دفتر 6 حکایت 7: (اس) حکایت کا ما حصل اور اس بات کا بیان ہر شخص اس ہندی غلام کی طرح مبتلا ہے

دفتر ششم: حکایت: 7


در حقیقتِ حکایت و بیان آنکہ ہر نفسے ہمچو آن ہندو مبتلا ست


(اس) حکایت کا ما حصل اور اس بات کا بیان ہر شخص اس ہندی غلام کی طرح مبتلا ہے۔

1

ہمچنان جملہ نعيمِ این جہان  بس خوش ست از دُور پیش از امتحان

ترجمہ: اسی طرح اس جہان (فانی) کی تمام نعمتیں امتحان سے پہلے دور سے بہت اچھی (لگتی) ہیں۔


می نماید در نظر از دور آب  چون روی نزدیک آن باشد سراب

ترجمہ: دیکھنے میں دور سے پانی نظر آتا ہے جب نزدیک جاؤ تو وہ چمکتی ریت ہوتی ہے۔


کند پیرست او و از بس چاپلوس  خویش را جلوه دہد چون نو عروس

ترجمہ: وہ (دنیا) ایک سالخورده بڑھیا ہے اور نہایت چکنی چپڑی باتیں کرنے والی جو اپنے آپ کو نئی دلہن کے روپ میں جلوہ کرتی ہے۔ 

اس قدر ہے دل لبھانے والا یہ دنیا کا جال  غافلوں کا اس کے پھندے سے بچ رہنا محال 

اچھے اچھوں کو بنا لیتی ہے اپنا شیفتہ  بن سنور کر سامنے آتی ہے جب یہ پیرہ زال

4

 ہِین مشو مغرور آن گلگُونہ اش  نوشِ نیش آلودهٔ او را مَچش

ترجمہ: خبردار! اس (عجوزه) کے اس گلگونہ سے دھوکا نہ کھانا اس کے زھریلے شہد کو نہ چکھنا۔ صائب ؒ 

دل چو اطفال مبندید بر این نقش و نگار  کین بہارے ست کہ یکدست خزان خواہد شد

5

تا نیفتی چون فرج اندر حرج صبر کن کہ اَلصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَج 

ترجمہ: تاکہ تو (اس غلام) فرج (نام) کی طرح تنگی میں نہ پڑ جائے (بلکہ اس عجوزہ کی صورت پرستی اور اس نوشِ نیش آمیز سے چکھنے سے) صبر کر کیونکہ صبر فراخی کی کنجی ہے۔

6

آشکارا دانہ پنہان دامِ او خوش نماید ز اوّلت انعامِ او

ترجمہ: اس کا دانہ ظاہر ہے اور جال پوشیدہ ہے (اس لئے) شروع شروع میں تجھ کو اس کا (دانہ کی صورت میں) نعمت بخشنا پسند آتا ہے۔

7

چون بپیوستی بدام اے ہوشیار  چند نالی در ندامت زار زار

ترجمہ: جب تو جال میں جا پڑا تو اے ہوشیار ندامت میں بہت پھوٹ پھوٹ کر روئے گا (اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہوشیاری کا مدعی جب بھی دنیا پر مائل ہو تو اس کے جال سے نہیں بچ سکتا)۔

8

نامِ میری و وزیری و شہی  نیست اِلّا درد و مرگ و جاندہی

ترجمہ: نام تو امیری اور وزیری اور بادشاہی ہے (اور حقیقت میں) درد اور موت اور جان کھونے کے سوا (کچھ) نہیں۔

مطلب: یہ دنیا کی نعمت نما زحمتوں کی مثالیں ہیں جن کی نسبت کہا تھا ’’خوش نماید ز اوّلت انعامِ او‘‘ اور دنیا کے تمام اسبابِ عیش و لذت کا یہی حال ہے۔ نظام گنجویؒ ۔

نظر کردم ز روے تجربت ہست  خوشیہائے جہان چون خارش دست 

با دل دست را خارش خوش افتد بآخر دست در دست آتش اُفتد


بنده باش و بر زمین رو چون سمند چون جنازہ نے کہ بر گردن نہند

ترجمہ: (جب وزیری و شاہی کا یہ حال ہے تو بہتر یہی ہے کہ) بندہ بن جا اور زمین پر گھوڑے کی طرح چل نہ کہ جنازه کی طرح کہ تجھے کاندھے پر اٹھایا جائے۔ 

 10

جملہ را حمّالِ خود خواہد کفور بارِ مردم گشتہ چون اہلِ قبور 

ترجمہ: نا سپاس آدمی سب کو اپنا باربردار (بنانا) چاہتا ہے (اور) مُردوں کی طرح لوگوں کا بار (دوش) بن گیا۔

مطلب: امیری و سرداری کا مغرور اپنی ان خداداد طاقتوں سے کام نہیں لیتا جو اس کو اپنا کام خود کرنے اور رزق و روزی کمانے کے لئے ملی ہیں۔ اس لئے وہ ناسپاس ہے یعنی خداداد طاقتوں کے انجام کا کفران کر رہا ہے اور اپنے سب کام لوگوں سے لیتا ہے اور ان سے ناحق مال وصول کرتا ہے یہ اپنا بار دوسروں پر ڈالتا ہے آگے جنازہ کی تشبیہ کی تائید اہل تعبیر کے قول سے کرتے ہیں:

11 

بر جنازه ہر کہ را بینی بخواب  فارسِ منصب شود عالی رکاب

ترجمہ: چنانچہ جس شخص کو تم خواب میں جنازه پر دیکھو تو وہ شخص کسی منصب پر سوار ہو گا (اور) عالی رکاب (ہو گا)۔

12 

زانکہ آن تابوت بر خلق ست بار بار بر خلقان فکندند این کِبار

ترجمہ: (اور منصب و جنازہ میں یہ مناسبت اس لئے ہے کہ) وہ تابوت لوگوں پر بار ہے (اسی طرح) ان بڑے لوگوں نے مخلوقات پر بار ڈال رکھا ہے۔

13 

 بار خود برکس منہ بر خویش نہ  سروری را کم طلب درویش بہ

ترجمہ: (پس) اپنا بار کسی (دوسرے) پر نہ ڈال اپنے آپ پر ڈال۔ سرداری نہ طلب کر درویش بہتر ھے۔

14 

برتنِ خود بار خود نہ اے پسر برکسِ دیگر منہ زین الحذر

ترجمہ: اے بیٹا! اپنا بار اپنے آپ پر ڈال- کسی دوسرے پر نہ ڈال اس سے پرہیز کر۔ 

15 

مرکَب اعناق مردم را مپائے  تا نیاید نِقرست اندر دو پائے

ترجمہ: تو لوگوں کی گردنوں کے مرکب پر سوار نہ ہو تاکہ تیرے (اوپر) دونوں پاؤں میں نقرس (ہو جانے کی مثال صادق) نہ آئے۔

مطلب: اپنے ہر کام اور حاجت میں لوگوں کے دست نگر و محتاج نہ بنو ورنہ تم اس آرام طلبی و بیکاری میں اس مریض نقرس کے مشابہ ہو جاؤ گے جو ہر وقت چار پائی پر پڑا رہتا ہے۔ اس مضمون میں یہ عجیب وغریب رعایت ہے کہ مرضِ نقرس عموماً امرا کو عارض ہوتا ہے۔ اسی لئے اس مرض کو راج روگ بھی کہتے ہیں۔ گویا اس شعر کے مطلب کا دُوسرا پہلو یہ بھی نکلتا کہ تم امیر نہ بنو۔ ورنہ اُمرا کے مخصوص مرض کا نشانہ بن کر رہو گے۔ خوب

16

مرکبے را کاخرش تو دہ دہی  کہ بشہرے مانی و ویران دہی

17

 دہ دہش اکنون کہ چون شہرت نمود  تا نیاید رخت در ویران کشُود

ترجمہ: تو جس مرکب (منصب و عہده) کو (اس کا بُرا انجام دیکھ کر) آخر میں ٹھکرائے اور اسے کہے گا کہ ارے تو شہر کے مشابہ ہے، مگر حقیقت میں تُو ویران گاؤں ہے، اس کو ابھی سے ٹھکرا دے جب کہ تجھے وہ شہر نظر آرہا ہے تاکہ پھر ویرانہ میں ڈیرا نہ ڈالنا پڑے۔

مطلب: جب امیری و منصب داری کا انجام بُرا ہے تو ابھی سے جب کہ تم اس کے فانی لطف و لذت سے محظوظ ہو رہے ہو، اس سے دست بردار ہو جاؤ تاکہ بُرے انجام تک نوبت نہ پہنچے۔

18

دَہ دہش اکنون کہ صد بُستانت ہست  تا نمانی عاجز و ویران پرست

ترجمہ: اس کو ابھی سے ٹھکرا دے جبکہ تیرے پاس (علوم و اعمال کے) سینکڑوں باغ (موجود) ہیں تاکہ بالآخر تو عاجز اور ویرانہ کی خاک چھانتا نہ رہ جائے۔

مطلب: اب تم کو موقع میسر ہے۔ دنیا طلبی سے دست بردار ہو کر طاعات و عبادات سے قرب حاصل کرو۔ ان اشعار میں چار باتوں کی طرف توجہ دلائی (1) حب دنیا کی مضرت ؎ کند پیرست آں الخ (2) منصب و سرداری کی مذمت ؎ نام میری وزیری الخ (3) اپنا کام خود کرنے اور اپنا رزق خود کمانے کی تعریف ؎ بنده باش و بر زمین رو چون سمند الخ ( 4) درویشی و زیردستی کی مدح سے ؎ سرداری را کم طلب درویش بہ اور ان ساری باتوں کی تعلیم احادیث سے ملتی ہے چنانچہ حب دنیا کی مضرت پر بہت سی احادیث ناطق ہیں مثلاً ’’مَنْ أحَبَّ دُنْیَاہُ اَضَرَّ بِاٰخِرَتِهِ وَ مَنْ اَحَبَّ اٰخِرَتَه أضَرَّ بِدُنْيَاه‘‘ یعنی ’’جو شخص دنیا کو دوست رکھے اس نے اپنی آخرت کا نقصان کیا اور جو آخرت کو دوست رکھے اس نے اپنی دنیا کا نقصان کیا“ (مشکوة)۔

منصب و سرداری کی مذمت اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ ’’مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ اُرْسِلَا فِیْ غَنَمٍ بِاَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِيْنِهِ‘‘ یعنی ’’دو بھو کے بھیڑے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں وہ ان بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جس قدر آدمی کا مال اور منصب کی حرص کرنا اس کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے‘‘ (مشکوۃ)۔

اپنا کام خود کرنے اور محنت و مشقت سے روزی کمانے کی تعریف متعدد احادیث میں وارد ہے یہاں صرف ایک یہی حدیث کافی ہے ’’مَا اَکَلَ اَحَدُُ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ اَنْ يَاكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدَيْهِ وَ اَنَّ نَبِیَّ اللّٰهِ دَاؤدَ عَلَیْہ السَّلَامُُ كَانَ يَاكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدَیْهِ‘‘ یعنی ’’کسی نے اس طعام سے بہتر نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہو اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھاتے تھے‘‘ (مشکوة)۔

درویشی و زیردستی کی تعریف میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔ 

ألاَ أخْبِرُكُمْ بِأهْلِ الْجَنَّةِ کُلُّ ضَعِيْفٍ مُتضَعَّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللّٰهِ لَاَبَرَّهُ اَلَا اُخْبِرُكُمْ بِأهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرُُ‘‘ ”کیا میں تم کو بہشتیوں کا پتا نہ بتاوں۔ وہ ہر کمزور و متواضع آدمی ہے اگر وہ الله پر قسم کھائے تو اللہ اس کو ضرور سچا کر دے کیا میں تم کو دوزخیوں کا پتا نہ بتاؤں وہ ہر بد کلام و بخیل و متکبر آدمی ہے“ (مشکوة)۔

یہاں تک مراتب و مناصب کی مذمت اس بنا پر کی ہے کہ اس سے ناحق لوگوں پر بار پڑتا ہے اور ناحق بار ڈالنا مذموم ہے لیکن منصب و حکومت میں لوگوں پر بار ڈالنا تو اس لحاظ سے بھی مذموم ہے کہ وہ جبر وظلم کا مترادف ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی عام آدمی اپنے ہم مرتبہ شخص پر نرمی و خوشامد سے کوئی بار ڈالے جس کو سوال و التماس کرنا کہتے ہیں ہر چند کہ اس میں کوئی جبر و تشدد اور ظلم و تعدی نہیں مگر بار ڈالنے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ بھی اچھا نہیں۔ آگے یہی بیان فرماتے ہیں:

19

گفت پیغمبر کہ جنت از الہٰ  گر ہمی خواہی ز کس چیزے مخواہ

ترجمہ: پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے اگر تو الله تعالیٰ سے جنت چاہتا ہے تو کسی سے کچھ نہ مانگ۔

20

 چون نخواہی من کفیلم مرترا  جنت الماویٰ و دیدارِ خدا

ترجمہ: جب تو کسی سے کچھ نہ مانگے تو میں تیرے لئے جنت الماویٰ اور دیدار خدا کا ضامن ہوں۔

مطلب : یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے ’’عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَکَفَّلَ لِیْ أنْ لَايَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا اَتَكَفَّلَ لَهُ بِالْجَنَّةِ فَقُلْتُ اَنَا فَكَانَ لَايَسْاَلُ أحَدًا شَیْئًا‘‘ (رواہ ابو داؤد باسناد صحیح) ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ جو شخص میرے لئے ذمہ اٹھائے کہ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگے گا تو میں اس کے لئے جنت کا ذمہ اٹھاتا ہوں تو میں نے عرض کیا کہ میں (یہ ذمہ اٹھاتا ہوں کہ کسی سے کچھ نہ مانگوں گا) پس وہ (یعنی ثوبان) کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے (ریاض الصالحین)

21

آن صحابی زین کفالت شد عیار  تا یکے روزے کہ گشتہ بُد سوار


22

تازیانہ از کفش افتاد راست  خود فرود آمد ز کس آن را نخواست

ترجمه: وہ صحابی (آنحضرت ﷺ کی) اس کفالت (جنت) سے سوال کرنے کے معاملے میں (نہایت) کھرے ہو گئے۔ یہاں تک کہ ایک روز وہ سوار ہوئے تھے (اچانک) ان کے دائیں ہاتھ سے تازیانہ گر پڑا تو (اس کے اٹھانے کو) خود ہی (اونٹ سے) اترے (اور ) کسی (دوسرے شخص )سے اس (کے پکڑا دینے) کا سوال نہیں کیا۔

مطلب: اوپر کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ صحابی جن سے رسول الله ﷺ نے یہ خطاب فرمایا تھا حضرت ثوبان تھے۔ شرح بحر العلوم میں لکھا ہے کہ وہ حضرت معاذ بن جبل تھے قلمی نسخے کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ وہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے ایک اور شرح کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تھے ممکن ہے کہ رسول الله ﷺ نے یہ خطاب وقتاً فوقتاً ان میں سے ہر صحابی سے ساتھ فرمایا ہو۔ اس لئے روایت کی یہ ساری اسناد درست ہوں اور مولانا نے اس روایت کو اس صحابی کی اسناد سے اخذ کیا ہے جن کے ساتھ تازیانہ کا واقعہ مخصوص ہے۔ واللہ اعلم۔


23

آنکہ از دادش نیاید ہیچ بد داند او بے خواہشے خود می دہد

ترجمہ: (مانگنا تو اسی معطی برحق سے چاہیے) جس کے دینے سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی (اور) وہ اپنے بندے کی حاجت کو جانتا (بھی) ہے (بلکہ) بلا طلب دیتا ہے (تو پھر مانگنے پر کیوں نہ دے گا)۔

مطلب: جب بندہ بندے سے سوال کرتا ہے تو اس میں کئی خرابیاں لازم آتی ہیں ایک تو یہ شخص دوسرے پر بار ڈالتا ہے دوسرے اپنی محتاجی کا راز فاش کرتا ہے، تیسرے سوال کی ذلت گوارا کرتا ہے، چوتھے اس سے مخاطب کو بار محسوس ہوتا ہے پانچویں اگر وہ انکار کر دے تو رد سوال کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے، چھٹے اگر کچھ دے دے تو احسان مندی کی عار برداشت کرنی پڑتی ہے وغیر ذالک لیکن حق تعالیٰ سے مانگنے اور اس کے دینے میں کوئی بھی خرابی نہیں۔ لہذا ہر چیز خدا سے مانگنی چاہیے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے ’’لِیَسْألْ أحَدُکُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتّٰی یَسْاَلَ شَسْعَ نَعْلِهِ إذَا اِنْقَطَعَ‘‘ یعنی ”تم میں سے ہر شخص اپنی تمام حاجات اپنے پروردگار سے مانگے یہاں تک کہ جب اس کے نعل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ اسی سے مانگے‘‘ (مشکوۃ) بلکہ حق تعالیٰ سے مانگنا دراصل عبادت ہے فرمایا ُ’’اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَة‘‘ (مشکوۃ) اور اللہ تعالیٰ کو دعا پسند ہے فرمایا ’’سَلُوْا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهِ فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ أنْ يُسْاَلَ یعنی ’’اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو کیونکہ اللہ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے‘‘ (مشکوٰۃ)۔

ہاں مخلوق سے سوال کرنے اور مانگنے کی بعض صورتیں مستثنیٰ بھی ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں

24

ور بامر حق بخواہی آن روا ست آنچنان خواہش طریقِ انبیاء ست

ترجمہ: اور اگر تم حق تعالیٰ کے حکم کے ماتحت (مخلوق سے کچھ) مانگو تو وہ جائز ہے (اور) ایسا مانگنا انبیا علیہم السلام کا طریقہ ہے۔

مطلب: مال مانگنے کے لئے امر حق کی مثال ﴿خُذْ مِنْ أمْوَالِهِم صَدَقَةً ’’(اے پیغمبر ) ان کے مال کی (بھی) زکوة لے لیا کرو“ (التوبۃ: آیت 103) خیر مال کی مثال ﴿قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰی۔۔۔﴾ الخ‘‘ ”(اے پیغمبر ) کہو کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی مزدوری تو مانگتا نہیں مگر رشتے ناتے کی محبت (تو قائم رکھو)“ (الشوری: آیت 23) اور مثلاً جب سفر میں کسی کے ساتھ پانی نہ ہو جس سے وہ وضو کر سکے اور اس کے رفیق کے پاس پانی ہو تو وضو کے لئے اس سے پانی مانگنے کا حکم ہے ’’اِنْ كَانَ مَعَ رَفِيْقِہِ ُمَاءُُ فَعَلَيْهِ أنْ يَسْاَلَه‘‘ ’’اگر اس کے رفیق کے ساتھ پانی ہو تو اس سے مانگنا واجب ہے“ (شرح وقایہ) اور چونکہ نماز بر وقت ادا کرنا خداوند تعالیٰ کی طرف سے مامور بہ ہے لہذا اس کے تمام ذرائع بھی جن میں ایک طلب ماء بھی ہے۔ بمزلہ مامور بہا ہو گئے۔ اگر اس قسم کے سوال میں یہ شبہ ہو کہ اس سے بھی دوسرے پر بار ڈالنے کی خرابی لازم آتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ


25

 بد نماند چون اشارت کرد دوست کفر ایمان شد چو کفر از بہرِ اوست

ترجمہ: (جب ایسا سوال کرنے کا) محبوب (حقیقی) نے اشارہ کر دیا تو خرابی نہیں رہی، جب کفر اس (کے حکم کی تعمیل) کے لئے ہے تو کفر بھی ایمان ہو گیا۔

مطلب: اشارہ کے لفظ میں یہ لطیف اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس امر میں بہ نظرِ اجتہاد جواز و اباحت کا اشارہ معلوم ہو اس میں کوئی مفسدہ نہیں اور جب ایسے امر میں مفسدہ نہیں تو پھر جس امر میں بطور عبارة النص اذن متحقق ہو، اس میں مفسدہ کا احتمال کیونکر ہوسکتا ہے۔ کلیدِ مثنوی میں لکھا ہے کہ کفر سے مراد یا تو وہ کلمہ ہے جس کو سامع کفر سمجھتا ہے اور واقع میں کفر نہیں جیسے بعض اسرارِ غامضہ جن کے اظہار کی ضرورت ہے کسی کی تربیت کے لئے اور ”بہر او“ کے یہی معنی ہیں کہ تربیت مامور بہ ہے باقی بلا ضرورت ان کا اظہار فتنہ ہے اور یا مراد وہ کلمہ ہے کہ واقعہ میں کلمۂ کفر ہے مگر اکراہ میں اس کا تلفظ ماذون فیہ غیر واجب ہے تو بہرِ او کے معنی سببِ اباحتِ او اور بعض اوقات کلماتِ موہمہ کفر جب کہ وہ مقدر ہوں ۔ کسی واجب کا واجب بھی ہو جاتے ہیں۔ جیسے کعب ابن اشرف یہودی کا قتل بامرِ نبوی واجب تھا اور اس وقت صحابی کو بعض ایسے کلماتِ موہمہ کا استعمال کرنا پڑا جو ذریعہ بنا کعب کے استمالت و اعتماد و بے فکری کا، جس کی ضرورت تھی تحصیلِ مقصود و قتل میں۔ (انتہٰی) 

26 

ہر بدے کہ امرِ او پیش آورد  آن ز نیکیہائے عالم بگذرد

ترجمہ: (غرض) جو برائی ایسی ہو کہ اس (محبوبِ حقیقی) کا علم اس کو پیش لائے، وہ تمام عالم کی نیکیوں سے بڑھ جاتی ہے۔

مطلب: یہاں بدی سے وہی سیّئات مراد ہوں گے جو مامور کے درجہ میں پہنچ جائیں جس کی ایک مثال ابھی اوپر گذری۔ دوسری مثال یہ بھی ہے کہ کھانا قبیح تھا لیکن اضطرار میں حسن بدرجہ واجب ہو گیا کہ اگر کوئی نہ کھائے اور مر جائے گنہگار مرے گا اور یہ ظاہر ہے کہ واجب افضل الحسنات ہوتا ہے۔ پس یہ صادق آ گیا ”آن ز نیکیہائے عالم بگذرد“۔ (کلید)

27

 زان صدف گر خستہ گردد نیز پوست دہ مده کہ صد ہزاران دُر دروست

ترجمہ: (اس کی مثال ایسی ہے کہ) اگر (موتی نکالتے وقت) اس سیپ (کے ٹوٹنے) سے (جس میں موتی ہیں تمہارے ہاتھ یا کسی اور عضو کی) کھال چھل جائے (تو بھی) سیپوں کو برا نہ کہو کیونکہ ان میں لاکھوں موتی ہیں۔

28 

این سخن پایان ندارد باز گرد  سوئے شاه و ہم مزاج باز گرد

ترجمہ: اس بحث کا تو خاتمہ نہیں (جس میں اسبابِ دنیا کی مضرتوں کو شمار کر رہے ہو اس لئے) سلطان (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی طرف رجوع کرو (کہ مفاسد دنیا سے بچنے کے باوجود اس پر توکل بھی ہو) اور (توکل میں) باز کے ہم مزاج بن جاؤ (جو شکار کر کے پھر بادشاہ کی طرف لوٹ آتا ہے)۔

مطلب: اسبابِ دنیا کی بے شمار اقسام اور ان گوناگوں مضرتیں کہاں تک شمار کرو گے جن سے بچنے کے لئے ان کا استحضار لازم ہے اور پھر بچنے کی کوشش کا نتیجہ حسبِ مراد نکالنا بھی خدا کے ہاتھ میں ہے لہذا مقدور بھر ان سے بچنے کی کوشش بھی کرو اور حق تعالیٰ پر توکل بھی رکھو جیسے باز کا مزاج ہوتا ہے کہ صید گیری کی پوری سعی کرنے کے ساتھ ساتھ رجوع بادشاه کی طرف رکھتا ہے۔ آگے اس رجوع کی دوسری مثال ارشاد ہے۔

29

 باز رو در کان چو زرِّ دَہ دَہی  تا رہد دستانِ تو از دَہ دَہی

ترجمہ: تو خالص سونے کی طرح (اپنے) معدن کی طرف رخ کر (تاکہ تیرے ہاتھ (کھوٹ کو) دفع کرنے سے محفوظ رہیں۔

مطلب: اپنی تمام سعی و کوشش کو حق تعالیٰ سے منسوب کرو جو افعالِ عباد کا خالق ہے تاکہ پھر ان خطرات و وساوس کو دفع کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے جو عدم توکل میں پیش آتے ہیں اور پھر رسوخ کے بعد ان کا ازالہ مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا ’’گربہ کشتن روزِ اول‘‘ پرعمل کرنا بہتر ہے ورنہ اس کی مثال ایسی ہوگی کہ

30

 دُزد را چون قطع تلخی مے رہد   ذوقِ دزدی را چو زن دہ مے دہد

ترجمہ: چور پر جب (اپنی چوری کی سزا میں ہاتھ) قطع (ہونے) کی تلخی ظاہر ہوتی ہے (تو پھر وہ) چوری کی لذت کو عورت کی طرح دل سے دفع کرتا ہے۔

مطلب: چور اگر چوری سے پہلے اس کے برے انجام کو سوچ لیتا اور اس برے کام سے بچتا تو بہتر تھا۔ اب جو ہاتھ کٹوا کر عبرت ہوئی تو کیا خاک عبرت ہوئی۔ عورت کے ساتھ تشبیہ یا تو می دہد کے فاعل کو دی ہے کم حوصلگی میں کہ وہ عورتوں کی طرح ا ب بے بسی میں فضول ہاتھ چلا رہا ہے یا یہ تشبیہ دُزد کو دی ہے موردِ نفرت ہونے میں یعنی جس طرح غلام نے اس مصنوعی عورت سے نفرت کی تھی۔ جس کا وصل اس کے لئے باعثِ زحمت ثابت ہوا تھا۔ اسی طرح اب چور اپنے چوری کے خیال پر اظہار نفرت کرتا ہے۔


31 

ديدۂ دہ دادن از دستِ حزین  دہ بِدادن زین بریده دست بین

ترجمہ: تم نے اس شخص کا (چوری کے خیال کو قطع ید سے پہلے) دفع کرنا تو دیکھا ہوگا جو (چوری کو چھوڑنے پر) غمگین ہے مگر اس کٹے ہوئے ہاتھوں والے کا (اس خیال کو) دفع کرنا (بھی) دیکھو (کہ کیسا بے وقت اور بے سود ہے)۔

مطلب: ایک شخص چوری کا عادی ہے مگر کسی وقت اس کو عبرت ہوگئی اور وہ اس سزائے قطع ید سے ڈر گیا اور چوری سے تائب ہو گیا تو اس کی یہ توبہ بر موقع اور سود مند ہے ہر چند کہ وہ ایک معتاد کام کے چھوڑنے پر اپنے دل میں غم محسوس کرتا ہے تا ہم اس کی توبہ نہایت مفید و نافع ہے۔ دوسرا شخص چوری کی سزا پاکر اور ہاتھ کٹوا کر چوری سے توبہ کر رہا ہے اس کی توبہ نہایت بے موقع اور بعد از وقت ہے۔ (بحرالعلوم بہ تبدیلِ عبارت)


32

ہمچنین قلّاب و خونی و لوند  وقت تلخی عیش را دہ می دہند

ترجمہ: اسی طرح قلب ساز اور خونی اور بدمعاش (کا حال ہے کہ وہ اپنے نتائجِ اعمال کی) تلخی (محسوس کرنے) کے وقت عیش کو دھکے دیتے ہیں (جو لاحاصل ہے)۔

مطلب: یہ لوگ آخر میں جس ضرر کو دیکھ کر اپنے افعال کو نفریں کرتے ہیں بوجہ عاقل ہونے کے پہلے بھی تو اس کو سمجھتے تھے اور بچنے کی تدبیر کر سکتے تھے اور قدرت سے کام لے سکتے تھے۔ باوجود اس کے پھر صادر ہونا ان افعال کا اور تدبیر نہ کرنا اور قدرت سے کام نہ لینا دلیل ہے اس کی کہ ان کی قدرت و تدبیر مغلوب ہے کسی دوسری قدرت و تدبیر سے اور وہ قدرت حق ہے۔ پس اس کی طرف رجوع واجب ٹھرا۔ یہی مطلب تھا باز گرد سوئے شاہ کا اور اول بار کے صادر ہونے سے زیادہ ایک امر عجیب اور ادل ہے مغلوبیتِ قدرت و تدبیر عبد پر وہ یہ کہ (کلید)

33

 توبہ می آرند ہم پروانہ وار باز نسیان می کشد شان سوئے کار

ترجمہ: یہ لوگ (قلاب و خونی وغیرہ بعض اوقات) پروانہ کی طرح توبہ بھی کرتے ہیں تو پھر غفلت ان کو کام کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔


34

 ہمچو پروانہ ز دُور آن نار را  نورِ ديده بستہ آن سُو بار را

ترجمہ: جیسے پروانے نے دور سے اس آگ کو نور سمجھا (جو اسے روشن نظر آئی اور اپنا) بستر بوری اٹھا کر اسی طرف ہو لیا۔

35

 چون بیامد سوخت پرّش درگریخت  باز چون طِفلان فتاد و ملح ریخت

ترجمہ: جب (آگ کے پاس ) آیا (اور) اس کا پَر جلا تو بھاگا پھر بچوں کی طرح (اسی پر) جا پڑا اور نمک گرا دیا۔


36

 بارِ دیگر بر گمانِ طمع سود  خویش را زد بر لہیبِ شمع زُود

ترجمہ: پھر دوبارہ طمع اور فائدے کے گمان پر فورًا اس شمع کی آگ پر اپنے آپ کو دے مارا۔

37

 بارِ دیگر سوخت پر، واپس بجست  باز کردش حرص دل ناسی و مست

ترجمہ: دوباره (جو) جلا تو پھر واپس کود (کر الگ ہو) گیا پھر حرص قلبی نے اس کو بھولنے والا اور مست بنا دیا۔

38

 آن زمان کز سوختن وا می جہد  ہمچو ہندو شمع را دہ می دہد

ترجمہ: جس وقت جلنے کے سبب وہ ہٹتا ہے تو (اس) غلام (مذکور) کی طرح (جس نے مصنوعی دلہن کو پرے ہٹا دیا تھا) شمع پر نفریں کرتا ہے (اور بزبانِ حال کہتا ہے): 

 39

کاے رخت تابان چو ماہِ شب فروز وے بصُحبت کاذب و مغُرور سوز

ترجمہ: کہ اے (شمع) تیرا چہرہ تو رات کو منور کر دینے والے چاند کی طرح درخشاں ہے اور اے (شمع) صحبت کے وقت تو جھوٹی اور دھوکا کھانے والے کو جلا ڈالتی ہے۔

مطلب: جس طرح پروانہ شمع کی سوزش کو محسوس کر کے بار بار اس سے گریز کرتا رہا مگر پھر اس کی حرص و فریفتگی ہر بار شمع کے پاس لے جاتی رہی حتٰی کہ وہ جل بھن کر رہ گیا۔ اسی طرح یہ قلاب و خونی وغیرہ اپنی قلب سازی و خونریزی وغیرہ جرائم کی برائی کو محسوس کر کے ان سے تائب ہونے کی کوشش کرتے مگر ہر مرتبہ جرم کی عادت اور معاصی کی ذلت ان کو ارتکاب پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ:

40

 باز از یادش رود توبہ و انین  کہ اَوْھَنَ الرَّحْمٰنُ كَيْدَ الكَافِرِيْنَ

ترجمہ: تو پھر توبہ اور گریہ اس (قلاب یا خونی) کی یاد سے جاتی رہتی ہے (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴾ (الانفال: آیت 18) یعنی ’’الله تعالیٰ کافروں کی تدبیر کو ضعیف کرنے والا ہے‘‘۔

مطلب: شعر میں رعایت وزن کے لئے آیت کے معنی لئے گئے ہیں یعنی حق تعالیٰ نے کفار کی ان تدابیر کو جو وہ مسلمانوں کے خلاف عمل میں لا رہے تھے خاک میں ملا دیا حالانکہ وہ لوگ بڑے طاقتور اور ہوشیار و مدبر تھے۔ جس سے ثابت ہوا کہ بندے کی قدرت مغلوب ہے اور حق تعالیٰ کی قدرت غالب۔ اسی طرح مرتکبینِ جرائم بھی جب ترکِ جرائم کا ارادہ کرنے کے باوجود جرائم کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ قدرتِ حق کا غیبی ہاتھ ان کو کشاں کشاں اس طرف لے جاتا ہے اور ان کے ارادہ و قصد کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ صائب 

کارِ جہان چنانکہ تو خواہی اگر شود   ایمان نیاوری بخدائے جہان کہ ہست 

آیت کے ایراد سے مقصود قدرتِ حق کا غلبہ دکھانا ہے نہ یہ کہ قلاب و خونی وغیرہ کو کافرین کے زمرہ میں شامل کرنا، کیونکہ ممکن ہے وہ مسلمان ہوں جو ارتکاب کبیرہ کے سبب سے مستوجبِ عذاب ہوئے ہوں۔