دفتر ششم: حکایت: 100
رجوع بہ حکایتِ مردِ وام دار و آمدن بہ تبریز و آگاہی از فوتِ مُحتسِب
قرضدار آدمی کے قصّے کی طرف رجوع اور اس کا تبریز میں آنا اور محتسب کی وفات سے مطلع ہونا
1
آں غریب مُمتحَن از بیمِ وامدر ره آمد سوے آں دارالسّلام
ترجمہ: اس محنت کش غریب الوطن نے قرض کے خوف سے اس (قرض خواہوں کے تقاضے سے نجات دلانے والے) سلامتی کے گھر کی طرف راستہ پکڑا۔
2
شد سوے تبریز و کوے گلستانخفتہ اُمّیدش فرازِ گل ستاں
ترجمہ: وہ (شہر) تبریز اور کوچۂ باغ کی طرف روانہ ہوا اس کی امید پھولوں پر چت لیٹی ہوئی تھی۔
3
زد ز دارالملک تبریزِ سنیبر امیدش روشنی بر روشنی
ترجمہ: پر نور تبریز کے دار الملک سے اس کی امید پر روشنی پر روشنی پڑ گئی۔
4
جانش خنداں شد ازاں روضہ رجالاز نسیمِ یوسفِ مصرِ وصال
ترجمہ: اس کی روح اس گلشنِ مرداں کے باعث مصرِ وصال کے یوسف کی ہوا سے شگفتہ ہو گئی۔
5
گفت يَا حَادِیْ اَنِخْ لِیْ نَاقَتِیْجَاءَ اِسْعَادِیْ وَ طَارَتْ فَاقَتِىْ
ترجمہ: کہنے لگا اے شتر راں! میری اونٹنی کو بٹھا دے، میری امداد آ گئی اور میرا فاقہ جاتا رہا۔
6
اُبْرُكِىْ يَا نَاقَتِىْ طَابَ الْاُمُوْراِنَّ تَبْرِيْزًا مُنَاجَاتُ الصُّدُوْر
ترجمہ: اے میرے ناقہ بیٹھ جا (سب) کام ٹھیک ہو گئے۔ بے شک شہرِ تبریز دلوں کی گفتگو (کی جگہ) ہے۔
7
اِسْرِحِیْ یَا نَاقَتِىْ حَوْلَ الرِّيَاضاِنَّ تَبْرِيْرًا لَنَا نِعْمَ الْمَفَاض
ترجمہ: اے میرے ناقہ! باغوں کے گرد چرتا رہ۔ بے شک تبریز ہمارے لیے خوب محلِ فیض ہے۔
8
ساربانا بار بکشا ز اشتراںشہرِ تبریز ست کوے دلستاں
ترجمہ: اے ساربان! اونٹوں پر سے اسباب کھول دے۔ یہ شہرِ تبریز ہے جو محبوب کا کوچہ ہے۔ (تبریز کے ذکر سے مولانا کے بیان میں جوش آ گیا کیونکہ یہ شہر ان کے مرشد شمس تبریزی کا وطن تھا۔)
9
فرِّ فردوسی ست ایں فالیز راشعشۂ عرشی ست ایں تبریز را
ترجمہ: اس چمن (تبریز) کا شکوہ تو فردوس کا سا ہے۔ اس تبریز پر تو عرش کا نور (برستا) ہے۔
10
ہر زمانے فوجِ رُوح انگیز جاںاز فرازِ عرش بر تبریزیاں
ترجمہ: ہر وقت روح کی راحت انگیز خوشبو عرش کے اوپر سے اہلِ تبریز پر (آتی) ہے۔
11
چوں وثاقِ محتسب جُست آں غریبخلق گفتندش کہ بگذشت آں حبیب
ترجمہ: جب اس غریب الوطن نے محتسب کا گھر تلاش کیا تو لوگوں نے اس کو بتایا کہ وہ (محتاجوں کا) محبوب تو انتقال کر گیا۔
12
او پرِیر از دارِ دُنیا نقل کردمرد و زن از واقعۂ او روے زرد
ترجمہ: وہ پرسوں دنیا کے گھر سے انتقال کر گیا۔ مرد و زن اس کے واقعہ سے زرد رو ہیں۔
13
رفت آں طاؤسِ عرشی سوے عرشچوں رسید از ہاتفانش بوے عرش
ترجمہ: وہ عرش کا طاؤس عرش کی طرف چلا گیا، جب اس کے پاس غیبی پکارنے والے سے عرش کی خوشبو پہنچی۔
مطلب: ہاتف کے معنی پکارنے والا عرف میں اس فرشتہ کو کہتے ہیں جو کسی بشارت یا تنبیہ کے لیے غیب سے کسی کو پکار کر کہے۔ یہاں وہ فرشتے مراد ہیں جو کسی صالح آدمی کی وفات کے وقت اس کو نجات اور حصولِ مراتب کی بشارت دیتے ہیں اور بشارت کو عرش کی خوشبو سے تعبیر کیا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (حم السجدہ: 30) ”بے شک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے پھر (اس عقیدے پر) جمے رہے (مرتے وقت) ان پر (رحمت کے) فرشتے نازل ہوں گے (اور ان سے کہیں گے) کہ (آئندہ کے لیے نہ تو (کسی طرح کا) اندیشہ کرو اور نہ (گزشتہ) کے لیے کسی طرح کا) رنج اور بہشت جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ اب اس کی خوشیاں مناؤ“
طاؤسِ عرشی کے الفاظ میں اس کو ایک پرندہ سے تشبیہ دینے اور عرش کے ساتھ منسوب کرنے میں شاید اس بات کا ارشاد ملحوظ ہو جو حدیث میں آئی ہے کہ بعض ابرار کی ارواح قنادیلِ عرش میں معلّق رہتی ہیں۔
14
سایہ اش گرچہ پناہِ خلق بوددر نورِ دید بد آفتابش زُود زُود
ترجمہ: اس کا سایہ اگرچہ مخلوق کی پناہ تھا (مگر قضائے الٰہی کے) آفتاب نے اس کو جلدی جلدی سمیٹ لیا۔
15
راند او کشتی ازیں ساحل پریرگشتہ بود آں خواجہ زیں غمخانہ سیر
ترجمہ: اس نے پرسوں اس ساحلِ دنیا سے (اپنی) کشتی (آخرت کی طرف) روانہ کر لی۔ وہ خواجہ اس غم کے گھر (دُنیا) سے سیر ہو چکا تھا۔
16
نعره زد مرد و بیہوش اوفتادگوئیا او نیز در پے جاں بداد
ترجمہ: اس شخص نے ایک نعرہ مارا اور بے ہوش (ہو کر) گر پڑا۔ گویا اس نے بھی (اس کے) پیچھے جان دے دی۔
17
پس گلاب و آب بر رویش زدندہمرہاں بر حالتش گریاں شدند
ترجمہ: تو لوگوں نے اس کے منہ پر گلاب اور پانی چھڑکا۔ ہمراہی لوگ اس کی حالت پر رونے لگے۔
18
تا بشب بے خویش بود و بعد ازاںنیم مردہ باز گشت از غیب جاں
ترجمہ: رات تک بے خود رہا اور اس کے بعد (عالمِ) غیب سے جان واپس آئی (مگر) نیم مردہ (یعنی اس کو ہوش تو آیا مگر وہ نیم مردہ سا تھا)۔