دفتر 6 حکایت 17: اس عاشق کی کہانی جو رات کو معشوق کے (ایفائے) وعدہ کی امید پر اس مقام میں آیا جہاں اس (معشوق) نے اشارہ کیا تھا



حکایتِ آن عاشق کہ شب بر اُمّيد وعدۂ معشُوق بیامد بدان وثاق کہ اشارت کرده بود و بعضے از شب را منتظِر بُود تا خوابش ربود و  معشوق آمد جیبش پُر از گردگان نمود و برفت

اس عاشق کی کہانی جو رات کو معشوق کے (ایفائے) وعدہ کی امید پر اس مقام میں آیا جہاں اس (معشوق) نے اشارہ کیا تھا اور کچھ رات (گزرنے) تک منتظر رہا حتٰی کہ اس کو نیند آ گئی اور معشوق آیا (جو یہ حال دیکھ کر) اس کی جیب کو اخروٹوں سے بھر کر چلا گیا

مطلب: جیب کو اخروٹوں سے بھرنے میں یہ اشارہ مضمر تھا کہ تمہارا دعوائے عاشقی فضول ہے تم ابھی بچے ہو۔ اخروٹوں سے کھیلو، عشق کی وادیِ پر خار میں پاؤں نہ رکھو، معشوق نے یہ اخروٹ پہلے سے اسی بنا پر ساتھ لے لئے ہوں گے کہ اس کو اپنے عاشق کے صادق العشق ہونے کی پوری امید نہ ہو گی۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

مگس قند و پروانہ آتش گیرند  ہوس دیگر و عاشقی دیگر است

1

 عاشقے بود ست در ایّامِ پیش  پاسبانِ عہد اندر عہدِ خویش

ترجمہ: اگلے زمانہ میں کوئی عاشق گزرا ہے جو اپنے عہد میں عہد (و اقرار) کا محافظ (مانا جاتا) تھا۔

 

2

 سالہا در بندِ وصلِ ماہِ خود   شاهِ مات و ماتِ شاہنشاہِ خود

ترجمہ: وہ برسوں سے اپنے معشوق کے وصل کی فکر میں تھا وہ کشتگان (عشق) کا بادشاہ تھا اور اپنے بادشاہ (یعنی محبوب) کا مقتول تھا۔

3

 عاقبت جوینده یابنده بُود  کہ فرج از صبر تابنده بود

ترجمہ: آخر طلب کرنے والا (مطلوب کو) پا ہی لیتا ہے کیونکہ فراخی صبر سے درخشاں ہوتی ہے (اشاره بحدیث مرفوع ’’اَلصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَجِ‘‘ یعنی ’’صبر فراخی کی کنجی ہے‘‘ کما فی تمییز الطیب ایک شارح نے غلطی سے اس کو امثال میں شمار کیا ہے)۔

4

 گفت روزے یارِ او کامشب بیا   کہ بہ پختم از پئے تو لوبیا

مطلب: (چنانچہ) اس کے معشوق نے ایک دن کہا آج کی رات آنا کیونکہ میں نے تمہارے لئے لوبیا پکایا ہے (وہ کھلاؤں گا)۔

5

در فلان حجرہ نشین تا نیم شب  تا بیایم نیم شب من بے طلب

ترجمہ: تم فلاں کوٹھے میں آدھی رات تک (میرے منتظر) رہنا حتٰی کہ میں بن بلائے آدھی رات کے وقت آؤں گا۔

مطلب: فارسی زبان کے افعال میں تذکیر و تانیث کا اعتبار نہیں ہو سکتا اس لئے احتمال ہے کہ شاید وہ معشوق کوئی عورت ہو۔ خصوصاً اس کو لوبیا پکانا بھی اس کا مؤید ہے۔ رات کا وقت ملاقات کے لئے یا تو اس لئے تجویز کیا ہو گا کہ اس وقت رقیبوں سے امن ہوتا ہے یا عاشق کا امتحان بیداری مقصود ہو گا۔غرض:

6

 مرد قربان کرد و نانہا بخش کرد  چُون پدید آمد مہش از زیر گرد

ترجمہ: (اس) شخص نے (یہ خوشخبری سن کر بطور شکرانہ) قربانی کی اور (محتاجوں کو) روٹیاں تقسیم کیں جبکہ اس (کی مراد) کا چاند غبار (نا امیدی) کے نیچے سے نمایاں ہونے لگا۔

 

7

 شب دران حجره ہمی کرد انتظار بر امید وعدۂ آن یارِ غار

ترجم: رات کو وہ اس کوٹھے میں (جا کر) اس مخلص دوست کے وعدہ کی امید پر انتظار کرنے لگا (لفظ یارِ غار کی تحقیق پہلی جلد میں گزر چکی)۔

8

 منتظر بنشَستہ خوابش در رُبود  اوفتاد و گشت بیخود آن عنُود

ترجمہ: انتظار میں بیٹھے بیٹھے اس کو نیند آ گئی (آخر) وہ غلط کار (نیند سے مغلوب ہو کر) گر پڑا اور بے خود ہو گیا۔

9

ساعتے بیدار بُد خوابش گرفت  عاشق دلداده را خواب! اے شگفت!

ترجمہ:وہ (خاصی) دیر تک جاگتا رہا آخر اسے نیند آ گئی (مگر) بڑے تعجب کی بات ہے (کہ) عاشقِ دلدادہ کو نیند آ جائے۔

10

 بعد نصفُ اللیل آمد یارِ اُو  صادق الوَعدانہ آن دلدارِ او

ترجمہ: (ادھر) آدھی رات کے بعد اس کا یار اس کا وہ دلدار سچے وعدے والے لوگوں کی طرح آیا۔

11

 عاشقِ خود را فتاده خُفتہ دید اندکے از آستینِ او درید

ترجمہ: (جوں ہی) اپنے عاشق کو پڑا ہوا سوتا دیکھا تو (نشانی کے لئے) اس کی آستین کا کچھ حصہ پھاڑ ڈالا۔

12

 گردگانِ چندش اندر جیب کرد کہ تو طفلی گیر این مے باز نرد

ترجمہ: (ساتھ ہی) کئی اخروٹ اس کی جیب میں ڈال دیئے۔ (جس سے یہ اشارہ مقصود تھا) کہ تو (معاملاتِ عشق میں) ابھی بچہ ہے (کامل نہیں) یہ (اخروٹ) لے (اور) کھیلا کر۔

13

 چون سحر از خواب عاشق برجہيد  آستین و گردگان ها را بدید

ترجمہ: جب صبح کو عاشق نیند سے اٹھا (اور) اس نے (اپنی پھٹی ہوئی) آستین اور (جیب میں) اخروٹوں کو دیکھا تو

14

 گفت شاہِ ما ہمہ صدق و وفا ست  آنچہ بر ما می رسد آن ہم ز ما ست

ترجمہ: کہنے لگا کہ ہمارا بادشاہ سراپائے صدق و وفا ہے (پھر) جو کچھ (حرمان و خسران) ہم پر پہنچتا ہے وہ ہمارے ہی کرتوت ہیں (آگے مولانا بطور تحدیثِ نعمت فرماتے ہیں)۔

15

 اے دلِ بیخواب ما ازین ایمنیم  چون حرس بر بام چوبک میزنیم

ترجمہ: اے دل (جو عشق میں) بے خواب (ہو گیا ہے) ہم (بفضلہٖ تعالیٰ) اس (خوابِ غفلت) سے (جس میں یہ عاشقِ خام مبتلا تھا) بے خطر ہیں (کیونکہ ہم عاشقِ كامل ہیں اور اس بات کے اعلان کے لئے) ہم پہرہ دار کی طرح محل پر (بیٹھ کر) ڈنکا بجاتے ہیں۔

16

گردگانِ ما درین مطحن شکست ہر چہ گویم از غمِ خود اندک ست

ترجمہ: ہمارے (دنیا طلبی کے) اخروٹ (عشق کی) اس چکی میں پس گئے میں اپنے غم (عشق) کا جس قدر بھی حال سناؤں کم ھے۔

مطلب: یہ درجہ ہم نے ان ریاضاتِ شاقہ و مجاہداتِ شدیدہ کے بعد حاصل کیا ہے جو حیطۂ بیان میں نہیں آ سکتے۔ صائب  ؎

آمادۂ شکستِ خودم زیرِ آسمان   چون دانہ کہ در دہنِ آسیا بود

پس جس طالب کو یہ درجہ مطلوب ہو وہ مجاہداتِ شدیدہ و مدیدہ اختیار کرے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ؎ 

گویند سنگ لعل شود در مقامِ صبر   آرے شود و لیک بخونِ جگر شود

آگے مولانا مستانہ انداز میں آثارِ عشق کا ذکر فرماتے ہیں:

17

عاذلا چندین صُداع و ماجرا پند کم دہ بعد ازین دیوانہ را

ترجمہ: اے ملامت کرنے والے! کب تک یہ درد سر اور قصہ جاری رکھے گا اس کے بعد (مجھ ایسے) دیوانہ کو نصیحت نہ کر۔ عراقی ؎

ز ذوقِ بے خبری ہر کہ باخبر باشد  نزدِ او سخنِ ناصحان خرافات ست

صائب ؎

کام محیط را نکند تلخ آبِ شور  تاثیر نیست در دلِ عشاق پند را

18

من نخواہم عشوۂ ہجران شنُود آزمودم چند خواہم آزمود؟

ترجمہ: میں ہجر (و فراق) کا چکمہ (ہرگز) نہیں سنوں گا (کیونکہ) میں (اس کو خود) آزما چکا ہوں (اب) کہاں تک آزماؤں گا۔

مطلب: ناصحین عشاق کی ایک نصیحت یہ ہوتی ہے کہ عشق کا طریقہ اس اعتبار سے بھی اختیار کرنے کے قابل نہیں کہ اس کا نتیجہ محض ہجر و فراق ہے اور کچھ نہیں، کیونکہ جب وصال کا کوئی درجہ میسر ہوتا ہے تو پھر اس سے اوپر کے درجہ کی طلب کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور جب وہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو اس سے اوپر کی طلب دامنگیر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ساری عمر آتشِ ہجر میں تڑپتے گزر جاتی ہے۔ مولانا اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ تم جس ہجراں سے مجھے ڈراتے ہو میں اس کو آزما چکا ہوں۔ وہ بھی سراپائے لذت و حلاوت ہے کیونکہ اس میں ایک طرح محبوبِ حقیقی کے ساتھ وہ قرب ہے جس کے بعد قربِ مزید کا تقاضا ہوتا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہست مرادِ کسان دولتِ زورِ وصال آنچہ مرادِ من ست در شبِ ہجران طلب

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

 حافظ شکایت از غمِ ہجران چہ میکنی  در ہجر وصل باشد و در ظلمت ست نور

دوامِ طلب میں وہ لذت ہے جو حصولِ مراد میں نہیں۔ و نعم ما قال مولانا اسماعیل مرحوم  ؎

حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا  واے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا

19

ہر چہ غیر شورش و دیوانگی ست اندرین رہ دوری و بیگانگی ست

ترجمہ: (الغرض اس کے عشق کی) شورش اور دیوانگی کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ اس راہِ (سلوک) میں دوری و بیگانگی (کا مترادف) ہے۔

مطلب: غیر دیوانگی سے وہ عقلِ معاش مراد ہے جو ما سوی اللہ کے ساتھ مشغول اور حق تعالیٰ سے غافل کرنے والی ہو اور صحو و تمکین اس میں داخل نہیں بلکہ صحو و تمکین بھی ایک طرح شورش و دیوانگی ہی کی قبیل سے ہے۔ فرق اہلِ دیوانگی و اہل صحو میں صرف اس قدر ہے اہل دیوانگی میں غلبۂ حال کی وجہ سے حرکات کے منتظم کا صدور ہوتا ہے اور اہل صحو و تمکین احوال و مواجہہ سے مغلوب نہیں ہوتے تاہم محبتِ حق ان کے بھی رگ و پے میں ساری و طاری ہوتی ہے۔

20

ہِین بنہ بر پایم آن زنجیر را کہ دریدم سلسلۂ تدبیر را

ترجمہ: ہاں (اے محبوبِ حقیقی) اس زنجیر (عشق) کو میرے پاؤں میں ڈال دے کیونکہ (دنیوی) تدبیر کے سلسلے میں تو نے درہم برہم کر دیا (یعنی میں نے ما سوی سے تعلق قطع کر لیا اب تو اپنے تعلق میں وابستہ کر لے)۔

21

 غير جعدِ آن نگار مقبلم گر دو صد زنجیر آری بگسلم

ترجمہ: (لیکن) اگر میرے اس محبوبِ با اقبال کی زلف کے بغیر دو سو زنجیریں (بھی میرے مقید کرنے کو) لاؤ گے تو میں ان کو توڑ ڈالوں گا۔

مطلب: مجھے عشقِ حق کی زنجیر میں مقید ہونا ہے حبّ مال، حبّ جاہ اور حبّ آبرو کی پابندی مطلوب نہیں نہ اس کی پروا ہے چونکہ دنیوی آبرو جس کو ناموس کہتے ہیں اس کی قید میں ہر شخص مقید ہے اور وہ سب سے زیادہ سنگین قید ہے اس لئے آگے بالخصوص اس کا ذکر فرماتے ہیں:

22

 عشق و ناموس اے برادر راست نیست بر درِ ناموس اے عاشق مایست

ترجمہ: عشق اور (پھر اس کے ساتھ دنیوی) آبرو ( کا خیال) اے بھائی! ٹھیک نہیں۔ اے عاشق! دنیوی آبرو کے دروازے پر (بھی کبھی) کھڑا نہ ہونا۔

23

 وقت آن آمد کہ من عُریان شوم  جسم بگذارم سراسر جان شوم

ترجمہ: (اب) وہ وقت آ گیا کہ میں (صفات ذمیمہ جسمانیہ سے) مجرد ہو جاؤں (یعنی) جسم (کی صفات) کو چھوڑ دوں اور سراپائے روح بن جاؤں۔ صائبؒ ؎

دل را قیدِ جسم رہا مے کنیم ما  این دانہ را ز کاہ جُدا مے کنیم ما

(آگے محبوبِ حقیقی سے عرض ہے جس کا انداز عاشقانہ و مستانہ ہے اور غلبۂ حال میں ایسا انداز اگر چہ ادب سے کسی قدر نکل جائے معاف ہوتا ہے)۔

24

 اے عدوّ شرم و اندیشہ بیا  کہ دریدم پردۂ شرم و حیا

ترجمہ: اے (محبوب) ناموس و اندیشے کو نا پسند کرنے والے! (میرے دل میں) آ (اور تجلی فرما) کیونکہ میں نے شرم و حیا کا پردہ چاک کر دیا۔

مطلب: ظاہر ہے کہ جب قلب میں تجلیِ حق ہو گی تو بے خود و مستی کا ظہور ہو گا جو دنیوی عزت و شان سے متضاد ہے اور اس سے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اہل ملامت عاشق کے پیچھے پڑ جائیں گے مگر عاشق کو اس کی پروا نہیں وہ ان باتوں کی پروا کو بالائے طاق رکھ چکا ہے۔

25

 اے بہ بستہ خوابِ جان از جادوئی  سخت دل یارا کہ در عالم توئی

ترجمہ: اے (محبوب!) جس نے روح کی نیند کو جادو (کے سے عجیب تصرف) کے ساتھ بند کر دیا۔ اے (محبوبِ) بے نیاز! کہ عالم (ہستی) میں تو ہی ہے (جو میرا قبلۂ توجہ ہے)۔

مطلب: عجیب تصرف سے مراد یہ ہے کہ اپنے عشق میں مبتلا کر کے بے خواب و خوار بنا دیا۔ سخت دل بمعنی بے نیاز اس لحاظ سے کہا کہ وہ کسی غرض و غایت کو ملحوظ رکھ کر غرض مندانہ کام کرنے سے منزہ ہے جو مخلوق کا شیوہ ہے۔ ﴿فَاِنَّ اللهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ (آل عمران: 97)

26

 ہِین گلوئے صبر گیر و می فشار  تا خُنک گردد دلِ عشق اے سوار

ترجمہ: (اے محبوب) ہاں صبر (و قرار) کا گلا پکڑ لے اور دبا دے تاکہ اے سوار! عشق کا دل خوش ہو جائے (کیونکہ مقتضائے عشق یہ ہے کہ صبر و قرار نہ رہے)۔

27

تا نسوزم کے خنک گردد دلش  اے دلِ ما خاندان و منزلش

ترجمہ: (اور) جب تک میں (بے صبری و بے قراری کی آگ میں) جل نہ جاؤں کب اس کا دل خوش ہو سکتا ہے۔ (اے مخاطب!) ہمارا دل تو اس (عشق) کا خاندان اور گھر ہے (جس میں وہ تشریف فرما ہے۔ پس وہ ہمارے دل کو سوختہ اور خوش ہونے کا حق رکھتا ہے)۔ 

28

 خانۂ خود را ہمی سوزی بسوز کیست آنکس کو بگوید لَایَجُوْزُ

ترجمہ: تو اپنے گھر کو جلا رہا ہے تو جلا دے۔کون ہے جو (یہ) کہے کہ (تیرا کام) جائز نہیں۔

29

 خوش بسوز این خانہ را اے شیر مست  خانۂ عاشق چنین اولیٰ ترست

ترجمہ: (پس) اے (عشق! جو شدتِ وصولت میں بمنزلہ) شیر مست (ہے) اس گھر کو خوب جلا۔ عاشق کا گھر اسی طرح (جلتا ہوا) زیادہ اچھا (معلوم ہوتا) ہے۔

30

 بعد ازین من سوز را قبلہ کنم  زانکہ شمعم من بسوزش روشنم

ترجمہ: اس کے بعد (اسی) سوزش (عشق) کو (اپنا) قبلہ (توجہ) بناؤں گا کیونکہ میں شمع ہوں (اور شمع کی طرح) سوزش (ہی) سے روشن ہوں۔

31

 خواب را بگذار اِمشب اے پدر  یک شبے در کوئے بیخوابان گذر

ترجمہ: بابا (ایک) آج کی رات (تو) نیند کو چھوڑ دے (اور) ایک رات تو بے خواب لوگوں کے کوچے کی سیر کر لے (اگر خود پورا عاشق نہیں تو عاشقوں کا حال ہی دیکھ لے)۔

32

 بنگر آنہا را کہ مجنون گشتہ اند ہمچو پروانہ بوصلش کُشتہ اند

ترجمہ: ان لوگوں کو دیکھ (جو غلبۂ عشق سے) مجنوں ہو گئے ہیں (اور اس کے وصل میں پروانہ کی طرح قتل ہو چکے ہیں۔

مطلب: اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ عاشق وصل کی دولت سے محروم نہیں ہیں بلکہ واصل ہیں اور وصل و قرب ہی میں فنا ہوئے ہیں، جس طرح پروانہ عاشقِ شمع ہے اور اس کے شعلہ سے واصل ہو کر ہلاک ہو جاتا ہے اور فنا قرب و وصل کا خاصہ ہے خواہ سکر و مستی کے ساتھ ہو جو اہلِ جذب کا حصہ ہے یا صحو و تمکین کے ساتھ جو اہلِ مقام کا درجہ ہے۔ (کلید)

33

 بنگر این کشتیِ خلقان غرقِ عشق  اژدہائے گشتہ گوئی حلقِ عشق

ترجمہ: دیکھو یہ مخلوق (کثیر) کی کشتی (کوئے عشاق میں جا کر گردابِ) عشق میں غرق (ہو گئی) گویا عشق کا گلا ایک اژدہا بن گیا (جو سب کو نگلے جاتا ہے)۔

34

 اژدہائے نا پدید دل ربا عقلِ ہمچون کوہِ را او کُہربا

ترجمہ: ایک ایسا اژدہا جو (حواسِ ظاہر سے) غیر محسوس ہے (اور عشاق کا) دل چھیننے والا ہے اور پہاڑ کی سی (وزن دار) عقل کے لئے کہربا ہے (جس طرح کہربا ایک تنکے کو اٹھا لیتا ہے اسی طرح عشق کے آگے عقل ایک تنکا ہے جس کو وہ آسانی سے اڑا لے جاتا ہے)۔ صائبؒ

پنجۂ مومین حریف پنجۂ خورشید نیست  عقل بیجا پنجہ با عشقِ غیور انداختہ است

35

 عقل ہر عطّار کاگہ شد ازو  طبلہا را ریخت اندر آبِ جُو

ترجمہ: جس عطّار کی عقل اس سے آگاہ ہو گئی اس نے (عطر و گلاب کے) قرابے ندی میں بہا دیے (اور ہر قرابے کو گراتے وقت کہا) کہ

36

 رَو کزین جُو برنیائی تا ابد  لَمْ یَکُنْ حَقًّا لَّہٗ كُفُوًا اَحَد

ترجمہ: جا (رخصت) کیونکہ تو اس ندی سے ابد تک نہیں نکلے گا۔ (کیونکہ بالیقین) اس (محبوبِ حقیقی) کا کوئی ہمسر نہیں۔

مطلب: ان قرابوں کا ندی سے نکلنا اسی صورت میں ممکن تھا کہ گرانے والے کو وہ پھر مطلوب ہوتے اور یہ بات ابد تک ممکن نہیں کیونکہ اب اس کا مطلوب محبوبِ حقیقی ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں جو اس کے سوا اس کو مطلوب ہو۔ عطار سے مراد وہ شخص ہے جو علائقِ دنیوی میں گھرا ہوا ہو اور اس کے قرابوں کو ندی میں گرانے سے مراد ان تعلقات کو منقطع کر کے متوجہ الی الحق ہونا ہے۔ بعض حواشی سے منقول ہے کہ یہ شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اللہ علیہ کے قصے کی طرف تلمیح ہے جو اپنی تمام دکان کا سامان لٹا کر عاشقِ صادق ہو گئے تھے یہاں تک عشق کے آثار و احوال کا ذکر تھا۔ آگے ان احوال کے منکرین کی تردید فرماتے ہیں جن میں ایک جماعت اہلِ فلسفہ کی ہے۔

37

 اے مزّور چشم بکشا و ببین چند گوئی می ندانم آن و این

ترجمہ: اے مکار! آنکھ کھول اور دیکھ تو کہاں تک یہ کہے گا کہ میں اس کو اور اس کو نہیں جانتا۔

مطلب: فلسفی کہتا ہے کہ میں ان احوال و مواجیہ کو نہیں جانتا جس کے صوفیہ مدعی ہیں۔ مولانا اس کو جواب دیتے ہیں کہ تو خود چشمِ بصیرت سے کام نہیں لیتا ورنہ ان احوال کو بچشمِ قلب ملاحظہ کر لینا اور تیرا چشمِ بصیرت سے کام نہ لینا اور پھر کہنا کہ میں یہ احوال نہیں دیکھتا، سراسر مکاری ہے کہ خود آنکھ بند کر کے کہتا ہے مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ﴿اَنُلۡزِمُكُمُوۡهَا وَ اَنۡـتُمۡ لَـهَا كٰرِهُوۡنَ ”تو کیا ہم اس کو (زبردستی) تمہارے گلے مڑھ رہے ہیں اور تم (ہو کہ) اس کو نا پسند کئے چلے جاتے ہو“۔(ہود: 28)

38

 از وبائے زرق و محرومی برآ  در جہان حیِّ و قیُّومی درآ

ترجمہ: (غرض اس) مکر اور محرومی کے مرض سے (باہر) نکل اور اس عالم کے اندر آ جو خداوندِّ حیّ و قیّوم سے منسوب ہے۔

مطلب: جہانِ حیّ و قیوم سے عشاق کا حلقہ مراد ہے جو اس حیّ لا یموت کے آگے تمام عالم کو مردہ و نا چیز سمجھتے ہیں اور صرف اس قیومِ عالم کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھنا ان کو مقصود ہے۔

39

تا نمے بینم ہمے بینم شود  وین ندانمہات می دانم شود

ترجمہ: تاکہ (اس حلقہ میں داخل ہو کر تیرا یہ قول کہ) میں نہیں دیکھتا، میں دیکھتا ہوں بن جائے اور تیری یہ انجان پنے کی باتیں جاننے کے اقرار سے بدل جائیں (یعنی تیرا جہل علم سے بدل جائے)۔

40

 بگذر از مستی و مستی بخش باش  زین تلوُّن نقل کن در استواش

ترجمہ: (ان علوم وہمیہ کے) نشہ (غرور) سے آگے بڑھ اور عشق کی مستی بخشنے والا بن جا۔ (لغو علوم کے) اس (شغل میں گرگٹ کی طرح نت نیا) رنگ بدلنے سے (نکل کر) حق تعالیٰ کی (بخشی ہوئی) استقامت میں آ جا۔

مطلب: علوم فلسفیہ کا غرور جس میں سراسر اپنی عقل پر اعتماد ہوتا ہے اتباعِ حق اور مطاوعت مرشد سے مانع ہوتا ہے۔ چنانچہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَلَمَّا جَآءَتهُم رُسُلُهُم بِالبَيِّنٰتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ العِلۡمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهٖ يَستَهزِءُونَ ”اور جب ان کے رسول ان کے پاس کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے تو یہ لوگ اپنی لیاقتِ علمی پر بڑے نازاں ہوئے اور جس (عذاب) کی ہنسی اڑاتے تھے وہ انہی پر الٹ پڑا“۔ (المومن: 83)

اس نشہ کو چھوڑ کر مستیِ عشق حاصل کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں اور وہ یہ چیز ہے جس کا اثر دوسرے لوگوں پر بلا قیل و قال محض محبت سے بھی ہوتا ہے اور چونکہ علومِ فلسفہ کے مقدمات موردِ شکوک و شبہات ہیں۔ اس لئے ان علوم میں مشغول ہونے والے کے خیالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ اس میں کسی ایک عقیدہ کو ثبات و استقامت نہیں ہوتی اسی کو تلوّن سے تعبیر کیا ہے بخلاف اس کے محبوبِ حقیقی کے ساتھ تعلق استوار ہونے میں ہمیشہ ایک ہی عقیدہ قائم رہتا ہے استواء سے یہی مراد ہے۔

41

 چند نازی بدین مستیِ پست  بر سر ہر کوے چندان مست ہست

ترجمہ: تو کب تک (علومِ سفلیہ کی) اس ناچیز مستی پر فخر کرے گا کیونکہ (ایسے) مست تو ہر (گلی) کوچے میں بہتیرے مارے مارے پھرتے ہیں۔

مطلب: اپنے علوم فلسفیہ کا غرور فضول ہے جیسے اپنے مال کا غرور، جاہ و منصب کا غرور، حسن کا غرور، طاقت کا غرور فضول سمجھا جاتا ہے اور ایسے مغرور کہیں وقعت نہیں پاتے۔ یہی حال اس غرورِ علم کا ہے کہ بالکل لغو بیہودہ ہے اور نا قابلِ وقعت۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ اگر ان مغروروں کی کثرت ان کی خواری کا باعث ہے تو مستانِ حق کی کثرت کا بھی تو آپ اقرار کر چکے ہیں۔ چنانچہ ان کے زمرہ کو جہاں حی و قیومی کہنا ان کی کثرت پر دال ہے۔

آگے اس کا جواب ارشاد ہے:

42

 گر دو عالم پر شود سرمستِ یار  جملہ یک باشند و آن یک نیست خوار

ترجمہ: (اول تو) اگر دونوں عالم سر مستانِ یار سے بھر جائیں تو بھی سب ایک ہوں گے اور ایسا ایک خوار نہیں (ہو سکتا)۔

مطلب: خواری کا باعث وہ کثرت ہے جس میں اختلاف و تزاحم ہو۔ جیسے کہ مغرورانِ دنیا کا حال ہے مگر سر مستانِ حق میں اختلاف و تزاحم نام کو نہیں”دہ درویش در گلیمے بخسپند و دو پادشاہے در اقلیمے نگنجند“ اور جس جماعت میں وحدت کی یہ شان ہو وہ نہ کثیر ہے نہ حقیر۔

43

 این ز بسیاری نیابد خواریے  خوار کہ بود تن پرستے ناریے

ترجمہ: (دوسرے اگر ان حضرات کی کثرت بھی تسلیم کر لی جائے تو بھی) یہ (بزرگ) کثرت کے سبب سے خواری نہ پاتے۔ خوار کون ہوتا ہے جو تن پرست اور (دوزخیوں کے سے اعمال کی وجہ سے) دوزخی ہو۔

مطلب: کسی چیز کے نیک و بد ہونے میں اس کی کثرت و قلت کو دخل نہیں بلکہ اس کا فی نفسہٖ حسن و قبح ہونا اس کے حسن و قبح کا باعث ہے خواہ وہ کثیر ہو یا قلیل۔ اسی بنا پر امورِ دنیویہ کے مغرور و حقیر ہیں اور مستانیِ حق عزیز ہیں خواہ کم ہوں یا زیادہ۔ آگے اس کو دو مثالوں سے واضح فرماتے ہیں۔

44

 گر جہان پُر شد ز تابِ نورِ مَہ  کے کساد آید بر صاحب وَلہ

ترجمہ: (دیکھو) اگر (سارا) جہاں چاند کے نور کی شعاع سے پُر ہو گیا (تو چاند پر) فریفتہ ہونے والے کے نزدیک اس کی بے قدری کب ہو سکتی ہے؟ (چاند کی کثرتِ شعاع اس کی بے قدری کی باعث نہ ہوئی)۔

45

 گر جہان پُر شُد ز نورِ آفتاب  کے بوَد خوار آن تُف خوش التہاب

ترجمہ: اگر جہاں سورج کی روشنی سے پُر ہو گیا تو بھی (اس کی) وہ بخوبی مشتعل ہونے والی حرارت کب بے قدر ہوسکتی ہے؟ (یہاں بھی آفتاب کی حرارت کثرت کے باوجود بے قدر نہیں ہوتی)۔

46

 لیک با این جملہ بالاتر خَرام  چونکہ اَرضُ اللّٰہِ وَاسِع بود و رام

ترجمہ: لیکن (مستی و سکر کی) اس تمام (مدح) کے با وجود تم (اس سے) بلند مقام کی طرف چلو (جو صحو ہے) جب کہ اللہ کی زمین وسیع اور (سالکوں کے لئے) مسخر ہے (تو ایک ہی مقام میں مقید کیوں رہو)۔

مطلب: اوپر حوالہ کردن مرغ الخ کے زیرِ عنوان شعر ؎

بعد ازان نوحہ گری آغاز کرد کہ فخ و صیّاد لرزان شد ز درد

کی ذیل میں یہاں تک سکر و مستی کا ذکر اور اس کے آثار و لوازم کا بیان تھا ۔ اب یہاں اس کے مقابل وصف یعنی صحو کا ذکر فرماتے ہیں اور سکر پر صحو کی فضیلت بیان کرتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿قَالُوْا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيهَایعنی ”دارالحرب میں پڑے رہنے والوں کی موت کے وقت فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین اس قدر گنجائش نہ رکھتی تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے‘‘ (النساء : 97) اور ارض کا رام ہونا اس آیت سے ماخوذ ہے۔ ﴿هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِن رِّزْقِهٖ ”وہی (خدا) ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے نرم (و ہموار) کر دیا ہے تو اس کے اطراف و جوانب میں (جدھر چاہو) چلو پھرو اور خدا کی دی ہوئی روزی کھاؤ۔“ (الملك: 15)

ارض الله سے مراد طریقِ سلوک ہے مطلب یہ ہے کہ راہِ سلوک کو سکر پر ختم نہ سمجھو ابھی اس میں بہت وسعت باقی ہے۔ چنانچہ اس سے آگے صحو کا مقام ہے پھر اس میں بھی بہت سے مراتب ہیں جن میں سالک بتدرج ترقی کرتا ہے۔ صحو کی فضیلت سکر پر کئی وجوہ سے ہے۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ صاحبِ صحو کی نظر خالق کے ساتھ خلق پر مبذول رہتی ہے اور وہ توجه الى الخالق کے ساتھ خلق کے حقوق کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ بخلاف اس کے صاحبِ سکر ہمہ تن متوجه بخالق اور مخلوق سے غافل ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صاحبِ صحو دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور صاحبِ سکر صرف اپنے ہی کام کا ہوتا ہے۔

47

 گر چہ این مستی چو بازِ اشہب ست  برتر از وَے بر زمینِ قُدس ہست

ترجمہ: اگرچہ یہ مستی (و سکر جس کی اوپر تعریف چلی آئی ہے بہتر و کمیاب ہونے میں ) بازِ اشہب کی مانند ہے (لیکن سلوک کی) پاک زمین پر اس سے (بھی) اعلیٰ (مقام موجود) ہے (اور وہ صحو ہے) 

48

مست ز ابرار و مقرّب زو بہ است  بر مقرّب شيرِ او چون رُوبہ است

ترجمہ: مست ابرار سے ہّے (صاحبِ صحو مقرب سے) اور مقرب ابرار سے بہتر ہے (چنانچہ) مقرب کے آگے اس کا شیر (بھی) لومڑی کی مانند (کم رتبہ) ہے۔

مطلب: سکر کا درجہ ہر چند سلوک میں ایک اچھا درجہ ہے لیکن صحو کا درجہ اس سے اعلیٰ ہے وہ ابرار کا درجہ ہے اور یہ مقربین کا اور ابرار و مقربین کا فرقِ مراتب حضرت ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہے جس کو بعض لوگ غلطی سے حدیث سمجھ لیتے ہیں کہ ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبِيْنَ‘‘ یعنی ”ابرار کی طاعات مقربین کے لئے بمنزلۂ معاصی ہیں“ کیونکہ مقربین کا درجہ ان طاعاتِ عالیہ کا متقاضی ہے جو مقامِ قرب کے لائق ہوں اور ابرار کے مقام کی طاعات پر اکتفا کرنا گویا ان کی تقصیر ہے اس لئے ایسی طاعات ان کے شان کے لائق نہ ہونے کے باعث بمنزلۂ معصیت ہیں :

49

 رَو سرافیلے شو اندر امتياز  در دمنده رُوح و مست و مست ساز

ترجمہ: اے سالک! جا (خالق و مخلوق کے مابین) فرقِ مراتب ملحوظ رکھنے میں اسرافیل بن جا۔ جو (مُردوں میں) روح پھونکنے والے (ہیں خود بھی) مست (ہیں) اور (دوسروں کو بھی) مست کرنے والے ہیں۔

مطلب: حضرت اسرافیل قربِ قیامت میں صور پھونکیں گے تو مردہ مخلوق میں جان پڑ جائے گی۔ ان کو ادھر خالق کے حکم کی اطاعت منظور ہے اور ادھر مخلوق کو مردہ سے زندہ کر دینا مقصود ہے لیکن دونوں کی رعایت مدِّ نظر ہے۔ یہی عارف صاحبِ صحو کی شان ہوتی ہے وہ خود بھی محبتِ حق میں مست ہوتا ہے اور اپنے فیضِ صحبت سے دوسرے لوگوں کو بھی مست بنا دیتا ہے۔ بخلاف اس کے صاحب سکر کی نظر صرف خالق کی طرف ہوتی ہے اور خود ہی مست ہوتا ہے کسی اور کو فیض نہیں پہنچا سکتا کَمَا ذُکِرَ آنِفاً آگے صاحبِ سکر کی حالت میں بیان فرماتے ہیں:

50

مست را چُون دل مزاج اندیشہ شد  این ندانم وان ندانم پیشہ شد

ترجمہ: (1) مست کا دل (اور) مزاح (اور) قوتِ فکریہ (سب) جاتے رہتے ہیں (اس لئے غلبۂ حیرت سے) میں یہ نہیں جانتا وہ نہیں جانتا (کہنا اس کا) شیوہ بن جاتا ہے۔

ترجمہ: (2) چونکہ مست کا دل (اور) مزاج اور قوتِ فکریہ (سب) جاتے رہتے ہیں (اس لئے غلبۂ حیرت سے) میں نہیں جانتا وہ نہیں جانتا (کہنا اس کا) شیوہ بن جاتا ہے۔

ترجمہ: (3) مست کو چونکہ (خوشی و شادمانی) سوجھتی رہتی ہے (جو لازمۂ سکر ہے اس لئے) میں یہ نہیں جانتا وہ نہیں جانتا (کہنا اس کا) شیوہ بن جاتا ہے۔

مطلب: (1) اہلِ سکر غلبہ کے باعث ممکنات کی نفی اور ما سوی اللہ سے قطعاً اپنی لا علمی ظاہر کرتے ہیں جو ایک بے اصل بات ہے کیونکہ ممکنات فی الحقیقت موجود ہیں۔ ان کی اسی بے اصل بات کو مزاح و ہزل سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ہزل بمقابلہ جد کے بے اصل ہوتا ہے۔

(2): مست مشاهدۂ وحدت سے اس قدر مغلوبِ سکر ہو جاتا ہے کہ کثرت اس کی نظر سے مرتفع ہو جاتی ہے اور وہ ہر چیز ما سوی اللہ سے اپنی لا علمی ظاہر کرتا ہے۔

(3) مست ما سوی اللہ کی نفی کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اس لئے ہر چیز کی نفی کرنے لگتا ہے۔

انتباہ: اس شعر سے لے کر چودہ شعر اوپر تک گن جاؤ وہاں کہا تھا ؎ ’’چند گوئی می ندانم این و آن‘‘ پھر کہا ’’وین ندانمہات مے دانم شود‘‘۔ وہ ’’ندانم‘‘ اس شعر کے ’’ندانم‘‘ سے جداگانہ ہے کیونکہ وہ ’’ندانم‘‘ غفلت و انکار سے تھا جو فلاسفہ کا شیوہ تھا اور یہ ندانم فنا و سکر کا نتیجہ ہے جو اہل اللہ کی ایک جماعت کی حالت ہے (کلید) نفیِ ممکنات کے ذکر کے بعد جو اہلِ سکر کی ملحوظ ہے اثبات کا ذکر فرماتے ہیں، جو اہلِ صحو و اربابِ تمکین کے زیرِ نظر ہے۔

51

این ندانم وان ندانم بہر چیست؟  تا بگوئی آنکہ می دانیم کیست؟

ترجمہ: (اے مست! تیرا یہ کہنا کہ) میں اس کو نہیں جانتا اس کو نہیں جانتا کس بنا پر ہے؟ لے ہم ہی بتائے دیتے ہیں تاکہ تو (خود ہی) بتا دے کہ جس ذات پاک کو ہم (اہلِ سکر) جانتے (اور مانتے) ہیں وہ کون ہے؟

مطلب: اہلِ سکر کے انکار ممکنات کو جو بر سبیلِ ہزل ان کے منہ سے نکل جاتا ہے اپنے حسنِ ظن سے محمول بخیر کر کے فرماتے ہیں کہ یہ انکار بھی ایک مصلحت پر مبنی ہے۔ یعنی اس انکارِ ممکنات سے تعریف واجب بوجہ اتم مقصود ہے تاکہ اس پر نظر کرتے وقت عارف کو ما سوی الله پر بالکل نظر و التفات نہ رہے۔ مگر یہ بھی خیال رہے کہ یہ ان کا بذاتِ خود مقصود نہیں بلکہ اثباتِ واجب الوجود میں کار آمد ہے۔ واجب کا اثبات ہو گیا تو پھر اس انکار سے دست بردار ہو جانا اور اہل صحو کی طرح ممکنات کو من وجہ موجود ماننا اور ملحوظ رکھنا چاہئے۔ آگے یہی ارشاد ہے:

52

 نفی بہرِ ثبت باشد در سخن  نفی بگذار وز ثبت آغاز کن

ترجمہ: (محقق کے) کلام میں نفی اثبات کے لئے ہوتی ہے (جب اثبات ہو گیا تو) نفی کو (مقصود بالذات بنانا) چھوڑ دو اور اثبات پر بنیادِ کار رکھو (لَا اِلٰہَ کی نفی سے اِلَّا اللہ کے اثبات کی تمہید و تاکید مقصود ہے اور مقصود اِلَّا الله ہی ہے)۔

53

 نیست این و نیست آن ہِین واگزار  آنکہ آن ہست آن را پیش آر

ترجمہ: اس (رٹ) کو جانے دو کہ یہ (موجود) نہیں اور وہ (موجود) نہیں بلکہ وہ جو موجود (بالذات) ہے اس کو مطمحِ نظر بناؤ (یعنی سکر اور احوالِ سکر سے نکل کر صحو و تمکین کے درجے پر ترقی کرو جس میں خالق کے ساتھ مخلوق پر بھی نظر رہتی ہے)۔

54

نفی بگذار و ہمان ہستی طلب  تُرک و مُطرب را بگو احوالِ شب

ترجمہ: نفی (ممکنات کی رٹ) کو چھوڑ دو اور اس ہستی (مطلق) کو طلب کرو (جو اہل سکر و اہلِ صحو سب کا مطلوب ہے اور اس کی تائید میں) ترک اور مطرب کا (پایان) شب کا حال بیان کرو۔ (یہ حال آگے آتا ہے)۔

55

نفی بگذار و ہمان ہستی پرست  این بیاموز اے پدر زان ترکِ مست

ترجمہ: نفی (ممکنات کی رٹ) کو چھوڑ دو اور اسی ہستی (مطلق) کی پرستش کرو (جو اہل سکر و صحو وغیرہ سب کا معبود ہے اور یہ بات اے بزرگوار! اس ترکِ مست سے سیکھو۔

مطلب: اس ترک کا قصہ آگے شروع ہوتا ہے مگر مولانا اپنی عادتِ شریفہ کے مطابق ایک شعر سے اس کا ذکر شروع کر کے دوسرے شعر میں ایک ایسے مضمون کی طرف انتقال کریں گے جو دور تک چلا جائے گا اور اس انتقال کی بنیاد حکایت کے عنوان میں ہی رکھی گئی ہے۔ لہذا بمناسبتِ مقام یہاں اس قدر بتا دینا ضروری ہے کہ وہ کوئی جاہل و میخوار ترک سردار تھا۔ قوال نے ایک غزل گانی شروع کی جس میں عاشق نے اپنی حیرت کے اقتضا سے بار بار می دانم نمیدانم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ترک نے گھُرک کر کہا ارے بھڑوے یہ کیا بک رہا ہے کہ میں نہیں جانتا، میں نہیں جانتا۔ وہی بات کیوں نہیں بیان کرتا جو تو جانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ترک کا قول جہل پر مبنی تھا مگر مولانا جو اس کو طریقت کے اہم مسئلہ کی تائید میں پیش فرما رہے ہیں کہ انکارِ ممکنات کو چھوڑ کر اثباتِ واجب الوجود پر متوجہ ہونا چاہیے۔ یعنی سکر سے صحو کی طرف ترقی کرنی چاہیے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ترک کے اس قول کو معقول قرار دے کر بطورِ دلیل پیش کیا ہے بلکہ مولانا کا یہ ایک ظریفانہ انداز ہے جس سے اکثر جگہ سامعین کی تفریح کے لئے ایسا کام کیا کرتے ہیں۔