دفتر 6 حکایت 72: (بادشاہ کا) گنجنامہ کو اس فقیر کے حوالہ کر دینا (اور کہنا) کہ ہم اس سے باز آئے

دفتر ششم: حکایت: 72



تسلیم گنجنامہ بآں فقیر کہ ما ازاں بگذشتیم

(بادشاہ کا) گنجنامہ کو اس فقیر کے حوالہ کر دینا (اور کہنا) کہ ہم اس سے باز آئے

1

چونکہ رقعۂ گنجِ پُر آشوب را شہ مسلّم داشت آں مکرُوب را

ترجمہ: جب گنجِ پُر آشوب کا رقعہ بادشاہ نے اس غمزده (فقیر) کے سپرد کردیا۔

2

گشت او ایمن زِ خصماں و زِ نیش رفت و می پیچید در سودائے خویش

ترجمہ: وہ مخالفین اور (اُن کی) نیش (زنی) سے بے خطر ہو گیا۔ (دربار سے) رخصت ہوا اور اپنے (اسی) خیال میں (غلطاں و) پیچاں رہنے لگا۔

3

یار کرد او عشقِ دُور اندیش را کلب لیسد خویش ریشِ خویش را

ترجمہ: اس نے عشِق دور اندیش کو (اس مہم میں اپنا) رفیق بنالیا۔ کتا اپنے زخم کو آپ ہی چاٹنا ہے۔

مطلب: یہاں ظاہرًا شُبہ ہوتا ہے کہ اوپر کے اشعار میں عشق کو غرض و غایت سے بے پروا کہا تھا۔ یہاں اسے دور اندیش کہا ہے یعنی دور کی غایت سوچنے والا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں غایت کو دیکھنا اور ملحوظ رکھنا مُراد نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ غایت سے بھی آگے نکل کر بلا قصد غایت کا کام کرتا ہے۔ سگ کی مثال سے یہ مُدعا ہے کہ عاشق اپنے عشق کے فہم میں کسی رفیق کی مدد نہیں چاہتا۔ بس عشق ہی اس کا رفیق ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

4

عِشق را در پیچشِ خود یار نیست محرمش در دِہ یکے دیّار نیست

ترجمہ: عشق کا اپنے پیچ (و تاب) میں کوئی رفیق نہیں ہے۔ اس کا محرم بستی میں کوئی گھر والا نہیں ہے۔

5

نیست از عاشِق کسے دیوانہ تر عقل از سودائے او کور ست و کر

ترجمہ: عاشق سے زیادہ دیوانہ کوئی نہیں (جس کو انجام کی پروا نہیں) عقل اس کے خیالات سے اندھی اور بہری ہے۔

6

زانکہ ایں دیوانگی عام نیست طِبّ را ارشادِ ایں احکام نیست

ترجمہ: کیونکہ یہ جنوں عام نہیں ہے (جس کا ذکر طب میں ہو)۔ طب کو ان احکام کی رہبری نہیں (جو جنونِ عشق سے متعلق ہیں)۔

7

گر طبیبے را رسد زیں گوں جُنوں  دفترِ طب را فرو شوید بخوں

ترجمہ: اگر کسی طبیب کو اس قسم کا جنون (عشق) ہو جائے ۔ تو وہ (گریۂ عاشقانہ سے اپنی) طب کو (لوحِ حافظہ سے) خون کے ساتھ دھو ڈالے۔

8

طِبِّ جُملہ عقلہا مدہوشِ اوست رُوئے جملہ دلبراں روپوشِ اوست

ترجمہ: تمام عقلوں کی طب اس (عشق) کے آگے مدہوش ہے (اور) تمام دلبروں کا چہرہ اس (عشق) کا برقع ہے۔ (یعنی عشق کا جمال ان چہروں میں مخفی ہے۔ صورت پرستوں نے صرف چہروں کو مقصود سمجھ لیا اور وہ ان پر فریفتہ ہو گئے۔ مگر اہلِ حقیقت خود عشق کو مقصود سمجھتے ہیں۔)

9

رُوی در رُوی خود آر اے عشق کیش نیست اے مفتوں ترا جُز خویش خویش

ترجمہ: (جب یہ بات ہے) تو اے عاشق! اپنی توجہ اپنی طرف کر (اور کسی کو رفیق نہ بنا کیونکہ) اے مفتون! (اس راہ میں) سوائے اپنے تیرا کوئی خویش نہیں۔

10

قبلہ از دل ساخت آمد در دُعا لَيسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی

ترجمہ: (غرض) اس (فقیر) نے دل (کی حضوری) سے (توجہ الى اللہ کو) قبلہ بنایا (اور) دُعا میں مشغول ہوا۔ (اس لیے کہ) انسان کو بجز اس کے کچھ نہیں ملتا جس کے لیے وہ سعی کرے۔

11

پیش ازاں کو پاسخے نشنیده بُود سالہا اندر دُعا پیچیده بُود

ترجمہ: (اور اب کیوں نہ دل سے دُعا کرتا) وہ تو اس وقت سے قبل بھی جبکہ اس نے (عالمِ غیب سے) کوئی جواب نہیں سنا تھا، برسوں دُعا میں غلطاں (و پیچاں) رہا۔

12

بے اجابت بر دُعاہا مے تنيد از کرم لبّیکِ پنہاں مے شنيد

ترجمہ: (اور) اجابت (کی بشارت) کے بدون ہی دُعاؤں پر مستعد رہتا تھا (خدا کے) کرم سے مخفی لبیک سنتا تھا۔

13

چونکہ بے دف رقص می کرد آں علیل زِ اعتمادِ جُودِ خلّاقِ جلیل

ترکیب: اس شعر سے لے کر اگلے دو شعر سمیت تینوں شعر شرط واقع ہوئے جن کی جزا مقدر ہے۔

ترجمہ: جب کہ دف کے بدون ہی وہ بیمار (عشق) رقص کرتا تھا۔ خلّاقِ خلیل (تعالیٰ شانہٗ) کی بخشش پر بھروسا رکھنے کی وجہ سے۔

14

سُوئے او نے ہاتف و نے پیک بود گوشِ امّیدش پُر از لبّیک بُود

ترجمہ: (حالانکہ) اُس کی طرف نہ ہاتف (مخاطب) تھا نہ قاصد۔ (تاہم) اُس کے اُمید کے کان (ایک مخفی) لبیک (کی آواز) سے پُر تھے۔

15

بے زباں می گفت امیدش تَعَال از دِلش می رفت آں دعوت ملال

ترجمہ: (اور) اس کی اُمید زبان (و الفاظ) کے بدون کہتی تھی، چلے آؤ۔ (اور) وہ دعوت اُس کے دِل سے گردِ ملال کو صاف کر دیتی تھی۔ (تو پھر وہ کیوں دُعا نہ کرتا؟)

مطلب: ان تینوں شعروں کا مضمون شرط تھا۔ اور اس کی جزا مقدر ہے جو اوپر ظاہر کر دی گئی۔ مطلب یہ کہ جب ایسی حالت میں بھی وہ دُعا میں متامّل نہیں ہوا جب کہ شوق کے اسباب موجود نہ تھے۔ تو اب جب کہ شوقِ دُعا کے اسباب موجود ہو گئے، یعنی بشارتِ غیبی اور خطابِ ہاتف و نشان یابیِ خزانہ اور بہم رسانیِ رقعہ، تو پھر اب دُعا کیوں نہ کرتا۔ ان اسباب کے ہوتے تو اس کی یہ حالت تھی کہ اگر دُعا سے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی جاتی تو بھی وہ اس سے دست بردار ہونے والا نہ تھا۔ آگے یہی فرماتے ہیں:

16

آں کبوتر راکہ بام آموختہ ست تو مخواں میرانش کاں پر دوختہ ست

ترجمہ: اس کبوتر کو جو کوٹھے کا (قیام) سیکھا ہوا ہے۔ مت بلاؤ (بلانے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ بے بلائے بھی مانوس ہے۔ ہاں ذرا) اس کو ہٹاؤ تو سہی (دیکھو وہ اب بھی جانے والا نہیں۔) کیوں کہ (وہ اس قدر جما ہے گویا) اس کے پر سِلے ہوئے ہیں۔

مطلب: فقيرِ داعی کو ’’کبوترِ بام آموختہ‘‘ سے تشبیہ دی ہے کیونکہ وہ پہلی بشارت اور خطابِ ہاتف کی وجہ سے دُعا کے ساتھ مانوس ہو چکا تھا۔ جس طرح پالتو کبوتر بام سے مانوس ہوتا ہے۔ باقی مطلب یہ ہے کہ اب اُس کو دُعا کی ترغیب کی ضرورت نہ تھی کہ اب وہ خود ہی دُعا سے باز رہنے والا نہ تھا۔ بلکہ اگر اس کو اس سے منع بھی کیا جاتا تب بھی دعا کو چھوڑ نہیں سکتا تھا کہ وہ اس کے لیے لازم ہو چکی تھی۔ فقیر کے اس شدّتِ شوق کے تذکرہ سے جو اس کے انتہائی عشق پر مبنی تھا، مولانا کو جوش آگیا۔ اس لیے آگے مولانا حسام الدین کو مخاطب کر کے مستانہ و عاشقانہ کلام شروع فرماتے ہیں:

17

اے ضیاء الحق حسام الدین برانش کز ملاقاتِ تو بر رستست جانش

ترجمہ: اے ضیاء الحق حسام الدين! تم (اپنے) اس (مشتاق و گرویدہ) کو نکالو (تو سہی، کہ وہ ہرگز نکلنے والا اور جانے والا نہیں) کیونکہ تمہارے ہی رابطہ سے اس کی روح کو نشو و نما حاصل ہوا ہے۔ (پھر وہ اپنے مربّی روح کے پاس سے کیوں جانے لگا؟)

18

گر برانی مُرغِ جانش را از گزاف ہم بگردِ بامِ تو آرد طواف

ترجمہ: اگر (اس) طائرِ روح کو بے وجہ (بھی) نکال دو گے تو بھی تمہارے کوٹھے کے گِرد چکّر لگاتا رہے گا۔

19

چینہ و نُقلش ہمہ بر بامِ تُست پر زنان بر اوجِ مستِ دامِ تُست

ترجمہ: (کیونکہ) اس کا دانہ اور غذا سب تمہارے کوٹھے پر ہے (اس لیے) وہ بلندی پر اُڑتا ہوا بھی تمہارے دام (میں گرفتار رہنے) کا عاشق ہے۔

نکتہ: ’’از گزاف‘‘ بمعنی بے وجہ میں مبالغہ ہے۔ اس طرح سے کہ بے وجہ نکالنے میں احتمال رنج و کینہ کا ہو سکتا ہے۔ جب اس سے بھی اس کو تکدّر نہ ہوا تو اگر کسی وجہ صحیح، مثلًا اس کی کسی خطا پر یہ طرد ہو جس میں اس کو خود اپنی خطا پر ندامت ہو گی تب تو بدرجۂ اولیٰ اس کے بام پر آنے میں خلل نہ آۓ گا (کلید)۔

20

گر دمے منکر شود دُزدانہ روح در ادائے شکرت اے گنجِ فتوح

21

شحنۂ عشقِ مکرّر کینہ اش طشتِ پُر آتش نہد بر سینہ اش

ترجمہ: اے گنجِ فتوح! اگر کسی وقت (یہ عاشق) رُوح (محبت کے) چوروں کی طرح آپ کا شکر ادا کرنے سے منکر (نما غافل بھی) ہو جاتی ہے۔ تو اس کا شحنۂ عشق جو کینے پر کینہ نکالنے والا ہے۔ اس کے سینے پر سوزِ عشق کا طشتِ پُر آتش رکھ دیتا ہے۔

مطلب: عاشقانِ حق سے بھی احياناً بتقاضائے بشریت حقوقِ عشق کے ادا کرنے میں غفلت ہو جاتی ہے۔ مگر چونکہ قلب عشق سے معمور ہے۔ پھر اس کا غلبہ ان کو سابقہ حالت پر لے آتا ہے اور ان کو اس غفلت پر سخت ندامت ہوتی ہے۔ اس ندامت و حسرت کو طشتِ پُر آتش سے تشبیہ دی ہے۔ ہم نے ترجمہ میں منکر کو منکر نما غافل سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ عاشقوں کو اعتقاداً ادائے حقوقِ عشق سے انکار نہیں ہوتا بلکہ محض غفلت ہو جاتی ہے۔ جو صورۃً انکار سے مشابہ ہے۔ غرض وہ شحنۂ عشق اس عاشق کو جس سے احياناً غفلت کا وقوع ہو جاتا ہے کہتا ہے:

22

کہ بیا سوئے مہ و بگذر زِ گرد شاہِ عشقت خواند زُو تر باز گرد

ترجمہ: کہ (عبادات کے) چاند کی طرف آؤ اور (معاصی کے) غبار کو چھوڑو۔ تم کو شاہِ عشق نے بلایا ہے۔ جلدی واپس چلو۔

مطلب: ’’شحنۂ عشق‘‘ سے خود عشق اور ’’شاہِ عشق‘‘ سے محبوبِ حقیقی مُراد ہے۔ یعنی عشق پھر دامن کشاں محبوبِ حقیقی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ آگے پھر اوپر کے مضمون کی طرف عود ہے، یعنی اے ضیاء الحق حسام الدین! وه طائرِ روح آپ کے قرب کو چھوڑ نہیں سکتا اور وہ کہتا ہے:

22

گردِ ایں بام و کبوتر خانہ من چوں کبوتر پر زنم مستانہ من

ترجمہ: میں (آپ کے) اس بام اور کبوتر خانہ کے گرد کبوتر کی طرح مستانہ پرواز کر رہا ہوں۔

24

جبرئیلِ عشقِم و سدرَم توئی من سقیمم عیسےِ مریم توئی

ترجمہ: میں عشق کا جبرائیل ہوں اور آپ میرے سدرة (المنتھیٰ) ہیں (جہاں جبرئیل کا ٹھکانا ہے)۔ میں (عشق کا) بیمار ہوں (اور) آپ (میرے لیے بمنزلہ) عیسےٰ بن مریم ہیں۔ (جن سے بیمار شفایاب ہوتے تھے۔)

25

جوش دہ آں بحرِ گوہر بار را خوش بپرس امروز ایں بیمار را

ترجمہ: (اپنے فیوض و برکات کے) اُس دریائے گوہر بار کو جوش میں لائیے (جو نا پیدا کنار ہے۔) آج اس بیمار کو اچھی طرح پوچھ لیجئے۔ (کہ عشق میں اس کا کیا حال ہے؟)

26

چوں تو آنِ او شدی بحر آنِ تُست گرچہ ایں دم نوبتِ بُحرانِ تُست

ترجمہ: (اے عاشق!) جب تو اس (محبوبِ حقیقی واحد) کا ہو جائے تو وہ دریائے (احدیت) تیرا ہوجاتا ہے۔ ’’مَنْ كَانَ لِلهِ كَانَ اللّٰهُ لَهٗ…‘‘ اگرچہ ابھی تو تیرے بُحران کی باری ہے۔

مطلب: جس طرح بُحران میں طبیعت اور مرض میں معرکہ برپا ہوتا ہے یہ ایک خطرناک حالت ہے۔ اسی طرح اب فنا فی العشق سے پہلے تذبذب کی حالت ہے۔ آگے مولانا پر توحید کا غلبہ ہوتا ہے اور اس حالت میں کہتے ہیں کہ میں نے جو ان اشعار میں نالۂ عاشقانہ کیا ہے تو یہ بھی میری طرف سے نہیں بلکہ خود حضرتِ محبوب کی طرف سے ہے۔ اور وہ آہ و نالہ بھی سارا نہیں بلکہ اس میں سے بقدرِ قلیل ہے۔ یعنی:

27

ایں خود آں نالہ ست کو کرد آشکار زانچہ پنہاں ست یا رب زینہار

ترجمہ: یہ (تو صرف) وہی نالہ (و زاری) ہے جس کو اس (محبوب حقیقی) نے (میری زبان پر) ظاہر کر دیا ہے (اور) جس قدر (ابھی) مخفی ہے۔ (وہ اس کثرت سے ہے کہ اس سے) خدا کی پناہ۔

مطلب: پناه جوئی کا ذکر محض نالہ کی ہیبت اور کثرت ظاہر کرنے کے لیے کیا ہے ورنہ وہ نالہ خیرِ محض ہے۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ نالہ کی نسبت جو حضرتِ حق کی طرف کی اس کی توجیہ مشہور ہے کہ جب عبد کا اختیار فنا بمعنی مغلوب معدوم ہو جاتا ہے۔ یا سالک اس کا مشاہد نہیں کرتا تو صدور کی نسبت مضمحل ہو کر خلق ہی کی نسبت مطمح نظر رہ جاتی ہے۔ اور اس کا منسوب الیہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ ہیں (انتہٰی)۔ آگے بھی ان آثارِ عشقیہ کے منجانب اللہ ہونے کا ذکر فرماتے ہیں:

28

دو دہاں داریم گویا ہمچو نے یک دہاں پنہاں ست در لب ہائے وے

ترجمہ: ہم ’’نے‘‘ کی طرح دو مُنہ رکھتے ہیں (جن میں سے) ایک منہ اس (محبوبِ حقیقی) کے لبوں میں چھپا ہوا ہے۔

29

یک دہاں نالاں شدہ سوئے شما ہائے ہوئے درفِگنده در ہوا

ترجمہ: ایک مُنہ تم لوگوں کی طرف نالاں ہو رہا ہے (اور) اُس نے ہاؤ ہو (کا شور) فضائے عالم میں ڈال رکھا ہے۔

30

لیک داند ہر کہ او را منظر ست کہ فغانِ ایں سرے ہم زاں سر ست

ترجمہ: لیکن (اس کو) وہی جانتا ہے جس کو نظرِ (معرفت حاصل) ہے کہ اس طرف کا فغان بھی اُسی طرف سے ہے۔

31

دمدمہ ایں نائے از دمہائے او ست ہائے ہوئے روُح از ہیہائے او ست

ترجمہ: اِس ’’نے‘‘ کا شورِ بلند اُس (محبوبِ حقیقی) کی پھونکوں سے ہے (اور) روح کا ہاؤ ہو اس (محبوبِ حقیقی) کے ہاؤ ہو سے ہے۔

32

گر نبودے با لبش نے را سمر نے جہانے پُر نکردے از شکر

ترجمہ: اگر ’’نے‘‘ کی قصہ گوئی کا اس (محبوب حقیقی) کے لبوں سے تعلق نہ ہوتا تو ’’نے‘‘ ایک عالم کو شکر سے پُر نہ کر دیتی۔

مطلب: عاشق کے کلمات و نغمات اور اس کی گریہ و زاری منجانب اللہ ہے۔ اسی وجہ سے اس سے یہ جذبات و تاثیرِ عشقیہ جو اپنے شیرین انجام کے لحاظ سے بمنزلۂ شکر ہیں، جہاں میں فائض ہو رہے ہیں۔

33

با کہ خفتی وز چہ پہلو خاستی کہ چنیں پُر جوش چُوں دریاستی

ترجمہ: (اے ضیاء الحق حسام الدین!) آپ (شب کو) کس کے ساتھ سوئے تھے اور کس پہلو سے (جاگتے) اٹھے ہو؟ کہ اس طرح دریا کی مانند پُر جوش (ہو رہے) ہو۔

34

يا اَبِيْتُ عِندَ رَبِّیْ خواندۂ در دِل دریائے آتِش راندۂ

ترجمہ: یا آپ نے ’’اَبِيْتُ عِنْدَ رَبِّی‘‘ پڑھا ہے (اس لیے اس حال سے موصوف ہو گئے ہو یا کیا) آپ (عشق کے) آتشیں دریا کی منجدھار میں گھُس گئے۔ (اسی لیے ایسا آتشیں کلام آپ سے صادر ہو رہا ہے۔)

مطلب: اس شعر میں حدیث کے کلمات درج ہیں۔ یعنی رسول ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ کو صومِ وصال یعنی ایک روزے کو سحری کھائے بدون دوسرے روزے کے ساتھ ملانے سے منع فرمایا۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ خود تو ایسا کر لیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ’’إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي اَبِيتُ عِنْدَ رَبِّي يُطْعِمُنِیْ وَ يَسْقِيْنِیْ‘‘ (مسند البزار، حدیث نمبر 9008) یعنی ”اور تم میری کیا ریس کر سکتے ہو میں تو اپنے پروردگار کے حضور میں رات گذارتا ہوں وہ مجھے کھلا پلا دیتا ہے“۔ اس شعر کے مضمون سے ایک شبہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر عشق آگ کی سی خاصیت ہے تو حضرت حسام الدین سلامت کیونکر رہے۔ اگلا شعر اس کا جواب ہے۔

35

نعرۂ یَا نَارُ کُونِیْ بَارِدًا عِصمتِ جانِ تو گشت اَے مقتدا

ترجمہ: اے (حسام الدین! جو) مقتدا (ئے زمانہ ہو) ﴿یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا (الانبیا: ۶۹) کی ندا (جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے نارِ نمرود سے سلامت رہنے کا باعث ہوئی تھی۔ اسی طرح) آپ کی جان کی سلامتی (کا باعث) بن گئی۔

36

اے ضیاء الحق حسامِ الدّین و دل کے تواں اندُود خورشیدے بگِل

ترجمہ: اے ضیاء الحق! جو دین اور دل کی تلوار ہیں، آفتاب کو کیچڑ سے کب ڈھک سکتے ہیں۔

مطلب: دین سے مراد احکامِ شرعیہ اور دل سے مراد احوالِ قلبیہ۔ حسامِ دین و دل سے مدعا یہ ہے کہ ان دونوں کے متعلق تمہارے ارشادات و تصرفات گویا چلتی ہوئی تلوار ہیں۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ منکرین تمہارے کمالات پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔

37

قصد کردستند ایں گِل پارہا کہ بپوشانند خورشیدِ ترا

ترجمہ: ان مٹی کی ڈلیوں نے قصد کیا ہے کہ تمہارے خورشید (کمالات) کو (اپنی بد گوئی و بد گمانی کے حجاب میں) چھپا دیں۔

38

در دلِ کُہ لَعلہا دلّالِ تست باغہا از خنده مالامالِ تُست

ترجمہ: (مگر ان کی اس منکرانہ کوشش سے کیا ہوتا ہے کیونکہ) پہاڑوں کے قلب میں لعل تمہارا پتا بتا رہے ہیں۔ باغ خندہ (و شگفتگی)سے تمہاری بدولت ہی مالا مال ہیں۔

مطلب: پہاڑ سے مراد اہلِ مقامات و تمکین کہ ان کو وقار میں پہاڑ سے تشبیہ دی۔ اور لعل سے مراد ان کے قلوب اور باغ سے مراد اہلِ احوال و تلوین کہ رنگا رنگی میں ان کو باغ سے تشبیہ دی ہے جو عروضِ بہار و خزاں سے مختلف رنگ بدلتا ہے۔ اور خندہ سے مراد ان کے ذوقيات و مواجيد جو مثل شگفتگیِ باغ کے ظاہر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اہلِ مقام تمہارے کمال کے معترف اور اہلِ حال تمہاری برکات سے مغترف ہیں۔ پھر کسی کے انکار سے کیا ہوتا ہے (کلید)۔ یہ ایک پرانا خیال ہے کہ آفتاب کی شعاع کی خاص قسم کے پتھر پر پڑنے سے لعل پیدا ہوتا ہے۔ ایامِ بہار میں آفتاب کی گرمی کا باغوں کے لیے باعثِ شگفتگی ہونا تو مسلّم ہے۔ پس مولانا نے اس بیان میں منکروں کے آفتاب بگل اندودن سے لے کر آفتاب کے کوہ و باغ کو فیضان پہنچانے اور اس کے اس فیضان کے مسلّم و مشہور ہونے کے ذکر تک اس استعارہ کو جس عمدگی اور برجستگی سے نبھایا ہے وہ مولانا کے کمالِ ادب کی دلیل ہے۔ فَلِلہِ دَرُّہٗ۔ آگے پھر انہی سے خطاب فرماتے ہیں:

39

مَحرمِ مردیت را کو رستمے تا ز صد خرمن یکے جَو گفتمے

ترکیب: ’’محرم‘‘ مضاف، ’’مردیت‘‘ بترکیبِ اضافی مضاف الیہ، پس حرف ’’را‘‘ زائد ہے۔ اور یہ حرف اس طرح زائد آ جاتا ہے۔ جیسے امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے اس مصرعہ میں ؎

گرچہ تنِ من ز پے سوز راست رحمتِ تو از پے ایں روز راست (غیاث)

ترجمہ: (تمہارے فضائل و کمالات بہت ہیں لیکن) تمہاری مردی (و کمال) کا محرم کوئی رستم کہاں ہے۔ تاکہ میں (اس کے سامنے تمہارے کمال کے)سینکڑوں خرمن سے ایک جو (کے برابر) بیان کرتا۔

مطلب: تمہارے کمالات کو سُننے کے لیے کوئی ہفت خوانِ طریقت کا رستم چاہیے۔ کیونکہ وہی ان کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر وہ بھی اس خرمنِ کمالات میں سے صرف ایک جَو کے برابر سُن سکے گا۔ سارے کمالات کو سننے کی کسی کو یا بیان کرنے کی مجھ کو تاب نہیں۔ مگر کوئی ایسا رستم بھی تو نہیں ملتا جس کو میں جَو برابر سُناؤں۔

40

چوں بخواہم کز سرت آہے کنم چوں علیؓ سر را فرو چاہے کنم

ترجمہ: (ناچار) جب میں چاہتا ہوں کہ تمہارے راز سے کوئی آہ (بھری بات ظاہر) کروں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح (اپنا) سر(کسی) کنویں میں کر لیتا ہوں (اور اس راز کو کہہ دیتا ہوں)۔

مطلب: صاحبِ منہج لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی راز بتایا اور اس کے کتمان کی تاکید فرمائی۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے کتمان کے متحمل نہ ہو سکے۔ مجبورًا ایک خالی کنویں کے اندر وہ راز کہہ ڈالا۔ تو الله کی قدرت سے اُس میں ایک نرکل پیدا ہو گیا۔ کسی چرواہے نے وہ نرکل کاٹ لیا اور اس کی بنسری بنالی۔ ایک دن وہ یہی بنسری بجا رہا تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آواز سن کر سمجھ لیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس راز کو ظاہر کر دیا (انتہیٰ)۔ مگر یہ روایت قابلِ اعتبار نہیں نہ علومِ شرعیہ صحیحہ کا مذاق اس کو صحیح سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔ دروغ بر گردنِ راوی۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں حاشیہ میں ہے: از حضرت مولائے درویشاں و امامِ حقیقت مشہور است کہ بارہا چوں از کتمانِ بعضے اسرار دل تنگ شدے و ہمدلے نیافتے۔ سرفرو چاه بُرده رازِ خود دراں چاه گفتے۔ و گاہے آبِ چاہ خوں شدے۔ الا و الله اعلم بصحة الحكاية لكن اصل المقصود لايدارُ عليها (انتہیٰ)۔ آگے ذکرِ چاہ کی مناسبت سے فرماتے ہیں:

41

چونکہ اخواں را دلِ کینہ ور ست یوسفم را قعرِ چاه اولٰی تر ست

ترجمہ: جب برادران (زمانہ) کا دل کینہ ور ہے تو میرے (وجود بمنزلہ) یوسف کے لیے کنویں کی گہرائی (میں پناہ گیر ہونا) ہی بہتر ہے۔ (کہ ان کے شر سے تو محفوظ رہے گا۔)

42

مست گشتم خویش بر غوغا زنم چَہ چِہ باشد خیمہ بر صحرا زنم

ترجمہ: (مگر آہ مجھے کتمانِ راز پر بھی قدرت نہ رہی کیونکہ) میں مَست ہو گیا۔ (اس لیے میں ضبط سے عاجز ہو کر علی الاعلان راز کہہ ڈالوں گا) اپنے آپ کو (ملامتِ خلق کے) غوغا میں ڈال دوں گا۔ (اجی) کنواں (بے چارہ) کیا ہے۔ میں اپنا خیمہ صحرا میں نصب کروں گا۔ (یہاں خفا و پوشیدگی کے لیے آڑ ہی نہیں۔)

43

بر کفِ من نِہ شرابِ آتشیں وانگہاں کّر و فرِ مستانہ بیں

ترجمہ: (اے حسام الدین!) میرے ہاتھ پر شرابِ آتش رنگ رکھ دو۔ اور اس وقت (میرا) مستانہ کروفر دیکھو۔

44

منتظر گو باش بے گنجِ آں فقیر زانکہ ما غرقیم ایں دم در عصیر

ترجمہ: اس فقیر کو کہہ دو کہ بغیر خزانہ (مطلوبہ) کے منتظر رہے۔ کیونکہ ہم اس وقت شراب (کے نشے) میں غرق ہیں۔ (ہم کو فقیر کے کام کی فرصت نہیں۔)

45

از خدا خواہ اے فقیر ایں دم پناه وز منِ غرقہ شده یاری مخواہ

ترجمہ: اے فقیر! اس وقت تو خدا (ہی) سے پناہ کا طالب ہو (کہ وہ تجھے خزانہ کی محرومی سے بچائے) مجھ غریق (شراب) سے مدد کی اُمید نہ رکھ۔ (میں تیرا تذکرہ کرنے میں بھی تیرے کام نہیں آ سکتا۔)

46

کہ مرا پروائے ایں اَسناد نیست از خود و از ریشِ خویشم یاد نیست

ترجمہ: کیونکہ مجھے اس قسم کی سندوں کی پروا نہیں (جیسے کہ تیرا یہ پرچہ ہے) مجھے (خزائن و وفائن سے تو کیا غرض) خود اپنا اور اپنی ڈاڑھی (کی عزت) کا بھی خیال نہیں۔

47

بادِ سُبلت کے بگنجد و آب رُو در شرابے کہ نگنجد تار مُو

ترجمہ: غرور کی اور آبرو کے گھمنڈ کی اس شراب میں گنجائش کہاں؟ جہاں ایک تارِ مو نہ سما سکے۔ (جب دل میں وسوسۂ جاہ بھی نہیں آ سکتا، تو عزمِ جاہ کا امکان کہاں؟)

48

دُر دِہ اے ساقی یکے رطلِ گراں خواجہ را از ریش و سُبلت وا رہاں

ترجمہ: اے ساقی! (عشق کی شراب کا) ایک بڑا پیالہ دے (اور) میاں کو ڈاڑھی (کی عزت) اور مونچھوں (کے غرور) سے چھڑا دے۔

49

نخوتش بر ما سِبالے می زند لیک رِیش از رشکِ ما بر می کند

ترجمہ: اُس کا غرور ہم پر مونچھوں کو تاؤ دیتا ہے۔ لیکن (ہم کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ) وہ (بد قسمتی سے) ہمارے رشک میں خود اپنی ڈاڑھی نوچتا ہے۔ ﴿وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (البقرۃ: 57)

50

ماتِ او شو ماتِ او شو ماتِ او کہ ہمیدانیم تزویراتِ اُو

ترجمہ: (خير اے مغرور آدمی!) تو اس (فخر و غرور) سے مغلوب ہو جا، اس سے مغلوب ہوجا، اس سے مغلوب (ہو جا! آخر اس کا مزا چکھے گا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں) کہ ہم اس (رذیلت) کے مکر و فریب کو جانتے ہیں۔

مطلب: تکبر و غرور کے مکر و فریب کو جاننا از رُوئے کشف مراد نہیں۔ بلکہ بذریعہ تعلیماتِ شرع و تحقیقاتِ علمِ اخلاق۔ چنانچہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

تکبر مکن زینہار اے پِسر کہ روزے ز دستش برائی بسر

تکبر عزازیل را خوار کرد بزندانِ لعنت گرفتار کرد

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

نرم کن نرم رگِ گردنِ خود را زنہار تا سرِ خویش را ببالینِ سنان نگذاری

متکبر آدمی دنیا میں بھی خوار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ(الحج: 11) آخرت میں اس کی خواری یوں ہے کہ ’’وَ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ‘‘ یعنی”جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔ وہ جنت میں نہ جائے گا“ (مشکوۃ)۔ اور دنیا میں اس کی خواری یہ کہ وہ کبھی ہر دلعزیز نہیں ہوتا۔

پسندِ عام کم ہوتا ہے مغرور اگر چہ زار و قیصر ہو کہ فغفور

51

از پسِ صد سال آنچہ آید برو پیر می بیند معیّن مُو بمُو

ترجمہ: سو سال کے بعد (بھی) اس (متکبر و مغرور آدمی) پر جو (الم انگیز) احوال آتے ہیں ۔ شیخ (مبصرماہرِ اخلاق) ان کو معین طور پر مُو بَمُو دیکھتا ہے۔

52

اندر آئینہ چہ بیند مردِ عام کہ نہ بیند پیر اندر خشتِ خام

ترجمہ: عام آدمی (ایک) آئینے میں (بھی) کیا دیکھ سکتا ہے؟ جس کو شیخ کچی اینٹ میں نہیں دیکھتا۔ (جس میں اتنی بھی صفائی اور چمک نہیں ہوتی جو پکی اینٹ میں ہو سکتی ہے۔)

مطلب: کلیدِ مثنوی میں لکھا ہے کہ مثلا اگر کسی شخص کی عمر سو برس سے زیادہ ہو اور وہ آج ایک خلق ذمیم کو اپنے نفس میں متمکن کر لے تو اس کے بعض مضرات، جو سو برس کے بعد ظاہر ہونے والے ہیں شیخِ کامل اُن کو آج ہی محسوس کر رہا ہے۔ یہ تفسیر ہے اس شعر کی۔ کشفِ کونی وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ کشف لوازمِ کمالِ مشیخت سے نہیں (انتہٰی)۔ آگے اسی مضمون کی ایک مثال ہے:

53

آنچہ لِحیانی بخانہ خود ندید ہست بر کوسہ یکایک آں پدید

ترجمہ: جو چیز ڈاڑھی والا (خود) اپنے گھر میں نہیں دیکھتا۔ وہ بے ریش لڑکے پر ایک ایک کر کے ظاہر ہے۔

مطلب: ڈاڑھی والا آدمی خود اپنی محرمات مثلاً ماں، بہن، بیٹی، وغیرہ کے بعض اعضا یعنی زانو، ساق، پشت وغیرہ برہنہ نہیں دیکھ سکتا کہ ان کا دیکھنا اس کے لیے حرام ہے۔ مگر چھوٹا بچہ خواہ غیر گھر کا ہو اس کے سامنے وہ عورتیں ان اعضا کو ضرورتاً کھول سکتی ہیں۔ آگے پھر اس مغرور و متکبر آدمی سے خطاب ہے۔ مگر اتنا فرق ہے کہ پہلا خطاب ملامت کے لہجے میں تھا۔ یہ مشفقانہ نصیحت کے انداز پر ہے۔

54

رُو بدریا کُن کہ ماہی زادۂ ہمچو خس در ریش چُوں اُفتادۂ

ترجمہ: تو دریا (ئے احدیت) کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ تو مچھلی کا بچہ ہے۔ تنکے کی طرح داڑھی میں کیوں اُلجھ رہا ہے۔

مطلب: جس طرح مچھلی پانی کی عاشق ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام حضرت احدیت کے عاشق ہیں۔ تم حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند ہو تم کو بھی اپنے پدرِ بزرگ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔ پیچھے تکبر کی مذمّت ڈاڑھی مونچھ کے استعارہ سے ہوتی رہی ہے۔ اسی بنا پر آپ فرماتے ہیں کہ تم کو ڈاڑھی کی عزت کا اس قدر جنون کیوں ہے کہ اس میں اُلجھ رہے ہو۔ جس طرح ایک تنکا ڈاڑھی میں الجھ جاتا ہے۔ مغرور کو تنکے سے تشبیہ دینے میں جو اس کی ذلت ملحوظ رکھی ہے یہ بھی ایک کمالِ بلاغت ہے۔

55

خس نۂ، دور از تو، رشکِ گوہری در میانِ موج و بحر اَولٰی تری

ترجمہ: تو تنکا نہیں ہے (تنکا پن) تجھ سے دُور (رہے) تو (اشرف المخلوقات ہونے کے اعتبار سے کائنات میں) رشکِ مروارید ہے۔ اس لیے موج اور دریا کے درمیان تیرا ہونا بہتر ہے۔ (دریا سے واجب تعالیٰ کو تشبیہ دی ہے اور مروارید سے ملائکہ کو، جن پر انسان کی فضیلت مسلّمہ ہے۔)

56

بحر وحدانی ست فرد و زوج نیست گوہر و ماہیش غیرِ موج نیست

ترجمہ: (وہ) بحرِ واحد (محض) ہے۔ طاق و جفت نہیں ہے۔ (اور) اس کا موتی اور مچھلی موج سے الگ نہیں ہیں۔

مطلب: اوپر واجب تعالیٰ کو بحر سے تشبیہ دینے میں مماثلت کا شبہ ہوتا ہے۔ یہاں اس شبہ کو رفع کیا ہے یعنی بحرِ ظاہری جو مشبّہ بہ ہے۔ وحدتِ حقیقت کے ساتھ متصف نہیں اور وہ بحر جو مشبّہ ہے واحدِ حقیقی ہے۔ جس میں کثرتِ عددی تو کیا ہوتی وحدتِ عددی بھی نہیں۔ اسی لیے اس سے فردیّت کی بھی نفی کی۔ چنانچہ حسبِ نقلِ بحر العلوم فقہِ اکبر میں امام اعظم رحمۃ الله علیہ نے فرمایا ہے ’’اَللہُ وَاحِدٌ لَیْسَ وَحْدَتُہٗ کَوَحْدَۃِ الْاَعْدَادِ بَلْ بِمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ‘‘ اور گو واحد اصطلاحاً عدد نہیں ہے، لیکن عدد کا جُزو تو ہے۔ تو واحد اس اعتبار سے عددِ اعتباری ہے اور حق تعالیٰ کسی متکثر کا جزو بھی نہیں تو وہ اس سے بھی منزہ ہوا۔ پس بحر مشبہ و بحر مشبہ بہ میں مماثلت نہ ہوئی ہو۔ ’’وهو مطلوب‘‘

گوہر سے ملائکہ اور ماہی سے انسانِ کامل مراد ہے۔ بوجہ اس کے کہ انسانِ کامل میں حق جلّ و علا کے لیے جو شوق و عشق ہے۔ اس کی نظیر کی حد تک مچھلی کا عشق بھی ہو سکتا ہے۔ جو اس کو دریا کے ساتھ ہے۔ اور موج سے مراد صفتِ وجود جو محققین کے نزدیک زائد على الذات نہیں جیسے موج کہ زائد علی البحر نہیں۔ پس مصرعہ ثانیہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے خواصِ عباد خواہ ملائکہ ہوں یا بشر ان کا وجود عین وجودِ حق ہے۔ پس یہاں مغایرتِ لغویہ کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ مغایرت اصطلاحیہ کی نفی ہے (کلید ملخصًا)۔ آگے عینیت کے معنی میں، جو مصرعہ ’’گوہر و ماہیش الخ‘‘ سے مستفاد ہیں، تِرقی کرتے ہیں کہ خواصِ عباد کی تخصیص کیا ہے۔ کوئی وجود بھی اس کا مغایر نہیں۔ ورنہ اگر کوئی دوسرا موجود ہو گا تو اشتراک فی الوجود لازم آئے گا۔ اور

57

اے محال و اے محال اشراکِ اُو دور ازاں دریا و موجِ پاک اُو

ترجمہ: اے (مخاطب)! محال ہے۔ اور اے (مخاطب)! محال ہے (کسی کو) اس کا شریک کرنا۔ یہ بعید ہے اُس دریا اور اُس کی موج سے۔

58

نیست اندر بحر شرک و پیچ پیچ لیک با احول چہ گویم ہیچ ہیچ

ترجمہ: دریا میں تو شرک اور ایچ بیچ نہیں ہے۔ لیکن میں بھینگے کو کیا کہوں۔ کچھ نہیں (کہہ سکتا) کچھ بھی نہیں (کہہ سکتا)۔

مطلب: کسی مخلوق کے وجود کا مستقل نہ ہونا اور وجودِ مستقل میں واجب تعالیٰ کا منفرد ہونا اور سب کائنات کا وجود میں واجب کا محتاج ہونا اور اسی تعلقِ احتیاج کا نصب العین ہو جانا وحدة الوجود ہے۔ اور مخلوق کے اسی وجودِ غیر مستقل کے ساتھ وجود مستقل کا سا معاملہ کرنا گو بلا فسادِ اعتقاد ہو، اہل حال کے کلام میں شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی کو یہاں شرک اور احول کہا ہے۔ اور اسی کو اُوپر کے شعر میں اشراک کہا تھا۔ یہاں فرماتے ہیں کہ اس شرک و اشراک کا بُطلان بدیہی امر ہے، محتاجِ دلیل نہیں۔ لیکن جو شخص صاحبِ حال نہ ہو اور دوسرے وجودات کو زیرِ نظر رکھتا ہو اس سے کیا کہوں۔ کیوں کہ وہ وجدان سے خالی ہے۔ اور یہ توجیہ امرِ وجدانی ہے۔ اس کو احول اس لحاظ سے کہا کہ وہ موجود واجب کے ساتھ دوسرے موجودات کو بھی دیکھتا ہے۔

59

چونکہ جفتِ احولانیم اے شمن لازم آمد مشرکانہ دَم زدن

ترجمہ: اے بت پرست! چونکہ ہم بھینگوں کے ساتھ قرین (ہو رہے) ہیں۔ (اس لیے) ضروری ہوا کہ (ان کے فہم کے مطابق) مشرکانہ باتیں کریں۔

مطلب: جس شخص میں ہماری توحید سمجھنے کی اہلیت نہ ہو اور وہ ایک کے سوا اور کو بھی موجود دیکھنے میں بمنزلۂ احول ہو اس کو یہ توحید کیا سمجھائیں۔ وہ تو اسی قسم کی توحید سمجھ سکتا ہے جو متکلمین کے زیرِ بحث ہے۔ جس میں پہلے دوسرے موجودات کو ثابت مان کر اُن سے وجودِ صانع پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسی توحید ہمارے نزدیک بمنزلۂ شرک ہے۔ ناچار ان احولوں کی معیت کی وجہ سے ہم کو بھی اسی شرک نما توحید میں گفتگو کرنی پڑی۔ اور ایسی توحید کے بیان پر مجبور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ:

60

آں یکی زاں سوئے وصف ست و خیال جز دُوئی ناید بمیدانِ مقال

ترجمہ: وہ وحدت (حقیقۃً ایسی ہے کہ اس کو نہ متکلم بیان کر سکے نہ سامع سمجھ سکے۔ کیونکہ وہ) بیانِ لفظی اور تصور ذہنی سے وراء الوراء ہے۔ (اس کو جب بھی سمجھانے لگیں تو) وہ دُوئی (کے تصوُّر)کے بغیر احاطۂ بیان میں نہیں آتا۔

مطلب: اس وحدت کے سمجھانے کے لیے ضرور مخلوق و مصنوع کی مثال پیش کرنی پڑتی ہے۔ اور یہی اثنینیت کا تصوُّر اور دُوئی کا ذکر ہے۔ جو اہلِ حقیقت کے نزدیک کا شرک ہے۔ مگر افہام و تفہیم میں اس سے کام لینا ہی پڑ جاتاہے۔

61

یا چو احول ایں دوئی را نوش کُن یا دھاں بربند و خاموش کن

ترجمہ: (پس مجبوراً) یا تو احول (دوبین) کی طرح اس دوئی کو گوارا کر لو یا زباں بند کر رکھو اور خاموش ہو جاؤ۔

62

یا بنوبت گہ سکوت و گہ کلام احولانہ طبل مے زن وَالسَّلَام

ترجمہ: یا (اگر کلام و سکوت دونوں موقع بموقع داخلِ مصلحت ہوں تو) باری باری کبھی خاموشی اور کبھی کلام (اختیار کرو اور اس دو عملی میں) احولوں کی طرح نقارہ بجاتے رہو۔ (جو ایک کو دیکھتے ہیں۔) والسلام۔

63

چوں بہ بینی محرمے گو سِرِّ جاں گُل بہ بینی نعره زن چوں بُلبلاں

ترجمہ: (چنانچہ) جب تم کسی کو محرم (اسرار) پاؤ۔ تو (اس سے) رازِ جان کہہ دو (یعنی) جب پھول کو دیکھو تو بُلبلوں کی طرح نعرہ لگاؤ۔

64

چوں بہ بینی مشک پُر مکر و مجاز لب بہ بند و خویشتن را خُنب ساز

ترجمہ: (اور) جب تم مکر اور بناوٹ (کی ہوا) سے بھری ہوئی مشک دیکھو تو (اپنے) لب بند رکھو اور اپنے آپ کو (سر بمہر) مٹکا بنا لو (یعنی جس طرح سر بمہر مٹکے کی اندرونی چیز ظاہر نہیں ہوتی۔ تمہارا رازِ دل کبھی ایسے نا اہل لوگوں پر ظاہر نہ ہو۔) 

65

دشمن آب ست پیشِ او مجُنب ورنہ سنگِ جہلِ او بشکست خُنب

ترجمہ: (یہ نا اہل جو مشک پر باد سے مشابہ ہے۔) پانی کا دشمن ہے۔ اس کے سامنے (بیانِ اسرار کی) حرکت نہ کرو۔ ورنہ اس کی جہالت کا پتھر (تمہارے) مٹکے کو پھوڑ دے گا (یعنی وہ تم کو اذیت دے گا)۔

66

با سیاستہائے جاہل صبر کن خوش مدارا کن بعقل مِن لَّدُن

ترجمہ: (اور اگر کسی) جاہل (سے پالا پڑ ہی جائے تو اس) کی ایذاؤں پر صبر کرو (اور انتقام کے بجائے اپنی) خداداد عقل سے اس کی اچھی طرح مدارات کرو۔

مطلب: چنانچہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (حم السجدۃ: 34) ’’بُرائی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کرو کہ وہ (دیکھنے والوں کی نظر میں) بہت ہی اچھا ہو (اگر ایسا کرو گے) تو (تم دیکھ لو گے کہ) تم میں اور کسی شخص میں عداوت تھی۔ تو اب یک دم سے گویا وہ (تمہارا) دل سوز دوست ہے“۔

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

چرب و نرمی می کند کوتہ زبانی شمشیر ہا سخت رُوئی مے شود سنگِ فساں شمشیر را

میتواں کردن بنرمی راہ در دل ہائے سخت رشتہ از ہمواریِ تو خود غوطہ در گوہر زد ست

و لہ ؎

با ہرزہ گرے درائے ز راہِ ملائمت صائب ؎

بہ پنبہ چاقِ جرس می تواں گرفت

بعقل ’’مِنْ لَّدُنْ‘‘ اس لیے فرمایا کہ نفس تو ہمیشہ کینہ کشی کر نے اور انتقام لینے پر آمادہ رہتا ہے۔ تم نفس کی نہ سنو بلکہ عقل کی مانو جس کا تقاضا یہ ہے کہ: 

ع اگر مردی اَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَسَا

67

صبر با نااہل اہلاں را جلے ست صبر صافی مے کند ہر جا دِلے ست

ترجمہ: نا اہل لوگوں (کی بد سلوکی) کے مقابلہ میں صبر کرنا اہلِ (فضلیت) کے لیے باعثِ تنویر ہے۔ جہاں کوئی دل (صلاحیت والا) ہے، صبر اس کو صاف کر دیتا ہے۔

68

آتشِ نمرود ابراھیمؑ را صفوتِ آئینہ آمد در جلا

ترجمہ: (چنانچہ) نمرود کی آگ (جو اس نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اذیت دینے کے لیے جلائی تھی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے (آئینۂ) قلب کے مجلّٰے کر دینے میں (باعثِ) صفائی بن گئی۔

انتباہ: آگے اس بیان کی تائید میں شیخ ابوالحسن خرقانی رحمة الله علیہ کا قصہ بیان فرماتے ہیں کہ ان کو اپنی بیوی کی اذیتیں سہنے سے کیا درجہ نصیب ہوا۔