آمدنِ ضریر بخانۂ پیغمبر ﷺ و گریختن عائشہ رضی اللّٰہ عنہا و پنہان شدن
ایک نابینا کا پیغمبر ﷺ کے گھر حاضر ہونا اور حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا بھاگ کر چھپ جانا
1
اندر آمد پیشِ پیغمبر ضریر کاے نوابخشِ تنور ھر خمیر
2
اے تو میر آب و من مستسقیم مستغاث المستغاث اے ساقیم
ترجمہ: پیغمبر ﷺ کے حضور میں ایک نابینا (صحابی) آئے اور (عرض کیا) کہ اے (حضور! جو) تنور کو ہر قسم کے خمیر سے سامان بخشنے والے (ہیں) یا حضرت! آپ پانی کے مالک ہیں میں پانی کا طالب ہوں۔ اے میرے ساقی! فریاد ہے! فریاد ہے!
مطلب: یعنی تنور میں جتنی قسم کی چھوٹی، بڑی، موٹی، پتلی روٹیاں لگتی اور نکلتی ہیں وہ آپ ہی کے سامان سے مہیا ہوتی ہیں اور مراد اس سے یہ ہے کہ آپ تمام اغذیہ روحانیہ کے قاسم ہیں جیسے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ واللهُ يُعْطِي‘‘۔ پانی سے بھی روحانی آبِ حیات مراد ہے۔
3
چون درآمد آن ضریر از در شتاب عائشہ(رضی اللہ عنہ) بگریخت بہرِ احتجاب
ترجمہ: جب وہ نابینا دروازے سے آئے، تو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا جلدی سے پردے (میں جانے) کے لئے دوڑیں (ممکن ہے ان صحابی نے اپنی نابینائی کے سبب استیذان کی ضرورت نہ سمجھی ہو ورنہ اگر وہ استیذان کرتے تو جناب صدیقہ ان کی آواز سن کر پہلے ہی پردہ میں چلی جاتیں۔ اب ان کو آتے دیکھ کر پردے میں جانا پڑا)۔
4
زانکہ واقف بُود آن خاتُونِ پاک از غیّوریِّ رسولِ رشک ناک
ترجمہ: کیونکہ وہ پاک بی بی رسول ﷺ کی غیوری سے واقف تھیں (کہ اگر بیٹھی رہوں گی تو آپ کو نا گوار ہوگا)۔ (آگے اس غیرت کی ایک وجہ ارشاد ہے):
5
ہر کہ زیباتر بود رشکش فزُون زانکہ رشک از ناز خیزد یَا بَنُون
ترجمہ: جوشخص زیادہ حسین ہوتا ہے اس کی غیرت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اے فرزندو! غیرت (موجباتِ) ناز (یعنی حسن و جمال) سے پیدا ہوتی ہے (اور حضور کے سب سے زیادہ زیبا تر ہونے میں کیا کلام ہے)۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری
6
گندہ پیران شوئے را قُمّا دہند چونکہ از زشتی و پیری آگہند
ترجمہ: (دیکھو) بوڑھی عورتیں (اپنے) شوہر کو (صحبت کے لئے) کنیز تک دے دیتی ہیں (اور ان کو اس پر کوئی رشک نہیں آتا) کیونکہ وہ (اپنی) بد صورتی اور بڑھاپے سے آگاہ ہیں (پھر ان کو کیوں رشک آئے۔ رشک تو خوبصورتی کے لئے لازم ہے)۔
7
چون جمالِ احمدی در ہر دو کون کے بُدست اے فر یزدانیش عون
ترجمہ: (اور) حضرت ﷺ کے جمال کے برابر دونوں عالم میں کب (ممکن) ہے ارے ان کا تو نورِ خداوندی مددگار ہے۔
8
ناز ہائے ہر دو کون او را رسد غَیرتِ آن خورشید صد تو را رسد
ترجمہ: (جب یہ بات ہے تو) آپ کو دونوں عالم بھر کے نازوں کا حق ہے (اور) غیرت (بھی) ان سو درجہ کے آفتاب کا حق ہے (چنانچہ یہ آفتابِ رسالت جو جمال و کمال میں بظاہری آفتاب سے سو درجہ بڑھ کر ہیں بتقاضائے غیرت فرماتے ہیں)۔
9
کاندر افگندم بکیوان گوئے را در کشید اے اختران ہے روئے را
ترجمہ: کہ میں نے (دعوائے حسن کی) گیند (سب سے بلند ستاره) زحل پر پھینکی ہے اے (حسن و جمال کے) ستارو خبردار! اپنا منہ چھپالو (اب تم کو میرے سامنے حسن کی نمایش کرنے کا حق نہیں)۔
10
در شعاع بے نظیرم لا شویدورنہ پیشِ نورِ من رسوا شوید
ترجمہ: میری بے مثال شعاع میں تم معدوم ہو جاؤ (جس طرح طلوعِ آفتاب سے ستارے ماند پڑ جاتے ہیں) ورنہ میرے نور کے سامنے رسوا ہو جاؤ گے (البتہ میری غیبوبت میں اپنے نور کا اظہار کر لیا کرو تو مضائقہ نہیں)۔
11
از کرم من ہر شبے غائب شوم کے رَوم اِلا نمایم کہ رَوم
ترجمہ: (چنانچہ میں تمہاری ہی رعایت کے لئے) از راہِ کرم ہر شب غائب ہو جاتا ہوں (اور اس) وقت میں (آسمان سے یا عالم سے) کب جاتا ہوں لیکن (ظاہرًا یہ) دکھاتا ہوں کہ میں جا رہا ہوں۔
12
تا شما بے من شبے خفّاش وار پر زنان گردید گردِ این مطار
ترجمہ: تاکہ تم میری غیبت میں شب کے وقت چمگادڑ کی طرح اس فضا میں (کچھ) پرواز کر لو۔
13
ہمچو طاؤسان پرے عُرضہ کنید باز مست و سرخوش و مُعْجِب شوید
ترجمہ: (اور) موروں کو پیش کر لو (اور) پھر (پر دکھاتے وقت) مست اور سرخوش اور خود پسند ہو لو۔
14
بنگرید آن پائے زشت از امتیاز ہمچو چارق کُو بود شمعِ ایاز
ترجمہ: (مگر اس وقت بھی) دفعِ عُجب کے لئے (تم کو چاہیے کہ قوتِ تمیز سے اپنے) بد صورت پاؤں کو (بھی) دیکھ لو اس پرانی جوتی کی طرح جو ایاز کے لئے (بمنزلہ) شمع تھی۔
مطلب: طاؤس کے لئے اس کے پروں کی خوبصورتی باعث فخر ہے تو اس کے پاؤں کی بد صورتی باعثِ ندامت ہے اور یہ ندامت اس فخر کا علاج ہے۔ سعدیؒ
طاؤس را بہ نقش و نگاری کہ ہست خلق تحسین کنند او خجل از زشت پائے خویش
اسی طرح ایاز کو اپنے سابقہ فقر و مسکنت کی یادگار یعنی کفشِ کہنہ کے دیکھنے سے اپنا جاه و اقبال کے بڑھتے ہوئے غرور کو روکنا مقصود تھا جس کا مفصل قصہ پیچھے گزر چکا ہے۔
15
رُو نمایم صُبح بہرِ گوشمال تا نگردید از منی ز اہلِ شمال
ترجمہ: (پھر) صبح کے وقت تمہاری تنبیہ کے لئے میں (اپنا) جمال دکھاتا ہوں تاکہ تم خود پسندی کے سبب سے دوزخی نہ ہو جاؤ۔
مطلب: اوپر کے اشعار میں آنحضرت ﷺ کے فضائل کے لئے آفتاب کے احوال سے استعارہ کیا گیا ہے اور حقیقت اس مجاز کی یہ ہے کہ جس طرح کیوان کی بلندی تمام کواکب سیارہ پر مسلم ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کا مرتبہ شرف تمام مخلوقات سے برتر ہے ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر، تمام اربابِ معارف اور ائمہ علوم اسی ایک آفتاب سے اقتباسِ انوار کر تے ہیں اور اس کے انوارِ علوم کے آگے سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں۔ اگر کوئی بد نصیب اس کلید سے مستثنٰی ہوا اور اس نے خود سری کا سر اٹھایا تو وہ آپ کے نور کے آگے مسیلمہ کی طرح کذاب کہلایا اور رسوا ہوا۔ تاہم بہت سے احوال میں آپ کی شفقتِ پدری نے اغماض سے بھی کام لیا ہے اور ہر شے غائب شوم میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے تاکہ آپ کے یہ روحانی فرزند خود اپنے علم کے بل پر چلنا اور میدانِ اجتہاد میں قدم بڑھانا سیکھیں ”پر زنان گردید گردِ این مطار“ سے یہی مقصود ہے لیکن یہ دائرہ پرواز آپ ہی کا متعین کیا ہوا ہے اور ان سب کی اجتہادی و قیاسی تگ و دو آپ ہی کے اشاراتِ سنن کے ما تحت عمل میں آتی ہے کے روم الا نمایم کہ روم۔ ’’فَقِسْ عَلَیْہِ الْبَاقِیَ، وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی مَا اَفْھَمَنِیْ ھٰذَا التَّاوِیْلَ، وَ لَا اَفْتَخِرُ بِہٖ بَلْ اَتَحَدَّثُ بِالنِّعْمَۃِ مِنَ اللّٰہِ الْجَلِیْل‘‘۔
16
ترک آن کن کہ دراز ست این سخن نہی کرد ست از درازی امر کُن
ترجمہ:اس (مضمون) کو ملتوی رکھو کیونکہ یہ ذکر لمبا ہے (اور لمبا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ محاسنِ نبوی بے شمار ہیں اور) حکم فرمانے والے نے (طولِ کلام سے) منع فرمایا ہے۔
مطلب: صاحب حکم سے رسول اللّٰہ ﷺ مراد ہیں۔ یعنی آپ کے ارشادات سے اختصارِ کلام کا حکم پایا جاتا ہے چنانچہ فرمایا۔ ’’اَقْصِرُوا الْخُطْبَةَ‘‘ یعنی ’’خطبہ کو مختصر کرو“۔ (مشکوٰۃ) اور حضور نے اپنی مدح میں مبالغہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے چنانچہ فرمایا ’’مَا يَنْبَغِى لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتّٰی‘‘ ”بندے کو مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر بتائے“ (مشکوٰۃ) اور فرمایا ’’لَاُتُخَییِّرُوْنِیُ عَلٰی مُوْسٰی‘‘ یعنی ”مجھ کو موسیٰ پر ترجیح نہ دو“۔ (مشکٰوة)