دفتر ششم: حکایت: 9
آتش زدن در شب و کشتن دزد آتش را غفلتِ آن مرد
(ایک شخص کا) رات کے وقت آگ جلانا اور چور کا آگ کو بجھانا اور اس شخص کی غفلت
1
رفت دزدے شب بخانۂ یک بزرگ از رہِ پنہان در آمد همچو گرگ
ترجمہ: کوئی چور رات کو ایک بزرگ کے گھر میں گیا اور پوشیدہ راستے سے اس طرح داخل ہو گیا جس طرح بھیڑیا داخل ہوتا ہے (بھیڑیا عموماً بکریوں کے باڑے میں دبے پاؤں آتا ہے)۔
2
شرفۂ بشنید شب آن معتمدبرگرفت آتش زنہ کاتش زند
ترجمہ: ان (بزرگ) معتمد نے رات کو آہٹ (یا کھانسی کی آواز) سنی تو چقماق لیا تاکہ آگ روشن کریں۔
3
می زد آتش بہرِ شمع افروختن تا سرِّ آواز را بیند علن
ترجمہ: وہ شمع روشن کرنے کے لئے آگ جلاتے تھے تا کہ آواز کی اصلیت کو علانیہ معلوم کریں۔
4
دزد آمد در زمان پیشش نشست چُون گرفتے سوختہ مےکرد پست
ترجمہ: اسی وقت چور آ کر ان کے پاس بیٹھ گیا جب جلانے کا چتھڑا آگ لیتا تو (چور) اس (آگ) کو دبا دیتا۔
5
می نہاد آن جا سرِ انگشت را ز اصبع آن استاره را کردے فنا
ترجمہ: وہ اس موقع پر انگلی (لب سے تر کر کے) رکھ دیتا (اور) انگلی سے اس چنگاری کو فنا کر دیتا۔
6
خواجہ می پنداشت کو خود می مِرد این نمی دید او کہ دزدش می کُشَد
ترجمہ: وہ بزرگ سمجھتے تھے کہ (آگ )خود بخود بجھ جاتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اس کو چور بجھا دیتا ہے۔
7
خواجہ گفت این سوختہ نمناک بود می مرد استارہ از ترّیش زود
ترجمہ: وہ بزرگ کہنے لگے یہ سو ختہ نمناک تھا چنگاری اس کی نمی سے فوراً بجھ جاتی ہے۔
8
بس کہ ظلمت بود و تاریکی بہ پیش می ندید آ تش کُشے را نزدِ خویش
ترجمہ: چونکہ اندھیرا اور تاریکی (یچھے چھا رہی) تھی اس لئے وہ آگ بجھانے والے کو اپنے پاس نہیں دیکھتے (اب آگے اس کہانی کا مدعا بیان کرتے ہیں)۔
9
ہمچنین آتش کُشے اندر دلشدیدۂ کافر نہ بیند از عمش
ترجمہ: اسی طرح ایک بجھانے والا اس (کافر) کے دل میں (موجود) ہے (مگر) کافر کی آنکھ اس کو ضعفِ بصر کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتی۔
مطلب: وہ آگ بجھانے والا "تعلقات دنیویہ" ہیں جیسا کہ اس حکایت سے پہلے شعر ؎ گر چہ بر آتش زند الخ میں مذکور ہوا ہے اور دلش کے شین کا مرجع کافر ہے بطریق اضمار قبل الذکر جب تعلقات کا اثر ثابت ہوا اور یہ اثر ہے حادث اور ہر حادث کے لئے محدث کی ضرورت ہے اور اس کا انتہا قطع تسلسل کے لئے محدث واجب کی طرف ضرور ہے۔ اس سے صانع قدیم کا وجود ثابت ہوگیا (کلید) آگے وجود صانع قدیم کے اور دلائل ارشاد ہیں چنانچہ پہلی دلیل یہ ہے کہ:
10
چون نمی داند دل دانندۂہست با گردندہ گردانندۂ
ترجمہ: ایک عاقل کا دل کیوں نہ اس بات کو جانے گا کہ (ہر) متحرک کے ساتھ (کسی) محرک (کا ہونا ضروری) ہے۔ نظامیؒ ؎
بلے در طبع ہر دانندۂ ہست کہ باگردندہ گردانندۂ ہست
از آن چرخہ کہ گرداند زنِ پیر قیاسِ چرخِ گردان را ہمی گیر
اگر چہ از خلل یابی درستش نگردد تا نگردانی نخستش
11
چون نمی گوئی کہ روز و شب بخودبے خداوندے کے آید کے رود
ترجمہ: (دوسری دلیل) تم اس کے قائل کیوں نہیں ہوتے کہ (یہ) لیل و نہار خداوند کے بدوں کب آمد و رفت کر سکتے ہیں۔
بے وجود حق ز خود آثارِ ہستی یافتن ذرۂ ناچیز بے خورشید پیدا کردن ہست
12
گردِ معقولات میگردی ببین این چنین بے عقلی خود اے مہین
ترجمہ: (اے دہری فلسفی!) تو معقولات کے گرد پھرا کرتا ہے اے بے قدر! اپنی اس قسم کی بے عقلی پر تو نظر کر (کہ تو صانع کے بدوں مصنوعات کا ہونا مان رہا ہے)۔
13
خانہ با بنّا بود معقول تر یا کہ بے بنّا بگو اے کم ہنر
ترجمہ: (تیسری دلیل) گھرکا معمار (کی صنعت) کے ساتھ ( وجود میں آنا) قرینِ عقل ہے یا معمار کے بغیر؟ اے بے ہنر بتا تو سہی۔ جامیؒ
درین ویرانہ نتوان یافت خشتے برون از قالب نیکو سرشتے
ز لوحِ خشت چون این حرف خوانی ز حالِ خشت زن غافل نمانی
14
خانۂ با این بزرگی و وقارکے بود بے اوستادے خُوبکار
ترجمہ: (جب ایک ادنیٰ گھر معمار کے بدوں نہیں پایا جاتا تو) یہ اتنی عظمت و شان کا گھر (یعنی زمین و آسمان) کسی اچھے صناع استاد کے بغیر کب (موجود) ہوسکتا ہے۔ فردوسیؔ ؎
ز خاشاکِ ناچیز تا عرشِ را ست سراسر بہ ہستی یزدان گرا ست
15
خط با کاتب بود معقول تر یاکہ بے کاتب بیندش اے پسر
ترجمہ: (چوتھی دلیل) اے لڑکے! ذرا سوچ تو سہی کہ تحریر (کا وجود میں آنا) لکھنے والے کی کتابت کے ساتھ زیادہ قرین عقل ہے یا لکھنے والے کے بدوں ۔ جامیؒ
بود نقشِ دلِ ہر ہوشمندے کہ باشد نقشہا را نقش بندے
بلوحے گر ہزاران نقش پیداست نیاید بے قلمزن یک الف راست
16
جیمِ گوش و عینِ چشم و میمِ فم چون بود بے کاتبے اے متّہم
ترجمہ: تو اے تہمت زدہ! (وہ شخص جس کی عقل پر (بد دیانتی) کی تہمت لگ چکی ہے انسانی وجود کے حروف مثلاً) کان کا جیم اور آنکھہ کا عین اور منہ کا میم کاتب (قدرت) کے بدوں کیونکر (موجود) ہو سکتے ہیں؟
17
شمعِ روشن بے ز گیرانندۂ یا بگیرانندۂ دانندۂ
ترجمہ: (پانچویں دلیل) شمع کسی روشن کرنے والے (کے فعل) کے بدوں روشن (ہوتی ہے) یا کسی روشن کرنے والے دانا سے؟
18
صنعتِ خوب از کفِ شَلِّ ضریر باشد اولیٰ یا ز گیراے بصیر!
ترجمہ: (چھٹی دلیل) کوئی اچھی صناعی کسی بے کار ہاتھ والے اندھے کے ہاتھ سے (تیار ہونی) مناسب ہوگی یا گرفت کی قوت والے بینا کے ہاتھ سے۔
انتباہ: یہاں تک وجودِ صانع قدیم قادرِ مطلق کے دلائل تھے اس کے بعد اب اس کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں۔ پیچھے ؎
این سخن پایان ندارد باز گرد سوئے شاہ وہم مزاج باز گرد
میں بھی رجوع بحق کی طرف توجہ دلائی تھی مگر وہاں مومن طالب ہدایت سے خطاب تھا اور یہاں دہری فلسفی سے۔
19
پس چو دانستی کہ قہرت می کنندبر سرت دبّوسِ محنت می زنند
ترجمہ: پس جب تو نے معلوم کر لیا کہ تجھ کو (کسی غیبی طاقت سے) مجبور کیا جارہا ہے (اور) تیرے سر پر آزمائش کا گرز مارا جارہا ہے (تو بہتر یہی ہے کہ اس غیبی طاقت والی لاشریکی ہستی کے ساتھ عبدیت کا تعلق پیدا کرو ورنہ اگر اس پر بھی وہی جہل و عناد ہے تو)۔
20
پس بکن دفعش چو نمرودے بجنگ سوے او کش در ہوا تیرِ خدنگ
ترجمہ: پھر نمرود کی طرح جنگ کے ساتھ اس کا مقابلہ کر (اور) ہوا میں اس کی طرف (درخت) خدنگ کا تیر چلا۔
21
یا چو اسپاہِ مغل بر آسمانتیر می انداز دفعِ نزعِ جان
ترجمہ: يا مغلوں کی فوج کی طرح (جو تیر اندازی میں طاق ہیں) تو نزع جان کو دفع کرنے کے لئے (پوری مہارت کے ساتھ) آسمان پر تیر چلا۔
مطلب: شیخ افضل نے کہا ہے کہ یہاں مذکورہ قصہ کی طرف اشارہ ہے اور مغلوں کا ذکر اس بنا پر کیا ہے کہ یہ لوگ کامل تیر انداز ہیں۔ تو معنی یہ ہوئے کہ نزع جان کے دفاع کے لئے آسمان کی طرف تیر اندازی کر، تا کہ اس کے خوف سے ملک الموت نہ آئے اور تیر اندازی بھی کامل ہو جیسے مغل کیا کرتے ہیں ۔ بعض شارحین کہتے ہیں کہ مغلوں میں سے کسی نے یہ فعل کیا تھا کہ قربِ موت کے وقت اس نے آسمان کی طرف تیر چلایا تاکہ ملک الموت کو آنے نہ دے (بحر) ہم نے ترجمۂ شعر کا اندازہ اسی تحقیق کے مطابق رکھا ہے۔ کلید مثنوی میں لکھا ہے کہ سپاہ مغل سے یاجوج ماجوج مراد ہیں جو یافث کی اولاد ہیں جیسے مغل یافث کی اولاد ہیں شرکت فی الجد کی وجہ سے مغل کہہ دیا۔ یہ لوگ قربِ قیامت میں نکل کر آسمان کی طرف تیر چلائیں گے۔ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کا قصہ اہلاک من فی السماء ہوگا اور نزع جان من فی السماء کے ہاتھوں ہے تو دفعِ نزعِ جان اور اہلاک من في السماء مفہوماً متحد ہوئے۔
22
یا گریز از وے اگر تانی بروچون روی چون در کفِ اوئی گرو
ترجمہ: یا اس سے بھاگ جا اگر (بھاگنے کی) قوت رکھتا ہے (اور ) چلا جا (مگر) جا کیونکر سکتا ہے جب کہ تو اس کے ہاتھ میں قید ہے (غرض تو اس کے مقابلہ میں اس قدر عاجز ہے کہ تو نہ اس کو دفع کرسکتا ہے نہ اس سے بھاگ سکتا ہے)۔
3
در عدم بودی نرَستی از کفش از کفِ او چون رہی اے دست خوش
ترجمہ: اے (دست قدرت کے) مسخر (جب) تو عدم میں تھا (اور ظاہراً گرفت کے قابل بھی نہ تھا) تو (اس وقت بھی) اس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹا تو (اب جب کہ وجود میں آ گیا) اس کے ہاتھ سے کیونکر چھوٹ سکتا ہے۔
مطلب: غرض کوئی بندہ مومن ہو یا کافر مطیع ہو یا عاصی اس کے دست قدرت سے کبھی کسی صورت میں بھاگ نہیں سکتا۔
آگے فرماتے ہیں کہ اس کے خلاف حکم کسی قسم کی آرزو کرنا بھی گویا اس سے بھاگنا ہے کیونکہ جس طرح بھاگنے والا اس کی گرفت سے بچنا چاہتا ہے اسی طرح اس کے خلاف حکم کوئی آرزو کرنے والا بھی اس کے احکام کی قید سے گریز کر رہا ہے۔ پس جس طرح اس سے بھاگنا محال ہے اسی طرح اس کے حکم کا بدلنا اس کی قضا و تقدیر کے خلاف کوئی امر واقع ہونا بھی ناممکن ہے۔ بہرحال اس کی طرف رجوع کرنا اس کی قضا پر راضی رہنا اور اس کے احکام و اوامر کو بجا لانا لازم ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
24
آرزو جستن بود بگریختن پیشِ عدلش خونِ تقویٰ ریختن
ترجمہ: (حکم حق کے خلاف کوئی) آرزو کرنا (بھی گویا) حق سے بھاگنا ہے (یعنی) اس کے عدل کے آگے تقویٰ کی خونریزی کرنا۔
مطلب: حق تعالیٰ کے تمام احکام اور افعال عین عدل اور متضمنِ حکمت ہیں اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے تمام احکام پر راضی اور اس کے افعال پر خوشنود رہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اس کے حکم کے متعلق کہنے لگے کہ اس حکم کے بجائے یوں حکم ہوتا تو اچھا تھا یا تقدیر الٰہی سے جو واقعہ ہو گیا کاش کہ اس کے بجائے یوں ہوتا تو اس شخص نے اس کے عدل پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنے تقویٰ کو تباہ کر لیا۔ نظامیؒ
برین گونہ کارِ خدائی بود خصومت خدا آزمائی بود
نشاید زدن تیغ زدن بر آفتاب نہ البرز کرد شاید خراب
صائبؒ
اگر وطن بمقامِ رضا توانی کرد غبار حادثہ را طوطیا توانی کرد
25
این جہان دام ست و دانہ اش آرزو در گریز از دامہائے آز، زُو
ترجمہ: یہ جہان جال ہے اور اس کا دانہ آرزو ہے جلدی حرص (و آرزو) کے جال سے بھاگو (ورنہ جس طرح دانہ کی حرص میں پرندہ گرفتارِ دام ہو جاتا ہے اسی طرح تم آرزو کے پیچھے گرفتار دنیا ہو جاؤ گے)۔
26
چون چنین رفتی بدیدی صد گشاد چون شدی در ضدِ آن دیدی فساد
ترجمہ: جب تم اس طرح (دانۂ حرص سے ہٹ کر حق تعالیٰ کی طرف) چلے گئے تو صد ہا کشایشیں دیکھو گے (لیکن) اگر اس کی ضد (یعنی اتباعِ ہوا و ہوس) میں گئے تو طرح طرح کی خرابیاں دیکھو گے۔
مطلب : دانۂ آرزو کی طمع کا نتیجہ قید و بند ہے اور رجوع الی الحق کا ثمرہ کشایش و آزادی۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا ﴿اِنِّیْ ذَاهِبٌ إِلٰى رَبِّى سَيَهْدِينِ﴾۔ ’’میں (تم بت پرستوں کو چھوڑ) کر اپنے پروردگار کی راہ میں کسی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھے (کسی) اچھے ہی ٹھکانے لگا دے گا‘‘۔ (الصفات: آیت 99) دانۂ آرزو کی طمع کا نتیجہ قید و بند، دنیا میں کلفت و تشویش کی صورت رکھتا ہے اور آخرت میں عذاب و عتاب کی شکل میں ظاہر ہوگا اور کشایش و آزادی سے مراد فرحت و راحت ہے جو رجوع الی اللہ اور رضا بقضا کا ثمرہ ہے اور وہ دنیا میں لذتِ معیت اور حلاوت بسنت مع اللہ کی صورت میں ظہور پاتا ہے اور آخرت میں ثواب و ترقی درجات کی شکل میں نمایاں ہوگا۔
27
چون شدی در ضد بدانی ضدِّ آن ضد را از ضد شناسند اے جوان
ترجمہ: (ممکن ہے کہ تم کو یہاں اس کشایش و آزادی کی قدر نہ ہو لیکن) جب تم (اس کی) ضد (یعنی عذابِ آخرت) میں مبتلا ہو گے تو (پھر) اس کی ضد (یعنی کشایش و آزادی)کی قدر سمجھو گے۔ اے جوان! ضد کو ضد سے پہچانا جاتا ہے۔
مطلب: اس مشہور قول کی طرف اشارہ ہے ’’الأَشْيَاءُ تُعْرَفُ بِأَضْدَادِهَا‘‘ آگے فرماتے ہیں کہ یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچے، خیر وشر کی تمیز کا مدار آخرت پر ہے کیونکہ اس وقت اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ﴿یَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا۔۔۔ ﴾ (الاانعام: آیت 158) بلکہ دنیا ہی میں اپنے ضمیر کو دیکھو تو وہ بھی رجوع الى اللہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
28
پس پیمبر گفت اِسْتَفْتِ الْقُلُوْب گرچہ مفتی تان برون گوید خطوب
ترجمہ: (ہاں ضمیر بھی خیر و شر میں تمیز سکھاتا ہے) جبھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے دلوں سے (کسی چیز کے اچھا یا برا ہونے کا) فتوٰی طلب کرو اگرچہ مفتی ان کو بظاہر عظیم الشان باتیں کہے گا۔
مطلب: فضول آرزوں کے برا ہونے پر خود اپنا ضمیر بھی شہادت دیتا ہے۔ لہٰذا ضمیر کو نظر انداز نہ کرو اگر چہ کوئی مفتی ماجن ان آرزوں کے استحسان پرطویل تقریر کرلے اور پُر زور مضمون لکھے اس کی پروا نہ کرو۔ واضح رہے کہ استفتائے قلب کا ارشاد کسی مشتبہ امر کے ترک کے لئے ہے جس سے احتیاط مقصود ہے اس کی تائید حدیث ’’مَاحَاکَ فِی صَدرِكَ فَدَعهُ‘‘ سے ہوتی ہے یعنی جو بات تمہارے سینے میں کھٹکے اس کو چھوڑ دو۔ اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں ابو امامہ سے روایت کیا ہے (جامع صغیر) یہ مطلب نہیں کہ جب کسی مشتبہ امر کی طرف اپنا دل راغب ہو تو دل کی سنو کیونکہ یہ خلاف احتیاط ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے ’’إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَ بَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِّنْ النَّاسِ، فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ فَقْد اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ‘‘ الحدیث۔ یعنی ’’حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے در میان مشتبہات ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرے اس نے اپنے دین اور آبرو کو پاک کر لیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑ گیا وہ حرام میں جا پڑا‘‘ (مشکٰوۃ) حدیث ’’اِسْتَفْتِ نَفْسَكَ وَ لَو أَفْتَاكَ المُفتُونَ‘‘ امام بخاری نے تاریخ میں وابصہ سے روایت کی ہے (جامع صغیر) ابن حنبل رحمۃ الله علیہ نے مسند میں اور دارمی و ابو یعلی نے حدیثِ رابعہ سے اس کو مرفوعاً یوں روایت کیا ہے ’’اسْتَفْتِ قَلْبَكَ أَفْتَاكَ النَّاسُ‘‘ (تمیز الطیب) اگلا شعر بھی اسی مضمون کا ہے۔
29
گفت است اِسْتَفْتِ قَلْبَک آن رسول گرچہ مفتی ات برون گوید فضول
ترجمہ: آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے دل سے استفتا کرو اگر چہ مفتی تم سے ظاہر میں زاید باتیں کہے۔
30
آرزو بگذار تا رحم آیدشآزمودم کاین چنین می بایدش
ترجمہ: (پس فضول) آرزوتم چھوڑ دو تا کہ اس خداوندِ کریم کو تم پر رحم آئے۔ میں نے آزمایا ہے کہ اس کو یہی پسند ہے (کہ کوئی تکمیل آرزو کے لئے اندھا دھند ہاتھ پاؤں نہ مارے بلکہ معتدل تدبیر کے ساتھ اس پر توکل بھی رکھے)۔
31
چون نتانی جَست پس خدمت کُنشتا روی از حبسِ او در گلشنش
ترجمہ: (غرض) جب تم (حق تعالیٰ کی گرفت سے) نکل نہیں سکتے تو (اپنے آپ کو اس کے سپرد کر کے) اس کی (اطاعت و عبادت) کرتے رہو تا کہ اس کی (قاہرانہ) قید سے نجات پا کر ان کے گلشنِ رحمت میں داخل ہوجاؤ (آگے اس تعلیم کو یاد رکھنے کی ترغیب اور اس کی فراموشی پر تہدید فرماتے ہیں)۔
32
دمبدم چون تو مراقب مے شوی داد می بینی ز داور اے غوی
ترجمہ: اگر تم وقتاً فو قتاً (اس مضمون پر) غور و خوض کرتے رہو تو اے غلط راستے پر چلنے والے! خداوند عادل (و منعم) سے (شرح صدر کا) انعام (اور عمل کی توفیق) پاؤ۔
33
ور بہ بندی چشمِ خود را ز احتجاب کارِ خود را کے گذارد آفتاب
ترجمہ: اور اگر اپنی آنکھ کو (غفلت کے) حجاب سے بند کر لو گے تو آفتاب اپنا کام کب چھوڑتا ہے۔
مطلب: اگر چمگادڑ آفتاب کے دیدار سے آنکھ بند کر لیتی ہے تو آفتاب اپنی ضو فشانی کو بند نہیں کرتا اسی طرح اگر تم رجوع بحق اور توجہ الی اللہ اختیار نہ کرو گے اور بدستورِ سابق گرفتارِ غفلت اور مرتکبِ معاصی رہو گے تو وہ حاکمِ عادل تعالیٰ شانہ تم پر اپنا عدل جاری کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ (آگے پھر ایاز کے ذکر طرف عود فرماتے ہیں جس کا اعادہ دفتر پنجم اور ششم میں بار بار ہوتا رہا ہے)۔
34
باز ران سوئے ایاز و رتبتش وان فضیلت در کمال و رفعتش
ترجمہ: ایاز اور اس کے رتبہ اور اس کی فضیلت اور کمال اور بلندی (کے ذکر) کی طرف پھر عود کرو۔
انتباه: دفتر چہارم اور پنجم میں ایاز کا ذکر کئی جگہ مخلتف واقعات کے متعلق آیا ہے اور ہر واقعہ کو اس مقام کے ساتھ کوئی خاص مناسبت ہے۔ اس مقام پر مضمون تھا کہ حکمِ خداوند کے باہر کوئی آرزو نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کرو اور اس قضا پر راضی رہو۔ پھر دیکھو کہ اس کی طرف سے کیا رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہاں ایاز کا ذکر اسی مضمون کا مؤید ہے یعنی وہ اسی قسم کی تسلیم و تفویض کی بدولت بادشاہ کے مراحم و الطاف کا مورد ہوا۔ حتیٰ کہ بادشاہ خود اس کا طرف دار ہو کر معترضین کے اعتراض کو رد کر رہا ہے۔ جیسے کہ ابھی معلوم ہوگا۔