دفتر ششم: حکایت: 86
بازگشتن بہ قصۂ اشتر و گاؤ و قچ
اُونٹ اور بیل اور مینڈھے کے قصے کی طرف رجوع
1
گفت قچ با گاو و اشتر کاے رفاقچوں چنیں افتاد ما را اتفاق
2
ہر یکے تاریخِ عمر املا کنیدپیر تر اولٰی است باقی تن زنید
ترجمہ: مینڈھے نے بیل اور اونٹ سے کہا کہ اے رفیقو! جب ہم کو ایسا اتفاق آ پڑا (کہ اس گٹھے کو تقسیم کرنے کے بجائے صرف اسی کو دے دینا مناسب ہے جس کی عمر بڑی ہو) تو (مناسب ہے کہ ہم میں سے) ہر ایک (اپنی) عمر کی تاریخ بیان کرے (جو) زیادہ معمر (ہو وہ) زیادہ حق دار ہے۔ باقی چپ رہو۔
3
گفت قچ مرجِ من اندر آں عہودبا قُچ قربانِ اسمعٰیلؑ بود
ترجمہ: (پہلے خود) مینڈھا بولا (لو میری عمر کی تاریخ سُن لو کہ) میری چراگاه ان (قدیم) زمانوں میں (جن کو ہزار ہا سال گذر گئے) حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے مینڈھے کے ساتھ تھی۔ (ہم دونوں اکٹھے چرتے رہے ہیں۔)
4
گاو گفتا بوده ام من سالخوردجفتِ آں گاوم کش آدم زرع کرد
ترجمہ: بیل نے کہا، میں (تجھ سے زیادہ) عمر کھا چکا ہوں (یعنی) میں اس بیل کی جوڑی ہوں جس سے آدم علیہ السلام نے کھیتی کی تھی۔
5
جفت آں گاوم کش آدم جدِّ خلقدر زراعت در زمیں می کرد فلق
ترجمہ: میں اس بیل کے ساتھ کا ہوں۔ جس سے مخلوق کے باوا حضرت آدم کھیتی میں زمین کے اندر ہل چلاتے تھے۔
6
چوں شنید از گاؤ و قُچ اشتر شگفتسر فرود آورد و آں را برگرفت
ترجمہ: جب اونٹ نے بیل اور مینڈھے سے (یہ) عجیب (تاریخ) سنی تو (چپکے سے) سر جھکایا اور اس (گٹھے) کو اٹھایا۔
7
در ہوا برداشت آں بندِ قصیلاشترِ بُختی سبُک بے قال و قیل
ترجمہ: (اس) بختی اونٹ نے (تاریخی) گفتگو (میں حصہ لیے) بغیر، جلدی سے خوید (چارے) کے گھٹے کو فضا میں (اونچا) اٹھا لیا۔ (بختی بضمِ با، خراسان میں ایک قسم کا سُرخ و فربہ اونٹ ہوتا ہے۔)
8
کہ مرا خود حاجتِ تاریخ نیستکایں چنیں جسمے و عالی گردنے ست
ترجمہ: (اور کہا) کہ مجھ کو تاریخ (کے ذریعہ اپنا استحقاق ثابت کرنے) کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ (میرا) ایسا تن و توش اور لمبی گردن (خود ثبوتِ استحقاق کے لیے کافی ہے)۔
9
خود ہمہ کس داند اے جانِ پدرکہ نباشم از شما من خرد تر
ترجمہ: اَے جان پدر! سب لوگ یہ جانتے ہی ہیں کہ میں تم سے چھوٹا نہیں ہوں گا۔
10
داند ایں را ہر کہ ز اصحاب نُہا ستکہ نہادِ من فزوں تر از شما ست
ترجمہ: اس کو ہر شخص جو صاحبِ عقل ہے جانتا ہے کہ میرا وجود تم سے بڑھ کر ہے۔
مطلب: یہ مثال عیسائی نے اس بات کی تائید میں پیش کی ہے کہ جس طرح اونٹ کی قوت اور جسامت بیل اور مینڈھے کے مقابلے میں سب کی نظر میں بڑھ چڑھ کر ہے، اسی طرح آسمان کی برتری بمقابلہ زمین کے محتاجِ دلیل نہیں۔ بعض شارحین نے غلطی سے اس مثل کا ایراد یہودی وغیرہ کے قصِّے کی تائید کے لیے سمجھا ہے۔ یعنی جس طرح اونٹ تاریخی لاف زنی کے بدوں گھاس کا گٹھا اڑا لے گیا، اسی طرح مسلمان خواب کی لاف زنی سے بے نیاز ہو کر حلوا اڑا گیا۔ کیونکہ یہ احتمال قبل از وقت ہے۔ ابھی مسلمان کے حلوا کھانے کا ذکر بھی نہیں آیا۔ بلکہ ابھی عیسائی کی تقریر بھی پوری نہیں ہوئی جو آگے جاری ہے۔