دفتر ششم: حکایت: 85
مثل در بیانِ حالِ خود پرستاں و شرِ ایشاں در لباسِ خیر
ایک مثال خود پرست لوگوں اور ان کی نیکی کے رنگ میں بدی کے حال کے بیان میں
1
سوئے جامع می شدے یک شہریارخلق را می زد نقیب و چوب دار
ترجمہ: ایک بادشاہ (جمعہ کی نماز کے لیے) جامع مسجد کی طرف جا رہا تھا (اس کے آگے) نقیب اور چوب دار، لوگوں کو مار مار کر ہٹاتے جاتے تھے۔
2
آں یکے را سر شکستے چوب زنواں دگر را بردریدے پیرہن
ترجمہ: چوبدار (کی دست درازی کا یہ حال تھا کہ وہ) اس ایک کا سر پھوڑ ڈالتا تھا۔ اور اس دوسرے کا کُرتہ پھاڑ ڈالتا تھا۔
3
در میانه بے دلے دہ چوب خوردبے گناہے کہ برو از راہ گرد
ترجمہ: (اسی ہنگامہ کے) درمیان ایک آزاد شخص نے (چوبدار کے ہاتھ سے) دس لاٹھیاں بے تقصیر کھائیں (اور اس مار پیٹ کے ساتھ یہ حکم تھا) کہ چل راستے سے ہٹ۔
4
خوں چکاں رو کرد با شاہ و بگفتظلمِ ظاہر بیں چہ پرسی از نہفت
ترجمہ: اس (آزاد مرد) نے خون ٹپکتے ہوئے بادشاہ کی طرف رُخ کیا اور کہا (یہ تو) ظلمِ ظاہر دیکھ (جو تیرے چوبدار نے کیا۔ اور میری خون آلودگی سے نظر آ رہا ہے باقی اس) مخفی (ظلم) سے کیا پوچھتا ہے۔ (جو تیرے دوسرے ملازم رعایا پر کر رہے ہیں)۔
5
خیر تو اینست جامع مے رویتا چہ باشد شرّ و ضرّت اے غوی
ترجمہ: تیری نیکی تو یہ ہے (کہ) تو جامع مسجد کو (نماز جمعہ پڑھنے) جا رہا ہے (تو تیرے چوبدار کے ہاتھوں لوگ لہولہان ہو رہے ہیں) ہاں اَے گمراہ! تیرا شر اور ضرر کیا کچھ ہوگا؟
مطلب: یہ تو ان بادشاہوں کی نماز گذاری کا کارنامہ ہے جو بظاہر ایک نیکی ہے۔ باقی ان کی خالص مردم آزادی کی جو صورت ہو گی جس میں نیکی کا کوئی پہلو نہیں اس کا کیا ٹھکانہ؟ یہ مثال اس بات کے لیے پیش کی ہے کہ دنیا پرست کی بیعت بھی دنیوی اعراض کے لیے ہوتی ہے۔ جب ان کی یہ نیکی بھی بمنزلہ بدی ہے تو ان کی بدی بمدارج بدتر ہو گی۔ آگے پھر اسی مرید کے ذکر کی طرف عود فرماتے ہیں:
6
یک سلامے نشنود پیر از خسےتا نہ پیچد عاقبت از وے بسے
ترجمہ: شیخ کسی کمینہ (مرید) سے ایک سلام ایسا نہیں سنتا۔ جس کے سبب سے انجام کار بہت سے پیچ و تاب نہ کھائے۔
مطلب: شیخ تو سمجھتا ہے کہ مرید کو طلبِ حق مدِّ نظر ہے اس لیے وہ اس کے سلام کو اخلاص پر محمول کر کے اس پر اپنی توجہ مبذول کرتا ہے۔ مگر جب وہ مرید اپنی اغراضِ فاسدہ کی بنا پر خود شیخ کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کر کے اس کے دوسرے منتسبین سے دنیوی کام نکالنے لگتا ہے تو شیخ کو ان حالات کے علم سے بڑی کلفت ہوتی ہے۔ آگے ایسے مرید کا پُر خطر ہونا بیان فرماتے ہیں:
7
گرگ در یابد ولی را بہ بودزانکہ در یابد مرو را نفسِ بد
ترجمہ: (اگر کسی) ولی (بزرگ) کو (خونخوار) بھیڑیا مل جائے تو (یہ) اس سے بہتر ہے کہ اس کو کوئی (ایسا مرید جس کا) نفس بد (ہو) مل جائے۔
مطلب: حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے۔ "مریدیکہ بطلب آید و ارادہ مشغولی نماید آں را در رنگ بز شیر باید دانست۔ و باید ترسید کہ مبادا راہِ خرابی او خواہند و استدراج او نمایند" (مکتوباتِ دفتر اول مکتوب 17)۔
8
زانگہ گرگ ارچہ کہ بس استمگریستلیکش آں فرہنگ و کید و مکر نیست
ترجمہ: کیونکہ بھیڑیا اگرچہ بہت ظالم ہے۔ لیکن اس میں وہ چالاکی اور مکر و فریب نہیں ہے۔ (جو دنیا دار مرید میں ہے)
9
ورنہ کے اندر فتادے او بداممکر اندر آدمی باشد تمام
ترجمہ: ورنہ وہ جال میں کب گرفتار ہوتا۔ پورا مکر تو آدمی میں ہی ہوتا ہے۔
10
مکر زانِ اوست کو دارد درمبشنود آواز و گوید من کرم
ترجمہ: مکر (و فریب) تو اسی (دنیادار) کا حصہ ہے جو روپیہ رکھتا ہے۔ (چنانچہ اس کے مکر کی ایک نظیر یہ ہے کہ وہ حاجتمند سوالی کی) آواز سنتا ہے اور کہتا ہے۔ میں بہرا ہوں (غرض بھیڑیے سے صرف ضررِ جانی کا اندیشہ ہے اور دنیا دار مرید سے اخلاقی، دینی، ایمانی ہر قسم کے ضرر کا احتمال ہے جو ضررِ جانی سے زیادہ بُرے ہیں)۔