حکایت آن صیّاد کہ خود را در گیاہ پیچیده بُود و دستۂ گُل و لالہ کلہ وار بر سر نہاده تا مرغان گیاه پندارند و دانستن آن مرغِ زیرک اما با فسون مغرور شدن
اس شکاری کی کہانی جس نے اپنے آپ کو گھاس میں لپیٹا ہوا تھا اور گل و لالہ کے دستے تاج کی طرح سر پر رکھے تھے تاکہ پرندے گھاس سمجھیں اور ایک دانا مرغ کا سمجھ جانا لیکن فریب آمیز باتوں سے دھوکا کھانا
اس حکایت کی ایراد سے جبر اختیار کی مذکورہ بحث کے صرف اس جز کی تائید مقصود ہے کہ اپنے قصور کو کسی اور کے ذمہ نہ لگاؤ۔ ؎ جرم خود را بر کسے دیگر منہ۔ الخ چنانچہ اس کہانی میں ذکر ہو گا کہ جب وہ مرغ جال میں پڑ گیا اور اس نے صیاد پر مکر و فریب کا الزام لگایا تو صیاد نے جواب دیا کہ تو خود دانہ کی حرص میں اپنے اختیار سے جال میں پھنسا ہے۔
1
رفت مرغے درمیانِ لالہ زاربود آن جا دام از بہرِ شکار
ترجمہ: ایک پرندہ لالہ زار میں (چرنے چگنے) گیا وہاں شکار کے (پھنسانے) کے لئے ایک جال لگا ہوا تھا۔
2
دانہ چندے نہاده بر زمینو آن صیاد آ ن جا نشستہ در کمین
ترجمہ: چند دانے زمین پر رکھے تھے اور وہ شکاری (جس نے جال لگایا اور دانے رکھے تھے) وہاں گھات میں بیٹھا تھا۔
3
خویش را پیچیده در برگ و گیاهوز گل و لالہ ورا بر سر کلاه
ترجمہ: اس نے اپنے آپ کو پتوں اور گھاس میں لپیٹ رکھا تھا۔ اور گل و لالہ کی ایک ٹوپی اس کے سر پر (رکھی تھی)۔
4
در کمین بنشستہ و کرده نگاه تا در افتد صيدِ بے چارہ ز راہ
ترجمہ: گھات میں بیٹھا اور (ادھر ادھر) تک رہا تھا کہ کوئی بے چارہ شکار راستے سے (بھٹک کر جال میں) آ پڑے۔
5
مرغک آمد سوۓ او از ناشناخت پس طوافے کرد و سوۓ مرد تاخت
ترجمہ: (آخر) ایک بیچارہ پرندہ بے خبری میں اس کی طرف (اڑتا چلا) آیا، پھر ایک چکر لگایا اور (اس ) شخص (کا عجوبہ سوانگ دیکھ کر اس) کی طرف دوڑا (کہ دیکھے یہ کیا چیز ہے)۔
6
گفت او را کیستی اے سبز پوش؟در بیابان در میانِ این وُحوش
ترجمہ: (قریب آ کر دیکھا کہ کوئی آدمی ہے تو) اس سے پوچھا اے ہرے (پتوں کے) لباس والے! (جو اس) جنگل میں وحشی جانوروں کے درمیان (مقیم ہے) کون ہے؟
7
گفت مردے زاہدم من منقطع با گیاه و برگ این جا مقتنع
ترجمہ: اس نے جواب دیا کہ میں ایک زاہد آدمی ہوں (معاملات دنیویہ سے)، بے تعلق (ہوں اور) یہاں گھاس اور پتوں پر قانع (ہوں)۔
8
زُہد و تقویٰ را گزیده دین و کیش زانکہ می بینم اجل را پیشِ خویش
ترجمہ: ترکِ دنیا اور پرہیز گاری کو (اپنا) دین و مذہب بنا لیا ہے کیونکہ میں موت کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔
9
مرگِ ہمسایہ مرا واعظ شدهکسب و دُکّانِ مرا بر ہم زده
ترجمہ: ہمسایہ کی موت میرے لئے واعظ بن گئی اور اس نے (میرے دل پر اثر ڈال کر) میری کمائی اور دکان کو تہ و بالا کر دیا (چنانچہ میں سب کو چھوڑ چھاڑ کر کھڑا ہو گیا)۔
10
چون بآخر فرد خواہم ماندنخو نباید کرد با ہر مرد و زن
ترجمہ: (میں نے سوچا کہ) جب آخر مجھے (قبر میں) تنہا ہی رہنا ہو گا تو ہر مرد و زن کے ساتھ (تعلق رکھنے کی) عادت کرنا نہیں چاہیے۔
11
روئے خواہم کرد آخر در لحد آن بہ آید کہ کنم خو با احد
ترجمہ: آخر مجھے (اہل دنیا کو چھوڑ کر) لحد کا رخ کرنا پڑے گا (جہاں خداوندِ کریم کے سوا کوئی مرا رفیق نہ ہوگا پس) بہتر یہی ہے کہ (ابھی سے خداوندِ) احد کے ساتھ (تعلق رکھنے کا) خوگر ہو جاؤں۔
12
چوں زنخ را بست خواہند اے صنم آن بہ آید کہ زنخ کمتر زنم
مطلب: پیارے! جب (مرتے وقت) میری ٹھوڑی باندھ دی جائے گی (جیسے کہ دستور ہے) تو بہتر یہی ہے کہ میں (فضول بکنے میں) ٹھوڑی کم چلاؤں (آگے مولانا بمناسبتِ مقام نصیحت فرماتے ہیں)۔
13
اے بہ زربفت و کمر آموختہ آخرستت جامۂ نادوختہ
ترجمہ: اے وہ شخص جو زربفت (پہننے) اور کمر بند (باندھنے) کا سبق پڑھے ہوئے ہے آخر تیرے لئے وہ بے سلا کپڑا( یعنی کفن) ہے۔
جہان فانی پہ فخر و غرور بے جا ہے خیال و خواب یہ دنیا کا سب تماشا ہے
نہ جاہ و شوکت و اقبال ساتھ جاۓ گا نہ گنج و سیم و زر و مال ساتھ جائے گا
ہو گوشہ لحد کا اور چند گز کفن ہو گا فراشِ خاک پہ واں لوٹتا بدن ہو گا
14
رو بخاک آریم کز وے رستہ ایم دل چرا در بیوفایان بستہ ایم
ترجمہ: ہم (سب آخر ) مٹی کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ اسی سے پیدا ہوئے ہیں (پھر) ہم نے (ان خویش و اقارب اور مال و دولت وغیرہ) بے وفاؤں میں دل کیوں پھنسا لیا (جس کو آخر چھوڑنا پڑے گا)۔
مطلب: پہلے مصرعہ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ۔۔﴾ (طہ: آیت 55) یعنی ’’ہم نے اس خاک سے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو دوبارہ لے جائیں گے‘‘۔
15
جد و خویشان مان قدیمی چار طبع ما بخویشِ عاریت بَستیم طمع
ترجمہ: ہمارے قدیمی جد اور اقارب تو چار عنصر (ہیں)۔ ہم نے عارضی اقارب سے امید وابستہ کر لی۔
16
سالہا ہم صحبتی و ہمدمیبا عناصر داشت جسمِ آدمی
تر جمہ: آدمی کا جسم برسوں سے عناصر کے ساتھ صحبت و رفاقت رکھتا تھا۔
مطلب: صحبت و رفاقت کا مطلب یہ ہے کہ جسم عناصر کی شکل میں تھا کیونکہ ہر مرکب ترکیب سے پہلے عناصرِ بسیط کی شکل میں ہوتا ہے اور انحلال ترکیب کے بعد پھر بسائط کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تو جسم کی اصل ہے جو وجود انسانی کا ایک جزو ہے اور دوسرا جزو روح ہے جو انسان کی حقیقت ہے۔ اب اس کی کیفیت بیان فرماتے ہیں:
17
روح او خود از نفوس و از عقول روح اصلِ خویش را کرده نکُول
ترجمہ: اس کی روح خود (عالم) نفوس و عقول سے ہے (مگر) روح اپنی اصل اعراض کئے ہوئے ہے۔
مطلب: یہاں عقول سے فلاسفہ کی اصطلاحی عقول مراد نہیں کہ وہ بوجہ دعویٰ قدیم کے باطل ہیں بلکہ انسانی عقل مراد ہے کہ وہ بعض اہل کشف کے نزدیک جواہر سے ہے اور وہ اور نفس دونوں لطائفِ انسانیہ سے ہیں۔ خود ان دونوں میں تغایرِ اعتباری ہو یا حقیقی علی اختلاف القولین۔ اسی طرح روح بھی ایک لطیفۂ مجردہ ہے کہ لطائفِ مذکورہ سے تغائرِ اعتباری رکھتا ہے یا حقیقی۔ (کلید)
18
از نفوس و از عقولِ با صفا نامہ می آید بجان کا ئے بیوفا
19
یارگانِ پنج روزه یافتی رو ز یارانِ کہن بر تافتی
ترجمہ: (تو ان) پاک نفوس اور عقول کی طرف سے روح کی طرف نامہ (و پیام) آتا ہے کہ اے بے وفا۔ تو نے (دنیا میں) یہ پانچ دن کے یار پا لئے ہیں (ان سے مل کر) پرانے یاروں سے رخ پھیر لیا۔
مطلب: یعنی دوسری ارواحِ عالم غیب سے اس کو یہ ندا کر رہی ہیں اگر ان سے وہ ارواح مراد ہوں جو ابھی دنیا میں اجسام سے متعلق ہو کر نہیں آئیں تو یہ پیغام خالی ہے۔ یعنی وہ بزبانِ حال یوں کہہ رہی ہیں کہ اے روح تو بھی ہماری طرح آلایشِ جسم سے پاک تھی اور اب متعلق بجسم ہو کر غفلت میں پڑ گئی اور اگر وہ ارواح قرار دی جائیں جو دنیا سے انتقال کر گئی ہیں تو ان کا پیغام قالی ہے۔ چنانچہ احادیث میں بعض شہیدوں کا پیغام زنده رفقا تک ان کی درخواست پر پہنچنا وارد ہے۔ ’’اَلاَ بَلِّغ عَنَّا اِخوَانِنَا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا‘‘ یعنی ’’ہاں ہمارے بھائیوں تک ہمارا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے پروردگار سے جا ملے وہ ہم سے راضی ہوا اور اس نے ہم کو راضی کر دیا‘‘ (کلید) آگے ایک مثال سے دنیا کے عارضی مقام پر عالمِ بالا کے اصلی مقام کی ترجیح ثابت فرماتے ہیں۔
20
کودکان گرچہ کہ در بازی خوشند شب کشان شان سوئے خانہ می کشند
ترجمہ : لڑکے اگر چہ کھیل میں خوش ہیں (اور کھیل کو چھوڑ کر گھر جانا نہیں چاہتے مگر) رات کے وقت لوگ ان کو کشان شان گھر کی طرف لے جاتے ہیں (اسی طرح غافل انسان اگرچہ دنیا سے نکلنا نہیں چاہتا مگر آخر یہاں سے انتقال کرنا ہی پڑتا ہے)۔
21
شد برہنہ وقتِ بازی طفلِ خُرددُزد ناگاہش قبا و کفش بُرد
ترجمہ: ایک چھوٹا سا لڑکا (کھیلتے وقت حسب دستور فالتو کپڑے اتار کر ان سے) ننگا ہو گیا (اور) اچا نک ایک چور اس کے کوٹ اور جوتے کو (جو اس نے اتار کر رکھے تھے ) چرا لے گیا۔
22
آن چنان گرم او ببازی در فتادکان کلاه و پیرہن رفتش زیاد
ترجمہ: وہ اسی سرگرمی کے ساتھ کھیل میں مشغول ہوا کہ ٹوپی اور کرتا (بھی) اس کی یاد سے جاتے رہے (جو قبا اور جوتی کے بعد اتارے تھے اور ان کو بھی چور لے گیا)۔
23
شب شد و بازیِ او شد بے مدد رو ندارد کہ سوئے خانہ رود
ترجمہ: (اتنے میں) رات آ گئی اور (لڑکوں کے چلے جانے سے) اس کا کھیل بے مدد رہ گیا (اس لئے اب اسے گھر جانا پڑا مگر) کہ یہ منہ نہیں کہ (ننگا دھڑنگا) گھر جائے (آگے اس تمثیل کو ممثل لہ پرچسپاں فرماتے ہیں)۔
24
نے شنیدی اِنَّمَا الدُّنْيَا لَعِبٌباد دادی رخت و گشتی مُرتعِب
ترجمہ: کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ دنیا ایک کھیل ہے (پس اس کھیل کے مقام میں) تم نے (بھی تقویٰ کے) اسباب کو برباد کر لیا اور (آخرت کی طرف تہی دست جانے سے) ڈرنے لگے۔
مطلب: اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّ زِينَةٌ وَّ تَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَ الْأَوْلَادِ﴾ ”(لوگو!) جانے رہو کہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا اور ظاہری طمطراق اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مال اور اولاد کا خواست گار ہونا ہے (اور بس)‘‘ (الحدید: آیت 20) وہ چور شیطان جو انسان کا دشمن اور اس کے متاعِ تقویٰ اور دولتِ طاعت کو اڑا لے جانے پر تلا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ ”کچھ شک نہیں کہ شیطان تمہارا (جانی) دشمن ہے تو (تم بھی) اس کو (اپنا) دشمن ہی سمجھے رہو“ (فاطر: آیت 6) رات سے مراد موت کا وقت ہے جس انسان کو سرمایۂ طاعات سے تہی دست آخرت کی طرف جاتے ڈر لگتا ہے۔
قبر میں جب امتحان ہو گا تو کیا دیں گے جواب لے کے کیا منہ جائیں گے پھر پیشِ رب العالمین
25
پیش از آنکہ شب شود جامہ بجوروز را ضائع مکن در گفتگو
ترجمہ: (لہٰذا) رات ہونے سے پہلے اپنے کپڑے ڈھونڈھ لو دن کو (محض) قیل و قال میں ضائع نہ کرو۔
مطلب: فوت شدہ تقوٰی و طاعت کا اعادہ کر لو۔ زندگی فضول باتوں میں ضائع نہ کرو۔ کما قیل:
کار کن کار بگذار از گفتارکاندرین روزگار باید کار
وہکذا:
عذر میاور نہ حیل خواستد این سخن ہست از تو عمل خواستند
گر بہ سخن کار میسر شدے کارِ نظامی بفلک بر شد
آگے پھر صیاد کہتا ہے۔
26
من بصحرا خلوتے بگزیدہ امخلق را من دزدِ جامہ دیده ام
ترجمہ: میں نے صحرا میں تنہا نشینی اختیار کر لی ہے (کیونکہ) لوگوں کو میں نے کپڑے کا چور پایا ہے۔
27
نیم عمر از آرزوئے دلستان نیم عمر از غصّہائے دشمنان
ترجمہ: (اس طرح سے کہ ان لوگوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں) آدھی عمر تو (کسی امرِ) محبوب کی آرزو سے (برباد ہوتی ہے اور ) آدھی دشمنوں کے رنج و غصہ سے ضائع ہوتی ہے)۔
28
جبّہ را بُرد آن کلہ را این ببُرد غرقِ بازی گشتہ ما چون طفلِ خرد
ترجمہ: (اور یہ وہی مثال ہوئی کہ) وه (جلبِ مرغوبات کے انہماک کا چور تقوٰی کے) کوٹ کو اڑا لے گیا اور یہ (دفعِ مکروہات کے بکھیڑے کا چور طاعات کی) ٹوپی کو لے اڑا۔ ہم چھوٹے بچے کی طرح کھیل میں ڈوبے ہوۓ ہیں۔
29
نک شبانگاهِ اجل نزدیک شد خَلِّ هٰذَا الَّلعبَ بَسَّکَ لَاتَعُدْ
ترجمہ: دیکھ موت کی رات آپہنچی (جس کے بعد دار آخرت کو جانا ہوگا بس اب) اس کھیل کو چھوڑ دو اور بس کرو(اور پھر اس کی طرف) عود نہ کرو۔
30
ہین سوارِ توبہ شو در دُزد رسجامہا از دزد بستاں باز پس
ترجمہ: ہاں! توبہ (کے مرکب) پر سوار ہو جاؤ (اور لپک کر اس) چور تک پہنچ جاؤ (اور) اس چور سے کپڑے واپس لے لو۔
31
مرکبِ توبہ عجائب مرکب ست بر فلک تازد بیک لحظہ ز پست
ترجمہ: توبہ کا مرکب( بھی) عجیب مرکب ہے ایک لمحہ میں پستی سے فلک تک دوڑ جاتا ہے۔ صائب: ؎
هر چہ از عمرِ گرامی صرف در غفلت شودمیتوان یک صبح دم در ملکِ استغفار یافت
32
لیک مرکب را نگہ میدار ازانکو بدزدید آن قبایت ناگہان
ترجمہ: لیکن (اس) مرکب (توبہ) کو اس (چور) سے محفوظ رکھو جس نے وہ تمہارا (تقوٰی کا) کوٹ ناگہاں چرا لیا تھا۔
مطلب: جس طرح شیطان لعین نے تم کو معاصی و سیئات کی چاٹ میں ڈال کر تقوٰی و پرہیز گاری سے محروم کر دیا تھا اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اب تمہاری توبہ پر بھی تاک لگائے اور تم کو توبہ شکنی پر آمادہ کر کے پھر مبتلائے معاصی کردے۔
33
تا ندزدد مرکبت را نیز ہم پاس دار ایں مرکبت را دمبدم
ترجمہ: تا کہ (کہیں) تمہارے مرکب (توبہ) کو بھی نہ چرا لے جائے (اس لئے) اپنے اس مرکب کی ہمیشہ حفاظت رکھنا (آگے اس بات کی تائید میں کہ شیطان کس طرح دھو کے پر دھوکا دیتا ہے ایک حکایت ارشاد ہے:)