دفتر ششم: حکایت: 104
گریختنِ گوسفند از کلیم اللہ و شفقت و مہربانیِ اُو
ایک بکری کا حضرت کلیم الله عليه السلام سے بھاگنا اور ان کی شفقت و مہربانی
1
گوسفندے از کلیم اللہ گریختپائے موسیٰؑ آبلہ شد نعل ریخت
ترجمہ: ایک بکری (حضرت) کلیم اللہ علیہ السّلام سے بھاگ گئی، (حضرت) موسٰی علیہ السّلام کے پاؤں میں آبلے پڑ گئے اور ان کے جوتے ٹوٹ گئے۔
2
در پئے او تا بشب در جستجوواں رمہ غائب شده از چشمِ اُو
ترجمہ: اس کے پیچھے رات کی تلاش میں (رہے) اور وہ گلہ (جس سے وہ بکری بھاگی تھی) آپ کی نظر سے غائب ہو گیا (کیونکہ آپ کہیں سے کہیں نکل گئے)۔
3
گوسپند از ماندگی شد سُست و ماندپس کلیم اللہؑ گرد از وے فشاند
ترجمہ: (وہ) بکری تکان سے سسُت اور ماندہ ہو گئی تو کلیم اللّٰہ علیہ السّلام نے (براہِ شفقت) اس سے گرد جھاڑ دی۔
4
کف ہمے مالید بر پشت و سرشمے نوازش کرد ہمچوں مادرش
ترجمہ: (محبت کے ساتھ) اس کی پشت اور سر پر ہاتھ پھیرتے تھے (اور) ماں کی طرح اس پر نوازش کرتے تھے۔
5
نیم ذرّه تیرگی و خشم نےغیرِ مہر و رحم و آبِ چشم نے
ترجمہ: (اور باوجود اس قدر تکلیف اٹھانے کے ان کو) آدھا ذرّہ برابر بھی کدورت اور غصہ نہیں (آيا) سوائے محبت اور رحم اور آبِ چشم کے (کچھ) نہیں (آیا)۔
6
گفت گیرم بر منت رحمے نبودطبعِ تو بر خود چرا ستم نمود
ترجمہ: (بکری سے) فرمایا میں نے مان لیا کہ تجھ کو مجھ پر ترس نہ آیا (جو مجھے اس قدر تھکایا۔ مگر) تیری طبیعت نے اپنے آپ پر کیوں ظلم کیا (کہ اس قدر دوڑی بھاگی اور تھکی)۔
7
با ملائک گفت یزداں آں زماںکہ نبوت را ہمے زیبد فلاں
ترجمہ: تو اس وقت حق تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ وہ شخص نبوّت کے لائق ہے۔ (جس کو بکری تک پر اتنا رحم آتا ہے۔ ان دنوں حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چراتے تھے ابھی منصبِ نبوت پر سرفراز نہیں ہوئے تھے، پھر جب شعیب علیہ السلام کی ایک لڑکی کے ساتھ ان کا نکاح ہوا اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر رخصت ہوئے تو راستے میں وادیِ ایمن کے مقام میں اللہ نے ان کو نبوّت عطا فرمائی)۔
8
مصطفٰیؐ فرمُود خود کہ ہر نبیکرد چوپانیش برنا یا صبی
ترجمہ: خود مصطفٰی صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے کہ ہر نبی نے بکریوں کی چوپانی کی ہے، جواں (ہو کر) یا طفل (ہونے کے وقت)۔
مطلب: "عَنْ اَبِیْ هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ: مَا بَعَثَ اللّٰهُ نَبِیّاً اِلَّا رَعَى الْغَنَمَ۔ فَقَالَ اَصْحَابُهٗ: وَ اَنْتَ؟ فَقَالَ نَعَمْ، كُنْتُ اَرْعَاهَا عَلٰى قَرَارِيْطَ لِاَهْلِ مَكَّةَ" (صحیح بخاری) ”حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کے بارے میں روایت ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو معبوث نہیں فرمایا مگر اس نے بکریاں چرائی ہیں۔ تو آپ کے اصحاب نے عرض کیا اور حضور نے بھی؟ تو آپ نے فرمایا ہاں، ان کو چَراتا تھا چند قیراط کے عوض میں اہل مکہ کے لیے“۔ آگے انبیاء علیھم السلام کے اس بکریاں چرانے میں جو حکمت ہے وہ بیان فرماتے ہیں۔ اگرچہ حدیث میں وہ مذکور نہیں ہے۔):
9
بے شبانی کردن و آں امتحاںحق ندادش پیشوائیِ جہاں
ترجمہ: بدوں شبانی کرنے (چرواہا بننے) اور بدوں اس (شبانی کے) کے امتحان (میں پڑنے) کے حق تعالیٰ نے اس کو جہان کی پیشوائی نہیں بخشی۔
10
تا شود پیدا وقار و صبرِ شاںکرد شاں پیش از نبوت حق شُباں
ترجمہ: (وہ امتحان یہ ہے کہ) حق تعالیٰ نے ان کو نبوت سے پہلے شبان بنا دیا (اور حکمت اس میں یہ ہے کہ) تاکہ ان (انبیاء علیهم السلام) کا وقار اور صبر ظاہر ہو جائے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بحکم آنکہ امّت پروری راشُباں لائق بود پیغمبری را
چو یوسفِ ما ہزاراں کامرانی ہمے زد سر تمنائے شبائی
11
گفت سائل ہم تو نیز اے پہلواں؟ گفت من ہم بوده ام دہرے شُباں
ترجمہ: کسی سائل نے عرض کیا اے سرورِ عالم! کیا آپ بھی (شبان رہ چکے ہیں؟) فرمایا میں بھی کچھ عرصہ شبان رہ چکا ہوں۔ (یہ مذکورہ بالا حدیث کے اس ٹکڑے کا ترجمہ ہے۔ کہ: "فَقَالَ اَصْحَابُهٗ وَ اَنْتَ؟ فَقَالَ نَعَمْ، کُنْتُ اَرْعَاهَا"۔ آگے مولانا فرماتے ہیں):
12
ہر امیرے کو شبانیِ بشرآنچناں آرد کہ باشد مؤتمر
ترجمہ: جو حاکم انسان کی شبانی اس طرح بجا لائے جس طرح وہ (حق تعالیٰ کی قدرت سے) مامور ہوا ہے۔
13
حلمِ موسیٰؑ وار اندر رعیِ خوداو بجا آرد بتدبیر و خرد
ترجمہ: تو وہ (حاکم) اپنی شبانی میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرح تدبیر و عقل کے ساتھ حلم (و تحمّل) بجا لائے۔
مطلب: تدبیر و خرد علم کی شرط نہیں بلکہ اس کی علّت اور سبب ہے۔ اور "بتدبیر" میں باء سببیت کی ہے۔ یعنی بادشاہ برہمیِ مزاج کے وقت عقل و تدبیر سے کام لے گا تو لامحالہ وہ غضب و غصہ سے دست بردار ہو کر حلم و تحمل پر آجائے گا۔ اگر عقل کار فرما نہ ہوئی تو غضب قلب پر مسلّط ہو کر ظلم و ستم پر آمادہ کر دے گا۔ غرض بادشاہ کے لیے حلم ایک لازمی وصف ہے حضرت سعدی نے اس ساری تقریر کو یوں منظوم فرمایا ہے ؎
سرِ پُر غرور از تحمّل تہیحرامش بود تاجِ شاہنشی
نگویم چو چنگ آمدی پایدارچوں خشم آیدت عقل بر جائے دار
تحمّل کند ہر چنگ کرا عقل ہستنہ عقلے کہ خشمش کند زیر دست
چوں لشکر بروں تاخت خشم از کمیںنہ انصاف ماند نہ تقوٰی نہ دیں
ندیدم چنیں دیو زیرِ فلککرد میگزیرند چندیں ملک
14
لاجَرَم حقّش دہد چوپانئےبر فرازِ چرخِ مہ رُوحانئے
ترجمہ: تو ضرور حق تعالیٰ اس کو ایک خاص چوپانی عطا فرمائے گا (یعنی) فلکِ قمر کے اوپر ایک روحانی (چوپانی)۔
مطلب: جب وہ بادشاہ ملک داری و رعیت پروری میں قانونِ الہٰی کو ملحوظ رکھے گا تو اس کا قلب اس کدورت و ظلمت سے محفوظ رہے گا جو ظالمانہ حکومت کا لازمی نتیجہ ہے، بلکہ انوارِ غیب کا مہبط ہو جائے گا۔ اور اسے ظاہری حکومت کے علاوہ باطنی منصبِ ارشاد و تربیت بھی مل جائے گا۔ جس کی مثال میں حضرت عالمگیر وغیرہ بعض شاہانِ عابدین و متورّعین پیش کئے جاسکتے ہیں۔ فلکِ قمر چونکہ دنیا کی حد ہے تو اس سے فوق کنایہ ہوا فوقِ دنیا سے، کہ وہ رعیِ دینی اخروی یعنی منصبِ ارشاد و ہدایت ہے۔
15
آنچنانکہ انبیا را زیں رُعابرکشید و داد رعیِ اصفيا
ترجمہ: جیسے (حق تعالیٰ نے) انبیاء علیہم السّلام کو اس شبانی سے (نبوت کے منصبِ عالی پر) سرفراز کردیا اور مقبولین کی چوپانی عطا فرمائی۔
مطلب: حق تعالیٰ نے جس طرح انبیاء علیھم السلام کو بکریوں کی شبانی و نگہبانی سے مخلوق کے ارشاد و ہدایت کا منصب بخشا، اسی طرح وہ عادل بادشاه کو ظاہری حکومت کے ساتھ باطنی سرداری عطا فرماتا ہے۔ آگے پھر قرضدارار خواجہ محتسب سے مخاطب ہوتا ہے:
16
خواجہ بارے تو دریں چوپانیتکردی آنچہ کور گردد شانِیَت
مطلب: اے خواجہ! البتہ تو نے اپنی اس چوپانیِ (خلق) میں وہ (فیاضانہ و مردانہ) کام کیا جس (کو دیکھنے) سے تیرا دشمن (و حاسد بے تاب اور) اندھا ہو جائے۔
17
دانم آنجا در مکافات ایزدتسروریِّ جاودانہ بخشدت
ترجمہ: میں جانتا ہوں کہ وہاں (کے عالم میں) حق تعالیٰ تجھ کو ثواب میں دائمی سرداری عطا فرمائے گا۔
18
بر اميدِ کفّ چوں دریاۓ توبر وظیفہ دادن و ایفائے تو
19
وام کردم نُُہ ہزار از زر گزافتو کجائی تا شود ایں دُرد صاف
ترجمہ: تیرے ہاتھ کی اُمید پر جو دریا کی مانند ہے (اور) تیرے وظیفہ دینے اور تیرے (قرض) پورا کر دینے (کی امید) پر، میں نے نو ہزار (دینار) کی رقم بے احتیاطی سے قرض کر لی تو کہاں ہے تاکہ یہ تلچھٹ صاف ہو جائے۔
20
تو کجائی تاکہ صد چنداں کرمبا منِ خستہ بجا آری نَعَم
ترجمہ: تو کہاں ہے تاکہ مجھ خستہ (حال) کے ساتھ سو گنا کرم البتہ بجا لائے۔
21
تو کجائی تا دو صد لُطف و عطابا غریبِ خستہ دِل آری بجا
ترجمہ: تو کہاں ہے تاکہ دو سو لطف و عطا مجھ غریب خستہ دل کے ساتھ بجا لائے۔
22
تو کجائی تاکہ خنداں چُوں چمنگوئیم بستاں دو صد چنداں ز من
ترجمہ: تو کہاں ہے تاکہ چمن کی طرح مسکراتے ہوئے تو مجھ سے کہے، مجھ سے دو سو گنا لے لو۔
23
تو کجائی تا مرا خنداں کنیلطف و احساں چوں خداونداں کنی
ترجمہ: تو کہاں ہے تاکہ مجھ کو (عطائے مطلوب سے خوشنود و) خنداں کر دے (اور) آقاؤں کی طرح (مجھ پر) لطف و احسان کرے۔
24
تو کجائی تا بری در مخزنمتا کنی از وام و فاقہ ایمنم
ترجمہ: تو کہاں ہے تاکہ مجھے (اپنے) خزانہ میں لے جائے۔ حتٰی کہ (خزانہ سے مجھے کافی رقم دے کر) قرض (سے سبکدوش) اور فاقہ سے بے خطر کر دے۔
25
من ہمے گویم بس و تو مفضّلمگفتہ کیں ہم گیر از بہرِ دلم
ترجمہ: میں تو کہوں بس (کافی ہے) اور تو (جو) میرا محسن (ہے) کہے کہ یہ بھی میری خاطر داری کے لیے قبول کر لے۔
26
چوں ہمے گنجد جہانے زیرِ طیںچُوں بگنجد آسمانے در زمیں
ترجمہ: بھلا (تجھ سا بزرگ قدر انسان جو بمنزلہ) ایک جہان (کے ہے) زیرِ خاک کیونکر سما گیا۔ ایک آسمان نے زمین کے نیچے (دفن ہو جانے کی) کیونکر گنجائش پائی۔
مطلب: مولانا بحرالعلوم نے مصرعۂ اولٰی میں چوں استفہامیہ نہیں بلکہ شرطیہ ٹھہرایا ہے۔ ان کے نزدیک ترجمہ یوں ہے: جب (صرف اہلِ) جہان (کا ہر فرد ہی) زیرِ خاک دفن ہوتا ہے (اور یہی داخلِ عادت ہے) تو (تجھ سا ایک بلند پایہ انسان جو بمنزلہ) آسمان (ہے) اس میں کیونکر دفن ہو گیا۔ بہر کیف یہ ایک تعجبِ شاعرانہ تھا۔ آگے اضرابِ محقّقانہ ہے:
27
حَاشَ لِلّٰه تو برونی زیں جہاںہم بوقتِ زندگی ہم ایں زماں
ترجمہ: حَاشَا لِلّٰہ! تو (زمیں میں کیوں سماتا زمین میں سمانے والا تو محض جسم ہے باقی جو ”تُو“ کا اصلی مصداق ہے وہ تو) اس جہاں سے باہر ہے (دنیاوی) زندگی کے وقت بھی اور اب بھی۔
مطلب: اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ”تُو“ یا "اَنْتَ" کا مصداق روح ہے اور وہ اس عالم متحیر سے خارج ہے جیسے کہ اہلِ مکاشفہ نے دیکھا ہے اور جسم کے ساتھ اس کا تعلق محض تدبیر کا ہے حلول کا نہیں۔ اور وه حیات و ممات میں برابر ہے۔ (کلید)
28
در ہواے غیب مُرغے مے پردسایۂ او بر زمیں مے گسترد
ترجمہ: عالمِ غیب کی فضا میں ایک مُرغ اڑ رہا ہے (اور) اس کا سایہ زمین پر پھیل رہا ہے (اس میں روح کو مُرغ سے اور جسم کو سایہ سے تشبیہ دی ہے مطلب یہ کہ روح تو ایک عالمِ مجردات کی عالی پایہ مخلوق ہے نہ کہ عالمِ اجسام کی۔ جسم اس کا ایک سایہ ہے)۔
29
جسم سایۂ سایۂ دل ستجسم کَے اندر خورِ پایۂ دل ست
ترجمہ جسم (کیا ہے؟) قلب (حقیقی یعنی رُوح) کے سایہ کا سایہ ہے (تو پھر) جسم قلب کے درجہ کے لائق کب ہے؟
مطلب: تقریر مصرعہ اولیٰ کے مضمون کی یہ ہے کہ قلب سے مراد روح ہے، اور یہ مراد لینا اتحادِ لطائف کے قول پر ظاہر ہے جیسا کہ بعض اہلِ کشف کا قول ہے، اور تغایرِ لطائف کے قول پر مجاز و استعارہ ہو جائے گا۔ "لِاَنَّ کُلًّا مِّنْهَا یُشَابِہُُ الْآخَرَ فِیْ بَعْضِ الْاَوْصَافِ، وَ اَدْنَاهَا التَّجَرُّدُ" سو قلب سے مراد رُوح ہوئی۔ اور روحِ حقیقی اہلِ کشف کے نزدیک دو ہیں ایک سراجی کہ وہ روحِ اعظم واحد ہے مربّی تمام ارواح کی، اور دوسری زجابی کہ وہ ہر شخص کی جدا جدا ہے۔ اور یہ روحِ زجاجی استفادۂ آثار میں تابع ہے روح سراجی کی۔ تو یہ زجاجی اس سراجی کے بایں معنٰی ظلّ ہوئی۔ یعنی "کَالظِّلِّ فِی الطَّبِیْعَۃِ"۔ پھر اس کا تعلق اجسام کے ساتھ بواسطہ روحِ حیوانی کے ہے۔ تو افادۂ آثار و حیٰوۃ وغیره میں یہ روحِ حیوانی اس روحِ زجاجی کی تابع اور ظلّ ہے اور اس روحِ سراجی کی ظِلُّ الظِّل ہوئی۔ پھر جسم استفادۂ آثارِ حیٰوۃ وغیرہ میں اس روحِ حیوانی کا تابع اور ظل ہے۔ پس اس بنا پر جسم اس روحِ سراجی کا (کہ اصل الارواح ہے) ظِلُّ ظِلِّ الظِّلّ ہوا۔ یہ معنٰی ہیں اس کے کہ "جسم سایۂ سایۂ دل ست"۔ ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی کہ بجائے روحِ سراجی کے زجاجی کو کہا جائے اور اس کا ظلّ عالمِ مثال، اس کا ظلّ روحِ حیوانی کو اور اس کا ظلّ جسم کو۔ (کلید مثنوی)
30
مرد خفتہ روحِ او چوں آفتابدر فلک تاباں و تن در جامہ خواب
ترجمہ: آدمی سوتا ہے (اور) اس کی روح آفتاب کی طرح (عالمِ مجردات کے) فلک میں درخشاں ہے اور جسم لباسِ خواب میں (پڑا ہوتا ہے)۔
31
جاں نہاں اندر خلا ہمچوں سجافتن تقلّب مے کند زيرِ لحاف
ترجمہ: روح (عالمِ غیب کے) خلا میں (اندرونی) پردہ کی طرح مخفی ہوتی ہے (اور) جسم لحاف کے نیچے کروٹ لیتا ہے۔
32
رُوح چُوں مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ مختفی ستہر مثالے کہ بگویم منتفی ست
ترجمہ: روح جب کہ امرِ رب سے ہے (اور یہ اس کی حقیقتِ اجمالی ہے۔ اور مرتبۂ تفصیل میں وہ) مخفی ہے جو مثال (اس کے ایضاح کے لیے) پیش کروں وہ (اس کی حقیقت ظاہر کرنے کے لحاظ سے) کالعدم ہے۔ (آگے پھر قرضدار کا خطاب ہے محتسب متوفی سے:)
33
اَے عجب کُو لعلِ شکر بارِ توواں جواباتِ خوش و اسرارِ تو
ترجمہ: ارے تعجب ہے کہ وہ تیرا لب شکر برسانے والا کہاں گیا اور وہ تیرے جواباتِ پسندیدہ اور اسرار (کی باتیں) کہاں ہیں۔
34
اَے عجب کُو آں عقیقِ قند خاآں کلیدِ قفلِ مشکلہائے ما
ترجمہ: ارے تعجب ہے کہ وہ لبِ شیریں کلام کہاں ہیں؟ وہ (لب، جو) ہماری مشکلوں (کو کھولنے) کی کنجی تھے۔
35
اَے عجب کُو آں دم چوں ذوالفقارآنکہ کردے عقلہا را بے قرار
ترجمہ: ارے تعجب ہے کہ وہ کلام (جو قطعی و فیصلہ کن ہونے میں تیغِ) ذوالفقار کی مانند (تھا) جو عقلوں کو بے قرار کر دیتا تھا (ذوالفقار، حضرت علی کرم الله وجہہ کی تلوار کا نام ہے جو سرعتِ قطع اور سرعتِ نفوذ کے لیے ضرب المثل ہے، اور درحقیقت یہ خود حضرت علی کے زورِ بازو کا جوہر تھا نہ کہ تلوار کا)۔
36
چند ہمچوں فاختہ کاشانہ جو؟کوو کوو کوو کوو کوو کو؟
ترجمہ: کب تک آشانہ ڈھونڈنے والی فاختہ کی طرح کو اور کوکو اور کوکو کرے گا۔
مطلب: کوکو کے لفظ کو فارسی میں حسرتمندانہ طلب و تجسُّس کے لیے فرض کر لیا گیا ہے۔ ورنہ حقیقت میں فاختہ کا مقصد اس آواز سے یہ نہیں ہوتا، وہ اس کا محض مقتضائے طبع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو اس محسن کی طلب میں کیوں بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ وہ کہاں ہے، کہاں ہے، جب کہ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ کہاں ہے۔
37
کُو ہمانجا کہ صفاتِ رحمت ستقدرت ست و نزہت ست و فطنت ست
ترجمہ: وہ کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں رحمتِ (حق) کی صفات ہیں۔ قدرت ہے، پاکیزگی ہے، اور دانائی ہے (یعنی الله تعالیٰ کے قُرب میں ہے)۔
مطلب : اوپر جو بار بار سوال آیا تھا کہ وہ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ یہاں اس سوال کا جواب ہے۔ ہر شعر کے آغاز میں "کُو" سوالیہ ہے پھر اس کا جواب دیا ہے۔ مولانا بحرالعلوم فرماتے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لفظ بکافِ فارسی بمعنی "قُلْ" ہو، جس سے جواب شروع ہوتا ہے۔ یعنی کہہ دو، وہاں ہے، وہاں ہے۔
38
کُو ہمانجا کہ دل و اندیشہ اشدائم آنجا چو شیر و بیشہ اش
ترجمہ: وہ کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں اس کا فکر و اندیشہ ہمشیہ رہتا ہے۔ مثل شیر اور اس کے (اپنے) بیشے (کی طرف مائل رہنے) کے۔
39
کو ہمانجا کہ اُمیدِ مرد و زنمیرود در وقتِ اندوہ و حَزَن
ترجمہ: کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں (تمام) مرد و زن کی امید، غم و الم کے وقت رجوع ہوتی ہے۔
40
کو ہمانجا کہ بوقتِ علّتےچشم پرّد بر اُمیِد صِحّتے
ترجمہ: وہ کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں (کسی بیمار کی) نگاہ (التجا) بیماری کے وقت شفایابی کی اُمید پر اٹھتی ہے۔
41
آں طرف کہ بہرِ دفعِ زِشتئےباد جوئی بہرِ کشت و کشتئے
ترجمہ: (وہ) اس طرف (ہے) جہاں سے تم (ہوائے مضر کی) مضرت دُور کرنے کی غرض سے کھیتی اور کشتی کے لیے مفید ہَوا چاہتے ہو۔
42
آں طرف کہ دل اشارت مے کندچوں زباں یَا ھُوْ عبارت مے کند
ترجمہ: وہ وہاں سے جہاں دل اشارہ کیا کرتا ہے جبکہ زبان "یَا ھُوْ" (یعنی اے وہ ذاتِ پاک) کی عبارت میں ہوتی ہے (ظاہر ہے کہ اس ضمیر کا مرجع قلب ذاتِ حق ہی کو قرار دیتا ہے۔ آگے اجسامِ مذکور کی تعیین کرتے ہیں:)
43
او مَعَ اللّٰہ ست بے کُو کُو ہمےکاش جولاہانہ ما کُو گفتمے
ترجمہ: وہ (متوفی) الله کے پاس ہے (اور یہ پاس ہونا) بدون کُوکُو کے ہے۔ کاش ہم ("آں کُُُُو" کے) بجائے جولاہوں طرح "ما کُُو" کہتے۔
مطلب: پہلے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی معیت سے یہ نہ سمجھنا کہ نعوذ بالله حق تعالیٰ کا بھی کوئی مکان و مقام ہے جہاں وہ مقرّب اس کے ساتھ ہے۔ اس لیے اس کو "کہاں ہے" کہہ کر پوچھنا بے معنٰی ہو گا۔ بلکہ اس کی معیتِ حق بمعنی قربِ مقبول ہے اور بھی بے کیف۔ یعنی جس کی کیفیت تعبیر و بیان میں نہیں آ سکتی۔ البتہ یہ سوال ہم کو اپنے بارے میں کرنا چاہیے کہ ہم کہاں ہیں، کیونکہ ہم مکانی بھی ہیں اور ہمارا کہاں سے کہاں آ جانا اور ایک دارالشرور کو اپنا مسکنِ مالوف بنا لینا اس سوال کا مورد بھی ہے۔ لہذا ہم کو جولاہوں کی طرح "ما کُو" یعنی "ہم کہاں ہیں" کہنا چاہیے۔ اور جولاہوں کی زبان پر یہ لفظ اس لیے رہتا ہے کہ یہ ان کی نال کا نام ہے جس میں سوت کی بھری ہوئی نلکی رکھ کر اس کو تان کے دونوں طرف چلاتے اور کپڑے بنتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اس لفظ کو اپنے ایک آلۂ عمل کا نام ہونے کے لحاظ سے بار بار بولتے ہیں تو یہی لفظ اپنے متعلق سوال کرنے کے لیے بولنا چاہیے۔ لفظ ایک ہی ہے گو مفہوم اور مقصودِ تلفظ الگ الگ ہے۔ صاحبِ حدِّ مسلّمہ فرماتے ہیں کہ اس تشبیہِ ظریفانہ میں اشارہ اس طرف ہوسکتا ہے کہ ہم سے تو جولاہے زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ باوجودیکہ وہ کم عقل مشہور ہیں کہ وہ ہر وقت "ما کُو، مَا کُو" کہتے ہیں۔ ہماری طرح "آں کُو" تو ایسے موقع پر نہیں کہتے۔ (انتہٰی) ہمارے نزدیک شاید اس میں یہ اشارہ بھی ہو سکے کہ جولاہا قوم کے لوگ جو اپنی کثرتِ طاعت کی وجہ سے ہندوستان کے اکثر حصص میں مومن اور مدرّسِ قرآن ہونے کی وجہ سے پنجاب میں ملّاں مشہور ہیں۔ ہم کو ادبِ مقامِ الوہیت اور معرفتِ نفس میں ان کی تقلید کرنی چاہیے، جو بفحوائے "لَا تُفَکِّرُوْا فِیْ اللّٰہِ" (بیہقی) "آں کُو" کبھی نہیں کہتے، بلکہ مضمونِ مقولہ "مَنْ عَرَفَ نَفَسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ" معرفتِ نفس کے لیے ہر وقت "مَا کُُو، مَا کُو" ان کا وردِ زبان ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ ہمارے ادراک و عقل کی بساط ہی کیا ہے جو معیت کے راز کو سمجھ سکے اور اس میں لفظ "ما کُو" بھی خوبصورتی کے ساتھ کھپایا ہے۔
44
عقلِ ما کُو تا بہ بیند غرب و شرقرُوحہا را مے زند صد گونہ برق
ترجمہ: ہماری عقل کہاں ہے کہ وہ مشرق و مغرب کو دیکھے (اور اس کو معلوم ہو کہ کاملین کی)ارواح پر (تجلیاتِ حق کی) سینکڑوں قسم کی بجلیاں گر رہی ہیں (یعنی پہلے اس اپنی عقل کو ٹھیک کرو، اگر راست بیں ہو تو کاملین کی ودیعتِ حق بھی معلوم ہو جائے جو ان کو زندگی ہی میں حاصل ہے۔ پھر ان کے وفات پانے کے بعد تو ان سوالات کا موقع ہی کیا؟)
45
جزر و مدّش بُد بہ بحرے در زبدمُنتہی شُد جزر و باقی مانْد مدّ
ترجمہ: اس (روح) کو (زندگی کی) جھاگ میں بحر (حقیقی کے تعلق) کے ساتھ اتار اور چڑھاؤ (طاری ہوتا رہتا) تھا (اب مرنے کے بعد) اُتار موقوف ہو گیا اور چڑھاؤ باقی رہ گیا۔
مطلب: کاملین کی روح کو زندگی میں بھی معیت حاصل ہوتی ہے مگر اس میں کبھی ترقی اور کبھی مشاغلِ دُنیا کی وجہ سے تنزّل ہوتا رہتا ہے۔ مگر مرنے کے بعد چونکہ سوائے مشاہدۂ تجلیات کے اور کوئی شغل ہی نہیں اس لیے اب اس میں تنزّل نہیں ہوتا۔ آگے پھر وہ قرض دار اپنے محسن متوفی سے مخاطب ہوتا ہے:
46
نُہ ہزارم وام و بے دسترسہست صد دینار ازیں توزیع و بس
ترجمہ: نو ہزار (دینار) میرا قرض ہے اور میں بے مقدور ہوں (ادائے قرض کے لیے) اس چندہ سے (صرف یہ) سو دینار (ہاتھ آئے) ہیں اور بس۔
47
حق کشیدت مانده ام در کشمکشمیروم نومید اَے خاکِ تو خوش
ترجمہ: حق تعالیٰ نے تجھ کو اٹھا لیا (اور) میں کشمش میں رہ گیا۔ اے (وہ کہ) تیری تربت پر (سچی) خوشی نازل ہو میں نا امید جا رہا ہوں۔
48
ہمتے میدار با پُر حسرتتاَے ہمایوں رُوے و دست و ہمتت
ترجمہ: اے (وہ کہ) تیرا منہ اور ہاتھ اور ہمت مبارک ہے۔ اپنے اس پُرحسرت (سائل) کے ساتھ کچھ ہمت (ملحوظ) رکھو۔
49
آمدم بر چشمۂ اصلِ عیُوںیافتم دروے بجاے آب خُوں
ترجمہ: میں (سخاوت کے) ایسے چشمے پر آیا تھا جو سب چشموں سے افضل ہے (مگر افسوس کہ) میں نے پانی کے بجائے خون پایا۔
50
چرخِ آں چرخ ست تابِ آں تاب نیستجُوے آں جُوے ست آبِ آں آب نیست
ترجمہ: آسمان تو (وہی آسمان ہے، مگر) روشنی وہ روشی نہیں، نہر وہی نہر ہے (مگر) پانی وہ پانی نہیں (یعنی عالم بدستور قائم ہے مگر تیرا فیض ختم ہو گیا)۔
51
محسناں ہستند کو آں مستطاباختراں ہستند کو آں آفتاب
ترجمہ: (دُنیا میں) محسن (بہت سے موجود ہیں مگر) وہ پاکیزہ (محسن) کہاں! ستارے (موجود) ہیں (مگر) وہ آفتاب کہاں؟
52
تو شدی سُوئے خدا اے محترمپس بسوے حق روم من نیز ہم
ترجمہ: اے محترم تو خدا کے پاس چلا گیا پس میں بھی حق تعالیٰ کے پاس جاتا ہوں (یعنی میں بھی مرتا ہوں کہ تیرے بعد جی کر کیا لینا ہے۔ یا یہ کہ میں اب خدا کی طرف رجوع کرتا ہوں مگر اگلا شعر پہلے کا مؤیّد ہے)۔
53
مجمع و پائے عَلم ماوی القرون ہَسْت حق کُلٌّ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ
ترجمہ: (کیوں کہ) حق تعالیٰ (کی بارگاہ ہی تمام مخلوق کے) جمع ہونے کی جگہ اور جھنڈے کا پاؤں (گاڑنے کی جگہ اور تمام) اہلِ قرن کی جائے پناہ ہے (بدلیل اس آیت کے کہ سب لوگ ہمارے پاس حاضر ہونے والے ہیں)۔
مطلب: اس میں اس ارشادِ خداوندی کی طرف اشارہ ہے ﴿اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَیْهِمْ لَا یَرْجِعُوْنَ۔ وَ اِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ﴾ (یٰس: 31-32) ”کیا ان لوگوں نے اس (بات پر) نظر نہیں کی کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی امتوں کو ہلاک کر مارا اور ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئے، ہاں جتنے ہیں سب ہمارے حضور میں حاضر ہونے والے ہیں۔“ اس آیت میں آخرت کے اندر خداوند تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا ذکر ہے۔ آگے مولانا ترقی کر کے یہ بیان فرماتے ہیں کہ موجوده عالم میں بھی ہر مخلوق قدرتِ حق کی بارگاہ میں ہر وقت پیش ہے یعنی اس کے دستِ تصرف میں مسخّر و مجبور ہے۔
54
نقشہا گر بے خبر گر با خبردر کفِ نقّاش باشد مختصر
ترجمہ: (صورت کے) نقش اگر بے خبر ہوں (جیسے کسی بے جان چیز کے نقش اور) اگر با خبر (جیسے کسی جاندار کے نقش، بہر کیف) وہ نقّاش کے ہاتھ میں پیش کئے ہوئے ہیں (یعنی حق تعالیٰ کے سامنے تمام مخلوق اس طرح حاضر ہے جس طرح نقّاش کے سامنے نقش، کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرّف کرے)۔
55
دم بدم در صفحۂ اندیشہ شاںثبت و محوے میکند آں بے نشاں
ترجمہ: (تصرّف کی ایک صورت یہ ہے کہ) وہ بے نشان (قادرِ مطلق) دم بدم ان (مخلوقات) کے صفحۂ خیالات میں کچھ نہ کچھ لکھتا اور مٹاتا رہتا ہے (یعنی مخلوق کے اراده و خیال کو کبھی کچھ کر دیتا ہے اور کبھی کچھ)۔
56
خشم مے آرد رضا را مے بَردبخل مے آرد سخا را مے برد
ترجمہ: (چنانچہ کبھی) وہ غصہ پیدا کر دیتا ہے (اور) خوشنودی کو زائل کر دیتا ہے (کبھی) بخل لاتا ہے (اور) سخاوت کو دور کر دیتا ہے۔
57
گہ برد حقد و صفا آرد ہمےبدرود عجز و عطا کارد ہمے
ترجمہ: کبھی کینہ کو زائل کرتا ہے اور صاف دلی لاتا ہے (کبھی) کم ہمتی کو قطع کرتا ہے اور عطا (و ہمت) کو کاشت کرتا ہے۔
58
نیم لحظہ مُدرکاتم شام و غدوہیچ خالی نیست زیں اثبات و محو
ترجمہ: (غرض) شام و صبح آدھا لحظہ بھی میرے قوائے دماغیہ اس لکھنے اور مٹانے سے بالکل خالی نہیں۔
59
کوزه گر با کوزه باشد کارسازکوزه از خود کے شود پہن و دراز
ترجمہ: (اس تبدیلِ ادرکات سے وجودِ صانع کا پتا ملتا ہے۔ چنانچہ) کوزہ گر کوزہ کے ساتھ صنعت گری کرتا ہے (تو کوزہ تیار ہوتا ہے ورنہ) کوزہ از خود کب لمبا چوڑا بن سکتا۔
60
چوب در دستِ دروگر معتکفورنہ چُوں گردد بریده و مؤتِلف
ترجمہ: لکڑی بڑھئی کے ہاتھ میں ٹھکانا کئے ہوئے ہے (جو اس کی صنعت سے میز کرسی اور صندوق وغیره کی شکل اختیار کر رہی ہے) ورنہ وہ از خود کیونکر چرتی (اور کٹتی) اور وصل پاتی۔
61
جامہ اندر دستِ خیّاطے بودورنہ از خود چوں بدوزد یا دَرَد
ترجمہ: کپڑا درزی کے ہاتھ میں ہوتا ہے (جبھی تو سِل سلا کر تیار ہو جاتا ہے) ورنہ از خود (اپنے آپ کو) کیونکر سیئے یا قطع کرے۔
62
مَشک با سقّا بود اَے منتہیورنہ از خود چُوں شود پُر یا تہی
ترجمہ: (اے تحقیقات کی) انتہا کو پہنچنے والے! مَشک سقّے کے ساتھ ہوتی ہے (اس لیے وہ پانی سے پُر ہو جاتی ہے اور خالی بھی) ورنہ از خود پُر یا خالی کیونکر ہو۔
63
ہر دمے پر میشوی تہی میشویپس بدانکہ در کفِ صنعِ وئی
ترجمہ: (اسی طرح جب) تو ہر دم (مختلف خیالات و عزائم سے) پُر ہو جاتا ہے (اور کبھی) خالی ہو جاتا ہے تو سمجھ لے کہ تو اس کے دستِ صنعت میں ہے۔
64
چشم بند از چشم دوز آگہ بودصنع از صانع چساں پیدا شود
ترجمہ: آنکھ بند کر لینے والا، سلی ہوئی آنکھ والے سے (پھر بھی کسی قدر) آگاہ ہے (کہ) صانع کی صنعت کیونکر ظاہر ہوتی ہے۔
مطلب: چشم بند اور چشم دوز سے مبتدی مراد ہے۔ مگر چشم بند آنکھ کھولنے پر قادر ہے اس لیے وہ ترقی کر سکتا ہے اور چشم دوز سے فاسدُ الاستعداد مراد ہے، اس کی چشمِ بصیرت نہیں کھل سکتی، نہ وہ ترقی کرسکتا ہے۔ بحرُ العلوم کے متن میں پہلا مصرعہ یوں لکھا ہے: "چشم بند از چشم دوزی کے رود" پھر لکھتے ہیں کہ "چشم بند" سے مراد "صانعِ چشم" ہے جیسے کہ "نقشبند"۔ یہ شیخ افضل نے کہا ہے۔ اور "چشم دوزی" یائے مصدر کے ساتھ ہے۔ حاصل یہ کہ صانع آنکھ کو سی لینے کی وجہ سے کب جا سکتا اور کب اپنی صنعت سے غافل ہوسکتا ہے۔ منہج القوی کا متن یوں ہے: "چشم بند از چشم روزے کہ رود" اور اس کا مطلب یوں لکھا ہے کہ جس روز تیری آنکھ پر سے وہم و شک کی پٹی کھل جائے گی تو پھر دیکھ لے گا کہ صانع سے صنعت کیونکر ظاہر ہوتی ہے۔ بہر کیف یہ مبتدیِ بصیرت کا ذکر تھا۔ آگے منتہی فی البصیرت کو ارشاد ہے۔
65
چشم داری تو بچشمِ خود نگرمنگر از چشمِ سفيہِ بے خبر
ترجمہ: تو (بفضلہٖ تعالیٰ) آنکھ رکھتا ہے تو اپنی آنکھ سے دیکھ اور کم عقل نادان کی آنکھ سے مت دیکھ (جس کے پاس نہ عقلی دلیل ہے نہ نقلی۔ سفیہ عقلی دلائل سے تہی دست اور بے خبر نقلی دلائل سے بے بہرہ ہوتا ہے)۔
66
گوش داری تو بگوشِ خود شنوگوشِ گولاں را چرا باشی گرو
ترجمہ: تو کان رکھتا ہے اپنے کان سے سُن۔ بے وقوف لوگوں کے کان کا گرویدہ کیوں ہے (یعنی جہلاء کی سُنی سنائی باتوں کا پابند کیوں ہو جاتا ہے یا اپنے کان جہلاء کے سے کیوں بنا رکھے ہیں)۔
67
بے ز تقلیدے نظر را پیشہ کُنہم بہ راے و عقلِ خود اندیشہ کن
ترجمہ: کسی (کی) تقلید کے بدون (خود) غور و فکر کرنے کا طریقہ اختیار کر۔ نیز اپنی رائے اور عقل سے سوچا کر۔
68
بشنو از من یک حکایت در نظیرتا شوی از سرِّ گفتِ من خبیر
ترجمہ: (اس کی) نظیر میں مجھ سے ایک کہانی سن لے، تاکہ تو میری بات کے راز سے آگاہ ہو جائے۔
انتباہ: ذکر یہ تھا کہ لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر جانا نہیں چاہیے کچھ اپنے فکر و قیاس اور عقل و دانائی سے بھی کام لینا چاہیے۔ اس کی نظیر میں خوارزم شاہ کا قصّہ ارشاد ہے۔ اس کو ایک امیر کا گھوڑا جو نہایت اعلیٰ نسل کا تھا پسند آ گیا، اور قریب تھا کہ اس سے جبراً چھین لے۔ اس امیر نے وزیرِ سلطنت عماد الملک کی خدمت میں منّت سماجت کی کہ خدارا اس آفت کو کسی طرح ٹالیں۔ عماد الملک نے بادشاہ کے سامنے اس گھوڑے کی ایسی برائی کی کہ اس کا شوق مردہ پڑ گیا۔ نتیجہ یہ کہ بادشاہ کی نظر تحقیقی راست بیں تھی یعنی ایک اچھے گھوڑے کا شوق پیدا کر رہی تھی، اور نظرِ تقلیدی نے اس کو غلط بیں بنا دیا اور ایک اچھی چیز کو اس کی نظر میں بُرا ظاہر کیا۔ وجہِ تشبیہ اصل بحث اور اس قصے میں اسی قدرہے۔ باقی یہ بات جدا ہے کہ بادشاہ کی نظرِ تحقیقی جو صحیح تھی اس کو ایک غصب اور ظلم کی طرف لے جا رہی تھی اور اس نظرِ تقلیدی نے غلط ہونے کے باوجود ان معاصی کے ارتکاب سے اس کو بچا لیا۔