دفتر ششم: حکایت: 6
صبر فرمودنِ خواجہ مادرِ دختر را کہ غلام را زجر مکن کہ من اُو را بے زجر بتدبیر ازین طمع باز آرم۔
خواجہ کا لڑکی کی ماں کو صبر کی ہدایت کرنا کہ غلام کی سرزنش نہ کرو کیونکہ میں اس کو سرزنش کے بغیر ایک تدبیر کے ساتھ اس طمع سے روک دوں گا۔
1
گفت خواجہ صبر کن با او بگو کہ ازو ببریم بدہیمش بتو
ترجمہ: خواجہ نے (بیوی سے) کہا صبر کرو، اس کو کہہ دو کہ ہم (لڑکی کی منگنی) اس (اجنبی) سے فسخ کرا دیں گے (اور) اسے تجھے دے دیںنگے۔
2
تا مگر این از دلش بیرون کنم پس تماشا کُن کہ دفعش چون کنم
ترجمہ: تاکہ شاید اس (خیال) کو اس کے دل سے نکال دوں پھر تماشا دیکھنا کہ اس کو کس طرح (اس ہوس سے) ہٹاتا ہوں۔
3
تو دلش خوش کن بگو میدان درست کہ حقیقت دخترِ ما جفتِ تست
ترجمہ: تم اس کا دل خوش کر دو (اور) کہو ٹھیک سمجھ۔ کہ سچ مچ ہماری لڑکی تیری بیوی ہے۔
4
ما ندانستیم اے خوش مشتری چونکہ دانستیم تو اولٰی تری
ترجمہ: اے اچھے خریدار! ہم کو (تمہارا یہ ارادہ) معلوم نہ تھا، اب جو معلوم ہو گیا تو تُو زیادہ مستحق ہے۔
5
آتشِ ما ہم درین کانونِ ما لیلٰی آنِ ما و تو مجنونِ ما
ترجمہ: ہماری آگ (اور) ہمارے اسی چولہے میں (رہے اور کیا چاہیے) لیلٰی (بھی) ہماری اور مجنوں بھی ہمارا۔
6
تا خیال و فکر خوش بروَے زند فکرِ شیرین مر ورا فربہ کند
ترجمہ: تا کہ خوشگوار خیال اور فکر اس پر چھا جائے اور لذیذ فکر اسے فربہ کر دے۔
7
جانور فربہ شود لیک از علف آدمی فربہ ز عزّست و شرف
ترجمہ: جانور (بھی) فربہ ہوتا ہے لیکن گھاس سے، آدمی عزت و بزرگی سے فربہ ہوتا ہے۔
8
آدمی فربہ شود از راہِ گوش جانور فربہ شود از حلق و نوش
ترجمہ: آدمی (اپنے لئے جناب اور حضور کے خطاب سن سن کر) کان کے راستے سے موٹا ہوتا ہے (اور) جانور حلق (کے راستے سے) اور (کھانے) پینے سے موٹا ہوتا ہے۔
مطلب: آدمی کے نفس کو جو بات پسند ہو وہ اس کے سننے سے موٹا ہوتا ہے اس بنا پر خواجہ اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ غلام کو اس کی مراد پوری ہونے کی بشارت دے دو تاکہ صحت یاب اور فربہ ہو جائے۔
9
گفت آن خاتون کزین ننگ مہین خود زبانم کے بجنبد اندرین
ترجمہ: اس بیوی نے کہا کہ اس (معاملے) میں ایسی شرمناک و رسوا کن بات کے ساتھ میری زبان کیسے حرکت کرے گی۔
10
این چنین ژاژے چہ خایم بہرِ او گو بمیر آن خائنِ ابلیس خُو!
ترجمہ: ایسی بیہودہ بات میں اس (کمینے) کے لئے کیا کہوں وہ خیانتی ابلیس مرتا ہے تو مرے۔
11
گفت خواجہ نے مترس و دم دہش تا روَد علت ازو زین لطف خوش
ترجمہ: خواجہ نے کہا نہیں ڈرو نہیں اور اس کو دم (دلاسا) دے دو تاکہ اس خوش لطفی سے اس کا مرض جاتا رہے۔
12
دفعِ او را دلبرا بر من نویسہِل کہ صحت یابد این باریک ریس
ترجمہ: پیاری! تم اس کا دفعیہ میرے ذمہ لکھ لو (اس کو اتنی) مہلت دو کہ خیالی پلاؤ پکانے والا صحت یاب ہو جائے۔
13
چون بگفت آن خستہ را خاتون چنین می نگنجید از تبختُر بر زمین
ترجمہ: جب خاتون نے اس خستہ (دل) سے اس طرح کہہ دیا تو وہ ناز سے زمیں میں (پھولا) نہیں سماتا تھا۔
14
زفت گشت و فربہ و سرخ و شگُفت چون گلِ سرخ و ہزاران شُکر گفت
ترجمہ: وہ موٹا تازہ اور گلاب کے پھول کی طرح سرخ اور شگفتہ ہو گیا اور اس نے ہزاروں شکرانے ادا کیے۔
15
گہہ گہے می گفت اے خاتونِ من کہ مبادا باشد این دستان و فن
ترجمہ: کبھی کبھی کہتا اے میری مالکہ! ایسا نہ ہو کہ یہ سب مکر و فریب ہو۔
16
لیک خاتون جزم می گفتش کہ ما درپئے اینیم فارغ باش ہا
ترجمہ: لیکن خاتون اس کو یقین (دلا کر) کہتی کہ ہم (اسی معاملے) کے درپے ہیں لے (اب) تو مطمئن رہ۔
17
خواجہ چون دیدش کہ سرخ و زفت گشت رفت از وے علت و آمد بگشت
ترجمہ: خواجہ نے جب اس کو دیکھا کہ سرخ اور فربہ ہو گیا اس کا مرض جاتا رہا اور چلنے پھرنے لگا۔
18
او دلش دادے بہ تزوير و فسوس تا فزون می شد نشاطش چون خروس
ترجمہ: تو وہ فریب اور مذاق سے اس کی حوصلہ افزائی کرتا یہاں تک کہ مرغ کی طرح اس کی خوشی ترقی کرتی۔
19
خواجہ جمعیّت بکرد و دعوتے کہ ہمی سازم فرج را وصلتے
ترجمہ: خواجہ نے ایک مناسب موقع دیکھ کر مجلس (منعقد) کی اور (احباب) کو دعوت دی اور اعلان کیا کہ میں (اپنے غلام) فرج کا عقد کروں گا۔
20
تا جماعت عشوه می دادند و گال کاے فرج بادت مبارک اتصال
ترجمہ: (لیکن یہ اسراری قصہ سب احباب کو معلوم تھا) یہاں تک کہ (ان میں سے بھی) ایک جماعت (اس غلام کو) دھوکا اور فریب دیتی تھی کہ اے فرج تجھ کو وصل مبارک ہو۔
21
تا یقین تر شد فرج را آن سخن علت از وے رفت کُل از بیخ و بن
ترجمہ: یہاں تک کہ فرج کو بھی اس بات کا زیادہ یقین ہو گیا تو اس کی تمام بیماری جڑ بنیاد سے جاتی رہی۔
22
بعد از آن اندر شب گِردک بفن امردے را بست حنّا ہمچو زن
ترجمہ: اس کے بعد شب عروسی میں بطور فریب ایک بے ریش جوان کے (ہاتھوں میں) عورت کی طرح مہندی لگائی۔
23
پر نگارش کرد ساعد چون عروس پس نمودش ماکیان دادش خروس
ترکیب: نگارش کا شین ضمیر ساعد کا مضاف الیہ ہے یعنی ساعدش پُر نگار کرد۔
ترجمہ: اور اس کی کلائیاں دلہن کی طرح آراستہ کیں پھر اس کو دکھائی مرغی اور حوالہ کیا مرغ۔
24
مِقنعہ و حُلہ عروسانہ نکوکُنگ امرد را بپوشانید رو
"کُنگ" بضمہ کاف فارسی فربہ و قوی ہیکل اور بکسر کاف بے حیا و زبان آور۔
ترجمہ: چنانچہ اوڑھنی اور دلہنوں کے عمدہ جوڑے نے ایک قوی ہیکل (یا بے حیا) امرد کا منہ چپھا دیا۔
25
شمع را ہنگامِ خلوت زود کُشت ماند ہندو با چنان کُنگ درشت
ترجمہ: (جس نے) خلوت کے وقت شمع کو فورََا گل کر دیا (اب وہ) غلام ایسے قوی ہیکل (اور) سخت (جوان) کے ساتھ (اکیلا) رہ گیا (اس کے بعد غلام کے ساتھ جو سلوک ہونے لگا وہ ظاہر ہے چنانچہ)
26 .
ہندوک فریاد می کرد و فغان از برون نشنید کس از دف زنان
ترجمہ: بیچارہ غلام فریاد اور زاری کرتا تھا مگر باہر دف بجانے والوں (کے شور) کی وجہ سے کوئی نہیں سنتا تھا (اگر کوئی سن بھی لیتا تو اس کی داد رسی کب کرنے لگا تھا کیونکہ یہ کاروائی دانستہ کرائی گئی تھی)۔
27
ضربِ دف و کفّ و نعرۂ مرد و زنکرد پنہان نعرۂ آن نعره زن
ترجمہ: دف اور تالی کے بجنے اور مرد و زن کے غل نے اس فریادی کے نعرے کو چھپا دیا۔
28
تا بروز آن ہندوک را می فشارد چون بُوَد در پیشِ سگ انبان آرد
ترجمہ: (غرض) وہ (مشٹنڈا) دن (چڑھے) تک بیچارے غلام کو رگڑتا رہا (بس وہی کیفیت تھی) جیسے کتے کے آگے آٹے کی بوری ہو۔
29
روز آوردند طاس و بوغ زفت رسمِ داماد آن فرج حمام رفت
ترجمہ: دن کو طشت اور بھرا ہوا بغچہ لایا گیا (اور) وہ (غلام) فرج (نام) داماد کے دستور سے حمام میں گیا۔
30
رفت در حمام او رنجور جان کون دریدہ ہمچو دلق تونیان
ترکیب: ’’رنجورِ جاں‘‘ اور ’’کون دریدہ‘‘ دونوں حال ہیں ضمیر ”او“ سے جو فرج کی طرف راجع ہے۔
ترجمہ: وہ حمام میں گیا (بحالیکہ) نیم مردہ (اور) بھنگیوں کے گدڑے کی طرح کون دریدہ (تھا)۔
31.
آمد از حمام در گردک فسوس پیشِ او بنشست دختر چون عروس
ترجمہ: وہ حمام سے حجلۂ عروسی میں بحالتِ حسرت (واپس) آیا۔ لڑکی دلہن کی طرح سے اس کے آگے آ بیٹھی۔
مطلب: صبح کو وہ عروس نما امرد تو اپنی راہ لگا۔ اب خواجہ کی لڑکی رات کی بناوٹی عروس کے لباس میں غلام کے پاس آ بیٹھی۔ بے وقوف غلام یہ سمجھتا تھا کہ یہ وہی عروس ہے جس کے ساتھ اسے خلوت میں پالا پڑا تھا اور چونکہ اب غلام کے تفتیشِ حال سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے۔
32
مادرش آن جا نشستہ پاسبان کہ مبادا کو کند روز امتحان
ترجمہ: اس (لڑکی) کی ماں (بطور) پاسبان وہاں آ بیٹھی کہ مبادا وہ دن میں امتحان کرنے لگے۔
مطلب: چونکہ وہ غلام بدانست خود اس لڑکی کا خاوند تھا ممکن تھا کہ بحقّ خاوندی اس کے بدن کو ٹٹول کر یہ معلوم کرنا چاہتا کہ عورت ذات ہو کر رات کو اس نے یہ کیا کیا افعال کئے اور کیونکر کئے اور پھر راز فاش ہوجاتا اور خواجہ کی ساری تدبیر خاک میں مل جاتی۔ اس لئے لڑکی کی ماں پاس آ بیٹھی تاکہ نہ خلوت ہو نہ اس کو امتحان کا موقع ملے۔ اسی خلوت شکنی کو پاسبانی سے تعبیر کیا ہے۔ آخر خاتون کی یہ حکمت عملی مفید ثابت ہوئی۔ چنانچہ:
33
ساعتے در وے نظر کرد از عِناد آنگہان با ہر دو دستش ده بداد
ترجمہ: اس (غلام) نے (کسی مزید تفتیش کے بغیر) تھوڑی دیر تک اس (لڑکی) کو عناد کی نظر سے تکا۔ پھر اس کو دونوں ہاتھوں سے پرے کر دیا۔
مطلب: گو غلام کا اس لڑکی کی ہوس میں امرد سے بدسلوکی سہنا اس قصے کا مقصود ہے مگر اس قصے کی جان ہے کہ یہی غلام جو لڑکی پر سو جان سے نثار تھا اب اس کو ٹھکرا رہا ہے اور یہی خواجہ کی تدبیر کا مقصود تھا کہ عاشق کو معشوقہ سے متنفر کردے۔ ایک شرح میں لکھا ہے صبح کو حجلۂ عروسی میں وہ مصنوعی دلہن آ کر بیٹھی جو رات کو اس کے ساتھ خلوت میں تھی۔ اس تقدیر پر کئی نقص عائد ہوتے ہیں۔ (1) اگر در وے نظر کرد کا مصداق مصنوعی دلہن ہوتی تو راز فاش ہو جاتا، کیونکہ در وے کے لفظ میں بمقابلہ بر وے کے غور و توجہ اور دید چہرہ کا مفہوم شامل ہے۔ (2) خواجہ کی تدبیر کا کمال اسی میں ہے کہ غلام اب دختر ہی کو دو ہاتھوں سے پرے کرے، اگر مصنوعی دلہن کو دختر سمجھ کر پرے کیا تو اس میں وہ لطف نہیں اگرچہ مقصود حاصل ہوئے۔ (3) ’’پیش او بنشست دختر چون عروس‘‘ کے کلمات صاف بتا رہے ہیں کہ اس میں وہاں آ کر بیٹھنے والی دختر خواجہ ہی تھی جو اس وقت عروسانہ انداز میں آ کر بیٹھی۔اسی لئے چون عروس کا لفظ کہا یعنی وہ فی الحقیقت عروس نہ تھی نہ اس کی عروسی کا ابھی وقت آیا۔ اس کو مصنوعی دختر کہنا بلا ضرورت مخالفت ظاہر ہے۔ غرض غلام نے دختر کو نفرت کے ساتھ پرے کر دیا اور
34
گفت کس را خود مبادا اتّصال با چو تو ناخوش عروسِ بد فعال
ترجمہ: (اور) کہنے لگا تجھ جیسی بری (اور) بدکار دلہن کے ساتھ کسی کو وصل ہی (میسر) نہ ہو۔
35
روز رویت ہمچو خاتونِ ختن شب عمودت ہمچو شاخِ کرگدن
ترجمہ: دن کو تیرا چہرہ ختن کی خاتون کا سا ہے رات کو تیرا آلہ گینڈے کے سینگ کا سا ہے۔
36
روز رویت ھمچو خاتون تتر کیرِ زشتت شب بتر از کیرِ خر
ترجمہ: دن کو تیرا چہرہ تاتار کی خاتون کا سا ہے۔ رات کو ترا آلہ ذَکرِ خر سے بدتر ہے۔