دفتر 6 حکایت 105: خوارزم شاہ کا بحالتِ سیر اپنے جلو کے سواروں میں ایک عمدہ گھوڑے کا دیکھنا، اور اس گھوڑے پر اس کا دل آ جانا اور عماد الملک کا اس کو بادشاہ کے دل سے اتار دینا، اور بادشاہ کا اس کی بات کو بسر و چشم مان لینا۔ جیسے کہ حکیم (سنائی) ""الٰہی نامہ"" میں کہتا ہے کہ: ""جب حسد کی زبان دلّال بن جائے تو یوسف میں اور روئی میں فرق نہیں سمجھتے"" برادرانِ یوسف کی دلالی سے خریداروں کے دل میں (ان کا) حُسن اس قدر ناپید ہوا کہ: (فرمایا) اور وہ ان کی خریداری پر راغب نہ تھے

دفتر ششم: حکایت: 105



دیدنِ خوارزم شاه در سیران در موکبِ خود اسپِ نادر و تعلّقِ او بآں اسپ و سرد کردنِ عماد الملک آں را از دلِ شاہ و گزیدن شاہ گفتِ او را بر دیدۂ خود۔ چنا نکہ حکیم در الٰہی نامہ گوید

چوں زبانِ حسد شود نخّاس

نشاسند یوسف از کرپاس

از دلالیِّ برادرانِ یوسف در دلِ مشتریاں چنداں حُسن پوشیده شد کہ:

﴿وَ كَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ (یوسف: 20)

خوارزم شاہ کا بحالتِ سیر اپنے جلو کے سواروں میں ایک عمدہ گھوڑے کا دیکھنا، اور اس گھوڑے پر اس کا دل آ جانا اور عماد الملک کا اس کو بادشاہ کے دل سے اتار دینا، اور بادشاہ کا اس کی بات کو بسر و چشم مان لینا۔ جیسے کہ حکیم (سنائی) "الٰہی نامہ" میں کہتا ہے کہ:

"جب حسد کی زبان دلّال بن جائے تو یوسف میں اور روئی میں فرق نہیں سمجھتے"

برادرانِ یوسف کی دلالی سے خریداروں کے دل میں (ان کا) حُسن اس قدر ناپید ہوا کہ: (فرمایا) "اور وہ ان کی خریداری پر راغب نہ تھے"۔

1

بود امیرے را یکے اسپِ گزیں در گلۂ سلطان نبودش یک قریں

ترجمہ: ایک امیر کے پاس ایک عمدہ گھوڑا تھا جس کے جوڑ کا سلطان کے گلے میں ایک (بھی) نہ تھا۔

2

او سوارہ گشت در موکب پگاہ ناگہاں دید اسپ را خوارزم شاہ

ترجمہ: وہ (امیر) شاہی جلو کے سواروں میں صبح کے وقت سوار ہوا تو اچانک خوارزم شاہ نے گھوڑے کو دیکھ لیا۔

3

چشمِ شہ را فرّ و رنگِ او ربُود تا برجعت چشمِ شہ بر اسپ بُود

ترجمہ: اس کی شان اور رنگ نے بادشاہ کی آنکھ کو فریفتہ کرلیا اور واپسی تک بادشاہ کی نظر گھوڑے پر تھی۔

4

بر ہر آں عضوے کہ افگندے نظر ہر یکش خوشتر نمودے زاں دگر

ترجمہ: وہ (اس گھوڑے کے) جس عضو پر نظر ڈالتا، ایک سے ایک بہتر دکھائی دیتا۔

5

غیرِ چستی و گشتی و روحنت حق برو افگند بُد نادر صفت

ترجمہ: علاوہ چستی اورخوبصورتی اور باد پائی کے حق تعالیٰ نے اس پر اور بھی عمدہ صفتیں ڈالی تھیں۔

6

پس تجسُّس کرد عقلِ بادشاہ کایں چہ باشد کو زند بر عقل راه

ترجمہ: تو بادشاہ کی عقل نے (بہت) ٹٹولا کہ یہ کیا بات ہے جو وہ گھوڑا عقل پر رہزنی کر رہا ہے۔

7

چشمِ من پُر ست و سیر ست و غنی از دو صد خورشید دارد روشنی

ترجمہ: (حالانکہ) میری آنکھ پُر ہے اور سیر ہے اور غنی ہے اور دو سو آفتاب سے روشنی رکھتی ہے۔

8

اے رُخِ شاباں بَر من بیذقے نِیم اسپم در رُباید بے حقے

ترجمہ: ارے بادشاہوں (کے جاہ و جلال) کا رُخ تو میرے سامنے ایک پیادہ ہے، پھر ایک ناچیز گھوڑا ناحق مجھے فریفتہ کر رہا ہے۔

9

جادُوے کردست جادُو آفریں جذبہ باشد آں نہ خاصیّاتِ ایں

ترجمہ: (ہو نہ ہو یہ تو) جادو آفریں نے جادو کر دیا (یہ رسی کا) جذب ہے نہ کہ اس (گھوڑے) کی خاصیتیں۔

10

فاتحہ خواند و بسے لاحَول کرد فاتحہ اش در سینہ مے افزود درد

ترجمہ: (اور اس شیفتگی کو دُور کرنے کے لیے) اس نے فاتحہ پڑھی اور بہت لاحول کی (مگر) اس کی فاتحہ اُلٹا اس کے سینے میں درد (طلب) کو ترقی دیتی تھی (فاتحہ اش کا تلفظ بمثل فاتحش ہونا چاہیے)۔

11

زانکہ او را فاتحہ خود میکشید فاتحہ در جرّ و دفع آمد وحید

ترجمہ: کیونکہ فاتحہ والا تعالیٰ شانہٗ ہی اس کو کھینچ رہا تھا، فاتحہ والا کھینچنے اور ہٹانے (کی قوت و قدرت) میں یکتا ہے (یعنی بادشاہ کے دل کا یہ میلان بتقدیرِ الٰہی تھا)۔

12

گر نماید غیر ہم تمویہِ او ست در رود غیر از نظر تنبیہِ او ست

ترجمہ: (چنانچہ) اگر وہ غیر کو جلوہ گر کرتا ہے تو یہ (جر ہے اور) اس کی طمع سازی ہے (جو بندہ کے لیے ایک سخت امتحان ہے کہ غیر حسین، حسین معلوم ہو کر باعثِ فریفتگی بن جاتا ہے) اور اگر غیر (کسی کی) نظر سے جاتا رہے تو (وہ دفع ہے اور) اس کا تنبیہ کرنا ہے (کہ وہ از راہِ کرم اس کے غیر مستحسن ہونے پر آگاہ کر دیتا ہے)۔

13

پس یقین گشتش کہ جذبہ آں سری ست کارِ حق ہر لحظہ نادر آوری ست

ترجمہ: تو اس کو یقین ہو گیا کہ یہ اس طرف کی کشش ہے۔ حق تعالیٰ کا کام ہر لحظہ نادر (چیزوں کو ظہور میں) لانا ہے۔

14

اسپِ سنگیں گاوِ سنگیں ز ابتلا مے شود مسجود از فکرِ خُدا

ترجمہ: (چنانچہ) پتھر کا گھوڑا (اور) پتھر کا بیل (مشرکوں کے بلائے شرک میں) مبتلا ہونے کے سبب سے خدا کی تدبیرِ خفی سے (ان کے مندروں میں) پوجا جانے لگتا ہے۔

15

پیشِ کافر نیست بت را ثانئے نیست بُت را فرّ و نے روحانئے

ترجمہ: (حتٰی کہ) کافر کے نزدیک بُت کا کوئی ثانی نہیں (ہوتا، حالانکہ) نہ بت میں کوئی ظاہری عظمت ہے اور نہ کوئی روحانی (صفت) ہے۔

16

چیست آں جذبِ نہاں اندر نہاں در جہاں تابنده از دیگر جہاں

ترجمہ: وہ جاذبِ خفی در خفی کیا ہے (جو) اس جہان میں نمایاں (ہے) دوسرے جہاں سے (آگے اس سوال کا جواب ہے):

17

عقل محُجوب ست و جاں ہم زیں مکیں مے نمے بینم تو مے تانی ببیں

ترجمہ: عقل اور روح (دونوں) اس پوشیده (راز) سے پردے میں ہیں۔ میں تو (اس کو) نہیں دیکھ سکتا، اگر تو دیکھ سکتا ہے تو دیکھ لے۔

مطلب: اس جذب کا راز معلوم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ تقدیر سے متعلق ہے اور تقدیر کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں بلکہ تمام دیگر مذاہبِ عالم بھی اس کی حقیقت بیان کرنے اور اس کے متعلق سائل کی تشفی کر دینے سے عاجز و قاصر ہیں، یہ خاص اسرارِ خداوندی سے ہے۔ اسی لیے اس میں خوض کرنے سے نہی وارد ہے (کَذَا سَمِعْتُ عَنْ اُسْتَاذِیْ مَوْلَوِیْ، مُفْتِیْ عَبْدُ اللّٰہِ تونکی فِیْ اِثْنَاءِ دَرْسِ الْحَدِیْثِ

18

چونکہ خوارم شہ ز سیراں بازگشت با خواصِ مُلکِ خود ہم راز گشت

ترجمہ: جب خوارزم شاہ سیر سے واپس آیا (اور) اپنے خواصِ سلطنت کے ساتھ ہمراز ہوا۔

19

پس بسرہنگاں بفرمود آں زماں تا بیارند اسپ را زاں خانداں

ترجمہ: تو اس وقت سپاہیوں کوحکم دیا کہ اس (امیر کے) گھر سے گھوڑا لے آئیں۔

20

ہمچو آتش در رسیدند آں گروه ہمچو کاہے گشت امیر ہمچو کوہ

ترجمہ: وہ لوگ آگ کی طرح (جوش و خروش کے ساتھ) جا پہنچے۔ امیر (جو اپنی شان و شکوہ میں) مثلِ کوہ (تھا، ان کی چڑھائی دیکھ کر گھاس کے) ایک تنکے کی مانند (بے حقیقت) بن (کر رہ) گیا (کیونکہ اس نے دیکھا کہ یہ خاص شاہی سرہنگ ہیں۔ ان کا یوں آنا خطرے سے خالی نہیں)۔

21

جانش از درد و حنیں تا لب رسید جُز عماد الملک زنہارے ندید

ترجمہ: (پھر گھوڑے کے متعلق پیغامِ شاہی سن کر) اس کی جان درد و نالہ سے لب تک آ پہنچی۔ عماد الملک کے سوا اس کو کوئی پناہ نظر نہ آئی (کہ وہی اس مصیبت کو میرے سر سے ٹال سکتا ہے)۔

22

کہ عماد الملک بُد پائے علَم بہرِ ہر مظلوم و ہر مغبُونِ غم

ترجمہ: کیونکہ عماد الملک (اس عہد میں) مرجعِ عام تھا ہر مظلوم اور غم کے زیان رسیدہ کے لیے۔

23

محترم تر خود نبُد زو سرورے پیشِ سُلطاں بُود چوں پیغمبرے

ترجمہ: کوئی سردار اس سے بڑھ کر معزز نہ تھا۔ وہ بادشاہ کے سامنے اس طرح (با عزت تھا) جیسے (خدا کی جناب میں) پیغمبر۔

24

بے طمع بود و اصیل و پارسا رائض و شب خیز و حاتم در سخا

ترجمہ: بے طمع تھا اور خاندانی اور پرہیزگار۔ ریاضت کرنے والا اور راتوں کو جاگنے والا اور سخاوت میں (مثلِ) حاتم (تھا)۔

25

بس ہمایُوں راے و با تدبیر و داد آزمودہ راے او در ہر مراد

ترجمہ: بڑا مبارک رائے والا اور تدبیر و انصاف والا۔ ہر مراد میں اس کی تدبیر آزمائی جا چکی تھی۔

26

ہم بَبذْلِ جاں سخی و ہم بمال طالبِ خورشیدِ غیب او چوں ہلال

ترجمہ: وہ جان دے دینے میں بھی سخی تھا اور مال میں بھی (کیونکہ) وہ ہلال کی طرح آفتابِ غیب کا طالب تھا۔

مطلب: وہ شجاع بھی ویسا تھا کہ جان کی پروا نہ کرتا تھا اور مال میں بھی سخی تھا۔ کیونکہ وہ حق تعالیٰ کا طالب تھا اور طالبِ حق کو جان و مال کی پروا نہیں ہوتی۔ خورشیدِ غیب سے حق تعالیٰ مراد ہے، ہلال یعنی ماہِ نو کو آفتاب کا طالب اس لیے کہا کہ چاند کی روشنی آفتاب کی بدولت ہے "نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ" پھر چاند سورج کا محتاج ہوا اور محتاج اپنے محتاج الیہ کا طالب ہوتا ہے۔

27

در امیری او غریب و مُحْتبَس در صفاتِ فقر و خُلّت ملتبس

ترجمہ: وہ امیری میں (بھی) غریب (مزاج) اور (شرافت کا) پابند (تھا) درویشی اور(حق تعالیٰ کی) دوستی کی صنعتوں میں ملبوس (تھا)۔

28

بود ہر محتاج را ہمچوں پِدر پیشِ سلطان شافع و دفعِ ضرر

ترجمہ: وہ ہر محتاج کے لیے (شفقت و دستگیری میں) بمنزلہ والد تھا۔ بادشاہ کے حضور میں (ان کی) سفارش کرنے والا اور (سزا و عقوبت کے) ضرر کا دور کرنے والا (تھا)۔

29

مر بداں را ستر چُوں حِلمِ خدا خُلْقِ او برعکس خَلقاں و جُدا

ترجمہ: (وہ) برے لوگوں کے لیے حلمِ خدا کی طرح پرده (پوش تھا) اس کے اخلاق (مخلوقات کے بر عکس اور جدا گانہ تھے (مخلوقات میں جو خود غرضی، بخل، نفاق وغیرہ رذائل ہیں اس میں نہ تھے)۔

30

بار ہا مے شد بُسوے کوہ فرد شاہ با صد لابہ او را منع کرد

ترجمہ: (بہادر ایسا تھا کہ) بارہا تنہا پہاڑ کی طرف چلا جایا کرتا تھا (جہاں مختلف قسم کے خطرات ہوتے ہیں) بادشاہ نے صدہا خوشامد کے ساتھ اس کو (وہاں جانے سے) منع کیا۔

31

ہر دم ار صد جرم را شافع شدے  چشمِ سُلطاں را ازو شرم آمدے

ترجمہ: (بادشاہ کے دل میں اس کی جگہ اس قدر تھی کہ) اگر وہ سینکڑوں جرموں کی سفارش بھی کرتا تو بادشاہ کی آنکھ اس سے شرما جاتی۔

32

رفت او پیشِ عماد الملک راد سر برہنہ کرد و برخاک اوفتاد

ترجمہ: (غرض) وہ (امیر) عماد الملک جوانمرد کے پاس گیا، سر ننگا رکھا اور زمین پر گر پڑا۔

33

کہ حرم با ہرچہ دارم گو بگیر تا بگیرد حاصلم را ہر مُغیر

34

آں یکے اسپ ست جانم رہنِ اوست گر برد مُردم یقیں اے خیر دوست

ترجمہ: (اور کہا) کہ کنیزِ خاص مع ہر چیز کے جو میں رکھتا ہوں (بادشاہ سے) کہہ دیجیے (کہ) وہ لے لے (اس طرح سے کہ وہ حکم دے دے) تاکہ میرے (تمام) موجودہ مال کو ہر لوٹنے والا ضبط کر لے (صرف) وہ ایک گھوڑا (ایسا) ہے (کہ) میری جان اس میں اٹکی ہوئی ہے۔ اگر وہ (اس کو) لے لے گا تو اے بہترین دوست میں یقیناً زنده نہ رہوں گا ("حرم" منکوحہ بی بی اور موطوءہ کنیز دونوں کے لیے مستعمل ہے، مگر یہاں معنٰیِ ثانی مناسب ہیں کیونکہ ایک شریف آدمی کے لیے اس کا اپنی منکوحہ بی بی کو کسی غیر کی مِلک کرنا خلافِ غیرت ہے۔)

35

چُوں خدا پیوستگی ات دادہ است بر سرم مال اے مسیحا زود دست

ترجمہ: جب خداوند تعالیٰ نے آپ کو (بادشاہ کا) قرب عطا فرمایا ہے تو اے مسیحا جلدی میرے سر پر (دلداری و شفقت کا) ہاتھ پھیرو۔ (حضرت مسیح علیہ السّلام بیماروں کے سر ہاتھ پھیرتے تو وہ تندرست ہو جاتے تھے۔ یہاں وہ امیر بطور تشبیہ کہتا ہے کہ آپ جو میرے لیے بمنزلۂ مسیح ہیں، میرے سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے اس مصیبت کے مرض سے نجات دلائیں۔)

36

از زن و زر و عقارم صبر ہست ایں تکلُّف نیست بے تزویری ست

ترجمہ: مجھے عورت اور زر اور جائیداد سے صبر آ سکتا ہے (مگر اس گھوڑے سے صبر نہیں ہو سکتا) یہ بناوٹ نہیں (بلکہ) صاف گوئی ہے۔

37

اندریں گر مے نداری باورم امتحاں کن امتحاں گفت و فرّم

مطلب: اگر اس (بارہ) میں آپ کو میرا یقین نہیں کرتے تو امتحان کر لیجئے (یعنی) میرے قول اور سچائی کا امتحان۔

38

آں عماد الملک گریاں چشم مال پیشِ سُلطان در دوید آشفتہ حال

ترجمہ: وہ (وزیر) عماد الملک روتا ہوا آنکھیں ملتا ہوا بادشاہ کے سامنے پریشان حال دوڑا گیا۔

39

لب بہ بست و پیشِ سلطان ایستاد راز گویاں با خدا رب العباد

ترجمہ: لب بند کر لیے اور بادشاہ کے حضور میں کھڑا ہو گیا خداوندِ پروردگارِ بندگان سے مناجات کرتا ہوا۔

40

ایستاده رازِ سُلطاں مے شنيد و اندراں اندیشہ اش ایں مے تنید

ترجمہ: وہ کھڑا ہوا بادشاہ (کی باتوں سے اس کے) ما فی الضمیر کو تاڑ رہا تھا اور اس اثنا میں اس کی قوّتِ فکریہ (مناجات کا) یہ (مضمون) تیار کر رہی تھی۔

41

کاے خدا گر آں جواں کژ رفت راه کہ نشاید ساختن جُز تو پناه

ترجمہ: کہ اے خدا اگر یہ جوان (امیر اپنی اس مہم کو میرے سپرد کرنے میں) ٹیڑھا راستہ چلا ہے۔ کیونکہ تیرے سوا کسی اور کو پناہ بنانا نہیں چاہیے۔

42

توازنِ خود بکن بر وَے مگیر گرچہ او خواہد خلاص از ہر اسیر

ترجمہ: تو تو (اس کے ساتھ) اپنی شان کا سا معاملہ کر، اس پر مؤاخذہ نہ کر۔ اگرچہ (اس کا مجھ سے مدد چاہنا ایسا ہی ہے گویا کہ) وہ ہر قیدی (کی مدد) کے ساتھ (قید سے) خلاصی چاہتا ہے۔ (مخلوق تو خود اسیرِ احتیاج ہے اس سے خلاصی کی درخواست سراسر حماقت ہے۔ آگے یہی ارشاد ہے۔):

43

زانکہ محتاجند ایں خلقاں ہمہ از گداے گیر تا سلطاں ہمہ

ترجمہ: اس لیے کہ یہ تمام مخلوقات (خود) محتاج ہیں۔ فقیر سے لے کر بادشاہ تک سب کو دیکھ لو (آگے اس بات کی تفصیل ہے کہ "نشاید ساختن جز تو پناہ"):

44

با حضورِ آفتابِ باکمال رہنمائی جُستن از شمع و ذبال

45

با حضورِ آفتابِ خوش مساغ رہنمائی جُستن از شمع و چراغ

46

بیگُماں ترکِ ادب باشد ز ما کُفرِ نعمت باشد و فعلِ ہوا

ترجمہ: آفتابِ باکمال کی موجودگی میں شمع اور بتی سے رہنمائی چاہنا، آفتابِ خوش رفتار کی موجودگی میں شمع اور چراغ سے رہنمائی تلاش کرنا، بے شبہ ہمارا ترکِ ادب ہے، کفرانِ نعمت ہے، اور ہوائے (نفس) کا فعل ہے۔

47

لیک اغلب ہوشہا در افتکار ہمچو خُفّاشند ظلمت دوستدار

ترجمہ: (بے شک یہ گستاخی قابلِ مؤاخذہ ہے) لیکن (سبب اس کا یہ ہے کہ) اکثر عقلیں فکر کرنے میں چمگادڑ کی طرح ظلمت پسند واقع ہوئی ہیں۔

مطلب: یعنی وہ عقلیں فکر کرنے کے باوجود اسباب ہی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں جو بمنزلۂ ظلمت ہیں۔ اسی لیے ان کی طرف مائل ہونے والی عقلوں کو خفّاش سے تشبیہ دی ہے۔ گو ان اسباب کے مسبّب پر ایمان اور عقیدہ ہو مگر اس پر نظر نہیں جاتی۔ اور آفتاب کی خفاش پر اس قدر نظر رحمت ہے کہ:

48

در شب ار خُفّاش کِرمے میخورد کِرم را خورشید ہم مے پرورد

ترجمہ: شب میں اگر چمگادڑ کوئی کِرم کھا (کر گزارہ کرتی) ہے تو (اس) کِرم کو آفتاب ہی پرورش کرتا (اور چمگادڑ کی خوراک کا انتظام فرماتا) ہے (ایسی چیزیں حرارت سے بواسطہ عفونت پیدا ہو جاتی ہیں)۔

49

در شب ار خُفّاش کِرمے ست مست کِرم از خورشید جنبیدہ شدہ است

ترجمہ: شب میں اگر چمگادڑ کرم کے مل جانے سے مست (و شاداں) ہے تو (وہ) کرم آفتاب (ہی کے فیض) سے پیدا (ہو کر متحرک) ہوا ہے۔

50

آفتابے کہ ضیا زو میزہد دُشمنِ خود را نوالہ مے دہد

ترجمہ: (دیکھو) وہ آفتاب جب سے نور جوش زن ہے وہ اپنے مخالف (چمگادڑ) کو بھی خوراک دیتا ہے (یعنی کہاں آفتابِ پُر انوار اور کہاں خفاش مونسِ شب تار، مگر آفتاب اس کی اس ضدّیت و مخالفت کے باوجود اس کا معاون ہے)۔

51

نے کہ خُفَّاشے کہ او رہ گم کند آخر از خورشید ہم یابد سند

ترجمہ: کیا یہ بات نہیں ہے کہ جو خفاش (طبع آدمی) گمراہ ہو جائے (کہ خدا کو چھوڑ کر غیر سے التجا کرے تو) آخر و ہ بھی خورشیدِ (حقیقی) ہی سے سہارا پاتا ہے (ٹھیک یہی بات ہے)۔

مطلب: بالکل ظاہر ہے کہ جو لوگ مسبّب کو چھوڑ کر محض اسباب پر بھروسہ کرتے ہیں ان کے رزق کا سامان وہی مسبّب الاسباب تعالیٰ شانہٗ ہی کرتا ہے۔ وہ ان کی اس گمراہی سے ناراض ہو کر روٹی بند نہیں کرتا، بلکہ اُن سے بڑھ کر جو لوگ فاسق و فاجر اور مشرک و کافر ہیں ان کی تمام مہمّات بھی اس کے فضل و کرم سے سر انجام پاتی ہیں۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

اگر با پدر جنگ جوید کسے پدر بیگُماں خشم گیرد بسے

و لیکن خداوندِ بالا و پست بعصیاں درِ رزق بر کس نہ بست

و لہٗ ؎

خدائے را است مسلّم بزرگواری و حلم کہ جرم بیند و نان برقرار مے دارد

خلاصۂ تقریر یہ ہوا کہ حق تعالیٰ کا معاملہ بھی آفتاب کی مانند ہے۔ پس اس کے اس معاملہ کی بنا پر یہ التجا کرنے کی جرأت ہوئی کہ اس نوجوان امیر کے معبود کو چھوڑ کر ایک عبد سے التجا کرنے پر غصہ نہ فرمایا جائے اور اس کی اس گمراہی کے باوجود اس کی کار برآری اب بھی معبودِ برحق ہی کا کام ہے۔ ان اشعار میں معاملۂ عوام کا بیان تھا کہ ان کے اسباب پر نظر رکھنے پر داروگیر نہیں ہوتی۔ اگر وہ حدِ شرعی کے اندر ہے تو آخرت میں بھی نہیں، اور اگر حد سے متجاوز ہے تو صرف دنیا میں سزا نہیں ہوتی۔ آگے بیان ہے معاملۂ خواص کا کہ ان کو باوجود حدِ شرعی سے متجاوز نہ ہونے کے مؤاخذہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے درجہ و منصب کے لیے خفیف سے خفیف غفلت بھی شایانِ شان نہیں۔

52

لیک شہبازے کہ او خُفّاش نیست چشم بازش راست بیں و روشنے ست

ترجمہ: لیکن جو شہباز (نورانیت پسند) کہ خفاش (کی طرح ظلمت گزیں) نہیں ہے (اور) اس کی آنکھ (انوارِ آفتاب میں) کھلی اور صحیح النظر اور روشن ہے۔

53

گر بشب جوید چو خُفّاش او نمو در ادب خورشید مالد گوشِ او

ترجمہ: اگر وہ شب (غفلت) میں خفاش کی طرح خروج کی طلب کرے تو آفتاب تادیب میں اس کی گو شمالی کر دیتا ہے (شب کے خروج سے یہ مقصد ہے کہ وہ دن کے وقت آفتاب سے اعراض کر کے صرف رات کو نکلے۔ آگے بیان ہے تادیب کا):

54

گویدش گیرم کہ آں خفاشِ لُد علّتے دارد تُرا بارے چہ شد

ترجمہ: وہ (آفتاب) اس (شہباز) سے کہے گا کہ وہ ضدی خفاش تو (باصرہ میں) کسر رکھتا ہے (اس لیے آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا) آخر تجھے کیا ہوا (کہ رات ہی کو نکلنے لگا)۔

55

مالِشت بدہم بر خبر و اكتياب تا نتابی سر دگر از آفتاب

مطلب: میں تجھے جھڑکی اور پریشان حالی کے ہاتھ سزا دوں گا تاکہ تو دوبارہ آفتاب سے سر نہ پھیرے۔

مطلب: چنانچہ ظاہر ہے کہ عوام سے اختیارِ مباحات پر مؤاخذہ نہیں ہوتا مگر خواص سے اس پر بعض اوقات مؤاخذات ہوتے ہیں ؎

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

آگے اس کی تائید میں حضرت یوسف علیہ السّلام کا قصہ ارشاد فرماتے ہیں کہ انہوں نے قید سے نکلنے کے لیے ایک قیدی سے استمداد کی اور خدا سے استمداد نہ کی تو اس پر بحکمِ حق وہ چند سال اور قید میں پڑے رہے: