دفتر ششم: حکایت: 101
استغفار کردنِ آں غریب از اعتماد بر مخلوق و یادِ نعمتہائے خالق کردن و اِنابت نمودن
اس پردیسی کا مخلوق پر اعتماد کرنے (کے گناہ) سے استغفار کرنا اور خالق کی نعمتوں کو یاد کرنا اور (اس کی طرف) رجوع کرنا
﴿ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ﴾(الانعام: 6)
"پھر کافر لوگ (دوسری چیزوں کو) اپنے پروردگار کے ساتھ برابری کے درجے میں رکھتے ہیں"
1
چوں بہ ہوش آمد بگفت اے کردگارمجرِمم بودم بخلق امیدوار
ترجمہ: جب وہ ہوش میں آیا تو کہنے لگا اے کردگار! میں قصور وار ہوں کہ میں خلق سے امیدوار ہوا۔
2
گرچہ خواجہ بس سخاوت کرد و جُودہیچ آں کفوِ عطاے تو نبود
ترجمہ: اگرچہ اس سردار نے بہت سخاوت اور بخشش کی۔ (مگر) وہ ہرگز تیری عطا کے برابر نہ تھی۔
3
او کُلہ بخشید تو سر پُر خَرداو قبا بخشید و تو بالا و قد
ترجمہ: (مثلا) اس نے ٹوپی بخشی اور تو نے سر (دیا) جو پُُرعقل ہے۔ اس نے قبا بخشی اور تو نے قد و قامت (بخشا) (اس سے ظاہر ہے کہ حق کی عطا خواجہ کی عطا سے اعلیٰ و افضل بھی ہے اور مقدّم بھی۔ یعنی خواجہ کی عطا حق کی عطا کے تابع ہے۔ چنانچہ اگر سر اور قد نہ ہوتے تو ٹوپی اور قبا بے کار تھی۔ اسی پر اگلی مثالوں کو قیاس کر لو)
4
او زَرم داد و تو دستِ زَر شماراو ستورم داد تو عقلِ سوار
ترجمہ: اس نے مجھے روپیہ دیا اور تو نے روپیہ گننے والا ہاتھ (دیا)۔ اس نے مجھے گھوڑا دیا تو نے سوار کی (سی) عقل (دی جس کی بدولت میں گھوڑے پر سوار ہو سکتا ہوں)۔
5
خواجہ شمع داد، تو چشمِ قریرخواجہ نُقلم داد و تو طعمہ پذیر
ترجمہ: سردار نے مجھے شمع دی تو نے ٹھنڈی آنکھ بخشی، (جو شمع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے) سردار نے مجھے نُقل (و طعام) دیا اور تو نے غذا کو قبول کرنے والا (معدہ بخشا۔ ٹھنڈی آنکھ سے تندرست آنکھ مراد ہے، کیونکہ دکھتی آنکھ کے لیے شمع کی روشنی بجائے مفید ہونے کے مضر ہے۔)
6
او وظیفہ داد، تو عمر وحياتوعده اش زر، وعدۂ تو طیّبات
ترجمہ: اس نے تنخواہ دی تو نے عمر اور زندگی جس میں تنخواہ کار آمد ہو سکتی ہے۔ اس کا وعدہ زر تھا، تیرا وعدہ پاکیزہ نعمتیں۔
7
او وثاقم داد و تو چرخ و زمیندر وثاقت اُو و صد چوں اُو رہیں
ترجمہ: اس نے مجھے گھر دیا اور تو نے آسمان اور زمین (جن کے درمیان یہ گھر قائم ہے) تیرے (اس) گھر کے اندر وہ اور اس جیسے ان گنت (لوگ) بستے ہیں۔ (کلمہ "صد" بیانِ کثرت کے لیے نہ کہ عددِ مخصوص کے لیے)۔
8
آنچہ او داد اے ملک ہم از تو دادکہ دل و دستِ اُو را کردی تو راد
ترجمہ: اے بادشاہ (حقیقی) جو کچھ اس نے دیا وہ تیری ہی طرف سے دیا کیونکہ تو نے ہی اس کے دل اور ہاتھ کو سخی بنایا۔
9
زر ازانِ تُست او زر نے فریدنان ازانِ تُست نانش از تُو رسید
ترجمہ: (وہ جو محتاجوں کو) زر (دیتا ہے تو وہ بھی) تیری ہی ملک ہے اس نے زر کو پیدا نہیں کیا۔ (وہ جو بھوکوں کو) روٹی (کھلاتا ہے تو وہ بھی) تیری ہی ملک ہے، اس کی روٹی تیری ہی طرف سے پہنچی ہے۔
10
آں سخا و رحم ہم تو دادِیَشکز سخاوت می فزودی شادِیَش
ترجمہ: وہ سخاوت اور رحم بھی تو نے ہی اس کو دیا ہے، کیونکہ سخاوت سے تو اس کی خوشی کو بڑھا دیتا ہے۔ (جس سے وہ بیش از بیش سخاوت کرتا ہے۔ پس جب تو اس کی سخاوت کا سبب پیدا کرنے والا ہے تو گویا اس کو سخاوت تو نے ہی عطا کی ہے۔)
11
من مر او را قبلۂ خود ساختمقبلہ سازِ اصل را انداختم
ترجمہ: میں نے اس کو اپنا قبلۂ (حاجات) بنا لیا (اور) اصل قبلہ بنانے والے کو نظر انداز کر دیا۔ (آگے خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے):
12
ما کجا بودیم کاں دیّانِ دیں!عقل مے کارید اندر ماء و طین
تر جمہ: ہم اس وقت کہاں تھے جب وہ حاکمِ محکم پانی اور مٹی (کے پتلے) میں عقل (كا بیج) بو رہا تھا (یعنی جسم میں نفسِ ناطقہ و عاقلہ ڈال رہا تھا)۔
13
چوں ہمے کرد از عدم گردوں پدیدویں بساطِ خاک را مے گسترید
ترجمہ: جب کہ وہ عدم سے آسمان کو ظاہر کر رہا تھا اور اس بساطِ زمیں کو بچھا رہا تھا۔
14
ز اختراں مے ساخت او مصباحہاو ز طبائع قفل با مفتوحہا
ترجمہ: کواکب سے وہ چراغ بنا رہا تھا اور اجسامِ طبیعہ سے قفل کنجیوں سمیت (تیار کر رہا تھا)۔
مطلب: کنجیوں سے مراد اسباب ہیں اور قفلوں سے مراد مسبّبات یعنی وہ امور جو ان اسباب پر مرتّب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اسباب ہی سے مسبّبات کے ابواب کشادہ اور ظاہر ہوتے ہیں۔ آگے تخصیص کے بعد تعمیم ہے:
15
اے بسا بنيادہا پنہاں و فاشمضمرِ ایں سقف کرد و ایں فراش
ترجمہ: ارے بہت سی مصنوعات مخفی و ظاہر اس جہت اور اس فرش میں رکھی ہیں۔
16
آدم اصطرلابِ اوصافِ علوستوصفِ آدم مظہرِِ آیاتِ اوست
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام (اور ان کی اولاد خداوند تعالیٰ کے) اوصافِ عالیہ کے اصطرلاب ہیں۔ آدم کا وصف اس کی آیات کا مظہر ہے۔
مطلب: اوپر آیاتِ آفاقیہ کا ذکر مقصودًا اور آیاتِ انفسیہ کا ذکر ضمناً ہوا تھا۔ اب مقصودًا آیاتِ انفسیہ کا ذکر چلتا ہے۔ چنانچہ مولانا اس غریب الوطن مقروض کی زبان سے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی عجیب آیتوں میں سے ایک خود انسان کی ہستی ہے جس کا عظیم و عجیب ہونا اس لحاظ سے ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے اوصاف کا آلۂ معرفت ہے اور اس کا وصف اس کی آیات کا مظہر ہے۔ مصرعۂ اولٰی میں انسان کا مظہرِ اسمائے الٰہیہ ہونا اور مصرعۂ ثانیہ میں مظہر بمعنی جامعِ حقائقِ کونیہ ہونا مذکور ہے۔ (کلید ملخصًا)
17
ہرچہ در وے مے نماید عکسِ اوستہمچو عکسِ ماہ کاندر آبِ جو ست
ترجمہ: جو کچھ اس (انسان) میں نظر آتا ہے وہ اس (خداوند تعالیٰ) کا ظِلّ ہے۔ چاند کے عکس کی طرح جو نہر کے پانی میں ہے۔
18
بر صطرلابش نقوشِ عنکبوتبہرِ اوصافِ اجل دارد ثبوت
ترجمہ: آدم علیہ السلام کے اصطرلاب (وجود) پر (اوصافِ آدم کے) نقوشِ عنکبوت (حق تعالیٰ کی) صفاتِ قدیمہ کے (انکشاف کے) لیے ثبت ہیں۔
19
تا ز چرخِ غیب و ز خورشیدِ روحعنکبوتش درس گوید با شروح
ترجمہ: تاکہ ان کا (یہ نقشِ) عنکبوت فلکِ غیب اور آفتابِ روح کا مفصّل درس ہو۔
مطلب: تاکہ جس طرح آلۂ اصطرلاب سے آفتاب کے احوال کا جو احوالِ فلک میں شامل ہے، انکشاف ہوتا ہے۔ اسی طرح آدم علیہ السّلام اور ان کی اولاد کے وجود سے عالمِ غیب اور روح کا انکشاف ہو۔ غیب اور روح سے یہاں مراد صفاتِ حق ہیں۔ جن کا غیب ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ اور روح بمعنی زندگی بخش کہا گیا ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی صفات و زیست اللہ تعالیٰ کی صفات یعنی ارادۂ قدرت و علم پر موقوف ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ تاکہ صفاتِ آدم کاشف ہوں صفاتِ حق کی۔ آگے یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ انکشاف صاحبِ وحی کے اتباع پر موقوف ہے، تاکہ کوئی اپنے کشف و وجدان پر مغرور ہو کر وحی سے مستغنی نہ ہو جائے۔
20
عنکبوت و ایں صطرلابش رشادبے مُنَجَّم در کفِ عام اوفتاد
21
انبیا را داد حقِ تنجیم اِیںغیب را چشمے بباید غیب بیں
ترجمہ: (اگرچہ) یہ عنکبوت اور یہ رہنما اصطرلاب مُنجّم (کے واسطے) کے بدوں عوام کے ہاتھ آ گیا ہے۔ (لیکن) اس کی منجّمی حق تعالیٰ نے انبیاء ہی کو بخشی ہے (کیونکہ) امورِ غیب کے اِدراک کے لیے غیب میں آنکھ چاہیے۔
مطلب: گو ہر شخص کو ذاتِ انسانی اور صفاتِ انسانیہ کا مشاہدۂ حسیّہ حاصل ہے اور کم از کم اپنی ذات و صفات کا علمِ حضوری تو سب کو ہر وقت میسر ہے، مگر ان کے آئینۂ آیاتِ انفسیہ ہونے کا علم خاص انبیاء علیہم السّلام ہی کو ملا ہے۔ عوام کو نہیں ملا۔ اور عوام کو جو یہ علم حاصل ہوتا ہے تو انبیاء کے ہی توسّل سے حاصل ہوتا ہے۔ آگے یہ بیان فرماتے ہیں کہ انسان حق کا مظہر ہے۔ اس کے بعد دو مضمون مختلف طور پر بیان کیے ہیں۔ ایک عالم کا مظہرِ حق ہونا، اور زیادہ مقصودِ کلام یہی معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا عالم کا مظہرِ انسان ہونا، یہ دونوں مضمون کہیں مختلط و مجتمع اور کہیں بتقدیم و تاخیر آئے ہیں۔
22
در چَہِ دنیا فتادند ایں قُرُوںعکسِ خود را دید ہر یک چَہ دروں
ترجمہ: یہ اہلِ زمانہ دنیا کے کنویں کے اندر گر پڑے (جس کی وجہ یہ ہے کہ) ہر ایک نے کنویں کے اندر اپنا عکس دیکھ لیا۔
مطلب: یہ تلمیح ہے شیر و خرگوش کے قصہ کی طرف۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ خرگوش نے شیر کو ہلاک کرنے کے لیے اس سے کہا کہ کنویں کے اندر تمہارا حریف بیٹھا ہے۔ شیر نے کنویں میں نظر کی تو اس میں اپنا عکس نظر آیا۔ وہ اسی کو اپنا حریف سمجھ کر حملہ کرنے کے لیے کنویں میں کود پڑا۔ یہ قصہ مثنوی کے دفترِ اوّل اور مفتاح العلوم کی جلدِ دوم میں ہے۔ تلمیح کے بعد آگے بطور تصریح فرماتے ہیں:
23
عکس در چَہ دید و از بیروں ندیدہمچو شیرِ گول کاندر چَہ دوید
ترجمہ: (اس) عکس کو کنویں کے اندر دیکھا اور (سمجھا کہ کنویں کے اندر کوئی میرا مغائر حریف ہے مگر) باہر سے نہ دیکھا (کہ یہ میرا ہی عکس ہے اور میں باہر ہوں اس) احمق شیر کی طرح جو کنویں کے اندر دوڑ پڑا (اسی طرح تم اکثر اوقات دوسروں کے ساتھ سلوک کرنے میں غلطی کرتے ہو، مثلاً عداوت کا منشا دوسرے میں سمجھتے ہو اور فی الواقع وہ منشا خود تمہارے اندر ہوتا ہے)۔
24
از بروں داں ہرچہ در چاہت نمودورنہ آں شیری کہ درچَہ شد فرود
ترجمہ: (پس) جو کچھ تم کو (فریق پانی کے) چاہ (وجود) میں نظر آیا ہے اسے (اس چاہ سے) باہر (یعنی خود اپنے وجود) سے سمجھو۔ ورنہ تم وہ (احمق) شیر ہو گے جو کنویں کے اندر کود پڑا۔
25
برُد خرگوشیش از رَہ کاے فلاںدر تگِ چاہست آں شیرِ ژیاں
ترجمہ: جس کو ایک (مکار) خرگوش راستے سے (یہ چکمہ دے کر) لے گیا کہ اے فلاں! کنویں کی گہرائی میں وہ (ایک) تند خُو شیر (بیٹھا) ہے۔
26
در رَو اندر چاه و کیں از وَے بکشچوں ازو غالب تری سر برکنش
ترجمہ: تو کنویں میں اتر جا اور اس سے انتقام لے۔ جب تو اس سے زیاده زبردست ہے تو اس کا سر جدا کر دے۔
27
آں مقلّدِ سُخرۂ خرگوش شداز خیالِ خویشتن پُرجوش شد
ترجمہ: وہ غیر محقّق (شیر) خرگوش کے کہنے میں آ گیا اور اپنے خیال سے پُرجوش ہو گیا۔
28
او نگفت ایں نقش و او در آب نیست ایں بجز تقلیبِ آں وہاب نیست
ترجمہ: اس (بھولے بھالے شیر نے یہ نہ کہا کہ یہ تو محض ایک) نقش (موہوم) ہے (جو میرے عکس سے پانی میں نظر آ رہا ہے) اور وہ (دوسرا شیر) پانی میں نہیں ہے (اور اس کا) یہ (نہ کہنا اور نہ سمجھنا) اس (خداوند) کثیر العطاء کے (حواس و شعور کو) الٹ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
مطلب: اسی طرح انسانِ نادان اپنے نفسِ شریر کے بہکانے سے صراطِ مستقیم سے بھٹک کر چاہِ ضلالت میں گر جاتا ہے۔ وہّاب کے اسم میں یہ نکتہ ملحوظ ہے کہ خداوند تعالیٰ کی یہ تقلیب یعنی تصرفِ تکوینی جس سے حقیقتِ امر مخفی رہ جاتی ہے، جس طرح شیر کی نظر سے اصلیت مخفی رہ گئی، بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل ہے۔ جن کے اعتبار سے وہ تقلیب بہت سے لوگوں کے لیے مفید پڑ جاتی ہے۔ پس یہ تقلیب بھی ایک طرح سے اس کی موہبت و بخشش ہے۔ آگے شیر کی حکایت کو اس شخص کے احوال پر چسپاں فرماتے ہیں جو اپنے منشاءِ عداوت کو کسی دوسرے شخص کے اندر تصور کرتا ہے جس طرح شیر نے اپنے عکس کو کنویں کے اندر دوسرا شیر سمجھا اور اس بات کو بطورِ خطاب ارشاد کرتے ہیں۔
29
تو ہم از دشمن چو کینے میکشیاے زبونِ شش غَلَط در ہر ششی
ترجمہ: (اسی طرح) اے تمام جہات (ستہ) کی غلطیوں کے تابع تو بھی جب دشمن سے کینہ کشی کرتا ہے (تو دوسرے شخص میں منشاءِ عداوت کا توہّم کر کے) ششدر ہو رہا ہے۔ (یہاں تک یہ بیان ہوا کہ اجزائے عالم تیری مظہر ہیں اور تو نہیں سمجھتا۔ آگے فرماتے ہیں کہ اجزائے عالم ایک طرح سے حق کی مظہر اور ایک طرح تیری مظہر ہیں اس طرح سے کہ:)
30
آں عداوت اندرو عکسِ حق ستکز صفاتِ قہرِ آنجا مشتق ست
ترجمہ: وہ عداوت اس میں حق کا عکس ہے۔ (اس طرح) کہ وہاں کی غفلت قہر سے مستفاد ہے۔
مطلب: عالم کائنات کے تمام نیک و بد امور صفاتِ الٰہیہ کے مظاہر ہیں۔ مثلاً انبیاء علیہم السلام کی ذواتِ عالیہ اسم ہادی کی مظہر ہیں۔ اور شیطانِ لعین اسمِ مُضِلّ کا مظہر ہے۔ اسی طرح دشمن کی دشمنی حق تعالیٰ کے اسمِ منتقم کی مظہر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔
31
واں گنہ در وے ز عکسِ جرِم تستباید آں خو را ز طبعِ خويش شُست
ترجمہ: اور وہ گناہ (جو) اس میں (ہے یعنی ظلم وغیرہ جو عداوت سے صادر ہوا وہ) تمہارے جرم کا عکس ہے (پس بجائے اس کے کہ تم دشمن سے الجھو) تمہیں اس خلق (مذموم) کو (جو اس ظلم کی باعث ہے) اپنی طبیعت سے دھو ڈالنا چاہیے۔
مطلب: یہ حکم کلی نہیں کہ ہر گناه مثلاً ظلم مظلوم ہی کے گناہ کا عکس ہو۔ دیکھیے مومنوں پر کافر لوگ ظلم کرتے ہیں۔ وہ مومنوں کے کسی جرم کا عکس نہیں۔ خصوصاً ان حضرات میں جو معصوم و محفوظ ہیں۔ جیسے انبیاء و اولیاء۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ جہاں قاہر و مقہور اور ظالم و مظلوم رذائلِ نفسانیہ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان میں سے ہر شخص غلبۂ نفس سے مجادلہ کرتا ہے اور ان پر ایک دوسرے کے گناہِ قہر کا عکس پڑا ہوا ہے۔ اور یہ بات ایک حدیث سے ماخوذ ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے۔ "اِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَ الْمَقْتُوْلُ كِلَاهُمَا فِیْ النَّارِ" یعنی ”جب دو مسلمان تلواریں سونت کر باہم مقابلہ کریں تو قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے‘‘۔ "قَالُوْا فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ؟" لوگوں نے عرض کیا یا رسول الله مقتول کا کیا قصور؟ "قَالَ اِنَّهٗ يُرِيْدُ قَتْلَ اَخِيْهِ" ”آپ نے فرمایا وہ اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرنا چاہتا ہے“ انتہٰی۔ جب اس حدیث کی تنقیح کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کا کینہ دوسرے کے کینہ کا عکس ہے اور ظالم کے قہر کا جرم مظلوم کے جرمِ کینہ کا عکس ہے جو اس کی ایذا رسانی پر تلا ہوا تھا۔ (بحر العلوم)
ان دونوں شعروں کی حقیقتِ مضمون یہ ہے کہ حسن و قبح عبد کے افعالِ اختیاریہ میں ہے۔ مبادیِ فطریہ میں نہیں۔ حتّٰی کہ مثلاً عداوت جو ظلم کا مبدا ہے اگر اپنے محل میں صَرف ہو تو حسن ہے۔ اس میں اگر قبح ہوتا ہے تو صَرْف اِلٰی غَیْرِ الْمَحَلّ سے، اور یہ صَرف فعلِ اختیاری ہے۔ اس لیے نفسِ عداوت کو حق کی صفاتِ قہریہ کا ظل کہا اور گناہ مثلاً ظلم کو کہ قبیح ہے دوسرے عبد کے فعل کا کہا۔ یہ معنٰی ہیں۔ اس لیے کہ اجزاءِ عالم ایک لحاظ سے حق کے مظہر ہیں اور ایک اعتبار سے خود تمہارے مظہر ہیں۔ (کلید)
32
خُلقِ زشتت اندرو رؤیت نمودکہ ترا او صفحۂ آئینہ بود
ترجمہ: (کیونکہ) تیرا خُلقِ مذموم اس (دشمن) کے اندر تجھ کو نمایاں ہو گیا۔ (اس طرح سے) کہ وہ تیرے لیے (بمنزلہ) صفحہ آئینہ (کے) ہو گیا۔
33
چونکہ قبحِ خویش دیدی اے حُسناندر آئینہ بر آئینہ مزن
ترکیب: "چونکہ قبح" شرط، "بر آئینہ مزن" اس کی جزاء، "اندر آئینہ" متعلق ہے دیدی کے۔
ترجمہ: (پس) اے حسن جب (ہماری اس تنبیہ سے) تم نے اس آئینے میں اپنے قبح کو دیکھ لیا تو تم آئینہ پر ضرب مت لگاؤ۔
مطلب: جب تم کو معلوم ہو گیا کہ دشمن کی دشمنی کے محرّک خود تم ہو تو الٹا دشمن سے انتقام لینے کی کوشش نہ کرو۔ آگے اس کے مظہرِ حق ہونے کا بیان ہے کہ عداوتِ عدوّ کو قہرِ حق کا عکس نہ سمجھے اور اس سے الجھنے کی مثال ایسی ہے جیسے:
34
مے زند بر آبِ استاره سنیخاک تو بر عکسِ اختر مے زنی
ترجمہ: (مثلاً پانی پر ایک روشن ستارہ عکس ڈال رہا ہے (اور) تم (اسی نحوستِ مزعومہ سے بچنے کے لیے) ستارے کے عکس پر مٹی ڈال رہے ہو (تا کہ اس ستارے کو مٹی میں دفن کر دو)۔
35
کایں ستارۂ نحس در آب آمد ستتا کند او سعدِ ما را زيرِ دست
ترجمہ: (اور یوں کہتے جاتے ہو) کہ یہ منحوس ستارہ پانی کے اندر آن گھسا ہے تا کہ ہمارے نیک طالع کو مغلوب کر دے۔
36
خاکِ استیلا بریزی بر سرشچونکہ پنداری ز شبۂ اخترش
ترجمہ: تم اس کے اوپر غلبہ کی خاک ڈال رہے ہو جبکہ تم شبہ سے اس (عکس) کو ستارہ سمجھ رہے ہو۔
37
عکس پنہاں گشت اندر غیب راندتو گماں بُردی کہ آں اختر نماند
ترجمہ: (اتفاق سے تھوڑی دیر میں وہ) عکس پوشیدہ ہو گیا۔ (افق) غیب میں چلا گیا۔ تم نے یہ گمان کیا کہ وہ ستارہ نہیں رہا (میں نے اس کو دفن کر دیا ہے)۔
38
آں ستارۂ نحس ہست اندر سماہم بداں سو بایدش کردن دوا
ترجمہ: (حالانکہ) وہ ستاره (جو تمہارے خیالِ باطل میں) نحس ہے (تمہارے مٹی ڈالنے کے وقت) آسمان میں موجود ہے۔ سو اس کی تدبیر اسی میں کرنی چاہیے (پانی کے اندر خاک پاشی فضول ہے)۔
39
بلکہ باید دِل سوئے بیسوئے بستنحسِ ایں سُو، عکسِ نحسِ بے سُو است
ترجمہ: بلکہ (تحقیق تو یہ ہے کہ اگر جہتِ آسمان کے اندر ستارہ کا ہونا بھی معلوم ہو جائے تاہم آسمان پر بھی نظر نہ کرو۔ بلکہ) دل کو بے جہت کی طرف لگانا چاہیے (کیونکہ) اس جہت (والے ستاره) کی نحوست (اس خداوندِ) بے جہت کی سوء القضا کا عکس ہے۔
چھوڑ پرواۓ کواکب نہ ہو پابندِ فلکراضی ره اس پہ کہ جو چاہے خداوندِ فلک
40
داد دادِ حق شناس و بخشیشعکسِ آں داد ست اندر پنج و شش
ترجمہ: (حقیقی) عطا تو عطائے حق کو سمجھو اور اس کی بخشش کو (اور جو کچھ) پانچ (حواس سے محسوس) اور شش (جہات) میں (واقع ہوتا ہے) اسی عطا کا عکس ہے۔
مطلب: جس طرح دشمن کی عداوت حق تعالیٰ کی صفاتِ قہریہ کا عکس ہے اسی طرح محسن کا احسان اس کی صفاتِ لطفیہ کا عکس ہے۔
41
گر بود دادِ خساں افزوں ز ریگتو بمیری واں بماند مرده ریگ
ترجمہ: اگر کمینہ مخلوق کی عطا ریگ (یبابان) سے زیادہ ہو جائے تو بھی تم مر جاؤ گے اور وہ (عطا) میراث رہ جائے گی (پس مخلوق کی عطا ناپائیدار ہے اور حق تعالیٰ کی وہ عطا جن کو وہ بقصدِ دوام دیتا ہے جیسے ایمان، اعمالِ صالح وغیرہ ابدی دائمی ہے)۔
42
عکس آخر چند پاید در نظراصل بینی پیشہ کن اے کژ نظر
ترجمہ (جب مخلوق کی عطا اس عطائے حق کا عکس ہے تو) عکس آخر (تیری) نظر میں کب تک باقی رہے گا (اس کو نظر سے گرا دے) اے کج نگاہ! اصل کو دیکھنا دستور بنا لے۔
43
حق چو بخشش کرد بر اہلِ نیازبا عطا بخشید شاں عُمرِ دراز
ترجمہ: حق تعالیٰ نے جب اہلِ طاعت پر بخشش فرمائی تو عطا کے ساتھ ان کو لمبی عمر (بھی) عطا کی (یعنی بہشتی زندگی بخشی جو ابدی و دائمی ہے۔ اس سے عطائے حق کی ایک خاص شان کا اظہار مقصود ہے)۔
44
خَالِدِیْن شد نعمت و مُنْعَم عَلَيْہمُحْیِی الْمَوْتٰی ست فَاجتارُوا اِلَيْهِ
ترجمہ: (اس لیے وہ) نعمت (جو بندے کو دی گئی) اور جس کو وہ نعمت دی گئی (دونوں) دائمی ہو گئے۔ وہ مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے تو اسی کی طرف التجا (و رجوع) کرو۔
45
دادِ حق با تو در آمیزد چو جاں آنچناں کہ آں تو باشی و تو آں
ترجمہ: عطائے حق (میں ایک اور خاص شان ہے کہ وہ) تمہارے ساتھ جان کی طرح مل جاتی ہے۔ اس طرح کہ وہ (عطا) تم، اور تم وہ (عطا) بن جاتے ہو۔
مطلب: اللہ تعالیٰ بندہ کو جو رزق دیتا ہے اور بندہ اس سے غذا پاتا ہے تو وہ غذا جزوِ جسم بن جاتی ہے اور یہ کام حق تعالیٰ کا ہی ہے، بندہ کا نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرے گا کہ کوئی کھانے کی چیز ہاتھ میں دے دے گا یا زیادہ سے زیادہ حلق میں ڈال دے گا مگر اس کو ہضم کر دینا اور جزوِ جسم بنا دینا بندہ کی قدرت سے باہر ہے۔ یہ خاص خداوند تعالیٰ کا کام ہے۔ یہ بیان تو غذائے حسّی سے متعلق تھا۔ آگے غذائے روحانی کا ذکر ہے:
46
گر نماند اشتہائے نان و آببدہدت بے ایں دو قوتِ مستطاب
ترجمہ: اگر روٹی اور پانی کی اشتہا نہ رہے تو وہ (غیب سے) تم کو یہ دونوں طیب غذائیں دیتا ہے۔
مطلب: یعنی جب ذکر و طاعت کے انہماک میں آب و نان کی پروا نہ رہے تو حق تعالیٰ غذائے روحانی سے تمہاری قوتِ جسم کو قائم رکھتا ہے۔ جیسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ "یُطْعِمُنِىْ رَبِّىْ وَ يَسْقِیْنِىْ" (صحیح بخاری) یعنی ”میرا پروردگار مجھے کھلاتا پلاتا ہے“۔ بیمار کے متعلق بھی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس کو کھلاتا پلاتا ہے اس لیے اس کو غذا کی اشتہا نہیں رہتی۔ چنانچہ فرمایا: "لَا تُكْرِهُوْا مَرْضَاكُمْ عَلَى الطَّعَامِ فَاِنَّ اللّٰهَ تَعَالىٰ يُطْعِمُهُمْ وَ یَسْقِيْهِمْ" (مشکوٰۃ) یعنی ”تم اپنے مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ اللہ خود ان کو کھلا پلا دیتا ہے“۔
چنانچہ یہ مشاہدہ ہے کہ بعض بیمار پندرہ پندرہ روز تک ایک دانہ اناج کے برابر نہیں کھاتے اور زندہ رہتے ہیں حتٰی کہ آخر وہ تندرست ہو جاتے ہیں حالانکہ بحالتِ تندرستی وہ چار پانچ روز کے متواتر کے فاقہ سے زندہ نہ رہ سکیں۔
47
فربہی گر رفت حق در لاغریفربہی پنہانت بخشند آں سری
ترجمہ: اگر (طاعات و مجاہدات میں) فربہی جاتی رہے تو حق تعالٰی لاغری میں تم کو اس طرف کی باطنی فربہی (یعنی روحانی طاقت) عطا فرما دیتا ہے (چونکہ بلا غذائے معتاد قوت کا قائم رہنا بظاہر بعید نظر آتا تھا اس لیے آگے ایک مثال سے اس شک کو رفع کرتے ہیں):
48
چوں پری را قُوْت از بُو مے دہدہر مَلَک را قُوتِ جاں او مے دہد
ترجمہ: (تم اس کو بعید نہ سمجھو) جبکہ وہ جن کو بُو سے غذا دیتا ہے (اور) ہر فرشتہ کو وہ غذائے روح عطا فرماتا ہے۔
مطلب: استدلال میں تدریج و ترقی ہے یعنی جن کے لیے صرف بُو غذا کا کام دے جاتی ہے، آب و نان کی ضرورت نہیں۔ آگے اس سے بھی ترقی ہے کہ فرشتے خوشبو کے بھی محتاج نہیں جو جسمانیات سے ہے بلکہ وہ محض روحانی غذا پر زندہ ہیں جس سے ذکر و طاعات مراد ہے۔ بس اگر کسی انسان کے لیے اس قسم کی کوئی غذا مفید و مکتفی کر دی جائے تو قدرت حق سے کیا بعید ہے۔ بعض اخبار و آثار سے جو معلوم ہوتا ہے کہ عظم، روث و عذرہ وغیرہ جنات کی غذا ہیں تو شاید ان اشیاء کی بو و رائحہ ہی اس مخلوق کو غذا کا کام دیتی ہے کیونکہ اگر یہ اشیاء باعیانھا ان کی غذا ہوتیں تو وہ اشیاء نابود ہوتی رہتیں۔ حالانکہ وہ جوں کی توں موجود رہتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کوئی ایسا جزو جنات کی غذا بن جاتا ہے جس کے فقدان سے ان اشیاء کی جسامت میں نقصان نہیں آتا اور وہ بو ہی ہو سکتی ہے۔ اور شاید اسی بنا پر مولانا نے کہا ہے کہ وہ جن کو غذا دیتا ہے۔
49
جاں چہ باشد کہ تو سازی زُو سندحق بعشقِ خویش زندت میکند
ترجمہ: جان (حیوانی) کیا چیز ہے کہ تو (زندہ رہنے میں) اس سے سہارا ڈھونڈھتا ہے (بلکہ) حق تعالیٰ تجھ کو اپنے عشق سے زندہ رکھتا ہے۔
مطلب: یہ غذائے روحانی کے ساتھ زندہ رہنے کی تائید ہے۔ یعنی تم صرف روحِ حیوانی کو ہی باعثِ حیات نہ سمجھو، جس کا قیام و قوام آب و نان پر موقوف ہے۔ جیسے کہ بعض فلسفی مزاج اہلِ جنت کے خلود میں اس بنا پر شک کرتے ہیں کہ ان کا مدارِ حیات غذا پر ہے اور اس کے لیے تغیّر، تبدّل اور فنا و اضمحلال لازم ہے، پھر خلود کیونکر ہو سکتا ہے۔ در حقیقت ابدی زندگی اس معتاد غذا پر موقوف نہیں وہ زندگی حق تعالیٰ کے عشق سے حاصل ہوتی ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زنده شد بہ عشقثبت ست بر جریدۂ عالم دوامِ ما
50
زو حیاتِ عشق خواه و جاں مخواہتو ازو آں رزق خواه و ناں مخواہ
ترجمہ: (پس) تم (الله تعالیٰ سے) عشق کی زندگی مانگو جان نہ مانگو۔ اس سے وہ (روحانی) رزق طلب کرو۔ (صرف) روٹی طلب نہ کرو (یہ شعر مرصّع ہے آگے پھر عود ہے عالم کے مظہرِ حق ہونے کی طرف):
51
خلق را چُوں آب داں صاف و زُلالاندراں تاباں صفاتِ ذُوالجلال
ترجمہ: مخلوق کو تم ایک صاف و شفاف پانی کی مانند سمجھو۔ اس کے اندر (خداوندِ) ذوالجلال کی صفات درخشاں ہیں۔
52
علمِ شاں و عدلِ شاں و لطفِ شاںچوں ستاره چرخ در آبِ رواں
ترجمہ: ان لوگوں کا علم اور ان کا عدل اور ان کا لطف ستارۂ آسمان (کے عکس) کی مانند ہے (جو) آبِ رواں میں (چمکتا ہو)۔
مطلب: جس طرح پانی کے اندر کا ستاره درحقیقت اس اصلی و حقیقی ستارہ کا عکس اور پر تو ہے جو آسمان پر تاباں و درخشاں ہے اسی طرح بندوں کے فضائل حق تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کے پرتو ہیں، اور جس طرح ستارۂ فلک کا وجودِ اصلی حقیقی ہے اور ستارۂ آبِ رواں کا عارضی و نمائشی، اسی طرح:
53
بادشاہی زیبد آں خلّاق رابادشاہاں جملگی عاجز وَرا
ترجمہ: (حقیقی) بادشاہی اسی خلّاق کو زیبا ہے (اور باقی) تمام بادشاہ اس کے سامنے عاجز ہیں۔ (کیونکہ) ان کی بادشاہی بادشاهِ حقیقی کی بادشاہی کی ظل ہے۔ اور ظل (حقیقتِ ظل کے آگے) لاشئی ہوتا ہے۔ آگے اسی کی تصریح ہے:)
54
بادشاہاں مظہرِ شاہیِ حقفاضلاں مِرآةِ آگاہیِ حق
ترجمہ: (تمام) بادشاہ حق تعالیٰ کی بادشاہی کے مظہر ہیں (اور تمام عالم و)فاضل لوگ حق تعالیٰ کے علم کا آئینہ ہیں۔ (یعنی علماء و فضلاء کا علم حق تعالیٰ کے علم کا عکس اور پرتو ہے جس طرح آئینے میں اس کے سامنے کسی چیز کا عکس نظر آتا ہے۔)
55
قرنہا بگذشت و ایں قرنِ نوی ستماہِ آں ماہ ست آبِ آں آب نیست
ترجمہ: بہت سی صدیاں گزر گئیں اور ان کے بعد یہ (زمانۂ حال) ایک نئی صدی ہے (ان تمام صدیوں میں یہ حکم باقی ہے) چاند وہی چاند ہے (مگر) پانی وہ پانی نہیں (جیسے اگر آبِ رواں میں چاند کا عکس پڑتا ہو تو پانی ہر آن میں نیا آ جاتا ہے مگر اس نئے پانی میں جو عکس ہوگا وہ بھی اسی چاند کا ہوگا، اسی طرح مظاہر میں تبدّل ہوتا ہے ظاہر میں نہیں چنانچہ:)
56
عدل آں عدل ست و فضل آں فضل ہملیک مستبدل شد آں قرن و امم
ترجمہ: عدل وہی عدل ہے (جو عدلِ الٰہی کا پرتو بن کر عادل بادشاہوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے) اور (علم و) فضل وہی (علم و فضل ہے (جو علمِ الٰہی کا عکس بن کر فاضلوں میں نمایاں ہوتا رہا ہے) مگر (عادلوں اور فاضلوں کے) وہ زمانے اور جماعتیں بدل گئیں۔
انتباہ: یہ ترجمہ اور اس کے مقدّرات اس بنا پر ہیں کہ یہاں عدل و فضل سے فضائلِ مخلوق مراد ہوں، لیکن اگر ان سے صفاتِ حق مراد ہوں تو مقدّرات کی صورت یوں ہو گی کہ عدل وہی عدل ہے (جس کا پرتو عادل بادشاہوں کے علم و فضل کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا) اور (علم و) فضل وہی (علم و فضل) ہے (جس کا عکس فاضل لوگوں کے علم و فضل کی صورت میں نمایاں ہوتا تھا) لیکن الخ:
57
قرنہا بر قرنہا رفت اے ہمام!ایں معانی بر قرار و بر دوام
ترجمہ: اے سردار زمانوں پر زمانے گزر گئے لیکن یہ صفات (جو صفاتِ حق ہیں اپنے) قرار و دوام پر (جوں کی توں) ہیں۔
58
آب مُبَدَّل شد دریں جُو چند بار عکسِ ماہ و عکسِ اختر برقرار
ترجمہ: اس نہر میں پانی چند بار بدل چکا ہے (لیکن) چاند کا عکس اور ستارے کا عکس برقرار ہے (آگے اس پر ایک تفریع ہے):
59
پس بنا اش نیست بر آبِ رواںبلکہ بر اقطارِ عرضِ آسماں
ترجمہ: پس (جب آبِ رواں کے تبدُّل سے ماہ و اختر نہیں بدلتے تو ثابت ہوا کہ) اس (ماه و کوکب) کی بنا آبِ رواں نہیں ہے۔ بلکہ وسعتِ فلک کے اقطار پر ہے۔
60
ایں صفتہا چوں نجومِ معنوی ستدانکہ بر چرخِ معانی مستوی ست
ترجمہ: (بس اسی طرح) یہ صفاتِ (حق) کواکبِ معنویہ کی مانند ہیں (ان کو بھی کواکبِ ظاہریہ کی طرح) سمجھ لو کہ وہ فلکِ معنوی پر قائم ہیں (فلکِ معنوی کے ساتھ ذاتِ حق تعالیٰ کو تشبیہ دی ہے کہ وہ محلِ استقرارِ صفات ہے۔ آگے مشبہ کے حکم پر تفریع ہے):
61
خوبرویاں آئینۂ خوبیِ اواو عشق ایشاں عکسِ مطلوبیِ او
ترجمہ: (پس معلوم ہوا کہ) تمام حسین اس کے حسن کے آئینہ ہیں (اور) ان کی معشوقی اس کی مطلوبی کا عکس ہے۔
62
ہم باصلِ خود رود ایں خد و خالدائما در آب کَے ماند خیال
ترجمہ: (جب یہ عکس ہیں اور وہ اصل ہے تو) یہ (سب) خد و خال اپنی اصل کی طرف چلے جاتے ہیں (جس طرح ستاروں کا عکس ستاروں کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے) ہمیشہ پانی میں عکس کب رہتا ہے۔
63
جملہ تصویرات، عکسِ آبِ جُوستچوں بمالی چشمِ خود، خود جُملہ اوست
ترجمہ: (پس یہ مظاہر کی) سب صورتیں آبِ جُو کی عکس ہیں۔ اگر تم اپنی آنکھ کو ملو تو (معلوم ہو جائے کہ) سب وہی خود ہے۔
مطلب: عکسِ آبِ جو میں اضافت الى الظرف ہے یعنی وہ عکس جو آبِ جُو کے اندر ہے۔ آنکھ ملنا کنایہ ہے اچھی طرح نظر کرنے سے۔ چنانچہ غور و توجہ سے دیکھنے والا پہلے اپنی آنکھیں مل لیتا ہے تاکہ غبار اور میل وغیرہ جو چیز مانعِ نظر ہو، دور ہو جائے۔ "جملہ اوست" وجودِ حقیقی کے اعتبار سے کہا ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ کے سوا تمام موجودات کا وجود غیر حقیقی ہے۔ وجودِ حقیقی صرف حق تعالیٰ کا ہے۔ پس مطلب ظاہر اور بالکل صحیح ہے کہ وجودِ حقیقی کے اعتبار سے موجود وہی ہے اور کوئی نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جملہ کے افراد میں سے ہر فرد بعینہٖ حق ہے۔ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ الْعَقِيْدَةِ الْبَاطِلَۃِ۔ مطلب یہ کہ دوسری موجودات چونکہ عکس اور ظل اور تابع اور مستہلک اور لاشیئ اور غیر معتد بہ ہیں اس لیے وہ قابلِ شمار نہیں۔
64
باز عقلش گفت بگذر زیں حَوَلخَلّ دوشابست دوشاب ست خَلّ
ترجمہ: (الغرض) پھر (حق کی عطا کو محبت کی عطا پر فضیلت دینے کے بعد) عقل نے اس کو کہا کہ اس دو بینی کو چھوڑ دے۔ سرکہ شیرۂ انگور ہے، تو شیرۂ انگور سرکہ ہے۔
مطلب: پیچھے بیان ہوا تھا کہ وہ قرضدار اپنے محسنِ محتسب کی وفات کی خبر سن کر شدتِ یاس سے بے ہوش ہو گیا۔ پھر جب ہوش میں آیا تو محتسب پر اعتمادِ تام کرنے سے تائب ہوا اور کہنے لگا: الٰہی اصل معطی تو ہے، تیری عطا کے آگے محتسب کی عطا کی حقیقت ہی کیا ہے۔ حتّٰی کہ اس نے کہا ؎
من مرو را قبلۂ خود ساختمقبلہ سازِ اصل را انداختم
اس کے بعد مولانا نے ایک مبسوط و مطلب بیان میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہر سخی کی سخاوت بھی منجانب اللہ ہوتی ہے کیونکہ بندوں کے تمام محاسن فضائلِ صفاتِ حق ہی کا پرتو ہیں۔
اب اس شعر سے قرضدار کے قول کی طرف رجوع ہے۔ یعنی اس کی عقل نے اس کو سمجھایا کہ تو جو یہ کہتا ہے کہ حق تعالیٰ کی عطا محتسب کی عطا سے بہتر ہے یہ تیری دو بینی و کج نظری ہے، جس کی بنا پر تیرے اندر دوئی کا خیال باقی ہے۔ بلکہ محتسب کی عطا بھی حق تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔ محتسب کوئی چیز نہیں، معطیِ موجود صرف حق تعالیٰ ہے (بحر العلوم) دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک تند و ترش سرکہ حقیقت میں وہی انگوروں کا نچوڑ ہے جس میں یہ تندی و ترشی نہیں تھی۔ اور اس سے مغائر معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح محتسب کی عطا حق تعالیٰ ہی کی عطا ہے اس سے مغائر و متبائن نہیں آگے اسی کی توضیح و تصریح ہے:
65
خواجہ را چوں غیر گفتی از قصورشرم دار اے اَحْوَل از شاہِ غیور
ترجمہ: جب تو نے (نظر کی) کوتاہی سے خواجہ کو (حق سے) غیر کہا ہے تو اے کج نظر شاہِ غیور (حقیقی) سے شرم کر۔
مطلب: تجھ کو اس بات سے شرم کرنی چاہیے کہ تو اس غیر کے لیے صفتِ کمال ثابت کر رہا ہے۔ شرم دار کے جملہ میں یہ اشارہ ہے کہ یہ غیر کی نفی غیرتِ ذوقیہ کا مقتضا ہے۔ گو عقلاً اس غیر کا ثبوت صحیح ہو۔ (کلید)
66
خواجہ را کو در گذشت ست از اثیرجنسِ ایں موشانِ تاریکی مگیر
ترجمہ: خواجہ (محتسب) کو جو کرۂ ناری سے آگے بڑھ گیا ان تاریکی پسند چوہوں کا ہم جنس نہ سمجھ۔
مطلب: خواجہ کی روح اعلیٰ علیین کی طرف چلی گئی جس کا مقام عالمِ بالا ہے اور یہ اس کے مقبول ہونے کی دلیل ہے کیونکہ غیر مقبول کی روح آسمان کی طرف عروج نہیں کر سکتی، اس کا ٹھکانا سجین میں ہوتا ہے۔ چنانچہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ﴾ (الاعراف: 40) ”ان غیر مقبولوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے“۔ پس اس خواجہ کو ان لوگوں میں سے نہ سمجھو جو نعمت کدۂ دنیا کے ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ خواجہ خاصانِ حق سے ہے۔ اس لیے اس کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہے۔
67
خواجہ را جاں بیں مبیں جسمِ گراںمغز بیں او را مبینش استخواں
ترجمہ: خواجہ کو جان سمجھو جسمِ ثقیل نہ سمجھو۔ اس کا مغز دیکھو اس کی ہڈی نہ دیکھو۔
68
خواجہ را از چشمِ ابلیسِ لعیںمنگر و نسبت مکُن او را بطیں
ترجمہ: خواجہ کو ابلیس کی نظر سے نہ دیکھو (جس سے اس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا تھا) اور (ابلیسں کی طرح) اس کو مٹی سے منسوب نہ کرو (یعنی جس طرح ابلیس نے آدم علیہ السلام کے بارہ میں کہا تھا: ﴿خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف: 12))
69
ہمرہِ خورشید را شپرّ مخواںآنکہ او مسجُود شد ساجِد مداں
ترجمہ: آفتاب کے مصاحب کو چمگادڑ نہ کہو۔ جس کو سجدہ کیا گیا، اس کو سجدہ کرنے والا نہ سمجھو۔
مطلب: پہلے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جو بحکمِ حدیثِ قدسی حق تعالیٰ کی معیت سے مشرف ہو اس کو ظلمت کدۂ دنیا کا دلدادہ نہ سمجھو۔ دوسرے مصرعہ سے یہ مقصود ہے کہ آدم علیہ السّلام جس فضلیت کی وجہ سے مسجودِ ملائکہ ہوئے وہ ان ساجدین کو حاصل نہ تھی۔ پس مسجود ساجدین میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح خواجہ کو جو فضلیت حاصل ہے۔ اس کی بدولت وہ ان لوگوں سے ممتاز ہے جن کو وہ فضلیت حاصل نہیں۔
70
عکسہا را ماند و ایں عکس نیستدر مثالِ عکس حق بنمودنیست
ترجمہ: (یہ خواجہ) عکسوں کی مانند ہے اور عکس نہیں ہے (بلکہ) عکس کی مثال میں حق تعالیٰ تجلی میں ہے۔
مطلب: صفاتِ حق کا عکس ہونا عوام کا رتبہ ہے۔ یہ خواجہ خاص سے ہیں۔ اس لیے وہ عکس نہیں بلکہ عینیتِ مصطلحہ کے درجہ پر مشرّف ہے۔ صاحبِ منہج فرماتے ہیں کہ اس محتسب کی حالت گو عکس سے مشابہ ہے لیکن وہ عکس نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے اس کی صورت میں تجلی فرمائی ہے اور یہ تجلی صوری ہے جو اثرِ ذات ہے۔ اور عکوسِ مذکورہ سابق اثرِ صفات ہیں۔ (انتہٰی) آگے یہ بیان ہے کہ خاصانِ حق کے اوصاف مقبول ہو جانے سے وہ کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں اس بات کو دو مثالوں کے ضمن میں ثابت فرماتے ہیں:
71
آفتابے دید و او جامد نماند روغنِ گل روغنِ کنجد نماند
ترجمہ: اس (خواجہ) نے ایک آفتاب کو دیکھا اور وہ (یخ کی طرح) جامد نہ رہ سکا۔ (بلکہ پانی پانی ہو گیا) روغنِ گل (جو پہلے روغن کنجد تھا۔ پھولوں میں بسا دینے سے اب) روغن کنجد نہ رہا۔
72
چُوں مُبدّل گشتہ اند ابدالِ حقنیستند از خلق، برگرداں ورق
ترجمہ: (اسی طرح) جب حق تعالیٰ کے ابدال (اپنے اوصاف کے لحاظ سے) مبدّل ہو گئے تو وہ (عام) خلائق سے نہیں رہے (بس) اس مضمون کا) ورق (ہی) الٹ دو۔
73
قبلۂ وحدانیت دو چُوں بودخاک مسجودِ ملائک چُوں شود
ترجمہ: قبلۂ توحید دو کیونکر ہو سکتے ہیں؟ (آدم علیہ السلام کی) مٹی ملائکہ کے سجدہ کی مستحق کیونکر ہو سکتی ہے؟ (اس سے ظاہر ہے قبلۂ وحدانیت ایک ہی ہے اور مسجودِ ملائکہ بھی حق ہی تھا۔ جو حضرت آدم علیہ السلام میں ظاہر تھا۔ آگے مشابہِ عکس کی جو عکس نہ ہو ایک مثال ارشاد ہے):
74
چوں دریں جُو دید عکسِ سیب مرددامنش را دیدِ آں پُر سیب کرد
ترجمہ: (فرض کرو کہ) جب اس نہر میں ایک شخص نے سیب کا عکس دیکھا (حالانکہ وہ فی الواقع سیب تھا اور جب تحقیق کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالا تو) اس کے دیکھنے سے اس کے دامن کو سیب سے بھر دیا۔
75
آنچہ در جُو دید کے باشد خیالچونکہ شد از دیدنش پُر صد جوال
ترجمہ: (تو اس صورت میں) اُسے جو کچھ ندی میں دیکھا وہ خیال (و عکس) کب ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس کے دیکھنے سے سیبوں کے ساتھ صدہا گونیں بھر گئیں۔ (یہ بطور مبالغہ کہہ دیا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک سیب کے ہاتھ آنے سے جب سراغ لگایا تو پانی کے اندر اور بہت سے سیب مل گئے۔
مطلب: یہ حکمِ سابق کی تمثیل ہے۔ یعنی ابدالِ حق متّصف بصفاتِ حق اور متخلّق باخلاقِ حق ہوگئے اور ان کی ذوات ذاتِ حق میں فانی ہو کر عین ذاتِ متصفہ بصفاتِ حق ہو گئیں۔ جیسے کوئی نہر میں سیب کا عکس دیکھے اور پھر اس سیب کو پکڑ کر اپنا دامن بھر لے تو وہ عکس نہ ہو گا۔ اسی طرح ابدال کی ذات مع صفات اگرچہ عکس اور ظل ہے لیکن عین وہی ظل ہے۔ اور وہ جو محمد رمضان نے کہا ہے کہ ممکن کی ہستی جب واجب کی ہستی میں مستہلک ہو گئی تو اس سے صفاتِ بشری زائل ہو گئے۔ اور وہ ممکن نہ رہا۔ یہ غلط ہے۔ کیونکہ ممکن کی ہستی کے ذاتِ حق میں فنا ہو جانے سے ممکن امکان سے خارج نہیں ہو سکتا اور وہ واجب نہیں بن سکتا۔ (بحر العلوم) آگے اس مضمون کو بطورِ تخصیص بعد تعمیم جناب رسول الله صلّی اللہ علیہ وسلّم کے لیے کہ آپ اخص الخواص ہیں دُور تک ثابت کرتے ہیں:
76
تن مبیں وجاں مکن کاں بُکْمٌ و صُمّکَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَھُمْ
ترجمہ: (اے منکر و کافر) تو (آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کے) تن (ظاہری) کو نہ دیکھ (کہ وہ آب و خاک سے ہے) اور (کفر و انکار کی) جان کسی میں مبتلا نہ ہو (جیسے) کہ ان گونگے بہرے (کافر) لوگوں نے حق کی تکذیب کی تھی جب کہ وہ ان کے پاس آیا۔
مطلب: یہ اس آیتِ قرآنیہ سے اقتباس ہے۔ ﴿فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْؕ فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ﴾ (الانعام: 5) ”چنانچہ جب (قرآن پر) حق ان کے پاس آیا تو اس کو جھٹلا دیا، تو یہ لوگ جس خبر کی بھی ہنسی اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت ان کو آگے چل کر معلوم ہو جائے گی“۔ اسی طرح کفار نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی تکذیب کی جب کہ آپ کی صورت میں حق ظاہر ہوا (بحر)
77
مَا رَمَیتَ اِذْ رَمَیتَ احمدؐ بُدستدیدنِ او دیدنِ خالق شد ست
ترجمہ: مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ (کے مصداق) حضرت احمد صلّی اللہ علیہ و سلّم ہوئے ہیں (جس سے غیبتِ مصطلحہ معلوم ہوئی، پس) آپ کا دیدار خالق کا دیدار ہے (مَا رَمَیْتَ الخ کا ترجمہ: "مشتِ خاک نہیں پھینکی تم نے جب کہ پھینکی تم نے، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔" یہ جنگِ بدر کا واقعہ ہے جب کہ آپ کے مشتِ خاک پھینکنے سے کفار اندھے ہو گئے تھے پیچھے کئی بار اس آیت کی تفسیر گزر چکی ہے)۔
78
حق مرو را برگزید از انس و جاںرَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنش خواند ازاں
ترجمہ: حق تعالیٰ نے خاص آپ کو انسان و جن سے منتخب فرمایا ہے۔ اسی سبب سے تو آپ کو "رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن" کہا ہے۔
مطلب: الله تعالیٰ نے آپ کو مظہرِ ذات با جمیع اسماء و صفات کیا ہے۔ اور جب حق سبحانہ، عینِ رحمت ہے اور رحمت عینِ حق ہے تو بنا بریں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کو بھی رحمت للعالمین کہا ہے۔ (بحر)
79
خدمتِ او خدمتِ حق کردن ستروز دیدن دیدنِ آں روزن ست
ترجمہ: آپ کی خدمت (و اطاعت) کرنا حق تعالیٰ کی خدمت (و اطاعت) کرنا ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے جیسے) آفتاب کو دیکھنا اس دریچہ کا دیکھ لینا ہے۔
مطلب: پہلا مصرعہ اس مضمونِ آیت پرمشتمل ہے کہ ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النساء: 80)۔ دوسرے مصرعہ میں مبتدا مؤخر اور خبر مقدّم ہے۔ یعنی اگر ایک دریچہ کو جو آفتاب سے درخشاں ہو دیکھ لیا جائے تو یہ گویا آفتاب کو دیکھ لینا ہے۔ پس جو بندۂ مقبول حق تعالیٰ کے نور سے منوّر ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس کا دیکھ لینا بعض اعتبار سے حضرت حق کا دیکھ لینا ہے۔ (کلید) یہ حکم تمام انبیاء کے لیے عام تھا۔ اس لیے آگے آپ کی پھر تخصیص ہے:
80
خاصۂ ایں روزنِ درخشاں از خود ستبے ذریعہ آفتاب و فرقد ست
ترجمہ: خصوصاً یہ دریچہ (تعینِ محمدیﷺ) تو از خود روشن ہے (اس کی درخشانی دوسرے انبیاءؑ کے) آفتاب اور (دیگر اصفیاء کے) ستارۂ فرقد کے توسّل کے بدون ہے۔
مطلب: از خود کے معنٰی بلا واسطۂ حق نہیں ہیں، کہ یہ خلافِ واقعہ بھی ہے۔ اور حکمِ سابق "رد و بدل الخ" کے بھی خلاف ہے۔ بلکہ بلا واسطۂ خلق مراد ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ تمام خلائق کے لیے آنحضور صلّی اللہ علیہ وسلّم خود واسطۂ فیضِ الٰہی ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے لیے کوئی بھی واسطہ نہیں۔ (کلید)
81
ہم ازاں خورشید زد بر روزنےلیک از راه و سُوے معہُود نے
ترجمہ: اسی خورشید (حقیقی) سے ایک دریچہ (یعنی تعینِ محمدی) پر شعاع پڑی ہے۔ لیکن متعارف راہ اور جانب سے نہیں (کیونکہ حق تعالیٰ اس سے منزّہ ہے)۔
82
درمیانِ شمس ایں روزن رہےہست روزنہا نشد زاں آگہے
ترجمہ: (بلکہ) آفتاب (حقیقی) کے اور اس دریچہ کے درمیان ایک (خاص معنوی) منفذ ہے۔ دوسرے دریچے اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ (کیونکہ ہر مقام کی تجلی کا ادراک اس مقام والا ہی کر سکتا ہے۔)
83
تا اگر ابرے براید چرخ پوشاندریں روزن بود نورُش بجوش
ترجمہ: (اور وہ منفذ معنوی اس لیے ہے) تاکہ اگر کوئی ابر آسمان کو چُھپا لینے والا چھا جائے (تب بھی) اس آفتاب کا نور اس دریچہ کے اندر جوش و فیض (اور غلبہ) میں رہے۔ (اور وہ ابر مانع و حائل نہ ہوسکے۔)
مطلب: عجب نہیں کہ اس ابر سے مراد وہ کدورت ہو جس کی نسبت آنحضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کا ارشاد ہے کہ "اِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ" (صحيح مسلم) یعنی ”میرے قلب پر کدورت چھا جاتی ہے“ تو مولانا نے اس میں یہ بتا دیا کہ وہ کدورت تجلی کی مانع یا اس کو کم کرنے والی نہیں۔ کیونکہ وہ تجلّی جو آپ کے قلب پر ہوتی ہے۔ اس قدر قویُّ النور ہے کہ خود اس کدورت کو بھی منور کر دیتی ہے۔ چنانچہ ظاہر یھی ہے کہ وہ تعلقات و توجہات فی الخلق جو اس کدورت کا مصداق ہیں اور عوام کے لیے تجلیات کے حجاب بن جاتے ہیں، آپ کے لیے زیادتِ قرب کے باعث اور عینِ طاعت ہیں۔ پس خود ان کی ظلمت جو ان کی اصل وضع کا مقتضا تھی۔ بالکلیہ محو ہو گئی۔ اور یہی حکم سب انبیاء علیہم السّلام کے لیے عام ہے۔ بخلاف اولیاء کے ان کے لیے حجبِ بشریہ کسی وقت ساترِ تجلیات بن جاتے ہیں، گو قوی نہ ہوں۔ پس یہاں جو حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کی تخصیص کی ہے تو دوسرے اولیاء کے اعتبار سے کی ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام کے اعتبار سے۔ گو آپ کی نوارنیت دوسرے اعتبار سے زیادہ ہو یہ اور بات ہے۔ (کلید)
84
غیر راہِ ایں ہوا و شش جہَتدرمیانِ روزن و خور مالفت
ترجمہ: اس ہوا اور جہات ستہ کے راستے کے سوا (کسی اور ہی معنوی راستے) سے مذکورہ دریچہ اور آفتاب میں الفت (ہے)۔
85
مدحت و تسبیحِ او تسبیحِ حقمیوہ میروید ز عینِ ایں طبق
ترجمہ: آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کے کمالات کا اثبات اور نقائص کی نفی (عین) حق تعالیٰ کی تسبیح ہے (آپ کی مثال ایسی ہے جیسے گویا) عین اس طبق سے میوہ پیدا ہوتا ہے۔
مطلب: رسول الله صلّی اللہ علیہ وسلّم کا نقائص و عیوب سے پاک و مبرّا اور "کَرِیْمُ السَّجَایَا جَمِیْلُ الشِّیَمْ" ہونا مسلّم ہے۔ جیسے کہ مروی ہے کہ: "لَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَاحِشًا وَّ لَا مُتَفَحِّشًا ، وَّ لَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ" (الشمائل المحمّدية) و غیر ذلک مما لا یُحصٰی۔ اور آپ کی مدح و تقدیسں حق تعالیٰ کی عینِ تسبیح اس لیے ہے کہ آپ کا استفاده حق تعالیٰ سے بلاواسطہ ہے۔ یعنی آپ سب سے زیادہ حق تعالیٰ کے مقرّب ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی مدح و ستائش کی جائے فی الحقیقۃ وہ اس ذاتِ مُفیض الجُود کی مدح ہو گی جس کے اِفاضہ نے آپ کو کمالات مُوجبۂ مدح بخشے ہیں۔ خصوصًا جبکہ اس افاضہ کرنے والے اور افاضہ پانے والے میں کوئی واسطہ بھی نہیں، کہ اس صورت میں وہ مدح اس واسطہ یعنی مُفيض ثانی کے واسطہ سے حق کی مدح ہوتی۔ بخلاف دوسرے اہلِ کمال کی مدح کے کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم ان کے لیے واسطۂ فیض ہیں تو ان کی مدح آپ کے واسطہ سے مدح ہوتی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں آپ کے اسی استفاده از حق کے بلا واسطۂ خلق ہونے کی ایک مثال پیشں فرمائی ہے۔ یعنی ٹوکروں میں جو پھل پھلواری ہوتی ہے تو وہ درخت کے واسطہ سے آتی ہے۔ یعنی پہلے وہ پھل فروٹ درخت پر پیدا ہوتے ہیں پھر ٹوکرے میں آتے ہیں۔ مگر یہاں درخت کا واسطہ ہے ہی نہیں، جب کہ یہ پھل میوے گویا ٹوکرے ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ فافھم۔ آگے اسی تمثیل کی توضیح ہے:
86
سیب رویَد زیں طبق خوش لخت لختعیب نبود گر نہی نامش درخت
ترجمہ: (مثلاً) اس طبق سے سیب خوب خوب بار بار پیدا ہوتا ہے (تو اس صورت میں) اگر اس (طبق) کا نام درخت رکھ دو تو بے جا نہ ہو گا (کیونکہ اس میں درختوں کی خاصیّت پیدا ہو گئی)۔
87
ایں سبد را تو درختِ سیب خواںکہ ميانِ ہر دو ره آمد نہاں
ترجمہ: اس ٹوکرے کو تم سیب کا درخت کہو کیونکہ (دونوں جگہ) دونوں کے درمیان کوئی مخفی راستہ ہے۔
مطلب :جس طرح درخت اور قوّتِ انباتِ ارض کے درمیان ایک مخفی راہ ہے۔ یعنی اس قوّت سے سیب کی تکوین ہوتی ہے اور اس راہ سے وہ درخت کی شاخ پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹوکرے کو اس قوّت سے بھی یہ ناپیدا راستہ باہم متصل کرتا ہے۔ پس میانِ ہر دو کا مطلب یہ ہوا کہ درخت اور ٹوکرے دونوں کو یکساں طور پر ایک مخفی راستہ انباتیہ ارض کے ساتھ متصل کر رہا ہے۔ ایک شارح صاحب کی عبارت سے جو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ "میانِ ہر دو" سے مراد سبد اور درخت ہیں کہ انہی دونوں کے درمیان راستہ ہے جس کے ذریعہ میوه درخت سے ٹوکرے میں آیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ پھل کی توقّع درخت سے بالذات اور ٹوکرے سے بالغرض ہے۔ لِاتِّصَالِہٖ بِالشَّجَرَةِ كَمَا ذُُکِرَ فِیْ "ایں سبد را" فِیْ قَوْلِهٖ "کہ میانِ ہر دو راه آمد" یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس سے ٹوکرے کے لیے درخت کا واسطہ ہونا لازم آیا۔ اور یہ مولانا کے اس قولِ سابق کی تردید ہو گئی کہ "میوہ میروید زعینِ ایں طبق"۔ ہمارے اختیار کردہ مطلب کی توجیہ یہ ہے کہ جس طرح قوّتِ انباتِ ارض کا افاضہ درخت کے لیے متعارف و مسلّم ہے، اور ٹوکرے کے لیے خلافِ عادت و غیر متعارف۔ اسی طرح فیضانِ قدسی کی توجہ ملائکۂ مقربین کی طرف عقائد و مزعوماتِ عامہ کے مطابق ہے۔ اور ایک انسان پر اس فیضان کا نزول ملائکہ کے توسط کے بدوں ذوقِ عامہ کے نزدیک مستغرب ہے۔ اسی لیے کفارِ عرب رسول الله صلّی اللہ علیہ و سلّم کی زبانِ مبارک سے رسالت کا دعوٰی سن کر کہتے تھے: ﴿لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 8) ”اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا “' اور کہتے تھے ﴿لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا﴾ (الفرقان: 7) ”اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا گیا جو اس کے ساتھ ہو کر (لوگوں کو عذاب الہی سے) ڈراتا“ ان کا مقصود یہ تھا کہ خدا کے قاصد و رسول فرشتے ہی ہوسکتے ہیں انسان نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ خدا کے قاصد ہیں تو چاہیے تھا کہ کوئی فرشتہ آ کر ان کی تصدیق کرتا پھر ہم ان کو نبی مان لیتے۔ غرض یہ لوگ انسان کے لیے قربِ حق کو بعید سمجھنے کی بنا پر اسے محتاجِ تصدیق سمجھتے تھے۔ اور فرشتے کو خاص مقربِ حق سمجھنے کی وجہ سے تصدیق کو فیصلہ کن جانتے تھے اور اسی لیے رسول الله صلّی اللہ علیہ و سلّم نے یہ دعا کی تھی: "اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَومِیْ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ" (شعب الإيمان) یعنی ”الٰہی میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ میرے درجہ و منصب کو نہیں جانتے۔“ یعنی ان کو میرے مقرّّبِ حق ہونے پر یقین نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم حق تعالیٰ سے استفادہ کرنے میں اس قدر اقرب ہیں کہ اس میں کسی فرشتہ اور کسی مُرسَل کا دخل نہیں۔ "لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِيْهِ مَلَكٌ مُّقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ"(گلستان سعدی) اور عام لوگ خصوصًا کفار و منکرین آپ کا ملائکہ کے توسط کے بدون اس درجہ پر فائز ہونا اسی طرح بعید سمجھتے ہیں جس طرح ایک ٹوکرے کے اندر درخت کے توسّل کے بدوں میوہ جات کا پیدا ہو جانا۔ حالانکہ جس طرح یہ امر خدا کی قدرت کے لیے سہل ہے اسی طرح یہ اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ اس نے آپ کو کسی مخلوق کے واسطہ کے بغیر اپنا خاص الخاص قرب بخش دیا۔ ہماری اس توجیہ کی تقدیر پر فیضِ قدسی کو تشبیہ دی گئی ہے زمین کی قوّتِ نبات سے اور ملائکۂ مقرّبین کو درخت سے، اور قوّتِ نبوی صلّی اللہ علیہ و سلّم کو "سبد بر فواکہ" سے۔ فافہم۔ آگے بھی اسی کی تائید ہے:
88
آنچہ روید از درختِ بارورزیں سبد روید ہماں نوع از ثمر
ترجمہ: جو کچھ میوہ دار درخت سے پیدا ہوتا ہے اسی قسم کا پھل اس ٹوکرے سے پیدا ہوتا ہے (اس میں بھی ہماری توجیہ کی تائید ہے۔ یعنی درخت و سبد کے باہم تعلق کی نفی مفہوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دونوں کے لیے الگ الگ بلا اشتراک روئیدن کا اثبات کیا ہے)۔
89
پس سبد را تو درختِ بخت بیںزیرِ سایۂ ایں سبد خوش مے نشیں
ترجمہ: (جب یہ بات ہے) تو ٹوکرے کو ایک درخت بانصیب دیکھو (اور) اس ٹوکرے کے زیرِ سایہ بخوشی بیٹھا کرو (جس طرح درخت کے نیچے اس توقع پر بیٹھتے ہو کہ کوئی پھل ہاتھ آئے گا یہی تو قع اس ٹوکرے سے رکھو)۔
90
ناں چو اطلاق آورد اے مہرباں!ناں چرا مے خوانیش محمودہ خواں
ترجمہ: (اس سبد کو درخت کہنا ایسی ہی صحیح ہے جیسے مثلاً) روٹی جب اسہال جاری کر دے تو (تو اس کو دوائے مسہل کہنا صحیح ہو گا) اے مہربان اس کو روٹی کیوں کہتے ہو۔ سقمونیا کہو۔
مطلب: روٹی کا فعل غذا بننا ہے نہ کہ اسہال جاری کرنا۔ یہ فعل سقمونیا، مصبر، سنا، حبّ السلاطين وغیرہ اشیائے مُسہلہ کا ہے۔ لیکن جب روٹی اسہال جاری کرنے لگے تو پھر اس میں اشیائے مُسہلہ کی خاصیت آ گئی۔ اب اس کو روٹی کہنا صحیح نہیں مُسہل کہو۔ اسی طرح جب ٹوکرے میں درخت کی خاصیّت آجائے تو اس کو ٹوکرا نہیں بلکہ درخت کہو۔ اسی قسم کی مثال آگے ہے:
91
خاکِ ره چوں چشم روشن کرد و جاںخاکِ او را سُرمہ بینی و سُرمہ داں
ترجمہ: (بالفرض) راستے کی خاک نے جب آنکھ اور جان کو روشن کر دیا تو اس کی خاک کو سرمہ دیکھو اور سرمہ سمجھو۔ کما قیل ؎
آرزو دارم کہ خاکِ آں قدمطوطیائے چشم سازم دمبدم
92
چُوں از روئے ایں زمیں تابد شروقمن چرا بالا کنم رو در عیوق
ترجمہ: جب سطحِ زمین سے طلوعِ آفتاب کی (روشنی) درخشاں ہو تو میں (روشنی کی طلب میں) عیوق کی طرف کیوں منُہ اٹھاؤں۔
مطلب: جب اجرامِ علویہ کا خاصہ اجرامِ سفلیہ میں ظاہر ہونے لگے تو انہی کو حکماً اجرامِ علویہ سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ اعتبار خاصہ کا ہے۔ اس خاصہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے اب اجرامِ علویہ کو واسطہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جب رسول الله صلّی اللہ علیہ و سلّم بلا واسطہ مقرّبِ حق اور متخلّق باخلاق الله ہیں تو آپ کے ساتھ بعض امور میں معاملہ مثلِ حق تعالیٰ کے کیا جائے گا۔
93
شد فنا ہستش مخواں اے چشمِ شوخدر چنیں جُو خشک کے ماند کلُوخ
ترجمہ: آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم (صفاتِ حق میں) فنا ہو گئے (اب) آپ کو موجود (بوجودِ مغایر) مت کہو اے شوخ چشم! (جو آپ کو مباین سمجھنے کی جرأت کرتا ہے۔ بھلا) ایسی ندی میں کلوخ کب خشک رہ سکتا ہے۔
مطلب: آپ کو حق سے مغایر سمجھنا اس مغایرت کے ساتھ جو غیبتِ مصطلحہ کی مقابل ہے، بمنزلہ گستاخی ہے۔ کیونکہ آپ کی روح میں اور آپ کے جسمِ اطہر کی طین تک میں تخلّقِ حق اس طرح جاری ہے جس طرح ندی میں ایک کلوخ فنا فی الماء ہو جاتا ہے۔ آگے اور مثال ہے:
94
پیشِ ایں خورشید کے تابد ہلال؟با چناں رستم چہ باشد زورِ زال؟
ترجمہ: اس آفتاب کے سامنے ہلال کب چمک سکتا ہے۔ ایسے رستم کے آگے زال کا زور کیا ہے۔ (ایسی تجلّیِ واجب کے آگے آپ کی ہستی کیوں فنا نہ ہوتی)۔
مطلب:۔ گو یہ فنا وجودِ واجب کے سامنے تمام ممکنات کو عام ہے مگر یہاں مطلق تجلی مراد نہیں بلکہ وہ تجلی مراد ہے جس سے تخلّق باخلاق اللہ اور غلبۂ حال بھی ہو جائے۔ سو یہ خاص ہے خواص کے ساتھ خصوصاً حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کے ساتھ باعتبار اس کے درجۂ عظم کے (کلید) یہاں تک حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کے متعلق بیان تھا۔ آگے پھر سب خواص کے متعلق عام مضمون ہے۔ اور چونکہ اہلِ ظاہر اس فنائے مذکور کو مستبعد سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا سوال ہے کہ ظاهراً فانی فی الحق کے ہوش و حواس بجا رہتے ہیں پھر فنا کیا چیز ہوئی؟ آگے اس استبعاد کو دفع کرتے ہیں:
95
طالب ست و غالب ست آں کردگارتاز ہستی ہا برآرد او دمار
ترجمہ: وہ کردگار (بندے کی فنائے ہستی کا) طالب اور (اس پر) غالب (و قادر بھی) ہے تاکہ (تمام) ہستیوں کو ہلاک (و فنا) کر ڈالے۔
مطلب: پس جب حق تعالیٰ کو اس فنا و ہلاک کی قدرت بھی ہے اور اسے وہ مطلوب بھی، اور اس کے ارادہ سے اس کی مراد کا تخلّف محال ہے، تو لا محالہ یہ فنا واقع ہو چکی۔ گو بقائے ہوش و حواس کے ساتھ اس کا وقوع عجیب نظر آتا ہے، لیکن حق تعالیٰ ایجادِ عجائب پر بھی قادر ہے۔ اور گو فنا کی ایک قسم جو کہ فناءِ اخلاق ہے وہ محسوس بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جو حال عطا ہوتا ہے، یعنی اس تخّلق سے ایک خاص بے کیف تعلقِ حق جو ذوقی ہونے کی وجہ سے دور سے لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا۔ (کلید)
96
دو مگو و دو مخواں و دو مداںبنده را در خواجۂ خود محو داں
ترجمہ: (بس) تم (فانی فی الحق اور حق کو) دو مت کہو اور دو مت پکارو اور دو مت سمجھو (بلکہ) غلام کو اپنے آقا میں محو جانو (یہاں غلام سے مرید اور آقا سے مرشد مراد ہے کیونکہ ایک مریدِ رشید متخلّق باخلاقِ شیخ ہوتا ہے)۔
97
خواجہ ہم در نورِ خواجہ آفریںفانی ست و مُرده و مات و دفیں
ترجمہ: (اور یہ) خواجہ (یعنی مرشد) بھی خواجہ کے پیدا کرنے والے تعالیٰ شانہٗ کے نور میں فانی ہے اور بے جان ہے اور میت ہے اور مدفون ہے۔
98
چُوں جُدا بینی ز حق ایں خواجہ راگم کُنی ہم متن و ہم دیباجہ را
ترجمہ: اگر تم اس خواجہ کو حق سے جدا سمجھو گے تو اصل مقصود کو بھی اور تمہید کو بھی (دونوں کو) کھو بیٹھو گے۔
مطلب: جب آغاز و تمہید ہی میں غلطی ہوئی تو مقصود تک کیونکر پہنچے گا اور یہ غلطی تمہید میں اس طرح ہو گی کہ مرشد کو ناقص سمجھے گا، کیونکہ کمال کے لیے تخلّق باخلاقِ الٰہیہ لازم ہے۔ جب تخلّق کا معتقد نہ ہوا تو کمال کا معتقد نہ ہوا، پھر اتباع و استفاضہ کیونکر ہو گا۔ اس لیے تخلّق کا اعتقاد ضروری ہے اور یہی فنا عینیتِ مصطلحہ ہے، جو مقصدِ مقام ہے۔ (کلید)
99
چشمِ دِل را ہیں گذارہ کُن ز طِیںایں یکے قبلہ ست دو قبلہ مبیں
ترجمہ: تم دِل کی آنکھ کو (مرشد کے اوصافِ بشریہ کی) مٹی سے متجاوز کرو اور یہ سمجھو کہ قبلہ ایک ہی ہے دو قبلے مت دیکھو (حق اور فانی فی الحق کو جدا، جدا نہ سمجھو۔ کہ قبلۂ توجّہ ایک ہی ہے۔ یعنی قبلۂ توجّہ حق، اور فانی فی الحق اس قبلہ کا مظہر اتمّ ہے۔)
100
چُوں دو دِیدی ماندی از ہر دو طرفآتشے در خَف فتاد و رفت خَف
ترجمہ: اگر تم نے دو دیکھے تو دونوں کی طرف سے (محروم) رہ گئے (جس کی مثال ایسی ہو گی جیسے) آگ (چقماق سے) سوختہ میں لگ گئی اور پھر سوختہ (جل بجھ کر) ناپید ہو گیا۔
مطلب: دو مقصودوں کی طرف توجہ کامیابی نہیں بخشتی کیونکہ ہر ایک مقصود دوسرے کا حاجب ہو جاتا ہے۔ جس کی مثال ایسی ہو گی جیسے چقماق سے سوختہ میں آگ لگے تو آگ کے شائق کی نظر میں دو مقصود ہوں گے۔ ایک معدنِ آتش یعنی چقماق دوسرا محلِ آتش یعنی سوختہ۔ مگر وہ پہلے سوختہ کی طرف متوجہ ہو جائے جہاں سے آگ نکلی تھی حالانکہ بلا تحریک وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پھر سوختہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس میں جو آگ تھی وہ اس شخص کے چقماق کی دیکھ بھال کرتے وقت وہ بھی بجھ گئی۔ وہی مثل ہوئی کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنمنہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
آگے اس دو بینی کی مضرّت کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے: