دفتر 6 حکایت 106: حضرت یوسف صدیق علیہ السّلام پر چند سال کی قید کے ساتھ مؤاخذه غیرِ حق سے مدد چاہنے پر (جب کہ انہوں نے ایک قیدی سے کہا) کہ اپنے آقا کے پاس میرا بھی تذکرہ کرنا

دفتر ششم: حکایت: 106



مؤاخذۂ یوسف صدّیق علیہ السّلام بحبس بضعِ سنین بسبب یاری خواستن از غیرِ حق کہ ﴿اُذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ (یوسف: 42)

حضرت یوسف صدیق علیہ السّلام پر چند سال کی قید کے ساتھ مؤاخذه غیرِ حق سے مدد چاہنے پر (جب کہ انہوں نے ایک قیدی سے کہا) کہ "اپنے آقا کے پاس میرا بھی تذکرہ کرنا"

1

آنچنانکہ یوسفؑ از زندانیے با نیازِ خاضعے سعدانیے

مطلب: جیسے یوسف علیہ السّلام نے ایک قیدی سے جو (خود) با نیاز اور خاکسار اور مغلوبِ غم تھا۔

2

خواست یاری گفت چوں بیروں روی پیشِ شہ گردد اُمُورت مُستوی

ترجمہ: مدد چاہی (اور) کہا کہ جب تو (قید خانہ سے) باہر جائے اور بادشاہ کے نزدیک تیرے معاملات درست ہو جائیں۔

3

یادِ من کن پیشِ تختِ آں عزيز تا مرا ہم وا خرد زیں حبس نیز

ترجمہ: تو اس عزیز (مصر) کے تخت کے سامنے میرا (بھی) ذکر کر دینا تاکہ وہ مجھ کو اس قید سے چھڑا دے۔

مطلب: قصہ کا صرف اس قدر حصہ مقصودِ مقام تھا جو مذکور ہو چکا اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے: ﴿وَ قَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ فَاَنْسٰىهُ الشَّیْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ ”اور جس شخص کی نسبت یوسف علیہ السّلام نے سمجھا تھا کہ ان دونوں میں سے اس کی مخلصی ہو جائے گی۔ اس سے کہا کہ اپنے آقا کے پاس میرا بھی تذکرہ کرنا (کہ میں ناحق قید میں ہوں) تو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے (اس کا) تذکرہ کرنا بھلا دیا تو (یوسف علیہ السّلام) کئی برس قید خانہ میں رہے“ (سورہ یوسف: 42) تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ "اَنْسَاہُ" کی ضمیرِ مفعولی مرجع کے متعلق دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ ساقی کی طرف راجع ہے (جیسے کہ اوپر ترجمہ ہوا ہے) اور عامہ مفسّرین کا یہی قول ہے۔ جس سے معنٰی یہ ہوئے کہ شیطان نے ساقی کو بادشاہ کے پاس یوسف علیہ السّلام کا تذکرہ کرنا فراموش کرا دیا۔ یہ مفسرین کہتے ہیں کہ وسوسۂ شیطان کو اس ساقی آدمی سے منسوب کرنا اس سے بہتر ہے کہ اسے حضرت یوسف علیہ السّلام کے ساتھ منسوب کیا جائے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جو اکثر مفسّرین کا ہے کہ یہ ضمیر حضرت یوسف علیہ السّلام کی طرف راجع ہے اور معنٰی یہ ہیں کہ شیطان نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو اپنے پروردگار عزّوجل کی یاد فراموش کرا دی، حتّٰی کہ انہوں نے غیرِ خدا سے خلاصی کی خواہش کی اور ایک مخلوق سے مدد چاہی جو دفعِ ضرر میں خود انہی کی مثل تھا۔ یہ ایک تسامح تھا جو حضرت یوسف علیہ السّلام کو پیش آیا۔ گو دفعِ ضرر میں مخلوق سے مدد چاہنا جائز ہے لیکن چونکہ حضرت کا مقام اعلٰى المقامات اور ان کا رتبہ اشرف المراتب تھا اور وہ نبوت و رسالت کا منصب ہے۔ اس لیے ان کو اس پر مؤاخذه ہوا "فَاِنَّ حَسَنَاتِ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتِ الْمُقَرَّبِيْنَ" اگر سوال کرو کہ یوسف علیہ السّلام پر شیطان کو فراموشی طاری کرنے کی قدرت کیونکر ہوئی، تو جواب یہ ہے کہ شغلِ خاطر اور القائے وسوسہ سے۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ شیطان انسان کی رگ رگ میں پھرتا ہے لیکن نسیان جس سے مراد یاد آوری کا ترک اور قلب سے اس کا ازالہ ہے، قدرت سے باہر ہے۔ (آگے لکھا ہے) کہ نبی صلّی اللہ علیہ و سلّم سے مرفوعاً مروی ہے کہ "رَحِمَ اللّٰهُ يُوْسُفَ، لَوْلَا كَلِمَةُُنِ الَّتِیْ قَالَهَا مَا لَبِثَ فِی السِّجْنِ مَا لَبِثَ، یَعْنِیْ قَوْلَهٗ: اُُذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ " ”یعنی آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا کہ اللہ یوسفؑ پر رحم کرے، اگر انہوں نے کلمہ نہ کہا ہوتا جو انہوں نے کہہ دیا تو قید خانہ میں اس قدر قید نہ بھگتتے جو انہوں نے بھگتی۔ کلمہ سے مراد یہ قول ہے کہ اپنے آقا کے پاس میرا تذکرہ کرنا۔ (پھر آگے لکھا ہے) مروی ہے کہ جبریل علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ السّلام کے پاس قید خانہ میں آئے تو یوسف علیہ السّلام نے کہا اے پیغمبروں کے رفیق! کیا بات ہے کہ تم مجرموں میں آئے ہو، تو جبرئیلؑ نے کہا اے طاہر ابنِ طاہر ابنِ طاہر رب العالمین آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آدمیوں کے پاس فریاد کرتے ہوئے تم نے میرا کچھ بھی لحاظ نہ کیا۔ میری عزّت و جلال کی قسم ہے کہ میں تم کو چند سال اور قید خانہ میں رکھوں گا۔ حضرت یوسف علیہ السّلام نے کہا تو کیا اس صورت میں وہ مجھ پر راضی ہے، کہا ہاں راضی ہے۔ تو انہوں نے کہا تو پھر مجھے قید میں رہنے کی کچھ پروا نہیں۔ (انتہٰی) آگے مولانا ہم عامۃ الناس کو بطور نصیحت فرماتے ہیں اس کو یوسف علیہ السّلام سے خطاب نہ سمجھا جائے تاکہ نبی پر کسی غیرِ نبی کے اعتراض کا محظور لازم نہ آئے۔

4

کے دہد زندانیے در اقتناص مردِ زندانیِ دیگر را خلاص

ترجمہ: (بھلا) ایک قیدی (جو خود) قید میں (پڑا رہا ہے) دوسرے قیدی آدمی کو کیا خلاصی دلائے گا۔

5

اہلِ دُنيا جُملگاں زندانی اند انتظارِ مرگِ دارِ فانی اند

ترجمہ: اہلِ دُنیا سب قیدی (کی طرح عاجز اور بے بس) ہیں (ان کے قیدی ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ) وہ دارِ فانی کی (قید سے خلاصی پانے کے لیے) موت کے منتظر ہیں (جب سب اہلِ دنیا قیدی ہیں اور ایک قیدی دوسرے قیدی کو رستگاری نہیں دلا سکتا تو نتیجہ یہ نکلا کہ اہلِ دنیا میں سے کوئی کسی کو خلاصی نہیں دلا سکتا۔)

6

جُز مگر نادر یکے فردانیے تن بزنداں جانِ اُو کیوانیے

ترجمہ: مگر سوائے کسی نادر و یکتا (مردِ حق) کے (جس کا) بدن زندان (دنیا) میں ہے (اور) اس کی روح عالمِ بالا سے تعلق رکھتی ہے (ایسا مردِ حق بحالتِ حیات بھی قیدِ دنیا سے خلاصی پا جاتا ہے تو ایسے حضرات سے استمداد جائز بلکہ محمود ہے خصوصاً امور دینیہ میں۔ کیوان یعنی ستاره زحل، فلک سابع پر ہے مراد عالمِ بالا)۔

7

پس جزائے آنکہ دید او را مُعیں ماند یوسفؑ حبس در بضعِ سنیں

ترجمہ: پس اس قصُور کی جزا میں کہ یوسف علیہ السّلام نے اس (قیدی ساقی) کو (اپنا) مددگار سمجھا وہ چند سال قید میں رہے۔

8

یادِ یوسفؑ دیو از عقلش سترد وزْ دلش دیو آں سخن از یاد بُرد

ترجمہ: شیطان نے حضرت یوسف علیہ السّلام کا خیال اس کے ذہن سے محو کر دیا اور اس کے دل سے شیطان نے وہ بات یاد سے نکال دی (یہ بیان تفسیر مندرجہ بالا کے قولِ اوّل کی بنا پر ہے)۔

9

زیں گنہ کامد ازاں نیکو خصال ماند در زنداں ز داور ہفت سال

ترجمہ: اس لغزش سے جو اس نیکو خصال (نبی) سے سرزد ہوئی وہ حق تعالیٰ (کے حکم) سے سات سال (اور) قید میں رہے۔

مطلب: یہ فعل جو حضرت یوسف علیہ السّلام سے سرزد ہوا تو یہ گناہ ہرگز نہیں تھا، کیونکہ اس میں نہ کوئی ارتکابِ منہی عنہ تھا اور نہ ترکِ مامور بہ۔ اس کو گناہ اس لیے کہا گیا کہ صبرِ مندوب اور انتظارِ وحی خصوصاً ایسے حادثہ میں اکملین و مقرّبین کا کام ہے اور یہ درخواست کہ بادشاہ سے میرا ذکر کر دینا صبر کے منافی نہیں بلکہ انہوں نے توکّل کے ساتھ اقامتِ اسباب کی طرف توجہ کی تھی لیکن چونکہ "حَسَنَاتُُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقُُرَّبِیْنَ" مسلّم ہے اس لیے اس فعل کو گناہ سے تعبیر کیا گیا ورنہ فی الواقع گناه نہ تھا۔ پس یہ فعل حضرت یوسف علیہ السّلام کی عصمت میں مخلّ نہیں۔ (بحر العلوم)

10

کہ چہ تقصیر آمد از خورشید داد تا تو چُوں خفاش افتی در سواد

ترجمہ: (اور ارشاد ہوا) کہ آفتاب سے (ضیا پاشی میں) کوئی کمی ہوئی جس سے تم خفاش کی طرح ظلمت میں پڑ جاؤ (خالق تعالیٰ کی امداد میں کیا کمی تھی جو مخلوق سے استمداد کی)۔

11

ہِیں چہ تقصیر آمد از بحر و سحاب تا تو یاری خواہی از ریگ و سراب

ترجمہ: ہاں (بتاؤ تو ہمارے فضل و کرم کے) دریا اور ابر کی طرف سے کیا کمی واقع ہوئی کہ تم ریت اور سراب سے مدد چاہنے لگے (سراب وہ چمکیلی ریت ہوتی ہے جو دور سے پیاسے مسافر کو موجزن پانی کا دھوکا دیتی ہے)۔

12

عام اگر خفاش طبعند و مجاز یوسفا داری تو آخر چشمِ باز

ترجمہ: عام لوگ اگر خفاش طبع اور مجاز (پرست) ہیں تو اے یوسف تم تو آخر آنکھ کھلی رکھتے تھے۔

13

گر خُفَّاشے رفت در کور و کبود باز سلطان دیده را بارے چہ بُود

ترجمہ: اگر کوئی خفاش بے بصری و تاریکی میں چلی گئی (تو تعجّب نہیں) مگر اس باز کو آخر کیا ہوا جو سلطان (کی پر انوار صحبت) کو دیکھے ہوئے ہے۔

14

پس ادب کردش بدیں جرم اوستاد کہ مساز از چوبِ بوسیدہ عماد

ترجمہ: پس اس لغزش پر ان کو مصلح (حقیقی) نے تادیب فرمائی کہ (آیندہ کو) بوسیدہ لکڑی سے ستون مت بنانا۔

15

لیک یوسف را بخود مشغول کرد تا نیابد در دلش زاں حبس درد

ترجمہ: لیکن (چونکہ اس حالت میں بھی) یوسف علیہ السّلام (اللہ کو محبوب تھے اس لیے ان) کو اپنے (انوارِ تجلیات) میں مستغرق کر لیا تاکہ ان کے دل میں اس قید سے کلفت نہ ہو۔

16

آنچنانش اُنس و مستی داد حق کہ نہ زندان یادش آمد نے غَسق

ترجمہ: ان کو حق تعالیٰ نے ایسا انس اور سکر عطا فرمایا کہ ان کو نہ قید خانہ کا خیال آیا نہ تاریکی کا (آگے اس استبعاد کو دفع فرماتے ہیں کہ زندان اور اس کی تاریکی میں کوئی کیونکر خوش رہ سکتا ہے)۔

17

نیست زندانے وحش تر از رَحِم ناخوش و تاریک و پُرخوں و وخم

ترجمہ: رحم (مادر) سے زیادہ کوئی قید خانہ وحشتناک نہیں ہے (کہ بڑا) ناخوش اور تاریخ اور پُرخون اور ناگوار (ہے)۔

18

چُوں کشادت حق دریچہ سُوئے خویش در رحم ہر دم فزاید تَنْت بیش

ترجمہ: (لیکن) چونکہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے اپنی طرف ایک دریچہ کھول دیا ہے تو رحم میں ہر وقت تیرا جسم زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے (جنین پر اس وقت منجانب اللہ ایک طمانینت نازل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پورے ایام تک رحم میں مستقر رہتا ہے، اس طمانینت کو دریچہ سے تعبیر کیا ہے)۔

19

اندراں زنداں ز ذوقِ بیقیاس خوش شگفت از عُرسِ جسمِ تو حواس

ترجمہ: (اور) اسی زندان (رحم) میں بے حساب ذوق کی وجہ سے تیرے جسم سے (تیرے) حواس (کے پھول) شگفتہ ہو گئے۔

20

زاں رحم بیروں شدن بر تو درشت مے گریزی از زِہارش سُوے پُشت

ترجمہ: اس رحم (کی اندھیری کوٹھڑی) سے نکلنا تجھ پر گراں ہو گیا (کہ) تو (بوقتِ قرب ولادت کبھی کبھی) اس (حاملہ) کی شرم گاہ سے (اس کی) پشت کی طرف بھاگنے لگتا ہے۔

مطلب: یعنی بچہ رحم کے بالائی حصے میں جو پشت کے محاذی ہے چڑھ جاتا ہے چنانچہ تولّد کے وقت کبھی ایسا ہوتا ہے۔ اس سے تولّد میں توقف واقع ہوتا ہے جو باعثِ خطر ہے۔ اس لیے دائی عموماً اس وقت زچہ کے پیٹ کو رحم کے مقام سے دبائے رکھتی ہے۔

21

راهِ لذت از دروں داں نز بُروں ابلہی داں جُستنِ قصر و حصُوں

ترجمہ: لذت کا راستہ داخل سے سمجھو نہ کہ خارج سے۔ محل اور قلعوں کو (لذت کے لیے) تلاش کرنا بے وقوفی سمجھو۔

مطلب: یوسف علیہ السّلام قید خانہ جیسی پُر وحشت جگہ سے جو مانوس ہو گئے تو اس کا استبعاد دور کرنے کے لیے پہلے مجملاً یہ وجہ بتائی تھی کہ ”بخود مشغول کرد“ اور اس کی تائید میں رحم اور جنین کی مثال دی تھی یہاں سے اس وجہ کو تفصیلاً بیان فرماتے ہیں یعنی لذت کا مدار اسبابِ خارجیہ پر نہیں بلکہ قلب پر ہے۔ اس میں اُنس پیدا ہونے سے لذت ہوتی ہے۔ اگرچہ خارجی اسباب اس کے خلاف ہی ہوں۔ آگے اس کی ایک نظیر ارشاد ہے:

22

آں یکے در کنجِ مسجد مَسْت و شاد واں یکے در باغ تُرش و بے مراد

ترجمہ: (چنانچہ) ایک شخص مسجد کے (ویران) کونے میں (اپنی مسرتِ قلبیہ کی وجہ سے) مست و شاد ہے اور ایک شخص کسی غم کی وجہ سے پُر بہار باغ میں ترشرو اور بے مراد ہے۔ (آگے بطور انتقال اس قاعدهٔ مذکورہ پر ایک مستقل مضمون کی تصریح ہے):

23

قَصْر چیزے نیست ویراں کن بدن گنج در ویرانی ست اَے میرِ من

ترجمہ: قصر کوئی چیز نہیں (پس) بدن کو (جو قصر سے مشابہ ہے) ویران کرو (کیونکہ) اے میرے سردار! خزانہ ویرانی میں ہے۔

مطلب: جب اوپر معلوم ہو چکا کہ اصل اعتبار باطن کا ہے اور اس کے مقابلہ میں ظاہر کوئی چیز نہیں تو تم کو تن پروری و تن آرائی چھوڑ کر تعمیرِ باطن میں مشغول ہونا چاہیے اور اس سے مجاہدہ و ریاضت اور اصلاحِ باطن کی ترغیب مقصود ہے۔ آگے اس کی دوسری دلیل ہے:

24

ایں نمے بینی کہ در بزمِ شراب مست آنگہ خوش شود کو شُد خراب

ترجمہ: کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ شراب نوشی کی مجلس میں مست اس وقت خوش ہوتا ہے جب وہ خراب (بمعنی بے خود) ہو جاتا ہے (پس خزانۂ مراد بھی ویرانہ و خرابہ ہی میں آتا ہے)۔

مطلب: اسی طرح جب مستیِ حق تمہارے ان ادراکات پر غالب آ جائے جن کا اثر و نتیجہ لذات کا انہماک اور تعلق ما سوی اللہ کا استغراق ہے تو اس وقت سچی خوشی حاصل ہو گی اور چونکہ اس ویرانیِ مذکور میں بظاہر ایک درجہ کا دنیاوی نقصان ہے اور یہ خیال حوصلہ کو پست کرنے والا ہے اس لیے اس کو رفع کرنے کے لیے طالب کی ہمت بڑھاتے ہیں کہ:

25

گرچہ پُر نقش ست خانہ برکنَش گنج جو وز گنج آباداں کنش

ترجمہ: اگرچہ (یہ) گھر نقش (و نگار) ہے (اور اس کو منہدم کرنے میں تم کو نقصان نظر آتا ہے تاہم) اس کو منہدم (ہی) کر ڈالو (کیونکہ اس کے نیچے ایک خزانہ مدفون ہے جو انہدامِ خانہ کے بدوں ہاتھ نہیں آ سکتا) تم (اس) خزانہ کو طلب کرو اور خزانہ کے ساتھ (پہلے سے بہتر شکل میں) اس کو تعمیر کر لو۔

مطلب: اسی طرح جن مقتضياتِ طبع اور اخلاق و خصائل کو زائل کرو گے ان سے اچھے اخلاق و کردار حاصل ہو جائیں گے جن سے آخرت میں تو اچھے ثمرات ملیں گے ہی، دنیا میں بھی ایسی حیاتِ طیبہ میسر ہوگی جس پر سلاطین و امراء بھی رشک کریں۔ آگے یہ بیان فرماتے ہیں کہ اَیسے گھر کا قائم رہنا مضر ہے اس لیے اس کا انہدام ہی ضروری ہے۔

26

خانۂ پُرنقش و تصوير و خیال ویں صُوَر چُوں پردہ بر گنجِ وصال

ترجمہ: (یہ ایک ایسا) گھر (ہے جو) نقش اور تصویر اور خیال سے پُر (ہے) اور (اس گھر میں جو) یہ تصویرات ہیں (سب) گنجِ وصال پر حجاب کی مانند ہیں۔

مطلب: یہاں لفظ خیال عطفِ تفسیری ہے مطلب یہ کہ یہ خیالات جو کہ بمنزلہ نقوش و تماثیل کے ہیں، توجہ الی اللہ کے مانع ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ توجہِ تام کے بدون وصل یعنی قرب و معیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے ان نقوش اور تماثیل و تصاویر کو مٹانا بلکہ ایسے گھر ہی کو منہدم کرنا ضروری ہے۔ آگے اس مثال کی تکمیل فرماتے ہیں:

27

پرتوِ گنج ست و تابشہاے زر کہ دریں سینہ ہمے جوشد صُوَر

ترجمہ: یہ اس خزانہ کا پرتو اور سونے کی چمک دمک ہے کہ اس سینے میں تصویریں جوش زن ہیں۔

مطلب: یعنی یہ تصوراتِ پسندیدہ جو تمہارے قوائے مدرکہ میں ہجوم کرتے ہیں ان کی نسبت اس مقصودِ حقیقی کے ساتھ ایسی ہے جیسے عکس و شعاع کو زر و گوہرِ خزانہ کے ساتھ، تو عکس کو جب کوئی شخص ایسا محبوب سمجھتا ہے اگر وہ اصل کا مشاہدہ کر لے تو پھر عکس کو یاد بھی نہ کرے۔ نیز عکس کے جمال و محبوبیت سے اصل کے جمال و محبوبیت پر استدلال کر کے اس کے مشاہدہ کا اشتیاق اور رغبت بھی ہونی چاہیے۔ لیکن جب تک عکس سے نظر نہ ہٹائے اصل کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جن صُورِ ذہنیہ سے تم کو محبت و عشق ہے کہ ان کو دماغ سے نکالنا نہیں چاہتے، یہ سب عکس اور ظل ہے محبوبِ حقیقی کا۔

ع حسنِ خویش از روئے خوباں آشکارا کردۂ (کلید) آگے اسی حجاب کی دوسری مثال ہے:

28

ہم ز لُطف و عکسِ آبِ با شرف پردہ شد بر رُوے آب اجزائے کف

ترجمہ: نیز (اس کی مثال ایسی ہے جیسے) جھاگ کے (کثیف و مكدّر) اجزاء جو پانی کی سطح پر ہیں شاندار پانی کی پاکیزگی اور جھلک کے لیے حجاب بن گئے (یہ اجزاء پانی سے ہی پیدا ہوئے اس کے لیے حجاب بن گئے اسی طرح صُورِ خالیہ اسی موجودِ حقیقی سے ناشی ہو کر اس کے لیے حجاب بن جاتی ہیں۔ آگے تیسری مثال ہے):

29

ہم ز لطف و جوشِ جانِ با ثمن پردۂ بر رُوے جاں شد شخصِ تن

ترجمہ: نیز یہ جسمانی وجود چہرۂ روح پر (اس) قیمتی روح کی لطافت اور (اس کے) جوش (عشق) سے حجاب ہو گیا۔

مطلب: روح میں جو پاکیزگی اور میلان الی الحق کا جذبہ تھا وہ جسم کے قرب سے دب کر رہ گیا۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ احکامِ جسمیہ کے غلبہ سے یہ آثار مغلوب و مضمحل ہو رہے ہیں۔ آگے اس پر ایک تفریع ہے:

30

پس مثل بشنو کہ در افواہ خاست کانْجہ بر ما میروَد آں ہم ز ماست

ترجمہ: پس تم وہ مثل سن لو جو زبانوں پر جاری ہے کہ ہم پر جو گزرتی ہے وہ ہماری طرف سے ہے (جب خود ہمارے ادرکات و صفات ہی ہمارے لیے حجابِ حقیقت ہیں تو یہ مثل ہم پر صادق آ گئی "کہ از ماست کہ بر ماست")۔

31

زیں حجاب ایں تشنگانِ کف پرست ز ابِ صافی اوفتاده دُور دست

ترجمہ: اسی حجاب کے سبب یہ جھاگ کے دلدادے آبِ صاف سے دُور (اور محروم) رہ گئے۔

مطلب: یہ حاجبیت کی مذکورہ بالا مثالوں میں سے ایک مثال کا اعادہ ہے جس میں امیر اور عماد الملک کے قصے کی طرف اشاره اور اس کی طرف رجوع کرنے کی تمہید بھی ہے یعنی اسی طرح امیر نے حق تعالیٰ کو چھوڑ کر عماد الملک کی طرف رجوع کیا اور عماد الملک کے ساتھ اس کی جو توقعات وابستہ تھیں وہ حق تعالیٰ کی طرف سے حجاب ہو گئیں۔ آگے پھر عماد الملک کی مناجات کا سلسلہ چلتا ہے:

32

آفتابا با چُوں تو قبلہ و امیم شب پرستی و خُفّاشی مے کنیم

ترجمہ: اے آفتاب (حقیقی) تجھ جیسے قبلہ اور امام کے ہوتے ہوئے (دوسروں کی طرف جو ہم حاجات میں رجوع کرتے ہیں ہیں تو گویا) ہم شب پرستی اور خفاشی کر رہے ہیں۔

33

سُوئے خود کن ایں خفّاشاں را مطار زیں خفّاشی شاں بخر اے مستجار

ترجمہ: (تو) ان خفاشوں (چمگادڑوں) کی پرواز اپنی طرف کر لے اور اے وہ جس سے پناه چاہی جاتی ہے اس چمگادڑ پن سے ان کو چھڑا دے۔

34

ایں جواں زیں جُرم ضال ست و مُغیر کہ بمن آمد ولے او را مگیر

ترجمہ: یہ (گھوڑے والا) جوان (امیر) اس جرم سے گمراہ اور (اپنے کمالِ توحید کا) غارت کنندہ ہے کہ (تجھے چھوڑ) کر میری طرف آیا۔ لیکن اس پر مؤاخذہ نہ کر۔

35

در عمادالملک ایں اندیشہا گشت جوشاں چُوں اسد در بیشہا

ترجمہ: (غرض) عمادالملک (کے ذہن) میں یہ خیالات (اس طرح) جوش زن ہو رہے تھے جس طرح شیر بن میں (پُر جوش ہوتا ہے)۔

36

ایستادہ پیشِ سلطاں ظاہرش در ریاضِ غَیب جانِ طاہرش

ترجمہ: اس کا ظاہری وجود سلطان کے روبرو کھڑا تھا اور پاک روح غیب کے باغ میں (ان واردات و مناجات میں مشغول تھی)۔

37

چوں ملائک او باقليمِ الست ہر دمے مے شد ز شُربِ تازه مست

ترجمہ: وہ ہر لحظہ اَلَست کے مقام میں ملائکہ کی طرح تازہ بتازہ (روحانی) مے نوشی سے مست ہو رہا تھا۔

مطلب: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے سوال و جواب کے روز حق تعالیٰ نے اولادِ آدم سے گفتگو فرمائی۔ یہاں بلحاظ اس گفتگو کے الست کے لفظ سے حق کے ساتھ الہام و مکالمت مراد ہے جس سے ملائکہ بہرہ ور رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ یہی حال اس وقت عمادالملک کا تھا۔

38

اندروں سور و بروُں چوں پُرغمے در تنِ ہمچو لَحَد خوشِ عالمے

ترجمہ: (اس کے) باطن میں (تو الہاماتِ ربّانیہ سے) خوشی تھی اور اس کا ظاہر (معاملہ اسپ کے فکر سے) پُر غم (آدمی) کی مانند تھا (یوں سمجھو کہ اس کے) بدن مشابہِ لحد میں ایک عجیب عالم تھا (کیا پُر لطف اور با معنٰی مثال ہے)۔

39

او دریں حیرت بُد و در انتظار تا چہ پَیدا آید از غَيب و سرار

ترجمہ: وہ اس حیرت اور انتظار میں تھا کہ (دیکھئے) غیب اور نہاں سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔

40

اسپ را اندر کشیدند آں زماں پیشِ خُرّم شاه سر ہنگاں کشاں

ترجمہ: اتنے میں سپاہی گھوڑے کو کشاں کشاں خوارزم شاہ کے حضور میں لائے۔

41

الحق اندر زیرِ ایں چرخِ کبُود آنچناں اسپے بقد و تگ نبُود

ترجمہ: فی الواقع اس نیلے آسمان کے نیچے ایسا گھوڑا قد اور چال میں نہیں (مل سکتا) تھا۔

42

مے ربُودے رنگِ او ہر دیده را  مرحبا آں برق و مہ زائیده را

ترجمہ: اس کا رنگ ہر آنکھ کو چھین لیتا تھا۔ اس بجلی اور چاند کے بچے کو مرحبا!

43

ہمچو مہ ہمچو عطارد تیز رَو گوئیا صرصر علف بودش نہ جَو

ترجمہ: وہ چاند عطارد کی طرح تیز رو تھا گویا آندھی اس کی خوارک تھی نہ کہ جَو۔

مطلب: دوسرے گھوڑے غلہ، جو وغیرہ کھاتے ہیں مگر اس گھوڑے کی تیز رفتار سب سے نرالی اور سب سے زیادہ تھی گویا اس کی خوراک ان سب کے بر عکس آندھی تھی، اسی لیے اس میں آندھی کی سی تیزی آ گئی تھی۔ آگے چاند کی سرعتِ سیر کا ذکر ہے جس کے ساتھ اس گھوڑے کو تشبیہ دی تھی۔

44

ماہ عرصۂ آسماں را در شبے مے برد اندر مسیر و مذہبے

ترجمہ: چاند فضائے فلک کو ایک رات کے اندر (اپنی) سیر و رفتار میں قطع کر لیتا ہے (آگے چاند کی اس سرعت سے ایک مسئلہ اعتقادیہ کے عدمِ امتناع پر استدلال کرتے ہیں کہ):

45

چوں بیک شب مہ برید ابراج را از چہ منکر مے شوی معراج را

ترجمہ: جب ایک شب میں چاند نے بُرجوں کو طے کر لیا تو (اے فلسفی) تُو معراج کا مُنکر کیوں ہے؟

46

صد چو ماہ ست آں عجب دُرِّ یتیم کہ بیک ایماے اُو مہ شدُ دو نیم

ترجمہ: وہ عجیب دُرِّ یتیم صلّی اللہ علیہ و سلّم تو سو چاند کی مانند ہیں (بلکہ سو چاندوں سے بمدارجِ کثیرہ بڑھ کر ہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے) کہ آپ کے ایک اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔

مطلب: آپ کے اکرام اور اظہارِ کرامت کے لیے چاند کی ہیئت و ترکیب کو بدل ڈالنا آپ کی مقصودیت اور چاند کی جمعیت کی دلیل ہے اور مقصود تابع سے افضل ہوتا ہے، ایک مقدمہ یہ ہوا۔ اور دوسرا مقدمہ اوپر کے شعر میں گزرا کہ چاند کے لیے یہ سرعتِ سیر جائز رکھی گئی۔ پس مدّعا ثابت ہو گیا کہ پھر افضل کے لیے اس کا کیا استبعاد ہے۔ اور صاحبِ حمیدیہ نے سرعتِ سیر کا استبعاد اس سے زیادہ سہل نظیر سے رفع کیا ہے، وہ یہ کہ تحقیقاتِ جدیدۂ ہیئت میں یہ ثابت ہے کہ ستارہ مشتری ہماری زمین سے چودہ سو حصے بڑا ہے پھر وہ ایک گھنٹے میں تیس ہزار میل چلتا ہے، ایک منٹ میں پانسو میل، ایک بار سانس لینے کی مقدار میں نو دس میل۔ اور طبعی قاعدہ ہے کہ جسمِ متحرک جس قدر زیادہ چھوٹا ہوگا وہ سرعتِ حرکت کو زیاده قبول کرے گا۔ تو اب دیکھنا چاہیے کہ اس حساب سے جو جسم زمین کے برابر ہو اس کی حرکت کس قدر سریع ہو سکتی ہے۔ اور پھر جب انسان کی نسبت زمین کے ساتھ دیکھ کر اس کی نسبت مشتری کی ضخامت سے کی جائے تو اس کی حرکت کس قدر سریع ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر تو معراج میں جس قدر حرکت سریع ہوئی ہے اس سے بدرجہا زائد سرعت غیر مستبعد ہے۔ (کلید) اوپر شقِّ قمر کے ذکر سے جو آپ کی افضلیت ظاہر کی تھی اب اس میں ترقی کرتے ہیں:

47

آں عجب کو در شگافِ مہ نمود ہم بقدر ضُعفِ حِسِّ خلق بُود

ترجمہ: وہ عجیب معاملہ جو آپ نے شقِ قمر میں (کر) دکھایا محض مخلوق کے کمزور ادراک کے پیمانہ پر تھا (کیونکہ مخلوق اس سے زیادہ عجائبات کے ادراک کی متحمل نہیں ہو سکتی)۔

48

کاروبارِ انبیاء و مرسِلُون ہست از افلاک و اخترہا بُرون

ترجمہ: (ورنہ) انبیاء و مرسلین کے کاروبار تو افلاک و کواکب سے بھی باہر ہیں۔

49

تو بُروں رَو ہم ز افلاکِ دوَار وانگہاں نظّاره کُن آں کاروبار

ترجمہ: تو چکر لگانے والے آسمانوں سے باہر جا اور اس وقت اس کاروبار کا مشاہدہ کر (دوّار بہ تشدید وارد ہے یہاں ضرورتاً بہ تخفیف مستعمل ہوا ہے)۔

50

درمیانِ بیضۂ چوں فرّخہا نشنوی تسبیحِ مرغانِ ہوا

ترجمہ: تو (پرندوں کے) چوزوں کی طرح انڈے کے اندر ہے اس لیے مرغانِ ہوا کی تسبیح نہیں سن سکتا (یعنی عالمِ سفلی میں محبُوس و مقید ہے تجھے کیا معلوم کہ عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السّلام کے کیا تصرفات وقوع پا رہے ہیں)۔

51

معجزات اینجا نخواہد شرح گشت ز اسپ و خوارم شاه گوی و سرگزشت

ترجمہ: (انبیا علیہم السّلام کے) معجزات کی تفصیل یہاں نہیں ہو سکتی (اس کو ملتوی رکھ کر) گھوڑے اور خوارزم شاہ کے متعلق لکھو اور قصہ (سناؤ)۔

52

آفتابِ لُطفِ حق بر ہرچہ تافت از سگ و از اسپ فَرِّ کہف یافت

ترجمہ: ہاں تو وہ گھوڑا نہایت عمدہ تھا اور لُطفِ حق کا آفتاب جس چیز پر درخشاں ہو خواہ کتا ہو یا گھوڑا اس نے پناہِ خداوندی کی عزت پائی۔

مطلب: یہ قاعدہ عام ہے کہ خداوند تعالیٰ کا کرم جس پر ہو وہ خواہ کوئی حقیر سے حقیر ہستی بھی کیوں نہ ہو حقیقت میں نہایت باعزّت ہے اور سگ و کہف کے لفظوں سے خاص واقعہ کی طرف تلمیح ہے کہ اصحابِ کہف کے کتے پر اللہ کا کرم ہو تو وہ ان اولیاء اللہ کی رفاقت میں غار کے اندر جا رہا اور باعزت ہو گیا۔ اسی طرح اس گھوڑے پر اللہ کا کرم تھا کہ وہ پسندیدۂ عام و خاص بن گیا، مگر اس کا افاضہ مختلف ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

53

تابِ لطفش را تو یکساں ہم مداں سنگ را و لَعْل را داد او نشاں

ترجمہ: تم اس کے لطف کی شعاع کو بھی یکساں نہ سمجھو، چنانچہ پتھر کو اور لعل کو اس نے (جدا جدا) نشان دیا ہے (یعنی اس کا افاضہ مخلوقات کی اصناف پر حسبِ استعداد جدا گانہ ہے)۔

54

لعْل را زاں ہست نورِ مُقْتَبَس سنگ را گرمی و تابانی و بس

ترجمہ: (چنانچہ) لعل کو اس سے نورِ (آتشیں) حاصل ہے پتھر کو (صرف) گرمی اور سوزش اور بس (آگے اس تفاوتِ افاضہ کی مثال ہے):

55

آنکہ بر دیوار افتد آفتاب آنچناں نبود کز آبے اضطراب

ترجمہ: (مثلاً) دیوار پر جو دُھوپ پڑتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی (جیسے) کہ پانی (پر اس کے پڑنے) سے (اس کا) جھلملانا (پُر لطف ہوتا ہے)۔