دفتر 6 حکایت 20: رسول اللہ ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بطورِ امتحان فرمانا کہ تم کیوں چھپتی ہو؟ جبکہ وہ تم کو دیکھتے نہیں



امتحان کردنِ رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا را کہ

چرا پنہان مے شوی کہ او ترا نہ بیند

رسول اللہ ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بطورِ امتحان فرمانا کہ تم کیوں چھپتی ہو؟ جبکہ وہ تم کو دیکھتے نہیں.

مطلب: آنحضرت ﷺ کے نزدیک بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا پردے میں تشریف لے جانا عین مصلحت تھا مگر یہ سوال اس امتحان کی بنا پرفرمایا کہ وہ اس مصلحت کے لحاظ سے پردے میں گئی ہیں یا کسی اور وجہ سے۔

1

 گفت پیغمبر برائے امتحان  او نمی بیند ترا کم شو نہان

 ترجمہ: پیغمبر ﷺ نے بطورِ امتحان فرمایا وہ تم کونہیں دیکھتے تو پھر پردہ نہ کرو۔

2

 کرد اشارت عائشہ با دستہا  او نبیند من ہمی بینم ورا 

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (دونوں) ہاتھوں سے اشارہ کیا (کہ اگر) وہ نہیں دیکھتے تو میں ان کو دیکھتی ہوں۔ 

مطلب: یہ وہ نکتہ کی بات ہے جس کو اوپر صاحب تمیز کہا تھا یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ کی غیرت کا پاس کیا چنانچہ اپنے آپ کو غیر مرد کی نگاہ سے نہیں چھپایا بلکہ اپنی نگاہ کو غیر محبوب پر پڑنے سے بچا لیا۔ ہاتھوں سے اشارہ کرنے میں یہ نکتہ ہے کہ اپنی آواز کو غیر مرد کے کان میں پہنچنے سے بچایا۔

 فائدہ: یہ قصہ حدیث کی متداول کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا البتہ سنن میں ایک دوسرا قصہ آیا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہا ایک روز حضور میں حاضر تھیں۔ حضرت ابن مکتوم نابینا رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی تو آپ نے دونوں کو پردے میں چلے جانے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم بھی نابینا ہو کیا تم ان کو نہیں دیکھو گی فقط ۔ سو اگر مثنوی والی حدیث بھی ثابت ہو تو ظاہرًا دونوں میں تعارض کا شبہ ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کو تو خود پردہ کا حکم فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو خود پردہ کیا تو ان کو منع فرمایا مگر جواب خود شعر مثنوی میں مذکور ہے، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جو فرمایا تو مقصود اس سے امتحان تھا ان کے فہم کا، چنانچہ امتحان میں وہ کامیاب ہوئیں۔ (کلید) اس حکایت کے اوپر عربی اشعار میں دو باتیں مذکور ہوئی تھیں ایک تو محبوب کا نہایت قرب کی وجہ سے مخفی ہونا۔ دوسری بات محبّ کا اپنے محبوب کو بتقاضائے غیرت غیروں کی نظر سے مخفی رکھنا اور دوسری بات کی مناسبت سے حکایت مذکور ہوئی تھی۔ اب آگے انہی دونوں باتوں کی مناسبت سے محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کا باطن ہونا بیان فرماتے ہیں اور ساتھ ساتھ بطون کی مناسبت سے اس کے ظہور کا بھی ذکر ہو گا ظاہرًا یہاں روح کا ذکر ہے مگر اس سے مراد حق تعالیٰ ہے۔ کما سیاتی۔

3

 غیرتِ عقل ست بر خوبیِ روح  پُر ز تمثیلات و تشبیہ اے نصوح

ترجمہ: عقل کو (جو روح کی حقیقت ظاہر کرنے میں دریغ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو) روح کے حسن پر غیرت ہے ایسی روح جو تمثیلات اور تشبیہ سے پُر ہے، اے صاف دل آدمی!

مطلب: ان شعروں میں اگر چہ بظاہر روح کا خفا ہے لیکن مقصود اس سے حق سبحانہ کی حقیقت کا خفا ہے اور اس میں یہ کنایہ ہے کہ جب روح جو ایک مخلوق ہے اپنے ظہورِ آثار کے باوجود اس قدر پوشیدہ ہے۔ تو حقیقتِ حق کا مخفی ہونا اور بھی ضروری ہے جو وجودِ حجت ہے اور روح اس کی مخلوق ہے اور انبیاء و اولیا نے جو اس کو ظاہر فرمایا ہے۔ تو وہ سوائے تشبیہات و تمثیلات کے اور کچھ بیان نہیں کرتے لیکن حقیقتِ ذات ہر ممکن کے ادراک سے مخفی ہے حتی کہ عقلِ کل سے بھی پنہاں ہے اور اس کا اختفا اس کے کمالِ ظہور کی وجہ سے ہے۔ (بحرالعلوم) 

4

با چنین پنہانیے کین روح را ست  عقل بر وے اینچنین رشکین چرا ست

ترجمہ: (تعجب ہے کہ) باوجود اس قدر اختفا کے جو اس روح کو (حاصل ہے) عقل اس پر غیور کیوں ہے؟ 

مطلب: جب روح خود اس قدر مخفی و مستور ہے تو پھر عقل از راهِ غیوری اس کو مخفی کرنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے۔ روح سے روح الارواح یعنی ذاتِ حق مراد ہے کہ اسی کا ظہور بالکنہ محال ہے جیسے کہ اس کے بارہ میں مسلم ہے کہ ’’لَایُحَدُّ وَلَا يُتَصَوَّرُ‘‘ ورنہ روح کی حقیقت کا ظہور ممتنع نہیں چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سره آيۃ ﴿وَيَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ‌ (الاسراء: 85) کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس امر میں نص نہیں ہے کہ امت مرحومہ میں سے کوئی بھی روح کی حقیقت کو نہیں جانتا جیسے کہ عام خیال ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس بات سے شریعت ساکت ہو اس کی کنہ کا معلوم ہونا بالکل نا ممکن ہو، بلکہ بہت سی باتوں سے شریعت اس لئے ساکت رہتی ہے کہ ان کی کنہ کا پہچاننا دقیق ہے جس کو جمہور امت کے پیش نظر نہیں کیا جا سکتا۔ (حجۃ اللہ البالغہ) غرض یہاں ذاتِ حق تعالیٰ کی حقیقت کا اختفا مراد ہے اور عقل کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ از راهِ غیرت اس کی حقیقت کو ظاہر نہیں کرتی حسنِ تعلیل ہے ورنہ عقل کو خود ہی اس کا انکشاف نہیں۔ آگے عقل سے خطاب ہے:

5

از کہ پنہان می کنی اے رشک خو  آنکہ پوشید ست نورش روۓ او

 ترجمہ: اے غیرت مند (عقل)! تو اس کو کس سے مخفی کر رہی ہے (خود) جس کے نور ( یعنی غایتِ ظہور نے) اس کی ذات کو چھپا رکھا ہے (یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حق تعالیٰ کی حقیقت کے خفا کا ذکر ہے نہ کہ روح کے خفا کا)۔

6

 می رود بے روۓ پوش این آفتاب  فرطِ نورِ اُوست رُویش را نقاب

 ترجمہ: (یہ ذات حق کا) آفتاب حجاب کے بدوں چل رہا ہے اور اس کے نور کی زیادتی ہی اس کے چہرہ کا نقاب ہے (یعنی اس کا شدتِ ظہور ہی باعثِ خفا ہے)۔ ونعم ما قال مولانا اسماعیل مرحوم

 ترا اخفا ہے گویا عینِ اظہار  ترا اظہار ہے اخفاے اسرار

 کھلا جتنا ہوا اتنا ہی مستور  چھپا جتنا رہا کھلتا بدستور

 جو باطن ہے تو باطن کا پتا کیا  جو ظاہر ہے تو ہے تیرے سوا کیا

7

 از کہ پنہان می کنی اے رشک ور کافتاب از وے نمی بیند اثر

 ترجمہ: اے غیرت مند (عقل)! تو اس کو کس سے مخفی کر رہی ہے (جب کہ وہ خود اس قدر مخفی ہے) کہ آفتاب بھی اس کا نشانِ پا نہیں دیکھتا (حالانکہ آفتابِ جہاں گرد سے جہاں کی کوئی چیز مخفی نہیں۔ آگے عقل جواب دیتی ہے):

8

 رشک ازان افزون تر ست اندر تَنم  کز خودش خواہم کہ ہم پنہان کنم

 ترجمہ: رشک (تو جتنا تم سمجھے ہوئے ہو) میرے اندر اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ میں اس کو خود اپنے آپ سے بھی مخفی رکھنا چاہتی ہوں۔

 مطلب: یعنی تم کو میرا اسی قدر رشک معلوم ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے اس کو مخفی رکھنا چاہتی ہوں حالانکہ میرے رشک کا یہ عالم ہے کہ مجھے خود اپنی نگاہ اس پر پڑتے بھی رشک آتا ہے ۔ حضرت قلندرؒ

 غیرت از چشمِ بزم روئے تو دیدن ندہم  گوش را نیز حدیثِ تو شنیدن ندہم

9

 ز آتشِ رشک گران آہنگِ من  با دو چشم و گوشِ خود درجنگِ من

 ترجمہ: غیرتِ شدید کی آگ کے باعث (خود) میرا لشکر (قوائے مدرکہ) اپنی دونوں آنکھوں اور کانوں سمیت میرے (ساتھ) جنگ (کرنے) میں (مصروف) ہے۔ 

مطلب: جنگ سے مراد بغاوت و عدمِ اطاعت ہے یعنی حواسِ باطن حواسِ ظاہر سمیت جن کو حواسیسِ عقل کہا جاتا ہے۔ ہمیشہ ہر قسم کے ادراکات میں میری مدد کرتے رہے مگر یہاں ذاتِ حق کی حقیقت معلوم کرنے میں وہ مجھے کوئی مدد نہیں دیتے۔ فیضی غفرلہ

نورِ تو بدیدہ دید نتوان  بارش نظر کشید نتوان

 آگے دوسرا سوال ہے عقل سے:

10

 چون چنین رشکے ستت اے جان و دل  پس دہان بربند و گفتن را بہل 

ترجمہ: اے (عقل جو بمنزلہ) جان و دل! ( ہے) جب تجھ کو ایسا رشک ہے تو (اس رشک کا) تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے تذکرہ سے منہ بند رکھ اور (کچھ) کہنا (سننا) چھوڑ دے (کیونکہ اس تذکرہ سے بھی کچھ نہ کچھ اس کا ظہور ہوجاتا ہے اور غیرت اس کی مانع ہے۔ عقل بزبان حال اس کا جواب دیتی ہے کہ)

11

 ترسم ار خامُش کنم، آن آفتاب  از سوۓ دیگر بدرّاند حجاب 

ترجمہ: میں ڈرتی ہوں کہ اگر (اس کے اخفا کے لئے) خاموشی اختیار کروں تو وہ آفتاب (گفتگو کی) دوسری جانب (یعنی خاموشی) سے (ہی) حجاب چاک کر (کے جلوہ دکھا) دے (الہٰی خاموشی بے سود ہے)۔

 12

در خموشی گفتِ ما اَظہر شود  کہ ز منعِ آن میل افزون تر شود

 ترجمہ: (بلکہ) خاموشی میں ہمارا اظہار (و بیان) زیادہ نمایاں ہو گا کیونکہ منع سے خواہش زیادہ ہوتی ہے۔

 مطلب: جب ہم اس کے اظہار سے خاموشی اختیار کریں گے تو لوگ اس خاموشی کی اہمیت پر چوکتے ہوں گے کہ خموشی معنی دارد کہ درگفتن نمی آید اور اس خاموشی کو ایک طرح بخلِ اظہار پر محمول کر کے بفحوائے ’’اَلُمَرۂُ حَرِيصٌ  عَلیٰ مَا مُنِعَ مِنْہُ‘‘ اس کے دیدار کے زیادہ مشتاق ہو جائیں گے۔ غرض بیان میں اگر چہ اظہار ہے مگر بمقابلہ خاموشی کے کم ہے۔ حتٰی کہ بیان بھی بمقابلہ خاموشی کے بمنزلۂ حجاب ہے جس کی مثال یہ ہے کہ:

13

 گر بغرّد بحر غرّه ش کف شود  جوش اَحْبَبْتُ بِاَنْ اُعْرَف شود

 ترجمہ: اگر سمندر جوش و خروش کرتا ہے تو اس کا خروش جھاگ بن جاتا ہے (اور) وہ (جھاگ بظاہر) اپنے آپ کو شناسا کرانے کے شوق کا جوش بن جاتی ہی۔ 

مطلب: جب دریا یا سمندر جوش زن ہوتا ہے تو حقیقت بحر کو معلوم کرنے کا شائق سمجھا جاتا ہے کہ یہ بحر کا اپنے آپ کو شناسا کرانے کا جوش ہے۔ بس اب اسی جوش و خروش کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی مگر اس جوش و خروش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ جھاگ کے تہ بر تہ حجابات جن سے بحر کی باطنی حقیقت کا ادراک تو در کنار رہا پانی کی بیرونی سطح بھی مخفی ہو جاتی ہے اسی طرح جوشِ بیان اور ولولہ الٹا حجاب بن جاتا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں اس مشہور حدیثِ قدسی کی طرف تلمیح ہے کہ ’’کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الخَلْقَ‘‘ یعنی ”میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا تو مجھے شوق ہوا کہ میں پہچانا جاؤں۔ اس لئے میں نے مخلوق کو پیدا کیا“۔ یہ حدیث متصوفین میں بہت مشہور ہے اور لطائفِ عشق و محبت کے ذکر میں اس کا بہت ایراد ہوتا ہے مگر تميز الطيب من الخبیث میں لکھا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ نبی ﷺ کا کلام نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی صحیح یا ضعیف سند ملتی ہے زرکشی اور ابن حجر بھی یہی کہتے ہیں۔ (انتہٰی)

14

 حرف گفتن بستنِ آن روزن ست  عینِ اظَہارِ سخُن پوشیدن ست

 ترجمہ: (غرض کوئی) لفظ بولنا (اسرار کے) اس در یچہ کو بند کر دینا ہے بات کا ظاہر کرنا بعینہ (اس کو) پوشیدہ کرنا ہے (آگے مولانا عقل کے اس قول کی تائید میں فرماتے ہیں):

15

 بُلبلا نہ نعره زن بر روئے گُل  تا کنی مشغول شان از بوئے گُل

 ترجمہ: (ہاں اے عقل!) پھول کے حضور میں بلبلوں کی طرح نعرہ لگا تاکہ تو لوگوں کو پھول کی خوشبو سے غافل کر دے (صفات محبوب کو اغیار سے چھپانے کی اچھی تدبیر یہی ہے کہ ان کو اپنے اظہار و بیان میں مشغول کر لیا جائے، یہی اظہار اخفا کا کام دے جاتا ہے)۔ 

16

تا بقل مشغول گردد گوشِ شان  سُوۓ روئے گل نپّرد ہوشِ شان

ترجمہ: تاکہ ان کے کان گفتگو (سننے) میں مشغول ہو جائیں ان کے ہوش (و حواس) پھول کے چہرے کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ 

17

پیشِ این خورشید کو بس روشن است  در حقیقت ہر دلیلے رہزن ست

 ترجمہ: (غرض) اس آفتاب (حقیقی) کے آگے جو بہت ہی روشن اور واضح ہے، فی الحقیقت ہر دلیل (مزید وضاحت کرنے کے بجائے وضاحت کا) راستہ روکنے والی ہے۔

 مطلب: اسی بنا پر کہا گیا ہے ’’کُلُّ مَا خَطَرَ بِبَالِکَ فَهُوَ ھَالِکٌ وَاللہُ اَجَلُّ مِنْ ذَالِکَ‘‘ یعنی ”جو کچھ تمہارے ذہن میں گزرے گا وہ فانی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے برتر ہے“ غرض اس طرح اس کی کنہ کا ادراک ممکن نہیں کیونکہ ادراک کی کوشش کرنے والا جس دلیل سے کام لے گا اس کا حاصل صورتِ ذہنیہ ہو گی اور حق تعالیٰ اس سے منزہ ہے۔ نظامیؒ ؎

پژوہنده را ياوه شد زان کلید کز اندازۂ خویشتن در تو دید!

نشاید ترا جز بتو یافتن  عنان باید از ہر درے تافتن 

صائبؒ

چگونہ قطره تواند محیطِ دریا شد  ز راہِ فکر رسیدن بذات ممکن نیست

امیر خسروؒ  ؎

حکیم گفت شناسم بعقل یزدان را  زہے کمال حماقت او این چہ گفتار ست۔