دفتر 6 حکایت 14: مرغ کا صیاد سے مناظرہ کرنا اس حدیث کی روشنی میں کہ اسلام میں ترکِ دنیا نہیں



مناظرۂ مرغ با صیاد در حدیث لَاَ رَهْبَانِيَّةَ فِي الاِسْلَامِ


مرغ کا صیاد سے مناظرہ کرنا اس حدیث کی روشنی میں کہ اسلام میں ترکِ دنیا نہیں


رہبانیت ایک خاص قسم کا طریقِ زندگی ہے جو خداوند تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کے لئے اختراع کیا گیا تھا اور اس کا رواج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں تھا جس میں جنگل میں تنہا رہ کر عبادت کرنا، لوگوں کے میل جول سے بچنا، ہمیشہ خاموش رہنا، نکاح نہ کرنا اور کسی طرح اپنی قوتِ رجولیت کو زائل کر لینا، شامل تھا الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَرَهْبَانِيَّةَ ِۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰہ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِـهَا ۖ فَاٰتَيْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْـهُـمْ اَجْرَهُـمْ ۖ وَكَثِيْـرٌ مِّنْـهُـمْ فَاسِقُوْنَ ’’اور لذتِ دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ (طریق) ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ہاں (انہوں نے اس کو) خدا ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایجاد کیا تھا لیکن جیسا اس کو نباہنا چاہیے تھا وہ نباہ نہ سکے تو جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کے اجر عنایت فرمائے اور ان میں سے بہتیرے تو نا فرمان ہیں۔“ (الحدید: 27) امتِ عیسٰی علیہ السلام کے زاہدوں نے کسرِ نفس اور رضائے حق کے لئے رہبانیت کو اپنے اوپر لازم کیا تھا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شریعت سے ایک زاید امر ہے یعنی وہ وحی و رسالت کے ذریعہ نازل نہیں ہوا۔ جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور جمعہ و جماعت واجب ہوئی تو اس کے لئے خلق کے ساتھ مخالطت لازم ہوئی۔ نکاح کرنا مسنون اور غلبۂ شہوت کے وقت واجب ٹھہرا۔ اہلِ علم کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ قرار پایا۔ اس لئے خلق کے ساتھ موانست لازم ہوئی۔ جہاد بھی فرض ہوا اس لئے شمشیر و اسپ وغیرہ اسبابِ جہاد ضروری ہوئے۔ پس رہبانیت بمعنی ترکِ کسب و ترکِ معاشرت و ترکِ نکاح امتِ عیسویہ کے ساتھ خاص ہے اب شرحِ محمدی میں منسوخ ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ ’’لَارَهْبَانِيَّةَ فِي الإسْلَامِ‘‘ (بحر العلوم) ’’عَنْ أبِي امَامَةَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّى اللّٰہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَرِیَّۃٍ فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيْهِ شَيْءٌ مِّنْ مَّاءٍ وَّ بَقْلٍ فَحَدَثَ نَفْسَهٗ بِاَنْ يُّقِيْمَ فِيْهِ وَ يَتَخَلّٰى مِنَ الدُّنْيَا فَاسْتَاذَنَ رَسُوْلَ اللّٰہ  صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَالِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ  صَلَّى اللّٰہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُوْدِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ وَ لٰكِنِّيْ بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَغَدْوَةٌ اَوْ رَوْحَةٌُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰہ خَيْرُُ ٗ مِّنَ الدُّنْيَا وَ لَمُقَامُ اَحَدِکُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِّنْ صَلٰوتِهٖ سِتِّيْنَ سَنَةً‘‘ یعنی ”ابو امامہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جنگی مہم میں رسول الله ﷺ کے ساتھ نکلے تو ایک شخص کا گذر ایک غار کے پاس سے ہوا جس میں کچھ پانی اور سبزی تھا تو اس نے جی میں کہا کہ میں اسی جگہ قیام کر لوں اور دنیا کو چھوڑ دوں۔ پھر اس بارے میں رسول الله ﷺ سے اذن چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں یہودیت کے ساتھ مبعوث نہیں ہوا نہ نصرانیت کے ساتھ بلکہ میں آسان دین حنیفی کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں۔ قسم ہے اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے البتہ تمہارا اول روز یا آخر روز اللہ کی راہ میں کوچ کرنا دنیا بھر سے بہتر ہے اور البتہ تم میں سے کسی کا صف (جہاد) میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی نماز سے افضل ہے“۔ (مشکوٰۃ)

حدیث ’’لَا رَھْبَانِيَّۃَ فِي الاِسْلَامِ‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں ترکِ مباحات کی کوئی بھی ایسی صورت مشروع نہیں جو رضاۓ حق کے لئے اختیار کی جا سکے کیونکہ صوفیہ صافیہ نے جو تصفيۂ روح و تزکیۂ نفس کے لئے تقلیلِ طعام و تقلیلِ منام وترکِ کلام و ذکر على الدوام اور اجتناب از مباحات کا طریقہ جاری فرمایا ہے۔ تو اس قسم کی رہبانیت اسلام میں مسلم و مقبول ہے اور یہ امت عیسویہ کی سی رہبانیت نہیں اگر رہبانیت منسوخ ہے تو وہی امت عیسویہ کی رہبانیت، اور ترکِ مباحات کے اس طریقہ کو جو اسلام میں مروج و معمول بہ ہے زہد و ورع کہتے ہیں۔

1

مرغ گفتش خواجہ در خلوت مایست دینِ احمدﷺ را ترہُّب نیک نیست

ترجمہ: مرغ نے اس (صیاد) سے کہا اے خواجہ! خلوت میں قیام نہ کرو دینِ احمدی میں (بلا ضرورت) رہبانیت اچھی نہیں۔

مطلب: مرغ کی مراد رہبانیت سے انقطاع عن الخلق ہے جس کا صیاد نے دعوٰی کیا تھا ترجمہ میں بلا ضرورت کی قید سے وہ انقطاع عن الخلق مستثنٰی ہو گیا جو دین و ایمان کو فتنوں سے بچانے کے لئے ضروری ہو جائے۔ ایسا انقطاع طاعت ہے جیسے حدیث میں آیا ہے۔ ’’يُوشِكُ أَنْ يَّكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَّتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِه مِنْ الْفِتَن‘‘ يعنی ”وہ زمانہ قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو وہ لے کر پہاڑی کی چوٹیوں پر اور (بارش کے) قطرات گرنے کی جگہوں میں چلا جائے اور اپنے دین کو (سلامت) لے کر فتنوں سے (دور) بھاگے“ (مشکوٰة) اس سے وہ فتنے مراد ہیں جن سے دین و ایمان کو نقصان پہنچتا ہے اس وقت اہلِ فتنہ اور عوام الناس سے علیحدگی اچھی ہے خواہ اس حالت میں بکریاں چرا کر گذر اوقات کرنی پڑے۔

2

 از ترُّہب نہی فرمود آن رسولؐ بدعتے چون بر گرفتی اے فضول

ترجمہ: رہبانیت سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اے فضول! (آدمی یہ) ایک بدعت تو نے کیوں اختیار کی۔

3

 جمعہ شرط ست و جماعت در نماز   امرِ معروف و ز منکَر احتراز

ترکیب: امر مضاف معروف معطوف علیہ اور احتراز اپنے متعلق ز منکر سمیت معطوف ہوا معطوف علیہ اور معطوف مل کر مضاف الیہ ہوئے پس تقدیر عبارت کی یوں ہوئی۔ امر معروف و امر احتراز از منکر اور جزو نہی عن المنکر کا ہم معنی ہوا۔

ترجمہ: (تم نے صحرا میں تنہا نشینی کیوں کر اختیار کی جب کہ اس کی شریعت میں) جمعہ فرض ہے اور نماز میں جماعت (بھی سنت مؤکدہ ہے اور) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (بھی ضروری ہے) اور تنہائی میں یہ کام نا ممکن ہے۔

4

 رنجِ بدخویان کشیدن زیرِ صبر  منفعت دادن بخلقان ہمچو ابر

ترجمہ: صبر کے ماتحت بدخو لوگوں سے دکھ سہنا (جو اعلٰی فضیلت ہے اور) مخلوق کو ابر (باراں) کی طرح نفع پہنچانا (اجتماع و مدنیت ہی میں ممکن ہے عزلت میں نہیں)۔

5

 خَيْرُ نَاسِ اَنْ یَّنْفَعَ النَّاسَ اے پدر  گر نہ سنگی چہ حریفی با مدر

ترجمہ: بڑے میاں، اچھا آدمی وہی ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچائے (پس تم جو لوگوں سے الگ تھلگ یہاں صحرا میں آ بیٹھے تو بے فیض ہونے میں بمنزلہ سنگ ہو) اگر تم سنگ نہیں ہو تو مٹی کے ڈھیلوں کے ساتھ ہم شیوہ (بن کر) کیوں (پڑے) ہو (اشاره بحديثِ ’’خَيْرُ النَّاسِ مَنْ يَنْفَعُ النَّاسَ‘‘ (جامع صغير)

6

 در میانِ امتِ مرحوم باش  سنتِ احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مہل محکوم باش

ترجمہ: (لہٰذا تم کو لازم ہے کہ بستی میں جا کر) امتِ مرحومہ کے درمیان رہو (اور) سنتِ احمدی ﷺ کو مت چھوڑو (بلکہ شریعت کے) محکوم (ہو کر) رہو۔

7

 چون جماعت رحمت آمد اے پسر  جہد کن کز رحمت آری تاجِ سر

ترجمہ: اے بیٹا! جب (مسلمانوں کی) جماعت راحت ہے تو کوشش کرو کہ (اس) رحمت کی بدولت تم (از روئے عزت) سر کا تاج حاصل کرو۔

مطلب: یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ ’’اَلْجَمَاعَةُ رَحْمَةٌ وَالفُرْقَةُ عَذَابٌ‘‘۔ یعنی ”مجتمع رہنا رحمت ہے اور الگ رہنا عذاب“ اس حدیث کو عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے (کذا فی تمیز الطيب)

8

 در جوابش گفت صیّادِ عيار  نیست مطلق اینکہ گفتی ہوشدار

ترجمہ: اس کے جواب میں زیرک شکاری نے کہا کہ یہ جو تو نے (انقطاع عن الخلق کی مذمت میں) کہا ہے مطلقًا نہیں ہے ہوش رکھ۔

9

 ہست تنہائی بہ از یارانِ بد  نیک چون با بد نشیند بد شود 

 ترجمہ: برے رفیقوں سے تو تنہائی اچھی ہے نیک آدمی جب بد کے پاس بیٹھتا ہے تو بد ہو جاتا ہے۔

مطلب: بے شک جماعت رحمت ہے اور اختلاط و معاشرت باعثِ برکت۔ مگر یہ حکم مطلقاً صحیح نہیں کیونکہ شرع میں یہ بھی مسلم ہے کہ برے لوگوں کے ساتھ اختلاط و اجتماع اور مصاحبت و رفاقت اچھی نہیں۔ ’’عن أبي موسٰى قال قَالَ رَسُولُ اللّٰہ  صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السُّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ، إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ، إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا مُنْتِنَةً‘‘ یعنی ”ابو موسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نیک مصاحب اور برے مصاحب کی مثال کستوری اپنے ساتھ رکھنے والے اور لوہاروں کی مشک پھونکنے والوں کی سی ہے۔ کستوری والا تو تمہیں (کسی قدر کستوری) مفت دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا (اور نہیں) تو اس سے تم خوشبو ہی سونگھ لو گے اور مشک پھونکنے والا تمہارے کپڑے جلا دے گا اور یا تم اس سے بدبو برداشت کرو گے‘‘۔ (مشکٰوة) جامیؒ


قبولِ صحبت نیکان نہ بارے  یکے بکوش ز ہم صحبتان بد بگریز

پس صیاد کا مدعاۓ تقریہ یہ ہوا کہ انقطاع اسی صورت میں مذموم ہے جب منقطع ہونے والا لوگوں کو کوئی دینی فائدہ پہنچا سکتا ہے یا ان سے فائدہ حاصل کر سکتا ھے۔ مجھے چونکہ ان لوگوں میں کوئی فائدہ رساں نظر نہیں آتا نہ خود مجھ میں ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی اہلیت ہے اس لئے میرے لئے انقطاع مضر نہیں۔ یہ تو دلیلِ شرعی کا جواب ہوا۔ عقلًا بھی بری صحبت سے انقطاع مذموم نہیں۔

10

زانکہ عقلِ ہر کرا نبود رسُوخ  پیشِ عاقل ہمچو سنگ ست و كلُوخ

ترجمہ: اس لئے کہ جس شخص کی عقل (معاد) میں پختگی نہ ہو وہ عاقل کے نزدیک (عدم عقل میں) پتھر اور ڈھیلے سے مشابہ ہے۔

11 

چون حمارست آنکہ نانش منیت ست  صُحبتِ او عینِ رہبانیّت ست

ترجمہ: (اور ایک اعتبار سے) وہ گدھے کی مانند ہے جس کی آرزو صرف چرنا چگنا ہے تو اس کی صحبت (عدمِ انقطاع کے باوجود) بالکل رہبانیت (کی طرح مذموم) ہے۔


مطلب: تم کہتے ہو کہ رہبانیت یعنی انقطاع عن الخلق مذموم ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کیا ایسے لوگوں کے ساتھ اجتماع مذموم نہیں جو پتھر اور گدھے سے مشابہ ہوں اگر انقطاع مذموم ہے تو یہ اجتماع بھی مذموم ہونے میں اس سے کچھ کم نہیں۔ سنگ کے بعد حمار کے ذکر میں ترقی ہے کیونکہ سنگ صفاتِ حسنہ اور سیئہ دونوں سے خالی ہے اور حمار میں صفاتِ حسنہ کے فقدان کے ساتھ شہوتِ نفسانیہ کی صفت سیئہ بھی موجود ہے پس ایسے مصاحب کا یہ حال ہے کہ:

12

 ہوشِ او سوئے علف باشد چو خر  بگذر از وے تا نمانی بے ہنر

ترجمہ: اس کی توجہ گدھے کی طرح (صرف) کھانے (پینے) کی طرف ہو گی اس کو چھوڑ دے تاکہ تو (اس کے اثرِ صحبت سے) بے کمال نہ رہ جائے۔

13

 زانکہ غیرِ حق ہمہ گردد رُفات  کُلُّ اٰتٍ بَعْدِ حِیْنٍ فَھوَاتٍ

ترجمہ: کیونکہ (ایسا شخص حق تعالیٰ سے بالکل بے تعلق ہے اور) جو حق سے بے تعلق ہو وہ بالکل فنا ہو جائے گا (بلکہ ایک لحاظ سے وہ بھی فانی اور تباہ و برباد ہے کیونکہ) جو چیز ایک وقت (محدود) کے بعد آنے والی ہے وہ (گویا (ابھی آ گئی) بس اس کو ابھی فانی و برباد ہوا سمجھو)۔

مطلب: جب ایسے شخص پر فنا طاری ہونے والی ہے تو وہ ناقص ہے پھر اس کی صحبت میں تم بھی ناقص ره جاؤ گے بخلاف اس کے طالبِ حق من كل الوجوہ حق سے بے تعلق نہیں بلکہ باعتبار طاعت اس کو حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے اور اس اعتبار سے اس کو بقا بھی ہے۔ چنانچہ جسم کا جو کہ طالبِ شہوت ہے ریزہ ریزہ ہونا اور روح کا جو کہ طالبِ حق ہے اس فنا سے محفوظ رہنا مسلم ہے اور گو غیر طالب حق کی روح بھی اس فنا مختص بالجسم سے محفوظ ہے مگر اس کی بقا بدتر از فنا ہے قال اللّٰه تعالیٰ ﴿لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْیٰی (الاعلی: 13) و لنعم ما قیل ؎

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زنده شد بعشق  ثبت ست بر جریدۂ عالم دوامِ ما

پس ایسے زندۂ جاوید انسان سے تعلق رکھنا حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنا ہے (کلید) آگے بھی یہی مضمون ہے۔

14

 ہر چہ جز آن وجہ باشد ہالک ست  ملک و مالک عکسِ آن یک مالک ست

ترجمہ: جو کچھ اس ذات (واحد) کے سوا ہے (سب) فانی ہے (اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اصل وجود حق تعالیٰ کا ہے اور باقی) تمام ملک اور مالک، اس مالک (کے وجود) کا ظل و تابع ہے۔

مطلب: پہلے مصرعہ کا مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے ﴿كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَه (القصص: 88) یعنی ”خداوند تعالیٰ کی ذات پاک کے سوا باقی سب موجودات فانی ہے“ بعض نے یہ تفسیر کی ہے کہ جس چیز کو وجہِ حق بمعنی مرضاۃِ حق سے تعلق نہ ہو جیسے کہ ﴿اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى (اللیل: 20) میں مراد ہے وہ ہالک اور جس کو اس سے یہ تعلق ہو وہ باقی ہے ﴿مَا عِنْدَکُم یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ۔۔۔ (النحل: 96) (کلید) پس جس کو اس موجودِ حقیقی سے خاص تعلق ہے اس کو کسی نہ کسی اعتبار سے بقا حاصل ہے اور جس کو وہ تعلق حاصل نہ ہو وہ مِن كل الوجوہ فانی اور سایہ کی طرح مضمحمل و لا شے ہوتا ہے۔

15

 گر چہ سایہ عکسِ شخص ست اے پسر  ہیچ از سایہ نتانی خورد بر

ترجمہ: (اور) اے بیٹا! اگرچہ سایہ (بھی) شخص کا عکس (ہی ہوتا) ہے (لیکن) تم سایہ سے (بالذات) کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

مطلب: جس طرح سایہ کو شخص کے ساتھ گونہ تعلق ہے اس طرح مخلوق کو حق تعالیٰ کے ساتھ یہ تعلق ہے کہ وہ اسی کی پیدا کی ہوئی ہے مگر جس طرح سایہ اتنے تعلق پر مفید نہیں ہو سکتا اسی طرح مخلوق محض اس تکوینی تعلق کی بنا پر نافع نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس کو حق تعالیٰ کے ساتھ تشریعی تعلق ہو۔ یعنی طاعات و عبادات کے ذریعہ اس کے ساتھ تعلق استوار کیا ہو تو پھر مفید ہو سکتی ہے غرض سایہ محض تابع ہے اسی طرح سے کہ

16

 ہیچ سایہ نیست بے شخصے روان  اصل سایه رو بجو اَے کاردان

ترجمہ: کوئی سایہ (اس) شخص (کی حرکت) کے بغیر (جس کا وہ سایہ ہے) حرکت نہیں کرتا۔ (پس) اے واقف کار! تم جاؤ (اور) سایہ کی اصل کو طلب کرو۔

17

ہین ز سایہ شخص را می کن طلب  در مسبِّب رو گذر کُن از سبب

ترجمہ: (اور) خبردار! سایہ (کے ذریعے) سے (اس) شخص کو تلاش کرو (جس کا وہ سایہ ہے) سبب کو چھوڑو اور سبب بنانے والے کی طرف متوجہ ہو جاؤ (مخلوق سے خالق کا پتا لگاؤ پھر مخلوق کو چھوڑ کر خالق کی طرف متوجہ ہو جاؤ)۔

18

 یار جسمانی بود رویش بمرگ  صحبتش شوم ست باید کرد ترک

قافیہ: یہاں کاف فارسی کا قافیہ کاف عربی کے ساتھ واقع ہوا ہے جس کو متاخرین قبیح سمجھتے ہیں اور ثقات قدماء کے کلام میں واقع ہوا ہے شیخ افضل نے اس کے ثبوت کے لئے شاہنامہ فردوسی سے ایک بیت نقل کی ہے۔

بگفتم بماند بترکان ہمے   کہ باشد ز نسل بزرگان ہمے 

اور مولانا کو ایسی لفظی مسامحات کی پرواہ نہیں۔ (بحرالعلوم)

ترجمہ: (خلاصہ یہ کہ) یار جسمانی (جو بالکل حق سے بیگانہ ہے اس) کا رخ ہلاکت کی طرف ہوتا ہے اس کی صحبت منحوس ہے جو ترک کر دینی چاہیے (اور چونکہ اس کا رخ ہلاکت کی طرف ہے لہذا اس کے لئے بمنزلہ قبلہ ہے پس):

19

 حکم او ہم حکمِ قبلہ او بود  مرده اش دان چونکہ مرده جُو بود

ترجمہ: اس کا حکم بھی اس کے قبلہ (یعنی ہلاکت) کا حکم ہو گا اس کو مردہ سمجھو جب کہ وہ مردہ کا طالب ہے۔

مطلب: کوئی شخص ہلاکت کا طالب نہیں اور یہی حکم طالب ہلاکت کا ہے یعنی اس کا بھی کوئی طالب نہیں ہو گا کیونکہ طالب ہلاکت بمنزلہ ہالک و مردہ ہے اور مردہ کا طالب بھی مردہ سمجھا جاتا ہے ع کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ اور مردہ کہلانا کون منظور کرے گا۔

20

 ہر کہ با این قوم باشد راہب ست   کہ کلوخ و سنگ او را صاحب ست 

ترجمہ: (پس) جو شخص ان لوگوں کے ساتھ رہے گا وہ (بھی) راہب ہے کیونکہ ڈھیلے پتھر (جیسے ناکارہ لوگ) اس کے مصاحب ہیں۔

مطلب: اگر عزلت اختیار کرنا اور صحرا کے سنگ و کلوخ کو مصاحب بنانا بقول تمہارے رہبانیتِ مذمومہ ہے تو ایسے لوگوں کو مصاحب بنانا جو جہل و بے جوہری میں اینٹ پتھر کا نمونہ ہیں، اس سے کم نہیں بلکہ یہ اس سے بھی بدتر ہے کیونکہ:

21

 خود کلوخ و سنگ کس را رَہ زند  زین کلُوخان صد ہزار آفت رسد

ترجمہ: کلوخ و سنگ کیا کسی کی رہزنی کرتے ہیں (جو راہب کے مصاحب ہیں اور) ان کلوخ صفت لوگوں سے تو (جن سے اختلاط کیا جاتا ہے) لاکھوں آفتیں پہنچ جاتی ہیں۔

مطلب: صیاد کی تقریر کا خلاصہ یہ ہوا کہ بستیوں میں اہلِ شر کی کثرت ہے اس لئے ان سے اجتناب و انقطاع ہی اچھا ہے تاکہ دین و اخلاق سلامت رہیں۔ آگے مرغ اس کا جواب دیتا ہے کہ اہلِ شر کا وجود بھی نفع سے خالی نہیں۔ اسی سے تو دفعِ اشرار اور غزاء و جہاد کا موقع میسر ہوتا ہے۔ اگر اشرار نہ ہوں تو دفعِ اشرار کی فضیلت کیوں کر حاصل ہو اور جہاد کی طاعت کا موقع کیوں کر ملے؟ پس عزلت سے اختلاط اچھا ہے۔

22

 گفت مرغش پس جہاد آنگہ بود  کاین چنین رہزن میانِ ره بود

ترجمہ: مرغ نے اس (صیاد) سے کہا جہاد (کا درجہ) تو اسی وقت (حاصل) ہوتا ہے جب کہ ایسا رہزن راستے کے درمیان پیش آنے والا ہو (اور اس سے جنگ چھڑ جائے عزلت میں یہ بات کہاں؟)

23

از برائے حفظِ یاری و نبرد  بر رہِ نا ایمن آید شیر مرد

ترجمہ: ( مظلوموں کی) مدد اور (ظالموں سے) جنگ کرنے کا حق محفوظ رکھنے کے لئے۔ شیر مرد خطرناک راستے پر قدم رکھتا ہے (عزلت میں یہ جوہر مردانگی کیونکر ظاہر ہو)۔

 

24

 عِرقِ مردی آنگہے پیدا شود  کہ مسافر ہمرہِ اعدا بود

ترجمہ: مردانگی کی رگ تو اس وقت ظاہر ہوتی ہے۔ کہ مسافر دشمنوں کے ساتھ (شریکِ سفر) ہو (اور ان سے معرکہ پیش آ جائے۔ بھلا عزلت میں یہ موقع کہاں؟)

 

25

 چون نَبِیُّ السَّيْف بوده است آن رسولؐ  اُمتِ او صَفدرانند و فحول

ترجمہ: چونکہ آنحضرت ﷺ تلوار کے نبی ہیں تو آپ کے امتی (بھی) مجاہد اور جوانمرد ہیں۔

مطلب: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ’’لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلٰى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتّٰى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ‘‘ ”میری امت میں ہمیشہ ایک نہ ایک جماعت حق پر جہاد کرتی رہے گی بحالیکہ اپنے دشمنوں پر غالب آتی رہے گی حتیٰ کہ ان میں سے آخری جماعت مسیح الدجال سے جنگ کرے گی“۔ (مشکوٰۃ)

26

مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ  مصلحت در دینِ عیسیٰؑ غار و کوہ 

ترجمہ: ہمارے دین میں جنگ و غلبہ مصلحت ہے (اور) عیسٰیؑ علیہ السلام کے دین میں غار اور پہاڑ (میں جا رہنا) مصلحت ہے۔

27 

مصلحت دادہ است ہر یک را جُدا  مصلحت جُو گر توئی مردِ خُدا 

ترجمہ: ہر ایک (اہل مذہب) کو الله تعالیٰ نے جدا مصلحت دی ہے اگر مردِ خدا ہے تو (خدا سے) مصلحت کا طالب ہو۔

28

 گفت آرے گر بود یاری و زور  تا بقوت برزند بر شرّ و شور

ترجمہ: (صیاد نے) کہا واقعی اگر اپنے معاونین کی مدد اور (اپنے اندر) طاقت ہو تو (جہاد اچھا ہے) تاکہ قوت کے ساتھ (اہل فتنہ کے) شور و شر پر حملہ آور ہو۔

29

 قوّتی باید درین ره مردوار یار می باید درین جا فردوار

ترجمہ: (مگر مشکل یہ ہے کہ) اس راستے میں مردانہ قوت چاہیے (اور) اس مقام میں معاون (بھی) رکھتا ہو (اور یہ باتیں آج کل عنقا ہیں)۔

30

 چون نباشد قوّتے پرہیز بہ  در فرار از لايطاق آسان بجہ

ترجمہ: (پس) جب قوت نہ ہو تو (اہلِ فتن کے اختلاط سے) پرہیز اچھا ہے اور گریز میں (قدم رکھ کر) نا قابلِ برداشت مہم سے بآسانی بچ جاؤ۔

مطلب: اس میں اس قولِ مشہور کی طرف اشارہ ہے ’’اَلْفِرَارُ عَمَّا لَايُطَاقُ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِيْنَ‘‘ ”یعنی ناقابلِ برداشت معرکہ سے گریز کرنا انبیاء کا طریقہ ہے“ شرح بحرالعلوم میں اس کو حدیث لکھا ہے واللہ اعلم فقہ کا مسئلہ ہے۔ ’’وَاَمَّا مَنْ لَا سِلَاحَ لَهٗ فَلَا بَأْسَ بِاَنْ يَفِرَّ مِمَّنْ مَّعَهُ السِّلَاحُ وَ كَذَا لَابَأْسَ بِاَنْ يَفِرَّ مِمَّنْ يَّرْمِيْ اِذَا لَمْ تَكُنْ مَّعَهٗ اٰلَةُ الرَّمْیِ وَعَلٰی هَذَا لَا بَأْسَ بِاَنْ يَفِرَّ الْوَاحِدُ مِنَ الثَّلَاثَةِ‘‘ یعنی ”جس شخص کے پاس ہتھیار نہ ہو اس کو مسلح کے مقابلے سے بھاگ جانے میں مضائقہ نہیں اور اسی طرح اس میں بھی مضائقہ نہیں کہ جس شخص کے پاس تیر و تفنگ نہ ہو وہ تیر و تفنگ کے مقابلے سے بھاگ جائے اور اسی بنا پر ایک شخص کا تین شخصوں کے مقابلے سے بھاگ جانا بھی ممنوع نہیں“۔(فتاوٰی عالمگیری)

31

 صنعت این ست اے عزیزِ نامدار فکرتے کُن درنگر انجامِ کار

ترجمہ: (پس) اے عزیر نامدار! حکمت عملی یہی ہے۔ ذرا سوچ لو (اور) انجامِ کار کو دیکھ لو (اور جب انجامِ کار میں ناکامی نظر آتی ہے تو اہل فتن سے عزلت اچھی ہی ہے)۔

32

 یار می جُو تا بیابی راه را  ورنہ کے دانی تو راه و چاه را

ترجمہ: (غرض اگر راہِ جہاد مطلوب ہے تو) کوئی معاون (مخلص) تلاش کرو (تاکہ اس) راہ کو پا سکو ورنہ (جب ایسا معاون نہ ملے اور نہ خود اپنے اندر طاقت ہو تو تم (سلامتی کے) راستے اور (ہلاکت کے) کنویں میں فرق کب کرسکو گے؟

مطلب: اصلاح خلق کا بیڑا اٹھانا اس وقت زیبا ہے جب اپنے اندر ہر طرح اس کی طاقت ہو ورنہ اگر اپنی کمزوری یا قلت صبر یا عدم تحمل کی حالت میں یہ مہم چھیڑ لی تو دوسروں کی اصلاح کے بجائے اپنی ہی حالت کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

33

 گفت صدق دل بباید کار را  ورنہ یاران کم نیایند یار را

ترجمہ: (مرغ نے صیاد کے جواب میں) کہا کام میں صدق دل چاہیے (اور لوگوں میں صدق نہیں ہے) ورنہ (صدق عمل میں) یار (چاہنے والے) کو یاروں کی کوئی کمی نہیں۔ 

مطلب: مرغ کا مدعا یہ ہے کہ یہ تو تم نے مان لیا کہ یاروں اور مددگاروں کے ہوتے ہوئے اختلاط کو عزلت پر ترجیح ہے پس میں کہتا ہوں کہ یاروں کا ملنا بھی دشوار نہیں جب کہ اپنے کام میں صدق دل ہو۔ صادق و مخلص کے معاونین خود الله تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے ﴿اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَـهُـمُ الرَّحْـمٰنُ وُدًّا ”جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل بھی کئے خدائے رحمٰن عنقریب ان کی محبت (لوگوں کے دلوں میں) پیدا کر دے گا۔“ (مریم: 96) اور مخبرِ صادق علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد ہے ’’لَايَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِيْ مَنْصُوْرِيْنَ عَلَى الْحَقِّ لَايَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ‘‘ یعنی ’’میری امت میں سے ہمیشہ ایک نہ ایک جماعت حق کی حمایت میں غالب رہے گی ان سے قطع تعلق کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘۔

34

 يار شو تا یار بینی بے عدد  زانکہ بے یاران بمانی بے مدد

ترجمہ: (پس صدقِ عمل کے ساتھ خادمانِ دین کے) یار ہو جاؤ تا کہ بے شمار یاروں کو اپنے ساتھ معاون ومساعد) دیکھو کیونکہ (اگر یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو) تم بے یار و مددگار رہ جاؤ گے۔

35

دیو گرگ ست و تو ہمچو یوسفی  دامنِ یعقوب مگذار  اَے صفی

ترجمہ: (اور بے یارو مدد گار ہونے میں بڑے خطرات ہیں کیونکہ) شیطان (گویا) بھیڑیا ہے اور تم (بمنزلہ) یوسف ہو۔ اے برگزیده! یعقوب علیہ السلام (کے سے یار و مددگار) کا دامن نہ چھوڑ۔ حافظؒ

ز قاطعان طریق آن زمان شوند ایمن  قوافل دل و دانش کہ مردِ ره رسید

36

 گرگ اغلب آن زمان گیرا بود کز رمہِ شیشک بخود تنہا رود

ترجمہ: بھیڑ یا اکثر اگر اس وقت ( بکری کو) پکڑتا ہے جب بکری ریوڑ سے الگ ہو کر (اکیلی) چلتی ہے۔

مطلب: یہ اس حدیث کا مضمون ہے ’’إنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ ، يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ، وإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ ، وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ‘‘ یعنی ”شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیٹریا ہوتا ہے وہ( ان بکریوں میں سے) الگ رہنے والی اور دور ہونے والی اور کنارہ کشی کرنے والی بکری کو پکڑتا ہے اور تم (اختلافات کی) گھاٹیوں سے بچو اور جماعت اور کثرت کے ساتھ رہو۔ (مشکوٰة)

37

 آنکہ سنت با جماعت ترک کرد  در چنین مسبع نہ خون خویش خورد

مطلب: جس شخص نے سنت و جماعت (کے التزام) کو ترک کر دیا تو کیا اس نے ایسے درندوں کے مقام میں اپنا خون نہیں کیا؟ (اس میں بھی حدیث مندرجہ بالا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے)۔

38

 ہست سنت رہ جماعت چون رفیق  بے رہ و بے یار افتی در مضیق

ترجمہ: سنت (سیدھا) راستہ ہے (اور ) جماعت مثلِ رفیق کے ہے (اور زندگی کے سفر میں یہ دونوں ضروری ہیں تاکہ تم نجاتِ آخرت کی منزل پر فائز ہو جاؤ ورنہ سیدھے)راستے کے بدوں اور رفیق کے بغیر تم (گہرائی کی) تنگی میں مبتلا ہو کر رہو گے۔

مطلب: رسول الله ﷺ کی سنت گویا راستہ ہے اور اس راستے پر استقامت کے ساتھ لے جانے والا رفیق جماعت ہے جس کو حدیث میں سوادِ اعظم سے تعبیر کیا گیا ہے قَالَ عليه السَلام ’’إِتَّبِعُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ، فَإِنَّهٗ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ‘‘ یعنی ”جماعتِ کثیرہ کا اتباع کرو کیونکہ جو شخص جماعت سے منفرد ہوا وہ جہنم میں منفرد ہوگا۔ (مشکوٰۃ) ’’ولَارَيْبَ فِي اَنَّ اِسْمَ السَّوَادِ الأعْظَمِ اَلْيَوْمَ لَا يُصَدَّقُ فِي الأُمَّةِ إِلَّا عَلٰى حِزْبِ إِمَامِنَا الاَعْظَمِ وَ لِلہِ الْحَمْدُ‘‘


39

 راہِ سنت با جماعت بہ بود اسپ با اسپان یقین خوشتر رود

 ترجمہ: سنت کا راستہ جماعت کے ساتھ (سے کرنا) اچھا ہے، گھوڑا گھوڑوں کے ساتھ یقیناً خوب چلتا ہے۔

مطلب: امورِ دین میں جمہور کے ساتھ رہنا اچھا ہے اور یہ حکم عالم کے لئے درجہ اولیت میں ہے اور عامی کے لئے درجۂ و جوب میں ﴿فَاسْئَلُـوٓا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 43) غرض جب صدق عمل ہوتو (رفقا مخلصین مل ہی جاتے ہیں) پھر ان کے ساتھ اختلاط کیوں نہ ہو۔ ہاں اس میں بھی یہ لازم ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے، چنانچہ فرماتے ہیں:

40

لیک ہر گمراه را ہمره مدان  غافلان خفتہ را آگہ مدان

ترجمہ: لیکن ہر گمراہ کو ہمراہ مت سمجھ لینا، سوئے ہوئے قافلوں کو آگاہ نہ جان لینا۔

انتباہ: شاید یہاں کسی کو یہ شبہ عارض ہو کہ گمراہ کو ہمراہ سمجھنے سے لازم آتا ہے کہ بعض گمراہ ھمراہ سمجھے جانے کے قابل ہوں حالانکہ یہ درست نہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کلمہ ”ہر“ عموم کا افادہ کرتا ہے اور ہمراہ مداں میں معنیِ نفی کا تعلق ہمراہ کے ساتھ ہے یعنی اس سے غیر ہمراه دان مراد ہے۔ پس یہاں کلمہ ہر کا عموم نفیِ ہمراه پر مؤثر ہے نہ کہ نفی دانستن پر۔ جیسے کہ صورتِ الفاظ سے متبادر ہوتا ہے اور وہی منشاءِ شبہ ہے۔ پس مقصود کلام یہ ہے کہ ہر گمراہ کو غیر ہمراہ سمجھو یعنی کوئی گمراہ قابل ہمراہی نہیں۔ قلمی نسخے میں جو بہت معتبر ہے یہ مصرعہ یوں لکھا ہے ”لیک ہر ہمراہ را ہمراہ مدان“ اس کا مطلب یوں ہوگا کہ ہر ہمراہ سے یہ امید نہ رکھو کہ وہ قا بلِ ہمراہی ہو اور اس صورت میں وہ شبہ عارض نہیں ہوتا۔

41

ہمرہے را جو کزو یابی مدد ہمدل و ہمدرد و جویانِ اَحَد

ترجمہ: ایسے ہمراہ کو تلاش کرو جس سے تم (راہ دین میں) کچھ مدد پاؤ (اور وہ) ہمدل و ہمدرد اور طالبِ حق ہو۔

42

ہمر ہے نے کو بُوَد خصمِ خِرد فرصتے جوید کہ جامۂ تو بَرَد

ترجمہ: ایسا ہمراہ نہ ہو جو عقل کا دشمن ہو (جو) ایسا موقع تلاش کرتا ہو کہ تمہارے کپڑے اڑا لے جائے۔


43

می رود با تو کہ یابد عقبۂ کہ تواند کرد آن جا نہبۂ

ترجمہ: (جو) تمہارے ساتھ اس لئے چلتا ہو کہ کوئی گھاٹی پائے تاکہ وہاں (تم کو) لُوٹ لے۔

44

می رود با تو برائے سودِ خویش  ہین منوش از نوشِ او کان ہست نیش

ترجمہ: جو تمہارے ساتھ اپنی غرض کے لئے چل رہا ہو خبردار! اس (شخص) کا دیا ہوا) شهد نوش نہ کرنا تاکہ وہ (در حقیقت) نیش ہے (غرض یہ ہمراہ قصداً بدخواہی کرنے والا ہے)۔

45

یا بود اُشتر دلے چون دید ترس  گویدت بہرِ رجوع از راه درس

ترجمہ: یا وہ (ایسا نہ ہو بلکہ اس کی نیت خیر خواہ نہ ہو مگر) بزدل ہو (کہ راہ دین میں حوصلہ افزائی نہ کرے بلکہ) جب (اس راہ میں) کوئی اندیشہ دیکھے تو راہ سے واپس چلے آنے کی تعلیم کرنے لگے۔

46

یار را ترسان کند ز اُشتر دِلی  این چنین ہمرہ عدو دان، نے ولی

ترجمہ: (اور) ہمراہی کو بزدلی سے ڈرانے لگے (پس) اپنے ہمراہ کو دشمن سمجھو نہ کہ دوست۔

مطلب: پہلا شخص قصداً و عمداً عداوت کرتا ہے یہ دوسرا شخص قصداً تو خیر خواہی کرتا ہے مگر اس کی خیر خواہی فضول اوہام کی بنا پر بعض اوقات کسی نیک کام سے مانع ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ خیر خواہی از روئے نتیجہ بد خواہی ہے لہٰذا اس شخص کو خیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ سمجھو۔ جیسے ایک تازہ واقعہ ہے کہ اللہ کے ایک بندے نے عاشورہ کے روز تعزیہ پرستوں کا ماتمی جلوس اپنے محلے سے گزرنا بند کر دیا۔ تعزیہ پرستوں نے بہت سے مفسدین اپنے ساتھ ملا کر فوجداری استغاثہ کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ ان کے پاس جلوس کا سرکاری لائسنس تھا۔ ادھر خیر خواہ اس شخص کے پاس دوڑے آئے اور کہا مبادا جرمانہ ہو جائے اگر آپ کہیں تو ہم ان لوگوں کو بمنت اس ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ اس نے ان خیر خواہوں سے کہا کہ وہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں کرنے دو حق کی حمایت میں ہم ہر آنے والی مصیبت کو لبیک کہیں گے مگر ان لوگوں سے صلح کی درخواست نہیں کریں گے کیونکہ یہی بات ان کے لئے ہر سال یہاں سے تعز یہ لے جانے کی سند بن جائے گی۔ اللہ کی نصرت بھی شامل حال تھی کہ فساد کے بادل خود بخود چھٹ گئے اور مطلع صاف ہو گیا۔

47

 یار بد مارست ہین بگریز ازو  تا نریزد بر تو زہر، آن زشت خو

ترجمہ: (غرض) برا ساتھی (خواہ قصداً بدخواہ ہو یا اس کی خیر خواہی کا برا نتیجہ نکلتا ہو) سانپ کی مانند ہے خبردار! اس سے بھاگو تا کہ کہیں وه بد خود تم پر (اپنا) زہر نہ ٹپکا دے (یعنی اندیشہ ہے کہ اگر وہ دوست نما دشمن ہے تو تم کو قصداً بد دین بنا دے گا اور اگر نادان و بزدل دوست ہے تو خوف دلا کر تمہارے اندر ضعف دین پیدا کر دے گا)۔

47

یار را از ره برد آن راه زن مرد نبود آنکہ افتد زیرِ زن

ترجمہ: وہ (بدخواه یا بزدل جوحقیقت میں) راہزن (ہے) یار کو گمراہ کرتا ہے وہ شخص مرد نہیں جو عورت سے زیر ہو جائے۔

مطلب: آنکہ کا مشارٌ اليہ یا تو راہزن ہے اور اس کا عورت سے مغلوب ہونا بایں معنی ہے کہ وہ نفس سے مغلوب ہے اور نفس کو بوجہ تانیث عورت سے تشبیہ دیا کرتے ہیں یا اس کا مشارٌ الیہ یار ہے، یعنی وہ شخص جو ایسے راہزن کو دوست سمجھ رہا ہے مرد نہیں کیونکہ وہ ایک دین کے راہزن کے آگے مغلوب ہو رہا ہے جو جوہر مردمی سے خالی ہے دوسرا احتمال اقرب بذوق ہے۔

49

 راه جان بازی ست در ہر عیشۂ  آفتے در دفعِ ہر دل شیشۂ

ترجمہ: (منزل مقصود تک پہنچانے والا) راستہ (صراطِ مستقیم) تو جاں بازی ہے (جس پر) زندگی کی ہر حالت میں (چلنا چاہیے مگر وہ راستہ) ہر کم ہمت (آدمی) کو بھگانے کے لئے آفت ہے۔

مطلب: مردانِ خدا لذاتِ نفسانیہ پر مائل نہیں ہوتے بلکہ وہ مخالفتِ نفس میں ہر کڑی سے کڑی تلخ کامی (مشکل کام) کو گوارا کر لیتے ہیں جو ناگوار ہونے میں خواہ جاں بازی کی مترادف ہو مگر کم ہمت و نفس پرست آدمی اس راستے سے بھاگ نکلتا ہے۔ اس شعر کا ربط ما قبل کے ساتھ یوں ہے کہ ادھر کہا تھا ؎ یارِ راه از رہ بردآں راہزن الخ یعنی وہ دوست نما دشمن یا نادان دوست جو گویا راہزن ہے اپنے دوست کو راہِ راست سے گمراہ کر دیتا ہے۔ اب یہاں اس راہِ راست کی تفسیر کر دی کہ وہ راستہ جانبازی کا ہم معنی ہے با ہمت لوگ کسی کے بہکانے سے اس راستے کو نہیں چھوڑتے اور کم ہمت لوگ اس سے بھاگ نکلتے ہیں۔

شیوۂ نازک دلان نبود سلوکِ راہ خطر  سخت دشوار ست بارِ شیشہ و رہ سنگلاخ

50

راہِ دین ہر گمرہے خود کَے رود  حازمے باید کہ مردِ ره بود

ترجمہ: (1) (اور) دین کے راستے پر کوئی گمراہ اپنے آپ سے کب چلتا ہے (اس کے لئے جماعت کی رفاقت لابُد ہے اکیلا چلنے کے لئے تو) بڑا ہوشیار چاہیے جو مرد راہ بھی ہو۔ اقبالؒ  ؎

تا توانی با جماعت یار باش رونقِ ہنگامۂ احرار باش

ترجمہ: (۲) (اور) دین کے راستے پر کوئی گمراہ (جو مغلوبِ نفس ہو) چلتا ہی کب ہے؟ اس راہ پر چلنے کے لئے تو بڑا ہوشیار آدمی چاہیے (جو مکائدِ نفس کو سمجھتا ہے اور) جو راستے (کی کٹھن مشکلات کو برداشت کرنے) کا دھنی (بھی) ہو۔

خطر بسیار دارد راہِ حق ہوشیار شو صائب 

کہ موسیٰ علیہ السلام  بے عصا در وادی ایمن نمی آید

مطلب: پہلا ترجمہ اس شعر کو معیتِ جماعت کے بیان سے مربوط کرتا ہے جو مرغ کی تقریر کا مقصد ہے یعنی ؎ راہ سنت با جماعت بہ بود الخ دوسرے ترجمہ کا ربط اوپر کے شعر ؎ راہِ جان بازی ست الخ کے ساتھ ہے۔

51

راهِ دین زان رُو پُر از شور و شرست  کہ نہ راہِ ہر مخنث گوہرست

ترجمہ: دین کا راستہ (بمقتضائے حکمتِ الٰہیہ) اس لئے مشکلات کے شور و شر سے پُر (کیا گیا) ہے کہ یہ پرہیز طبع (آدمی کے چلنے) کا راستہ نہیں ہے (اگر یہ راستہ آسان و خوشگوار ہوتا تو ہر مرد و نامرد اور اہل و نا اہل اس کو بآسانی طے کر جاتا پھر سچے سالکوں کا امتحان کیونکر ہو سکتا)۔


52

در رَہِ این ترس امتحانہائے نفوس  ہمچوُ پرویزن بہ تمییز سبُوس

ترجمہ: (چنانچہ اس) رہ میں یہ خوف و خطر نفسوں کے امتحانات ہیں جسے چھلنی بھوسی کو الگ کرنے کے لئے (ہوتی ہے) صائب  ؎

محک از کار ہائے سخت باشد شیر مردان را بمردی جوہرِ فرہاد در کُہسار پیدا شد 

53

راہ چہ بود پُر نشانِ پایہا  یار چہ بود نردبانِ رایہا

ترجمہ: (پرامن) راستہ کون سا ہوتا ہے؟ جو (رفقا کے) نشانِ پا سے پُر ہو (مبارک) دوست کون ہوتا ہے؟ جو عقول کا زینہ ہو۔

مطلب: تنہا روی مناسب نہیں بلکہ رفیقوں کے ساتھ سفر کرنا اچھا ہے اور رفیق بھی وہ ہونے چاہییں جن سے مفسدین کی عقلیں ترقی کریں یعنی وہ علومِ صحیحہ کی طرف رہنما ہوں، ایسے رفیقوں کی معیت سے شیطانی خطرات کا اندیشہ نہیں جن کا اوپر ذکر تھا یہ عام لوگوں کو حکم ہے کہ ان پر جماعت کی معیت واجب ہے۔ آگے اہل علم کا ذکر ہے کہ ان کے لئے معیت اگرچہ واجب نہیں مگر اولیٰ و ارجح ضرور ہے۔

54

 گیرم آن گُرگت نیابد ز احتیاط  بے ز جمعیّت نیابی آن نشاط

ترجمہ: مانا کہ وہ بھیڑیا (تمہاری) احتیاط کی وجہ سے تم پر حملہ نہ کرے گا تا ہم جماعت (کی ہمراہی) کے بغیر تم وہ شادمانی نہ پاؤ گے (جو جماعت کے ساتھ شامل ہونے سے ہے)۔

55

 آنکہ اندر راه تنہا خوش رود با رفیقان سیرِ او صد تو شود

ترجمہ: جو شخص اکیلا اچھی طرح راستہ طے کر سکتا ہے اس کی رفتار رفیقوں کے ساتھ سو حصے ہو جاتی ہے (لہٰذا عالم کو بھی چاہیے کہ کسی مسئلے میں منفرد ہونے کے بجائے جمہور کے ساتھ شامل رہے)۔

56

با غلیظی خر ز یاران اے فقیر!  در نشاط آید، شود قوت پذیر

ترجمہ: اے فقیر! گدها (بھی) ٹھوس (اور بھدا) ہونے کے باوجود ساتھیوں کے سبب نشاط میں آجاتا ہے (اور) قوت پاتا ہے۔

57

ہر خرے کز کاروان تنہا رود  بر وَے آن راہ از تعب صد تو شود

ترجمہ: (بخلاف اس کے) جو گدھا قافلے سے الگ ہو کر اکیلا چلے اس پر وہ راستہ تکان کے باعث سو حصے زیادہ ہو جاتا ہے۔

58

چند زخمِ چوب و سیخ افزون خورد  تا کہ تنہا آن بیابان را برد

ترجمہ: (وہ گدھا) لکڑی اور سلاخ کی کئی چوٹیں (ضرورت) سے زیادہ کھاتا ہے جب جا کر اس بیابان کو قطع کرتا ہے۔


59

مرترا می گوید آن خر خوش شنو گر نہ خر ہمچنین تنہا مرو

ترجمہ: (وہ گدھا اپنی زبان حال سے) تم کو کہہ رہا ہے کہ اچھی طرح سن رکھو کہ اگر تم گدھے کی طرح بے وقوف نہیں ہو تو اس طرح تنہا نہ چلنا (تاکہ تمہارا بھی یہی حشر نہ ہو)۔

60

 آنکہ تنہا خوش رود اندر رصد  با رفیقان بے گمان خوشتر رود

ترجمہ: جوشخص (بلاؤں کی) کمین گاہ میں (اپنی احتیاط کی بدولت) اکیلا سلامت جا سکتا ہے بے شبہ وہ رفیقوں کے ساتھ زیادہ خوب چلے گا (اور یہ رفاقت و معیت یہاں تک اچھی سمجھی گئی ہے کہ)۔

61

ہر نبیے اندرین راہِ درست معجزه بنمود یاران را بجُست

ترجمہ: ہر نبی نے (دین کے) اس صحیح راستے میں (با وجودیکہ اس کے طے کرنے میں ان کو کسی رفیق کی احتیاج نہ تھی) معجزہ دکھانا اور (معجزہ پر ایمان لانے والے) ساتھی طلب کئے۔

مطلب: ﴿يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ اَنْصَارِىٓ اِلَى اللّٰہِ  ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ۔۔۔ یعنی ”مسلمانو! اللہ کے (دین کے) مددگار بنے رہو جیسا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ (ایسے) کون لوگ ہیں جو خدا کی طرف ہو کر میرے مدد گار ہوں۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے رسول کے مدد گار ہیں“ (الصف: 14) اور نبی ﷺ نے دعا کی تھی ’’اَللّٰهُمَّ اَعِزَّ الاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْهِشَامِ‘‘ یعنی ”الہٰی عمر بن الخطاب یا عمر بن ہشام کے ساتھ اسلام کو غلبہ بخش“ (انتہٰی) چنانچہ حضور علیہ الصلوة السلام کی یہ دعا حضرت عمر بن الخطاب کے حق میں مقبول ہو گئی اور وہ مسلمان ہو کر اسلام کی تقویت کا باعث ہوئے حتیٰ کہ ان کی معیت میں مسلمانوں نے علانیہ مسجد الحرام میں جا کر نماز پڑھی جو پہلے چھپ کر پڑھتے تھے۔

62

 گرنباشد ياریِ دیوار ہا  کے براید خانہا وانبارہا

عروض: ’’وانبارہا‘‘ میں واؤ کو نون کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے اور الف غیر ملفوظ رہے۔ قلمی نسخے میں خانہ و انبار ہا لکھا ہے اس صورت میں تکلف کی ضرورت نہیں منہج القوٰی کا متن بھی قلمی نسخے کا مؤید ہے۔

مطلب: اگر دیواروں کی (باہم) امداد و (اتصال) نہ ہو تو گھروں کی عمارتیں اور (ان کے اندر غلہ کے) انبار کب حاصل ہوں۔

63

ہریکے دیوار اگر باشد جُدا  سقف چون باشد معلّق بر ہوا

ترجمہ: اگر ہر ایک دیوار الگ ہو تو (گھر کی) چھت ہوا پر کیونکر تھم سکے۔

مطلب: سب دیواروں میں اتصال ہوتا ہے تو چھت پائی جاتی ہے پھر وہ عمارت گھر کہلاتی ہے اور اس کے ہر طرف سے محفوظ ہونے پر علہ وغیرہ کے ذخائر اس میں رکھے جاتے ہیں۔ اگر دیواروں کا اتصال نہ ہو تو نہ وہ عمارت گھر کہلائے نہ اس میں کوئی ذخیرہ رہ سکے۔ اس سے اجتماع و اتصال کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ آگے اس کی چند ایک مثالیں اور سنئے۔

64

 گر نہ باشد یاریِ حبر و قلم  کے فتد بر روئے کاغذہا رقم؟

ترجمہ: اگر سیاہی اور قلم کی باہم مدد نہ ہو تو صفحہ کاغذات پر تحریر کیوں کر آئے۔

65

 آن حصیرے کہ کسی می گستُرد گرنہ پیوندو بہم بادش برد

ترجمہ: وہ بوریا جس کو کوئی بچھا لیتا ہے اگر (اس کا ریشہ ریشہ) باہم جڑا ہوا نہ ہو (تو اسے کوئی کب بچھا سکے؟ بلکہ) اس (کے سب ریشوں) کو ہوا اڑا لے جائے۔


66

 حق ز ہر جنسے زوجین آفرید  پس نتائج شُد ز جمعیت پدید

ترجمہ: حق تعالیٰ نے جب (حیوانات) کی ہر نوع سے دو جفت پیدا کر دیے تو (ان کے) اجتماع سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔

مطلب: چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَّأُنْثٰی ”ہم نے تم کو ایک مرد (آدم) اور ایک عورت (حوا) سے پیدا کیا“ (الحجرات: 13) بلکہ یہ خلقِ زوجین کا عمل حیوانات سے گزر کر نباتات میں بھی جاری ہے۔ ﴿سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ یعنی ”پاک ہے وہ (ذات) جس نے زمین کی روئیدگی کی قسم میں سے اور خود ان کی اپنی (یعنی انسان کی) قسم میں سے اور ان مخلوقات کی قسم میں سے جن کو یہ نہیں جانتے جوڑا جوڑا چیزیں پیدا کی ہیں“ (یس: آیت 36) ﴿فَاَخْرَجْنَا بِہٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی ” پھر ہم ہی نے پانی کے ذریعہ دو دو قسم کی مختلف روئیدگیاں (زمین سے) نکالیں“۔ (طہ: 53) اگر اس سے بھی وسیع نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ تخلیق زوجین کا فعل تمام کائنات میں جاری ہے چنانچہ فرمایا ﴿وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ”اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں تا کہ تم لوگ انتظامِ دنیا میں غور کرو۔ (الذاریات: 49) اس کی توجیہ یہ ہے کہ جتنے آثار حادث ہوتے وہ عادۃً دو چیزوں پر موقوف ہیں۔ ایک فاعل دوسری منفعل۔ ان کے اجتماع سے افعالِ مختلفہ ظاہر ہوتے ہیں۔ دو دو قسم سے مراد متقابل ہے۔ سو ظاہر ہے کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفتِ ذاتیہ یا عرضی ایسی معتبر ہوتی ہے جس سے دوسری چیز جس میں اس صفت کی نقیض یا ضد ملحوظ ہو اس کی مقابل شمار کی جاتی ہے۔ جیسے آسمان و زمین، جوہر و عرض، گرمی و سردی، شیریں و تلخ ، چھوٹی و بڑی، خوشنما و بد نما، سفیدی و سیاہی، روشنی و تاریکی اور ظاہر ہے کہ فاعل و منفعل بھی اسی طرح متقابل ہیں ۔ پس یہ بھی زوجین کے عموم میں داخل ہو گئے۔ یہ توجیہ آیت کی تفسیر کے علوم میں داخل ہے (کلید) مرغ کے ان تمام دلائل کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع کے ساتھ مل جل کر رہنا اور جماعت میں شامل ہونا تفرد و تنہائی سے افضل ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:

67

 در میانِ مرغ و صیاد اے عجب  بس شکل افتاد و شد نزدیک بشب

ترجمہ: (غرض) اے مخاطب! (جب معاملہ ہوا کہ) مرغ اور شکاری کے درمیان (اثنائے بحث میں) بہت پیچدگیاں واقع ہوئیں اور (جن کو سلجھاتے سلجھاتے) رات قریب آ گئی۔

68

این بگفت و آن بگفت از اہتراز  بحث شان شد اندرین معنی دراز

ترجمہ: کچھ اس نے کہا اور کچھ اس نے کہا (قیل و قال کی سرگرمی سے) ان کی بحث اس مضمون میں بڑھتی چلی گئی (آگے مولانا اپنے آپ سے خطاب فرماتے ہیں):

69

 مثنوی را چابک و دل خواہ کُن  ماجرا را مُوجز و کوتاه کُن

ترجمہ: (اے دل ایک ہی قصے میں نہ پڑ جا بلکہ) مثنوی کے سلسلہ مضامین کو رواں (رکھ) اور (اسے سامعین کے) کے حسب خواہش بنا (یعنی اس) قصے کو مختصر اور کوتاہ کر۔


70

مرغ را چون دیده بر گندم فتاد  نفسِ او بے طاقت آمد در گُشاد

مطلب: مرغ کی نگاہ جب گیہوں (کے دانوں) پر پڑی (جو جال کے اوپر رکھے تھے) تو اس کا نفس (حریص) خوشی کے مارے (اپنے آپ کو ضبط میں رکھنے سے) عاجز آ گیا۔


71

بعد ازان گفتش کہ گندم ز آنِ کیست  گفت امانت از یتیمِ بے وصی ست

ترجمہ: پھر اس نے اس (صياد) سے پوچھا کہ یہ گیہوں کس کے ہیں اس نے جواب دیا کہ ایک یتیم کے ہیں جس کا کوئی وصی نہیں (صیاد جو پہلے ہی دعوائے زہد میں جھوٹ کے پتھر تول چکا ہے اس کو یہ جھوٹ بولنا کیا مشکل تھا یا دل میں خود اپنے آپ کو ہی یتیم ٹھہرا لیا ہو گا)۔

72

 مال ایتام ست امانت پیشِ من  زانکہ پندارند ما را مؤتمن

ترجمہ: (يہ) یتیموں کا مال ہے (اور) میرے پاس امانت ہے کیونکہ لوگ ہم کو امانت دار سمجھتے ہیں (ماشاء اللہ! کیوں نہ ہو سبز پوش زاہدوں کی یہی تو شان ہے)۔

73

گفت من مضطرم و مجروح حال   ہست مُردار این زمان بر من حلال

ترجمہ: (مرغ) بولا میں (بھوک سے) مضطر اور خستہ حال ہوں اس وقت تو مجھ پر مردار بھی حلال ہے۔

مطلب: مرغ کہتا ہے بے شک مالِ یتیم کھانا اچھا نہیں ۔ ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ۔۔۔ (الانعام: 152) لیکن میں مضطر و مجبور ہوں اور مضطر کو مردار کھانے کی بھی اجازت ہے اللہ فرماتا ہے ﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ۔۔۔ (الانعام: 119) ”حالانکہ جو چیزیں خدا نے تم پر حرام کر دی ہیں اس نے تفصیل کے ساتھ تم سے بیان کر دیں اور ان میں مردہ جانور بھی داخل ہے ہاں ایک چیز کہ حرام تو ہے مگر بھوک وغیرہ کی وجہ سے تم (اس کے کھانے) پر مجبور ہو جاؤ“ اہلِ دنیا کا حال اسی مرغ کا سا ہے کہ وہ ’’اَلدُّنْيَا جِيْفَةٌ وَ طُلَّابُهَا كِلَابٌ‘‘ کو مانتے ہوئے بھی اس کی تحصیل و جمع کے حیلے تراشتے رہتے ہیں (منہج) آگے مرغ کہتا ہے۔

74

 ہست دستوری کزین گندم خورم  اے امینِ پارسا و محترم

ترجمہ: تو اے امین اور پرہیز گار اور قابل تعظیم (بزرگ)! کیا اجازت ہے کہ میں اس گندم میں سے (کچھ) کھا لوں۔

75

گفت مفتیِ ضرورت ہم توئی  بے ضرورت گر خوری مجرم شوی

ترجمہ: (صیاد نے) کہا (یہ مسئلہ صحیح ہے مگر حالتِ) اضطرار فی الواقع ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے والا بھی تُو (آپ ہی) ہے ( خود سوچ لے کہ تو مضطرب ہے یا نہیں پس) اگر بلا اضطرار کھائے گا تو گناہ گار ہو گا۔

76

ور ضرورت ہست ہم پرہیز بہ ور خوری بارے ضمانِ او بده

ترجمہ: اور اگر اضطرار ہو تب بھی پرہیز ہی بہتر ہے اور اگر کھائے تو اس کی قیمت کا ذمہ دار بن۔ 

مطلب: صیاد کے اس قول میں فقہ کے دو مسئلے درج ہیں۔ ایک تو یہ کہ اضطرار کی حالت میں کوئی مالِ غیر کھا جائے تو جائز ہے لیکن اگر پرہیز کرے تو بعض فقہا کے نزدیک یہ کھانے سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ اگر نہ کھانے کی وجہ سے مر جائے تو اجر پائے گا۔ البتہ اگر وہ مال قیمت پر ملتا ہو اور وہ شخص ادائے قیمت پر قادر ہونے کے باوجود نہ خریدے اور مر جائے تو گنہگار ہو گا، بخلاف میتۃ کے کہ اس کا کھانا اس حالت میں مطلقًا اور بالاتفاق نہ کھانے سے افضل ہے اگر اس کے نہ کھانے سے مر گیا تو گنہگار ہو گا ۔ در مختار میں ہے ’’وَ رُخِّصَ لَهٗ اِتْلَافُ مَالِ مُسْلِمٍ اَوْ ذِمِّیٍ بِقَتْلٍ اَوْ قَطْعٍ وَ يُوْجَرُ لَوْ صَبَرَ‘‘ ردالمختار میں ہے ’’وَفِيْهِ اِشَارَةٌ اِلٰى اَنّ تَرْکَ الْاِتْلَافِ اَفْضَلُ وَكَذَا قَالُوْا اِنَّ تَنَاوُلَ مَالِ الْغَيْرِ اَشَدُّ حُرْمَةً مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ‘‘۔ آگے فقیہ ابو اسحٰق حافظ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اِذَا كَانَ صَاحِبُهٗ يُعْطِيْهِ بِالْقِيْمَةِ يَاْخُذُ حَتّٰى مَاتَ يَاثَمُ وَ كَذَا فِي الْاِكْرَاهِ لَوْ كَانَ رَبُّ الْمَالِ يُعْطِيْهِ بِالْقِيْمَةِ‘‘ (انتہٰی) دوسرا مسئلہ یہ کہ مخمصہ کی حالت میں غیر کا مال کا کھانا گو جائز بلکہ دفعِ ہلاک کے لئے فرض ہے مگر اس کا ضمان واجب ہے چنانچہ در مختار میں ہے ’’اَلْاَكْلُ لِلْغِذَاءِ وَالشُّرْبُ لِلْعَطَشِ وَلَوْ مِنْ حَرَامٍ اَوْ مَيْتَةٍ اَوْ مَالِ غَيْرهٖ وَاِنْ ضَمِنَہٗ فَرْضٌ، مِقْدَارُ مَا يَدْفَعُ الْاِنْسَانُ الْهَلَاکَ عَنْ نَفْسِهٖ وَمَاْجُوْرٌ عَلَيْهِ‘‘ (انتہٰی)

77

 مرغ بس در خود فرو رفت آن زمان  تَوسنش سر بستد از جذبِ عنان

ترجمہ: مرغ اس وقت (صیاد کے یہ فقہی مسئلے سن کر) گہرے فکر میں پڑ گیا (کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ادھر) اس (کے نفس کا) سرکش گھوڑا (سوار کے) باگ کھینچنے سے بھی قابو میں نہ آتا تھا۔

78

 پس بخورد آن گندم در فخ بماند چند او یاسین والانعام خواند

ترجمہ: پھر اس نے وہ گیہوں کھا (ہی) لئے اور جال میں (پھنس کر) رہ گیا (جال میں نجات پانے کے لئے) بہتیری سورۃ یٰسۤ اور سورۃ الانعام پڑھتا رہا (مگر اب کیا ہو سکتا تھا)۔

79

 بعد درماندن چہ افسوس و چہ آہ!  پیش ازین بایست این دودِ سیاه

ترجمہ: بے بس ہو جانے کے بعد کیا افسوس اور کیا آہ (سب بے سود ہیں) یہ (ندامت و آه کا) سیاہ دھواں تو اس سے پہلے چاہیے۔

مطلب: اس میں ایک مسئلہ کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب عالمِ غیب منکشف ہو جائے۔ اور عذاب کا معائنہ ہو جائے اس وقت توبہ نافع نہیں کما قال الله تعالیٰ ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتّٰی إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ۔۔۔ (النساء: 18) کفار کے عطف سے معلوم ہوا کہ ﴿اَلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّیِّئاتِ سے مراد عصاة مؤمنین ہیں اور حضورِ موت کا مطلب یہ ہے کہ اس دوسرے عالم کی چیزیں نظر آنے لگیں اسی حالت کو حالت باس ببائے موحدہ کہتے ہیں۔ اس میں کافر کا ایمان تو بالاجماع مقبول نہیں کما قال الله تعالی ظاہر﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا۔۔۔﴾ (الغافر:85) اور عاصی کی توبہ بھی محققین کے نزدیک مقبول نہیں اور ظاہر قرآن وَ لَیْستَِ التَّوْبَةُ الخ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کذا فی الکبیر اور جن کے دوسرے اقوال ہیں وہ آیت کی توجیہ اور طرح پر کریں گے اور ایک حالتِ یاس بیائے تحتانیہ ہے۔ وہ یہ کہ زندگی سے نا امیدی ہو جائے لیکن اب تک اس عالم کے احوال و اہوال نظر نہیں آئے۔ اس میں کافر کا ایمان اور عاصی کی توبہ دونوں مقبول ہیں۔ پس حالت یاس ببائے موحدہ مرغ کے جال میں پھنس جانے کے مشابہ ہے۔ وہ مشابہت یہ ہے کہ وحشی کے لئے قید میں پڑنا عذاب شدید ہے جس کا تدارک اس کے قبضہ سے باہر ہے اور یہی حالت عذابِ آخرت کی انسان کے لئے ہے وہ شدید ہے اور اس کا تدارک اس کے قبضہ سے باہر ہے۔ پس مرغ کے لئے اس حالت میں یٰسۤ اور الانعام پڑھنے اور آه و افسوس کرنے کو غیر مانع کہنا اس طرف اشارہ ہو گا کہ اسی طرح انسان جب عذابِ آخرت کو معائنہ کر لیتا ہے اور یہ معائنہ قبل از موت شروع ہو جاتا ہے تو اس وقت تنبہ اور عذاب غير نافع ہے۔ (کلیدِ مثنوی) آگے مولانا نصیحت فرماتے ہیں:

80

 آن زمان کہ حرص جنبید و ہوس دمبدم می گو کہ اے فریاد رس!

ترجمہ: (موت سے پہلے پہلے) جس وقت (معصیت کی) حرص و ہوس حرکت کرلے (اور گناه صادر کرانے لگے یا کرا دے) اس وقت بار بار کہا کرو کہ اے فریاد رس! (مجھے صدورِ گناہ سے بچایا صادر شہ گناہ کو بخش دے)۔

81

 پیش ازان کاین دانہ بر تو فخ شود  گرمیِ حرصِ تو ہمچون یخ شود

82

آه و دود و نالہ آن دم کار بند  حرص را آواره کن اے ہوشمند!

ترجمہ: اے ہوشمند! قبل اس کے یہ (حرص کا) دانہ تجھ پر نزولِ عذاب کا جال بن جائے اور تیری حرص کی گرمی (مارے خوف کے) یخ بن کر رہ جائے تو اس وقت آہ اور دودِ (آہ) اور زاری سے کام لے اور (گناه کی) حرص کو دفع کر (ورنہ حضورِ موت اور نزولِ عذاب کے وقت یہ باتیں بے سود ہیں) ۔ کما قیل

چو مرگ طالبِ جان شد حذر چہ کار کند  قضا چو تیغ بر آرد سپر چہ کار کند

83

 كان زمان پیش از خرابی بصره است  بو کہ بصره وارہد ہم زان شکست

ترجمہ: کیونکہ وہ وقت بصرہ کی تباھی سے (یا موت ہاتھ سے نکلنے سے) پہلے ہے شاید کہ بصرہ بھی اس تباہی سے بچ جائے (یعنی کام بگڑنے سے بچ جائے)۔


84

اِبْکِ لِیْ یَا بَاکِئِیْ یَا ثَاکِلِیْ  قَبْلَ ھَدْمِ البَصْرَۃِ وَالمُوْصِلِی

 ترجمہ: اے میرے رونے والے (اور) میرے فراق پر زاری کرنے والے بصره و موصل کی تباہی سے پہلے مجھ پر رو لے (ورنہ پھر رونا بے سود ہو گا)۔

مطلب: یہاں رونا پیٹنا بمعنی حقیقی مراد نہیں کیونکہ وہ ایک نا پسندیدہ کام ہے بلکہ اس سے رقتِ قلب پیدا کرنا مراد ہے یعنی حضورِ موت سے پہلے گناہوں پر ندامت اور دل کی رقت پیدا کرو اور مشغول باستغفار ہو جاؤ۔ ورنہ حضورِ موت کے وقت یہ سعی بے سود ثابت ہو گی۔ جس طرح خرابی بصرہ کے بعد خلیفہ کی فوجی کمک بے فائدہ تھی اگر اس وقت سے پہلے توبہ کرو تو وعدۂ حق تعالیٰ ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ۔۔۔﴾ (الشورٰی: 25) کے مطابق امید ہے کہ تمہاری عمارت روحانیہ اخرویہ ویران ہونے سے بچ جائے گی۔

85

 نُحْ عَلَىَّ قَبْلَ مَوْتِیْ وَاغْتَضِرْ  لَا تَنُحْ بِىْ بَعْدَ مَوتِىْ وَاصْطَبِرْ 

ترجمہ: میرے مرنے سے پہلے مجھ پر نوحہ کر اور (اس درخواست میں مجھے) معاف فرما۔ میرے مرنے کے بعد مجھ پر نوحہ نہ کرنا اور صبر کرنا (یعنی نزول موت سے پہلے توبہ و استغفار کرو مخاطب کی موت کو اپنی موت سے تعبیر کیا ہے جس میں ایک طرح کی لطافت ہے یا خود اپنے نفس سے خطاب ہے)۔

86

اِبْکِ لِیْ قَبْلَ ثُبُوْرِیْ فِیْ التَّوٰى بَعْدَ طُوْفَانِ التَّوٰی خَلَّ البُكَا

ترجمہ: میرے لئے گریہ کو میرے مصیبت میں ہلاک ہونے سے پہلے (اور) ہجومِ مصیبت کے بعد رونا(دھونا) چھوڑ دے (یعنی توبہ کا موقع نزولِ بلا سے پہلے ہے)۔

مطلب : شیخ اکبر قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اکمل کی شان یہ ہے کہ نزولِ بلا سے پہلے بخوفِ بلا روئے اور نزولِ بلا کے بعد صبر کرے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو رسول الله ﷺ کے ایک ارشاد سے آپ کے قربِ وفات کا اشارہ مفہوم ہوا تو بے اختیار روئے اور جب حضور علیہ الصلوة والسلام نے وفات پائی آپ نے صبر کیا بلکہ ان صحابہ کو بھی صبر پر آمادہ کیا جو اس مصیبت سے بے خود ہو گئے تھے اور آپ اس کمال میں تمام صحابہ سے ممتاز تھے۔ اسی لئے خلیفۂ اول قرار پائے (بحرالعلوم) آگے اسی سابقہ مضمون کا اعادہ ہے۔

87

 آن زمان کہ دیو می شد راہزن  آن زمان بایست یٰسین خواندن

ترجمہ: جس وقت شیطان (صراطِ مستقیم کا) راہزن ہو رہا تھا اس وقت یٰسۤ کو پڑھنا چاہیے تھا(یعنی زندگی کے ایامِ معاصی میں دفعِ وساوس شیطانیہ کی کوشش کرنے اور توبہ و استغفار میں مشغول ہونا لازم تھا پھر موت کے وقت اس سے کیا فائدہ)۔

88

پیش ازان کا شکستہ گردد کاروان  آن زمان چوبک بزن اے پاسبان

ترجمہ: اے پہرہ دار! قبل اس کے کہ (ڈاکو حملہ آور ہوں اور) قافلہ تباہ ہو اس وقت ڈنکا بجا (چونکہ یہ مثال قصہ طلب ہے اس لئے آگے اس قصہ کا ذکر کرتے ہیں)