دفتر 6 حکایت 18: ایک ترک سردار مخمور کا صبح کی مے نوشی کے وقت قوال سے گانے کی فرمایش کرنا اور اس حدیث کے معنی کہ الله کے پاس ایک شراب ہے اس کے اولیا کے لئے



اِستدعائے امیر تُرکِ مخمور مُطرِب را بوقتِ صُبُوح و معنی این حدیث کہ اِنَّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ شَرَاباً لِاَوْلِيَاءِہٖ اِذَا شَرِبُوْا سَكَرُوْا و اِذا سَكَرُوْا طَرَبُوْا و قوله تعالىٰ اِنَّ الاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ الخ

ایک ترک سردار مخمور کا صبح کی مے نوشی کے وقت قوال سے گانے کی فرمایش کرنا اور اس حدیث کے معنی کہ الله کے پاس ایک شراب ہے اس کے اولیا کے لئے۔ جب پی لیتے ہیں تو مست ہو جاتے ہیں اور جب مست ہو جاتے تو وجد میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ نیک لوگ پیالے سے نوش کریں گے۔ الخ

این مَے کہ تو میخوری حرام ست  ما مے نخوریم جُز حلالے

یہ شراب جو تم پیتے ہو حرام ہے  ہم حلال شراب کے سوا نہیں پیتے

1

جہد کن تا ز نیست ہست شوی  وز شرابِ خدائے مست شوی

ترجمہ: کوشش کرو کہ تم نیست سے ہست ہو جاؤ اور خدا کے شراب سے مست ہو جاؤ۔ 

2

 اعجمی تُرکے سحر آگاه شد وز خمارِ خمر مُطرب خواه شد

ترجمہ: ایک جاہل ترک (رات بھر کی بد مستی کے بعد) صبح کو ہوش میں آیا اور شراب کے خمار کی وجہ سے قوال (سے گانے بجانے) کا متقاضی ہوا (تاکہ خمار کی گرانی رفع ہوا)۔ (آگے مولانا شرابِ باطنی یعنی محبت حق کے مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں)۔

3

 مُطربِ جان مونسِ مستان بود  نُقل و قُوْتُ و قُوَّتِ مست آن بود

ترجمہ: روحانی قوال (روحانی) مستوں کا مونس ہوتا ہے (روحانی) مسرت کے لئے نقل اور غذا اور طاقت وہی ہوتا ہے۔

مطلب: روحانی قوال سے مرشدِ کامل اور روحانی مست سے طالبِ حق مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح مستیِ شراب گانا بجانا سننے کی متقاضی ہوتی ہے اسی طرح محبتِ حق رجوع الى المرشد پر آمادہ کرتی ہے اور جس طرح سماع نغمات سے نشہ بڑھتا ہے اسی طرح صحبتِ مرشد سے محبتِ حق ترقی کرتی ہے۔ گویا وہ محبِ حق کی غذا ہے جس سے وہ قوت پاتا ہے۔

4

 مُطرب ایشاں را سوئے مستی کشد  باز مستی از دم مُطرِب چشد

ترجمہ: (وہ روحانی قوال) (یعنی) مرشد ان (محبانِ حق) کو (محبتِ حق کی) مستی کی طرف لے جاتا ہے پھر یہ (محبت کی) مستی (اس) قوال (کے فیضِ باطنی) سے غذا پاتی ہے۔

مطلب: جس طرح مے نوشی سماعِ نغمات پر آمادہ کرتی ہے اور پھر سماعِ نغمات مزید مے نوشی پر اکساتا ہے۔ اسی طرح مرشد کی صحبت و ارشاد سے محبتِ حق پیدا ہوتی ہے اور محبتِ حق سے رابطۂ مرشد ترقی کرتا ہے۔

5

 آن شرابِ حق بدان مُطرب برد  وین شرابِ تن ازین مُطرب چرد

ترجمہ: وہ (محبتِ حق کی) حقانی شراب اس (روحانی) قوال (یعنی مرشدِ کامل) کی طرف لے جاتی ہے اور یہ ظاہری شراب اس (گانے والے) قوال سے غذا پاتی ہے۔

6

 ہر دو گر یک نام دارد در سخن  لیک فرق ست زین حَسن تا آن حَسن

ترجمہ: (یہ) دونوں (شرابیں) اگرچہ لفظوں میں ایک ہی نام رکھتی ہیں لیکن (ان کی حقیقت میں وہی تفاوت ہے جیسے) اس حسن سے اس حسن تک فرق ہے۔

مطلب: اس میں ایک قصے کی طرف تلمیح ہے جو مثنوی کے دفتر چہارم میں گزر چکا ہے یعنی ایک شاعر بادشاہ کے حضور میں قصیدہ لکھ کر لے گیا۔ بادشاہ نے ایک ہزار دینا چاہا تو وزیر نے جس کا نام حسن تھا سفارش کر کے پچیس ہزار دینار دلا دیئے کچھ مدت کے بعد وہ پھر دوبارہ قصیدہ لے گیا اب کوئی اور وزیر تھا اور اتفاق سے اس کا نام بھی حسن تھا۔ بادشاہ نے حسب عادت اب کے بھی ایک ہزار دینار انعام کا حکم دیا مگر وزیر نے کہا حضور خزانہ خالی ہے اور ملکی تصارف بہت ہیں۔ شاعر کے لئے اس رقم کا چالیسواں حصۂ انعام کافی ہے چنانچہ اس کو صرف پچیس دینار دے کر رخصت کر دیا۔ شاعر بڑبڑاتا چلا گیا ؎

7

 گفت یا رب نامِ آن و نامِ این چون یکے آمد دريغ اے ربِ دین

فرماتے ہیں کہ اس (سخی) حسن اور اس (کنجوس) حسن میں فرق ہے (اسی طرح اس باطنی شراب اور اس ظاہری شراب میں فرق ہے) اے ربِ دین! اگرچہ نام ملتا جلتا ہے۔

8

 اشتباہے ہست لفظی درمیان  لیک خود کو آسمان؟ کو ریسمان؟

ترجمہ: (ان کے) درمیان ایک لفظی مشابہت ہے ورنہ کہاں آسمان اور کہاں رسی (کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی)۔

9

 اشتراکِ لفظ دائم رہزن ست  اشتراکِ گبر و مومن در تن ست

ترجمہ: لفظی اشتراک ہمیشہ (تحقیق کا) رہزن ہے (کہ دھوکے میں ڈال دیتا ہے جس طرح) کافر و مومن کا اشتراک جسم میں ہے۔

مطلب: جسم کو دیکھو تو کافر و مومن یکساں نظر آتے ہیں، اسی طرح لفظ کو دیکھو تو یہ شراب اور وہ شراب ایک نظر آئے گی مگر جس طرح خیالات و عقاید کے ظہور سے کافر و مومن کا فرق نمایاں ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان دونوں شرابوں کی کیفیات متفاوتہ سے ان میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ آگے جسم کی مثال کو مزید وضاحت سے بیان فرماتے ہیں:

10

جسمہا چون کوزہائے بستہ سر  تا کہ در ہر کوز چہ بود؟ آن نگر

ترجمہ: جسم ان کوزوں کی مانند ہے جو سر بستہ ہیں تم اس بات کو دیکھو کہ ہر کوزہ میں کیا (چیز) ہے (چنانچہ پھر ظاہر ہو گا کہ)

11

 کوزهٔ آن تن پُر از آبِ حیات  کوزۂ این تن پُر از زہرِ ممات

ترجمہ: اس بدن کا کوزہ (محاسن و فضائل کے) آبِ حیات سے پُر (ہے اور) اس بدن کا کوزہ (معائب و رذائل کے) زہر قاتل سے لبریز (ہے)۔

12

 گر بمظروفش نظر داری شہی  ور بظرفش بنگری تو گمرہی

ترجمہ: اگر تم اس کے اندر کی چیز پر نظر رکھو تو تم (اقلیمِ تحقیق کے) بادشاہ ہو۔ اور اگر اس کے ظرف (ہی) کو دیکھو گے تو دھوکا کھاؤ گے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی مرحوم ؎

ساغر زریں ہو یا مٹی کا ہو اک ٹھیکرا  تو نظر کر اس پر جو کچھ اس کے اندر ہے بھرا

 اب اس مثال کو ممثل لہٗ پر چسپاں فرماتے ہیں:

13

 لفظ را مانندۂ این جسم دان  معنیش را در درون مانندِ جان

ترجمہ: لفظ کو اس جسم (مذکور) کی مانند سمجھو (اور) اس (لفظ) کے معنی کو اس کے اندر جان کی مانند (سمجھو جو جسم کے اندر ہوتی ہے)۔

14

 دیدۂ تن دائما تن بین بود  دیدۂ جان، جان پُر فن بین بود

ترجمہ: جسمانی آنکھ ہمیشہ جسم کو دیکھتی ہے (اور) روحانی آنکھ روح با کمال کو دیکھتی ہے۔

مطلب: ظاہر پرست صورت پر مرتے ہیں سیرت اور کمالاتِ باطن پر ان کی نظر نہیں جاتی لیکن اہل بصیرت کمالاتِ باطن کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اسی طرح لفظ پرست ہمیشہ الفاظ پر نظر کرتے ہیں اور طالبِ حقیقت متکلم کی مراد کو دیکھتے ہیں۔ آگے اس مضمون پر ایک تفریع ہے۔

15

 پس ز لفظِ نقشہائے مثنوی  صورتش ضال ست و ہادی معنوی

ترجمہ: پس مثنوی کے نقوش (تحریر) کے الفاظ سے (یہ بات ظاہر ہے کہ لفظ پرست کے لئے) ان (الفاظ) کی صورت (جو با لحاظِ معنی ہو) گمراہ (کن) ہے اور با معنی (لفظ) ہدایت بخش ہے۔

مطلب: اور کہا تھا کہ ظاہر بین ظاہر کو دیکھتا ہے اور معنی شناس معنی کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اب اس پر یہ بات متفرع کی ہے کہ ظاہر بینی اکثر گمراہ کر دیتی ہے اور معنی شناسی باعثِ رشد و ہدایت ہوتی ہے۔ جس کی بہترین مثال یہی مثنوی ہے کہ اس کے معارف چونکہ اکثر جگہ غلبۂ حال میں بیان ہوئے ہیں اور بہت سے معانیِ نادره کو مستی و دیوانگی کے لہجہ میں ادا کیا ہے جن میں حدِ ادب کی رعایت کم ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کے ظاہر الفاظ پر جانا موجبِ گمراہی ہے اور ان الفاظ کی تاویلِ صحیح کے ساتھ مولانا کی اصل مراد کو سمجھنا عین ہدایت ہے۔ قرآن مجید کی بھی یہی شان ہے کہ ظاہر بین اس سے گمراہ ہوتا ہے اور معنی شناس ہدایت پاتا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

16

 درنُبے فرمود کاین قرآن ز دِل  ہادیِ بَعضے و بَعضے را مُضِل

ترجمہ: (حق تعالیٰ نے) قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن مجید (لوگوں کے) دل (کی استقامت و کجی) کے تفاوت سے بعض کے لئے ہدایت بخش ہے اور بعض کے لئے گمراہ کن۔

مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ﴿يُضِلُّ بِهٖ كَثيرًا وَّيَهدِىْ بِهٖ كَثِيرًا۔۔۔﴾ (البقرۃ: 26)۔ ”ز دل“ کے معنی میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن مجید فی نفسہٖ ہدایت بخش ہے مگر لوگوں کے دل کی کجی اس کو باعثِ گمراہی بنا لیتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚؔ۔۔﴾ ”تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی انہی مبہم آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فساد پیدا کریں اور تاکہ ان کے اصل مطلب کی ٹوہ لگائیں۔ (آل عمران: 7)

خلاصہ تمام تقریر کا یہ ہوا کہ محض لفظ پر نہ جانا بلکہ قائل کے معنیِ مراد کو سمجھنا لازم ہے۔ پس ہمارے شراب کے لفظ سے اس غلط فہمی میں نہ پڑنا کہ اس سے ظاہری شراب مراد ہے۔ نظامیؒ ؎

چہ پنداری اے خضر فرخندہ پَے کہ ازمے مرا ہست مقصودِ مے؟

مرا ساقی از وعدۂ ایزدی ست  صبوح از خرابی مَے از بیخودی ست

گر از مے شدم ہرگز آلودہ کام  حلالِ خدا بر نظامیؔ حرام

17

اللہ اللہ، چونکہ عارفِ گفت مے  پیشِ عارف کَے بود معدوم شے؟

ترجمہ: توبہ توبہ! جب عارف شراب کا لفظ کہے تو (اس سے ظاہری شراب مراد ہو گی جو اس کی نظر میں نا چیز ہے)۔ عارف کے سامنے ایک نا چیز کب چیز ہو سکتی ہے (جو اس کا ذکر کرے پس جس چیز کا ذکر کر رہا ہے ضرور وہ ایک معتد بہٖ چیز ہے اور وہ شرابِ محبت ہے)۔

18

 فہم تو چون بادۂ شیطان بود کے ترا فہمِ مے رحمٰن بود؟

ترجمہ: (اے معترض!) جب تیری سمجھ میں یہی شیطانی شراب آتی ہے تو تجھ کو اس رحمانی شراب کی سمجھ کہاں؟ (جو اہلِ معرفت کی مراد ہے آگے پھر مضمونِ سابق کی طرف عود ہے)

19

 این دو انبازند مطرب با شراب  این بدان و آن بدین آرد شتاب

ترجمہ: (غرض) یہ دونوں (چیزیں یعنی) قوال اور شراب (باہم شریکِ صحبت) ہیں یہ اُس کی طرف اور وہ اِس کی طرف جلدی لے جاتی ہے (یعنی میخوری سماعِ نغمات پر مائل کرتی ہے اور سماعِ میخواری پر آمادہ کرتا ہے اور یہی حال باطنی شراب اور روحانی قوال کا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف لے جاتے ہیں)۔

20

پُر خماران از دمِ مُطرب چرند  مطربان شان سوئے میخانہ برند

ترجمہ: پر خمار لوگ قوال کے گانے سے حظ اٹھاتے ہیں (اور) قوال ان کو (اپنے راگ کے اثر سے) مے خانہ کی طرف لے جاتے ہیں۔

21

 آن سِر میدان و این پایانِ اوست  دل شده چُون گوئے در چوگانِ اوست

ترجمہ: وہ (قوال کا گانا) میدان (طرب) کا آغاز ہے اور یہ (میخواری) اس (میدان) کی انتہا ہے (اور طرب کا) دلدادہ اس (قوال) کی چوگان (سرود) میں گیند کی مانند ہے۔

مطلب: مستی کا آغاز راگ کے سماع سے ہوتا ہے اور شراب نوشی اس مستی کی آخری منزل ہے۔ اسی طرح سلوک کا آغاز صحبتِ شیخ سے ہوتا ہے اور محبتِ الٰہی اس کا منتہائے مقصود ہے۔ پیچھے یہ کہا تھا کہ صحبتِ شیخ اور محبتِ الٰہی دونوں ایک دوسرے کی محرک ہیں۔ یہاں صرف مقدم الذکر کو دوسری کی محرک قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی تعارض نہیں بلکہ اس سے صرف یہ اشارہ مقصود ہے کہ محبتِ الٰہی مقصود ہے اور صحبت شیخ اس کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ محبتِ الٰہی سے بھی صحبتِ شیخ کی طرف مزید میلان پیدا ہو جاتا ہے۔ آگے رجوع ہے اوپر کے شعر  ؎ فہم تو چون بادۂ شیطان بود الخ کی طرف یعنی تم جو شراب کا لفظ سنتے ہی ظاہری شراب سمجھ بیٹھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ 

22

 در سر آنچہ ہست گوش آنجا رود  در سر ار صفر است آن سَودا شود

ترجمہ: دماغ میں جو کچھ (خیال بھرا) ہوتا ہے کان اسی کی طرف جاتا ہے۔ سر میں اگر صفرا ہو تو وہ (کسی فسادِ عارض سے فاسد ہو کر) سودا ہو جاتا ہے۔

مطلب: جس شخص کے دماغ میں ظاہری شراب کا خیال سمایا ہوا ہو وہ شراب کے لفظ کو اسی ظاہری شراب کے معنی میں سنے گا۔ پھر اگر شرابِ باطن کا خیال بھی اس کے دماغ میں ڈالا جائے تو وہ بھی سابقہ خیال کے ساتھ مل کر اسی ام الخبائث کا ہمرنگ بن جائے گا جس طرح صفرا کی خلطِ صالح فاسد ہو کر سودا بن جاتی ہے۔

23

 بعد ازان این دو بہ بے ہوشی روند والد و مولود آن جا یک شوند

ترجمہ: اس کے بعد یہ (صفرا و سودا) دونوں بے ہوشی کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔ سبب (یعنی صفرا) اور مسبب (یعنی سودا) وہاں (بے ہوشی پیدا کرنے میں) ایک ہو جاتے ہیں۔

مطلب: طب کا مسئلہ ہے کہ جب دماغ میں صفرا کی خلط صالح احتراق پا کر سودا بن جاتی ہے تو وہ ما بقی صفرا کے ساتھ مل کر بے ہوشی و خللِ دماغ کا باعث ہوتی ہے اور خللِ دماغ میں ان دونوں خلطوں کا دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح شرابِ ظاہری کے سابقہ خیال راسخ شراب باطن کے خیال کے ساتھ مل کر اس کو بھی اسی ام الخبائث کا ہم معنی بنا دیتا ہے۔ جیسے کہ آج کل کے بعض ظاہر پرست سوانح نگار خواجہ حافظ رحمۃ اللہ کی شراب کو شرابِ ظاہر سمجھتے ہیں اور اس عارف پر میخواری کی بد گمانی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ خود ان کے دماغ میں اس ام الخبائث کی بو بسی ہوئی ہے۔ اگر وہ خود اس گنده دماغی سے محفوظ ہوتے تو خواجہ حافظ کے کلام کو جو معارف سے لبریز ہے ہرگز ایسے بیہودہ معنی پر محمول نہ کرتے۔ آگے پھر ترک و مطرب کے قصے کی طرف رجوع ہے:

24

 چونکہ کردند آشتی شادی و درد  مُطربان را تُرکِ ما بیدار کرد

ترجمہ: جب (شوقِ سماع کی) خوشی اور (گرانیِ خمار کی) تکلیف باہم مل گئیں تو ہمارے (ہیرو) ترک نے قوالوں کو جگایا (تاکہ گانا سنائیں)۔

انتباه: یہاں مولانا اس قوال کے گانے کو اپنے مذاق میں نقل کریں گے۔ قوال نے جو غزل گائی تھی اس کا ذکر اصل الفاظ میں آگے آئے گا۔ اس میں بظاہر معشوقِ مجازی سے خطاب ہے مگر مولانا یہاں اس نقل بالمعنی میں محبوبِ حقیقی سے خطاب کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

25

 مطرب آغازید بیتے خوابناک  کہ اَلِلْنِى الْكَاْسَ يَا مَنْ لَا اَرَاک

ترجمہ: تو قوال نے (اس مضمون کی) ایک (مستی خیز) بیت شروع کی کہ اے (وہ محبوب!) جس کو میں دیکھ نہیں سکتا، مجھ کو (شراب کا) پیالہ دے (آگے اسی عدم روئیت کی وجہ ارشاد ہے)۔

26

 اَنْتَ وَجْهِیْ لَاعَجَبْ اَنْ لَّا اَرَاه  غَايَةُ الْقُرْبِ حِجَابٌ وَالْاِشْتِبَاه

ترجمہ: (اے محبوبِ حقیقی!) تو (گویا) میرا چہرہ ہے (اس لئے) کچھ تعجب (کی بات) نہیں کہ میں اس (چہرے) کو نہیں دیکھتا (کیونکہ) چہرہ کا غایت قرب عدمِ روئیت کا حجاب ہے۔

27

 اَنْتَ عَقْلِیْ لَاعَجَبْ اِنْ لَّمْ اَرَاکَ  مِنْ وَّفُوْرِ الْاِلْتَبَاسِ الْمُشْتَبَک

ترجمہ: تو (گویا) میری عقل ہے (اس لئے) کچھ تعجب (کی بات) نہیں کہ میں پیچ در پیچ اشتباہ کی وجہ سے نہ دیکھ سکوں۔

28

حَیْثُ اَقْرَبْ اَنْتَ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ  لَمْ اَقُلْ يَا، یَا نِدَاءٌ لِّلبَعِيْدِ

ترجمہ: جب تو (مجھ سے میری) شاہرگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو میں نے میں (یا کا لفظ) بغرض ندا نہیں کہا کیونکہ یا نداۓ بعید کے لئے ہے۔

29

 بَلْ اُغَالِطْهُمْ اُنَادِیْ فِی الْقِفَارِ  کَےْ لَاَکْتُمْ مِنْ مَعِیَ مِمَّنْ اَغَار

ترجمہ: بلکہ میں (نااہل) لوگوں کو مغالطہ میں ڈالتا ہوں (اس لئے) ویرانوں میں (ابھی تجھ کو) پکارتا (پھرتا) ہوں (تاکہ اس محبوب) کو جو میرے ساتھ ہے اس شخص میں چھپاؤں جس سے میں غیرت کرتا ہوں۔

مطلب: نا اہل لوگوں سے امید نہیں کہ ان کو خداوند تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق ہو لہذا ایسے لوگوں کو راہِ خدا دکھانا فضول بلکہ غیرت مندی کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں تیرے لئے یا کا کلمہ بطور ندائے بعید استعال کرتا ہوں تا کہ وہ لوگ تجھ کو بعید سمجھ کر ادھر متوجہ نہ ہوں۔

30

 این سخن پایان ندارد اے عزیز!  بشنو اکنون نکتۂ صاحب تمیز

ترجمہ: اے عزیز! یہ بات انتہا نہیں رکھتی اب ایک صاحبِ تمیز کی نکتہ خیز بات سن لو۔

مطلب: حق تعالیٰ کی اقربیت کا مضمون غير متناہی ہے۔ اس کے ذکر کو ملتوی رکھو۔ اس ضمن میں غیرت کا جو ذکر آیا ہے اس کے متعلق ایک صاحبِ تمیز کا نکتہ سن لو اور اس سے مراد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها ہیں جو رسول الله ﷺ کی زوجہ طاہرہ اور آپ کی محبِّ صادقہ ہیں۔ انہوں نے بتقاضاۓ غیرت ایک نابینا شخص پر اپنی نگاہ نہ پڑنے دی۔ جب آنحضرت ﷺ نے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے ایک نکتہ خیز جواب عرض کیا۔ یہاں سوال یہ ہو سکتا ہے کہ اوپر تو یہ ذکر تھا کہ محب بتقاضائے غیرت یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی بیگانہ اس کے محبوب کو دیکھے مگر اس کی تائید میں یہ قصّہ بیان کیا جس میں محبّ نے بتقاضاۓ غیرتِ محبوب یہ گوارا نہ کیا کہ محبوب کے سوا کسی اور پر نظر کرے۔ ان دونوں باتوں میں تطابق نہ ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے اس معاملہ میں دراصل محبوب کی غیرت معتبر ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ میرا محبّ کسی غیر پر ملتفت ہو اور اگر غیر پر ملتفت ہو تو پھر وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا ایسا عاشقِ ہرجائی مجھ پر نظر بھی کرے۔ یہی بات اس آینده قصہ کا حاصل ہے اور چونکہ محبِّ صادق محبوب کے ارادہ کا تابع ہوتا ہے اس لئے ایسے ملتفت لغیر کے لئے وہ محبّ صادق بھی چاہتا ہے کہ وہ عاشق ہرجائی محبوب کو نہ دیکھے اور یہ غیرت حاصل ہے اشعاِر بالا کا۔ (کلید ملخصاً)