دفتر ششم: حکایت: 11
مرافعۂ آن امرا آن حُجت را بشبہ جبریانہ و جواب دادنِ شاہِ محمود ایشان را
ان امیروں کا اس حجت کا ایک جبریوں کے سے شبہ کے ساتھ رفع کرنا اور شاہ محمود کا ان کو جواب دینا
1
پس بگفتند آن امیران کین فنے ست از عنایت ہاست کارِ جہد نیست
ترجمہ: پس ان امیروں نے کہا کہ یہ ایک (خاص) معاملہ ہے جو (حق تعالیٰ کی) عنایات سے ہے کوشش سے (حاصل کرنے کا) کام نہیں ۔ کما قیل ؎
این سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
2
قسمتِ حق ست مہ را روئے نغز دادهٔ بخت ست گل را بوئے نغز
ترجمہ: چاند کا خوب صورت چہرہ حق تعالیٰ کا عطیہ ہے (اس کی اپنی کوشش کا ثمرہ نہیں) پھول کی خوشبو تقدیر کا انعام ہے (اس کی اپنی سعی کا نتیجہ نہیں)۔
3
بلکہ سلطان چون عنایت می کند از تفاخر خیمہ بر مہ مے زند
ترجمہ: (اسی طرح کوئی شخص بھی اپنے آپ کوئی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا) بلکہ سلطان (حقیقی تعالیٰ شانہٗ) جب (اس کے حال پر) عنایت کرتا ہے تو وہ (حصولِ کمال کے بعد) فخر کا خیمہ چاند سے بھی اونچا لے جاتا ہے۔
مطلب: بادشاہ نے اوپر ان امرا پر ثابت کر دیا تھا کہ ایاز میں تیس امیروں کے برابر عقل ہے اس لئے وہ تیس امیروں کی تنخواہ کے برابر تنخواہ پانے کا مستحق ہے۔ امیروں نے اس کا جواب عقيدۂ جبر کے انداز پر دیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فضیلتِ عقل میں ایاز کے اختیار کا کوئی دخل نہیں نہ ہماری اس غفلت و کوتاہ فہمی میں ہمارے اختیار کا دخل ہے اس لئے نہ وہ فضیلت پر مستحقِ انعام ہے نہ ہم اس قصور پر مستوجبِ علامت ۔ آگے بادشاہ اس کا جواب دیتا ہے۔
4
گفت سلطان بلکہ آنچہ از نفس زاد ريعِ تقصیر ست و دخلِ اجتہاد
ترجمہ: بادشاہ نے (اس کے جواب میں) کہا (یہ بات نہیں) بلکہ جو عمل (مكلّف کے) نفس سے پیدا ہوا وہ تقصیر (اختیاری) کی پیداوار اور سعی (اختیاری) کا منافع ہے۔
مطلب: عمل سے مراد فعلِ اختیاری کہ اسی میں کلام ہو رہا ہے نیز لفظ عمل کا مفہوم خاص ہے اختیاری کے ساتھ اور وہ عمل دو قسم کا ہے قبیح اور حسن۔ سو اول تو نفس کی تقصیر یعنی کم ہمتی و غلطی سے ناشی ہے اور دوسرا جہد کی طرف سے اور یہ دونوں اختیاری ہیں۔ پس عمل اختیاری ہوا اور چونکہ فاعل افعال اختیاریہ کا نفس ہے اور جوارح اس کے آلات۔ اس لئے سب پر از نفس زاد کا حکم صحیح ہوا اور عقل گو امرِ فطری ہے مگر اس میں شک نہیں کہ تدبر و اہتمام اور حسنِ استعمال سے آثار و افعال کاملہ پیدا ہوتے ہیں اور قلتِ مبالات و بے احتیاطی اور سوءِ استعمال سے آثار و افعالِ ناقصہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ امورِ اختیاریہ ہیں۔ پس ایاز کا یہ سلیقہ اور امرا کی یہ بد سلیقگی اس طرح مستند الی الاختیار ہے باقی مثال ماہ اور گل کو قیاس مع الفارق ہے کیونکہ وہ خود ذی اختیار نہیں ہیں اور کلام ہو رہا ہے افعالِ اہلِ اختیار میں اور ’’آنچہ از نفس زاد‘‘ میں اسی فرق کی طرف اشارہ ہے کہ کلام ہے اہلِ نفس میں اور یہ دونوں مذکور اہلِ نفس نہیں ہیں اور یہی نفس ہے جو صفتِ اختیار کے سبب مکلّف ہوا ہے۔ (کلید)
5
ورنہ کے آدم بگفتے با خدا رَبَّنَا إنَّا ظَلَمْنَا نَفْسَنَا
ترجمہ: (غرض یہ افعال اختیار کے ساتھ صادر ہوتے ہیں) ورنہ آدم علیہ السلام خداوند تعالیٰ کی جانب میں یہ عرض کیوں کرتے کہ ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا نَفْسَنَا﴾ (الااعراف: آیت 2) یعنی ’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا‘‘۔
6
خود بگفتے کاین گناہ از بخت بود چون قضا این بود حُزمِ ما چہ سود
ترجمہ: (بلکہ) وہ یہی کہتے کہ یہ گناہ (میری) تقدیر سے ہو گیا (اور) جب تقدیر یہ تھی تو ہماری ہوشیاری (سے) کیا فائدہ؟
7
ہمچو ابلیسے کہ گفت أغْوَیْتَنِیْ تو شکستی جام و ما را مے زنی
ترجمہ: جیسے ابلیس نے کہا تھا کہ (اے پروردگار) تو نے مجھے گمراہ کیا تو نے (خود) جام توڑا اور تو مارتا ہے ہم کو۔
مطلب: ابلیس نے جو کچھ کہا عقیدۂ جبر کے مطابق کہا کیونکہ اس نے اغوا کو حق تعالیٰ کے ساتھ منسوب کیا اور یہ باطل ہے اگر یہ باطل نہ ہوتا تو آدم علیہ السلام بھی جبر کے قائل ہوتے اور ظلم کی نسبت اپنے ساتھ نہ کرتے بلکہ (معاذ الله) حق تعالیٰ کے ساتھ کرتے اس سے ثابت ہے کہ اپنے اختیار کی نفی صحیح نہیں۔
8
بل قضا حق ست و جہدِ بنده حقہِین مباش اَعْور چو ابلیسِ خَلَق
ترجمہ: بلکہ قضا (بھی) برحق ہے اور بندہ کی سعی (بھی) برحق ہے (دونوں کا قائل ہونا چاہیے) خبردار! ابلیس فرسودہ عقل کی طرح یک چشم نہ بن جا۔
مطلب: ابلیس کو یک چشم یعنی کانا بدیں لحاظ کہا کہ وہ حق و انصاف پر قائم نہیں تھا چنانچہ یہاں جب اس پر عدمِ اطاعت کا الزام عاید ہو تو عدیم اختیار بن گیا اور اغوا کو خداوند تعالیٰ سے منسوب کرنے لگا اور قیامت کو جب اس کے گمراہ کئے ہوئے لوگ اپنا برا انجام دیکھ کر اسے برا بھلا کہیں گے تو ان سے کہے گا ﴿فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ (ابراہیم: آیت 22) یعنی ”مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘۔ گویا وہاں وہ ان لوگوں کا با اختیار ہونا تسلیم کرے گا جنہوں نے خود دیده دانستہ گمراہی اختیار کی۔ اس لئے مستوجبِ ملامت ہوئے ۔ یہاں تک خبر کے ابطال کی دلیل سمعی و نقلی تھی۔ آگے اس کی وجدنی و عقلی دلیل ارشاد ہے۔
9
در تردُّد مانده ایم اندر دو کار ایں تردُّد کَے بود بے اختیار
ترجمہ: (یہ بدیہی بات ہے کہ) ہم لوگ (بعض اوقات) دو امر کے درمیان تردد میں رہا کرتے ہیں کہ یوں کریں یا یوں کریں اور ظاہر ہے کہ یہ تردد بدوں اختیار کے کب ہو سکتا ہے؟
مطلب: یہاں خاص وہ ’’تردُّد‘‘ مراد ہے جو کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے میں ہوتا ہے جس کا کرنا اور نہ کرنا دونوں انسانیت کے اختیار میں ہیں وہ ’’تردُّد‘‘ مراد نہیں جو بعض اوقات امورِ غیر اختیاریہ میں بھی ہوتا ہے۔ مثلًا دیکھیے آج بارش ہوتی ہے یا نہیں۔ خدا جانے حاکم میری عرض پر غور کرے گا یا نہیں۔ کیا معلوم اگلے مہینے گیہوں کا نرخ ارزاں ہو گا یا گراں اور اختیارات میں تردد بداہۃً اختیار کی دلیل ہے ورنہ:
10
این کنم یا آن کنم کَے گوید او کہ دو دست و پاش بستہ است اے عمو
ترجمہ: (ورنہ) اے چچا جان! جس شخص کے دونوں ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوں وہ یوں کب کہتا ہے کہ میں (یہ) کام کروں یا وہ کروں؟ (کیونکہ رسی کی عارضی بندش اس کی مانع اختیار ہے اسی طرح جو امر اصل میں غیر اختیاری ہو اس میں بھی تردد نہیں ہوسکتا)۔ چنانچہ:
11
ہیچ باشد این تردُّد در سَرم کہ رَوم در بحر یا بالا پَرم
ترجمہ: بھلا کبھی یہ تردد بھی میرے دماغ میں (پیدا) ہو سکتا ہے کہ میں سمندر (کے پانی کی سطح) میں (سطح زمین کی طرح) چلوں یا اوپر کی طرف اڑوں؟
مطلب: ظاہر ہے کہ ان کاموں میں ہرگز تردد نہیں ہوتا کیونکہ یہ امور اصل ہی سے غیر اختیاری ہیں گو کسی امر عارض سے اختیاری ہو جائیں مثلًا شناوری کے کمال یا مصنوعی آلاتِ پرواز سے۔ پس پہلی مثال اسی فعل کی تھی جو اصل میں اختیاری تھا مگر رسی کی بندش کے عارض سے غیر اختیاری ہو گیا اور دوسری مثال ایسے فعل کی ہے جو اصل میں غیر اختیاری تھا مگر کمال شناوری اور مصنوعی آلہ پرواز سے اختیاری بن گیا ۔بہرحال کوئی فعل جس حیثیت سے بھی غیر اختیاری ہو اس کے کرنے اور نہ کرنے میں تردد نہیں ہو سکتا۔ (کلید مثنوی)
12
این تردُّد ہست کہ موصل رَوم یا برائے سِحر تا بابل روم
ترجم: (البتہ) یہ تردد (ہو سکتا ہے) ہے کہ میں (شہر) موصل کو جاؤں یا (مثلًا) جادو (سیکھنے) کے لئے بابل پہنچوں؟ (اور یہ تردد اسی لئے واقع ہوتا ہے کہ فعل اختیاری ہے)۔
13
پس تردُّد را بباید قدرتے ورنہ آن خنده بود بر سبلتے
ترجمہ : پس (معلوم ہوا کہ) تردد کے لئے قدرت (ہونی) چاہیے ورنہ وہ (تردُّد محض) ایک مذاق ہو گا۔
14
بر قضا کم نہ بہانہ اے جَوان جرمِ خود را چون نہی بر دیگراں
ترجمہ: جب اپنا اختیار ثابت ہو گیا تو اے جوان! تم قضائے (الٰہی) پر بہانہ (جوئی) نہ کرو (کہ میں کیا کروں تقدیر میں یونہی تھا کیونکہ) اپنے جرم کو دوسروں پر (خصوصًا تقدیرِ الٰہی پر) کیوں رکھتے ہو (جو باتفاقِ اہلِ حق قبیح ہے)۔
15
خون کند زید و قصاصِ او بعَمرمی خورُد بکر و بر احمد حدِّ خمر
ترجمہ: (اور نہ یہ ایسی مثال ہو گی کہ) خون تو کرے زید اور اس کا قصاص (ليا جاۓ) عمرو سے (اور مثلاً) شراب تو پیئے بکر (اور) شراب (پینے) کی حد (جاری کی جاۓ) احمد پر۔
16
گردِ خور برگرد و جرمِ خود ببینجنبش از خود بین و از سایہ مبین
ترجمہ: (جب ثابت ہوا کہ کوئی فعل غیر فاعل کی طرف منسوب کرنا بے جا ہے تو اب) اپنی پڑتال کرو اور اپنا جرم دیکھو حرکت (کا) اپنے (وجود) سے (واقع ہونا) دیکھو، سایہ سے (واقع ہونا) نہ دیکھو۔
مطلب: ہر چند کہ سایہ بظاہر متحرک نظر آتا ہے مگر اس کی حرکت جسم کی حرکت کے تابع ہے اس لئے اس کو اصل متحرک نہیں کہتے بلکہ جسم کو اصل متحرک کہتے ہیں کیونکہ حرکت کا اصل فاعل جسم ہے۔ پس یہ کس قدر بے انصافی ہے کہ جو متحرک نہیں فعلِ قبیح تم سے صادر ہو اس کو حق تعالیٰ کے ساتھ منسوب کرو جب تم سایہ کو حرکت کے ساتھ بظاہر موصوف ہونے کے باوجود بالاصالۃ متحرک نہیں سمجھتے تو پھر حق تعالیٰ کے ساتھ اس فعل کو منسوب کیوں کرتے ہو جو نہ بظاہر اس فعل کا فاعل ہے نہ فی الحقیقت۔ غرض اپنا فعل کسی دوسرے سے منسوب نہ کرو۔
17
کہ نخواهد شد غلط پاداشِ میر خصمِ را می داند آن میرِ بصیر
ترجمہ: کیونکہ حاکم (حقیقی) کی جزا غلط نہیں ہوسکتی وہ حاکم مدعا علیہ کو (خوب) جانتا ہے (جب وہ بندے کو اس کے فعل کی جزا دیتا ہے تو بندہ ہی اس کا فاعل ہوا)۔
18
تو عَسل خوردی نیاید تب بغیرمزدِ روزِ تو نیاید شب بغیر
ترجمہ: تم نے (اعتدال سے زیادہ) شہد کھایا تو (اس کی حرارت سے تمہی کو) تپ (آۓ گی) غیر کو نہ آئے گی۔ تمہارے دن (کے کام) کی مزدوری رات کے وقت غیر کو نہ ملے گی۔
19
تو چہ کردی جہد کان با تو نگشت تو چہ کاریدی کہ نامد ریعِ کشت
ترجمہ: تم نے کیا کوشش کی تھی کہ (اس کی جزا) تمہاری طرف (عاید) نہیں ہوئی تم نے کیا بویا تھا کہ (تم کو اس کی) زراعت سے پیداوار حاصل نہیں ہوئی۔
مطلب: دنیا میں انسان جس مقصد کے لئے کوشش کرتا ہے بشرطیکہ اس کا حصول ممکن ہو تو اکثر اس میں کامیاب ہو جاتا ہے یعنی جو کام کرتا ہے اس کا ثمره پاتا ہے اسی طرح جن اعمال کی سزا و جزا آخرت میں ملنے والی ہے ان کا ثمرہ وہاں پائے گا چنانچہ فرماتے ہیں:
20
فعل تو کان زاید از جان و تنت ہمچو فرزندت بگیرد دامنت
ترجمہ: تمہارا فعل جو تمہاری روح اور جسم سے پیدا ہوتا ہے (آخرت میں) تمہارے فرزند کی طرح تمہارا دامن پکڑے گا۔
مطلب: یہاں فعل کی جزا کو بمنزلہ فعل قرار دیا جائے کیونکہ قیامت میں وہ جزا ہی دست گیر ہو گی نہ اصل فعل اور وہ جزا اسی طرح دامن گیر ہو گی جس طرح فرزند باپ کا دامن پکڑ کر چلتا ہے۔ آگے فعل کو بمنزلہ فعل ٹھہرانے کی وجہ ارشاد فرماتے ہیں:
21
فعل را در غیب صُورت مے کنند فعلِ دُزدی را نہ دارے میزنند؟
ترجمہ: (عالم) غیب میں (ہر) فعل کی ایک صورت بنا دی جاتی ہے (کہ ان دونوں میں ایک معنوی مشابہت ہوتی ہے چنانچہ یہاں بھی دیکھو) کیا رہزنی کے فعل (کی سزا) کے لئے ایک دار نہیں لگاتے۔
مطلب: تمام نیک و بد اعمال قیامت میں خاص خاص صورتوں میں متشکل ہو کر پیش آئیں گے اور ان صورتوں کی اصل اعمال کے ساتھ کوئی خاص معنوی مناسبت ہو گی۔ جیسے احادیث میں وارد ہے کہ بخیل کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں صاحبِ مال کے گلے سے لپٹ جائے گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس بات کو بالتفصیل لکھا ہے مولانا فرماتے ہیں کہ ان اعمال اور ان کی جزا کی صورتوں میں معنوی مشابہت ضرور ہوتی ہے اگرچہ ظاہری مشابہت نہ ہو، چنانچہ دنیا میں جب مختلف جرائم کی گوناگوں سزائیں دی جاتی ہیں تو آخر ان سزاؤں کو اسی بنا پر تجویز کیا جاتا ہے کہ ان کو اپنے متعلقہ جرائم کے ساتھ خاص معنوی مناسبت ہوتی ہے۔ ﴿وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُـهَا﴾ (الشوری: آیت 40) اگرچہ ظاہری مشابہت نہ ہو جیسے رہزنی کے لئے دار تجویز کی جاتی ہے حالانکہ اس کو رہزنی کے ساتھ ظاہرًا کوئی مشابہت نہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
22
دار کے ماند بدزدی لیک آن ہست تصویرِ خدائے غیب دان
ترجمہ: (حالانکہ ) دار (ظاہرًا) چوری کے ساتھ مشابہ کب ہے وہ (بھی) خدائے غیب دان کی (طرف سے سزا کی) ایک صورت بنائی ہوئی ہے۔
23
در دلِ شحنہ چو حق الہام داد کاین چُنین صورت بساز از بہر داد
24
تا تو عالم باشی و عادل، قضانا مناسب چون دہد داد و سزا
ترجمہ: جب شحنہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے الہام کر دیا کہ انصاف کرنے کے لئے (سزا دینے کی) ایسی صورت بنا لے تاکہ تو (احکامِ حدوع کا) عالم اور (اس کے نفاد میں) عادل قرار پائے (تو پھر) قضا (ئے الٰہی آخرت میں) نا مناسب جزا و سزا کیوں دے گی؟ (كذا فی بحر العلوم)
مطلب: دنیاوی ضابطۂ شرع میں جرائم کی جو سزائیں دی جاتی ہیں مثلاً سرقہ میں قطعِ ید، سرقہ کبریٰ میں قتل، تو یہ بھی خداوند تعالٰی کے حکم سے مقرر ہوئی ہیں جن کو سب حکام عمل میں لاتے ہیں اور عوام بھی ان کو معقول و مناسب سمجھتے ہیں۔ کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ان سزاؤں کو اصل جرائم کے ساتھ عین مناسب سمجھتا ہے۔ پس آخرت میں افعال و اعمال کی جو جزا و سزا دی جائے گی وہ بھی مناسب ہو گی یہ کب ممکن ہے کہ حق تعالیٰ کی قضا دنیا میں تو مناسب جزا و سزا تجویز کرنے اور آخرت میں غیر مناسب؟ آخری مصرعہ بعض نسخوں میں یوں ہے ”نا مناسب چون دہد داور سزا“ یعنی قضائے الٰہی جو عادل ہے، نا مناسب سزا کیوں دے گی۔
25
چُون حاکم ایں کُند اندر گزین چُو کند حُکم احکَم این حاکمین
ترجمہ: جب (دنیوی) حاکم اپنے انتخاب سے (جو بالہام حق ہے) یہ انصاف کرتا ہے تو (سوچنا چاہیے کہ) ان حاکموں کا بڑا حاکم (تعالیٰ شانہ) کیا کچھ (انصاف) کرے گا۔
26
چون بکاری جَو نروید غيرِ جَو قرض تو کردی ز کہ خواہی گِرو
ترجمہ: جب تم جو بوؤ گے تو جو کے سوا کچھ نہ اُگے گا۔ قرض تم نے کیا ہے (تم ہی قرض دینے والے کے پاس کچھ گروی بھی رکھو پھر اور) کسی سے گروی رکھنے کے خواہاں ہو۔
مطلب: پہلا مصرعہ اس بات کی تمثیل ہے کہ جیسا عمل ہو گا ویسی ہی اس کی جزا ہو گی۔ دوسرا مصرعہ اس امر کی مثال ہے کہ جو شخص عمل کرے گا وہی اس کی جزا پائے گا۔ یہ نہیں کہ عمل کوئی کرے اور جزا و سزا کوئی بھگتے۔ مثلاً ایک شخص روپیہ قرض لیتا ہے تو وہی اپنی کوئی چیز بطور کفالت رہن رکھے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ قرض کرنے والا اپنے بجائے کسی دوسرے کے ہاتھوں کو تکے کہ وہ رہن رکھے۔ پس:
27
جرمِ خود را بر کسے دیگر منہ ہوش و گوشِ خود برین پاداش ده
ترجمہ: تم اپنے جرم کو کسی دوسرے شخص پر نہ رکھو اپنے ہوش اور کان (اپنی) اس سزا پر لگائے رکھو۔
28
جرم بر خُود نہ کہ تو خود کاشتی با جزا و عدلِ حق کن آشتی
ترجمہ: جرم ( کے صدور) کو اپنے ساتھ منسوب کرو (یہ نہ کہو کہ خدا نے مجھ سے سرزد کرا دیا) کیونکہ خود تم نے (اس کا بیج) بویا ہے (اور) حق تعالیٰ کی جزا اور عدل کے ساتھ (تعلیم و) رضا (کا برتاؤ) کرو۔
مطلب: دوسرے مصرعہ کا مضمون پہلے مصرعہ کے مضمون کا نتیجہ ہے یعنی تم جرم کے صدور کو اپنے ساتھ منسوب کرو گے تو لازمی طور پر یہ بھی تسلیم کرو گے کہ مجھ کو اس کی جزا و سزا ملنی حق بجانب اور عین عدل ہے کیونکہ بندہ کا کسی
جرم پر مستوجبِ سزا ہونا اور اس سزا کا مقتضائے عدل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ جرم بندے سے صادر ہوا ہو۔ بندے سے جرم کے صادر ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ:
29
رنج را باشد سبب بد کردنیبد ز فعلِ خود شناس از بخت نی
ترجمہ: رنج و مصیبت جو پیش آتی ہے اس کا سبب برا فعل ہے (جو تم سے صادر ہوتا ہے پس) برائی کو اپنے فعل سے (صادر ہونے والی) سمجھو نہ کہ تقدیر سے۔
مطلب: حق تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ﴾ یعنی”اور (لوگو!) تم پر جو مصیبت پڑتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی کرتوت سے اور خدا (تمہارے) بہت (سے قصوروں) سے درگزر کرتا ہے“ (الشوری: آیت 30) اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کی تمام مصائب اس کے اپنے اعمال کے نتائج ہیں اور اگر وہ ان اعمال کو اپنے اختیار سے نہیں بلکہ تقدیر سے مجبور ہو کر صادر کرتا ہے تو پھر ہرگز نزولِ مصائب کا مستوجب نہ ہوتا۔
30
آن نظر در بخت چشمِ احول کندکلب را گہدانی و کاہل کند
ترجمہ: تقدیر میں نظر (کرنا اور اپنے فعل کو محض اس کی طرف منسوب سمجھنا) آنکھ کو کج بین بنا دیتا ہے (اور) كلب (نفس) کو غلیظ خانہ کا مقید اور کاہل کر دیتا ہے۔
مطلب: جب بندہ اپنے فعل کا صدور اپنے اختیار سے نہیں بلکہ تقدیر کے جبر سے سمجھتا ہے تو ہمت ہار دیتا ہے اور چونکہ نفس کا میلان معاصی و منیہات کی طرف زیادہ ہے، جن کے قصد و ارتکاب کے لئے کسی ہمت کی ضرورت نہیں اس لئے بندہ معاصی و منیہات کی نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے اگر ’’گہدان‘‘ بمعنی آخور ہو تو اس کی بنا اس مثل پر ہو گی کہ کتا آخور میں بیٹھ گیا نہ چرتا ہے نہ چرنے دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ اپنے آپ کو مجبور سمجھ لینے سے نفس کو ترک طاعات کا ایک بہانہ مل جاتا ہے پھر نہ خود راہ راست پر آتا ہے نہ بندے کو آنے دیتا ہے۔
31
مُتَّہم کن نفسِ خود را اے فتیٰمُتّہم کم کن جزاۓ عدل را
ترجمہ: (پس) اے جوان! اپنے نفس (ہی) کو (اس باره میں) ملزم سمجھو اور (خداوند تعالیٰ کے) عدل کی جزا پر نکتہ چینی نہ کرو۔
32
توبہ کُن مردانہ سر آور براہکہ فَمَنْ يَّعْمَلْ بمِثْقَالٍ يَّرَه
ترجمہ: (بلکہ اس سے) توبہ کرو اور جوانمردوں کی طرح صراطِ مستقیم پر چل پڑو کیونکہ جو شخص ذرہ بھر عمل کرتا ہے اس کا پھل پائے گا۔
مطلب : الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ﴾ ’’تو جس نے ذره بھر نیکی کی (ہو گی) وہ اس (نیکی ) کو (بچشم خود) دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اس برائی کو (بچشم خود) دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال: آیت 7-8) آگے ’’خَیرًا یَّرَہُ‘‘ اور ’’شَرًّا یَّرَہُ‘‘ کی مزید توضیح ہے۔
33
در فسونِ نفس کَم شود غرّۂ کافتابِ حق نپوشد ذرۂ
ترجمہ: نفس کی فریب آمیز باتوں سے دھوکا نہ کھانا کیونکہ آفتابِ حق ایک ذرہ (بھر عمل) کو چھپا (ڈھکا) نہیں رہنے دے گا۔
مطلب: شاید کسی معصیت کے وقوع پر نفس بہکانے لگے کہ اس سے توبہ کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ ایک معمولی فعل ہے۔ اسے کون پوچھتا ہے فرماتے ہیں کہ یہ نفس کا فریب ہے حق تعالیٰ ادنیٰ سے ادنیٰ فعل کو بھی بلا حساب نہیں چھوڑے گا۔ خواہ آخر میں معاف ہی کر دے مگر سب چھوٹے بڑے اعمال کا حساب ضرور ہو گا۔ آگے اس بات کو کہ حق تعالیٰ کے علم سے ہمارا کوئی فعل مخفی نہیں ۔آفتابِ ظاہری کی مثال سے واضح فرماتے ہیں:
34
ہست این ذراتِ جسمی اے مفید پیشِ این خورشید جسمانی پدید
ترجمہ: اے فائده رسان! (خیال تو کرو کہ) یہ عنصری ذرات (جو ریت میں چمکتے ہیں) اس ظاہری آفتاب کے آگے نمایاں (رہتے) ہیں (تو)۔
35
ہست ذراتِ خواطر و افتکار پیشِ خورشیدِ حقائق آشکار
ترجمہ: (اسی طرح) خیالات و تفکر کے ذرے (کو جو مبدائے افعالِ جوارح ہیں) حقیقتوں کے آفتاب (یعنی) حق تعالیٰ کے آگے ظاہر ہیں (اس پر سوال ہوسکتا ہے کہ ریت کے ذروں کو تو ہم بھی دیکھتے ہیں مگر دوسروں کے خیالات کے ذرے ہم کو نظر نہیں آتے)۔ آگے اس کا جواب ہے:
36
پیشِ حق پیدا و پیشِ تو نہان سِرِّ غیب ست این مکُن فکرے دران
ترجمہ: یہ (خیالات) حق تعالیٰ کے آگے ظاہر اور تمہارے آگے مخفی ہیں یہ غیب کا ایک راز ہے اس میں (بے ضرورت) خوض نہ کرو۔
مطلب: علمِ الہٰی عالمِ غیب کے اسرار سے ہے اس میں غور و خوض کرنے کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ حافظ
ز سرِّ غیب کس آگاه نیست قصہ مخوانکدام محرمِ دل ره درین حرم دارد
یہاں مسئلہ زیر بحث ہے کہ حق تعالیٰ کو سب اعمال معلوم ہیں اور سب اعمال پر جزا و سزا مترتب ہو گی اور یہ مسئلہ علم الہٰی کی کنہ معلوم کرنے پر موقوف نہیں۔ آگے مسئلہ جبر و اختیار کی مناسبت سے ایک حکایت ارشاد ہے: