دفتر 6 حکایت 16 : مرغ کا اپنی گرفتاری کو صیاد کے فریب سے وابستہ کرنا


حوالہ کردنِ مُرغ گرفتاری خود را بمکر صیّاد و صیّاد بہ حرص 

مرغ کا اپنی گرفتاری کو صیاد کے فریب سے وابستہ کرنا اور صیاد کا (مرغ کی) حرص سے

1

گفت آن مرغ این سزاۓ آن بود   کہ فسونِ زاہدان را بشنود

ترجمہ: اس مرغ نے کہا یہ (مصیبت جو مجھے پیش آئی) اس شخص کی سزا ہے جو (تجھ ایسے مکار) زاہدوں کی پر فریب باتوں کو سنے (اور سچ سمجھے)۔ حافظ ؎

اے کبکِ خوش خرام کہ خوش میروی بناز  غرّہ مشو کہ گربۂ زاہد نماز کرد

2

گفت زاہد نے سزائے آن نشاف  کہ خورد مالِ یتیمان از گزاف

ترجمہ: زاہد نے کہا نہیں (یہ بات نہیں بلکہ) یہ سزا اس دیوانگی کی ہے (یا اس طرح خود بخود جال میں پھنسنے کی ہے) کہ کوئی یتیموں کا مال بے تحقیق کھا جائے۔

مطلب: اس میں خود تیری خطا ہے کہ دانہ کھانے کی حرص پرعمل کیا اور پھنس گیا، گو مرغ کا قول اس لحاظ سے صحیح ہے کہ زاہد اس کی گرفتاری کا سبب ہو گیا لیکن اس اعتبار سے غلط ہے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بری سمجھ رہا ہے۔ وجہ غلطی کی ظاہر ہے کہ مرغ کی گرفتاری کا سبب اکیلا زاہد ہی نہیں بلکہ مرغ کا با اختیارِ خود دانہ پر مائل ہونا بھی ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ معاصی میں اپنے آپ کو بری سمجھنا اور محض تقدیر پر حوالہ کرنا جو عقیدۂ جبر کا منشا ہے، محض غلط ہے۔ اس سے جبر کی تو نفی ہو گئی لیکن ممکن تھا کہ اس سے کوئی قدر کا قائل ہو جاتا۔ اس لئے آگے نوحۂ مرغ کے پیرایہ میں یہ بیان ہو گا کہ انسان تقدیر کے آگے ضعیف و عاجز ہے اور ان قدرتی اسباب و دواعی سے جو اس سے بعض افعال صادر ہونے کے مقتضی ہیں مغلوب ہے۔ گو درجۂ اضطرار میں نہ ہو، تا کہ قدرتِ عبد کے استقلال کی بھی نفی ہو جائے کہ عقیدہ حقہ کہ ’’لَا جَبْرَ وَ لَا قَدْرَ وَ لٰكِنَّ الْاَمْرَ بَينَ الاَمْرَينِ‘‘ ثابت ہو جائے (کلید مثنوی بہ تبدیلِ عبارت)۔

3

 بعد ازان نوحہ گری آغاز کرد  کہ فخ و صیّاد لرزان شد ز درد

ترجمہ: اس کے بعد (مرغ نے اپنا قصور سمجھ کر اور اس کے اسبابِ حرص وغیرہ سے اپنا مغلوب ہونا یاد کر کے اس اضطرار و بے تابی سے) نوحہ گری شروع کی کہ دام اور صیّاد ( دونوں) درد سے کانپ اٹھے۔

4

 کز تناقضہائے دل پُشتم شکست  برسرم جانا ! بیا می مال دست

ترجمہ: (اور وہ نوحہ یہ تھا) کہ قلب کے ایسے حالات سے جو ایک دوسرے کے الٹ ہیں، میری (ہمت کی) پیٹھ ٹوٹ گئی۔ اے محبوب! آ (اور) میرے سر پر (شفقت و رحمت کا) ہاتھ پھیر۔

 مطلب: قلبِ انسانی مختلف خیالات کا میدانِ معرکہ ہے کبھی ہمیں ایک معصیت کی پسندیدگی کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس معصیت سے نفرت کا جذبہ ابھرتا ہے کبھی پھر اس معصیت کے فوائد کی طرف خیالات دوڑتے ہیں۔ کبھی ان فوائد کے مقابلہ میں عذابِ آخرت کا خوف دل کو لرزا دیتا ہے۔ غرض انہی متضاد خیالات اور تناقض خواہشات کی باہم کشمکش جاری رہتی ہے جس کو دیکھ کر عقلِ سلیم باور کر لیتی ہے کہ انسان کا علم اور ہمت ضعیف ہے۔ جب تک حق تعالیٰ کی طرف سے توفیق شاملِ حال نہ ہو۔ انسان خود نہ کوئی نیکی کر سکتا ہے نہ کسی برائی سے بچ سکتا ہے اور یہی معنی ہیں رسول الله ﷺ کے اس قول کے کہ ’’لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إلَّا بِاللهِ۔۔۔‘‘ یعنی ’’برے کام سے باز رہنے کی طاقت اور نیکی پر آمادہ ہونے کی قوت اگر ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے ہے“۔ 

5

زیرِ دستِ تو سرم را راحتے ست  دستِ تر در شکر بخشی آیتے ست

ترجمہ: تیرے (رحمت کے) ہاتھ کے نیچے میرے سر کو راحت ہے۔ تیرا ہاتھ شکر (کی توفیق) بخشنے میں ایک (روشن) دلیل ہے (یعنی اگر تیرا ہاتھ میرے سر پر ہو تو مجھے وہ نعمتیں میسر ہو جائیں جو موجبِ شکر ہیں ساتھ ہی مجھے شکر کی توفیق بھی مل جائے)۔

6

 سایۂ خود از سرِ من بر مدار بے قرارم بے قرارم بے قرار

ترجمہ: اپنا سایہ (رحمت) میرے سر پر سے مت اٹھا۔ میں بیقرار ہوں بیقرار ہوں۔

7

 خوابہا بیزار شد از چشمِ من در غمت اے رشکِ سرو و یاسمن

ترجمہ: اے (محبوب) رشکِ سرو و یاسمن! تیرے غم میں نیندیں (بھی) میری آنکھ سے بے زار، (اور زائل) ہوگئیں (یہاں محبوبِ حقیقی کو معشوقِ مجازی کی طرح خطاب کیا ہے جو غلبۂ حال کی وجہ سے موردِ اعتراض نہیں ہوسکتا)۔

8

گر نیم لائق چہ باشد گر دمے   نا سزائے را بپرسی درغمے

ترجمہ: اگرچہ میں (پرستش کے) لائق نہیں ہوں (لیکن) کیا بات ہے اگر تو ایک لمحہ کے لئے نالائق (ہی) کو اس غم میں پوچھ لے (یوں بھی تو ہمیشہ تیری عنایات نالائقوں پر مبذول رہتی ہیں)۔

9

مر عدم را خود چہ استحقاق بود کہ برو لطفت چنین درہا کشود

ترجمہ: (مثلاً) معدوم کو استحقاق کیا تھا کہ تیرے لطف نے (اس کو نعمتِ وجود عطا فرما کر) اس پر (عطیات کے) ایسے دروازے کھول دیئے۔

10

خاکِ گرگین را کرم آسیب کرد دَہ گہر از نورِ حس در جَیب کرد


ترکیب: (۱) ’’كرد‘‘ فعل جس کی ضمیر راجع بحق تعالیٰ اس کی فاعل، ’’خاکِ گرگین‘‘ بترکیب توصیفی مفعول بہ ثانی (۲) ’’آسیب کرد‘‘ فعل، ’’کرم‘‘ اس کا فاعل، ’’خاک گرگین‘‘ مفعول بہ (بحر العلوم)۔

ترجمہ: (۱) (جن میں سے ایک عطیہ یہ ہے کہ) خارش زدہ مٹی کو (انسان بنا کر) کرم کی تاثیر بنا دیا (اور ایک عطیہ ہے کہ) نورِ حق خود اس کے دس موتی (اس کے وجود) کی جیب میں رکھ دیئے۔

ترجمہ: (۲)(جن میں سے ایک عطیہ یہ ہے کہ) کرم (خداوندی) نے خارش زدہ مٹی کے دس موتی اس (کے وجود) کی جیب میں رکھ دیئے۔

مطلب: مٹی کو خارش زدہ اس لئے کہا کہ جس طرح خارش کی بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص پر متعدی سمجھی جاتی ہے اس طرح مٹی بھی اپنے اندر کی مدفون چیز کو مٹی بنا لیتی ہے۔ کرم آسیب یعنی کرم اثر والا کہنے سے مقصد یہ ہے کہ وہ کرم کی صفت سے موصوف ہو کر کریم کہلاتا ہے حالانکہ اس کے اصلی مادہ یعنی مٹی میں یہ بات نہ تھی۔ حواس کو نور ان کے آلۂ ادراک ہونے کے اعتبار سے کہا ہے اور نور کے اعتبار سے گوہر سے تشبیہ دی پہلا ترجمہ جو کلید مثنوی سے ماخوذ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کے کرم نے خاکِ نا چیز پر یہ اثر ڈالا تو اس کو متعدد حواس و قوٰی کا مخزن بنا دیا۔

11

 پنج حس ظاہر و پنج نہان  کہ بشر شد نطفۂ مردہ ازان

ترجمہ: (چنانچہ) پانچ حواس تو ظاہری ہیں (یعنی باصره، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ) اور پانچ باطنی (یعنی حسِ مشترک، خیال، وہم، حافظہ، متصرفہ) جن کی بدولت بے جان نطفہ انسان کہلایا۔

مطلب: نطفہ قطرۂ منی ہے جو بے حس و حرکت ہونے میں مردہ کی مانند ہے یہی قطره جب رحمِ مادر میں نشو و نما پاکر روح کے ساتھ متقرن ہوتا ہے تو حواسِ مذکورہ کا مظہر بن کر انسان کہلاتا ہے خلاصہ یہ کہ الہٰی! تیرا لطف و کرم ایسا ہے کہ معدوم کو موجودہ اور ناقص کو کامل بنا دیتا ہے جن میں پہلے سے کوئی استحقاق وجودِ کمال کا نہ تھا جب تو بلا استحقاق کرم فرماتا ہے، تو اگر مجھ پر بھی عدمِ وجود لیاقت کے کرم ہو جائے تو کیا بعید ہے میں اس کرم کا امید وار ہوں کہ توبہ پر استقامت کی توفیق عطا ہو جائے کیونکہ:

12

 توبہ بے توفیقت اے نُورِ بلند  چیست جز بر ریش تَوبہ ریشخند

ترجمہ: اے نورِ عالی! (ہماری) توبہ تیری (عطا کی ہوئی) توفیق (استقامت) کے بغیر توبہ کی ہنسی اڑانے کے سوا اور ہے ہی کیا؟ (بر ریش کا لفظ ضرورتاً زائد لایا گیا ہے کیونکہ یہ مفہوم خود ’’ریشخند‘‘ کے لفظ میں موجود ہے)۔

13

سُبلتانِ توبہ یک یک برکنی  توبہ سایہ است و تو ماہِ روشنی

ترجمہ: (پس اگر کسی کو تجھ پر بھروسا کئے بدوں محض اپنی توبہ پر ناز ہو تو) تو (ایسی) توبہ کی ایک ایک مونچھ اکھیٹر دیتا ہے۔ توبہ (تو) سایہ (کی طرح محض ایک تاریک چیز) ہے اور تو گویا ماہِ روشن ہے (جس سے وہ سایہ نما توبہ بھی ’’نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ‘‘ بن جاتی ہے)۔

مطلب: جو توبہ توکل اور استعانت بالحق سے خالی ہو اس کے ساتھ نصرتِ حق شامل نہیں ہوتی اس لئے اس کو ثبات نہیں، سایہ سے مراد اندھیرا ہے جو آفتاب و ماہتاب کے غائب ہونے کے وقت چھا جاتا ہے۔

14

اے ز تو ویران دکان و منزلم  چون ننالم چون بیفشاری دلم

ترجمہ: اے (محبوب!) تیری (ہی تقدیر اور قضا کی) وجہ سے میری (جوارح کی) دکان اور (قلب کی) منزل اجڑ گئی، میں کیوں نہ روؤں جب کہ تو میرے دل کو کھینچ رہا ہے۔

مطلب: تیرے حکمِ قضا سے میرے اعمال ظاہر اور کیفیاتِ باطن تباہ ہو گئے اس لئے جس طرح ایک ضعیف کسی قوم کے دبانے اور بھنیچنے سے رونے لگتا ہے۔ اسی طرح جب میرے قلب کے جذبات و خیالات یوں قضا و قدر سے مغلوب ہو جاتے ہیں تو میں پریشان ہو کر رونے لگتا ہوں۔ سرمایۂ دکان منظرِ عام پر رہتا ہے اس لئے اعمالِ جوارح کو اس سے تشبیہ دی کیونکہ وہ ظاھر و نمایاں ہوتے ہیں اور کیفیاتِ قلب کو رختِ منزل سے تشبیہ دی کیونکہ وہ عموماً مخفی رکھا جاتا ہے۔

15

چونکہ بے تو نیست کارم را نظام  بے تو ہرگز کار کَے گردد تمام

ترجمہ: (اور) چونکہ تیرے (حکم قضا کے) بدوں میرے کام کا کوئی انتظام (درست) نہیں (اٹھتا) تو بھلا تیرے بدوں وہ کام کب سر انجام ہو سکتا ہے؟

مطلب: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کام کا سرانجام پانا درستیِ انتظام پر موقوف ہے اور درستیِ انتظام حق تعالیٰ کی قضا پر موقوف ہے، تو اس کام کا سر انجام پانا بھی اس کی قضا پر موقوف ہوا کیونکہ کسی شے کے موقوف علیہ کا موقوف علیہ اس شے کا بھی موقوف علیہ ہوتا ہے۔ (کلید)

16

چون گُریزم زانکہ بے تو زنده نیست  بے خداوندیت بودِ بنده نیست

ترجمہ: میں کیونکر اپنا کام کسی اور پر موقوف رکھوں اور تجھ سے گریز کروں (جب کہ کام تو کام رہا خود میری زندگی تجھی پر موقوف ہے) کیونکہ تیرے بغیر (کوئی) زندہ نہیں (رہ سکتا) تیری خداوندی کے بغیر بندے کی ہستی ہی نہیں۔ 

17

جانِ من بستان تو اے جان را اصول  زانکہ بے تو گشتہ از جان ملُول

ترجمہ: اے (محبوب! جو) میری جان کا مبداء (ہے) میری جان لے لے، کیونکہ تیرے قرب سے محروم رہ کر میں جان سے بیزار ہوں۔

مطلب: اوپر کہا تھا کہ میری زندگی اور جان تیرے قبضے میں ہے اب جان بستان الخ سے مقصود یہ ہے کہ اگر اعمال کی کوتاہی اور توبہ کی شکست سے تنگ آ کر میں موت کی تمنا کروں تو یہ بھی میرے اختیار سے خارج ہے۔ لہذا اس میں بھی تجھی سے مدد چاہتا ہوں کہ میری جان لے لے اور مجھے موت دے دے۔ اصول بمعنی اصل بصیغہ جمع لانے سے تعظیم مقصود ہے جیسے آیہ ﴿اِنَّ اِبْرَاهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا۔۔۔﴾ (النحل: 120) میں حضرت ابراہیم کے لئے امت یعنی قوم کا لفظ استعمال ہوا ہے موت کی تمنا جب دینی مصلحت کے لئے کی جائے تو ممنوع نہیں جیسےحضرت مریم علیہا السلام نے تمنا کی تھی کہ ﴿یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا﴾ (مریم: 23) اور حدیث صحیح میں ہے ’’وَ اِذَا آَرَدْتَّ بقَوْمٍ فِتنَۃً فَتَوَفَّنِیْ غَيرَ مَفتُوْنٍ‘‘ یعنی ”الٰہی جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھ کو فتنہ سے محفوظ رکھ کر اٹھا لے“۔ چونکہ ان تین چار اشعار کا مَضمون مستانہ انداز میں ہے جس پر ظاہر بین تعجب کرتے ہیں اس لئے اپنا عذر پیش کرتے ہیں کہ بے شک یہ ایک قسم کی دیوانگی ہے مگر

18

عاشقم من بر فنِ دیوانگی  سیرم از فَرہنگی و فرزانگی

ترجمہ: میں دیوانگی کی حالت پر عاشق ہوں (اور) عقل مندی و دانائی سے سیر ہو چکا ہوں۔

مطلب: دیوانگی سے مراد وہ شکر ہے جو توحیدِ افعال کے غلبہ سے طاری ہوتا ہے اور عقل سے مراد عقلِ معاش ہے جس کو ہر معاملہ میں رہنما بنا لینا انسان کو محجوب و محروم بنا دیتا ہے، خصوصاً عبد و معبود کے تعلقات میں اس کا دخل نہایت مضر ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

ورائے طاعت دیوانگان را مطلب  کہ شیخ مذہبِ ما عاقلی گنہ دانست

یہاں وہ عقل مراد نہیں جو اہلِ تمکین میں ہوتی ہے وہ شکر سے افضل ہے اور یہ وہ درجہ ہے جو عقل اور کشفِ توحيد دونوں کا جامع ہے، یعنی اس مقام میں توحیدِ افعال بھی بخوبی منکشف ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کمال ضبط و قوت تحمل کی وجہ سے عقل بھی مغلوب نہیں ہوتی چونکہ اس شکر اور غلبۂ حال میں ضبط کم ہوتا ہے اس لئے فرماتے ہیں:

19

چون بدرّد شرم گویم راز فاش  چند ازین صبر و ز جبر و ارتعاش

ترجمہ: جب (ضبط نہ رہے اور) شرم (کا پردہ) چاک ہو جائے تو میں راز کو واشگاف کہوں گا یہ ضبط اور پیچ و تاب اور پھٹرکن (جو لازمِ ضبط ہے) کہاں تک (برداشت کروں)۔

مطلب: وہ راز سرِ تقدیر ہے جس کو حالتِ تمکین میں اس لئے فاش نہیں کیا جاتا کہ جہلا کو اس سے ارتکاب معاصی کے لئے حیلہ جوئی کا موقع مل جاتا ہے لہٰذا عوام کے لئے اس راز کا افشا سخت خطرناک ہے۔ اسی بنا پر اوپر کے اشعار میں اشارۃً راز کا ذکر آتا ہے صراحۃً نہیں، مگر شکر میں اس مصلحت پر نظر نہیں رہتی، نہ صبر و ضبط ہو سکتا ہے چنانچہ کہتے ہیں:

20

در حیا پنہان شدم ہمچون سجاف  ناگہان بجہم ازین زیرِ لحاف

ترجمہ: میں حیا (اور ضبط) میں سجاف کی طرح (جس کا کنارہ لحاف کو دو تہوں میں دبا ہوا ہوتا ہے بہت) پنہاں رہا (اب تو) دفعۃً اس لحاف (شرم و حیا) کے نیچے سے نکلتا ہوں (آگے اس راز کو کھلے الفاظ میں کہتے ہیں):

21

اے رفیقان راه ہا را بست یار  آہوئے لنگیم و او شیرِ شکار

ترجمہ: اے دوستو! (قرب کے جو راستے ہمارے برے اعمال و احوال بند ہوئے ہیں ان) راستوں کو (در حقیقت) محبوب (حقیقی ہی) نے بند کر رکھا ہے (گویا) ہم لنگڑے ہرن ہیں اور وہ (محبوب) شکاری شیر ہے۔ (یعنی اگر ہمارے عدمِ حصولِ قرب کے اسباب پر نظر پڑ جائے تو اس کا مسبب وہی ہے اسی کا حکمِ تکوین مستندًا خیر ہے جس کے سامنے ہم اسی طرح عاجز ہیں جیسے قوی شیر کے آگے ایک کمزور ہرن)۔

22

جز کہ تسلیم و رضا کو چارۂ  درکفِ شیرِ نرِ خون خوارۂ

ترجمہ: (تو پھر ہرن کے لئے) سوائے تسلیم و رضا کے (اور) کیا چارہ (ہو سکتا ہے جب کہ وہ ایک) خونخوار نر شیر کے پنجے میں (ہو)۔

مطلب: خلاصۂ راز یہ کہ حق تعالیٰ کی تقدیر کے آگے ہمارے ارادہ کی کیا پیش جا سکتی ہے اور ہماری مشیت اس کی مشیت کا کب مقابلہ کر سکتی ہے ﴿وَ مَا تَشَآءُوْنَ إِلَّآ أَنْ يَّشَآءَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ﴾ (التکویر: 29)۔

انتباہ: یہ دو شعر اس امر کے لئے گویا نصِ صریح ہیں کہ مسئلۂ قضا و قدر کے متعلق مولانا کا وہی عقیدہ ہے جو کافہ اہل سنت و الجماعت کا ہے۔ پس مولوی شبلی نعمانی صاحب کا یہ قول غلط ہے کہ مولانا کے زمانے میں تمام اسلامی ممالک (یعنی اہل سنت و الجماعت) کا عقیدہ جبریہ تھا اور مولانا کا مسلک اس مسئلے میں زمانہ کے علما سے الگ ہے۔ سوانح مولانا روم مولفۂ شبلی) جس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا کے عقیدہ کا رخ کسی حد تک قدریہ کی طرف مائل ہے اور وہ اہل سنت والجماعت کے مسلک سے منحرف ہیں۔ اس قول کی تغلیط اور مولوی شبلی صاحب کے مذہب و مسلک کی توضیح ہم مفتاح العلوم کی چودھویں جلد میں پورے بسط کے ساتھ کر چکے ہیں۔ یہاں مُختصرًا اتنا بتا دینا بے محل نہ ہو گا کہ خود مولوی شبلی صاحب کے خیالات سر سید احمد خان صاحب کے اثرِ صحبت سے قدریت و معتزلیت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس لئے ان کے نقطۂ نظر سے مولانا کے فضائل کی تکمیل کے لئے یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں ان کا مسلک وہی ہو جو خود سوانح نگار کا ہے۔ سر سید صاحب گو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھتے تھے مگر ان کے عقائد و خیالات بالکل معتزلیانہ ہیں اور اعتزال قدریت کی دوسری شکل ہے۔ ذیل میں ہم سر سید صاحب کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں جس سے ظاہر ہو گا کہ وہ جبر کی مطلق نفی کرنے کے با وجود کسی طرح اپنے عقیدہ کو اہل سنت و الجماعت کے عقاید میں سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کا جواب نقل کریں گے جس سے اس تحریر کا حق آمیز باطل نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہاں ان دونوں تحریروں کی نقل سے بڑی غرض یہ ہے کہ مسئلہ جبر و اختیار کی پوری توضیح و تنقیح ہو جائے جو مثنوی کے خاص مباحث میں سے ہے۔ 

سر سید احمد خان صاحب: وہ قویٰ جو خداوند تعالیٰ نے انسان میں پیدا کئے ہیں ان میں وہ قوٰی بھی ہیں جو انسان کو کسی فعل کے ارتکاب کے محرک ہوتے ہیں اور وہ قوۃ بھی ہے جو اس فعل کے ارتکاب سے روکتی ہے۔ ان تمام قوٰی کے استعمال پر انسان مختار ہے مگر ازل سے خدا کے علم میں ہے کہ فلاں انسان کن کن قوٰی کو اور کس کس طور پر کام میں لاوے گا۔ اس کے علم کے بر خلاف ہرگز نہ ہو گا مگر اس سے انسان ان قوٰی کے استعمال یا ترکِ استعمال پر جب تک کہ وہ قویٰ قابل استعمال کے اس میں ہیں مجبور نہں متصور ہو سکتا۔

مولانا محمد قاسم صاحب: انسان کو ایک اختیار اُدھر سے مستعار عطا ہوا ہے پر وہ اختیارِ انسانی، اختیارِ خداوندی کے ساتھ وہ رابطہ رکھتا ہے جو قلم ہمارے تمہارے ہاتھ کے ساتھ یا پچھلی کل کسی اگلی کل کے ساتھ۔ اگر یہ نہ ہو تو اختیارِ انسانی کو عطائے خداوندی کہنا غلط ہو جائے گا اور ارادۂ انسانی مخلوقِ خدا نہ رہے گا کیونکہ ہر بالعرض کے لئے ایک موصوف بالذات چاہیے، ورنہ پانی کی گرمی اور زمین کی دھوپ کو آگ اور آفتاب کی حاجت نہ ہوتی مگر جیسا ہر بالعرض کے لئے بالذات کی ضرورت ہے ایسے ہی ان دونوں میں تجانس بھی ضرور ہے۔ جس نوع و جنس کا وصف عرضی ہو گا، اسی نوع و جنس کا وصف ذاتی ہونا چاہیے۔ زمین کا نور آفتاب کے نور سے پیدا ہوتا ہے، آفتاب کی حرارت یا پانی کی رطوبت سے پیدا نہیں ہوتا۔ اسی صورت میں ضرورت ہے کہ ارادۂ انسانی ارادۂ خداوندی کا پرتو ہو، مگر جیسی حرکت نورِ زمین یعنی دھوپ حرکتِ آفتاب و حرکتِ شعاع و نورِ آفتاب پر موقوف ہے استقلال نہیں۔ ایسی ہی حرکت ارادۂ انسانی حرکتِ ارادۂ خداوندی پر موقوف ہو گی۔ چنانچہ خداوند کریم خود ہی فرماتے ہیں ﴿وَمَا تَشَآءُوْنَ إِلَّآ أَنْ يََّشَآءَ اللهُ۔۔۔﴾ (التکویر: 29) سو اگر مجبور ہونے سے مراد یہ موقف ہے اور بایں معنی انکارِ جبر ہے تب تو بلاشبہ انکار غلط اور لغزش عظیم ہے جس کا تدارک بجز توبہ متصور نہیں اور اگر یہ مطلب ہے کہ بندہ صاحبِ اختیار ہے۔ یہ نہیں کہ اختیار ہی نہیں دیا بلکہ مثل چوب و سنگ جو بظاہر ذو العقول میں سے نہیں اور ارادہ سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بے بہرہ ہے تو یہ بات بدیہی ہے مگر بدلالتِ سیاق اور شہادتِ عبارتِ سابقہ اس انتشار سے جو یہاں سے (مگر اس سے انسان ان قوٰی کے استعمال الخ) شروع ہوا ہے، یہ معنی نکالنے بظاہر دشوار ہیں اور اگر یہ غرض ہے کہ انسان کو ارادہ بھی ملا اور پھر وہ اراده خداوند تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ وہی ارتباط بھی رکھتا ہے جو میں نے عرض کی،ا مگر با ایں ہمہ مثل حجار و اشجار مجبور نہیں جو اس کی طرف بجز انفعالِ عمل میں کوئی انتساب ہی نہ ہو سکے تو یہ مسلم مگر اس صورت میں انکار جوازِ تکالیف یا خيال عدم جواز ثواب و عتاب جیسا بظاہر متوہم ہو سکتا ہے۔ بالکل خیال خام ہو گا کیونکہ اس صورت میں تکلیف تو مثلِ صیقل آئینہ و غیر آئینہ سمجھی جائے گی جو بعد دعوٰی قابل العکس ہونے آئینہ اور غیر قابل العکس ہونے سنگ و چوب کے مخالفانِ دعوٰی کے لئے مسکت ہوسکتا ہے۔ سو جیسے سنار یا صرافِ کامل کا کھوٹے کھرے کو کسوٹی پر لگا کر بتلا دینا گاہک یا صاحبِ متاع کے دکھلانے اور ساکت کرنے کے لئے اپنے اطمینان کے لئے نہیں ہوتا، ایسے ہی خدا کی طرف سے تکلیف کو بیان فرق مراتبِ انفعال کے لئے سمجھے اور امتحانات ﴿لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾ (الملک: 2)۔ وغیره از قسم اتمام حجّت سمجھئے نہ از قسم استخبار و استفسار اور ثواب و عتاب کو ایسا سمجھے جیسا آئینہ کو نظارہ کے لئے پیشِ نظر رکھیں اور پتھر یا چوب کو سامنے سے ہٹا دیویں۔ سو جیسے اسے رکھنے اور ہٹانے میں ایک اعزاز اور دوسرے کی تحقیر نکلتی ہے ایسے ہی اس ثواب و عتاب کو خدا کی طرف سے بیان فرقِ مراتبِ ظہور کے لئے سمجھئے۔ یعنی جیسے آئینہ سے بوجۂ انعکاس نورِ آفتاب جو بعد قبول ظہور میں آتا اور بعد انفعال رنگ دکھلاتا ہے، ایک صدورِ نور مزکور ادھر سے ادھر کو ہوتا ہے اور وہ اراده منعکس مراداتِ بشری پر اس طرح واقع ہوتا ہے جیسے نور منعکس از آئینہ درو دیوار پر واقع ہوتا ہے سو یہ اعزازِ مذکور اسی فاعلیت کا نتیجہ ہے (انتٰہی) غرض یہاں مولانا بندے کے ضعف و عجز کو بیان کرنے کے بعد حق تعالیٰ کی طرف التجا کرنے اور اس پر توکل کرنے کی تعلیم فرماتے ہیں کیونکہ خداوند قوی و جبار کی طرف سے موردِ رحم ہونے کی امید اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس کے آگے رضا و تسلیم اختیار کریں ۔ یعنی مقاومت کو چھوڑ کر اس کے احکامِ شریعیہ و تکوینیہ کو بسر و چشم قبول کریں۔ آگے مولانا اس التجا و توکل کو درجۂ عشق و فنا تک پہنچانے کی ہدایت فرماتے ہیں جس کا آغاز بعض لوازم و آثار عشق یعنی ترک خواب و خور سے کرتے ہیں:

23

او ندارد خواب و خور چون آفتاب  روحہا را می کند بیخورد و خواب

ترجمہ:وہ (محبوب حقیقی) آفتاب کی طرح خواب و خوار سے کام نہیں رکھتا (اس لئے اپنے عاشقوں کی) روحوں کو (اپنے ساتھ اس صفت میں شریک کرنے کے لئے) بے خواب و خور بنا دیتا ہے ﴿لاَ تَأْخُذُهٗ سِنَةٌ وَ لاَ نَوْمٌ﴾ (البقرۃ: 255) ﴿وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لاَ یُطْعَمُ﴾ (الانعام: 14)۔ 

 24

کہ بیا من باش یا ہم خوئے من  تا بہ بینی در تجلی روئے من

ترجمہ: (چنانچہ بدلالتِ مائل اپنے عاشق سے یوں کہتا ہے) کہ (میری طرف) آ (اور یا تو) میرا عین بن جا یا میرا ہم صفت ہو جا تاکہ (انکشافِ قلب کی) تجلی میں میرا رخ دیکھ لے۔

مطلب: ”بیا“ کے کلمہ سے حصول نسبت مع اللہ مراد ہے اور اس نسبت کا ایک پہلو فنا فی الذات اور توحید ذاتی ہے جس کو ’’ہم خوئے من‘‘ سے جو مرادف تخلق باخلاق اللّٰہ کا ہے تعبیر فرمایا ہے۔ اوپر کے اشعار میں توحیِد افعال کا ذکر تھا اس درجہ سے ترقی ہو کر یہ دونوں قسمیں یعنی توحیدِ صفاتی و توحیدِ ذاتی حاصل ہو جاتی ہیں اور تفسیر ان کی یہ ہے کہ اگر اپنے افعال نظر و التفات سے غائب ہو کر صرف افعالِ حق پر نظر رہ جائے تو وہ توحيد فی الافعال ہے، اور اگر غرض کی صفات بھی نظر میں نہ رہیں تو یہ توحيد فی الذت ہے۔ توحيد فی الصفات کو مشاہدہ اور توحید فی الذات کو معاینہ کہتے ہیں مصرعہ ثانیہ میں کلمہ ”بہ بینی“ مشاہدہ و معاینہ دونوں کے لئے عام ہے اور تینوں کلمات اصطلاحی ہیں۔ ان سے دیکھنا بمعنی متعارف مراد نہیں بلکہ محض توجہ الى الصفات اور توجہ الى الذات مقصود ہے جو قلب کا فعل ہے نہ کہ باصرہ کا۔ روئے من سے بھی ذات مراد ہے نہ کہ چہرۂ متعارف (کلید) یہاں ممکن ہے کہ کوئی معترض ’’بہ بینی روئے من‘‘ کی صحت سے اس بنا پر انکار کرے کہ اس طرح دیدار الہٰی ممتنع ہے۔ آگے اس کا جواب ارشاد ہے:

25

 ور ندیدی چنین شیدا شدی؟  خاک بودی طالبِ احیا شدی

ترجمہ: (تم تو مستقبل ہی میں دیدار کر سکنے کے منکر ہو مگر ہم کہتے ہیں کہ تم ماضی میں بھی دیدار کر چکے ہو) اگر دیدار نہیں کیا تو (اس پر) ایسے شیدا کیونکر ہو گئے؟ تم (پہلے) خاک تھے (اسی حالت میں) تم (حق تعالیٰ سے) زندگی بخشے کے طالب ہو گئے۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں ’’شیدا‘‘ ہونے سے وہ فطری میلان مراد ہے جو ہر شخص کے دل میں ایک سب سے برتر و کامل تر ہستی یعنی خداوند عالم کے لئے موجود ہے۔ حتیٰ کہ دہریہ جو زبان سے صریحاً خدا کے وجود کا منکر ہے انتہائی یاس کے وقت وہ بھی اس بزرگ تر ہستی کو پکارنے پر مجبور ہو جاتا ہے دوسرے مصرعہ کی توجیہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاؕ قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَتو اس نے آسمان کو اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے تو اور زبردستی سے تو (اور ہمارے حکم کو بجا لاؤ) دونوں نے کہا ہم خوشی سے (حکم بجا لانے کو) حاضر ہیں“ (فصلت: 11) پس جب زمین حالت ترابیت میں حق تعالیٰ کی مطیع ہے تو اس کا مقتضایہ ہے کہ جب اس کو یہ معلوم ہوا ہو گا کہ مجھ سے انسان پیدا کیا جائے گا تو اس نے ازراہِ اطاعت خود عرض کیا ہو گا کہ حق تعالیٰ کی یہ مشیت ضرور پوری ہونی چاہیے اور میرے مادے سے انسان کی زنده مخلوق پیدا کی جائے۔ اس سے اس کا طالبِ احیاء ہونا ثابت ہوگیا (ملحض از کلید) آگے اسی قسم کا استدلال اور ارشاد ہے:

26

گرز بے سویت نداد ست او علف  چشمِ جانت چون بماند ست آن طرف

ترجمہ: اگر اس نے تم کو لا مکان سے (غذائے روحانی) نہیں دی تو تمہاری روحانی آنکھ اس طرف کیوں لگ رہی ہے۔

مطلب: گائے، بیل، بھینس وغیرہ جانوروں کی عادت ہے کہ مالک کے ہاتھ سے دانہ چارہ پانے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں کو تکتے رہتے ہیں۔ یہاں علف یعنی گھاس سے غذا اور خوراک مراد ہے اور یہ استعارہ ہے۔ دیدار سے یعنی اس محبوبِ حقیقی نے عالمِ ارواح میں تم کو اپنے دیدار سے مشرف فرمایا ہے، جبھی تو تمہارے اندر کسی نہ کسی حد تک اس کی طلب موجود ہے اور دیدار یا تو معرفت سے کنایہ ہے جو عالمِ ارواح میں بوجۂ اتم حاصل تھی یا اس سے یومِ میثاق کی مشابہت مقصود ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں ’’کَلَّمَھُمْ قُبُلاً‘‘ وارد ہوا ہے یعنی حق تعالیٰ نے ذرّیّاتِ آدم کے سامنے گفتگو فرمائی۔ آگے اس کی چند مثالیں ارشاد ہیں:

27

گُربہ بر سوراخ زان شد مُعتکف  کہ ازان سوراخ او شد مُعتلف

ترجمہ: بلّی (کسی) سوراخ پر اس لئے (تاک لگائے) بیٹھی ہے کہ اس سوراخ سے وہ (چوہے کی) خوراک پا چکی ہے (ایک مرتبہ کا حصول مراد ہے اسے دوبارہ توجہ پر آمادہ کر رہا ہے)۔

28

گربۂ دیگر ہمی گردد بَبَام  کز شکارِ مُرغ او یابِید طعام

ترجمہ: ایک اور بلی کوٹھے (کی منڈیر) پر پھر رہی ہے کیونکہ وہ (یہاں) پرندے کے شکار کی غذا پا چکی ہے (پہلی کامیابی اسے دوبارہ طلب پر اکسا رہی ہے)۔

29

 آن یکے را قبلہ شد جولاہگی  وان یکے حارس برائے جامگی

ترجمہ: ایک شخص کا نصب العین جولاہے کا پیشہ ہے اور ایک شخص روزینہ (پانے) کے لئے چوکیدار (بنا ہوا ہے)۔

(کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے اس شغل میں فائدہ حاصل ہو چکا ہے اس لئے وہ اس پر متوجہ ہے)۔

30

وان یکے بیکار و رو در لامکان  کہ ازان سو دادیش تُو قوتِ جان

ترجمہ: اور (اسی طرح) وہ ایک (شخص ان سب دینی مطلوبات سے) بیکار ہے اور (اس کی) توجہ لامکان مین ہے کیونکہ (اے محبوبِ پاک) تو نے اس کو اس طرف سے غذائے روح عطا فرمائی ہے اور وہ غذائے روح مشاہدۂ محبوب ہے۔

31

کار آن دارد کہ حق را شُد مُرید  بہرِ کارے او زِ ہر کارے بُر ید

ترجمہ: (اصلی) کام تو وہی رکھتا ہے جو حق کا طالب ہو گیا (اور) اس نے (اس) ایک (اصلی) کام کے لئے ہر (دنیوی) کام سے قطع تعلق کر لیا۔

مطلب: اوپر کے شعر میں اہل اللہ کے بارے میں ’’وان یکے بیکار الخ‘‘ کہا تھا تو یہ لفظ ان کے حق میں نا ملائم معلوم ہوا کیونکہ اس سے نا کارہ پن کا مفہوم نکلتا ہے۔ لہٰذا اعیان اس کی یوں اصلاح فرماتے ہیں کہ ان کو نا کارہ نہ سمجھو بلکہ بہترین کار گزار وہی ہیں جو دنیوی اشغال سے بے کار ہو کر اطاعتِ حق کے کار گزار بن جائیں۔

32

 دیگران چُون کودکان این روز چند  تا بشب بر خاک بازی می کنند

ترجمہ: (اور) دوسرے (دنیا دار) لوگ تو بچوں کی طرح (زندگی مستعار کے) ان چند دنوں میں (موت کی) رات تک مٹی میں کھیل رہے ہیں۔

ہیں یہ باغات و محل جتنے بنے سب کھلونے ہیں یہ مٹی سے بنے صبح ان سے کھیلتا ہے آدمی  آئے گی شامِ وداع سر پر جونہی دے کے سب کی کنجیاں اوروں کے ہاتھ  جالحد میں سوئے گا حسرت کے ساتھ بازیچہ ایست طفل فریبِ این متاعِ دہر بیہودہ مردمان کہ درین مبتلا شدند

33

 خوابناکے کو ز یقظہ می جہد دایۂ وسواس عشوہ ش میدہد

مطالب: (اور جو کوئی اس کھیل کی) غفلت میں مغلوب ہونے والا متنبہ ہو جانے پر (خوابِ غفلت سے) اٹھنے لگتا ہے، (تو) وسوسہ (نفس و شیطان) کی دایہ اس کو فریب دیتی ہے۔ (وسوسہ کو دایہ سے تشبیہ بایں اعتبار دی ہے کہ جس طرح دایہ بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے اسی طرح یہ وسوسہ انسان کو غافل بنا دیتا ہے)۔

34

رو بخُسپ اے جان کہ نگذاریم ما  کہ کسے از خواب بجہاند ترا

ترجمہ: (کہ) اے عزیز! جاؤ سو رہو کیونکہ ہم کسی کو ایسا نہ کرنے دیں گے کہ وہ تم کو نیند سے جگا دے (یعنی تم بے چین نہ ہو ہم تمہاری راحت و آرام کے کفیل ہیں تم دونوں جہانوں سے مطمئن و بے فکر ہو کر پڑے رہو)۔

35

 ہم تو خود را بر کَنی از بیخِ خواب  ہمچو تشنہ کو شنود او بانگِ آب

ترجمہ: (مگر محبوبِ حقیقی کہتا ہے اے بندے!) تو خود (ہمت کر کے) اپنے آپ کو اسبابِ خواب سے الگ کر لے جیسے ایک پیاسا جس نے پانی کی آواز سن لی (کہ وہ ہر گز نہیں سو سکتا)۔

36

بانگِ آبم من بگوشِ تشنگان ہمچو باران می رِسم از آسمان

ترجمہ: میں (بھی اس خطاب کے اعتبار سے بمنزلہ) پانی کی آواز ( کے) ہوں (جو) پیاسوں کے کان میں (پہنچے اور) بارش کی طرح آسمان سے پہنچ رہا ہوں (یعنی میرا خطاب بذریعہ وحی عالمِ بالا سے نازل ہوا ہے)۔

37

 برجِہ اے عاشق برآ در اضطراب  بانگِ آب و تشنہ و آنگاه خواب؟

ترجمہ: (پس) اے عاشق! اٹھ کھڑا ہو (اور طلبِ آب میں) بے قرار ہو جا (ورنہ بڑے تعجب کی بات ہوگی کہ) پانی (کے موسلا دھار برسنے) کی آواز (بھی ہو) اور (کوئی) پیاسا (بھی ہو) اور پھر (اس کا لمبی تان کر) سوتے رہنا (غرض ایسے موقع پر سو جانے والے کی پیاس در حقیقت اشتہائے کاذب ہے۔ اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں جس میں ایک مدعیِ عشق پر اس کے عشق کے کاذب ہونے کا الزام لگایا گیا تھا:)