دفتر ششم: حکایت: 10
حَسَد بُردنِ امیران بر ایاز و نمودنِ سُلطان کیاستِ او را
امیروں کا ایاز پر حسد کرنا اور بادشاہ کا اس کی دانائی کا ثبوت پیش کرنا
1
چون امیران از حسد جوشاں شدندعاقبت برشاہِ خود طعنہ زدند
ترجمہ: جب (سلطان محمود کے) مصاحب حسد سے جوش میں آئے تو آخر اپنے بادشاہ پر نکتہ چینی کرنے لگے۔
2
کاین ایاز تو ندارد سِی خرد جامگیِ سی امیرِ اوکے برد؟
ترجمہ: کہ یہ آپ کا ایاز تیس گنی عقل نہیں رکھتا (تو پھر) تیس امیروں کی تنخواہ کیوں پاتا ہے۔
مطلب: قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امرا سے یہاں مصاحب مراد ہیں نہ کہ وزرا منجملہ ان مصاحبین کے ایک ایاز بھی تھا جو اپنے کمالِ عقل و کیاست اور فہم و فراست کی بدولت ان تمام پر فائق تھا بلکہ ان سب کی تنخواہ کے برابر جو تیس نفر تھے اکیلا تنخواہ پاتا ہو گا۔ کسی وقت ان لوگوں نے ایاز کی عدم موجودگی کا موقع پا کر بادشاہ کے حضور میں رونا رویا ہو گا کہ ایک آدمی ہم تیس آدمیوں کے برابر تنخواہ پا رہا ہے، یہ خلاف انصاف ہے۔ کیا اس کی عقل تیس آدمیوں کی عقل کے برابر ہو سکتی ہے۔ آگے بادشاہ اس بات کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے کہ بے شک اس کی عقل تم تیس اشخاص کے برابر ہے۔ چنانچہ
3
شاه بیرون رفت با آں سی امیرسوۓ صحرا و کُہستان صید گیر
ترجمہ: بادشاہ ان تیس امرا کے ساتھ جنگل اور پہاڑوں کی طرف شکار مارنے گیا۔
4
کاروانے دید از دور آن ملک گفت امیرے را کہ رَو اے مؤتفک
ترجمہ: بادشاہ نے دور سے ایک قافلہ دیکھا تو امیر کو کہا کہ (اس قافلہ کی طرف جاؤ) اے (جا کر جلدی) واپس آنے والے!
5
رو بپرس آن کاروان را بر رصد کز کُدامین شہر اندر می رسد
ترجمہ: جاؤ اس قافلے (والوں) سے تجسس (کے طریق) پر پوچھو کہ وہ کون سے شہر سے یہاں آ رہے ہیں۔
6
رفت و پرسید و بیامد کہ ز رَے گفت عزمش تا کجا، درماند وے
ترجمہ: (چنانچہ) وہ گیا اور پوچھا اور (واپس) آیا (اور عرض کیا) کہ شہر رے سے (آرہے ہیں پھر بادشاه نے) پوچھا ان کا ارادہ کہاں (جانے) کا ہے؟ تو (اس کے جواب سے) وہ عاجز رہ گیا۔
7
دیگرے راگفت رو اے بوالعلا باز پرس از کاروان کہ تا کُجا
ترجمہ: (پھر) دوسرے (امیر) کو حکم دیا کہ اے صاحب بزرگی! تم جاؤ (اور) قافلہ (والوں) سے پوچھو کہ کہاں کا قصد ہے؟
8
رفت و آمد گفت تا سوئے یمن گفت رختش چیست؟ ہان اے مؤتمن!
ترجمہ: وہ گیا اور (واپس) آیا (اور) کہا یمن کی طرف (جا رہے ہیں) تو پوچھا۔ ہاں اے امانت دار! اس کا سامان (تجارت) کیا ہے۔
9
ماند حیران گفت با میرے دگر کہ برو وا پُرس رختِ آن نفر
ترجمہ: تو وہ (یہ سوال سن کر) حیران رہ گیا (کہ کیا جواب دے) تو دوسرے امیر کو حکم دیا کہ تم جاؤ اس جماعت کا سامان (تجارت) پوچھو۔
10
باز آمد گفت از ہر جنس ہست اغلب آن کاسہاے رازی ست
ترجمہ: (وہ یہ بات پوچھ کر) واپس آیا اور بولا (یوں تو) ہر قسم کا سامان ہے (مگر) زیادہ حصہ شہر رے کے پیالے ہیں۔
11
گفت کے بیرون شدند از شہرِ رے ماند حیران آن امیرِ سست پے
ترجمہ: (پھر) پوچھا وہ شہر رے سے کب نکلے ہیں؟ تو وہ امیر سست قدم (اس کے سوال سے) حیران رہ گیا۔
12
آن دگر را گفت رو وا پرس ہان تاکہ کَے بُودست نَقلِ کاروان
ترجمہ: تو دوسرے کو حکم دیا کہ جاؤ پوچھو کہ قافلہ کی نقل (وحرکت) کب ہوئی ہے؟
13
باز گشت و گفت ہشتم از رجب گفت در رے چیست تسعیر اے عجب
ترجمہ: وہ واپس آیا اور اس نے عرض کیا کہ رجب کی آٹھویں (تاریخ کو چلے ہیں پھر) پوچھا اے عجیب آدمی! (یہ تو بتاؤ کہ) رے میں کیا نرخ ہے؟
14
چون نمی دانست دیگر دم نزد شہ فرستاد آن دگر را زان عدد
ترجمہ: چونکہ اس کو (اس سوال کا جواب) معلوم نہ تھا (اس لئے) آگے کچھ نہ بولا تو بادشاہ نے اس جماعت میں سے دوسرے امیر کو (اس کے دریافت کرنے کے لئے) بھیج دیا۔
15
ہمچنین تا سی امیر و بیشتر سست راے و ناقص اندر کرّ و فر
ترجمہ: اسی طرح تیس امیر تک ( بھیج کر آزما لئے) اور (ان میں سے) اکثر عقل کے سست اور (اپنے) دم خم میں ناقص (نکلے)۔
16
ہر یکے رفتند بہر یک سوال ناقص و عاجز ز ادراکِ کمال
ترجمہ: (ان میں سے) ہر ایک (امیر) ایک ایک سوال کے لئے (قافلہ کی طرف) گیا (اور) پوری تحقیقات سے ناقص و عاجز رہا۔
17
گفت امیران را کہ من روزے جُداامتحان کردم ایازِ خویش را
ترجمہ: (اس کے بعد بادشاہ نے) امیروں سے کہا کہ ایک دن میں نے اکیلے اپنے ایاز کا امتحان لیا (یعنی تم اس امتحان میں تیس آدمی شریک ہو اور ایاز اکیلا تھا)۔
18
کہ بپرس از کارون تا از کجاست او برفت این جُملہ را پرسید راست
ترجمہ: کہ قافلہ والوں سے پوچھو کہ کہاں سے (آئے) ہیں وہ گیا اور یہ ساری باتیں ٹھیک ٹھیک پوچھ لیں۔
19
بے وصیت بے اشارت یک بیک حالِ شاں دریافت بے ریبے و شک
ترجمہ: بدوں فہمائش کے (اور) بدوں اشارے کے ایک ایک کر کے ان کا حال بے شک و شبہ دریافت کر لیا۔
20
ہر چہ زین سی میر اندر سی مقام کشف شد زو آن بیکدم شد تمام
ترجمہ: جو کچھ ان تیس امیروں سے تیس مرتبہ میں منکشف ہوا وہ اس اکیلے سے ایک ہی مرتبہ پورا ہو گیا۔