دفتر 6 حکایت 89: سید شاہِ ترمذ کا منادی کرانا کہ جو شخص تین یا چار روز میں سمر قند پہنچ سکے، فلاں مہم کے لیے۔ تو میں اُس کو اس قدر خلعت اور نقد دوں گا۔ اور مسخرے کا گاؤں میں سننا اور اس سید شاہ کے پاس دوڑے جانا (اور کہنا) کہ میں تو نہیں جا سکتا "

دفتر ششم: حکایت: 89



منادی کردنِ سید ملکِ تَرمذ کہ ہر کہ در سہ یا چہار روز بسمرقند رود بفلاں مہم چندیں خلعت و زر دہم و شنیدنِ دلقک در دِہ و تاختن نزد آں سید ملک کہ من بارے نتوانم

سید شاہِ ترمذ کا منادی کرانا کہ جو شخص تین یا چار روز میں سمر قند پہنچ سکے، فلاں مہم کے لیے۔ تو میں اُس کو اس قدر خلعت اور نقد دوں گا۔ اور مسخرے کا گاؤں میں سننا اور اس سید شاہ کے پاس دوڑے جانا (اور کہنا) کہ میں تو نہیں جا سکتا

1

سیدِ ترمذ کہ آں جا شاه بُود مسخره او دلقکِ دلخواہ بود

ترجمہ: ترمذ کا سردار جو وہاں کا بادشاہ تھا اس کا (دل بہلانے والا) مسخره (ایک شخص) دلقک (نام) تھا جو (اس کا) دل پسند تھا۔

2

داشت کارے در سمرقند اُو مہم جست اُلاغے تا شود او مُستتِم

ترجمہ: اس کو سمر قتد میں ایک اہم کام تھا۔ (اس لیے) اسے ایک قاصد کی تلاش تھی تاکہ وه (اس کام کو) تکمیل پر پہنچانے والا ہو۔

3

زد منادی کانکہ او در پنج روز آردم پیغامِ خوب و با فروز

ترجمہ: اس نے منادی کرائی کہ جو شخص پانچ روز میں مجھے صحیح اور تسلی بخش پیغام لا دے۔

4

بخشم او را زرّ و گنجِ بے شمار تا شود میر و عزیز اندر دیار

ترجمہ: میں اس کو بے شمار روپیہ اور خزانہ بخشوں گا وہ ملک میں امیر و معزز ہو جائے گا۔

5

دلقک اندر دِہ بُد و آں را شنید بر نشست و تا بہ ترمذمے دوید

ترجمہ: دلقک (اس وقت ایک) گاؤں میں تھا اور اس نے یہ (اشتہار) سنا۔ تو (سواری پر) بیٹھا اور ترمذ تک دوڑا گیا۔

6

مرکبے دو اندراں رہ شد سَقط از دوانیدنِ فرس را زاں نمط

ترجمہ: گھوڑے کو اس طرح دوڑانے سے دو سواری کے جانور راستے میں ہلاک ہو گئے۔

7

پس بديواں در دوید از گردِ راه وقتِ ناہنگام رہ جُست او بشاه

ترجمہ: پھر وہ راستے کی گرد (اور غبار) سے (لت پت) دارالعدالت میں دوڑا آیا، (اور) غیر مقررہ وقت میں بادشاہ کے پاس باریابی چاہی۔

8

فجفجے در جملہ دیواں فتاد شورشے در وہمِ آں سلطاں فتاد

ترجمہ: (اس گھبراہٹ پیدا کرنے والی بے ہنگام آمد پر) دارالعدالت میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ اس بادشاہ کی قوتِ واہمہ میں (بھی) ایک شورش واقع ہو گئی۔

9

خاص و عامِ شہر را دل شد ز دست تا چہ تشویش و بلا حادث شد ست

ترجمہ: شہر کے خاص و عام (لوگوں) کا دل قابو سے نکل گیا کہ (خدا خیر کرے) کیا تشویش اور بلا حادث ہوگئی۔

10

یا عدوّے قاہرے در قصدِ ماست یا بلائے مہلکے از غیب خاست

ترجمہ: یا تو کسی زبردست غنیم نے ہم پر چڑھائی کی ہے یا کوئی (اور) مہلک بلاغیب سے اُٹھی ہے۔

11

کہ زدہ دلقک بسیرانِ درشت چند اسپِ قیمتی در راہ کُشت

ترجمہ: کہ (جس کی اطلاع دینے کے لیے) دلقک نے رفتارِ شدید کی وجہ سے کئی قیمتی گھوڑے راستے میں ہلاک کر دیئے۔ (دلقک نے شہر میں داخل ہوتے ہی راستے کا ماجرا سنا دیا ہوگا۔)

12

جمع گشتہ بر سرائے شاہ خلق تا چرا آمد چنیں اِشتاب دلق

ترجمہ: بادشاہ کے محل سرا پر مخلوق جمع ہو گئی (تاکہ یہ معلوم کریں) کہ دلقک اس قدر تیزی سے کیوں آیا ہے۔

13

از شتابِ او و جدِّ اجتہاد غلغل و تشویش در ترمذ فتاد

ترجمہ: اس کی جلد اور کوشش اور اہتمام سے ترمذ بھر میں ایک شور اور بے چینی واقع ہوئی۔

14

آں یکے دو دست بر زانو زناں واں دگر از وَہم واویلا کُناں

ترجمہ: وہ ایک تو (اضطراب کے ساتھ) دونوں ہاتھ زانو پر مارتا تھا۔ اور وہ دوسرا (نزولِ بلا کے) وہم سے فریاد کرتا تھا۔

15

از نفير و فتنہ و خوفِ نکال ہر دلے رفتہ بصد گونہ خيال

ترجمہ (عوام شہر کی) فریاد (بلند ہوئے) اور (اضطراب عام کا) فتنہ (اٹھنے) اور (نزولِ) عذاب کے خوف سے ہر دل سو طرح کے خیالوں کی طرف جاتا تھا۔ (اکثر نسخوں میں خوف و نکال بواؤ عاطفہ درج ہے قلمی نسخہ میں بھی یہی صورت ہے مگر مہنج القویٰ میں واؤ نہیں یہ نسخہ اولیٰ معلوم ہوا۔) 

16

ہر کسے فالے ہمی زد از قیاس تا چہ آتش اوفتاد اندر پلاس

ترجمہ: ہر شخص قیاس سے (اٹکل بچو) فال لگا رہا تھا کہ کون سی آگ ٹاٹ میں لگ گئی۔

17

راہ جست و راه دادش شاه زود چوں زمین بوسید گفتا ہے چہ بود

ترجمہ اس نے باریابی چاہی تو بادشاہ نے فوراً اس کو باریاب کیا۔ جب اس نے (سامنے پیش ہو کر) زمین بوسی کی تو بادشاہ نے کہا ہائیں! کیا ہوا؟

18

ہر کہ می پرسید حالے زاں ترُش دست بر لب می نہاد او کہ خمُش

ترجمہ: جو شخص اس ترشرو (دلقک) سے حال پوچھتا تھا تو وہ لب پر ہاتھ رکھ دیتا (جس میں یہ اشارہ تھا) کہ خاموش رہو۔ (یہ بات اسی طرح بتانے کی نہیں۔)

19

وہم مے افزود زیں فرہنگِ اُو جملہ در تشویش گشتہ دنگِ اُو

ترجمہ: اس کی اس ترکیب سے (لوگوں کا) وہم اور زیادہ ہوتا تھا۔ سب لوگ تشویش میں اس کے (اس طرزِ عمل سے) دنگ ہو رہے تھے۔

20

کرد اشارت دلقک اے شاہِ کرم یک دمے بگذار تا من دم زنم

ترجمہ: دلقک نے اشارہ کیا کہ اے شاہ صاحبِ کرم! تھوڑی دیر چھوڑ دیجیے، تو میں پھر عرض کروں گا۔

21

تا کہ باز آید بمن عقلم دمے کہ فتادم در عجائب عالمے

ترجمہ: تاکہ ذرا میری عقل ٹھکانے ہو جائے۔ کیونکہ میں عجیب عالم میں واقع ہو رہا ہوں۔

22

بعد یک ساعت کہ شاه از وہم و ظن تلخ گشتش گلو و ہم دہن

ترکیب: یہ شعر ظرف ہے اگلے بارھویں شعر ’’گفت زوتر باز گو الخ‘‘ کے مضمون کی اور درمیانی اشعار سب معترضہ ہیں۔

ترجمہ: ایک ساعت کے بعد جب کہ بادشاه کا حلق اور منہ وہم اور گمان کے مارے تلخ ہو گیا۔

23

کو ندیده بود دلقک را چنیں کہ ازو خوشتر نبودش ہمنشیں

ترجمہ: کیونکہ اُس نے دلقک کو اس حالت میں (کبھی) نہ دیکھا تھا۔ (اس لیے) کہ اس سے زیادہ خوش مزاج اس کا کوئی ہم نشین نہ تھا۔

24

دائماً دستان و لاغ افراشتے شاه را او شاد و خندان داشتے

ترجمہ: (چنانچہ) وہ ہمیشہ افسانے اور لطیفے نکالا کرتا تھا۔ بادشاہ کو وہ خوش رکھتا اور ہنساتا رہتا تھا۔

25

آں چناں خندانش کردے در نشست کہ گرفتے شہ شکم را با دو دست

ترجمہ: وہ مجلس میں بادشاہ کو اس قدر ہنساتا کہ بادشاہ دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ لیتا تھا۔

26

ہم ز زور خنده خوے کردے تنش رو در افتادے ز خندہ کردنش

ترجمہ: نیز ہنسی کے غلبے سے اس کے بدن کو پسینہ آ جاتا۔ وہ اپنے (بے بسی کے) ہنسنے سے منہ کے بل گر پڑتا۔

27

باز امروز ایں چنیں زرد و ترش دست بر لب میزند کاے شہ خمُش

ترجمہ: پھر آج (اس کی حالت یہ ہے کہ) یوں زرد (رنگ) و ترش رو (ہو کر) لب پر ہاتھ رکھتا ہے کہ اے بادشاه! خاموش رہو۔

28

وہم در وہم و خیال اندر خیال شہ را تا خود چہ آید از نکال

ترجمہ: (ادهر) بادشاہ کو وہم در وہم اور خیال در خیال (گزرتا تھا) کہ (دیکھئے) کیا وبال آتا ہے۔

29

کہ دلِ شاه با غم و پرہیز بود زانکہ خوازم شاه بس خونریز بود

ترجمہ: کیونکہ بادشاہ کا دل (پہلے ہی) غم و خوف میں مبتلا تھا۔ اس لیے کہ خوارزم شاہ بڑا خونریز (و جابر بادشاہ) تھا۔

30

جائے تختِ او سمرقند گزیں بُد وزیرے داہی او را ہمنشیں

ترجمہ: اس کی تخت گاہ پسندیده (شہر) سمرقند تھا (اور) ایک چالاک وزیر اس کا ہم نشین تھا۔

31

بس شہانِ آں طرف را کُشتہ بُود یا بہ حیلت یا بہ سطوت آں عنود

ترجمہ: اس نواح کے بہت سے بادشاہوں کو وہ ستیزه کار حیلہ سے یا غلبہ سے قتل کر چکا تھا۔

32

ویں شہِ ترمذ ازو در وہم بود وز فنِ دلقک ہمی وَہمش فزود

ترجمہ: اور یہ شاهِ ترمذ اس کی طرف سے وہم اور اندیشہ میں (مبتلا) تھا۔ اور (اب) دلقک کی (اس) چال سے اس کو اور زیادہ وہم ہوا (کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے)۔

33

گفت زوتر باز گو تا حال چیست  ایں چنیں آشوب و شورِ تو ز کیست

ترجمہ: (غرض) شاہ ترمذ نے ایک ساعت کے بعد کہا جلدی بیان کر کہ کیا معاملہ ہے تیرا اس قدر آشوب اور شور کس (کے سبب) سے ہے۔

34

گفت من در ده شنیدم آنکہ شاہ زد منادی بر سرِ ہر شاہراہ

ترجمہ: (دلقک اب آ کر پھوٹا اور) بولا۔ میں نے گاؤں میں سنا کہ بادشاہ نے ہر شاہراہ پر (یہ) منادی کرائی ہے کہ:

35

کہ کسے خواہم کہ تازد در سہ روز تا سمرقند او چو پیکِ بافروز

ترجمہ: کہ میں کوئی ایسا آدمی چاہتا ہوں جو تین دن میں سمرقند تک ایک شان دار قاصد کی طرح دوڑا جائے۔

36

گنجہا بدہم وُرا اندر عوض چوں شود حاصل ز پیغامش غرض

ترجمہ: جب اس کے پیغام سے غرض حاصل ہو جائے گی تو میں (اس کے) عوض میں اس کو خزانے دوں گا۔

37

من شتابیدم برِ تو بہرِ آں تا بگویم کہ ندارم آں تواں

ترجمہ: میں حضور کے پاس اس لیے دوڑا آیا ہوں تاکہ یہ عرض کروں کہ میں یہ قوت نہیں رکھتا۔

38

ایں چنیں کارے نیاید خود ز من تارِ ایں امید را بر من متَن

ترجمہ: ایسا کام مجھ سے ہو ہی نہیں سکتا۔ اس امید کے تار کو مجھ پر نہ تنیے (یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھئے)۔

39

گفت شہ لعنت بریں زودیت باد کہ دو صد تشویش در شہر اوفتاد

ترجمہ: بادشاہ نے کہا تیری اس جلد بازی پر لعنت ہو کہ (اس سے) دو سو تشویش شہر میں واقع ہو گئی۔

40

از برائے ایں قدر اے خام ریش آتش افگندی دریں مرج و حشیش

ترجمہ: اے احمق (مسخرے)! اتنی سی بات کے لیے تو نے چراگاہ اور گھاس میں آگ لگا دی۔ (آگے مولانا دلقک کے اس بے بنیاد طمطراق کی مناسبت سے شیوخ و متدین ادعائی دھوم دھام کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

41

ہمچو ایں خامانِ با طبل و علَم کہ امامانیم در فقر و عَدَم

ترجمہ: (دلقک کا یہ بے بنیاد طمطراق) ان ناقص پیروں (کے اِدعائے ولایت) کی مانند (تھا) جو (سامانِ شہرت کے) نقارے اور جھنڈے کے ساتھ (یہ دعوٰی کرتے) ہیں کہ ہم فقر و فنا میں (دنیا کے) پیشوا ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

لباسِ شہرتِ ایں قوم خالی از معنی ست بجز لباسِ قلمکار نیست چون تصویر

42

لافِ شیخی در جہاں انداختہ خویشتن را بایزیدے ساختہ

ترجمہ: دنیا میں (اپنی) پیری کی لاف (سے ہلچل) ڈال رکھی ہے اپنے آپ کو بایزید (ثانی) بنا رکھا ہے۔

43

ہم ز خود سالک شده واصل شده محفلے وا کرده در دعویٰ کدہ

ترجمہ: آپ سے آپ سالک بھی ہوگئے واصل بھی ہوگئے (ان کا ڈیرا جو) دعوٰی پیری کا اچھا خاصا كان خانہ (ہے اس) میں (ہو حق کی) مجلس لگا رکھی ہے۔ (ان پیروں کی اس بے بنیاد سلوک و طریقت کی مثال ایسی ہے:)

44

خانۂ داماد پُر از شور و شر قومِ دختر را نبودہ زیں خبر

ترجمہ: (جیسے) دولہا کے گھر میں تو دھما چوکڑی مچ رہی ہے دلہن کے کنبے کو (اس کی) خبر بھی نہیں۔ (اسی طرح یہاں تو ہو حق کے نعروں اور وجد و حال کی مذبوحی حرکتوں سے اودھم مچ رہی ہے مگر مقامِ قرب میں ان باتوں کا کوئی دخل و تعلق نہیں۔)

45

ولولہ کہ کار نیمے راست شد شرطہائے کاں ز سوے ما ست شد

ترجمہ: (دولھا والوں کے ہاں) دھوم مچ رہی ہے کہ آدھا کام ٹھیک ہو گیا جو ضروریات شادی کی ہماری طرف سے (مہیا ہونی ضروری) ہیں (وہ سب) ہو گئیں۔

46

خانہا را رُوفيتم آراستیم زیں ہوس سرمست و خوش برخاستیم

ترجمہ: ہم نے گھروں کو صاف (اور) آراستہ کر لیا۔ اس شوق سے ہم مست اور خوش اٹھے ہیں۔

47

زاں طرف آمد یکے پیغامِ نے آمد ایں سُو مُرغکے زاں بام نے

ترجمہ: (ادھر دلہن والوں کی حالت یہ ہے کہ) اُس طرف سے ایک پیغام بھی (اس قسم کا) نہیں آیا (کہ مثلاً نکاح کی فلاں تاریخ مقرر ہے یا فلاں سامان لائیں یا اتنی برات لائیں وغیرہ۔ بلکہ یوں سمجھو کہ) اُس کوٹھے سے کوئی چھوٹی سی چڑیا بھی ادھر نہیں آئی۔

مطلب: اسی طرح یہ شیوخ مزوّرینِ عام لوگوں کے دکھانے کو گویا سلوک و طریقت کی بڑی منزلیں مار دیتے ہیں۔ مگر ان کی حالت پر غور کرو تو ان میں نہ کمالاتِ باطنیہ کے آثار نظر آتے ہیں نہ قربِ حق کی کوئی نشانی ہے نہ مقبولیت کی کوئی علامت۔ كما قال العارف الجامی قدّس سرّه ؎

نہ بر برونِ وے از لمعۂ ہدایت نور نہ در درونِ وے از شعلۂ محبت جوش

48

زیں رسالاتِ مزید اندر مزید یک جوابے از حوالیِ شاں رسید

ترجمہ: (ان دولہا والوں سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارے) اتنے بہت سے بہت پیغاموں میں سے (کسی پیغام کا کوئی) ایک جواب بھی ان لوگوں کی طرف سے (تم کو) پہنچا ہے؟

49

نے، و لیکن یارِ ما زیں آگہ ست زانکہ از دِل سوئے دل لابُد رہ ست

ترجمہ: (تو یہ جواب دیتے ہیں کہ) نہیں (جواب تو نہیں آیا) لیکن ہمارا پیارا (سمدھی ہماری) اس (تیاری) سے واقف ہے، کیونکہ دل سے دل کی طرف ضرور راستہ ہے۔ (وہ عین تاریخ پر ہم کو بلا بھیجے گا۔)

مطلب: اسی طرح جب ان مکار پیروں سے پوچھا جاتا ہے کہ جو بزرگانِ دین صاحبِ کشف کرامات اور اہلِ قرب و حضور گذرے ہیں یا اب موجود ہیں ان کے مقبولِ خدا ہونے کی خاص نشانی یہ ہے کہ ان کو حق تعالیٰ سے پوری نسبت حاصل ہے، وہ تمام احکامِ خداوندی کے پابند اور سنتِ رسولِ خدا کے متبع ہیں۔ آپ لوگ جب احکام خدا کے پابند نہیں ہیں، رسولِ خدا کی سنت پر عامل نہیں ہیں تو کیونکر مقبولِ خدا ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی بادشاہ کا باغی بادشاہ کی نظر میں معزز اور مستحقِ انعام ہو سکتا ہے؟ تو ان کا آخر جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارا تعلق حق کے ساتھ خاص الخاص ہے۔ طاعات و عبادات کی پابندی عام لوگوں کے لیے ہے، ہم اس صف سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ ہمارے قصبہ میں ایک ملحد امیر شاه نامی تھا اس کو خود راقم نے یہ کہتے سنا ہے کہ نماز کی پابندی عام مسلمانوں کے لیے ہے جو ابھی مقامِ قرب کو نہیں پہنچے۔ اس مقام پر پہنچنے والے پر یہ پابندی نہیں۔ پھر اس نے کہا نماز کی مثال فوجی قواعد کی سی ہے جو نو آموز رنگروٹوں کے لیے لازم ہیں۔ جب سپاہی فنونِ جنگ میں طاق اور افسرِ فوج کے عہدے پر قائم ہو جاتا ہے تو اس سے قواعد پریڈ کی پابندی اٹھ جاتی ہے۔ یہ ملحد اس قدر حجتی اور بے باک و بد زبان تھا کہ اس سے گفتگو کرنا اہلِ علم کے لیے خلافِ شان تھا۔ اکل و شرب کی بے اعتدالی کا نتیجہ سوءِ ہضم ہے۔ اسی طرح قول و فعل کی بے اعتدالی کا نتیجہ بھی سوءِ انجام ہے۔ آخر یہ بری موت مرا اور جب مرا تو حالت یہ تھی کہ لاش میں کِرم چلتے تھے اور کوئی شخص شدّتِ تعفن سے اس کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ آگے مولانا ان شيوخِ مزوِّرین کے جواب میں جرح فرماتے ہیں:

50

پس ازاں یارے کہ امیدِ شما ست از جوابِ نامہ رہ خالی چرا ست

ترجمہ: (اگر اس محبوبِ حقیقی کے ساتھ تمہارے خاص الخاص تعلقات ہیں) تو پھر اُس محبوب کی طرف سے جو تمہارا اميد (گاہ) ھے، جوابِ خط سے راستہ کیوں خالی ہے؟

مطلب: یعنی اگر تم مقبولِ حق ہو تو تم پر آثارِ قبول اور علاماتِ برگزیدگی کیوں نمایاں نہیں، جو نصوص میں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً حدیث میں ہے: ’’یُوْضَعُ لَہٗ الْقُبُوْلُ فِیْ الْاَرْضِ‘‘ (صحیح مسلم) یعنی ”دنیا کے صالح لوگوں میں وہ مقبول ہوتا ہے‘‘ اور ’’اِذَا رُأُوْا ذُکِرَ اللّٰہُ‘‘ (ابنِ ماجہ) یعنی ’’اس کے دیدار سے خدا یاد آتا ہے“ اور قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ’’جو ایماندار ہیں اور پرہیزگار ہیں‘‘۔ (یونس: 63) آگے مولانا ان آثار کے متعلق فرماتے ہیں:

51

صد نشاں ست از سرار و از جہار لیک بس کن پردہ زیں در بر مدار

ترجمہ: (مقبولیت کے لیے) باطن سے اور ظاہر سے صد ہا آثار ہیں لیکن بس کرو آثارِ باطن کے اس راز سے پرده نہ اٹھاؤ۔

مطلب: عدمِ افشاء کی ہدایت آثارِ باطنہ کے بارے میں کی ہے۔ ورنہ آثارِ ظاہرہ جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ اور جن کی چند ایک مثالیں اوپر درج ہو چکی ہیں ان سے تو پرده اُٹھ چکا ہے، اور ان سے پردہ اٹھنا عوام کی نظر میں حق و باطل کے ممیّز ہونے کے لیے ضروری بھی تھا آثار باطنہ کے افشا سے اس لیے منع کیا ہے کہ اس سے عوام کے اشتباه میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔

52

باز رو تا قصۂ آں دلقِ جہول کہ بلا بر خویش آورد از فضول

ترجمہ: پھر دلقکِ جاہل کے قصہ کی طرف چلو جس نے (ایک) فضول (حرکت سے) اپنے اوپر بلا نازل کر لی۔

مطلب: دلقک تو اس حرکت کو ایک ظرافت سمجھا کہ شاید بادشاہ اس پر خوش ہو کر انعام دے گا مگر بادشاہ کی نظر میں یہ ایک شدید جرم تھا۔ چنانچہ دلقک کو شکنجۂ عقوبت میں کرنے کی تجویزیں ہونے لگیں۔ الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔

53

پس وزیرش گفت کاے حق را سُتن بشنو از بندۂ کمینہ یک سخن

ترجمہ: پس اس (بادشاہ) کے وزیر نے عرض کیا کہ اے حق کے ستون! (اس) غلام کمترین سے ایک بات سنیے۔

54

دلقک از دِہ بہرِ کارے آمد ست رائے او گشت و پشیمان زاں شد ست

ترجمہ: دلقک گاؤں سے کسی کام کے لیے (ترمذ میں) آیا ہے (یہاں آ کر) اس کی رائے بدل گئی اور اس سے پچھتا گیا۔ (اس لیے اپنی آمد کی وجہ کو آپ سے مخفی رکھنے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔)

56

ز آب و روغن کہنہ را نو مے کند او بمسخرگی بروں شو مے کند

ترجمہ: وہ چکنی چپڑی سے اصلیت کو چھپا رہا ہے۔ ہنسی ہنسی میں (اپنے) چھٹکارے کا سامان کر رہا ہے۔

مطلب: وزراء کو بادشاہوں کی طبیعت میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ وہ چاہیں تو بادشاہ کی مشتعل طبیعت کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں ٹال کر مطمئن کر دیں اور اگر چاہیں تو اس کے ادنیٰ تکدّرِ طبع کو اپنی اشتعال انگیزی سے آتشِ جہاں سوز بنا دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزیر کی دلقک کے ساتھ کوئی اندرونی کاوش تھی۔ اسی بنا پر اس نے دلقک کے متعلق جو رائے ظاہر کی اس سے بادشاہ کو اس شبہ میں ڈالنا مقصود تھا کہ دلقک ترمذ میں کسی مجرمانہ قصد سے آیا تھا۔ ممکن ہے کہ خورازم شاه سے مل گیا اور جاسوس بن گیا ہو یا خوارزم شاہ نے  کسی اور پُرخطر کام کے انجام دینے کے لیے اس کو یہاں بھیجا ہو اور یہاں آ کر اسے اس کام کا حوصلہ نہ پڑا اور اب اپنی آمد کے متعلق بہانہ سازی کرنے لگا۔ چنانچہ وزیر کہتا ہے:

56

غمد را بنمود و پنہاں کرد تیغ باید افشردن مرو را بے دریغ

ترجمہ: اس نے (دل لگی کی باتوں کا) خلاف دکھایا ہے اور (مجرمانہ ارادے کی) چھری کو چھپایا ہے۔ بلا شبہ اس کو شکنجۂ عذاب میں کسنا چاہیے۔

57

پستہ را یا جوز را تا نشکنی نے نماید دل نہ بدہد روغنی

ترجمہ: پستہ یا اخروٹ کو جب تک توڑو گے نہیں نہ تو وہ مغز ظاہر کرے گا نہ روغنی اجزاء دے گا۔ (یعنی دلقک تشدّد کے بدوں اپنے مجرمانہ ارادہ کا راز ظاہر نہیں کرے گا۔)

58

او میاں بنمود و پنہاں کرد کارد بے گماں او را ہمی باید فشارد

ترجمہ: اس نے (دل لگی باتوں کا) غلاف دکھایا ہے اور (مجرمانہ ارادے کی) چھری کو چھپایا ہے۔ بلاشبہ اس کو شکنجۂ عذاب میں کسنا چاہیے۔

59

مشنو ایں دفعِ وے و فرہنگِ او در نگر در ارتعاش و رنگِ او

ترجمہ: اس کی یہ ٹال مٹول اور جوڑ توڑ کی باتیں نہ سنئے۔ (بلکہ) اس کے کانپنے کو اور (چہرے کے) رنگ کو دیکھیے (جو افشائے راز کے خوف سے اڑا جا رہا ہے)۔

60

گفت حق سِیْمَاھُمْ فِیْ وَجْھِھِمْ زانکہ غماز ست سیما و مُنِمّ

ترجمہ:حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کی علامت ان کے چہروں پر ہے کیونکہ (چہرے کی) علامت چغل خور اور سخن چین ہے۔

مطلب: حق تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں فرمایا ہے۔ ﴿سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح: 29) ’’ان کی شاخت یہ ہے کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ظاہری علامات کو باطنی احوال کے سمجھنے میں حق تعالیٰ نے بھی بہتر فرمایا ہے۔ پس اس دلقک کا لرزہ بدن اور اس کے چہرے کا رنگ فق ہو جانا اس کے مجرمانہ ارادہ کی علامت ہے۔

61

ایں معاین ست ضدِّ آں خبر کہ بشرّ بسرشتہ آمد ایں بشر

ترجمہ: اس جز کے خلاف (جو دلقک دے رہا ہے۔ اس کے لرزه و رنگ سے) یہ (بات) معائنہ میں آ گئی، کہ یہ شخص شرارت کا پتلا ہے۔ (اب تو دلقک کی جان پر بنی۔ چنانچہ:) 

62

گفت دلقک با فغاں و با خروش صاحبا در خونِ ایں مسکیں مکوش

ترجمہ: دلقک چلا چلا کر کہنے لگا اجی وزیر صاحب! اس مسکین کے خونِ (نا حق) میں کوشش نہ کیجئے۔

63

بس گمان و وہم آید در ضمیر کاں نباشد حق و صادق اے امیر

ترجمہ: اے امیر صاحب! آپ نے صرف قیاسات ہی سے مجھ کو مجرم سمجھ لیا۔ (حالانکہ) بہتیرے ظن و وہم دل میں ایسے آ جاتے ہیں جو صحیح اور درست نہیں ہوتے۔

64

اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم ست اے وزیر نیست استم راست خاصہ بر فقیر

ترجمہ: (ظن و وہم نہ صرف غیر صحیح ہیں بلکہ بقول حق تعالیٰ) بعض ظن گناه ہیں۔ جناب وزیر صاحب یہ ظلم کرنا ٹھیک نہیں۔ خصوصاً ایک فقیر پر۔

65

شہ نگیرد آنکہ می رنجاندش از چہ گیرد آنکہ می خنداندش

ترجمہ: (ہمارے) بادشاہ (سلامت) تو (ایسے حلیم و بُردبار ہیں کہ وہ) اُس شخص پر (بھی) گرفت نہیں کرتے جو ان کو رنجیده کرے تو (پھر آپ کے کہنے سے) اُس شخص پر کیوں گرفت کرنے لگے جو ان کو ہنساتا (اور خوش کرتا) ہو۔

66

گفتِ صاحب پیشِ شہ جاگیر شد کاشفِ ایں مکر و تزویر شد

ترجمہ: (دلقک نے ہر چند اپنی صفائی کی کوشش کی مگر حالات ہی کچھ ایسے جمع ہو گئے۔ نیز) وزیر کی (تقریر اس قدر مدلل تھی کہ اس کی) بات بادشاه کے نزدیک وقعت پا گئی۔ (اور دلقک کے) اس مکر و فریب کو (بادشاه پر) افشاء کرنے والی ٹھہری (جس کا خدا جانے سچا یا جھوٹا الزام دلقک پر لگایا گیا)۔

67

گفت دلقک را سوئے زنداں بُرید چاپلوس و زُرقِ او را کم خريد

ترجمہ: (چنانچہ) بادشاہ نے حکم دیا کہ دلقک کو جیل خانہ میں لے جاؤ۔ اس کی خوشامد اور فریب (کی باتوں کو) مت قبول کرو۔

68

مے زنیدش چوں دُہلِ اشکم تہی تا دُہل وار او دہد تاں آگہی

ترجمہ: اس کو خالی پیٹ والے ڈھول کی طرح پیٹتے رہو تاکہ وہ تم کو ڈھول کی طرح (حقیقتِ حال سے) آگاہی دے (تم کہو گے ڈھول تو خالی ہوتا ہے۔ تو خبر کس بات کی دے سکتا ہے۔ سو:)

69

زانکہ ہم پُر ہم تہی باشد دہل بانگِ او آگہ کند ما را ز کُل

ترجمہ: (یہ ہم نے) اس لیے (کہا) کہ ڈھول پُر بھی ہوتا ہے اور خالی بھی۔ اس کی آواز ہم کو (اس کے پُر ہونے سے اور خالی ہونے سے) سب سے آگاہ کر دیتی ہے۔ (یعنی اس کی آواز بتا دیتی ہے کہ وہ ٹھوس جسم سے خالی ہے اور ہوا سے پُر ہے۔ اسی طرح یہ دلقک صدق سے خالی اور کذب سے پُر ہے۔ لہٰذا اس کو پیٹے جاؤ۔)

70

تا بگوید سِرِّ خود را ز اضطرار آں چنانکہ گیرد ایں دلہا قرار

ترجمہ: تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنا راز بیان کر دے (مگر) اس طرح کہ ان دونوں کو اطمینان ہو جائے (کہ درست کہہ رہا ہے)۔

71

چوں طمانین ست صدقِ با فروغ دل نیارامد بگفتارِ دروغ

ترجمہ: چرنکہ پُر نور سچائی ہی (دل کے) اطمینان (کی باعث) ہے۔ اس لیے دل جھوٹی بات سے سکون نہیں پاتا۔

72

کذب چوں خس باشد دل چوں دہاں خس نگردد در دہاں ہرگز نہاں

ترجمہ: جھوٹ تنکے کی مانند ہوتا ہے (اور) دل دہان کی مثل۔ تنکا دہان کے اندر ہرگز غیر محسوس نہیں رہ سکتا۔

73

تا درو باشد زبانے می زند تا بدانش از دہاں بیرون کند

ترجمہ: جب تک وہ (تنکا) اُس (دہان) میں رہتا ہے (دہان والا برابر اس کو) زبان سے ٹٹولتا رہتا ہے۔ حتٰی کہ اس (زبان) کے ذریعہ (اُس تنکے) کو دہان سے نکال ڈالتا ہے۔

74

خاصہ کاندر چشم افتد خس ز باد چشم افتد در نم و بند و کشاد

ترجمہ: خصوصاً (جب) کہ آنکھ میں ہوا سے تنکا پڑ جائے تو آنکھ فوراً پانی (ٹپکنے) اور (بار بار) بند ہونے اور کھلنے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

75

ما پس ایں خس را زنیم اکنوں لگد تا دہان و چشم زیں خس وا رہد

ترجمہ: پس اب ہم (بھی) اس کمینے کے لاتیں ماریں۔ تاکہ (ہمارا) دہان اور آنکھ اس تنکے سے نجات پائے۔ (یعنی اس کے کذب آمیز عذر سے جو ایک خلجان پیدا ہو گیا۔ وہ اس کے صاف اعتراف سے رفع ہو جائے گا خس کے لفظ کی تجنیس پُر لطف ہے۔)

76

گفت دلقک اے ملک آہستہ باش روئے حلم و مغفرت را کم خراش

ترجمہ: دلقک نے کہا، اے بادشاہ (سلامت)! ذرا توقف فرمایئے حلم اور عفو کے چہرے کو (یوں) نہ نوچیے۔

77

تا بدیں حد چیست تعجیل و نقم من نمی پرّم، بدستِ تو دَرم

ترجمہ: اس حد تک جلدی اور انتقام کیوں ہے؟ میں کہیں اڑا تو نہیں جانے کا۔ آپ ہی کے ہاتھ میں ہوں۔

78

آں ادب را باشد از بہرِ خدا اندراں مستعجلی نبود روا

ترجمہ: جو تادیب (و سزا) حق (کے حکم کی بجا آوری) کے لیے ہوتی ہے اس میں جلد بازی روا نہیں۔

79

وانچہ باشد طبع و خشمِ عارضی می شتابد تا نگردد منقضی

ترجمہ: اور وہ (تادیب و سیاست) جو طبیعت (کے جوش) اور عارضی غصہ (کا مقتضا) ہو۔ (اُس میں) جلدی کرتا ہے تاکہ (کہیں) زائل نہ ہو جائے۔

80

ترسد ار آید رضا خشمش رود انتقام و ذوق ازو فائت شود

ترجمہ: اس لیے ڈرتا ہے کہ اگرخوشنودی آ گئی تو غصہ جاتا رہے گا۔ (اور پھر) انتقام (کا جذبہ) اور (نفس کا) ذوق اس سے فوت ہو جائے گا۔

81

شہوتِ کاذب شتابد در طعام خوفِ فوتِ ذوق نبود جُز سقام

ترجمہ: (اس کی مثال ایسی ہے۔ جیسے) اشتہائے کاذب (کسی کو) ذائقہ طعام کے فوت ہو جانے کے خوف سے جلدی کھانے پر مائل کر دیتی ہے (اور یہ جلدی کھانا) بجز مرض کے کچھ نہیں۔

82

اشتہا صادق بود تاخیر بِہ تاگوارنده شود آں بے کَره

ترجمہ: (اس لیے) اشتہائے صادق (پیدا) ہونے (تک کھانے) میں تاخیر اچھی ہے۔ تاکہ وہ (کھانا) ہضم ہو جائے، سدہ نہ بن جائے۔

83

تو پئے دفعِ بلایم میزنی تا بہ بینی رخنہ را بندش کنی

ترجمہ: حضور مجھ کو (ایک) بلا (ئے موہوم) کے دفع کے لیے مارتے ہیں۔ تاکہ حضور (اس راز) رخنہ (انداز) کو معلوم کریں (جس کا گمان ہو رہا ہے اور) اس کا تدارک فرمائیں۔

84

تا ازاں رخنہ بروں ناید بلا غیر آں رخنہ بسے دارد قضا

ترجمہ: تاکہ اس رخنہ سے بلا ظاہر نہ ہو۔ (لیکن) اس کے علاوہ قضا کے پاس اور بھی بہت سے رخنے ہیں۔

85

چارۂ دفعِ بلا نبود ستم چاره احساں باشد و عفو و کرم

ترجمہ: بلا کو دفع کرنے کی تدبیر ظلم کرنا نہیں ہے۔ (بلکہ اس کا) چاره احسان اور عفو ہے۔

86

گفت اَلَصَّدْقَۃُ تَرُدُّ لِلْبَلَا دَاوِ مَرْضَاکَ بِصَدَقَۃ یَا فَتٰی

ترجمہ: ارشاد فرمایا ہے کہ خیرات بلا کو دور کرتی ہے۔ اے جوان! اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کر۔ (حدیث میں ہے  ’’صَدَقَۃُ الْمَرْءُ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِی الْعُمْرِ وَ تَمْنَعُ مَوْتَ السُّوْءِ‘‘ ”مسلمان آدمی کی خیرات عمر کو زیادہ کرتی ہے اور بُری موت کو روک دیتی ہے“ (الجامع الصغير))

87

صدقہ نبود سوختن درویش را کور کردن چشمِ حلم اندیش را

ترجمہ: درویش کو جلانا صدقہ نہیں ہے۔ (اور نہ) حلم کو ملحوظ رکھنے والی آنکھ کو اندھا کرنا (صدقہ ہے)۔

88

گفت شہ نیکو ست خیر و موقعش لیک چوں خیرے کنی در موضعش

ترجمہ: بادشاہ نے کہا (میں مانتا ہوں) کہ خیرات کرنا اور اُس کا واقع ہونا اچھی بات ہے۔ لیکن جب کہ خیرات (کے کام) کو اُس کے موقع پر کرے۔

89

موضعِ رُخ شہ نہی ویرانی ست موضعِ شہ پیل ہم نادانی ست

ترجمہ: (چنانچہ اگر) تم (شطرنج کے کھیل میں) رُخ کی جگہ بادشاہ کو رکھو، تو (بازی کی) بربادی ہے۔ (اور اگر) بادشاہ کی جگہ فیل کو رکھو تو (یہ بھی) نادانی ہے۔

مطلب: رُخ شطرنج کا ایک طاقتور اور جنگجو مہرہ ہے۔ اس کی جگہ بادشاہ کو رکھنا ایسا ہے جیسے میدانِ قتال میں ایک تیغ زن سپاہی کی جگہ بادشاہ کا کھڑا ہونا۔ جس میں اس کے قتل ہونے اور جنگ کا نقشہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہے اور فیل بھی ایک خاصا طاقتور مہرہ ہے۔ اس کو مہروں کی چپقلش سے نکال کر بادشاہ کی جگہ پر لا رکھنا بھی ایسا ہی حماقت کا کام ہے۔ جیسے کسی سپاہی کو صفِ جنگ سے کھینچ کر بادشاہ کے تخت پر لا بٹھانا۔

90

در شریعت ہم عطا ہم زجر ہست شاه را صدر و فرس را درگہ ست

ترجمہ: (بے شک) شریعت میں عطا بھی ہے (اور) سزا بھی ہے۔ بادشاہ کے لیے گدّی ہے اور گھوڑے کے لیے دروازہ کی جگہ ہے:۔

91

عدل چہ بوَد وضع اندر موضعش ظلم چہ بوَد وضع در ناموقعش

ترجمہ: عدل کیا ہوتا ہے؟ (ہر شے کو) اس کے موقع پر رکھنا (اور) ظلم کیا چیز ہے؟ (کسی چیز کو) اُس کے غیر محل میں رکھنا۔ (الظلم وضع الشیء فی غیر محلهٖ مشہور مقولہ ہے)۔

92

عدل چہ بوَد آب دِہ اشجار را ظلم چہ بوَد آب دادن خار را

ترجمہ: (مثلاً) عدل کیا ہوتا ہے؟ (یہ کہ) تم درختوں کو پانی دو۔ ظلم کیا ہوتا ہے؟ کانٹے کو پانی دینا۔

93

نیست باطل ہر چہ یزداں آفرید از غضب وز حلم وز نُصح و مکید

ترجمہ: حق تعالیٰ نے غصہ اور حلم اور خلوص اور فریب (وغیرہ) جو کچھ پیدا کیا ہے عبث نہیں ہے۔

94

خيرِ مطلق نیست زينہا ہیچ چیز شرِّ مطلق نیست زینہا ہیچ نیز

ترجمہ: ان میں سے کوئی چیز ہر پہلو سے اچھی نہیں (اور) ان میں سے کوئی چیز ہر پہلو سے بُری بھی نہیں ہے۔

95

نفع و ضِرّ ہر یکے از موضع ست علم زیں رُو واجب ست و نافع ست

ترجمہ: (بلکہ) ہر ایک کا نفع و ضرر موقع کے اعتبار سے ہے۔ اس (موقع و محل کے) پہلو سے آگاہ ہونا واجب ہے۔ (تاکہ نفع حاصل کریں اور ضرر سے بچیں۔)

96

اے بسا زجرے کہ برمسکین روَد در ثواب از نان و حلوا بِہ بود

ترجمہ: ارے میاں! بہت دفعہ کسی مسکین کی جو گو شمالی ہو جاتی ہے۔ وہ ثواب میں (اس کو) نان و حلوا (کھلانے) سے بہتر (ثابت) ہوتی ہے۔

97

زانکہ حلوا گرمی و صفرا کند سَیلیَش از خبث مستنقا کند

ترجمہ: کیونکہ حلوا گرمی اور صفرا (پیدا) کرتا ہے (اور) طمانچہ اس کو (بُرے اخلاق کی) گندگی سے پاک کرتا ہے۔

98

سَیلئے در وقت بر مسکیں بزن کہ رہاند آنش از گردن زدن

ترجمہ: (لہٰذا بہتر ہے کہ مناسب) وقت پر مسکین کے طمانچہ مارو۔ تاکہ وہ (طمانچہ) اس کو گردن مارے جانے سے بچائے۔ (کیونکہ بے موقع رعایت سے وہ جرائم پر دلیر اور کسی شدید سزا کا مستوجب ہو گا۔ طمانچہ مارو گے تو یہ نوبت نہ آئے گی۔)

99

زخم در معنیٰ فتد بر خوئے بَد چوب بر گرد اوفتد نے بر نمد

ترجمہ: (پس یہ) چوٹ در حقیقت اس بُری خصلت پر واقع ہو گی۔ (جیسے کہ) لکڑی (قصد کے اعتبار سے) گرد پر پڑتی ہے نہ کہ نمدے پر (جبکہ اس کو جھاڑتے ہیں)۔

100

بزم و زنداں ہست ہر بہرام را بزم مخلص را و زنداں خام را

ترجمہ: ہر بادشاہ کے پاس مجلسِ عیش اور قید خانہ (دونوں موجود) ہوتے ہیں۔ مجلسِ عیش تو اہلِ اخلاص کے لیے ہے اور قید خانہ(خلاص کے) کچے کے لیے۔

101

شق باید ریش را مرہم کنی چرک را در ریش مستحکم کنی

ترجمہ: زخم کو شگاف کی ضرورت ہے (تاکہ گندا مواد نکل کر زخم اچھا ہو جائے مگر) تم (الُٹا) مرہم لگا رہے ہو )اور اس طرح) گندے مواد کو اس میں مستحکم کر رہے ہو۔

102

تا خورد مر گوشت را در زیرِ آں نیم سودے باشد و پنجہ زیاں

ترجمہ: حتٰی کہ وہ (متعفَّن اور زہریلا مواد) اندر ہی اندر گوشت کو کھا جائے گا۔ (پس تمہاری اس مرہم پٹی سے) آدها تو فائدہ ہو گا اور پچاس حصہ نقصان۔

103

از تفِ آں اندرون ویراں شود مرگِ ناگاه در میان پنہاں شود

ترجمہ: اُس (مادہ خبیثہ) کی گرمی (التہاب) سے (ہر عضو) باطن تباہ ہو جائے گا (اور) اچانک موت (تمام جسم کے) درمیان سرایت کر جائے گی۔

104

گفت دلقک من نمی گویم گذار لیک می گویم تحرّی پیش آر

ترجمہ: دلقک نے کہا، میں یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ ہی دیجئے۔ لیکن (یہ) کہتا ہوں کہ تحقیق کو پیش (نظر) رکھیے۔

105

ہِیں رہِ صبر و تانّی در مبند صبر کُن اندیشہ می کُن روز چند

ترجمہ: ہاں! ضبط اور آستگی کا دروازہ بند نہ کیجئے۔ صبر کیجئے (اور) چند روز تامل فرمائیے۔

106

در تأنّی بر یقینے برزنی گوشمالِ من بایقانے کنی

ترجمہ: کیونکہ تامل میں آپ کسی (قابلِ) یقین (فیصلے) پر جا پہنچیں گے (پھر اگر) مجھے سزا (دینی مناسب خیال فرمائیں تو) یقین کے ساتھ دے سکیں گے۔

107

در روش یَمْشِیْ مُکِبًّا خود چرا چوں ہمی شاید شدن بر استوا

ترجمہ: (اور) رفتار (عمل) میں یَمْشِیْ مُکِبًّا (وہ الٹا چلتا ہے کا مصداق) ہی کیوں (ہوں) جب کہ سیدھے چلنا ہی مناسب ہے۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں اس آیت سے اقتباس ہے اور دوسرے میں اس کی طرف اشارہ ہے ﴿أَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلیٰ وَجْهِهٖ أَهْدَىٰ أَمَّن يَّمْشِي سَوِيًّا عَلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم (الملك: 22) ”تو کیا جو شخص اپنا منہ اوندها کئے ہوئے چلے وہ زہادہ رُو براہ ہو سکتا ہے۔ یا وہ شخص جو سیدھا (تنا ہوا) راہِ راست پر چلا جا رہا ہو‘‘۔ مطلب یہ کہ سیدھے طریق سے میرے متعلق تحقیق کر لیجئے۔ وہم و گمان کے ہیچ پیچ میں پڑنے کی کیا ضرورت؟

108

مشورت کن با گروہِ صالحاں بر پیمبر امر شَاوِرْھُمْ بداں

ترجمہ: (اس تحقیق کے علاوہ) نیک لوگوں سے مشورہ (بھی) کر لیجئے (کہ محض بد گمانی کی بنا پر کسی کی جان و آبرو کا فیصلہ کرنا کیا ہے۔ اور) واضح رہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وسلم پر (بھی الله تعالیٰ کا یہ) حکم ہے کہ لوگوں سے مشورہ کر لو۔

109 

اَمْرُھُمْ شُوْریٰ برائے ایں بود کز تشاوُر سہو و کژ کمتر شود

ترجمہ: ان کا (ہر) معاملہ مشورہ (پر موقوف) ہونا (قرآن مجید میں) اس لیے (وارد) ہے کہ باہمی مشورے سے غلطی اور کجی کم (واقع) ہوتی ہے۔

مطلب: اوپر کے شعر میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران: 159) یعنی ”ان کے قصور معاف کر دو اور (خدا سے بھی) ان کے گناہوں کی مغفرت چاہو۔ اور معاملات (صلح و جنگ) میں ان کو شریکِ مشورہ کر لیا کرو“۔ یہاں آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ (الشوری: 38) یعنی ”اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے اور نماز پڑھتے ہیں اور ان کے (جتنے) کام (ہیں) آپس کے مشورے (سے ہوتے) ہیں۔“

110

ایں خردہا چوں مصابیحِ انور ست بیست مصباح از یکے روشن تر ست

ترجمہ: (کیونکہ) یہ عقلیں چراغوں کی طرح پُر نور ہیں (اور ظاہر ہے کہ) بیس چراغ ایک چراغ سے زیادہ روشن ہوں گے۔

111

بوکہ مصباحے فتد اندر میاں مشتعل گشتہ ز نورِ آسماں

ترجمہ: ممکن ہے کہ کوئی چراغ (ان چراغوں کے) درمیان ایسا واقع ہو جو عالمِ بالا کے نور سے روشن ہوا ہو۔ (تم کہو گے ایسا چراغ نمایاں اور ظاہر کیوں نہیں تاکہ اس سے مشورہ لینا آسان ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:) 

112

غیرتِ حق پردۂ انگیختہ ست سفلی و علوی بہم آمیختہ ست

ترجمہ: حق تعالیٰ کی غیرت نے (اس پرخفا کا) ایک پردہ ڈال دیا ہے (اور وہ پردہ یہ ہے کہ) اس نے (دنیا کے) کم رتبہ (روشن دماغ) کو (عالمِ بالا کے) عالی رتبہ (روشن دماغ) کے ساتھ ملا دیا ہے۔ (غیرت سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں کو عوام پر ظاہر ہونے دینا پسند نہیں کرتا تاکہ ان کی قدر کم نہ ہو۔)

113

گفت سِیْرُوْا می طلب اندر جہاں بخت و روزی را ہمی کن امتحاں

ترجمہ: (لہٰذا ایسا بزرگ تلاش ہی سے مل سکتا ہے اور تلاش کرنا مشروع ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے) فرمایا ہے کہ چلو پھرو (اور) جہان میں اپنی (قسمت و روزی کو) طلب کرو (اور ہر موقع کو آزماتے رہو) (جس سے حصولِ رزق متوقع ہو) ۔

مطلب: سِیْرُوْا فِیْ الْاَرْضِ (زمین میں چلو پھرو) قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے جس سے مقصود تحصیلِ عبرت ہے۔ مگر مولانا کی مراد اس کلمہ سے بطور روایت بالمعنی یہ آیت ہے۔ ﴿فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ (الجمعۃ: 10) یعنی ”پس زمین میں منتشر ہو جاؤ اور الله کے فضل یعنی (معاش) کی جستجو کرو“۔ اور طلبِ رزق کی نظیر سے یہاں تلاشِ اہل الله کی تائید منظور ہے۔ یعنی جب رزق و روزی کی تلاش کا حکم ہے تو اہل اللّٰہ کی تلاش بطریقِ اولٰی ضروری ہے۔ آگے بھی یہی ارشاد فرماتے ہیں:

114

در مجاِلس می طلب اندر عقُول آنچناں عقلے کہ بُود اندر رسُول

ترجمہ: مجالس میں (جا کر عام) عقلوں میں ایسی عقل کو تلاش کرو۔ جیسی کہ رسول صلی الله علیہ وسلم میں تھی۔ (یعنی عقلِ حق بیں۔)

115

زانکہ میراث از رسول آنست و بس کو بہ بیند غیبہا از پیش و پس

ترجمہ: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورثہ (جو اہل اللہ کاملین کو ملتا ہے) یہی (عقل) ہے اور بس جو (دین و شرع کے متعلق) مخفی باتیں آگے پیچھے سے معلوم کرلے۔ 

وَ اِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اِنَّ الْاَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَاراً وَ لَا دِرْھَماً اِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذَہٗ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (مشکوٰۃ) ”اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور تحقیق انبیاء نے درم و دینار کا ورثہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے تو صرف علم ہی کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا۔ اس نے بڑا حصّہ حاصل کیا“ ۔

116

در بصرہا مے طلب ہم آں بصر کہ نتابد شرحِ آں ایں مختصر

ترجمہ: (اسی طرح) بینایوں میں (بھی) وہ بینائی تلاش کرو، جس کی تفصیل (وار کیفیت) پر یہ مختصر (کتاب) حاوی نہیں ہو سکتی۔

117

بہرِ ایں کرد ست منع آں با شکوہ از ترّہب وز شدن خلوت بکوه

ترجمہ: (چونکہ ان عقلا سے صاحبِ بصیرت کی طلب لازم ہے۔) اس لیے ان (رسولِ) عظیم الشان صلی الله علیہ وسلم نے رہبانیت سے اور پہاڑ میں خلوت (اختیار کرنے) سے منع فرمایا ہے۔

118

تا نگردد فوت ایں نوعِ التقا کاں نظر بخت و اکسیرِ بقا

ترجمہ: (تاکہ رہبانیت کی بے تعلقی و گوشہ گیری سے) اس قسم (کے اہل الله) کی ملاقات (و زیارت) فوت نہ ہو جائے (جس کا حصول نہایت ضروری ہے)۔ کیونکہ وہ (عقل و) نظر (جو اُن اہل اللہ کو حاصل ہے۔ ان کی زیارت کرنے والوں کے لیے اعلیٰ) خوش نصیبی (کی باعث) ہے اور زندگی کی کیمیا (ہے)۔

119

در میانِ صالحاں یک اصلحے ست بر سرِ توقیعش از سلطاں صحے ست

ترجمہ: (غرض ایسا انسان) صالحین کے زمرہ میں ایک بڑا صالح ہے اس کے (نامزد) فرمانِ شاہی پر بادشاه (حقیقی کی طرف سے منظوری) کا نشان (ثبت) ہے۔

120

کاں دعا شد با اجابت مقترن کفرِ او نبود كبارِ انس و جن

ترجمہ: (اس منظوری کے نشان کا مطلب یہ ہے) کہ وہ دعا (جو اس صالح نے کی ہے۔) مقرون بقبولیت ہو گئی (اس قبولیت میں) بڑے بڑے انسان و جن بھی اس کے ہمسر نہیں ہیں۔

121

درمرے اش آنکہ حلو و حامض ست حجتِ ایشاں برِ حق داحِض ست

ترجمہ: اس (مقبول و مقرب بندے) کے (ساتھ) لڑنے میں جو شخص شیریں و ترش (تقریریں کرنا جانتا) ہے۔ ان لوگوں کی دلیل حق تعالیٰ کے نزدیک لچر (اور باطل) ہے۔

122

کہ چو ما او را بخود افراشتیم عذر و حُجت از میاں برداشتیم

ترجمہ: (گویا اس بندۂ مقبول کی حمایت میں الله تعالیٰ ہے) کہ جب ہم نے اس کو اپنا مقرب بنا لیا ہے۔ تو (مخالفین کے) عذر اور حجت کو (جو اس کے خلاف ہوں) درمیان سے اٹھا دیا۔ (اشاره بآیت ﴿وَ الَّذِیْنَ یُحَآجُّوْنَ فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَهٗ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ (الشوری: 16))

123

قبلہ را چوں کرد دستِ حق عياں پس تحرّی بعد ازیں مردود داں

ترجمہ: (مثلاً) جب قبلہ کو حق تعالیٰ کے تصرف نے ظاہر کر دیا۔ تو پھر اس کے بعد اٹکل پچو (قبلہ) تجویز کرنا مردود سمجھو۔ (جب قبلہ کی سمت صاف ظاہر ہو تو پھر اس کی سمت معلوم کرنے کے لیے اپنے قیاسِ ناقص سے کام لینا فضول ہے۔) 

124

ہِیں بگرداں از تحّری رُو و سر کہ پدید آید معاد و مستقَر

ترجمہ: خبردار! اٹکل کے تُکّے چلانے سے باز رہو۔ کیونکہ (قبلہ) ظاہر ہو گیا (جو تمہارا) محلِ رجوع اور جائے قرار (ہے)۔

125

یک زماں زیں قبلہ گر ذاہِل شوی سخرۂ ہر قبلۂ باطِل شوی

ترجمہ: اگر تم اس قبلہ سے ایک ساعت (کے لیے بھی) غافل ہوئے تو ہر قبلہء باطل کے بیگاری بن جاؤ گے۔

مطلب: اہلِ حق کا اتباع اختیار کرو۔ ورنہ اہلِ باطل کے ہتھے چڑھ جاؤ گے۔ اور انجام اس کا اکثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ مدت بعد حق شناسی کی تمیز سلب ہو جاتی ہے۔ آگے یہی ارشاد ہے:

126

چوں شوی تمییزدہ را ناسپاس بجہد از تو خطرۂ قبلہ ناشناس

ترجمہ: جب تم (نے حق و باطل کی تمیز سے کام نہ لیا۔ تو گویا) تمییز بخشنے والے کے نا شکر گذار ہو گئے تو (پھر) تم سے وہ خیال جو قبلہ شناس ہے زائل ہو جائے گا۔

مطلب: یہ تمیز بخشنے والے سے مراد عارف ہے۔ جس کی تعلیم و توجہ سے حق و باطل میں امتیاز کرنے کا سلیقہ آتا ہے اور ناسپاسی سے مراد اُس عارف کی ہدایت و تعلیمات کی قدر نہ کرنا اور اس کی مخالفت کرنا ہے اور اس طرزِ عمل پر اصرار کرنے سے استعداد کا مضمحل ہونا مشاہد ہے (کلید)۔

127

گر ازیں انبار خواہی بِرّ و بُر نیم ساعت رُو از ہمراہاں مبُر

ترجمہ: اگر تم (کمالات کے) اس انبار سے (سعادتِ اُخرویہ کی) نیکی اور (برکاتِ دنیویہ کے) گیہوں چاہتے ہو تو آدھی ساعت کے لیے بھی (ان کامل) ہمراہوں سے رُخ نہ پھیرو (﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِیْ الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً(البقرة: 201)

128

کاندراں دم کہ ببری زاں معین مبتلا گردی تو با بِئْسَ الْقَرِیْن

ترجمہ: کیونکہ جوں ہی تم اس مدد گار سے تعلق منقطع کرو گے۔ تو (فورًا) بُرے ساتھی (یعنی شیطان یا کِسی شیطاں سیرت انسان) کے ساتھ مبتلا ہو جاؤ گے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تو از دوست گر عاقلی مگرد کہ دشمن نیارد نگہ در تو کرد

ولیکن تو دنبالِ دیوِ خسی ندانم کہ در صالحاں چوں رسی

آگے اس کی تائید میں مینڈک کا قصہ ارشاد ہے جو چوہے کی دوستی و رفاقت کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔