دفتر ششم: حکایت: 75
جوابِ مرید و زجر کردن آں طعّانہ را از کفر و بیہوده گوئی
معتقد (درویش) کا جواب دینا اور اس طعنہ زن عورت کو کفر و بیہودہ گوئی سے روکنا
1
بانگ زد بر وَے جوان و گفت بسروزِ روشن از کجا آمد عسَس
ترجمہ: جوان نے اس (عورت) کو ڈانٹ بتائی اور کہا بس، (خاموش ہو جا) دن دہاڑے شب گرد سپاہی کہاں سے آ گیا؟ (دزد گیر کا کام رات کو پھرنا ہے۔ دن کو اس کا کیا کام۔ اسی طرح یہ عیب گیری مزوّرین میں ہو سکتی ہے۔ شیخِ کامل سے اس کو کیا تعلق)۔
2
نورِ مرداں مشرق و مغرب گرفتآسمانہا سجده کردند از شگفت
ترجمہ: (یہ مردانِ حق تو روزِ روشن کی مثل ہیں۔ چنانچہ ان) مردوں کے نور نے مشرق و مغرب کو گھیر لیا ہے۔ (حتٰی کہ) آسمانوں نے (بھی جو خود مطلعِ انوار ہیں) ان کو تعجب سے سجدہ کیا ہے۔
3
آفتابِ حق بر آمد از حُجلزیرِ چادر رفت خورشید از خِجل
ترجمہ: (جب یہ) آفتابِ حق (خلوتِ عبادت کے) حجلوں سے نکلا تو آفتاب (ظاہری) چادر کے اندر چلا گیا۔
4
تُرّہاتِ چوں تو اِبلِیسے مراکے بگرداند ز خاکِ ایں سرا
ترجمہ: تجھ جیسے ابلیس کی خرافات مجھ کو اس گھر کی خاک (بوسی) سے کب ٹلا سکتی ہے۔
5
من ببادے نامدم ہمچُوں سحابتا بگردے باز گردم زیں جناب
ترجمہ: میں (افواہی شہرت کی) ہوا سے بادل کی طرح نہیں آیا تاکہ (تیری بکواس کی) گرد سے (مکدّر ہو کر) اس بارگاہ سے واپس چلا جاؤں۔ (بلکہ اعتقادِ راسخ مجھ کو لایا ہے جو تیری بد گوئی سے زائل نہ ہو گا۔)
6
عِجل با آں نور شد قبلہ کرمقبلہ بے آں نور شد کفر و صنم
ترجمہ: اُس نور کے ہوتے گو سالہ (بھی) قبلۂ کرم بن گیا (اور) قبلہ اُس نور کے بدون کفر اور بت ہو گیا۔
مطلب: شیخ کی زوجہ نے کہا تھا کہ شیخ مثلِ گو سالہ ہے اور اس کے معتقد گو سالہ کے پجاریوں کی مانند ہیں۔ اس کے جواب میں درویش کہتا ہے کہ شیخ حق کا مظہرِ جامع ہے اور اس میں حق تعالیٰ کے وہ انوار ہیں کہ اگر وہ انوار گو سالہ میں ہوتے تو وہ گو سالہ قبلہ بن جاتا اور اگر قبلہ جو کہ شریفہ ہے، اس نور سے خالی ہوتا تو وہ قبلہ نہ ہوتا۔ بلکہ بت کی مانند ہوتا حاصل یہ کہ قبلہ مظہرِ الٰہ ہے۔ اسی لیے وہ قبلۂ عبادت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا حق کا تعلق تو تمام جہات سے ہے پھر تمام جہات کی طرف عبادت جائز ہوتی۔ حالانکہ عبادت سوائے قبلہ کے کسی طرف مشروع نہیں۔ پس اگر شیخ جو گو سالہ پرست اور اس کے معتقدین کو گو سالہ پرست مان لیا جائے تو مضر نہیں۔ کیونکہ شیخ انسانِ کامل کے افراد سے ایک فرد بھی ہیں اور مظہرِ الٰہ بھی ہیں۔ اس لیے وہ خلیفہ ہو گئے۔ اگرچہ وہ اپنی صورت عنصریہ سے اسمِ ہادی کے مظہر ہیں۔ مگر اپنی حقیقت اور باطن کے لحاظ سے تمام اسماء کے مظہر ہیں، اور ایسے انسانِ کامل میں الوہیت کا مرتبہ ہے۔ اس لیے اس کا ظاہر اپنے باطن کا عابد ہوتا ہے جو کہ الٰہ ہے۔ مولانا نے اسی مرتبہ کو نور سے تعبیر کیا ہے: (بحر العلوم)
7
ہست اباحت کز ہوا آمد ضلالہست اباحت کز خدا آمد کمال
ترجمہ: (اباحت کی بھی دو قسمیں ہیں چنانچہ) جو ’’اباحت‘‘ ہوائے نفسانی سے ہو وہ تو گمراہی ہے۔ (شیخ اس سے پاک ہیں اور) جو ’’اباحت‘‘ خداوند تعالیٰ کی طرف ہو وہ کمال ہے۔ (شیخ اسی پر عامل ہیں)۔
مطلب: یہ عورت کے اس طنز کا جواب کہ ”ایں اباحت زیں جماعت فاش شد“ حاصلِ جواب یہ کہ اباحتِ محمود ہی اس جماعت کا شیوہ ہے۔ اباحتِ مذموم سے یہ جماعت بری ہے۔ حق تعالیٰ جب کسی حکمت سے کسی امر کی اباحت کا حکم دیتا ہے تو اس پر عمل کرتے ہیں نفس کی خواہش سے کسی امر کو مباح نہیں کرتے۔
8
كفر ایماں گشت و دیو اسلام یافتآں طرف کاں نورِ بے اندازه تافت
ترجمہ: جدھر وہ بے پایاں نور درخشاں ہوا (اس کی برکت سے) کفر ایمان بن گیا اور شیطان مسلمان ہو گیا۔
مطلب: رضائے حق اور مشیتِ حق کا نور جدھر درخشاں ہوا اور اس نے جس امر کو مباح ٹھہرایا ہے وہ اگر تم لوگوں کی نظر میں کفر بھی ہے تو عارف کے لیے بمنزلۂ ایمان ہے۔
9
مظہرِ عشق ست و محبوب بحقاز ہمہ کرّ و بیاں بُرده سبق
ترجمہ: وہ (شیخ) مظہرِ عشق ہے اور محبوب بحق ہیں۔ (اس لیے) تمام ملائکہ سے سبقت لے گئے۔ (خواصِ بشر کا تمام ملائکہ سے افضل ہونا مسلّم ہے۔)
10
سجده آدم را بیانِ سَبقِ اوستسجده آرد مغز را پیوستہ پوست
ترجمہ: (چنانچہ) آدم علیہ السلام کو (ملائکہ کا) سجدہ کرنا آدم علیہ السلام کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (کیونکہ) پوست ہمیشہ مغز کو سجدہ کرتا ہے۔ (یعنی ادنیٰٰ اعلٰی کو سجدہ کرتا ہے۔ شیخ بھی آدم علیہ السلام کے فرزند اور ان کے کمالات سے بہره مند ہیں۔ لہٰذا ملائکہ سے افضل ہوئے)۔
11
شمعِ حق را پَف کنی تو اے عجوزہم تو سوزی ہم سرت اے گنده پُوز
ترجمہ: اے بڑھیا! تو شمعِ حق کو پھونک مار (کر بجھانے کی کوشش کر) رہی ہے۔ (شمع تو کیا بجھے گی) اے گنده دہن! تو ہی جل جاوے گی (اور) تیرا سر بھی، (جو پھونک مارنے کے لیے شمع کے قریب آ رہا ہے)۔
کما قیل ؎
چراغے کہ ایزد بر فروزدہر آنکو پف کند ریشش بسوزد
12
کے شود دریا ز پوزِ سگ نجسکے شود خورشید از پف منطمس
ترجمہ: (اور شیخ کا تیری اس بد گوئی سے کچھ نہیں بگڑتا۔ بھلا) دریا کتے کی تھوتھنی (پڑنے) سے کب گنده ہوتا ہے؟ (اور) پھونک مارنے سے آفتاب کب محو ہوتا ہے؟
13
حکم بر ظاہر اگر ہم مے کنیچیست ظاہر تر بگو زیں روشنی
ترجمہ : اگر (تجھ کو شیخ کے باطنی کمالات کا ادراک نہیں اس لیے) تو ظاہر پر ہی حکم کرتی ہے۔ تو (شیخ کے) اس (تقوی کی) روشنی سے ظاہر تر بتا کون سی چیز ہو گی؟
14
جملہ ظاہر ہا بہ پیشِ ایں ظہورباشد اندر غایتِ نقص و قصور
ترجمہ: تمام ظاہر ہونے والی چیزیں (شیخ کے) اس ظہور کے سامنے (نمایاں ہونے کے لحاظ سے) نہایت کمی اور کوتاھی میں (ثابت) ہوں گی۔
15
ہر کہ برشمعِ خدا آرد پفوشمع کے میرد بسوزد پوزِ او
ترجمہ: جو شخص خدا کی شمع پر پھونک مارے گا تو شمع کب بجھ سکتی ہے اسی کا منہ جل جائے گا۔
16
چوں تو خفّاشاں بسے بینند خوابکایں جہاں ماند یتیم از آفتاب
ترجمہ: تجھ جیسی چمگادڑیں بہتیرے خواب دیکھتی ہیں کہ یہ جہان آفتاب کی روشنی سے محروم رہ جائے۔ (مگر ان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تو چاہتی ہے کہ جہان شیخ کے فیض سے محروم رہ جائے۔ تیری بھی یہ آرزو پوری نہ ہو گی۔)
17
موجہاۓ تیزِ دریاہائے روحہست صد چندانکہ بُد طوفانِ نوح
ترجمہ: (بلکہ اس قسم کے انکار سے وبال پڑنے کا اندیشہ ہے کیونکہ) روح کے دریاؤں کی تیز موجیں (ایسی ہیں کہ) جتنا طوفان نوح تھا اس سے سو حصے زیادہ ہیں۔
18
لیکن اندر چشمِ کنعان موئے رُستنوح و کشتی را بہشت و کوہ جُست
ترجمہ: لیکن (حضرت نوح علیہ السلام کے فرزند) کنعان کی آنکھ میں (غلط بینی کا) بال اُگ پڑا۔ (اس لیے) اس نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی کو چھوڑا اور پہاڑ کا طالب ہوا۔ (چنانچہ اس نے کہا تھا)۔ ﴿سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ﴾ (ھود:43)
19
کوہ و کنعاں را فرو بُرد آں زماںنیم موجے تا بقعرِ امتہاں
ترجمہ: ایک ذرا سی موج نے اس وقت پہاڑ اور کنعان (دونوں) کو ذلت کی گہرائی میں غرق کر دیا۔
مطلب: ارواحِ کاملین کی موجیں طوفانِ نوح کی موجوں سے بھی زیادہ خطرناک اور پُر ہیبت ہیں۔ پس کاملین کے منکروں پر کنعان کی طرح وبال پڑنے کا خوف ہے۔
20
مہ فشاند نور و سگ وع وع کندسگ ز نورِ ماہ کَے مُرتع کند
ترجمہ: چاند نور افشانی کرتا ہے اور کتا بھوں بھوں کرتا ہے۔ کتا نورِ ماہ سے کب فائدہ اٹھاتا ہے۔ (اسی طرح کاملینِ اہل اللہ سے نفرت رکھنے والے بمنزلہ کلاب ہیں۔)
21
شبروان و ہمرہانِ مہ بتگترکِ رفتن کے کنند از بانگِ سگ
ترجمہ: رات کو سفر کرنے والے اور چاند کے ساتھی کتے کی آواز سے (متاثر ہو کر) کب چلنا بند کرتے ہیں؟ (اسی طرح تیری بد گوئی کے باعث ہم شیخ سے کب منحرف ہوتے ہیں۔)
22
جزو سوئے کل رواں مانندِ تیرکے کند وقف از پَئے ہر گند پیر
ترجمہ: (کیونکہ جو) جزو (اپنے) کُل (کے اتباع میں اس) کی طرف تیر کی طرح جا رہا ہے۔ وہ کسی بڑھیا (کی بکواس) کی وجہ سےکب ٹھہرتا ہے؟ (’’گند پیر‘‘ بضمِ کاف فارسی بلا ہا بعد دال پڑھو۔ اس کی تحقیق پہلے دو جگہ گزر چکی)۔
23
جانِ شرع و جانِ تقویٰ عارف ستمعرفت محصولِ زہدِ سالِف ست
ترجمہ: عارف تو شرع و تقوٰی کی جان ہے۔ (کیونکہ اس کو جو) معرفت (حاصل ہے۔ وہ اس کے) سابقہ زہد (و تقوی) کا ثمرہ ہے۔ (یہ عجوزہ کے اس طعن کا جواب ہے کہ شرع و تقوٰی را فگنده سوئے پشت۔)
24
زہد اندر کاشتن کوشیدن ستمعرفت آں کِشت را روئیدن ست
ترجمہ: زہد (گویا) بونے میں کوشش کرنا ہے (اور) معرفت اس کھیتی کی پیداوار ہے۔
25
پس چو تن باشد جہاد و اعتقادجانِ ایں کِشتن نبات و حصاد
ترجمہ: پس (اس بنا پر عملِ صالح کا) مجاہدہ اور عقائد (صحیحہ کا التزام) بدن کی مانند ہوئے (اور) اس (عمل و اعتقاد کی) کاشت کا مقصود (کھیتی کا) اگنا اور (اس کا) کاٹنا ہے۔
26
امرِ معروف او و ہم معروف او ست کاشفِ اسرار و ہم مکشوف او ست
ترجمہ: وہ (خود مجسم) امرِ معروف بھی ہیں اور پسندیدہ بھی۔ وہ کاشفِ اسرار بھی ہیں اور خود ہی رازِ مکشوف بھی۔ (یعنی رازِ باطنی سے متصف ہیں۔ یہ بڑھیا کے اس طعن کا جواب ہے۔ ع کو عمر کو امر معروف درشت۔)
27
شاہِ امروزینہ و فردائے ما ستپوست بندهٔ مغز نغزش دائم است
ترجمہ: وہ آج (دنیا میں) اور کل (عقبٰی میں) ہمارے بادشاہ ہیں (اور ہم ان کی رعایا ہیں کیونکہ قاعدہ ہے کہ) پوست ہمیشہ اپنے عمده مغز کا غلام ہے۔
28
چوں اَنَا الحَق گفت شیخ و پیش بُردپس گلوئے جملہ کوراں را فشرد
ترجمہ: (شیخ کے بعض احوال و اقوال سے مخالفتِ شرع کا شبہ بھی فضول ہے۔ کیونکہ مثلاً) جب شیخ (منصور حلّاج رحمۃ اللہ علیہ) نے اَنَا الحَق کہا اور (حدِ شرع سے بظاہر) آگے نکل گئے تو (اہلِ بصیرت نے اس کو خلافِ شرع نہیں سمجھا۔ ہاں) تمام بے بصیرت لوگوں کا گلا (غصہ و غضب سے) گھونٹ ڈالا۔ (یہی حال ہمارے شیخ کا ہے۔)
29
چوں انایِ بندہ لا شد از وجودپس چہ ماند تو بیندیش اے جَحود
ترجمہ: (کلمہ انا الحق ان کی زبان سے خلافِ شرع نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) جب بنده کی ہستی وجود (ذہنی) سے نفی ہو گئی پھر کیا رہ گیا؟ تو ہی سوچ لے اے منکر!
30
گر ترا چشم ست بکشا درنِگربعدِ لا آخر چہ مے ماند اگر
ترجمہ: اگر تیری (بصیرت کی) آنکھ ہے تو اسے کھول (اور) دیکھ کہ نفی (وجود) کے بعد آخر اور کیا (باقی) رہ جاتا ہے؟
31
اے بُریدہ آں لب و حلق و دہاںکہ کند تف سوئے ماہ و آسماں
ترجمہ: ارے! وہ لب اور حلق اور منہ کٹ جاوے (تو اچھا ہے) جو چاند اور آسمان کی طرف تھوکے۔
32
تف برویش باز گردد بے شکےتف سویِ گردوں نیابد مسلکے
ترجمہ: تھوک بلا شبہ اسی (تھوکنے والے) کے منہ پر واپسں پڑے گا۔ تھوک آسمان کی طرف راہ نہیں پاتا۔
33
تا قیامت تف برو بارد ز ربّہم چو تَبَّتْ بر روانِ بو لہب
ترجمہ: (بلکہ) اس (بد گو) پر قیامت تک پروردگار کی طرف سے (لعنت کا) تھوک برستا ہے، جس طرح ابو لہب کی جان پر (﴿تَبَّتْ يَدَآ اَبِىْ لَـهَبٍ﴾ (اللہب: 1) کی بد دعا) برستی رہے گی۔
34
طبل و رایت ہست ملکِ شہریارسگ کسے کہ خواند او را طبل خوار
ترجمہ: (شیخ کی طبل خواری کے طعنہ کا جواب یہ ہے کہ) نقارہ اور جھنڈا (ایسے) بادشاہ کی ملکیت ہیں۔ کتا ہے وہ شخص جو اس کو طبل خوار (یعنی پُرخور اور حریص) کہے۔
35
آسمانہا بندۂ ماہِ وَے اندشرق و مغرب جملہ نان خواہِ وَے اند
ترجمہ (حریص تو وہی شخص ہوتا ہے جو محتاج ہو حالانکہ شیخ ملکِ باطن کا وہ بادشاہ ہے کہ) آسمان (سب کے سب) اس کے ماہِ (انوار) کے غلام ہیں۔ (اور) مشرق و مغرب سب اس سے روٹی مانگنے والے ہیں۔
36
زانکہ لَولاک است بر تو قیعِ اوجملہ در انعام و در توزیعِ او
ترجمہ: کیونکہ اس کے فرمان (شاہی) پر لولاک (کا طغرا منقش) ہے (اور باقی) سب مخلوق اس کے انعام اور بخشش میں (داخل) ہے۔
مطلب: لولاک سے اشارہ ہے اس حدیث مشہور کی طرف کہ ’’لَوْ لاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَکَ‘‘ (کنز العمال ۱۱/۱۹۴) یعنی ”اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا“۔ اور یہ مضمون خاص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہاں آپ کے توسط سے باقی تمام مقبولین بھی اس شرف سے بہرہ مند ہیں۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مخلوقات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ ان مقبولین کے انعام و اکرام کا سامان ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَكُم مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيعًا﴾ (البقرۃ: 29)۔ آگے لولاک کے اجمال کی تفصیل ارشاد ہے:
37
گر نبودے او نیابیدے فَلکگردش و نور و مکانیِّ مَلَک
ترجمہ: اگر وہ نہ ہوتے تو آسمان کو گردش اور (شمس و قمر اور نجوم کا) نور اور فرشتوں کی قرار گاہ (ہونے کی فضیلت) نہ ملتی۔
38
گر نبودے او نیابیدے بحارہیئتِ ماہی و دُرِّ شاہوار
ترجمہ: اگر وہ نہ ہوتے تو سمندروں کو مچھلی اور درِّ شاہوار کی شکل (دیکھنی) نصیب نہ ہوتی۔
39
گر نبودے او نیابیدے زمیںدر درُو نہ گنج و بیروں یاسمیں
ترجمہ: اگر وہ نہ ہوتے تو زمین کو اپنے باطن میں خزانہ اور ظاہر پر پھول پھلواڑی نہ ملتی۔
40
گر نبودے او نیابیدے جبالزرّ و لعل و مومیائی بے سوال
ترجمہ: اگر وہ نہ ہوتے تو پہاڑوں کو سونا اور لعل اور مومیائی نہ ملتی (جو اسے) بلا سوال (حاصل ہیں)۔
41
گر نبودے او نیابیدے جہاںبے تقاضا رزقہائے بیکراں
ترجمہ: اگر وہ نہ ہوتے تو جہاں کو (یہ) بن مانگے رزقِ بے شمار نہ ملتا-
42
رزقہا ہم رزق خواراں وَے اندمیوہ ہا لب خشکِ باراں وَے اند
ترجمہ: (بلکہ خود) رزق بھی اس کے رزق خوار ہیں۔ میوے اس کی بارش کے (محتاج اور) پیاسے ہیں۔ (آگے اس مضمون پر بطورِ لطیفہ ایک تفریع ہے:)
43
ہِیں کہ معکوس ست در امر ایں گِرهصدقہ بخشِ خویش را صدقہ بدِه
ترجمہ: (آگاہ رہو کہ صیغہ) امر میں یہ عقده اُلٹا ہے کہ اپنے خیرات دینے والے کو خیرات دو۔
44
از فقیر ستت ہمہ زرّ و حریرہِیں زکاتے دِہ غنی را اے فقیر
ترجمہ: (واقع میں) تیرے پاس سب سونا اور ریشم (وغیره قیمتی مال) فقیر کی طرف سے ہے۔ ہاں اے فقیر! غنی کو زکوٰۃ دے۔
مطلب: اوپر یہ ثابت ہو چکا کہ جو کچھ عالم میں ہے سب مقبولانِ حق کی بدولت ہے۔ پس اگر کوئی مقبول بظاہر غیر متموّل ہو اور کسی دنیادار متموّل کو کہا جائے کہ تو اس مقبولِ عالی کی خدمت کر، تو یہ بات الٹی ہے۔ کیونکہ حقیقت میں یہ مالدار اس مقبول کا طفیلی اور محتاج ہے۔ یعنی وہ مقبول بندۂ غنی ہے اور دنیا دار متموّل فقیر ہے۔
پس بندۂ مقبول کے لیے دنیادارِ متموّل سے مالی خدمت کی فرمائش کرنا گویا یوں کہنا ہے کہ اے فقیر! تو غنی کو کچھ دے۔ صحیح بات یہی ہے۔ اور یوں کہنا کہ اے مالدار! تو فقیر کو کچھ دے، الٹی بات اور غیر صحیح ہے۔ آگے وہ درویش پھر اس عورت سے خطاب کرتا ہے:
45
چوں تو ننگے جفتِ آں مقبولِ روحچوں عيالِ کافر اندر عقدِ نوحؑ
ترجمہ: اس مقبول رُوح والے (بزرگ) کی بیوی تجھ جیسی (عورت ہے جو) باعثِ عار (ہے) جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے نکاح میں کافر بیوی (تھی)۔
46
گر نبودے نسبتِ تو زیں سراپارہ پارہ کردمے ایں دم ترا
ترجمہ: اگر تیرا تعلق اس گھر سے نہ ہوتا تو اس وقت میں تجھ کو (تیرے گستاخانہ کلام کی پاداش میں) ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا۔
47
دادمے آں نوح را از تو خلاصتا مشرّف گشتمے من در قصاص
ترجمہ: (اور) اس نوح (صفت شیخ) کو تجھ سے نجات دلاتا یہاں تک کہ میں (شیخ کی حمایت کرتا ہوا) قصاص میں (جان دے ڈالنے کی فضیلت سے) مشرف ہوتا۔
48
لیک با خانۂ شہنشاهِ زمنایں چنیں گستاخی ناید ز من
ترجمہ: لیکن شاہِ زمانہ کے گھر کے ساتھ ایسی گستاخی مجھ سے نہیں ہو سکتی۔
49
رَو دعا کُن کہ سگِ ایں موطنیورنہ اکنوں کردمے من کردنی
ترجمہ: جا (شیخ کی جان کو) دعا دے کہ تو (ان کے) اس گھر کی کتیا ہے(اس لیے میرے ہاتھ سے بچ نکلی) ورنہ مجھے اس وقت جو کچھ کرنا تھا کر ڈالتا۔