بردن دزد قُچ را از آن مرد و قناعت ناکردن و رختِ او را ربُودن
کسی چور کا ایک شخص کا دنبہ اڑا لینا اور اسی پر اکتفا نہ کرنا اور (ساتھ ہی) اس کے کپڑے (بھی) اڑا لینا
1
آن یکے قُچ داشت از پس می کشید دزد قُچ را برد حَبلِ او برید
ترجمہ: ایک شخص کے پاس ایک دنبہ تھا (اور اسے اپنے) پیچھے کھینچے لئے جا رہا تھا۔ ایک چور نے چپکے سے اس کی رسی کاٹ ڈالی اور دنبے کو اڑا لے گیا (یہ سادہ لوح باقی مانده رسّی کو کھنیچتا چلا گیا اور اتنے میں چور کہیں سے کہیں پہنچ گیا)۔
2
چونکہ آگاه شد دوان شد چپ و راست تا بیابد کان قُچ بُرده کجاست
ترجمہ: جب کچھ دور جا کر اس شخص کو اطلاع ہوئی تو (اب) دائیں بائیں دوڑنے لگا تاکہ دریافت کرے وہ دنبہ جو اڑا لیا گیا ہے کہاں ہے؟
مطلب: چونکہ وہ رسی کٹی ہوئی تھی اس لئے اس شخص کو شبہ ہو گیا کہ ضرور یہ کسی چور کی کارستانی ہے۔ اسی بنا پر اس کو قٗچ بردہ کہا ورنہ اگر رسی سالم ہوتی جس سے احتمال ہوتا کہ دنبہ خود اس میں سے سر نکال کر کہیں بھاگ گیا تو پھر اسے قچ رفتہ کہتا ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہے کہ اس شخص نے چور کو نہیں دیکھا اس لئے وہ اسے شناخت نہیں کر سکتا تھا۔ غرض چور نے دنبے کو تو کہیں چھپا دیا اور خود ایک کنویں پر پہنچ کر رونے چلانے لگا۔ اتنے میں اس شخص کا گذر اس کنویں پر ہوا تو
3
بر سر چاہے بدید آن دُزد را در فغان و گریہ و واویلتا
ترجمہ: ایک کنویں پر اس کو وہ شخص جو اس کے دنبے کو چرانے والا (تھا) فریاد و زاری اور واویلا کرتا نظر آیا۔
4
گفت نالان ازچِہ اے اوستادگفت ہمیان زرم در چَہ فتاد
ترجمہ: وہ شخص سے پوچھنے لگا کہ اے اوستاد تو کس لئے رو رہا ہے اس نے جواب دیا کہ میری نقدی کی ہمیانی کنویں میں گر گئی۔
مطلب: مولانا نے اوستاد کے لفظ سے یہ اشارہ کر دیا کہ اس شخص نے چور کو پہچانا نہیں اور پہچانتا بھی کیونکر جب کہ اس کو چوری کرتے دیکھا ہی نہیں تھا اسی لئے وہ اس کو استاد کے پر عزت لقب سے پکار رہا ہے ورنہ خطاب کے لئے بد نہاد، پرفساد، نامراد وغیرہ کئی لفظ چور کے مناسبِ حال مل سکتے تھے۔ غرض وه چور اس سادہ لوح کو دوبارہ چکمہ دینے کے لئے کہتا ہے:
5
گر توانی در روی بیرون کشی خمس بدہم مر ترا با دل خوشی
ترجمہ: اگر تو (اس کنویں کے) اندر اتر سکے (اور ہمیانی) نکال لائے تو میں دل کی خوشی کے ساتھ تجھے (نقدی) سے پانچواں حصہ (بطور انعام ) دوں۔
6
ہست در ہمیانِ من پانصد درم گر کنی با من چُنین لطُف و کرم
7
صد درم بدہم ترا حالی بدست گُفت با خود کاین بہائے دہ قُچ ست
ترجمہ: میری ہمیانی میں پانسو درم ہیں اگر تو میرے ساتھ یہ مہربانی اور کرم کرے (کہ اس کو نکال لائے) تو میں فی الفور سو درم تیرے ہاتھ میں دے دوں گا۔ اس (سادہ لوح) نے اپنے دل میں کہا (اب دنبے کی تلاش کو ملتوی رکھ کر یہ کام کرلوں) کہ یہ (موعودہ رقم) دس دنبوں کی قیمت (کے برابر) ہے۔
8
گر درے بر بستہ شد صد در کشاد گر قُچے شد، در عوض اُشتر بداد
ترجمہ: اگر (رزق کا) ایک دروازہ بند ہو گیا تو سو دروازے کھل گئے اگر ایک دنبہ جاتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بجاۓ اونٹ دے دیا۔ بقول سعدیؒ ؎
خدا گر بحکمت ببندد درےکشاید بہ فضل و کرم دیگرے
9
جامہا برکند و اندر چاہ رفت جامہا را ہم ببُرد آن دُزد تَفت
ترجمہ: (غرض اتنا سوچ کر اس بے وقوف نے) کپڑے اتارے اور کنویں میں اتر گیا وہ چور فورا کپڑوں کو بھی اڑا لے گیا۔
مطلب: دنبے والے کو اگر معلوم ہوتا کہ یہی میرے دنبے کا چور ہے تو ہرگز اس کے نالہ و فریاد کا سبب ہمدردانہ طرزسے نہ پوچھتا اور نہ اس کے چکمے میں آتا بلکہ آتے ہی اس کو ڈاڑھی سے پکڑ لیتا اور اپنا دنبا اس سے نکلواتا مگر اس کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ یہی میرا چور ہے۔ اسی لئے وہ دوبارہ اس کے فریب میں آ گیا۔ اسی طرح انسان جب شیطان کے مکر و فریب میں آ کر اپنے سرمایۂ تقوٰی کو تباہ کر لیتا ہے اور آخر پچھتاتا ہے اور توبہ کرنا ہے تو پھر جلد ہی شیطان کی کارستانی کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس لئے جب شیطان کی اس توبہ کو تباہ کرنے اور دوبارہ اس کو مبتلائے معاصی کا تہیہ کرتا ہے تو یہ شخص جلدی اس کے فریب میں آ جاتا ہے ورنہ اگر شیطان کی پہلی کارروائی اس کے پیشِ نظر رہتی تو ہر گز دوبارہ دھوکا نہ کھاتا اور شیطانی وساوس پر نفریں کرتا ’’لاَ يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَيْنِ‘‘ (حدیث)
10
حازمے باید کہ ره تا دِہ بَرد حزم نبود طمع طاعون آورَد
ترجمہ: (غرض) کوئی ہوشیار (ومحتاط آدمی) چاہیے جو (دزدِ شیطان سے محفوظ رہ کر) منزل (مقصود) تک پہنچ جائے (اگر) ہوشیاری نہ ہو تو (گناہ کی) حرص (روحانی) ہلاکت (سر پر) لے آتی ہے (جس طرح دنبے والے نے روپے کی حرص میں کپڑے بھی کھو لئے)۔
11
آن یکے دزد ست فتنہ سیرتے چون خیال او را بہر دم صورتے
ترجمہ: وہ (شیطان) ایک فتنہ سیرت چور ہے کہ خیال کی طرح ہر دم اس کی ایک نئی صورت ہے۔
مطلب: جس طرح خیالات گوناگوں رنگ بدلتے رہتے ہیں اسی طرح شیطان بھی نئے نئے رنگ سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی اسے دنیاوی لذتوں کی چاٹ لگاتا ہے اور فوائدِ زندگی سے متمتع ہونے کی ترغیب دیتا ہے اور
کبھی دینی ناصح بنتا ہے اور گناہوں کے جواز کے حیلے سمجھاتا ہے۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ ﴿ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَاتَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ﴾ ”شیطان نے کہا پھر میں ان کے آگے پیچھے سے آؤں گا اور ان کی دائیں طرف سے آؤں گا اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا (اور جس طرح بن پڑے گا ان کو بہکا کر رہوں گا) اور اکثر بنی آدم کو تو اپنا شکر گزار نہیں پائے گا“۔ (الاعراف: آیت 17)
12
کس نداند مکرِ او اِلاَّ خدا در خدا بگر یز وارہ زین دغا
ترجمہ: خدا کے سوا اور کوئی اس کے مکر کو سمجھ نہیں سکتا (پس) تم خدا کی پناہ میں بھاگو اور اس دغا باز سے چھوٹو۔
مطلب: شیطان سے بچنے کا طریقہ یہی خداوند تعالیٰ کی پناہ ہے جیسے کہ ارشاد ہے ﴿اِنَّهٝ لَيْسَ لَـهٝ سُلْطَانٌ عَلَى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَلٰى رَبِّـهِـمْ يَتَوَكَّلُوْنَ﴾ ’’جو لوگ ایمان رکھتے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں ان پر شیطان کا کچھ قابو نہیں“ (النحل: آیت 99) اور اس توکل میں ہمت اور اعمال صالحہ بھی داخل ہیں ۔ پس توكل حصنِ عظیم ہے باقی صرف ذہانت و فطانت شیطان سے بچنے کے لئے کافی نہیں کہ اس کے پاس گمراہ کرنے کا داؤ اس سے زیاده سخت ہے۔ چنانچہ اس نے حق تعالیٰ کے حضور میں کہا تھا۔ ﴿وَلَاُضِلَّنَّـهُـمْ وَلَاُمَنِّـيَنَّـهُـمْ ۔۔۔﴾ ”اور ان کو ضرور ہی بہکاؤں گا اور ان کو امیدیں ضرور دلاؤں گا“ (النساء: آیت 119) پس ذہانت کے مقابلہ میں اس کے پاس اضلال و تمنیہ کے کارگر ہتھیار ہیں اور توکل کے مقابلے اس کے پاس سمجھ نہیں۔ (کلید) صائبؒ ؎
چو موج بے خطر از بحر می رسد بکنار بدست ہر کہ عنانِ توکلے دارد
اگر خواہی کہ اندر منزل مقصود جاگیریمدہ از دستِ خود سررشتۂ راہِ توکل را