دفتر ششم: حکایت: 2
نکوہیدن ناموسہائے پوسیدہ را کہ مانع ذوقِ ایمان و دلیلِ ضعفِ صدق اند و راہزن صد ہزار ابلہ
بزرگ باشی کے گلے سڑے خیالوں کی مذمت جو ذوق ایمان کے مانع ہیں اور ضعفِ صدق کی دلیل اور لاکھوں بے وقوفوں کے رہزن ہیں
قلمی نسخے میں اسی سرخی میں ایک حکایت لکھی ہے جس کی عبارت یہ ہے ”چنانچہ راہزن آن مخنث شده بودند گوسفندان یکے نارست رفتن و پرسیدن مخنث از چوپان کہ گوسفندان تو چہ عجب کہ مرا می گزند گفت اگر مردی و در تو رگِ مردی ہست ہمہ فدائے تو، و اگر مخنثی ہر یکے ترا اژدھایست، مخنثے دیگر ہست کہ در حالیکہ گوسفندان دید باز گشت و از پرسیدن ترسید کہ اگر من پرسم، گوسفندان اندر من افتند (ترجمہ) جیسے بکریاں ان ہیجڑوں کی رہزن بن گئی تھیں جن میں سے ایک ہیجڑا چلنے سے عاجز آ گیا اور اس کا گڈریے سے پوچھنا کیا تعجب ہے تیری یہ بکریاں ہم کو کاٹ کھائیں۔ گڈریے نے کہا اگر تو مرد ہے اور تجھ میں مردی کی رگ ہے تو سب بکریاں تجھ پر قربان اور اگر تو ہیجڑا ہے تو ہر ایک بکری تیرے لئے اژدها ہے۔ ایک ہیجڑا اور ہے جوں ہی اس نے بکریاں دیکھیں تو الٹے پاؤں بھاگا اور پوچھنے سے ڈرا کہ اگر میں پوچھنے لگا تو بکریاں مجھ پر حملہ آور ہوں گی“ (انتٰہی) مطلب یہ کہ جس طرح یہ مخنث ناحق بکریوں سے ڈر گئے اسی طرح کم ہمت و ضعیف القلب آدمی قبولِ حق میں اپنے جاہ و ناموس کے متغیر ہونے سے ڈرتا ہے آگے اس بیان کی تمہید چلتی ہے۔
1
اے ضیاء الحق حسام الدین بیا اے صقال روح و سلطانِ ہُدٰی
ترجمہ: اے حضرت ضياء الحق حسام الدین آئیے۔ اے روح کو صیقل کرنے والے اور ہدایت کے بادشاہ! (صقال مصدر ہے بطور مبالغہ صیقل کننده پر اس کا اطلاق کیا ہے)۔
2
مثنوی را مَسرَحِ مشروح دِہ صُورتِ امثالِ او را روح دِہ
ترجمہ: مثنوی کو میدانِ کشاده دیجئے اس کی حکایات کی تصویروں میں جان ڈالئے (اپنی توجہ سے کتاب کے سلسلے کو لمبا اور اس کے مضامین کو پُر اثر کر دیجئے)۔
3
تا حروفش جملہ عقل و جان شوند سُوئے خلدستانِ جان پرّان شوند
ترجمہ: تاکہ اس کے الفاظ (علوم واسرار سے پر ہو کر) سراپائے عقل و روح بن جائیں اور بہشتِ روح کی طرف اڑنے لگیں۔
مطلب: خلدستانِ جان یا بہشتِ روح سے مراد نزول فیض کا عالم ہے مطلب یہ کہ پھر وہ معانی و اسرار اپنے محل یعنی قلوب سمیت عالم غیب کی طرف صعود کریں۔ یعنی اس کی طرف متوجہ ہو جائیں اور یہی افادہ غرضِ اصلی ہے حضرت حسام الدین کی توجہ چاہنے سے۔ (کلید)
4
ہم بسعیِ تو ز ارواح آمدند سوئے دامِ حرف مستحقن شدند
ترجمہ: (اب تک اس کتاب کے جتنے مضامین حیطۂ تحریر میں آئے ہیں وہ) آپ ہی کی سعی سے عالمِ معانی سے آئے ہیں (اور) دامِ الفاظ کی طرف (آکر ) مقید ہوئے ہیں۔
5
باد عمرت در جہان ہمچون خضر جان فزا و دستگیر و مستمر
ترجمہ: آپ کی عمر دنیا میں حضرت خضر علیہ السلام کی طرح (مخلوق کے لئے) حوصلہ افزا اور معاون اور زندۂ جاوید ہے۔
مطلب: حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ متحیر و سرگرداں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، غمزده و بے کس کی دست گیری کرتے ہیں۔ جب سے پیدا ہوئے ہیں زندہ ہیں۔ حضرت حسام الدین کے لئے ان تینوں باتوں میں حضرت خضر کے ساتھ مساوی ہونے کی دعا کی ہے۔
6
چون خضر و اِلياسؑ مانی در جہان تا زمین گردد ز لطفت آسمان
ترجمہ: آپ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیهما السلام کی طرح دنیا میں (زندۂ جاوید رہیں) تا کہ زمین آپ کے فیض سے آسمان کی طرح (پر نور) ہو جائے۔
7
گفتمے از لطفِ تو جزوے ز صد گر نبودے طمطراقِ چشمِ بد
ترجمہ: میں تو آپ کے فیض کا ذکر (اگر پورا نہیں تو کم از کم) ایک فیصد ہی کرتا بشرطیکہ چشم بد کا زور و شور نہ ہوتا۔
8
لیک از چشمِ بدِ زہراب دم زخمہائے روح فرسا خورده ام
ترجمہ: لیکن میں زہریلے اثر والی نظر بد سے روح فرسا زخم کھا چکا ہوں۔
9
جُز برمزِ ذکرِ حال دِیگرانشرح حالت می نیارم در بیان
ترجمہ: لہٰذا میں دوسرے بزرگوں کے حالات کے ذکر سے اشارہ کرنے کے سوا آپ کے حال کو صاف صاف (دائرۂ) بیان میں نہیں لاسکتا۔
مطلب: میں خوفِ حاسدین اور اندیشۂ نظر بد سے آپ کا حال کھلم کھلا بیان نہیں کرسکتا البتہ دوسرے بزرگوں کے حالات میں ضمناً آپ کے حالات کی طرف اشارہ کرتا جاؤں گا۔ مطلب صاف ہے اور مراد ظاہر۔ جس میں ذکر کی اضافت تخصیصی ٹھرتی ہے بیانی نہیں کَمَا قَالَ بَعْضُ الشُّرَّاح کیونکہ اضافت بیانی وہ ہوتی ہے جس میں مضاف الیہ کے ذریعہ مضاف کا مادہ اور حقیقت بیان کی جاتی ہے جیسے خاتمِ طلا اور کاسۂ بلور اور رمز و ذکر میں تباین ہے۔ ’’قَالَ فِي الْقَامُوْسِ اَلرَّمْزُ اَوْمَاَ وَالاِشَارَةُ بِالشَّفَتَيْنِ أوِ الْعَيْنَيْنِ أوِ الْحَاجَبَيْنِ‘‘
10
این بہانہ ہم ز دستانِ دلے ست کہ ازو پاھائے دل اندر گِلے ست
ترجمہ: (آپ کے حالات علانیہ بیان نہ کر سکنے کا) یہ عذر ( بھی ایسے حاسد معاند کے) دل کی شرارت ( کے خوف) سے ہے۔ جس سے میرا پاؤں دلدل میں گڑ رہا ہے (یعنی میں اس کی شرارت سے عاجز اور بے بس ہوں ورنہ اگر کوئی معمولی عذر ہوتا تو میں اس کی پروا نہ کرتا)۔
11
صد دل و جان عاشقِ صانع شده چشمِ بد یا گوشِ بد مانع شده
ترجمہ: سینکڑوں دل و جان صانع (تعالیٰ شانہ) کے عاشق ہوئے اور ان کا وہ عشق اطاعت حق کا مقتضی تھا مگر) بری آنکھ یا برا کان (اس سے) مانع ہو گیا۔
مطلب: یہاں سے بیانِ مقصودِ عنوان شروع ہوتا ہے اوپر کے اشعار تمہید تھے جن میں نظرِ بد کا ذکر اس بیان کے ساتھ رابطہ ہے اور ان اشعار کے مضمون کو مدعائے عنوان کے تحت میں لانا راقم کے نزدیک محض تکلف ہے واللہ اعلم بحقیقۃ الامر۔ فرماتے ہیں کہ بہت سے اشخاص ایسے ہیں کہ ان کے دل میں میلان الی الحق کا جذبہ پیدا ہوا مگر نفس نے ان کو بہکایا کہ اگر لوگ اسے مائل الحق دیکھیں گے یا اس کے مائل الی الحق ہونے کا حال سنیں گے تو کیا کہیں گے، برسوں کی بنی ہوئی آن بان خاک میں مل جائے گی۔ بس ان دیکھنے اور سننے والوں کی آنکھوں اور کانوں نے اس کو تباہ کیا۔ آگے اس کی نظیر میں رسول ﷺ کے چچا ابوطالب کا حال مذکور ہے۔
12
خود یکے بوطالب آن عمِّ رسول می نمودش شُنعتِ عربان مَہُول
ترجمہ: ایک ابوطالب رسول الله ﷺ کے وہ چچا ہی (جو آپ کے مہربان مربی تھے اس ابتلا میں پڑ گئے چنانچہ ان) کو مسلمان ہونے کی صورت میں اہل عرب کے طعنے خوفناک نظر آتے تھے (عام لوگوں کا تو کیا ذکر)۔
13
کہ چہ گویندم عرب کز طفلِ خود او بگردانید دینِ معتمد
ترجمہ: (ان کو خیال ہو گیا) کہ اہل عرب مجھ کو کیا کہیں گے اپنے بھتیجے (کے کہنے) سے اس نے (اپنا) قابل اعتماد مذهب بدل لیا (یہ خیال رہے کہ دین معتمد عرب کے قول کی نقل ہے ورنہ اگر خود ابوطالب اپنے کفر کو معتمد سمجھتے تو وہ تذبذب نہیں بلکہ مصر على الکفر ہوتے اور یہاں مذبذبین کا ذکر مقصود ہے)۔
14
منصبِ اجداد و آبا را بمانْددرپے احمدؐ چنین بے رہ برانْد
ترجمہ: اس نے آباء و اجداد کا منصب چھوڑ دیا اور احمد (ﷺ) کے پیچھے اس طرح بے راہ روانہ ہوگیا۔
مطلب: ابو طالب اہلِ مکہ کے ایک سردار تھے اور قوم و قبیلہ کا مذہب ترک کرنا ان لوگوں کی نظر سے گر جانے اور سرداری کے منصب سے محروم ہو جانے کا مستلزم تھا اس لئے ترکِ مذہب کو ترکِ منصب سے تعبیر کیا۔
15
آن رسولِؐ پاکبازِ مجتبٰیاز پے آن تا رہاند مرو را
16
گفتش اے عمّ یک شہادت تو بگو تا کنم با حق شفاعت بہرِ تو
ترجمہ: رسول پاک باز مجتبی ﷺ نے اس غرض سے کہ ان کو (نار دوزخ سے) نجات دلوائیں ان سے فرمایا کہ اے چچا! تم ایک بار کلمہ شہادت کہہ لوتا کہ میں حق تعالیٰ کے سامنے تمہارے لئے شفاعت کر سکوں۔
مطلب: یہ قصہ یوں ہے کہ جب ابوطالب مرض الموت میں صاحبِ فراش تھے تو رسول الله ﷺ عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ابوجہل پہلے سے ان کے پاس بیٹھا ہے۔ آپ نے ابوطالب کو نزع کی حالت میں پا کر یہ ارشاد فرمایا جس پر شعر کا مضمون مشتمل ہے اس پر قریب تھا کہ ابو طالب کلمہ شہادت کہہ دیتے مگر پاس سے ابوجہل بولا دیکھنا ساری عمر آباء و اجداد کے مذہب پر قائم رہ کر مرتے وقت یہ کلنک کا ٹیکہ نہ لگا لینا۔ تو ابو طالب نے اس سے جھینپ کر کہا ’’اَخْتَرْتُ النَّارَ عَلٰى العَارَ‘‘ یعنی ”مجھے اس عار کے بجائے عذاب دوزخ منظور ہے“۔ آگے خود ابو طالب کی زبان سے اس عار کی توضیح ہے:
17
گفت لیکن فاش گردد از سماعکُلُّ سِرِِّۤ جَاوَزَ الإثْنَيْنِ شَاع
ترجمہ: (ابو طالب نے کہا میں یہ کلمہ کہہ دوں) لیکن (اس تیسرے شخص کے) سننے سے میری کلمہ خوانی کا (راز) فاش ہو جائے گا (اور) جو راز دو شخصوں سے آگے نکل جائے وہ شائع ہو جاتا ہے۔
مطلب: یہ ایک عام مقولہ ہے جس میں اثنین سے دو لب مراد ہیں یعنی جو بات دو لبوں سے نکل جائے وہ مخفی نہیں رہ سکتی کسی شاعر نے کہا ہے
وَ سِرِّ مَا کَانَ عِنْدَ امْرِءٍ وَ سِرِّ الثَّلَاثَۃِ غَيْرُ الْخَفِءِ
یعنی ”تیرا راز وہی ہے جو ایک شخص (یعنی دل) کے پاس (محفوظ) ہو اور جو راز تین شخصوں (یعنی زبان اور دو لب کے پاس) آ جائے وہ غیر مخفی ہے“ مگر یہاں اتفاقََا اس مقولہ کے الفاظ موجودہ حالت پر بحسب ظاہر چسپاں تھے یعنی اس کلمہ گوئی کا راز آنحضرت ﷺ اور ابوطالب سے گزر کر ابوجہل پر عیاں ہو جانے والا تھا پھر مکہ بھر بلکہ عرب بھر میں اس کی اشاعت یقینی تھی۔ چنانچہ وہ خود کہتے ہیں:
18
من بمانم در زبانِ این عرب پیشِ ایشان خوار گردم زین سبب
ترجمہ: میں (ہمیشہ) ان عربوں کی زبان پر (بد نام) رہوں گا (اور) اس سبب سے ان کے آگے ذلیل ہو جاؤں گا (غرض عار کے خیال نے ان کو کلمہ پڑھنے سے باز رکھا)۔
19
لیک گر بودیش لطفِ ما سبق کے بُدے این بد دلی با جذبِ حق
ترجمہ: لیکن اگر ان پر (حق تعالیٰ کا) ازلی لطف ہوتا تو جذبۂ حق کے ہوتے ہوئے (ان کو) یہ تذبذب کب ہوتا (پھر وہ فورََا کلمہ پڑھ دیتے اور عار شرم کی کوئی پروا نہ کرتے)۔
مطلب: ابوطالب کے سامنے ایک طرف رسول ﷺ کی طرف سے کلمہ شہادت پڑھنے کی تحریک پیش تھی اور دوسری طرف ابوجہل کا ان کو عار دلانا اس تحریک کو قبول کرنے سے مانع تھا۔ اب وہ ہچکچا رہے تھے کہ کیا کریں، کیا نہ کریں۔ آخر بد قسمتی سے عار کا خیال ہی غالب آ کر رہا اگر حق تعالیٰ کی عنایت ازلی ان کے شامل حال ہوتی تو پھر لاکھ ابوجہل بھی جھک مارتے وہ بہرحال کلمہ پڑھ دیتے اور کسی عار و شرم کی پروا نہ کرتے اس لئے جذبۂ حق کی دست گیری بڑی سعادت ہے یہاں نہ دو دلی کا خدشہ ہے نہ تذبذب کا خطره بخلاف اس کے جو شخص اس جذبۂ حق کی گرفت سے باہر ہے اور اس قید و بند کا مقید نہیں اور اسے ایک کام کرنے یا نہ کرنے اور ایک بلا سے بچنے یا نہ بچنے کا اختیار دے دیا گیا ہے اس کی کشتی خطرات کے گرداب میں ہے۔ اس لئے آگے مولانا اس دو گونہ اختیار سے پناہ مانگتے ہیں جو تردد و تذبذب کا مترادف ہے۔
20
اَلْغِيَاث اے تو غِیَاثُ الْمُسْتَغِیث زین دو شاخہ اختیاراتِ خبيث
ترجمہ: اے وہ کہ تو فریادی کا فریاد رس ہے اس دو شاخہ ناپاک اختیاروں سے دہائی ہے (جن میں میرے قلب کو ارتکاب معاصی کے گوناگوں حیلے سوجھتے ہیں)۔
21
من ز دستان و ز مکرِ دل چنان مات گشتم کہ بماندم از فغان
ترجمہ: (چنانچہ) میں قلب کے مکر و فریب سے اس قدر مغلوب ہو رہا ہوں کہ (راہِ حق کی) فریاد سے (بھی) عاجز ہوں۔
مطلب: چونکہ قلب پر نفس و شیطان کا تسلط ہے اس لئے وہ ان کے وساوس کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اس کو عجیب مکرو فريب سوجھتے ہیں۔ کبھی کہتا ہے لوگ ہمارے زہد و تقویٰ پر ہنسیں گے کبھی کہتا ہے اب تو مزے اڑا لو پھر توبہ کر لیں گے۔ کبھی کہتا ہے جو جی میں آئے کرو خدا کا دریائے غفران بے پایاں ہے کبھی کہتا ہے بڑے بڑے لوگوں سے لغزشیں ہو چکی ہیں ہم سے اگر ان کا وقوع ہو تو کیا بات ہے و ہٰکذا۔ واضح رہے کہ مولانا کی یہ دعا تعلیمََا عامۃ المومنین کی زبان سے ہے ورنہ خود مولانا خاصانِ حق سے ہیں جن کے قلوب پر وساوسِ شیطانی کا غلبہ نہیں ہو سکتا۔ غرض یہ خطورِ خواطر و ظہور وساوس انہی دو شاخہ اختیارات کا نتیجہ ہے اس لئے یہ اختیار بری بلا ہے چنانچہ:
22
من کہ باشم چرخ با صد کار و بارزین کمین فریاد کرد از اختیار
ترجمہ: میری تو حقیقت ہی کیا ہے آسماں (بھی) سینکڑوں شان و شکوہ کے باوجود اختیار کے سبب اس کی کمین گاہ سے فریاد کرنے لگا (کمین گاہ سے مراد عالمِ شہادت یعنی دنیا ہے جس میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے اور مکلف باعمال ہے) (کلید)
23
کاے خداوندِ کریمِ بردبار دِہ امانم زین دو شاخہ اختیار
ترجمہ: (آسمان یوں فریاد کرنے لگا) کہ اے خداوندِ کریم وحلیم مجھ کو اس دو شاخہ اختیار سے (جس میں مجھے مکلف ہونا پڑے گا) امان دے۔
مطلب: اس میں عرضِ امانت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو قرآن مجید کی آیۃ ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا۔۔۔﴾ میں مذکور ہے یعنی الله تعالیٰ فرماتا ہے ”کہ ہم نے آسمان و زمین اور پہاڑوں کے آگے امانت پیش کی تو وہ سب اس کے اٹھانے سے عذر کرنے لگے اور اس سے ڈرنے لگے“۔ (الاحزاب: آیت 72) اکثر کے نزدیک وہ امانت تكليفِ اعمال تھی جو انسان کے سپرد ہوئی۔ مولانا نے اس امانت کو اختیار دوشاخہ سے تعبیر فرمایا ہے اور فریاد کرد سے ’’اَبَیْنَ‘‘ اور ’’اَشْفَقْنَ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ درست ہے کیونکہ تکليفِ اعمال بھی اختیار پر ہی مرتب ہے اگر اختیار نہ ہوتا تو تکلیف بھی نہ ہوتی اگر آسمان اس امانت کا ذمہ اٹھا لیتا یعنی مكلّف باعمال ہونا منظور کر لیتا تو پھر اسے ہر طرح کے اعمال سرزد کرنے کا اختیار مل جاتا۔ لہٰذا وہ اس اختیار کے حصول سے فریاد کرنے لگا جو منجر بہ تکلیف ہونے والا تھا۔
24
جذبِ یک راہہ صراط مستقیم بہ ز دو راہہ تردد اے کریم
ترجمہ: اے خداوند کریم! صراط مستقیم کی طرف (تیری طرف سے) بیک جہت کشش ہونا دو راہہ تردد سے بہتر ہے۔
مطلب: اختيار حاصل ہونے کی صورت میں بندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے تردد میں مبتلا ہوتا ہے جس سے گرداب معاصی میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے اور اگر توفیقِ الہٰی اس کو مسلوب اختیار کر کے جبرََا صراط مستقیم کی واحد جانب کو لے جائے تو اس میں کسی خطرہ کا احتمال نہیں امیر خسروؔ ؎
خوشا کسیکہ ازو یافت رو بہ بستانے کہ از عنایت و توفیق در وے اثمار ست
25
زین دو رہ گر چہ ہمہ مقصد توئی لیک خود جان کندن آمد این دوئی
ترجمہ: اگرچہ (طاعت و معصیت کے) ان دونوں راستوں سے مقصود تو ہی ہے لیکن (پھر بھی) یہ تردد (ایک طرح سے) جان کندن (کے برابر موجب اذیت) ہے۔
مطلب: اس شعر میں بطور دفع دخل مقدر ایک شبہ کا جواب ہے شبہ کی تقریر یوں ہے کہ طاعت اور معصیت کا صدور سب هادی مضلّ وغیره اسمائے الٰہیہ کا ہی ظہور ہے پس مطیع و عاصی اسمائے الٰہیہ کے ظہور کا ذریعہ ہونے کی رو سے سب کے سب اسی طرف راجع ہوئے تو پھر ظہورِ اسماء کے نتائج یعنی لطف و قہر برابر ہوئے۔ تقریرِ جواب یہ ہے کہ سب کا مرجع جانب حق تعالیٰ ہونا صحیح ہے مگر یہ دوسرا مقدمہ صحیح نہیں کہ لطف و قہر برابر ہیں کیونکہ مطیع و عاصی مظہر اسماء ہونے میں برابر ہیں مگر ان کے افعال میں سے جو فعل تشریع سے مقصود ہے کہ مكلفين طاعت میں سعی کر کے قرب و قبول سے فائز ہوں اس مقصود میں تو دونوں برابر نہیں یہ مقصود تو منحصر طاعت ہی میں ہے اس لئے معصیت اور سبب معصیت یعنی تردد سے میں پناہ مانگتا ہوں اور جذبِ حق کا خواہاں ہوں۔ (کلید ملخصاً) آگے بھی یہی مضمون ہے۔
26
زین دو رہ گر چہ بجُز تو عزم نیست لیک ہرگز رزم ہمچون بزم نیست
ترجمہ: اگر چہ دونوں راستوں سے سوائے تیرے اور کوئی مقصود نہیں لیکن قہر ہرگز لطف کے برابر نہیں۔
27
درنُبے بشنو بیانش از خدا آیت اَشْفَقْنَ أنْ يَّحْمِلْنَهَا
ترجمہ: (فلک کے) اس (عذر و فریاد) کا بیان قرآن مجید میں خدا تعالیٰ (کے ارشاد) سے سن لو (جو) آیه ﴿فَأبَيْنَ أنْ یَحْمِلْنَهَا وَ أشْفَقْنَ مِنْھَا۔۔۔﴾ (الاحزاب: آیت 72) میں مذکور ہے یہ آیت تھوڑی دور اوپر درج ہو چکی ہے اور کسی گزشتہ جلد میں اس کی پوری تفسیر بھی لکھی جا چکی ہے۔
28
این تردد ہست در دل چُون وغا کین بود بہ یا کہ آن حالے مرا
ترجمہ: یہ تردد (ہمارے نزدیک دوراہہ یا دو شاخہ اس لئے ہے کہ وہ) دل میں گویا ایک (طرح) کی کشمکش ہے کہ یہ (حالت) میرے لئے بہتر ہو گی یا وہ حالت۔
29
در تردد میزند بر ہمدگر خوف و امیدِ بہی در کرّ و فر
ترجمہ: (پس خرابی کا) خوف اور بہتری کی امید (دونوں اپنی) کشمکش میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
30
زین تردد عاقبتِ مان خیر باداے خُدا مر جانِ ما را کُن تو شاد
ترجمہ: اس تردد سے ہمارا انجام بخیر ہو۔ اے خدا! ہماری جان کو (اس تردد سے) نجات بخش کر شاد فرما (آگے ایک مستقل عنوان کے ساتھ اسی تردد کی تفصیل ہے)۔