔ جو خود حضرتِ حق سے بلا واسطہ مستفید ہیں اور اولیاء اس میں انبیا علیہم السلام کے تابع ہیں۔ اس لیے یہاں حضراتِ انبیا ہی سے استفادۂ علوم اور حصولِ برکات کا ذکر کیا ہے اور اولیاء تابعين کا حکم سیاق کلام سے معلوم ہو جائے گا۔ کیونکہ اوپر سے اولیائے عارفین ہی کا ذکر آتا تھا۔ آگے اہلِ وحی کا ذکر فرمایا جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ یہ متبوعین ایسے ہی علوم و برکات میں ان تابعین کے لیے واسطہ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ عارفین کے جن فیوض کا ذکر ہو رہا تھا ان میں وہ انبیا کے تابع اور ان سے مشابہ ہیں (کلید ملخصاً)۔ غرض حضرت آدم علیہ السلام کے عَلَّمَ الْاَسْمَاءَ کی شان یہ تھی کہ:
18
نام ہر چیزے چنانکہ ہست آںاز صحیفۂ دل روی گشتش زبان
ترجمہ: (یعنی) ہر چیز کا (ایسا جامع اور مکمل) نام (بتا دیا) جیسی کہ وہ (چیز) ہے۔ (حتٰی کہ) ان کی زبان صحیفۂ دل سے (اس پورے نام کو اخذ کر کے) سیراب ہو گئی۔
مطلب: پہلا مصرعہ اوپر کے ذکر عَلَّمَ الْاَسْمَاءَ کی توضیح و تفسیر ہے۔ دوسرے مصرعہ میں یہ بتایا ہے کہ اشیائے عالم کے نام پہلے ان کے دل پر وحی کے ذریعہ القا ہوئے پھر ان کو صفحۂ دل سے زبان نے اخذ کیا۔ اور اس کا یہ اخذ اس کمال و جامعیت کے ساتھ تھا کہ وہ سیراب ہو گئی کسی پہلو سے عدمِ علم کی تشنگی باقی نہ رہی۔
19
فاش می گفتے زباں از رویتشجملہ را خاصیّت و ماہیّتش
ترجمہ: (غرض) زبان ایک ایک چیز کو دیکھ کر اس کی خاصیت اور ماہیت صاف بیان کر دیتی تھی۔
20
آں چناں نامے کہ اشیا را سزدنے چنانکہ حِیز را خوانند اسد
ترجمہ: ایسے نام جو (واقع میں ان) اشیا کے مناسب تھے نہ اس طرح کہ جیسے ہیجڑے کو شیر کہہ دیتے ہیں۔ (حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اب دوسرے پیغمبروں کا ذکر فرماتے ہیں:)
21
نوحؑ نہ صد سال در راهِ سوی بود ہر روزیش تذکیرِ نوی
ترجمہ: حضرت نوح علیہ السلام نو سال تک صراطِ مستقیم (کی دعوت) میں (اس حالت پر رہے کہ) ہر روز ان کا نیا وعظ ہوتا تھا (تو عمر کے حساب سے انہوں نے لاکھوں تازه وعظ کہے۔ یہ شان علومِ وہبی کی ہے نہ کہ کسبِی کی)۔
22
لعْلِ او تازه زِ ياقوتُ القُلوبنے رسالہ خوانده نے قوتُُ القُُلوب
ترجمہ: ان کا (لبِ) لعل (ان کے دل بمنزلہ) یاقوت القلوب سے تازہ تھا۔ انہوں نے نہ رسالہ (قشیریہ) پڑھا تھا نہ قوت القلوب۔ (یعنی ان کا علم کسبِی نہ تھا، بلکہ وہبی تھا۔)
23
وعظ را ناموختہ ہیچ از شروحبلکہ ینبوع كشوف و شرحِ روح
ترجمہ: انہوں نے وعظ کو کچھ (کتابوں کی) شرحوں سے (بھی) نہیں سیکھا تھا۔ بلکہ (یہ ان کے) مکاشفات کا چشمہ اور روح کی کشایش (تھی)۔
24
ازاں مَے کاں مَے چو نوشیده شودآبِ نطق از گنگ جوشیده شود
ترجمہ: (وہ وعظ) اس شراب (الٰہی کی مستی) سے (ادا ہوتا تھا) کہ وہ شراب جب پی لی جائے تو گونگے (کی زبان) سے (بھی) گویائی کا دریا جوش زن ہو جائے۔
25
طفلِ نوزادہ شود حبر و فصیححکمتِ بالغ بخواند چُوں مسیح
ترجمہ: (اور اس کی بدولت ایک) نیا پیدا ہونے والا بچہ (بھی) عالم اور خوش گو بن جائے۔ (اور) حضرت مسیح عليہ السلام کی طرح حکمتِ بالغہ پڑھنے (اور سنانے) لگے۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شیر خوارگی میں لوگوں سے کہا۔ ﴿اِنِّي عَبْدُ اللّٰهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ﴾ (مریم: 30))
26
از گہے کہ یافت زاں مَے خوش لبیصد غزل آموخت داؤدِؑ نبی
ترجمہ: (اسی طرح) حضرت داؤد نبی علیہ السلام نے جب سے اس شراب (الٰہی) سے خوش گوئی حاصل کی تو صد ہا قسم کے کلامِ رقت آمیز سیکھ لیے۔
27
جملہ مرغاں ترک کرده چیک چیکہمزبان و یارِ داؤدِ ملیک
ترجمہ: (چنانچہ) تمام پرندے (اپنی) چیں چیں (کی آواز) چھوڑ کر حضرت داؤد صاحبِ ملک (و سلطنت) کے ہمزبان اور رفیق ہو گئے تھے۔ (﴿يَا جِبَالُ اَوِّبِي مَعَهٗ وَالطَّيْر﴾ (سبا: 10))
28
چہ عجب گر مرغ گردد مستِ او چوں شنید آہن صدائے دستِ او
ترجمہ: (اور) اگر پرندہ ان (کی آوز) سے مست ہو جائے تو (اس میں) تعجب ہی کیا ہے۔ جب کہ لوہے نے ان کے ہاتھ کی آواز سنی (اور مستی سے موم کی طرح نرم ہو گیا)۔
مطلب: جب لوہے جیسی جمادی اور بے روح چیز ان سے متاثر ہو گئی تو پرندے تو آخر ذی روح اور حساس ہیں وہ کیوں نہ متاثر ہوں۔ لوہے کے لیے شنیدن کا اثبات بطریق مجاز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوہا ان کے ہاتھ لگانے سے نرم ہو جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿وَاَلَنَّا لَهٗ الْحَدِيْد﴾ (سبا: 10) ”اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کر دیا‘‘ ۔
29
صرصرے بر عاد قتّالے شدہمر سلیماں را چو حمّالے شده
ترجمہ: (وہ) تند ہوا (جو قومِ) عاد کے لیے سخت مہلک (ثابت) ہوئی تھی سلیمان علیہ السلام کے لیے ایک بوجھ اٹھانے والے (قلی) کی طرح (خدمت گزار) بن گئی۔
30
صرصرے می برد بر سر تختِ شاهہر صباح و ہر مسا یک ماہہ راه
ترجمہ: (چنانچہ) وہ تند ہوا بادشاہ (سلیمان عليہ السلام) کے تخت کو (اپنے) سر پر (اُٹھا کر) ہر صبح و شام ایک مہینے کے راستے تک لے جاتی تھی (﴿غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ﴾ (سبا: 12))
31
ہم شده حمّال و ہم جاسوسِ اوگفتِ غائب را کناں محسوسِ او
ترجمہ: (وہ ہوا) ان کی بار بردار بھی تھی اور ان کی جاسوس (و مخبر) بھی تھی (یعنی گفتگو کرنے والے) غائب کی بات ان کو بتا دیتی تھی۔
32
باد چوں گفتار غائب یافتےسوئے گوشِ آں ملک بشتافتے
ترجمہ: (اس طرح کہ) جب (وہ) ہوا کسی غائب کی گفتار کو پاتی تو ان بادشاہ کے کان کی طرف دوڑی جاتی۔
32
کاں فلانے ایں چنیں گفت ایں زماںاے سلیمانِ شہِ صاحبقراں
ترجمہ: (اور عرض کرتی) کہ یا حضرت سلیمان، بادشاہِ صاحبقران! فلاں شخص نے اس وقت یہ بات کہی ہے۔ (انبیاءِ مذکورین علیہم السلام کے یہ تمام علوم اور برکات جو مذکور ہوئیں۔ سب وہبی ہیں کسبی نہیں۔ ورنہ ہر شخص ان کے حصول میں کامیاب ہو سکتا۔ آگے عود ہے قصہ کی طرف:)