دفتر 6 حکایت 71: گنجنامہ کی خبر کا فاش ہونا اور بادشاہِ (وقت) کے کان میں پہنچنا

دفتر ششم: حکایت: 71



فاش شدنِ خبر گنجنامہ و رسیدن بگوشِ پادشاہ

گنجنامہ کی خبر کا فاش ہونا اور بادشاہِ (وقت) کے کان میں پہنچنا

1

پس خبر کردند سلطان را ازیں آں گروہے کش بُدند اندر کمیں

ترجمہ: تو (حاسدوں) کی اُس جماعت نے جو اس کی گھات میں تھے۔ اس معاملہ سے بادشاہ کو آگاہ کر دیا۔

2

عرضہ کردند آں سخن را زیر دست کاں فلانی گنجنامہ یافتہ ست

ترجمہ: اس بات کو انہوں نے مخفی طور پر بادشاہ کو پیش کر دیا کہ فلاں شخص نے ایک گنجنامہ پایا ہے۔

3

چوں شنید آں شخص کایں با شہ رسید جز کہ تسلیم و رضا چاره ندید

ترجمہ: جب اس شخص نے سنا کہ یہ بات بادشاہ کو پہنچ گئی کا تو سوائے تسلیم و رضا کے چارہ نہ دیکھا۔

4

پیش ازاں کا شکنجہ بیند زاں قباد رقعہ را آورد وپیشِ شہ نہاد

ترجمہ: قبل اس کے وہ اس بادشاہ کی طرف سے کوئی سختی دیکھے، رقعہ کو لا کر بادشاہ کے آگے رکھ دیا۔

5

گفت تا ایں رقعہ را یابیده ام گنج نے و رنج بے حد دیده ام

ترجمہ: (اور) عرض کیا کہ جب سے مجھے یہ رقعہ ملا ہے میں نے خزانہ تو نہیں (ہاں) تکلیف بہت دیکھی ہے۔

6

خود نشد یک حبّہ از گنج آشکار لیک پیچیدم بسے مانندِ مار

ترجمہ: خزانہ میں سے تو ایک حبّہ بھی ظاہر نہ ہوا۔ ہاں میں نے سانپ کی طرح بل بہت کھائے۔ (گنج و مار کا تناسب پُر لطف ہے۔)

7

رفت ماہے تا چنینم تلخ کام کہ زیان و سُودِ ایں بر من حرام

ترجمہ: ایک مہینہ گزر گیا ہے کہ میں اسی طرح ناکام ہوں۔ (حتّٰی) کہ اس (سرمایہ) کا نفع و نقصان مجھ پر حرام ہے۔ (جب سرمایہ ہاتھ ہی نہیں لگا تو اس کی تجارت کیسی اور اس میں نفع و نقصان کہاں؟)

8

بوکہ بختت برکند زیں کاں غطا اے شہِ فیروز جنگ و دژکشا

ترجمہ: اے بادشاہ! جنگ کے کامیاب اور قلعہ کے فاتح، شاید آپ کا اقبال اس معدن پر سے پرده اٹھا دے۔

9

مدتِ شش ماه و افزود بادشاہ تیر می انداخت و بر می کند چاه

ترجمہ: (غرض) بادشاہ (بھی برابر) چھ مہینے اور (بلکہ) زیادہ مدت تک تیر پھینکتا رہا اور (زمین اتنی گہری کھودتا تھا۔ گویا) کنواں کھودتا (ہے)۔

10

ہر کجا سختہ کمانے بود چُست تیر می انداخت ہر سُو گنج جُست

ترجمہ: جہاں کہیں کوئی سنجیدہ کمان والا چالاک (تیر انداز) تھا وہ (بادشاہ کے حکم سے) تیر چلاتا تھا (اور) اُس نے ہر طرف خزانہ کی تلاش کی۔

11

غيرِ تشویش و غم و طامات نے ہمچو عنقا نام فاش و ذات نے

ترجمہ: (مگر) تشویش اور غم اور بیہودہ گوئی کے سوا (کچھ حاصل) نہیں (ہوتا تھا)، عنقا کی طرح (اس خزانہ کا) نام تو مشہور (ہو گیا) اور وجود نہیں (تھا)۔

12

چونکہ تعویق آمد اندر عرض و طول شاه شد زاں گنج دل سیر و ملُول

ترجمہ: جب (حصولِ مراد میں) لمبی چوڑی دیر لگی۔ تو بادشاہ کا دل اس خزانے سے بھر گیا اور وہ رنجیدہ ہوگیا۔

13

جملہ صحرا گز گز آں شہ چاه کَند می ندید از گنج او جُز رِیشخند

ترجمہ: اس بادشاہ نے تمام جنگل میں گز گز (کی جگہ میں) کنواں کھود ڈالا (مگر) اسے خزانہ سوائے جگ ہنسائی کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔

14

پس طلب کرد آں فقیرِ دردمند رقعہ را از خشم پیشِ او فگند

ترجمہ: پھر اس فقیرِ دردمند کو طلب کیا (اور) رقعہ کو غصّے کے ساتھ اس کے آگے پھینک دیا۔ (فقیر کو دردمند اس لیے کہا کہ اِس بچارے کو مدتوں کی دُعا قبول ہونے کے آثار نظر آئے مگر اب بھی کامیابی نہ ہوئی)۔

15

گفت گیر ایں رقعہ کش آثار نیست تو بدیں اولٰی تری کت کار نیست

ترجمہ: (اور) کہا لے (اپنا) یہ رقعہ جس کا کوئی ثمره و نتیجہ نہیں۔ تو اس (وقت ضائع کرنے والی چیز) کا زیادہ حق دار ہے۔ کیوں کہ تجھے (اور) کوئی کام نہیں۔

16

نیست ایں کارِ کسے کِش ہست کار گر بسوزد گل نگردد گردِ خار

ترجمہ: یہ اس شخص کا کام نہیں جس کو کوئی کام ہے۔ اگر (مقصود کا) پھول (بھی) جل جائے تو (کام کا آدمی غیر مقصود) کانٹے کے پاس (تک) نہیں پھٹکتا۔

17

نادِر افتد اہلِ ايں ماخُولیا منتظِر کش روید از آہن گيا

ترجمہ : (دنیا میں) ایسی دیوانگی والا (آدمی شاذ و) نادر ملتا ہے۔ جو اس (بات) کا منتظر ہو کہ اس کے لوہے سے گھاس اُگے۔ (اس خزانہ کا حصول لوہے سے گھاس اگنے کے مترادف ہے۔)

18

سخت جانے باید ایں فن را چو تو تو کہ داری جانِ سخت ایں را بجو

ترجمہ: اس کام کے لیے تجھ سا سخت جان ہی چاہیے۔ تو جو سخت جان رکھتا ہے، اس کو ڈھونڈ۔

19

گر نیابی نبودت ہرگز ملال ور بیابی آں بتو کردم حلال

ترجمہ: اگر تجھے نہیں ملے گا تو (وقت ضائع جانے کی پروا نہ ہونے کے سبب سے) تجھے ہرگز ملال نہ ہو گا، اور اگر مل گیا تو اس کو (احکام و ارکان سے مستثنٰی رکھ کر) تیرے لیے حلال کر دیا۔

انتباہ: اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ بادشاہ طلبِ گنج کی درد سری سے ملول ہو گیا اور فقیر کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ تو اس سے ملول ہونے اور تھکنے والا نہیں۔ آگے مولانا اس فرق کی وجہ بیان فرماتے ہیں۔ یعنی بادشاه کی طلب ناشی تھی عقل سے اور فقیر کی طلب ناشی تھی عشق سے۔ قاعدہ کلید ہے کہ:

20

عقل راہِ نااُمیدی کَے رَود عشق باشد کاں طرف بر سر دَوَد

ترجمہ: عقل نا اُمیدی کے راستے پر کب چلتی ہے۔ وہ عشق ہی ہوتا ہے جو اس طرف سر کے بل جاتا ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ؎ 

نیست دلگیری ز کوہِ بے ستون فرہاد را عشق چوں مشاطہ گردد سنگِ خارا ہم خوش است

21

لا اُبالی عشق باشد نے خِرد عقل آں جوید کزان سُودے بَرد

ترجمه: لا اُبالی (اور بے پروا) عشق ہوتا ہے نہ کہ عقل۔ عقل تو وہ بات طلب کرتی ہے جس سے وہ کوئی نفع اٹھائے۔ (اور عشق کو نفع کی پروا نہیں ہوتی۔)

22

ترکتازے تن گدازے بے حیا در بلا چون سنگ زیرِ آسیا

ترجمہ: وہ (اپنے نفعِ ذاتی کا) غارتگر ہے، (مشکلات و مصائب کی آگ میں اپنے) وجود کو پگھلا دینے والا ہے، (بزدلانہ) جھجک سے بری ہے۔ (اور) بلا (کو برداشت کرنے) میں (ایسا ہے) جیسے چکی کا نچلا پاٹ۔

23

سخت روئے کہ ندارد ہیچ پُشت بہره جوئی را درونِ خویش کشت

ترجمہ: وہ سخت رو (جفاکش) ایسا (ہے) کہ پشت (پھیرنے کا ارادہ) نہیں رکھتا۔ مُراد طلبی (کے خیال) کو اُس نے اپنے اندر فنا کر ڈالا ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

مُرادِ ہر دو جہاں پیش عاشقاں بجوئے کہ ایں متاعِ قلیل است و آں بہائے حقیر

24

پاک می بازد نہ جُوید مُزد اُو آنچناں کہ پاک مے گیرد زِ ہُو

ترجمہ: وہ (اپنی طلب میں اغراض سے) پاکبازی (اختیار) کرتا ہے۔ اس کا عوض نہیں چاہتا۔ جس طرح حق تعالیٰ سے (جو کچھ) پاتا ہے (وہ بھی اغراض سے) پاک (ہوتا ہے)۔

مطلب: صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ گو بے غرضی دونوں طرف سے ہے۔ مگر ان دونوں بے غرضیوں میں فرقِ عظیم ہے، کیونکہ ممکن میں گو طلبِ غرض نہ ہو مگر حصولِ غرض تو ہے جس سے مستکمل (تکمیل طلب) ہے اور حق تعالیٰ اس سے بھی منزّه ہیں (انتہٰی)۔ آگے اُس کی تفسیر ہے:

25

می دہد حق ہستیش بے علّتے می سپارد باز بے علّت فتے

ترجمہ: حق تعالیٰ ان کو ہستی بدون کسی علت (و غرض) کے عطا فرماتا ہے۔ پھر وہ جوان (عاشق بھی) بدون کسی علت (و غرض) کے واپس دے دیتا ہے۔ (اور ہم نے اس عاشق کو بمعنی جوانمرد اس لیے کہا کہ:)

26

کہ فتُوَّت دادنِ بے عِلّت ست پاکبازی خارج از ہر ملّت ست

ترجمہ: کہ جوانمردی (کا کام) وہی دیتا (اور حوالہ کرتا) ہے جو علّت (و غرض) سے خالی ہو۔ (اور ایسی) پاک بازی (کہ غرض و غایت کا تصوُّر بھی نہ ہو) ہر مذہب (کی ظاہری صورت) سے خارج ہے۔

27

زانکہ مِلّت فضل جوید یا خلاص پاکبازانند قُربانانِ خاص

ترجمہ: کیونکہ مذہب (والوں) کا مطلوب تو (طاعات و عبادات پر) فضل (ثواب) ہے یا (عذاب سے) نجات۔ (اور) پاک باز لوگ قربانانِ خاص ہیں۔ (جو محبوبِ حقیقی کی راہ میں سر دینے کے لیے حاضر ہیں۔ ان کو کسی عذاب و عقاب کی پروا نہیں۔)

28

نے خدا را امتِحانے می کنند نے درِ سُود و زیانے می زنند

ترجمہ: نہ وہ خداوند تعالیٰ کا امتحان کرتے ہیں (کہ دیکھیں وہ اعمال پر کیا اجر دے گا)، نہ وہ نفع و نقصان کے دروازے کو کھٹکھٹاتے ہیں۔

مطلب: یہ خود غرضی جس مذہب سے منسوب کی گئی ہے وہ ظاہر پرستوں کا مذہب ہے، جو طاعات و عبادات محض بہشت حاصل کرنے اور دوزخ سے بچنے کے لیے بجا لاتے ہیں۔ ورنہ اخلاصِ عاشقانہ تو داخلِ ملّتِ اسلام ہے۔

اس لیے اوپر ملّت کے ترجمہ میں ظاہری صورت کی قید بڑھا دی گئی۔ کیونکہ اخلاصِ عاشقانہ کو اہلِ صورت نہیں سمجھتے۔ اہلِ حقیقت ہی جانتے ہیں۔