دفتر 6 حکایت 22: اس حدیث کے معنی کہ (اضطراری) موت سے پہلے (اختیاری موت کے ساتھ) مر جاؤ اور حکیم سنائیؒ کی بیت کی تشریح



در معنی حدیث مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا و تفسیر بیت حکیم سنائیؒ

اس حدیث کے معنی کہ (اضطراری) موت سے پہلے (اختیاری موت کے ساتھ) مر جاؤ اور حکیم سنائیؒ کی بیت کی تشریح

بمیر اے دوست پیش از مرگ اگر می زندگی خواہی کہ ادریسؑ از چنین مردن بہشتی گشت پیش از ما

اے دوست! موت سے پہلے مر جا اگر تو زندگی چاہتا ہے

کیونکہ حضرت ادریس علیہ السلام ایسی موت سے ہم سے پہلے جنتی ہو گئے

انتباه: علامہ ابن حجر رحمۃ الله علیہ کہتے ہیں کہ حدیث ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ ثابت نہیں (تمییز الطيب) چونکہ اس حدیث کا مضمون صحیح ہے جو فنا کی تعلیم پر مشتمل ہے اس لئے یہ ممکن ہے کہ یہ کسی عارف کا قول ہو۔ ناقلین کی غلطی سے حدیث مشہور ہو گیا ہو۔ چنانچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ صوفیہ کے کلام سے ہے اور معنی اس کے یہ ہیں کہ اضطراری موت سے پہلے اختیاری موت کے ساتھ مر جاؤ اور اختیاری موت سے مراد یہ ہے کہ شہوات و لذات کو ترک کر دیں اور ایسے امور سے باز رہیں جن کا نتیجہ لغزش و غفلت ہو۔ (انتہٰی، موضوعاتِ کبیر)

 1

جان بسے کندی و اندر پردۂ  زانکہ مُردن اصل بُد ناوردۂ

ترجمہ: تم نے (ریاضت و مجاہدہ میں) بہتیری جان کھپائی اور (چونکہ تم مقامِ فنا تک نہیں پہنچے اس لئے اب تک مقصود سے) حجاب میں ہو کیونکہ اس معاملہ میں اصل (الاصول) فنا تھی جو تم نے حاصل نہیں کی۔

مطلب: وہ مقصود وصول الى اللہ ہے جس کے معنی ہیں اللہ کی نسبت کا راسخ ہونا اور غلبۂ ذکر و دوامِ طاعت اس کے لوازم سے ہے۔ (کلید)

2

تا نہ میری نیست جان کندن تمام  بے کمالِ نردبان نائی ببام

ترجمہ:جب تک تم فائز بہ فنا نہ ہو جاؤ وہ (ریاضات و مجاہدات کی) مشقت کامل نہیں (جس سے حصولِ مقصود متوقع ہو) پوری سیڑھی کے بغیر تم کوٹھے پر نہیں چڑھ سکتے۔

مطلب: ناقص ریاضات حصولِ مقصد میں اسی طرح غیرمفید ہیں جس طرح ایک ایسی سیڑھی جس کے اوپر کے دو چار ڈنڈے نہ ہوں، کوٹھے چڑھنے میں کام نہیں دے سکتی۔

3

 چون ز صد پایہ دو پایہ کم بود  بام را کوشنده نا محرم بود

ترجمہ: جب سیڑھی کے سو پایوں سے دو پائے بھی کم ہوں تو کوٹھے (پر چڑھنے) کی کوشش کرنے والا (اس کے اوپر چڑھنے اور اوپر کی موجودات پر مطلع ہونے سے) نا محرم رہے گا۔


4

چون رسن یک گز ز صد گز کم بود  آب اندر دلو از چَہ کے رَوَد

ترجمہ: (اور مثلاً) جب رسی سو گز سے ایک گز کم ہو تو کنویں میں سے پانی ڈول میں کیونکر پڑے گا؟

مطلب: ان دونوں مثالوں میں علت کے زیادہ اجزا حاصل ہیں لیکن چونکہ وہ تمام نہیں اس لئے معلول ہیں مؤثر نہیں اور غیر حاصل اجزا اگرچہ بہت قلیل ہیں، مگر انہیں کا حاصل اور شامل ہو جانا معلول میں مؤثر اور حصولِ مقصود کا باعث ہو سکتا ہے۔ آگے یہی فرماتے ہیں:

5

 غرقِ این کشتی نیابی اے امیر  تا کہ ننہی اندرو مَنّ الاخير


 ترجمہ: اے امیر (ترک!) اس کشتی (ہستی) کا (قعرِ حقیقت تک پہنچنے کے لئے) غرق ہونا تم کو میسر نہیں ہوسکتا تا وقتیکہ اس میں آخری جزو رکھنا ضروری ہے۔ (جو اس کو ڈبونے کے لئے کافی ہو ورنہ کشتی باقی تمام بوجھ کے باوجود سطحِ بحر پر تیرتی رہے گی اگرچہ یہ تقریر مولانا کی ہے مگر چونکہ مطرب کے قول کے ضمن میں آئی ہے اس لئے صورتاً اس کو مطرب کی تقریر قرار دے کر امیرِ ترک کو مخاطب کیا ہے)۔

6

مَنِّ آخر اصل دان کو طارق ست  کشتیِ وسواس و غیّ را غارق ست

ترجمہ: (1) (اس) آخری وزن پر مدارِ کار سمجھو کہ وہ (قعرِ بحر کو نمایاں کرنے میں گویا) آخر شب کا ستارہ ہے (اور وہ) وسواس و گمراہی کی کشتی کو غرق کرنے والا ہے۔ (کلید)

ترجمہ: (2) (اس) آخری وزن پر مدارِ کار سمجھو کہ وہ (کشتی کے ناقابلِ برداشت ہونے میں گویا) شب کے وقت آنے والا مہمان ہے اور وہ وسواس و گمراہی کی کشتی کو غرق کرنے والا ہے۔ (بحر)

مطلب: پہلے ترجمہ میں آخری وزن کو ستارۂ آخرِ شب کے ساتھ اس لئے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح وہ ستارہ اپنی روشنی سے رات کی تاریکی میں چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کر دیتا ہے اسی طرح یہ آخری وزن بھی کشتی میں پڑتے ہی اس کو قعرِ بحر دکھا دیتا ہے۔ دوسرے ترجمہ میں اس کو مہمانِ شب کے ساتھ باین اعتبار تشبیہ دی کہ جس طرح وہ مہمان گھر والوں کے لئے بارِ خاطر اور ناقابلِ برداشت ہوتا ہے، اسی طرح کشتی بھی اس بار کو برداشت نہیں کر سکتی اور فوراً ڈوب جاتی ہے۔ ’’وسواس‘‘ سے سوءِ اعتقاد اور ’’غیّ‘‘ سوءِ اعمال مراد ہے اور ان کی کشتی سے مراد وہ ہستی ہے جوان صفاتِ ذمیمہ سے موصوف ہے اور اسی کو فنا کرنا مقصود ہے۔

7

 آفتابِ گنبدِ ازرق شود  کشتی ہُش چونکہ مستغرق شود

ترجمہ: (عقل و) ہوش کی کشتی جب (مشاهدۂ حق میں) مستغرق ہو جاتی ہے (تو وہ نورانیت میں) آسمان کے گنبدِ نیلگوں کا آفتاب بن جاتی ہے۔

مطلب: فنا سے جب بقا حاصل ہوتی ہے تو علم اور زیادہ کامل ہو جاتا ہے کیونکہ پہلے اس کا تعلق ناقص یعنی مخلوق کے ساتھ تھا اور اب کامل یعنی حضرتِ حق کے ساتھ ہے اور علم کا شرف و کمال معلوم کے شرف و کمال پر موقوف ہے۔ (کلید)

8

چون نمُردی گشت جان کندن دراز  مات شو در صبح اے شمعِ طراز

ترجمہ: جب (تم نے ریاضات کو بدرجۂ تکمیل پہنچایا اور) تم فنا نہ ہوئے تو (یہ ریاضاتِ ناقصہ میں) جان کھپانا (بے فائده) طول پکڑ گیا۔ پس اے شمعِ طراز! تو (اس سلسلۂ ریاضت کو مختصر و کامل کرنے کے لئے) صبح میں فنا ہو جا۔

مطلب: جس طرح صبح کے طلوع ہونے پر شمع بجھا دی جاتی ہے جو گویا اس وقت فنا فی الصبح ہو جاتی ہے، اسی طرح تو بھی اس ہستیِ مطلق میں جس کو ﴿نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِہونے کے لحاظ سے صبح سے تشبیہ دی ہے، فنا ہو جا۔

9

تا نگشتند اخترانِ ما نہان  دان کہ پنہان ست خورشیدِ جہان

ترجمہ: جب تک ہمارے (ہستی کے) ستارے غروب نہ ہوں۔ یاد رکھو کہ (اس وقت تک حقیقت کا) آفتابِ عالم (تاب ہم پر) پوشیده ہے۔ (حصولِ فنا کے بدوں واصل بحق نہیں ہو سکتے آگے پھر مطرب تُرک کو خطاب کر کے کہتا ہے:)

10

گُرز بر خود زن منی را در شکن  زانکہ پنبہ گوش آمد چشمِ تن

ترجمہ: (اے ترک سردار! تو مجھ پر) گُرز (کیا اٹھاتا ہے) خود اپنے مار (اور) خودی کو چکنا چور کر ڈال کیونکہ ہستی (کو دیکھنے) والی آنکھ (سماعِ حق کے) کان (کو بند کرنے) کے لئے (مثل) پنبہ ہے (تکبر و خود بینی کو چھوڑ دے تاکہ تجھے اہل ارشاد کی ہدایات و ارشادات سننے کی توفیق میسر ہو، جو فنا کی تعلیم دیتے ہیں)۔

11

گرز بر خود میزنی ہم اے دنی  عکسِ تُست اندر فَعَالم این منی

ترجمہ: (نہیں نہیں) تو (یہ) گرز (میرے نہیں بلکہ) خود اپنے مار رہا ہے۔ اے کمینے! یہ (جو مجھے اپنے گُرز مارے جانے کے تصور سے) خودی (کا خیال آگیا) میرے افعال میں تیرا ہی عکس ہے۔

مطلب: میرے جس عیب کے بنا پر تو گُرز مارنے کا قصد کرتا ہے وہ در اصل خود تیرا عیب ہے جس کا عکس مجھ پر پڑ گیا ہے۔ اس لئے تو یہ گُرز میرے نہیں بلکہ خود اپنے مار رہا ہے۔

12

عکس خود در صورتِ من دیدۂ  در قتالِ خویش بر جوشیدهٔ

ترجمہ: تو نے اپنا عکس میری صورت میں دیکھ لیا (پس تو بظاہر مجھ سے لڑنے پر آمادہ ہے مگر در حقیقت) خود اپنے ساتھ لڑنے کے لئے جوش میں آ رہا ہے۔

مطلب: اس کی بالکل ٹھیک اور نہایت عجیب مثال یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ بڑا مغرور و متکبر ہے ہم کو خاطر میں نہیں لاتا، نہ سلام و کلام اور خط و کتابت میں ہمارے رتبہ و درجہ کا پاس رکھتا ہے۔ وہ در اصل خود تکبر و غرور کے مرض میں مبتلا ہے اسی لئے اس کو دوسرے متکبرانہ سلوک سے اپنی کسرِ شان کا احساس ہوتا ہے۔ ورنہ اگر اس کو فنائے نفس کا درجہ حاصل ہوتا اور اس میں تواضع کی صفت ہوتی جیسے کہ اہل اللہ میں ہوتی ہے۔ تو اسے اس قسم کا خیال ہی نہ آتا۔ اہل اللہ کسی توہین و تحقیر سے برہم نہیں ہوتے ؎ کما قیل

 ز فیضِ خاکساری مذہب نقشِ قدم دارم  بفرقم ہر کہ  پا زد جا دہم در چشم پایش را

وہ دنیا جہاں کے تعظیم بجا لانے پر بھی خاکساری کا سر جھکائے رکھتے ہیں۔ صائبؒ ؎

چو ماہِ نو سر از پائے تواضع برنمیدارم  اگر با آن بزرگی آسمان گیرد رکابم را

غرض اس شخص کو خود اپنے تکبر و غرور کی وجہ سے تکبر و غرور محسوس ہو رہا ہے گویا خود اپنا تکبر ہی اس کو اذیت دے رہا ہے۔

13

ہمچو آن شیرے کہ در چَہ شد فرو  عکسِ خُود را خصمِ خُود پنداشت او

ترجمہ: اس شیر کی طرح جو کنویں کے اندر کود پڑا تھا (کیونکہ) اس نے اپنے (ہی) عکس کو اپنا دشمن سمجھ لیا (یہ قصہ مثنوی کے پہلے دفتر اور مفتاح العلوم کی دوسری جلد میں گزر چکا ہے)۔

14

نفی ضِدّ ہست باشد بے شکے  تا ضدِّ ضد را بدانی اندکے

ترجمہ: نفی بے شبہ ہست کی ضد ہے (پس میں نے ایک ضد یعنی نفی کو اس لئے ظاہر کیا) تاکہ تو ایک ضد سے دوسری ضد کو معلوم کرے۔

مطلب: مطرب کہتا ہے کہ اجی ترک صاحب! آپ جو میرے قصور کے احساس سے مجھے مارنے کھڑے ہو گئے، یہ دراصل خود آپ کے قصور کا عکس ہے پہلے اپنا قصور رفع کرو جس کی بہترین تدبير فنائے ہستی ہے۔ اسی فنا کی تعلیم کے لئے میں نے نفی کا راگ الاپا ہے تاکہ اس کے ذریعہ آپ ہستیِ باطل کے زعم سے نجات پا کر ہستیِ حقیقی کا راز معلوم کر سکیں۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:

15

این زمان جز نفیِ ضد اعلام نیست  اندرین نشأة دمے بیدام نیست

ترجمہ: اس وقت سوائے نفیِ ضد کے کوئی طریقہ مقصود کی اطلاع (کا) نہیں (اس لئے کہ) اس (دنیوی) زندگی میں ایک لمحہ بھی غیرِ حق کے جال سے خالی نہیں۔

مطلب: پیچھے مُطرب نے کہا تھا ع ’’نفی کردم تا بری ز اثبات بود“ مولانا اس کی تائید میں فرماتے ہیں کہ بے شک دنیا میں اثباتِ حق کا یہی اچھا طریقہ ہے کہ ما سوٰی الحق کی نفی پر زور دیا جائے کیونکہ یہاں ما سوٰی کا بہت ہجوم ہے جن کی طرف توجہ و التفات کرنے سے ایک لمحہ بھی پناہ نہیں ملتی۔

16

 بے حجابت باید آن اے ذُولباب  مرگ را بگزین و بر در آن حجاب

ترجمہ: اے عاقل! اگر وہ (محبوب) تم کو بے حجاب (معلوم کرنا) مطلوب ہے تو موت (بمعنی نفی و فنا) کو اختیار کرو اور اس حجاب کو چاک کردو (بے حجاب معلوم کرنے سے علمِ ذوقی اور حجاب سے توجہ الی الخیر مراد ہے۔)

17

نے چنان مرگے کہ در گورے روی  مرگ تبدیلے کہ در سوۓ روی

ترجمہ: ایسی موت نہیں کہ تم اس کے سبب سے قبر میں چلے جاؤ (بلکہ اخلاقِ ذمیمہ کو اخلاقِ فاضلہ میں) تبدیلی (کرنے) کی موت کہ (جس کی بدولت) تم (فضائل و کمالات کے) جشن میں چلے جاؤ (آگے موت بمعنیِ تبدیلی احوال و اخلاق کی چند مثالیں ارشاد ہیں):

18

مرد بالغ گشت و آن طفلی بمُرد  رومی شد صِبغَتِ زنگی بمُرد

ترجمہ: (دیکھو) کوئی شخص بالغ ہو جاتا ہے تو (اس کی) وہ طفلی (جو آج سے پہلے موجود تھی) مر جاتی ہے۔ (اسی طرح کسی سیاہ چیز کو سرخ کر دینے سے اس پر) رومیّت (طاری) ہو گئی (اور) زنگی رنگ فنا ہو گیا۔  

(اہل روم عموماً سرخ اندام اور اہل زنگ سیاه فام ہوتے ہیں):

19

خاک زر شد ہیئتِ خاکی نماند  غم فرح شد خارِ غمناکی نماند

ترجمہ: (اسی طرح مثلاً معدن میں) مٹی کا سونا بن گیا تو مٹی کی شکل نہ رہی (اور مثلاً) غم خوشی سے (مبدل) ہو گیا تو غمگینی کا کانٹا نہ رہا۔

مطلب: ان سب مثالوں میں خاص اعتبارات سے اس بالغ ہونے والے طفل کو اور اس رنگی ہوئی چیز کو اور خوش ہو جانے والے مغموم کی پہلی صفت کے اعتبار سے فانی کہنا صحیح ہے۔ پس جو معنی ان کے فنا کے ہیں یعنی تبدیلِ صفات وہی معنی سالک کے فانی ہونے کے ہیں۔ جس کا بیان یہاں مقصود ہے۔ آگے اس تفسیر کی تائید میں ایک حدیث ارشاد ہے:

20َ

مصطفٰے زین گفُت کاے اسرار جُو  مُرده را خواہی کہ بینی زنده تو

ترجمہ: اسی (لحاظ) سے مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اے طالب اسرار! (اگر) تو مردہ کو زنده (چلتا پھرتا) دیکھنا چاہے؟ (اس شرط کی جزا آگے ساتواں شعر ہے):

21

 می روَد چون زندگان بر خاکدان  مرده و جانش شده بر آسمان

ترجمہ: جو زمین پر زندہ لوگوں کی طرح چل پھر رہا ہے (مگر) مردہ (ہے) اور اس کی جان آسمان پر گئی ہوئی ہے۔

22ُ

جانش را این دم ببالا مسکنے ست گر بمیرد رُوحِ او را نَقل نیست

ترجمہ: (اور) اس کی روح کا مسکن اس وقت (عالمِ) بالا میں ہے (حتی کہ) اگر وہ (طبعی موت سے) مرے گا تو اس روح کو (عوام کی روح کی طرح) انتقال کی ضرورت نہیں ۔

23

زانکہ پیش از مرگ او کرد ست نقل   این بمردن فہم آید نے بعقل

ترجمہ: کیونکہ وہ موت (طبعی) سے پہلے انتقال کر چکا ہے اور یہ (انتقال خود اس مخصوص قسم کے) مرنے (یعنی فانی ہونے) سے سمجھ میں آ سکتا ہے نہ کہ (محض) عقل سے۔

24

 نقل باشد نے چو نقلِ جانِ عام  ہمچو نقلے از مقامے تا مقام

ترجمہ: (یہ مخصوص قسم کا مرنا ایک) انتقال ہوتا ہے (جو) عام لوگوں کی روح کے انتقال کی طرح نہیں (ہے بلکہ) ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہو جانے کی طرح (ہے جو زندہ کے لئے ہی مکمن ہے)۔

مطلب: یہ انتقال بمعنی موتِ طبعی نہیں جس میں عوام بھی شریک ہیں بلکہ اس کے دوسرے معنی ہیں جس کو فنا کہتے ہیں جو قبلِ موت بھی ممکن ہے۔ جیسے ایک مقام سے دوسرے مقام میں چلے جانا موت سے پہلے ممکن ہے۔ پس چونکہ اس کو یہ فنا حاصل ہے اس لئے اس کی موت بھی عوام کی سی نہ ہو گی، کیونکہ عوام اس فنا سے محروم ہونے کی وجہ سے موتِ طبعی کے بعد بھی کمالِ قرب سے محروم ہیں اور یہ حضراتِ اہلِ فنا موتِ طبعی کے بعد کمالِ قرب سے مشرف ہیں اور کمالِ قرب سے محروم ہونا گویا موت ہے اور کمالِ قرب سے بہرہ مند ہونا زندگی ہے۔ پس یہ کہنا صحیح ہوا کہ یہ حضرات موت سے مرتے نہیں۔ اسی کو مولانا نے اوپر کہا ؎ ’’گر بمیرد روح او را نقل نیست‘‘ اور اسی بنا پر کہا گیا ہے ’’اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ بَلْ يَنْقُلُوْنَ مِنْ دَارٍِ اِلٰى دَارٍ وَ نِعْمَ مَا قَالَ الْحَافِظُ‘‘ ؎

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زنده شد بعشق  ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

چونکہ اوپر شرط جس پر پہلا شعر مشتمل ہے بہت دور ہو گئی اس لئے آگے اس کا پھر اعادہ کر کے جزا کو اس کے ساتھ ملاتے ہیں۔

25

ہر کہ خواہد کو بہ بیند بر زمین  مُرده را می رود ظاہر چنین

26

مر ابُوبکر تقی را گو ببین  شُد ز صدّیقی امیر الصادقین

ترجمہ: (غرض) جو شخص چاہے کہ کسی مردہ کو زمین پر ظاہرًا اسی طرح چلتا پھرتا دیکھے (جس طرح ایک زندہ چلتا پھرتا ہے تو اس کو) کہہ دو کہ وہ ابوبکر پاک باز کو دیکھ لے جو صدیقی سے امیر الصادقین ہو گئے ۔

مطلب: تقی کے لفظ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿وَ سَيُجَنَّـبُـهَا الْاَتْقٰی یعنی ”عنقریب اس آتش جہنم سے وہ پاک باز دور رکھا جائے گا“ ﴿اَلَّـذِىْ يُؤْتِىْ مَالَـهٗ يَتَزَكّـٰى ”جو اپنا مال (خدا کی راہ میں) خرچ کرتا ہے (ریا اور شہرت سے) پاک رہ کر‘‘ (اللیل: 17-18) یہ آیات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں اپنا تمام مال خرچ کر ڈالا تھا۔ سات مومن غلام اور لونڈیاں جن پر ان کے کافر آقا طرح طرح کے عذاب کرتے تھے خرید کر آزاد کیں۔ انہیں غلاموں میں سے ایک بلال رضی اللہ عنہ ہیں (خازن) خود رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے ’’مَا نَفَعَنِیْ مَالُ أَحَدٍ قَطُّ كَماَ نَفَعَنِیْ مَالُ اَبِی بَکْرٍ‘‘ یعنی ”مجھ کو جس قدر فائدہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے اور کسی کے مال نہیں پہنچایا“ ۔(مشکوٰة)

ان اشعار میں اشارہ ہے اس قولِ مشہور کی طرف جو کہ حدیث کے عنوان سے مشہور ہے ’’مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی مَیِّتٍ یَّمْشِیْ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ فَلْیَنْظُرْ اِلَی ابْنِ اَبِیْ قَحَافَۃ‘‘۔ یعنی ’’جو شخص چاہے کہ کسی ایسے مردہ کو دیکھے جو روئے زمین پر چل پھر رہا ہے تو چاہیے کہ وہ ابن قحافہ (یعنی ابوبکر) کو دیکھ لے‘‘ غرض ایسی حالت کو جس سے موت کا حکم حیات ہی میں صحیح ہے، ہم فنا کہتے ہیں۔ اس حدیث کی تو تحقیق نہیں لیکن نفسِ مضمون دوسری صحیح حدیثوں میں مصرّح ہے۔ (کلید)

27

اندر نشأۃ نگر صدیق را  تا بحشر افزون کنی تصدیق را

ترجمہ: اس عالم میں صدیق کو دیکھ لے تا کہ (ان کی حالت کو دیکھ کر) تو حشر کی تصدیق زیادہ کرنے لگے۔

مطلب: حشر کیا ہے؟ مرنے کے بعد زندہ ہو جانا حشر کو تو یہ بات صورةً متحقق ہو گی اور حضرت ابو بکر رضی الله عنه کو معنًا حاصل ہے یعنی ان کو فنا فی اللہ کے بعد بقا باللہ میسر ہو چکی ہے حشر کے متعلق تم کو نصوص کے ذریعے پہلے سے یقین ہے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی حالت دیکھ کر یہ یقین اور بھی پختگی پا جائے گا۔ آگے مولانا حضرت ابوبکر کے فنا بقائے صدیقی سے فنا و بقائے محمدی پر استدلال کرتے ہیں:

28

 پس محمدؐ صد قيامت بود نقد  زانکہ حل شده در فنایش حل و عقد

ترجمہ: پس (فنا و بقائے صدیقی سے معلوم ہوا کہ) محمد ﷺ کی ذاتِ پاک (جن کے اثر سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو مرتبۂ فنا حاصل ہوا)سو قیامتِ حاضرہ تھی کیونکہ آپ کی بارگاہ میں یہ فنا و بقا (کا نکتہ) حل ہو گیا۔

مطلب: قیامت میں یہ اثر ہو گا کہ صورِ اسرافیل کے نفخۂ اولٰی میں سب کائنات فنا ہو جائے گی پھر نفخۂ ثانیہ میں زندہ ہو جائے گی۔ اسی طرح حضور ﷺ کی صحبتِ مبارک مستفیدین کو فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس درجہ کا حصول از حد مشکل ہے۔ اس لئے اس کے حصول کو مشکل حل ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ آگے یہ ارشاد ہے کہ آنحضرت ﷺ جو دوسرے لوگوں کو فنا و بقا سے موصوف فرما دیتے تھے تو خود آپ کی ذات گرامی بھی ان صفات سے موصوف تھی۔

29

زادۂ ثانی ست احمد ﷺ  در جہان  صد قيامت بود او اندر عیان

ترجمہ: حضرت احمد ﷺ عالم میں مولود (بولادتِ) ثانی ہیں (اسی لئے تو) آپ صاف طور پر (بمنزلہ) سو قيامت (کے) تھے۔

مطلب: صوفیہ کے نزدیک ثابت ہے کہ سالک دو مرتبہ متولد ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اپنی ماں کے رحم سے نکلتا ہے، دوسری مرتبہ طبیعت اور احکامِ طبیعت کی قید سے رست گاری پاتا ہے۔ اس آخری حالت کو ولادتِ ثانیہ کہتے ہیں در جہاں کے لفظ سے مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فطرت ہی سے احکامِ طبع سے آزاد ہیں۔ (بحر) جو سالک کہ خود طبیعت اور اس کے احکام سے آزاد اور فنا فی اللہ و باقی باللہ ہو، وہ دوسرے لوگوں کو فنا و بقا پر فائز کر دینے کے لحاظ سے بمنزلۂ قیامت ہو گا مگر عام سالکین یہ مرتبہ ریاضات و مجاہدات کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ فطرتاً اس مرتبہ پر فائز ہیں۔ 

اس لئے آپ کے اندر تصرفات کی یہ طاقت سو گنی ہے یعنی آپ بمنزلۂ قیامت ہیں۔ آگے اس فنا و بقا کا امرِ ذوقی ہونا بیان فرماتے ہیں:

30

 زو قیامت را ہمی پُرسیده اند  کاے قیامت تا قیامت راہ چند؟

ترجمہ: لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے کہ اے قیامت! (کی طرح فنا و بقا بخشنے والے نبی) روز قیامت میں کتنا عرصہ ہے۔

مطلب: قرآن مجید میں لوگوں کے اس سوال کا ذکر کئی جگہ آیا ہے ﴿يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ (الاعراف: 187) ﴿يَسْئَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ(الاحزاب: 63)﴿يَسْئَلُوْنَ اَيَّانَ يَوْمُ الدِّيْنِ(الذاريات: 12)﴿يَسْئَلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِیٰمَۃِ (القیمة: 6) وغيرها۔

31

 با زبانِ حال مے گُفتے بسے  کہ ز محشر حشر را پُرسد کسے؟

ترجمہ: تو آپ اکثر زبان حال سے ارشاد فرماتے کہ کیا کوئی قیامت سے قیامت کے بارے میں بھی پوچھا کرتا ہے؟

مطلب: یعنی ہم نے خود قیامت بن کر اشارةً بتا دیا کہ جس قیامت کی تحقیق کرنا ہو وہ ہماری طرح قیامت بن جائے تو اس کو قیامت کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ کیونکہ اس کی حقیقت زبانی بتانے کی نہیں بلکہ یہ امرِ ذوقی ہے کہ سالک اس کے ساتھ خود متصف ہے تو اس پر منکشف ہوتا ہے۔ بزبانِ حال فرمانے سے ظاہر ہے کہ یہ جواب قولاً منقول نہیں اس لئے احادیث کے ذریعہ اس کے بالنقل کی بھی ضرورت نہیں۔

32

 بہرِ این گفت آن رسولِ خوش پیام  رمزِ مُوْتُوْا قَبْلَ مَوْتٍ يَا كِرَام

ترجمہ: اسی (جواب بزبان حال سمجھانے کے لئے) ان رسولِ خوش پیام نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے کریم النفس لوگو! تم موت سے پہلے مر جاؤ۔

مطلب: اس سے حدیث ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ مراد ہے جس کی تحقیق عنوان بالا کی شرح میں گزر چکی یعنی آپ کے یہ ارشاد یا اس کے ہم معنی کوئی دوسرا ارشاد فرمانے سے مقصود یہ تھا کہ تم خود میت بموتِ اختیاری ہو جاؤ، تو قیامت کی کیفیت تم پر منکشف ہو سکتی ہے۔

33

ہمچنانکہ مرده ام مِن قبل موت  زان طرف آورده ام این صیت و صوت

ترجمہ: جس طرح کہ میں موت (طبعی) سے پہلے مر چکا ہوں (اور اسی کی ترغیب کے لئے) اس طرف سے میں یہ ذکر (خیر) اور کلام (مفید یعنی مُوْتُوْ الخ) لایا ہوں۔

34

 پس قیامت شو قيامت را ببین  دیدنِ ہر چیز را شرط ست این

ترجمہ: پس (اے قیامت کے متعلق سوال کرنے والے) تو (خود) قیامت بن جا (اور) قیامت کو دیکھ لے (ایک قیامت ہی کے لئے نہیں بلکہ) ہر چیزکے (مشاہدہ کے) لئے شرط ہے (کہ خود وہ چیز بن جائیں)۔

مطلب: حدیث میں آیا ہے ’’مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَت قِيَامَتُہٗ‘‘ یعنی ”جو شحض مر گیا اس کی قیامت آ گئی“ اور اس میں موت سے موتِ اضطراری مراد ہے لیکن اگر حدیثِ مذکور ’’مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ کے مضمون موتِ اختیاری کو مد نظر رکھ کر حدیث ’’مَنْ مَّاتَ۔۔۔الخ‘‘ میں موت کا مفہوم عام لیا جائے تو یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جو شخص زندگی ہی میں مرتبۂ فنا پر فائز ہو کر موتِ اختیاری سے مر جائے اس پر قیامت کی کیفیت منکشف ہو سکتی ہے جس سے مضمونِ اشعار کی تائید ہوتی ہے۔ آگے اس عام قاعدہ کی مزید تائید فرماتے ہیں:

35

تا نگردی او، ندانیّش تمام  خواہ آن انوار باشد یا ظلام

ترجمہ: جب تک تو (خود) وہ چیز نہ بن جائے اس کو پوری طرح معلوم نہیں کرسکتا خواہ وہ چیز روشنیاں ہوں یا اندھیرے (روشنی کا احساس روشنی کے آثار اپنے اوپر طاری ہونے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیشہ اندھیرے میں رہنے والا روشی کو کیا جانے)۔

36

تا نگردی او، ندانی این تمام  خواہ او آزاد باشد یا غلام

ترجمہ: جب تک تو وہ چیز نہ بن جائے گا اس کو پوری طرح معلوم نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام (حریت و غلامی کا احساس خود حُر یا غلام ہونے سے ممکن ہے۔ ہمیشہ آزادی میں رہنے والا غلامی کی تکالیف کو کیا جانے)۔ سعدیؒ  ؎

درشتی کند بر غریباں کسے  کہ نابوده باشد بغربت بسے

37

عقل گردی عقل را دانی کمال  عشق گردی عشق را بینی جمال

ترجمہ: تم (صاحبِ) عقل ہو جاؤ تو عقل کو کامل طور سے جانو تم عشق (کے آثار سے موصوف) ہو جاؤ تو عشق کا جمال دیکھو۔ ؎

 بے عقل کو عقل کی کیا خبر  غير عاشق کو عشق کا حال کیا معلوم

38

گفتمے بُرہانِ این دعوائے مُبین  گر بُدے ادراک اندر خوردِ این

ترجمہ: میں اس دعویٰ کی دلیل (کہ ہر شے کا مشاہده خود وہ شے بن جانے سے ممکن ہے) واضح طور پر پیش کر دیتا اگر (سامعین کا) ادراک اس کے لائق ہوتا۔

مطلب: یہاں سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ کلیہ صحیح ہو کہ ہر شے کا مشاہده خود وہ شے بن جانے سے ہو سکتا ہے، تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کی معرفت کے لئے بھی نعوذ باللہ خود خدا بننے کی ضرورت ہے حالانکہ یہ محال ہے۔ پس یہ کلیہ باطل ہوا۔ یہاں مولانا کو بطورِ جواب کلیہ کی دلیل پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی مگر پھر عذر فرماتے ہیں کہ سامعین میں اس دلیل کو سمجھنے کی اہلیت نہیں کیونکہ اس کو سن کر ان کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے سکوت اختیار فرمایا۔ شاید وہ برہان یہ ہو کہ بندہ بے شک خدا نہیں ہو سکتا مگر بفحوائے حدیث ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ‘‘۔ خدائی اخلاق سے موصوف تو ہو سکتا ہے پس یہ صفاتِ الٰہیہ کی معرفت کے لئے کافی ذریعہ ہے (کلید مَلخصاً) آگے ارشاد ہے کہ ہمارے پاس اس قسم کی دلائل و براہین کی کمی نہیں مگر کوئی سننے اور سمجھنے والا بھی تو ہو۔

39

ہست انجیر این طرف بسیار خوار  گر رسد مرغے قُنق انجیر خوار

 ترجمہ: (میوہ) انجیر یہاں بہت ارزاں ہے اگر کوئی انجیر کھانے والا پرندہ مہمان ہو (آگے اس فنا اور موت قبل الموت کے استحضار کا طریقہ بتاتے ہیں):

40

در ہمہ عالم اگر مرد و زنند  دمبدم در نزع و اندر مردن اند

ترجمہ : (یوں سمجھو کہ) تمام عالم میں جتنے مرد و زن ہیں (وہ سب) دمبدم نزع اور موت میں مبتلا ہیں۔

41

این سخن شان را وصیت ہا شمر  کہ پدر گوید دران دم با پسر

ترجمہ: (اور) ان کی ان باتوں کو (جو وہ دنیوی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں وہ) وصیتیں سمجھو جو (مثلاً ایک) باپ اس وقت (اپنے) فرزند کو کر رہا ہے۔

مطلب: یعنی ہر وقت یا کسی وقتِ خاص میں متوجہ بقلب ہو کر یہ خیال اپنے دل میں جمائیں کہ اس وقت دنیا کے تمام لوگ مر رہے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان توڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ اس حالت میں ایک دوسرے سےجو باتیں کرتے ہیں وہ گویا وصیتیں ہیں جو مرنے والا اپنے اقارب کو کرتا ہے اس شغل کو مراقبہ کہتے ہیں ۔ آگے اس کا فائدہ ارشاد ہے:

42

تا بروید عبرت و رحمت بدین  تا ببرّد بیخِ بغض و رشک و کین

ترجمہ: تاکہ اس (شغَل) سے عبرت اور رقت پیدا ہو (اور) تاکہ (تمہارے  قلب سے) بغض اور رشک اور کینے کی جڑ کٹ جائے (کیونکہ یہ مشاہدہ ہے کہ کسی کو مرتے دیکھ کر دم نرم اور بغض و کینہ رفع ہو جا تا ہے)۔

43

 تو بدان نیّت نگر در اقربا  تا ز نزعِ او بسوزد دل ترا

ترجمہ: (پس) تم اسی نیت (اور تصور) سے اپنے قرابت داروں میں نظر کیا کرو تاکہ ان کے نزع (کے تصور) سے تمہارے دل میں سوز (و گداز) پیدا ہو۔

44

کُلُّ اٰتٍ اٰتٍ آن را نقد دان  دوست را در نزع و اندر فقد دان

ترجمہ: (یہ خیال نہ کرو کہ زندہ لوگوں کو قریب بمرگ کیونکر سمجھ لیا جائے کیونکہ) جو چیز آنے والی ہے وہ (گویا) آ چکی اس کو حاضر سمجھو (اور اس بنا پر اپنے) پیارے کو جان کنی اور جدائی میں (مبتلا) سمجھو (آگے اس مراقبہ کے موانع اور ان کے دفع کا طریقہ ارشاد ہے)

45

ور غرضہا زین نظر گردد حجیب این غرضہا را برون افگن ز جیب

ترجمہ: اور اگر اغراض (نفسانیہ) اس (طریق پر) نظر کرنے سے مانع ہوں تو ان اغراض ہی کو دل سے نکال پھینکو (جیب بمعنی دل مستعمل ہے)۔

46

ور نیاری خشک بر عجزے مایست  زانکہ با عاجز گزیده معجزے ست

ترجمہ: اور اگر تم (ان اغراض کو دفع) نہ کر سکو (تو بھی) خالی بے بسی پر نہ جمے رہو کیونکہ (تمہارے جیسے ہر) عاجز کے ساتھ ایک خاص عاجز کرنے والا ( قادرِ مطلق) ہے (اس کی طرف رجوع کرو)۔

 

47

عجز زنجیریست زنجیرت نہاد  چشم در زنجیر نہ باید کشاید

ترجمہ: بے بسی (اسی کی پیدا کی ہوئی) ایک زنجیر ہے اس نے (اس) زنجیر میں تم کو جکڑ دیا (پس اس) زنجیر ڈالنے والے میں آنکھ کھولنی چاہیے (یعنی اسی پر نظر رہے یہ بندش اس کی طرف سے سمجھو اور اس کی کشایش کی توقع بھی اسی سے رکھو)۔

48

پس تضُّرع کن کہ اے ہادیِّ زیست  باز بُودم پشّہ گشتم این ز چیست؟

ترجمہ: پھر (اس کی درگاہ میں) زاری کرو ((اور کہو) کہ اے حیات (حقیقی) کا راستہ دکھانے والے! میں پہلے باز (کی طرح طاقتور) تھا (اب) مچھر (کی طرح کمزور) ہو گیا اس کا سبب کیا ہے؟

49

سخت تر افشرده ام در شر قدم  کہ لَفِیْ خُسْرَم ز قہرت دمبدم

ترجمہ: (الٰہی) میں نے برائی کے اندر اپنا قدم مضبوطی سے جما رکھا ہے (حتٰی) کہ تیرے قہر کے اثر سے میں دمبدم خسارہ میں ہوں۔ (اشاره بآیت ﴿اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (العصر: 2)

50

از نصیحت ہائے تو کر بوده ام  بُت شکن دعوٰی وبُت گر بوده ام

ترجمہ: تیری نصیحتوں کے سننے سے (ایسا غافل ہوں گویا) بہرا ہو رہا ہوں (اس پر طرّہ یہ کہ) بت شکن (ہونے) کا دعوٰی ہے اور (عملاً) میں بت بنانے والا ہوں۔ (آگے مولانا موت سے غافل ہونے والوں کو ملامت کرتے ہیں)

51

 یادِ صنعت فرض تر یا یادِ مرگ  مرگ مانندِ خزان تو اصلِ برگ

ترجمہ: (اے غافل!) دنیا کے کاروبار کی یاد زیادہ ضروری ہے یا موت کی؟ (ظاہر ہے کہ موت کی یاد زیادہ ضروری ہے کیونکہ) موت خزاں کی مانند ہے اور تو پتے کی ڈنڈی (کی مانند جو خزاں میں کٹ جاتی) ہے۔ (پھر موت کیوں کر فراموش ہو سکتی ہے)۔

52

سالہا این موت طبلک میزند  گوشِ تو بے گاہ جنبش می کند

ترجمہ: (مگر تو اس سے غافل ہے کہ) یہ موت برسوں سے نقارہ بجا رہی ہے (اور تیرے کان پر جوں نہیں رینگتی آخر جب خود مبتلائے موت ہو گا تو پھر) بے وقت تیرا کان حرکت کرے گا۔

53

 گوید اندر نزع از جان آہ مرگ  این زمان کردت ز خود آگاه مرگ

ترجمہ: (پھر) وہ روح سے جدا ہونے کے وقت کہے گا ہائے موت! (تو نے یہ کیا کیا ارے) اب تجھ کو موت نے اپنے (شدائد) سے آگاہ کیا ہے (پہلے دوسروں کی موت سے عبرت نہ ہوئی)۔ 

54

این گلوئے مرگ از نعره گرفت  طبلِ او بشگافت از ضرب اے شگفت

ترجمہ: یہ موت کا گلا چیختے چیختے بیٹھ گیا، اس کا نقارہ (بھی) بجتے بجتے پھٹ گیا ارے تعجب ہے (کہ تو پھر بھی متنبہ نہ ہوا)- 

55

 در دقائق خویش را دربافتی  رمزِ مُردن این زمان دریافتی

ترجمہ: تو نے ( آج تک) اپنے آپ کو (دنیا کی) بار یک باتوں میں لپٹائے رکھا آج (جب خود اپنے سر پر موت آئی تو پھر) مرنے کی رمز معلوم کی (کہ کس حسرت کا موقع ہے مگر اب حسرت و ندامت بے سود ہے۔ آگے بے موقع تاسُّف و تحسُّر کی مثال میں ایک حکایت ارشاد ہے:)