دفتر 6 حکایت 102: دوبنیی کے مرتکب کی مثال شہرِ کاش کے اس مسافر کی سی ہے جس کا نام عمر تھا، کہ نانبائی نے اس نام کی وجہ سے اس کو دوسری دکان پر بھیج دیا، اور اس نے یہ نہ سمجھا کہ سب دکانیں ایک ہی ہیں

دفتر ششم: حکایت: 102



مثلِ دوبیں ہمچو آں غریبِ شہرِ کاش ست کہ عمر نام داشت، کہ خبّاز بہ سببِ ایں نامش بدُکانِ دیگر حوالہ کرد، و او فہم نکرد کہ ہمہ دکانہا یکے ست

دوبنیی کے مرتکب کی مثال شہرِ کاش کے اس مسافر کی سی ہے جس کا نام عمر تھا، کہ نانبائی نے اس نام کی وجہ سے اس کو دوسری دکان پر بھیج دیا، اور اس نے یہ نہ سمجھا کہ سب دکانیں ایک ہی ہیں

مطلب: شہرِ کاش یا کاشان کی آبادی ساری کی ساری روافض پر مشتمل ہے، اور روافض کی عداوت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ناموں کے ساتھ مسلّم ہے وہ علی رضی اللہ عنہ کے نام پر فدا ہیں۔ ایک نادان مسافر جس کا نام عمر تھا اس شہر میں جا پہنچا۔ نانبائی نے پوچھا کہ نام کیا ہے؟ وہ بولا عمر۔ نانبائی یہ نام سن کر جل بھن کر رہ گیا، اس کو ٹالنے کے لیے کہا جاؤ دوسری دکان سے خریدو۔ یہی قصہّ دوسری دکان پر پیش آیا، یہی تیسری پر حتٰی کہ اس کو کسی دکان سے روٹی نہ ملی، بھوکے کا بھوکا رہا۔ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ وہ بے وقوف دو بینی تھا جبھی تو بھوکا مرا۔ اگر ایک بیں ہوتا تو سارے دکانداروں کو بغضِ عمر اور حبِّ علی کے جنوں میں یکساں سمجھتا اور حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو متّحد سمجھتا۔ پھر یا تو روٹی کی طلب میں دوسری دکان پر ہی نہ جاتا یا اپنا نام تبرّکاً "علی" بتا کر روٹی حاصل کر لیتا۔ کیونکہ علی و عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی نور کے پرتو ہیں، جداگانہ نہیں۔ اس خلاصۂ حکایت سے اب اشعار کا لفظی بانکپن اور معنوی پیچیدگی مخلِّ مطلب نہ ہو گی۔

1

گر ز عمر نامی تو اندر شہرِ کاش کس نبفروشد بصد دانگت لواش

ترجمہ: اگر تو عمر نام کا شخص ہے تو شہر کاش میں کوئی (دکاندار) تیرے ہاتھ سو دانگ کو بھی روٹی فروخت نہ کرے گا۔

2

چُوں بیک دُکّاں بگفتے عُمّرم  ایں عمر را ناں فروشید از کرم

ترجمہ: جب وہ ایک دکان پر کہتا کہ میں عمر ہوں، براہِ مہربانی اس عمر کے ہاتھ روٹی فروخت کرو۔

3

او بگوید رَو بداں دیگر دکاں زاں یکے ناں بہ ازیں پنجاه ناں

ترجمہ: تو وہ (دکاندار) کہتا ہے جا اس دوسری دکان پر (سے خرید لے) اس کی ایک روٹی یہاں کی پچاس روٹیوں سے بہتر ہے۔

4

گر نبودے اَحْوَل اُو اندر نظر او بگفتے نیست دُکّانِ دگر

ترجمہ: اگر وہ (مسافر) نظر میں اَحْوَل (اور غلط بِین) نہ ہوتا تو وہ (اپنے دل میں) کہتا کہ یہاں کوئی جُداگانہ دکان تو ہے نہیں (سب دکاندار ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں)۔

5

بس زدے اشراقِ آں نا احولی بر دلِ كاشی شدے عمّر على

ترجمہ: تو بس اس نا احولی کا نور کاش کے دل پر اثر کرتا (اور یہ) عمر (نامی) اس کی نظر میں (مسمّٰی بہ) علی بن جاتا۔

مطلب: مولانا بحر العلوم ان دونوں شعروں کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں کہ اگر یہ روٹی کا خریدار احول نہ ہوتا اور حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ اور جناب امیر المومنین علی رضی الله عنہ کو ایک جانتا اور تسمیہ بنامِ عمر و علی موجبِ برکت سمجھتا، تو اس کاشی کے دل سے بھی احولی دور ہو جاتی، اور جناب امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ اس کے دل میں عین علی بن جاتے اور دونوں کے ساتھ یکساں محبت پیدا ہو جاتی۔ یعنی اس روٹی خریدنے والے کے دل سے احولی کا اٹھ جانا نان فروش کے دل پر عکس ڈالتا تو اس کی احولی بھی زائل ہو جاتی، اور ممکن ہے کہ روٹی کا خریدار کوئی متعصّب و بد عقیده ہو جو علی نام رکھنا حقیر سمجھتا ہو اور جنابِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پورا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کامل اعتقاد کا مدّعی ہو۔ پس مولانا فرماتے ہیں کہ اگر یہ احولی اس کے دل میں نہ ہوتی اور جناب امیر رضی الله عنہ کے ساتھ کامل اعتقاد رکھتا تو اس کے قلب کا نور کاشی کے دل پر بھی پرتو افگن ہو جاتا اور وہ بھی احولی سے خلاصی پاتا اور وہ دونوں حضرات کا معتقد ہو جاتا۔ (انتہٰی)

6

ایں ازیں جا گوید آں خبّاز را ایں عمر را ناں فروش اَے نانبا

ترجمہ: (مگر حال یہ ہوا کہ جب یہ خریدار دوسری دکان پر جانے لگتا ہے تو) یہ دکاندار اسی جگہ سے اس (دوسرے) نانبائی کو (پکار کر) کہتا ہے اے نانبائی اس عمر کو روٹی بعوضِ قیمت دے دے۔ (عمر کا نام بتانے سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی روٹی دینے سے انکار کر دے)۔

7

چوں شنید او ہم عمر از احولی در کشید آں ناں کہ ہست آنِ علی

ترجمہ: (چنانچہ) اس نے بھی جب عمر (کا نام) سنا تو احولی کے سبب سے (جو عمر و علی رضی الله عنہ میں فرق کرنے کی باعث تھی) وہ روٹی ہٹا لی (اس خیال سے) کہ وہ علی (نام والے) کا حق ہے۔

انتباہ: اس شعر میں مولانا نے ان دوکانداروں کے لیے بھی احولی کا حکم کیا کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو جُدا جُدا سمجھ کر ایک سے بغض اور دوسرے سے محبت رکھتے تھے، جو سبب ہوا اس نام والے کو روٹی نہ دینے کا اور دوسرے نام والے کو روٹی دینے کا۔ اور اوپر مسافر کے لیے احولی کا حکم کیا ہے۔ تو اس بنا پر حکایت کا مقصود یہ ہے کہ ترتّبِ ضرر دو بینی پر دو طرح ثابت ہوا۔ ایک یہ کہ وہ مشتری امرِ دنیاوی کی حقیقت میں احول تھا، اس کو دنیا کا ضرر ہوا۔ پس جس مرتبہ کی احولی ہو گی اس مرتبہ كا ضرر ہو گا۔ اس کے بعد ہمارے زمانہ کے احولوں میں کسی احول کو اس کی گنجائش نہیں رہی کہ مولانا پر تشیّع کا شبہ کرے کہ دیکھو اس حکایت میں نعوذ باللہ حضرت عمر کی توہین کا حکم لازم آتا ہے۔ اول تو یہ مثال ہے جس کو ممثّل لہ کے ساتھ من وجہٍ اشتراک ہوتا ہے نہ کہ من کل الوجوہ، اور وہ وجہِ مشترک یہاں حرمان ہے ایک نفعِ دنیا سے جو کہ کوئی موجب ذم نہیں۔ گو ممثّل لہٗ میں جو حرماں ہے یعنی دین کے امورِ نافعہ سے احولی وہ موجبِ ذم ہے۔ دوسرے یہ کہ مثال میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے اس نام کے ایک مسافر کا ذکر ہے۔ تیسرے یہ کہ اگر ایسا ہی استدلال ہے تو اس سے بڑھ کر محبّانِ علی کو یہاں مولانا نے احول کہا ہے، تو ایک خارجی کہہ سکتا ہے کہ نعوذ باللہ مولانا خارجی تھے۔ اسی لیے شیعوں کے بے حد مخالف تھے اور واقع میں وہ نہ شیعی ہیں نہ خارجی، ہماری طرح سنّی ہیں۔ یہ تو الزامی جواب تھا شبہِ تشیّع کا، اور تحقیقی جواب یہ ہے کہ اوّل ہی دفتر میں حکایتِ کینزک کے ضمن میں بادشاہ کا خطاب طبيبِ شاہی کو اس طرح نقل کیا ہے ؎

اے مرا تو مصطفٰے من چوں عمر الخ

اور اس دفترِ سادس میں شیطانِ حلب کی تعمیق فرمائی ہے اور نیز اسی دفتر میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کس قدر فضائل قصّۂ اشتراءِ بلال میں ذکر کیے، اور دفترِ چہارم میں خلفاءِ ثلثہ کی مدح منبر نشینی کے قصہ میں ارشاد فرمائی ہے۔ ؎

منبرِ مہتر کہ سہ پایہ بُدست رفت ابوبکرؓ و دوم پایہ نشت

واں سوم پایہ عمر در دورِ خویش از برائے حرمتِ اسلام و کیش

دورِ عثمان آمد و بالائے تخت بر شد و بہ نشست آں مسعود بخت

تو ان تصریحات کے بعد اس شبہ کی کیا گنجایش رہی۔ لیکن شاید تقیّہ کی پناہ لینا چاہیں تو خداوند تعالیٰ ہزاروں درجاتِ عالیہ بڑھا دے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے انہوں نے ہمیشہ کے لیے اسی پناہ کی بنیاد اکھاڑ ڈالی ہے۔ (کلید مثنوی)

8

پس فرستادش بدکّانِ بعيد چُوں شنید او ہم عمر، ناں در کشید

9

کیں عمر را نان دہ اے انبازِ من راز یعنی فہم کُن ز آوازِ من

ترجمہ: پھر اس (دوسر ے دکاندار) نے بھی جونہی عمر (نام) سنا، روٹی واپس  کھینچ لی اور اس (مسافر) کو ایک اور دور کی (تیسری) دکان پر بھیجا۔  (اور آواز لگائی) کہ اے میرے ہم پیشہ (نانبائی) اس عمر (نامی شخص) کو روٹی دے۔ یعنی میری اس آواز سے (اس شخص کے مستحقِ نان نہ ہونے کا) راز سمجھ لے۔ (اس کا نام عمر بتا کر جو روٹی کی سفارش کی تھی تو اس کا نام لینے میں اس کے مستحقِ نان نہ ہونے کا راز مضمر تھا۔ آگے اس فصل کے سب سے پہلے شعر کی طرف عود ہے جو بطورِ اجمال قبل تفصیل کہا تھا):

10

او ہَمت زاں سُو حوالہ مے کند ہِیں عمر آمد کہ تا بر ناں زند

ترجمہ: (الغرض اگر تم بھی شہر کاش میں مسمی بعمر ہو کر جاؤ اور کسی نانبائی سے نان طلب کرو تو) وہ تم کو بھی اس طرف سے (جہاں تم کو روٹی سے جواب مل چکا ہے یہ کہہ کر آگے) حوالہ کر دے گا کہ دیکھ عمر آ رہا ہے تاکہ روٹی حاصل کرے (اس کو دینا مت)۔

11

چوں بیک دُکّاں عمر بودی برو در ہمہ کاشاں ز ناں محرُوم شو

ترجمہ: (فی الجملہ) جب تم ایک دکان پر عمر ہو چکے تو جاؤ سارے (شہر) کاشاں میں (پھر پھرا کر بھی) روٹی سے محروم رہو (گے)۔

12

ور بیک دُکّاں علی گفتی بگیر ناں ازینجا بے حوالہ بے زحیر

ترجمہ: اور اگر ایک دکان پر (اپنا نام) علی بتا دو تو اسی جگہ سے بدوں (دوسری جگہ) حوالہ (کرنے) کے (اور) بدوں تکلیف کے روٹی لے لو۔

13

احوالِ دوبیں چو بے بر شد ز نوش  اَحْولِ صد بینی اَے مادر فروش

ترجمہ: جب احول دو بین شہد (مقصد) سے محروم رہ گیا تو (تارک الاصل) تُو (جو) صد بین ہے (کیوں محروم نہ رہے گا)۔

مطلب: جب اشیائے قلیلہ کے مابین تغائر سمجھنے میں یہ ضرر ہے تو اشیائے کثیرہ کے مابین تغایر سمجھنے میں، جس میں تم مبتلا ہو، کہ عمومًا کائنات لا تحصٰی کو موجوداتِ مستقلہ سمجھ رہے ہو اور باوجود ان کے ظلّ ہونے کے خصوصًا خاص متخلّقین باخلاقِ الٰہیہ کو غیر بمعنی الاصطلاحی سمجھ رہے ہو، تم کو کس قدر ضرر و حرمان ہو گا۔ اور وہ ضرر و حرمان یہ ہے:

14

اندریں کاشانِ دنیا ز احولی چُوں عُمر مے گرد چوں نبوی علی

ترجمہ: تم اس کاشانِ دنیا میں (اس) احولی کے سبب سے اس (مسمّٰی بہ) عمر کی طرح (محروم) پھرتے (رہو جب کہ تم (مسمّٰی بہ) علی نہیں ہو۔

مطلب: یہ کنایہ ہے بقاءِ احولی سے کیونکہ اس مسافر کی محرومی اس کے نام پر جمے رہنے کا سبب ہوئی۔ مطلب یہ کہ غلط بینی کے سبب سے دنیا میں مقصودِ حقیقی سے محروم رہو گے اور یہاں کے اس حرمان کو آخرت کا حرمان لازم ہے۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ﴿وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرائیل: 72) (کلید)

15

ہست اَحَول را دریں ویرانہ وَیر گوشہ گوشہ نَقلِ نو کہ ثَمَّ خَیْر

ترجمہ: (حاصل یہ کہ) احول کو (دنیا کے اس ویرانہ بت کدہ کے اندر گوشہ گوشہ نئی (سے نئی) نقل (و حرکت) کی جگہ ہے (اس خیال سے کہ) وہاں (یہاں سے) بہتری ہے (واحدِ حقیقی کو مقصود نہ سمجھنے سے قبلۂ توجہ بدلتا رہتا ہے)۔

16

ور دو چشمِ حق شناس آمد ترا دوست پُر بِیں عرصۂ ہر دو سَرا

ترجمہ: اور اگر تم کو حق شناس آنکھ مل جائے تو دونوں جہانوں کے میدان کو محبُوب سے پُر دیکھ لو۔

17

وا رہیدی از حوالہ جا بجا اندریں کاشانِ پُرخوف و رجا

ترجمہ: (پھر) تم اس کاشان (دنیا) میں جا بجا کے حوالے سے چھوٹ جاتے جو(عالمِ ابتلا ہونے کی وجہ سے) پُر خوف و رجا ہے (ان اشعار میں اجزائے عالم کے مظاہرِ حق ہونے کا مضمون تھا۔ آگے متخلّقین باخلاق اللہ کے مظہرِ خاص ہونے کا مضمون ہے):

18

اندریں جُو غنچہ دیدی با شجر ہمچو ہر جُو تو خیالش ظن مبَر

ترجمہ: اس نہر میں (جب) تم نے غنچہ مع درخت کے دیکھ لیا تو اس کو اور ندیوں کی طرح (محض) خیال (اور عکس) گمان مت کرو (یہ مضمون پہلے بھی پُر زور پیرایہ میں گزر چکا ہے)۔

19

کہ ترا از عینِ عکسِ ایں نقوش حق حقیقت گردد و میوہ فروش

ترجمہ: (تا) کہ (عکس نہ سمجھنے سے) ان نقوش (وجوداتِ اہل اللہ) کے عینِ عکس (مزعوم) سے حضرتِ حق (کے درجہ) میں (ثابت ہوجائے) اور میوہ دینے والا ثابت ہوجائے (یعنیِ تم پر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ عکسِ حق نہیں بلکہ حقیقتِ حق ہے)۔

20

چشم ازیں آب از حِوَل حُر می شود عکس مے بیند سبد پُر می شود

ترجمہ: اس (ندی کے) پانی سے آنکھ احولی سے آزاد ہو جاتی ہے اور یہ شخص (بادی النظر میں) عکس دیکھتا ہے (لیکن اس سے) ٹوکرا پُر ہو جاتا ہے۔

21

پس بہ معنے باغ باشد ایں نہ آب پس مشو عُریاں چو بلقیس از حباب

ترجمہ: پس فی الحقیقت یہ (نہر) باغ ہے نہ کہ پانی (جس میں محض عکس ہوتا ہے) سو تم بلقیس کی طرح بلبلوں (کے گمان) سے برہنہ (ساق) نہ ہو (جس طرح بلقیس کو شیشے پر بھی گمان ہوا تھا کہ یہ پانی ہے۔ اور پنڈلیوں سے کپڑا سمیٹ کر اس میں اترنے لگیں۔ ﴿حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا (النمل: 44)

22

بارِ گونا گونست بر پُشتِ خراں ہِیں بیک چوب ایں خراں را تو مراں

ترجمہ: گدھوں کی پیٹھ پر طرح طرح کے اسباب (لدے) ہیں، ایک ہی لکڑی سے سب گدھوں کو مت ہانکو (یعنی عوام و خواص میں فرق و تمیز کرو۔)

23

بر یکے خر بارِ لعل و گوہر ست  بر یکے خر بارِ سنگ و مرمر ست

ترجمہ: ایک گدھے پر لعل و گوہر کا بوجھ ہے ایک گدھے پر پتھر اور مرمر کا بار ہے۔

24

بر ہمہ جُوہا تو ایں حُکْمَت مَراں و اندریں جُو ماہ بِیں عکسش مخواں

ترجمہ: بس اسی طرح تم ان سب ندیوں پر اپنا حکم جاری نہ کرو (کہ ان سب میں چاند کا عکس ہے) اور اس (خاص) ندی میں (جس کا ذکر ابھی ہوا ہے خود) چاند دیکھ لو (اور) اس کو عکس نہ کہو۔

25

آبِ خضر ست ایں نہ آبِ دام و دَد ہرچہ اندر وے نماید حق بود

ترجمہ: (اس ندی کا پانی) حضرت خضر کا آب (حیات) ہے، نہ کہ چرندہ درندہ (جانوروں کے پینے) کا پانی۔ جو کچھ اس (پانی) میں نظر آتا ہے وہ واقعی ہے (عکس نہیں)۔

26

زیں تگِ جُو ماہ گوید من مَہم من نہ عکسم ہم حدیث وہمرہم

ترجمہ: اس قعرِ نہر سے چاند کہہ رہا ہے کہ میں چاند ہوں، عکس نہیں ہوں (بلکہ) ہم سخن اور ہمراہ ہوں۔

27

اندریں جُو آنچہ بر بالا ست ہست خواہ بالا خواه در وَے دار دست

ترجمہ: اس ندی میں جو اوپر ہے وہی (اندر) ہے (اب) خواہ تم اوپر یا اس (ندی) کے اندر (نظر آنے والے پر) ہاتھ بڑھاؤ (جو کچھ اوپر سے ملے گا وہی اس کے اندر سے ملے گا یعنی حق تعالیٰ کا فیض بلاواسطہ اور بواسطہ مرشد یکساں ہے)۔

28

از دگر جُوہا نگیر ایں جُوے را ماه داں ایں پرتوِ مہروئے را

ترجمہ: اس نہر کو دوسری نہروں پر قیاس نہ کرو اس عکسِ ماہ کو مہتاب (ہی) سمجھو (یعنی جس کو تم عکس سمجھے بیٹھے ہو وہ ماہ ہے، عکسِ ماہ نہیں)۔

29

اندریں جُو ہر چہ داری تو مراد باز بیں و شکر گو بہرِ زیاد

ترجمہ: جو مراد تم رکھتے ہو اس نہر میں دیکھ لو اور زیادتی (مراد) کے لیے شکر کرو۔ ﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (ابراہیم: 7)

30

اندریں جُو ہرچہ میخواہی ببیں از نعیم و ناز و تاج و ملک و دیں

ترجمہ: جو کچھ تم چاہتے ہو اس ندی میں دیکھ لو (یعنی نعمتِ باطنی) اور خوشحالی (روحانی) اور تاج (عرفان) اور ملک (معنوی) اور دین (وغیرہ)۔

31

جملہ مطلوباتِ خلقِ ہر دو کَون گشت موجُود اندر و بے بُعد و بَون

ترجمہ: دونوں جہانوں کی تمام مخلوقات کے مطالبات اس میں موجود ہیں (جس میں کوئی) دوری اور فاصلہ نہیں۔

32

ایں سخن پایاں ندارد، آں غریب گریہ کرد از دردِ آں مردِ لبيب

ترجمہ: یہ مضمون (انسانِ کامل کی مظہریت کا، تو) بے پایاں ہے (اس کو ملتوی رکھ کر قصہ پورا کرو یعنی) اس مسافر نے اس مردِ عاقل (یعنی محتسب کی وفات) کے رنج سے بہت (نالہ و) زاری کی۔