دفتر 6 حکایت 103: ایک مددگار کا تمام شہر میں چندہ کرنا اور کچھ تھوڑی سی رقم جمع ہونا اور اس مسافر کا محتسب کی قبر پر زیارت کے لیے جانا اور اس قصہ کو اس کی قبر پر بطور نوحہ بیان کرنا

دفتر ششم: حکایت: 103



توزیع کردنِ پایمرد در جملہ شہر و جمع شدنِ اندک چیزے و رفتنِ آں غریب بتُربتِ مُُحتَسِب بزیارت و ایں قصہ را بر سرِ گورِ او بطریقِ نوحہ گرفتن

ایک مددگار کا تمام شہر میں چندہ کرنا اور کچھ تھوڑی سی رقم جمع ہونا اور اس مسافر کا محتسب کی قبر پر زیارت کے لیے جانا اور اس قصہ کو اس کی قبر پر بطور نوحہ بیان کرنا

1

واقعۂ آں وامِ او مشہور شد پایمرد از دردِ او رنجُور شُد

ترجمہ: (القصّہ) اس کے قرض کا واقعہ مشہور ہو گیا (ایک باہمت) مددگار اس کے درد سے متاثر ہوا۔

2

از پئے توزیع گردِ شہر گشت از طمع میگفت ہر جا سرگزشت

ترجمہ: وہ چندہ (جمع کرنے) کے لیے شہر کی اطراف میں پھرا (اور رقم کی) طمع سے ہر جگہ (اس کی) سرگزشت بیان کرتا تھا۔

3

ہیچ ناورد از رہِ گدیہ بدست غیر صد دینار آں گدیہ پرست

ترجمہ: (مگر) سوال کے ذریعہ وہ سائل سو دینار سے زیادہ وصول نہ کر سکا۔

4

پایمرد آمد بدو دستش گرفت شد بگورِ آں کریمِ بس شگفت

ترجمہ: (اس کے بعد وہ) مدد گار اس (مقروض) کے پاس آیا اس کا ہاتھ پکڑا (اور اس کو ہمراہ لے کر) اس سخی کی قبر پر جو عجیب (آدمی) تھا گیا۔

5

گفت چُوں توفیق یابد بندۂ کو کند مہمانیِ فرخندۂ

6

مالِ خود ایثارِ راہِ اُو کند جانِ خود ایثارِ جاہِ اُو کند

7

شُکرِ او شکرِ خدا باشد یقیں چُوں باحْساں کرد توفیقش قریں

ترجمہ: (اور رستے میں اس سے کہا) کہ جب کوئی بندہ (اللہ کی طرف سے) اس کی توفیق پائے کہ وہ کسی صاحبِ نصیب کی مہمانی کرے (اس طرح کہ) وہ اپنا مال اس کے حق میں خرچ کرے اور اپنی جان تک اس کی آن و آبرو کے لیے قربان کر دے، تو یقیناً اس کی شکر گزاری خدا کی شکر گزاری ہے۔ جب کہ (خدا کی) توفیق نے اس کو احسان کے ساتھ موصوف کر دیا۔

مطلب: پایمرد اس مقروض کو بتا رہا ہے کہ ہمارا اس محسن کی قبر پر جانا ضروری کیوں ہے، یعنی اس نے تم پر بڑا احسان کیا اور محسن کا شکریہ ادا کرنا ایک طرح خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ کیونکہ اس محسن کو احساس کی توفیق دی تو اس نے احسان کیا۔ آگے بھی یہی کہہ رہا ہے:

8

ترکِ شکرش ترکِ شکرِ حق بود حقِ او لاشکّ بحق ملحق شود

ترجمہ: اس کا شکر نہ کرنا حق تعالیٰ کے شکر کو ترک کرنا ہو گا ("مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ" (مشکوٰۃ) کیونکہ) اس کا حق (شکر) بلاشبہ حق تعالیٰ کے (حقِ شکر کے) ساتھ ہے۔

9

شکر مے کن مَر خدا را در نِعَم نیز مے کُن شکر و ذکرِ خواجہ ہم

ترجمہ: تم نعمتوں (کے حصول) میں خداوند تعالیٰ کا شکر کرتے رہو نیز خواجہ کا بھی شکر اور (اس کا) ذکر (خیر) کيا کرو (اشارہ "فَفَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتّی تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ . رواه أبو داود (1672)" …… آگے اس کی ایک نظیر بطورِ دلیل مذکور ہے):

10

رحمتِ مادر اگرچہ از خدا است خدمتِ او ہم فریضہ ست و سزا ست

ترجمہ: ماں کی محبت اگرچہ خدا کی طرف سے ہے، تاہم اس کی خدمت بھی بحکمِ خدا فرض ہے اور واجب ہے۔ (ہر چند ماں کی محبت عطیۂ خدا ہے مگر خدا کے شکر کے ساتھ ماں کی خدمت بھی لازم ہے۔ اسی طرح محسن کا احسان ہر چند بتوفیقِ حق ہے مگر خدا کے شکر کے ساتھ محسن کا شکر یہ بھی شرطِ مروت ہے)۔

11

زیں سبب فرمود حق صَلُّوْا عَلَیْہ کہ محمدؐ بود مُحْتَاجٌ اِلَیْہِ

ترجمہ: اسی سبب سے حق تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم پر دردو بھیجو۔ کیونکہ محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم محتاج الیہ (ثابت) ہو چکے ہیں۔

مطلب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 56) یعنی ”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے مومنو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو"۔ درود پڑھنا کم از کم ایک بار قطعی فرض ہے اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کا نام مبارک سن کر پڑھنا واجب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم پر درود بھیجنے کی فرضیت کا راز یہ ہے کہ آپ ہمارے تمام امور میں مرجع و محتاج الیہ ہیں، اور ہمارے کاموں میں مدد آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم ہی سے پہنچتی ہے۔ قیامت میں آپ ہمارے شفیع ہوں گے، اور آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم ہم پر ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے ہم کو جو ایمان کی ہدایت کی اور شریعت کی تعلیم دی تو اس سے بڑھ کر شفقت کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا آپ کا شکر ہم پر فرض ہوا، اور ملائکہ کا درود میں مشغول ہونا اس بنا پر ہے کہ ملائکہ کے کاموں کا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے متعلق ہونا بھی ان کے لیے بموجبِ شکر ہے۔ الله تعالیٰ آپ پر اس لیے درود بھیجتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا کمالِ ظہور آپ کے باطن سے ہے، اور اس نے آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو پیدا ہی کمالِ اسماء کے ظہور کے لیے کیا ہے، جو اس عالم کو پیدا کرنے کی علّتِ نمائی ہے۔ (بحر العلوم)

12

در قیامت بنده را گوید خُدا ہیں چہ کردی آنچہ دادم من تُرا

ترجمہ: قیامت میں خداوند تعالیٰ بندہ سے کہے گا، ہاں جو کچھ تم کو میں نے دیا تھا وہ تم نے کیا کیا۔

13

گوید اَے رب شکرِ تو کردم بجاں چُوں ز تو بُود اصلِ آں روزی و ناں

ترجمہ: وہ کہے گا اے پروردگار! میں نے (دل و) جان سے تیرا شکر کیا جب کہ وہ روزی اور روٹی کی اصل تیری طرف سے تھی۔

14

گویدش حق نے نکردی شکرِ من چُوں نکردی شکرِ آں اکرام و فن

ترجمہ: حق تعالیٰ اس کو کہے گا تو نے میرا شکر نہیں کیا جب کہ تو نے (اپنے ایک بزرگ ترین محسن کا) اس احسان و فعل کا شکر نہیں کیا (جو اس نے تجھ پر کیا)۔

15

بر کریمے کردۂ ظلم و ستم نے دستِ او رسیدت نعمتم

ترجمہ: تو نے ایک (بڑے) کریم پر (عدم ادائے شکر کا) ظلم و ستم کیا۔ میرا انعام تجھ کو اسی کے ہاتھ سے نہیں پہنچا؟

مطلب: شرح شیخ عبد اللطیف میں مذکور ہے کہ یہ ابیات اس حدیث کے مضمون پر مشتمل ہیں کہ "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَمَعَ اللّٰهُ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآخِرِيْنَ، يَقُوْلُ اللّٰهُ ‏لِعَبْدِهٖ: عَبْدِيْ!، هَلْ شَكَرْتَ فُلَانًا عَلٰى مَا كَانَ مِنْهُ إِلَيْكَ؟ فَيَقُوْلُ: لَا يَا رَبِّ، شَكَرْتُكَ؛ لِأَنَّ ‏النِّعْمَة َكَانَتْ مِنْكَ. قَالَ: فَيَقُوْلُ اللّٰهُ: مَا شَكَرْتَنِيْ؛ إِذْ لَمْ تَشْكُرْ مَنْ أَدَّيْتُ النِّعْمَةَ لَكَ عَلٰى ‏يَدَيْهِ. (رواه البيهقي في شعب الإيمان) یعنی”قیامت کے روز جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو ایک بندے کو پیش کیا جائے گا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندے نے نیک سلوک کیا تھا پھر اس کو کہا جائے گا کیا تو نے میرے بندے کا شکریہ ادا کیا؟ وہ کہے گا اے پروردگار مجھے معلوم تھا کہ یہ احسان تیری طرف سے ہے تو میں نے اس پر تیرا شکر کیا تو اللہ عزوجل فرمائے گا تو نے میرا بھی شکر نہیں کیا جب کہ اس شخص کا شکر نہیں کیا جس کے ہاتھ سے میں نے یہ نعمت دلائی“۔ (بحر العلوم)

16

چوں بگورِ آں ولیِ نعمت رسید گشت گریاں زار، آمد در نشید

ترجمہ: (غرض) جب وہ (پایمرد کے ساتھ) اس ولیِ نعمت کی قبر پر پہنچا تو (زیارت و فاتحہ کے بعد کچھ اس کی یاد کا اور کچھ مصیبت کے خیال کا غلبہ ہونے سے رقت طاری ہو گئی اور) زار و قطار رونے لگا (اور دردناک) اشعار پڑھنے لگا۔

17

گفت اے پشت و پناہِ ہر نبیل مُرتجا و غوثِ ابناءُُ السبيل

ترجمہ: (اور رو رو کر) کہتا تھا کہ اے ہر عظیم الشان آدمی کی پشت پناہ! مسافروں کی امیدگاہ اور فریادرس۔ (یعنی نہ صرف غریب و مسافر بلکہ معزّزین و متموّلین بھی تجھ سے فیض یاب تھے)۔

18

اے غمِ ارزاقِ ما بر خاطرت اَے چُو رزق عام احسان و بِرَت

ترجمہ: اے (وہ کہہ) ہمارے رزقوں کا (بارِ) غم تیرے دل (نے اپنے اُو) پر (اٹھا رکھا) تھا اے (وہ کہ) تیرا احسان و سلوک رزقِ عام کی مانند (سب کو شامل تھا) (پہلے مصرعہ کے ترجمہ میں مقدرات کا فائدہ ظاہر ہے کیونکہ لفظی ترجمہ کا مطلب ہوتا کہ ہمارے رزق تیرے لیے بارِ خاطر تھے)۔

19

اَے فقیراں را عشیره و والِدَین در خراج و خرج و در ایفائے دَیں

ترجمہ: اے (وہ کہ) محتاجوں کے لیے آمدنی اور خرچ اور ادائے قرض میں کنبہ اور والدین (کی مانند) تھا۔

20

اَے چو بحر از بہرِ نزدیکاں گہر دادہ و تحفہ سُوے دُوراں مطر

ترجمہ: اے (وہ کہ) تو نے سمندر کی طرح قریب والوں کو موتی اور دُور والوں کو مینہ تحفہ دیا۔

مطلب: ایک سخی و کریم النفس کی مدح کا پیرایہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ سمندر کے فیضانِ عام کا یہ عالم ہے کہ دور و نزدیک کی تمام مخلوق اس سے متمتع ہوتی ہے۔ نزدیک والے اس میں غوطہ مار کر موتی پاتے ہیں دُور والوں کو جن کو سمندر کے پاس آنے کا موقع نہیں ملتا سمندر کے ابخرات بادل بن بن کر تمام اطرافِ زمین میں بارش پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اس سخی کا فیض قریب و بعید اور طالب و غیر طالب سب کو پہنچتا تھا۔ فَلِلّٰہِ دُرُّہٗ!

21

پشتِ ما گرم از تو بُود اَے آفتاب رونقِ ہر قصر و گنجِ ہر خراب

ترجمہ: اے آفتاب ہماری پُشت تجھ سے گرم تھی۔ تو ہر محل کی رونق اور ہر ویرانہ کا خزانہ تھا۔

مطلب: اس شعر کی مناسبات و رعایات بھی مولانا کی بلاغت کے لیے داد طلب ہیں۔ پشت گرم بودن محارہ ہے حوصلہ مند و مستعد ہونے کے لیے۔ یعنی اے آفتابِ کرم تیری بخشش کی بدولت ہمارے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ گرم بودن کو آفتاب کے ساتھ ظاہری مناسبت بھی ہے جس کی دھوپ بدن کو گرما دیتی ہے، آفتاب کی روشنی سے قصرِ عالی شان بھی جگمگاتا ہے اور صحرا و بیابان بھی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ تیرا فیض امراء کے محلّات میں بھی پہنچتا تھا اور غرباء کے جھونپڑوں میں بھی۔ امراء و رؤسا کا اس کریم النفس سے فیض یاب ہونا اس کی اعلیٰ وجاہت اور بہت بڑے تموّل کی دلیل ہے۔ کیونکہ امراء ایسے ویسے مالداروں کے احسان مند ہونا گوارا نہیں کرتے۔

22

اَے در ابرُویت نَدیدہ کس گرِه اَے چو میکائیل راد و رزق دِہ

ترجمہ: اے (وہ کہ) تیری ابرو پر کسی نے (کبھی) بل نہیں دیکھا۔ اے (وہ کہ) میکائیل کی طرح جوانمرد اور رزق دینے والا تھا۔

23

اَے دِلت پیوستہ با دریائے غیب اَے بقافِ مکرمت عنقائے غیب

ترجمہ: اے (وہ کہ) تیرا دل دریائے غیب سے متصل تھا (اس لیے اس میں کبھی انقطاعِ فیض نہ ہوتا تھا) اے وہ کہ) کرم کے کوہِ قاف میں عنقائے غیب (کی طرح جلیل القدر) ہے۔

24

یاد ناورده کہ از مالم چہ رفت سقفِ قصرِ ہمتت ہرگز نکفت

ترجمہ: (جس نے) کبھی خیال نہ کیا میرے مال میں سے کیا چلا گیا۔ تیرے قصرِ ہمت کی چھت کبھی شگافتہ نہیں ہوئی۔

25

اَے من و صد ہمچو من در ماه و سال مَر تُرا چُوں نسلِ تو گشتہ عيال

ترجمہ: اے (وہ کہ) میں اور مجھ سے صدہا (محتاج) ماہ اور سال میں تیرے لیے تیری اولاد کی طرح (بمنزلہ) عیال تھے۔

26

نقدِ ما جنسِ ما و رختِ ما نامِ ما و فخرِ ما و بختِ ما

ترجمہ : ہمارا نقد اور ہماری جنس اور ہمارا اسباب۔ ہمارا نام اور ہمارا فخر اور ہمارا طالع۔

27

ایں ہمہ از حق بُدو تُو واسطہ درمیانِ ما و حق تو رابطہ

ترجمہ: یہ سب (چیزیں ہم کو) حق تعالیٰ کی طرف سے (تیرے ہاتھوں سے ملی) تھیں اور تو واسطہ (تھا۔ یعنی) تو ہمارے اور حق تعالیٰ کے درمیان رابطہ (تھا)۔

28

تو نمرُدی ناز و بختِ ما بمُرد عیشِ ما و رزقِ مُسْتَوفا بمُرد

ترجمہ: (صرف) تو (ہی) نہیں مرا بلکہ تیری موت سے ہمارا ناز (و نعم) اور نصیبہ (بھی) مر گیا (اور) ہماری عیش اور رزق بتمامہ نابود ہو گیا۔

29

وَاحِدٌ کَالْاَلْف در رزم و کرم صد چو حاتم گاہِ ایثارِ نعم

ترجمہ: تو جنگ اور کرم میں اکیلا ہزار کے برابر تھا (اور) بدلِ انعام کے وقت سو حاتم (کی مانند) تھا۔

30

حاتم ار مُرده بمُرده مے دہد گرِدگانہائے شمرده مے دہد

ترجمہ: حاتم اگر (جمادات کے) بے جان (ٹکڑے) کسی مردہ (بے روحانیت یعنی طالبِ دنیا) کو دیتا ہے تو (اس کی مثال ایسی ہے جیسے) وہ معدودے چند اخروٹ دیتا ہے (یعنی حاتم کی عطاء محدود و قلیل بھی تھی اور ناپائیدار بھی)۔

31

تو حیاتے میدہی در ہر نفس کز نفیسی مے نگنجد در نفس

ترجمہ: (بخلاف اس کے) تو ہر سانس میں وہ (پائیدار) زندگی عطا کرتا ہے (جو اپنی) نفاست کے لحاظ سے بیان میں نہیں آتی (یعنی حاتم ایک کافر تھا اس کا جود و کرم صرف سیم و طلاء کے چند سکّوں میں منحصر تھا۔ تو اہل اللہ ہے تیری صحبت حیاتِ جاوید بخشتی تھی)۔

32

تو حيات میدہی بس پایدار زرّ نقدِ بے کساد و بے شمار

ترجمہ: تو نہایت پائیدار زندگی بخشتا تھا (اس کے ساتھ ہی) زر نقد (بھی جو) کھرا اور بے شمار ہوتا تھا۔ (یعنی تیری باطنی فیض رسانی کے علاوه ظاہری عطا میں بھی ایک برکت ہوتی)۔

34

وارثے نابودۂ یک خوے تُرا اَے فلک سجدہ کناں کُوے ترا

ترجمہ: (دنیا میں) تیری (اس) خُلق کا کوئی وارث نہیں ہوا۔ اے (وہ کہ) آسمان تیرے کوچہ میں سجدہ کرتا ہے۔

35

خلق را از گرگِ غم لطفت شباں چُوں کلیم اللہ شبانِ مہرباں

ترجمہ: مخلوق کے لیے گرگِ غم سے تیرا لطف محافظ تھا اور (محافظ بھی کیسا کہ) حضرت (موسٰی) کلیم اللہ علیہ السلام کی مانند محافظ مہربان (تھا)۔