دفتر 6 حکایت 88: مسلمان کی نوبت (باری) آنا

دفتر ششم: حکایت: 88



نوبت رسیدن بہ مسلمان

مسلمان کی نوبت (باری) آنا

1

پس مسلماں گفت کای یارانِ من پیشم آمد مصطفٰیؐ سُلطانِ من

ترجمہ: تو مسلمان نے کہا اے میرے دوستو! (خواب میں) حضرت مصطفٰی صلّی اللہ علیہ و سلّم جو میرے بادشاه (ہیں) میرے پاس آئے۔

2

سیِد سادات و سلطانِ رُسل مفخرِ کونین و ہادیِ سُبُل

ترجمہ: سرداروں کے سردار اور پیغمبروں کے بادشاہ، دونوں جہان کے مایۂ فخر اور طریقوں کے رہنما۔

3

پس مرا گفت آں یکے بر طورِ تاخت با کلیم الله نردِ عشق باخت

ترجمہ: تو آپ نے مجھے فرمایا کہ وہ ایک تو کوہِ طور پر چڑھ گیا (اور) اس نے حضرت کلیم اللہ (موسٰی علیہ السلام) کے ساتھ عشق کی بازی لگا دی۔

4

واں دگر را عیسیِؑ صاحبقراں برد بر اوجِ چہارم آسماں

ترجمہ: اور اس دوسرے کو حضرت عیسٰی علیہ السلام جو مقرب (حق) ہیں (اپنے ساتھ) چوتھے آسمان پر لے گئے۔

5

خیز اے پس ماندۂ دیدہ ضرر بارے ایں حلواے یخنی را بخور

ترجمہ:۔ اُٹھ اے (اپنے رفیقوں سے) پیچھے رہ جانے والے جو (بھوک کی) تکلیف سہ چکا ہے۔ ذار اس رکھے ہوئے حلوے کو کھالے۔

6

آں ہنرمنداں پر فن راندند نامۂ اقبال و منصب خواندند

ترجمہ: (اور فرمایا) وہ (دونوں) پُر فن ہنر مند تو روانہ ہو گئے (اور) انہوں نے اقبال اور منصب کا پروانہ پڑھا (جو ان کو عالمِ بالا سے موصول ہوا تھا اور اس کے مطابق وہ مدارجِ عالیہ پر فائز ہو گئے)۔

7

آں دو فاضل فضلِ خود دریافتند با ملائک از ہُنر دربافتند

ترجمہ: ان دونوں فاضلوں نے اپنی فضلیت حاصل کرلی (اور) ہنر کی بدولت وہ ملائکہ میں پیوستہ ہو گئے۔

8

اے سلیمِ گول واپس ماندہ ہِیں برجَہ و بر کاسۂ حلوا نشیں

ترجمہ: اے سادہ لوح بے وقوف جو (ان مراتب کے حصُول سے) پیچھے رہ گیا! ہاں اُٹھ! اور (اگر تجھ سے اور کچھ نہیں بن پڑتا تو) حلوے کے طشت پر (ہی) بیٹھ جا (تاکہ اس سے بھی محروم نہ رہے)۔

9

من بفرمانِ چنیں شاہِ جہاں  خوردم آں دم کاسۂ حلوا و ناں

ترجمہ : میں ایسے بادشاه (دو) جہان کے حکم کے موافق اسی وقت حلوے کا طشت اور روٹیاں کھا گیا۔

10

پس بگفتندش کہ اے ابلہ حریص اے عجب خوردی ز حلواۓ خبیص

ترجمہ: تو ان دونوں نے اس سے کہا کہ اے احمق لالچی! بڑا تعجب ہے کہ تو نے (تنہا یہ عمده) حلوا جو روغن اور خرما سے بنا ہوا تھا کھا لیا (اور ہماری بات نہ پوچھی)۔

11

گفت چوں فرمود آں شاہِ مطاع  من کہ باشم تا کنم زاں امتِناع

ترجمہ: اُس نے جواب دیا کہ جب اس بادشاہِ واجب الاطاعات نے (مجھے کھا جانے کا) حکم دے دیا تو میں کون ہوں جو اُس سے انکار کروں۔

12

تو جہود از امرِ موسٰیؑ سرکشی گر بخواند در خوشی یا ناخوشی

ترجمہ: (یہودی سے مخاطب ہو کر) تم یہودی (ہوتے ہوئے) بھلا حضرت موسٰی علیہ السلام کے حکم سے سر کشی کر سکتے ہو؟ اگر وہ تم کو (کسی) خوش گوار یا ناگوار کام (میں لگ جانے) کا حکم دیں؟ (ہرگز نہیں)۔

13

تو مسیحی ہیچ از امرِ مسیح  سر توانی تافت در خوب و قبیح

ترجمہ: (عیسائی کی طرف منہ کر کے) بھلا تم عیسائی (ہوتے ہوئے) کبھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کر سکتے ہو، کسی پسندیدہ اور نا پسندیده (امر) میں؟ (ہرگز نہیں۔)

14

من ز فخرِ انبیاؐء چوں سرکشم  خورده ام حلوا و ایندم سرخوشم

ترجمہ: (تو پھر) میں فخرِ انبیاء علیہ السلام (کے حکم) سے کیونکر سر کشی کرتا میں نے (ان کے ارشاد کی تکمیل کے لیے) حلوا کھا لیا اور اب میں خوش ہوں (کہ اپنے نبی کا حکم بجا لایا)۔

15

پس بگفتندش کہ واللہ خوابِ راست تو بدیدی ویں بِہ از صد خوابِ ما ست

ترجمہ: تو انہوں نے (نادم ہو کر) اس سے کہا، واللہ سچا خواب تو تو نے ہی دیکھا ہے اور یہ ہمارے صدہا خوابوں سے بہتر ہے (کیوں نہ ہو یہ تعبیر والا خواب ہے)۔

16

خوابِ تو بیداری است اے ذو نظر کہ بہ بیداری عیانستش اثر

ترجمہ: اے صاحبِ نظر! تیرا خواب (تو بمنزلہ) بیداری ہے کیونکہ اس کا اثر بیداری میں (بھی) عیاں ہے (یعنی حلوے سے پیٹ بھرا ہوا ہے)۔

17

خوابِ تو بیداری ست اے خوش نہاد کہ تو درخوابت رسیدی با مراد

ترجمہ: اے نیک نہاد! تیرا خواب (تو بمنزلہ) بیداری ہے۔ کیونکہ تو اپنے خواب میں ہی مراد کو پہنچ گیا (اور ہم اس مراد کے لیے منصوبے ہی سوچتے رہ گئے)۔

18

خوابِ تو بیداری ست اے نیک خُو کہ ازاں خوابت رسد امرِ کُلُوْا

ترجمہ: اے نیک خو! تیرا خواب تو (بمنزلہ) بیداری ہے کہ تیرے اس خواب سے یہ حکم ملتا ہے کہ (خوب) کھاؤ (پھراور کیا چاہیے)۔

19

خواب تو بیداری ست اے نیک مرد کہ ازاں خوابِ تو روئے ماست زرد

ترجمہ: اے نیک مرد! تیرا خواب (تو بمنزلہ) بیداری ہے کہ تیرے اس خواب سے ہمارا چہرہ زرد ہے۔ (یعنی ہم ناکام و محروم ہیں۔ کیوں نہ ہو چاہ کَن را چاہ درپیش۔)

20

خوابِ تو بیداری ست اے سیرِ جاں  کہ ہماں را ظاہراً دیدی عیاں

ترجمہ: اے سیر روح والے! تیرا خواب (تو بمنزلہ) بیداری ہے کہ تو نے اسی (خواب) کو ظاہراً (بیداری میں بھی) عیاں دیکھ لیا۔

21

خوابِ تو مانندِ خوابِ انبیاء ست کہ شد ایں خوابِ تو بے تعبیرِ راست

ترجمہ: تیرا خواب انبیا علیہم السلام کے خواب کی مانند ہے کیونکہ تیرا یہ خواب بدون تعبیر ہی سچا (ثابت) ہو گیا۔

رفعِ شبھات: اگر یہودی و عیسائی کے خواب خود ساختہ تھے تو ظاہر یہ ہے کہ یہ مسلمان اس بات کو سمجھ گیا اور اس نے بھی حلوا کھا کر خواب تصنیف کر لیا، اور اس صورت میں اس اصل مقصود کی تائید کے لیے کہ ہنر اور زیرکی کام نہیں آتی۔ یہودی و عیسائی کی مثال پیش کی گئی ہے۔ جو اپنے آپ کو بڑے چالاک سمجھتے تھے مگر حلوے سے محروم رہ گئے، اور جھوٹا خواب بھی صحیح ہو سکتا ہے۔ پھر اس پر یہ اشکال جو ہو گا کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے خواب میں غیروں کا حق کھانے کی اجازت کیونکر دی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حلوے کا ہدیہ لانے والا مسلمان تھا، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شروع حکایت سے بیس شعر بعد مولانا فرما چکے ہیں۔ ؎

چوں رسیدند ایں سہ ہمرہ منزلے ہدیہ شاں آورد حلواے مقبلے

برد حلوا پیشِ آں ہر سہ غریب محسنے از مطبخے اِنِّیْ قَرِیْبٌ

نانِ گرم و صحنِ حلوائے عسل برد آں کاندر ثوابش بُد امل

ظاہر ہے کہ مولا مُقبِل اور مُحسِن مسلمان ہی کو کہہ سکتے ہیں۔ کافر کے لیے ایسے لفظ کا استعمال مدحِ شقی کا ارتکاب ہے اور امیدوارِ ثواب بھی مسلمان ہی ہوتا ہے ورنہ کافر کی امیدِ ثواب غرورِ محض ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس مسلمان نے مسلمان ہی کو ہدیہ دیا ہوگا مگر اس نے براهِ مروت دونوں ہمراہیوں کو بھی شریک کر لیا ہوگا، اور بھوک کی وجہ سے زیادہ حاجتِ طعام اسی کو تھی اس لیے اس کا تنہا کھانا جو نہ شریعت کے خلاف تھا نہ مروت کے، نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کے ارشاد پر بھی ہوسکتا ہے۔ ہاں اس صورت میں ایک یہ اشکال متوہم ہوتا ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس ارشاد میں ان دونوں کافروں کے لیے ہنر منداں، فاضل، نامۂ اقبال خواندند وغیره مدحیہ الفاظ کیونکر فرمائے۔ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ شاید وہ مرنے سے پہلے ایمان لانے والے ہوں جیسے کہ خود مولانا نے فرمایا:

 ع بس جہودے کا خوش محمود بود (از کلیدِ مثنوی بہ تبدیلِ عبارات) آگے مقصودِ قصہ کا بیان ہے یعنی اپنی ہوشیاری و چالاکی پر نازاں ہونا فضول ہے۔

22

درگذر از فضل و از جلدی و فن کارِ خدمت دارد و خلُقِ حَسَن

ترجمہ: فضیلت اور چستی اور ہنرمندی (کے دعوے) سے دست بردار ہوجاؤ۔ کیونکہ طاعت (حق) اور خُلقِ نیک ہی کام آتی ہے۔

23

بہر ایں آورد ما یزداں برون  مَا خَلَقْتُ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن

ترجمہ: اسی (طاعت و عبادت) کے لیے تو حق تعالیٰ ہم کو (پردۂ عدم سے) باہر لایا ہے۔ (چنانچہ ارشاد ہے کہ) میں نے انسان (اور جن) کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ (آیت کے کلمات یوں ہیں۔ ﴿مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56))

24

سامری را آں ہنر چہ سود کرد کاں فن از باب اللّہش مردود کرد

ترجمہ: (دیکھو) سامری کو اُس (کے گو سالہ سازی کے) ہنر نے کیا فائدہ دیا؟ جس کو اس فن نے حق کے دروازے سے مردود کر دیا۔

25

چہ کشید از کیمیا قاروں ببیں کہ فرو بردش بقعرِ خود زمیں

ترجمہ: (اور) دیکھو، قارون نے کیمیا سے کیا حاصِل کیا جس کو زمین اپنی گہرائی میں لے گئی؟

مطلب: مشہور ہے کہ قارون کی بے شمار دولت کا راز یہی تھا کہ وہ کیمیا گر تھا۔ قرآن مجید میں بھی اس کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ ﴿قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ (القصص: 78) ’’قارون نے کہا میں نے اس دولت کو اپنے علم کے زور سے کمایا ہے“ تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ بعض کے نزدیک قارون کے علم سے مراد کیمیا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کو یہ علم آتا تھا جس کا ایک ثلث انہوں نے یوشع بن نون علیہ السّلام کو سکھا دیا اور ایک ثلث کالب بن یوقنا کو سکھا دیا۔ قارون بھی حضرت موسٰی علیہ السلام کا مطیع تھا ایک ثلث اس کو سکھا دیا۔ قارون نے یوشع بن نون اور کالب کو فریب دے کر ان کے علم بھی حاصل کر لیے پھر وہ قلعی سے چاندی اور تابنے سے سونا بنانے لگا۔ اور یہی عمل اس کی کثرتِ مال کا باعث تھا (انتہٰی)۔

26

بو الحکم آخر چہ بربست از ہنر سرنگوں رفت او ز کفراں در سقر

ترجمہ: ابو الحکم (یعنی ابوجہل) نے ہنر سے آخر کیا فائدہ اٹھایا؟ وہ کفر کی وجہ سے جہنم کے اندر اوندھا ہو کر گیا۔

27

خود ہنر آں داں کہ دید آتش عیان نے گپ دَلَّ عَلَی النَّارِ الدُّخَانُ

ترجمہ: ہنرمندی تو اسی کو سمجھو کہ (گناہوں کے ارتکاب سے اس قدر خوف آئے کہ گویا) دوزخ (کے عذاب) کو آنکھوں سے دیکھ لیا نہ کہ (فلسفہ کی ہنر مندی جس سے کسی آگ کے ثبوت کے لیے) یہ گپ (ہانکتے ہیں) کہ دھواں آگ پر (عقليہ غير لفظیہ سے) دلالت کرتا ہے۔

مطلب: فلسفی اور سائنس دان استدلال کے اٹکل پچو علوم سے کام لیتے ہیں۔ جن میں خود اسی کو تذبذب رہتا ہے، دوسرے لوگوں کی تو وہ کیا خاک تشفی کریں گے۔ بخلاف اس کے جو علوم بذریعہ وحی پہنچے ہیں۔ ان میں یقین و طمانیت کا وہ سامان ہے کہ گویا قلب ذوقاً و وجداناً معلومات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقى کمال و ہنر تو علومِ دین ہیں۔ علومِ فلسفہ کو ہنر کہنا غلطی ہے۔ آگے بھی فلسفہ کی مذمت ہے:

28

اے دلیلت گنده ترپیشِ لبيب در حقیقت از دلیلِ آں طبیب

ترجمہ: اے (فلسفی)! تیری دلیل تو عاقل (عارف) کے سامنے درحقیقت اس طبیب کی دلیل سے بھی گندی ہے (جو قارورے سے مرض پر استدلال کرتا ہے)۔

مطلب: اطباء مریض کے پیشاب کو ایک شیشی میں ڈال کر جس کو قارورہ کہتے ہیں۔ ان کے رنگ سے اور قوام سے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ طبیب جس چیز پر دلیل پکڑ رہا ہے وہ تو گندی ہے ہی، فلسفی کی دلیل اس سے بھی زیادہ گندی ہے۔ اس سے طبیب کے استدلال کی تقبیحِ شرعی مقصود نہیں۔ کیونکہ یہ استدلال جس سے کیفیتِ مزاج کا ادراک ہوتا ہے شرعاً جائز ہے۔ بلکہ یہاں ایک قبیحِ شرعی کو ایک قبیح عرفی کے ساتھ تشبیہ دے کر اس سے نفرت دلانا مقصود ہے اور فلسفی کے استدلال کو مریض کے بول سے زیادہ گندا اس لیے کہا کہ بول کی نجاست ظاہری ہے جو دھونے سے زایل ہوسکتی ہے اور فلسفیانہ خیالات کی نجاست باطنی ہے جس کا زوال پذیر ہونا مشکل ہے۔

29

چوں دلیلت نیست جز ایں اے پسر گوہ می خورد گمیزے مے نگر

ترجمہ: اے (نادان) لڑکے جب تیرے پاس اس (ناپاک دلیل) کے سوا (اور کوئی اچھی) دلیل نہیں ہے۔ تو (جا جھک مارے جا اور) گُوہ کھاتا رہ (اور) پیشاب کو دیکھتا رہ۔

30

اے دلیلِ تو مثالِ آں عصا در کفت دَلَّ عَلیٰ عَیْبِ الْعَمٰی

ترجمہ: اے (فلسفی)! تیری دلیل اس عصا کی مانند ہے، جو تیرے ہاتھ میں ہے (کہ وہ تیرے) عیبِ نابینائی پر دلالت کر رہی ہے۔

31

اے دلیلِ ما چو فکرِ ما ذلیل پیشیِ ما پیشِ دانایان قلیل

ترجمہ: اے (فلسفی! تجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ) ہماری دلیل ہمارے فکر کی طرح ذلیل ہے (اور) ہمارا (ان علومِ باطلہ کے ساتھ) پیش آنا عارفین کے آگے (بالکل) بے قدر ہے۔

32

غلغل و طاق و طرب و گیر و دار کہ نمی بینم مرا معذور دار

ترجمہ: (ہم کہہ چکے ہیں کہ تیری دلیل تیرے عیبِ نابینائی پر دال ہے۔ پس تیری دلیل کا) غل غپاڑہ، دھوم دھام اور پکڑ دھکڑ (تو اس قدر ہے مگر حرفِ مطلب صرف اتنا ہے) کہ مجھے نظر نہیں آتا (کیونکہ میں اندھا ہوں) معاف رکھنا۔

مطلب: فلاسفہ اپنے دعاوی دلائل کا کرّوفر اور شان و شکوہ تو خوب دکھاتے ہیں مگر ثمرۂ تحقیق صرف یہ نکلتا ہے کہ ان کو خاک بھی پتا نہیں۔ محض رجماً بالغيب ہانک رہے ہیں۔ آگے ایک مسخرہ کا قصہ اس کی تائید میں بیان فرماتے ہیں، جو بادشاہ کے حضور میں اسی طمطراق سے گیا کہ ایوانِ حکومت لرز گیا۔ مگر جب بات پوچھی گئی تو بس ڈھاک کے تین پات۔