دفتر 6 حکایت 5: ایک ہندی غلام کی کہانی جو اپنے آقا کی بیٹی کا پوشیده آرزومند تھا جب لڑکی کو کسی رئیس زادہ کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔ تو غلام بیمار ہو کر گھلنے لگا، کسی کو اس کا مرض معلوم نہ ہوا اور وہ (خود) بیان کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور طبیب اس کے علاج سے عاجز آ گئے۔ جب آقا کو معلوم ہوا تو اس نے ایک حکمت عملی سے (اس کا) علاج کر دیا

دفتر ششم: حکایت: 5


حکایتِ غلامِ ہندو کہ بخواجہ زادۂ خود پنہان ہوس داشت۔ چون دختر را با مہتر زادۂ عقد کَردند غلام رنجور شد و می گداخت۔ کس علت او را ندانست و او زہرۂ گفتن نداشت۔ و اطبّا از معالجۂ او فرو ماندند، چون خواجہ دریافت بحکمت معالجہ کرد۔

ایک ہندی غلام کی کہانی جو اپنے آقا کی بیٹی کا پوشیده آرزومند تھا جب لڑکی کو کسی رئیس زادہ کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔ تو غلام بیمار ہو کر گھلنے لگا، کسی کو اس کا مرض معلوم نہ ہوا اور وہ (خود) بیان کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور طبیب اس کے علاج سے عاجز آ گئے۔ جب آقا کو معلوم ہوا تو اس نے ایک حکمت عملی سے (اس کا) علاج کر دیا۔

1

خواجۂ را بود ہندو بندۂ پروریده کرده او را زندۂ

ترجمہ: ایک آقا کا ایک ہندی غلام تھا جس کو پرورش کر کے زندہ کر دیا تھا (جب خریدا ہوگا مریل سا ہوگا پھر آ قا کی تربیت و پرورش سے اس میں جان پڑ گئی)۔

2

علم و آدابش تمام آموختہ  در دلش شمع ہنر افروختہ

ترجمہ: (جسمانی تربیت کے علاوہ اسے روحانی تربیت بھی دی۔ یعنی) اس کو (حسب ضرورت) پورا علم اور آداب سکھائے۔ اس کے دل میں ہنر کی شمع روشن کی۔

3

پروریدش از طفولیّت بناز  درکنارِ لطفِ آن اکرام ساز 

ترجمہ: اس کرم فرما (آقا نے) اس کو بچپن سے مہربانی کی گود میں ناز کے ساتھ پالا تھا۔ 

4

بود ہم این خواجہ را یک دخترے  سیم اندامے، گشے، خوش گوہرے

ترجمہ: اس آقا کی ایک بیٹی بھی تھی جو سیمین بدن، خوب صورت اور خوب طنیت تھی۔

5

چون مُراہق گشت دختر طالبان  بذل می کردند کابینِ گران 

ترجمہ: جب (وہ) لڑکی قریب بہ بلوغ ہوئی تو (اس کے نکاح کے) طلب گار بڑے بڑے مہر پیش کرنے لگے۔

6

می رسیدش از سوے ہر مہترے بہرِ دختر دمبدم خواہش گرے 

ترجمہ: اس (خواجہ) کے پاس ہر رئیس کی طرف سے اس لڑکی کے لئے لگا تار ایک درخواست (نکاح) کرنے والا پہنچتا تھا۔

7

گفت خواجہ مال را نبود ثبات روز آید شب رود اَندر جہات

ترجمہ: خواجہ نے کہا مال کو پائیداری نہیں، دن کو آتا ہے رات کو ادھر ادھر چلا جاتا ہے۔

8

حسن صورت ہم ندارد اعتبار  کہ شود رخ زرد از یک زخمِ خار 

ترجمہ: خوب صورتی کا بھی کچھ اعتبار نہیں کہ وہ (خوب صورت) ایک کانٹے کے زخم سے پیلا پڑ جاتا ہے اور صورت بدل جاتی ہے۔

9

سہل باشد نیز مہتر زادگی  کہ بود غرّہ بمال و بارگی

ترجمہ: رئیس زادہ ہونا بھی ناچیز ہے کہ وہ مال اور گھوڑے پر مغرور ہوتا ہے۔

10

اے بسا مہتر بچہ کز شور و شر شد ز فعلِ زشتِ خود ننگ پدر

ترجمہ: اجی بہتیرے رئیس زادے ہیں جو (طبعی) خباثت کے سبب اپنے برے افعال سے باپ کے لئے (باعث) عار ہو رہے ہیں۔ 

11

پُر ہنر را نیز اگر باشد نفیس کم پرست و عبرتے گیر از بلیس

ترجمہ: کسی ہنر مند کو (بھی) اگر وہ حاسد ہو اچھا نہ سمجھو اور ابلیس سے عبرت پکڑو (ابلیس کے ہنر مند ہونے پر کیا شک مگر اس نے جو آدم علیہ السلام سے حسد کیا تو اس سے وہ مردود ہوگیا)۔

12

علم بُودش چون نبودش عشقِ دین اوندید از آدم اِلَّا نقشِ طین 

ترجمہ: (گو) اس کو علم (کثیر حاصل) تھا مگر (چونکہ اس کو) دین کا عشق نہیں تھا (اس لئے) اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے مٹی کی مورت کے سوا کچھ نہ دیکھا (اگر دین کا عشق ہوتا تو اسے آدم علیہ السلام کی دینی شان بھی نظر آجاتی)۔

13

گرچہ دانی دقّتِ علم اے امین  زانت نکشاید دو دیدہ غیب بین 

ترجمہ: اے (علم کے) امانت دار! اگر چہ تم کو علم کی باریکیاں (خوب) آتی ہیں (مگر) اس سے تمہاری دونوں غیب بین آنکھیں نہیں کھل سکتیں ۔ جامیؒ

خواجہ زند بانگ کہ صنعت ورم مس شود از جودت صنعت زرم 

لیکن اگر دست بجیبش نہی  چون کفِ مفلس بود از زر تہی 

کیسہ چو خالی بود از زر و سیم دعویِ اکسیر چہ سود از حکیم


14

او نبیند غیر دستارے و ریش   از معرِّف پرسد از بیش و کمیش


ترجمہ: (چنانچہ ) وہ (ظاہر بین کسی با کمال کی) پگڑی اور داڑھی کے سوا(اور کچھ) نہیں دیکھتا (اگر اس کے باطن کا حال معلوم کرنا ہو تو) اس کی کمی و بیشی کسی کو بتانے والے سے پوچھے گا۔

15

عارفا! تو از معرِّف فارغی  خود ہمی بینی کہ نورِ بازغی

ترجمہ: (مگر) اے عارف! تم بتانے والے سے بے نیاز ہو تم خود (احوال باطن) دیکھ لیتے ہو کیونکہ تم نورِ درخشاں ہو۔

16

 کارِ تقوی دارد و دین و صلاح  کہ ازو باشد بدو عالم فلاح

ترجمہ: (غرض) پرہیز گاری اور دینداری اور نیکو کاری ہی کار آمد ہے کہ اس سے دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل ہوتی ہے۔

17

 کرد یک دامادِ صالح اختیار  کہ بُد او فخرِ ہمہ خَیل و تبار

ترجمہ: (یہ سوچ کر) اس نے ایک نیکو کار داماد اختیار کیا جو تمام کنبے اور خاندان کے لئے (باعث) فخر تھا۔

18

پس زنان گفتند او را مال نیست  مہتری و حسن و استقلال نیست

ترجمہ: تو (گھر کی) عورتوں نے کہا اس کے پاس مال نہیں سرداری (کے سامان) اور وجاہت اور بے نیازی نہیں۔

مطلب: زنان سے گھر کی عورتیں مراد ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ کلام مشورہ کے انداز میں ہے جو گھر کی عورتوں سے ہی متوقع ہے اس لئے خواجہ اگلے شعر میں اس کا مناسب جواب دے رہا ہے۔ اگر یہ غیر عورتوں کا قول ہوتا تو اس کا پیرایہ طنزیہ ہوتا جس کا جواب اور طرح ہوتا ہے۔ عنوان میں کہا تھا با مہتر زاده عقد کردند یہاں عورتیں کہتی ہیں مہتری نیست۔ یہ تعارض یوں رفع ہوسکتا ہے کہ وہ خاندان کا رئیس زادہ ہوگا جس کے لحاظ سے عنوان کی عبارت صحیح ہے اور اس عقد کے وقت اس کی فقر و احتیاج کی حالت ہوگی جیسے کہ عموما ً صالحین کی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے عورتوں کا فعل بھی بر محل تھا اس لئے ہم نے تر جمہ میں ”کے سامان“ کا لفظ بڑھا دیا۔


19

گفت آنہا تابع زہد اند و دین  بے زر او گنجے ست بر روئے زمین

ترجمہ: (خواجہ نے عورتوں کو) جواب دیا یہ چیزیں زہد اور دین سے دوم درجہ پر ہیں (پہلے زہد و دین ہی مقصود ہونا چا ہیے) وہ (شخص جس میں زہد و دین ہو) دولت کے بغیر (بھی) روئے زمین پر ایک خزانہ ہے۔

20

چون بجِد تزویجِ دختر گشت فاش دست پیمان و نشانی و قماش 

ترجمہ: جب پختگی کے ساتھ لڑکی کے نکاح (کی منظوری) اور منگنی کی اشیاء اور نشانی اور پارچات (کے دیئے لئے جانے) کی خبر مشہور ہو گئی۔

21 

 پس غلامِ خواجہ کاندر خانہ بُود گشت بیمار و ضعیف و زار زُود 

ترجمہ: تو خواجہ کا غلام جو گھر (ہی) میں رہتا تھا (اس لئے اس کو خبر کی تصدیق آسان تھی) فوراً بیمار و کمزور اور بد حال ہو گیا۔

22 

ہمچو بیمار دقی او می گداخت  علت او را طبیبے کم شناخت 

ترجمہ: وہ تپ دق کے بیمار کی طرح روز بروز گھلتا جا رہا تھا۔ اس کے مرض کو کوئی طبیب نہ پہچان سکا۔

23 

عقل می گفتے کہ رنجش از دل ست  داروے تن در غمِ دل باطل ست

ترجمہ: (گو) عقل کہہ رہی تھی کہ اس کا مرض دل سے (متعلق) ہے (اور) بدن کی دوا دل کے غم میں فضول ہے (مگر یہ راز نہ کھلتا تھا کہ اس کو غم کس بات کا ہے)۔

24

 آن غلامک دم نزد از حالِ خویش  گر چہ می آمد ورا در سینہ ریش

ترجمہ: اس بیچارہ غلام نے (بھی) اپنے حال کے متعلق دم نہیں مارا، اگرچہ اس کے سینے میں زخم لگ رہا تھا۔

25 

گفت خاتُون را شبے شوہر کہ تو  باز پُرسش درخلا از حالِ او

ترجمہ: ایک شب بیوی کو (اس کے) خاوند (خواجہ) نے کہا کہ تم تنہائی میں اس کا حال پوچھو۔

31 

 تو بجائے مادری او را بود  کو غمِ خود پیشِ تو پیدا کند

ترجمہ: تم اس کے لئے ماں کی جگہ ہو شاید کہ وہ اپنا غم تم پر ظاہر کر دے۔

27 

چونکہ خاتون کرد در گوش این کلام   روزِ دیگر رفت نزدیکِ غلام

ترجمہ: جب بیوی نے یہ بات سنی تو اگلے دن غلام کے پاس گئی۔

28 

 پس سرش را شانہ می کرد آن ستی  با دو صد مہر و دلال و دوستی

ترجمہ: پس وہ بیوی نہایت مہربانی اور ناز برداری اور محبت سے اس کے سر میں شانہ کرنے لگی۔

29 

آنچنان کہ مادرانِ مہربان  نرم کردش تا در آمد در بیان

ترجمہ: جس طرح کہ مہربان مائیں (اپنے بچوں کے سر میں شانہ) کیا کرتی ہیں (آخر) اس کو نرم کر (ہی) ليا حتٰی کہ وہ راز کی بات کہنے پر آ گیا۔

 30

 کہ مرا امید از تو این نُبود  کہ دہی دختر بہ بیگانہ عنُود

ترجمہ: کہ مجھ کو تم سے یہ امید نہ تھی کہ (یہ) دختر (ایک) سرکش اجنبی کو دے دو گی۔

31 

خواجہ زاده ما و ما خستہ جگر  حیف نبود کو رود جائے دگر

ترجمہ: ہماری تو آقا کی بیٹی اور ہم (اس کی محبت میں) خستہ جگر ہوں تو (کیا)حیف کی بات نہیں کہ وہ ہم کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائے؟

32

 خواست آن خاتون ز خشمے کامدش کِش زند و ز بام زیر اندازدش

ترجمہ: اس بیوی نے مارے غصے کے جو اس کو (یہ بات سن کر) چاہا کہ اس کو (خوب) پیٹے اور اسے محل سے نیچے گرا دے۔

33 

کو کہ باشد ہندوے مادر غرے  کہ طمع دارد بخواجہ دخترے

ترجمہ: کہ یہ ہندو غلام مادر بخطا کون ہوتا ہے جو آقا کی دختر کی ہوس کرتا ہے۔

34 

 گفت صبر اولٰی بود خود را گرفت  گفت با خواجہ کہ بشنو این شگفت

ترجمہ: (پھر دل میں) کہا صبر اچھا ہوتا ہے (اور) اپنے آپ کو ضبط کیا (اور کسی وقت) خواجہ سے کہا (لو) یہ عجیب بات (اور) سنو۔

35 

 این چنین گرّا یکے خائن بود  ما گمان بردہ کہ ہست او معتمد

ترجمہ: ایسا کمینہ غلام خائن ہے ہم کو یہ گمان تھا کہ وہ بھروسے کے قابل ہے۔

36 

حالِ خود را این چنین گفت او مرا  خواستم کز  خشم بکشم مر ورا

ترجمہ: اس نے اپنا حال مجھ سے یوں کہا ہے میرے جی میں (تو یہ) آیا کہ اس کو مار ڈالوں۔