آغاز کردنِ مطرب ایں غزل را در بزمِ امیرِ ترک ؎ ”گُلی یا سوسنی یا سرو یا ماہی نمی دانم۔ ازین آشفتۂ بیدل چہ می خواہی نمی دانم“ و بانگ بر زدنِ ترک کہ اے قلتبان آن بگو کہ میدانی و جوابِ مطرب او را
قوال کا امیر ترک کی مجلس میں یہ غزل شروع کرنا (اے محبوب!) مجھے معلوم نہیں تو پھول ہے یا سوسن ہے یا سرو یا چاند مجھے معلوم نہیں کہ اس پریشان حال عاشق سے تو کیا چاہتا ہے اور ترک کا ڈانٹنا کہ ارے بھڑوے وہ بات کہہ جو تجھے معلوم ہے اور قوال کا اس کو جواب دینا
1
مطرب آغازید پیش تُرکِ مست در حجابِ نغمہ اسرارِ اَلَست
ترجمہ: قوال نے مست ترک کے سامنے (ایک مجازی) نغمہ استعارہ میں اَلَست کے راز (گانے) شروع کیے۔
مطلب: وہ غزل عشقِ مجازی کے مضمون پر مشتمل تھی۔ عاشقانِ حق جب اس کو سنتے تو اسرارِ اَلَست کا بیان سمجھتے جس کو مجازی نغمہ کے استعارہ میں ادا کیا جا رہا ہے۔ ’’مطرب آغازید اسرارِ اَلَست‘‘ سے یہ مقصود نہیں کہ مطرب قصدًا اسرارِ اَلَست بیان کرتا تھا وہ تو ایک مُطرب تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کچھ گا بجا کر میخوار امیر کو خوش کرے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ قال کی غزل سے اہل اللہ کے کانوں میں خود بخود اسرارِ اَلَست کا القا ہوتا ہے۔ چنانچہ مولانا بھی اس غزل کی نقل بالمعنی اس رنگ میں کریں گے: سعدیؒ ؎
کسانیکہ یزداں پرستی کنندبر آوازِ دولاب مستی کنند
اسرارِ اَلَست سے مراد یومِ میثاق کا معاملہ ہے جب کہ حق تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے سامنے کہا تھا ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ (الاعراف: 172) اور انہوں نے جواباً عرض کیا تھا بَلٰی، یہ قصہ کئی بار مذکور ہو چکا ہے۔
2
مے ندانم کہ تو ماہی یا وثن؟ می ندانم کہ چہ می خواہی ز من؟
ترجمہ: مجھے معلوم نہیں کہ تو چاند ہے یا بت ہے؟ مجھے معلوم نہیں کہ تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟
3
من ندانم تا چہ خدمت آرمت؟ تن زنم یا عبارت آرمت؟
ترجمہ: مجھے معلوم نہیں کہ میں تیری کیا خدمت بجا لاؤں؟ (تیرے اوصاف بیان کرنے سے) خاموش رہوں یا تیرا ذکر عبارت میں لاؤں۔
4
این عجب کہ نیستی از من جُدا من ندانم من کُجایم؟ تو کُجا؟
ترجمہ: یہ عجیب بات ہے کہ تو مجھ سے دور نہیں ہے۔ (﴿نَحْنُ أَقْرَبُ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ (ق: 16))
پھر باوجود کمالِ قرب کے میں نہیں جانتا کہ میں کہاں ہوں (اور) تو کہاں ہے؟ سعدیؒ ؎
دوست نزدیک تر از من بمن ست وین عجب تر کہ من از وے دورم
چہ کنم باکہ توان گفت کہ او در کنار من و من مہجورم
5
می ندانم کہ مرا چون می کَشی گاه در بر، گاه در خُون می کُشی
ترجمہ: مجھے نہیں معلوم کہ تو مجھے کس طرح (اپنی طرف) کھینچتا ہے (چنانچہ) کبھی آغوش میں (لیتا ہے اور) کبھی خون میں گھسیٹتا ہے۔ امیر خسروؒ ؎
گہ عشوه گہ کرشمہ گہے خشم گاه ناز مسکین کسے کہ شیفتہ و مبتلائے تست
6
ہمچنین لب در ندانم باز کردمی ندانم مے ندانم ساز کرد
ترجمہ: (غرض مطرب نے) اسی طرح ندانم میں لب کشائی کی (اور بار بار) مے ندانم مے ندانم کو گانا شروع کیا۔
7
چون ز حد شد می ندانم از شگفت ترک ما را زین حراره دل گرفت
ترجمہ: جب (یہ) ندانم (کا تکرار) حد سے گزر گیا تو تعجب کے سبب سے ہمارے (ہیرو) ترک کا دل اس ترانہ سے آزردہ ہو گیا۔
8
برجہید آں ترک و دبّوسے کشيد تا علَیْھَا بر سرِ مُطرِب دَوِید
ترجمہ: وہ ترک (جھنجھلا کر) اٹھا اور ایک گرز اٹھائی القصہ (گرز سنبھال کر) قوال پر جھپٹا۔
9
گُرز را بگرفت سرہنگے بدست گفت، نے مطرب کُشی ایندم بدست
ترجمہ: (اس وقت) ایک سپاہی نے (جو مجلس میں موجود تھا ترک کے) گُرز کو ہاتھ میں پکڑ لیا (اور) کہا نہیں (نہیں) قوال کو مار ڈالنا اس وقت بری بات ہے (جب کہ اس کا کوئی قصور نہیں)۔
10
گفت ایں تکرار بے حدّ و مرش کوفت طبعم را بکوبم من سرش
ترجمہ: (ترک نے) کہا اس کے اس بے حد و بے شمار تکرار نے میری طبیعت کو کوفت پہنچائی ہے (اس لیے) میں اس کا سر کچلوں گا۔
11
قلتبانا مے ندانی گہہ مخور زانکه میدانی بگو مقصود بر
ترجمہ: اے دیوث (مطرب! اگر) تو نہیں جانتا تو گوہ مت کھا۔ وہ بات کہہ جو تو جانتا ہے اور مقصود کو حاصل کر۔
12
آن بگو اے گیچ کہ می دانیش می ندانم می ندانم در مکَش
ترجمہ: اے احمق! وہ بات کہہ جوتو جانتا ہے می ندانم (مجھے معلوم نہیں) مت کھنیچتا چلا جا۔
13
من بپرسم کز کُجائی بے مرے تو بگوئی نے ز بلخ و نز ہرے
ترجمہ: (یہ تو وہی بات ہوئی جیسے) میں کسی پُرخاش کے بدوں (سیدھے سبھاؤ) تجھ سے پوچھوں کہ تو کس جگہ کا رہنے والا ہے تو (جواب میں) کہنے لگے نہ بلخ کا ہوں نہ ہرات کا۔
14
نے ز روم و نے ز ہند و نے ز چین نے ز شام و نے عراق و بار دین
ترجمہ: نہ روم کا اور نہ ہند کا اور نہ چین کا، نہ شام کا اور نہ عراق کا اور نہ بار دین کا (بار دین بھی ایک شہر کا نام ہے۔غياث)
15
نے ز بغداد و نہ موصل نے طراز درکشی درنے ونے راہِ دراز
ترجمہ: نہ بغداد کا اور نہ موصل کا، نہ (شہر) طراز کا (اور اسی طرح) نہ اور نہ میں ایک لمبی مسافت کھینچتا چلا جائے (تو دیکھ یہ لغو بات ہے یا نہیں۔ خصوصاً جب کہ میرا سوال پھر بھی قائم رہا)۔
16
خود بگو تا از کجائی باز ره ہست تنقیحِ مناط این جایگہ
ترجمہ: (اس کے بجاۓ) وہی (مقام) بتا دے نا جہاں کا (رہنے) والا ہے (اور سوال سے) چھوٹ جا (کیونکہ) مقصود (اصلی) کی وضاحت (بس) اسی (ایک) جگہ میں ہے۔
17
یا بپرسم کہ چہ خوردی؟ تا شتاب تو بگوئی نے شراب و نے کباب
ترجمہ: یا (مثلاً) میں پوچھنے لگوں کہ تو نے کیا کھایا ہے (تو خبردار!) جلدی سے بہ (فضول) جواب دینا کہ نہ شراب نہ کباب۔
18
نے بُقُول ونے پنیر و نے بصل نے ز شیر ونے ز شکّر نے عسل
ترجمہ: نہ سبزی ترکاری نہ پنیر اور نہ پیاز، نہ دودھ اور نہ شکر، نہ شہد۔
19
نے قدید ونے ثرید ونے عدس آنچہ خوردی آن بگو تنہا و بس
ترجمہ: نہ خشک گوشت، نہ ثرید، نہ مسور، (بس اب تم خود سمجھ لو کہ کیا کھایا ہے بھلے مانس! یہ کیا خاک جواب ہے) تو نے جو کچھ کھایا ہے صرف اسی کا نام لے دے نا اور بس۔
20
این سخن خائی دراز از بہرِ چیست؟ گفت مُطرِب زانکه مقصودم خفی ست
ترجمہ: یہ (نمیدانم نمیدانم کی) لمبی بکواس کس لیے ہے؟ قوال نے کہا اس لیے کہ میری مراد (ایک) پوشیده (امر) ہے -
مطلب: قوال کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس مقصود کا ذکر میرے پیشِ نظر ہے وہ میرے اور تمہارے تصور سے برتر ہے۔ اس لیے میں اس کے اثبات کا پہلو پیش نہیں کر سکتا نہ تم اس کو سمجھ سکتے ہو۔ ناچار مجھے اس کے ماسوا کی نفی کا پہلو اختیار کرنا پڑا جس کا سلسلہ لا محالہ دراز ہوگا جیسے حق تعالیٰ کی تعریف میں صفاتِ سلبیہ کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ’’لَا یُحَدُّ وَ لَاَ یَتَصَوَّرُ‘‘ مثلاً وہ نہ کھاتا پیتا ہے، نہ بیٹھتا اٹھتا اور چلتا ہے، نہ سوتا اونگھتا ہے، نہ جسم اور جسمانی اوصاف رکھتا ہے، نہ اس کا قول و سمع آلاتِ حواس کا محتاج ہے ۔ وہکذا۔ ﴿لاَ تَأْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لا نَوْمٌ﴾ (البقرۃ: 255) ﴿لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّـهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: 3-4)
21
می رمد اثبات پیش از نفیِ تو نفی کردم تا بری ز اثباتِ بُو
ترجمہ: (اے سالک!) تیرے (غیر کی) نفی کرنے سے پہلے (مقصود کا) اثبات (تیرے ذہن سے) گریز کر جاتا ہے، (اسی بنا پر) میں نے (غیر مقصود کی) نفی کی تا کہ تو (مقصود کے) اثبات کا سراغ پا سکے۔
مطلب: پہلے ہی سے اثباتِ حق کو مستحضر کرنا مشکل ہے کیونکہ اس وقت قلب غیرِ حق کے ساتھ مشغول ہے۔ لہٰذا پہلے ان اغیار کو جو مانع ہیں رفع کرنا چاہیے اور وہ تقلیلِ تعلقات اور مراقبات فنا سے رفع ہو سکتے ہیں۔ پس میرے ان اغیار کی نفی کرنے سے یہی مقصود ہے کہ استحضار حق آسان ہو جائے۔
22
در نوا آرم بنفیِ این ساز را چون بمیری مرگ گوید راز را
ترجمہ: (پس اسی غرض سے) میں نفی (کے مضمون) پر اس باجے کو بجاتا ہوں (تاکہ) جب تو (تمام ماسوی اللہ کی نفی بلکہ خود اپنی بھی نفی کرکے مثل) مردہ ہو جائے تو (وہ) موت ( بمعنی نفی و فنا) تجھ پر (اثباتِ حق کے راز کو) ظاہر کر دے۔
مطلب: یعنی وہ نفی و فنا تجھ پر اثباتِ حق کے ظہور کی باعث بن جائے پس یہاں فنا کو جو درحقیقت ظہورِ راز کا سبب ہے ظاہر کنندۂ راز کہنا، فعل کا اسناد سببِ فعل کی طرف ہے جو اسناد مجازی ہے۔ ترک کا یہ قول کہ نمی دانم نمیدانم کی رٹ کو چھوڑ کر جو کچھ جانتا ہے وہ بیان کر۔ اس بات کی تائید میں پیش کیا تھا کہ نفی ماسوی میں لگے رہنا اہل سُکر کا شیوہ ہے اس سے ترقی کرکے اثباتِ حق میں مشغول ہونا چاہیے جو اہلِ صحو کا درجہ ہے۔ مطرب نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نفی کے بدوں اثبات نا ممکن ہے۔ یہ احوالِ سُکر ترقیات اہل صحو کا زینہ ہیں جب تک یہ زینہ طے نہ ہو اوپر کا درجہ ترقی کیونکر حاصل ہو سکے پس یہ دونوں قول اپنی اپنی جگہ معقول و صحیح ہیں۔ آگے مطرب کے قول کی تائید میں فرماتے ہیں۔