دفتر 6 حکایت 1: اے صاحب حقیقت! میں مثنوی کی تکمیل میں چھٹا دفتر آپ کی نذر کرتا ہوں







بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

1

 اے حیاتِ دل حُسام الدین بسے  میل مے جوشد بقِسمِ سادِسے

ترجمہ: اے (مولانا) حسام الدین جو کہ دل کی زندگی (کے باعث) ہیں (مثنوی شریف کے) چھٹے دفتر (کو لکھنے) کی (میری) خواہش بہت جوش مارتی ہے۔

2

 گشت از جذبِ چو تو علامۂ  در جہان گردان حسامی نامۂ

ترجمہ: (اور اس جوش کی وجہ یہ ہے کہ) آپ جیسے (فاضل و) علامہ کی کشش (قلبی) سے یہ حسامی نامہ (تالیف ہوا اور مقبولِ عام ہو کر سارے) جہاں میں شائع ہو گیا (تو اس سے خواہش ہوئی کہ ایسی مقبول و مفید تالیف کا سلسلہ جاری رہے)۔

3

 پیشکش بہرِ رضایت میکشم   در تمامِ مثنوی قسمِ ششم

ترجمہ: میں آپ کی خوشنودی کے لیے مثنوی شریف کی تکمیل میں چھٹا دفتر (مرتب کر کے) پیشکش کرتا ہوں۔


پیشکش مے آرمت اے معنوی  قسمِ سادِس در تمامِ مثنوی 

ترجمہ: اے صاحب حقیقت! میں مثنوی کی تکمیل میں چھٹا دفتر آپ کی نذر کرتا ہوں۔

5

 شش جہَت را نور دِہ زین شش صُحُف کَیْ یَطُوْفُ حَوْلَہٗ مَنْ لَّمْ یَطُفْ

ترجمہ: (اب تم) ان چھ دفتروں سے (عالم کی) چھ طرفوں کو منور کر دو تاکہ جس شخص نے (اب تک) اس کا شغل اختیار نہیں کیا وہ اختیار کر لے۔

مطلب: تم اس کتاب کو تمام عالم میں شائع کرا دو یا اپنے قرب و جوار میں اس کے مضامین کی اشاعت کر دو تو خود اس کی برکت سے تمام عالم منور ہو جائے گا۔ طواف کے معنی ہیں اردگرد چکر لگانا، چنانچہ کہتے ہیں ’’طَافَ حَوْلَ الْکَعْبَۃِ‘‘ ”خانہ کعبہ کے گرد چکر لگایا“۔ یہاں طواف سے مجازًا توجہ، التفات، شغل، دلچسپی مراد ہے جس طرح فارسی میں بھی تنیدن اور گرد برگردیدن کے معنی توجہ و التفات کے آتے ہیں یہاں حقیقی معنی مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ خانہ کعبہ کے سوا کسی اور چیز کا طواف بغرضِ قربت کرنا جیسے کہ مبتدعین میں طوافِ قبور مروج ہے حرام ہے۔ ایک شارح صاحب کو کیا عجیب سوجھی کہ طواف ریدن و غائط کردن مراد لے کر جس کی سند وہ قاموس سے پیش کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ کیا کہ طواف کند گردِ آن کسیکہ غائط نکردہ۔ کسیکہ پاک است از ادناسِ بشریت وَ فِیْہِ مَا فِیْہِ لَا یَخْفیٰ عَلَی النَّبِیْہِ‘‘ آگے ارشاد ہے کہ شش جہت اور شش دفتر میں عدد الخصوص کا ذکر اتفاقًا آ گیا ورنہ عشق کا معاملہ اس سے بلند تر ہے۔


عشق را با پنج و با شش کار نیست  مقصدِ او جز کہ جذبِ یار نیست

ترجمہ: عشق کو پانچ اور چھ (وغیرہ گنتی) سے کوئی سروکار نہیں اس کا مقصد یار کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔

مطلب: مثنوی سے مضامینِ عشقیہ کا بیان مقصود ہے اور اس کے لیے کسی عددِ معین کی خصوصیت نہیں پانچ دفتر ہوتے تب بھی یہ مقصود حاصل تھا چار رہتے تو بھی وہی بات تھی سات ہو جائیں تب بھی وہی بات ہو گی۔ (کلید)


بوک فيما بعد دستوری رسد   رازهای گفتنی گفتہ شود

ترجمہ: (تاہم چھٹے دفتر کی تالیف خالی از مصلحت نہیں) شاید (اس) اگلے (یعنی چھٹے دفتر کی تالیف) میں (عالمِ غیب سے) کچھ اجازت (بیانِ اسرار کی) پہنچ جائے (اور اس اجازت کی بدولت) بہت سے کہنے کے قابل راز بیان ہو جائیں۔

8

با بیانے کان بوَد نزدیکتر  زین کنایاتِ دقیقِ مُستَتر

ترجمہ: (وہ اسرار) ایسے (واضح) بیان کے ساتھ (معرضِ اظہار میں آ جائیں) جو ان باریک و مخفی اشارات کی بہ نسبت زیادہ قریب (بفہم) ہو (جن کا استعمال عمومًا پچھلے دفاتر میں ہوا ہے)۔

مطلب: یہ ترجمہ اس تقدیر پر ہے کہ (زین کنایات) میں کلمہ از بمعنی من تفضیلیہ ہو (كمافی الكليد) اور اگر یہ کلمہ (با) قرار پائے جیسے (دلبستگی از سنبلِ گلپوش تو دارد) میں ہے اور جیسے عربی میں کلمہ ’’من‘‘ مرادف با آجاتا ہے کما فی قولہ تعالیٰ ﴿يَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ۔۔۔ (الشوری: آیت 45) تو پھر ترجمہ دوسری طرح ہوگا یعنی (وہ اسرار) ایسے بیان کے ساتھ (معرض اظہار میں آئیں) جو ان باریک و مخفی اشارات سے زیادہ قریب ہو (جن کا التزام شروع سے آرہا ہے) پہلے ترجمہ کی صورت میں غایتِ اظہار و توضیح میں مصلحت یہ ہے کہ جب مثنوی کے مضامین عام فہم ہوں گے (ان کے افادہ کا دائرہ زیادہ وسیع ہوگا دوسرے ترجمہ کی صورت میں ان معانی و مطالب کے اخفاء و کتمان سے یہ مقصود ہے کہ نا اہل لوگ ان سے آگاہ نہ ہونے پائیں۔



 راز جز با رازدان انبار نیست  راز اندر گوشِ منکر راز نیست

ترجمہ: (ہر چند) راز (کی بات) سوائے راز دان کے (اور) کسی سے (کہنی) مناسب نہیں (کیونکہ) منکر کے کان میں (کوئی) راز کی بات راز ہی نہیں (بلکہ ایک فضول بات ہے)۔

10 

لیک دعوت وارد ست از کردگار  با قبول و نا قبول او را چہ کار

ترجمہ: مگر (تاہم نیک بات کی طرف مخلوق کو) دعوت دینا حق تعالیٰ کی طرف سے وارد ہے۔ اس (شخص) کو (جو دعوت دے مخلوق کے) ماننے یا نہ ماننے سے کیا سروکار ہے۔

مطلب: اوپر کے مطلب میں ترجمۂ شعر کی دو صورتیں بیان ہوئی تھیں مابعد کے دو شعروں کا ترجمہ پہلی صورت سے مربوط ہے یعنی اگر تم کہو کہ اسرار کو صاف و نمایاں طور پر ظاہر کرنے ہیں یہ قباحت ہے کہ بہت سے نا اہل لوگ سن لیں گے اور ان کا انکار کریں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو عمومًا اور حضرت رسول اللہ ﷺ کو خصوصًا علانیہ تبلیغ کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ فرمایا ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ۔۔۔ ”اے پیغمبر! تم کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اسے واشگاف بیان کردو“ (الحجر: آیت 94) ﴿فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اہْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ۔۔۔ ”پس اگر وہ لوگ اسلام لے آئیں تو بے شک ہدایت پا گئے اور اگر منہ موڑیں تو (اے پیغمبر) تم پر تو بس حکم الہٰی کا پہنچا دینا ہے“ (آل عمران: آیت 20) کما قیل ؎

 گر نیاید بگوشِ رغبتِ کس  بر رسولان بلاغ باشد و بس

دوسرے ترجمہ کی تقدیر پر مطلب یوں ہوگا کہ اسراری باتوں کو ہم رمز و کنایہ کے پردے میں اس لیے مخفی رکھنا چاہتے ہیں کہ راز کی بات صریحًا راز دان سے ہی کہنی مناسب ہے منکر سے کہنی فضول ہے تا ہم ہر کس و ناکس تک ان باتوں کو پہنچانا ہی پڑتا ہے چنانچہ حق تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر ﷺ کو حکم ہے ﴿يَا أَيُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ”اے رسول جو کلام تم پر نازل کیا گیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دو“ (المائدہ: آیت 67) اور فرمایا ﴿فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْہِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُپس اگر وہ رو گردانی کریں تو ہم نے تم کو ان لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ تمہارے ذمہ تو حکمِ الٰہی کفار کو پہنچانا ہے“ (الشوری: آیت 48) آگے پیغمبروں کی تبلیغ اور لوگوں کی ایک نظیر ارشاد ہے:

11 

 نوح نُہصد سال دعوت مے نمود  دمبدم انکارِ قومش مے فزود

ترجمہ: (جیسے کہ) حضرت نوح علیہ السلام (کچھ اوپر) نو سو سال تک دعوت کرتے رہے (مگر) دمبدم ان کی قوم کا انکار ہی بڑھتا گیا۔

مطلب: حضرت نوح علیہ السلام نے نو سو پچاس برس تک اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی مگر اس طویل مدت میں چند کس کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، چنانچہ فرمایا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِـيْہِـمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا ۖ فَاَخَذَہُـمُ الطُّوْفَانُ وَہُـمْ ظَالِمُوْنَ یعنی ”اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس سے کم ہزار سال (950 سال) رہے تو (آخر کار) ان (کی قوم) کو طوفان نے آ لیا اور وہ (بدستور) نافرمانیاں کرتے رہے“ (العنکبوت: آیت 14) بعض روایات سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی مخالفت صرف زبانی انکار تک محدود نہ تھی بلکہ وہ جوشِ مخالفت میں حضرت نوح علیہ السلام کو اس قدر مارتے کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑتے اور مخالفین ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑ جاتے جب ان کو افاقہ ہوتا تو اگلے روز وہی تبلیغ و دعوت پھر شروع کر دیتے خیال کیجئے کہ

12 

ہیچ ازگفتن عنان واپس کشید  ہیچ اندر غارِ خاموشی خزید

ترجمہ: (ان بدسلوکیوں کے باوجود) کبھی انہوں نے (حق بات کے) کہنے سے باگ موڑی؟ (ہر گز نہیں) کبھی خاموشی کے غار میں جا گھسنا اختیار کیا؟ (ہرگز نہیں)۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے انکار و مخالفت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک بڈھا آدمی حضرت نوح علیہ السلام کے سامنے سے لاٹھی ٹیکتا جا رہا تھا ساتھ اس کا جوان بیٹا تھا۔ بڈھے نے اپنے بیٹے سے کہا اے عزیز! اس دیوانے شیخ سے بچنا کہیں اس کے دامِ فریب میں نہ آ جانا۔ اس نے کہا ابا ذرا مجھے اپنی لاٹھی دینا پھر اس نے لاٹھی لے کر حضرت نوح علیہ السلام کے سر پر اس زور سے ماری کہ آپ بری طرح زخمی ہو گیے۔ مدعا یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اس قدر سخت بدسلوکیوں کے باوجود حق گوئی سے دست کش نہیں ہوئے تو ہم صرف انکار کے خوف سے کیوں خاموش رہیں اور خاموش رہنا کسی طرح موزوں بھی نہیں۔

13 

 زانکہ از بانگ و عُلالاے سگان  ہیچ وا گردد ز راہے کاروان؟

مطلب: کیونکہ بھلا کتوں کے بھونکنے اور غل مچانے سے قافلہ کبھی (اپنے) راستے سے واپس آ سکتا ہے؟ (ہرگز نہیں)۔

14 

 یا شبِ مہتاب از غوغائے سگ  سست گردد بدر را در سَیرتگ

ترجمہ: یہ بھلا چاندنی رات میں کتے کے شور سے ماہِ کامل قدم رفتار میں سست ہوسکتا ہے؟

مطلب: مشہور ہے کہ جب چاند طلوع کرتا ہے تو کتے اس کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے۔

مہ نور مے فشاند و سگ بانگ مے زند  سگ را بپرس خشمِ تو بر ماہتاب چیست

اسی طرح جب کوئی بزرگ جو فلکِ عرفان کا ماہتاب ہو اپنے فيوضِ باطن کے انوار سے لوگوں کو مستنیر کرتا ہے تو حاسدین و منکرین کتوں کی طرح اس پر بھونکنا اور اس کی عیب جوئی کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر جس طرح کتوں کا شور و غوغا ماہِ کامل کی رفتار کو روک نہیں سکتا اسی طرح ان حاسدین و منکرین کی بدگوئی بزرگوں کو اپنے افاضۂ عام سے باز نہیں رکھ سکتی۔ آگے ارشاد ہے کہ کتوں کو بھونکنا بمقتضائے فطرت ہے نہ باختیارِ خود۔ کما قیل

نیش عقرب نہ از پئے کین ست   مقتضائے طبیعتش این ست

15

مہ فشاند نور و سگ عَوعَو کند   ہر کسے برخلقتِ خود مے تند

ترجمہ: چاند نور برساتا ہے (کہ یہ اس کی فطرت میں داخل ہے) اور کتا بھوں بھوں کرتا ہے (کہ اس کی فطرت کا مقتضا یہی ہے چنانچہ) ہر ایک اپنی فطرت پر عمل کرتا ہے۔

مطلب: خلقت سے مراد فطرت ہے یعنی کسی چیز کی وہ ہیئات نفسانی جس سے اس کے عین ثابت کی استعداد کے مطابق خاص افعال کا صدور ہوتا ہے جیسے چاند سے نور افشانی کا صدور ہوتا ہے اور کتے سے بھونکنے اور غل مچانے کا فعل وقوع پاتا ہے دوسرے مصرعہ میں اس آیۂ کریمہ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ﴿قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِہ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدٰى سَبِيلًا ”کیونکہ ہر ایک اپنے طور پر عمل کرتا ہے۔ جو ٹھیک راستے پر ہے تمہارا پروردگار اس کو خوب جانتا ہے۔“ (الاسراء: آیت 84) آگے اس کی تفصیل ارشاد فرماتے ہیں۔

16

 ہرکسے راخدمتے دادہ قضا   در خور آن گوہرش در ابتلا

ترجمہ: قضا (و قدر) نے ہر شخص کو امتحان کی مصلحت سے اس کی استعداد کے موافق ایک نہ ایک خدمت سپرد کر رکھی ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اَلَّـذِىْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔“ (الملک: آیت 2) مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے تم کو زندگی بخشی جس سے تم عمل کی بجا آوری پر قادر ہو سکتے ہو اور تم پر موت کو مسلط کیا جو برے اعمال کو چھوڑ کر نیک اعمال اختيار کرنے کی داعی ہے کیونکہ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور اعمال کی جزا پانے کا وقت آنے والا ہے۔ (تفسیر مدارک) 

 17

 چونکہ نگذارد سگ آن بانگِ سَقَم   من مَہْم سیران خود را چون ہَلم 

ترجمہ: جب کتا (اپنی) اس معیوب آواز کو نہیں چھوڑتا تو میں (ہدایت) کا چاند ہوں اپنی رفتار کو کب چھوڑتا ہوں منکر اپنے انکار و عناد سے نہیں باز آتا تو اہل اللہ بھی اپنے افاضۂ انوارِ علم و حکمت کو ترک نہیں کرتے بلکہ اس کو ترقی دیتے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ

18

 چونکہ سرکہ سرکگی افزون كند   پس شَکر را واجب افزُونی بود

ترجمہ: جب سرکہ(اپنی) سرکہ پن (کی صفت یعنی ترشی) کو زیادہ کر دے تو (قند وغیرہ) شیرینی کو بھی زیادہ ہونا لازم ہے۔

مطلب: یہ سکنجبین کی مثال ہے جو سرکہ اور شہد یا قند سے بنتی ہے اور سکنجبین کا لفظ بھی سرکہ و انگبین یعنی شہد سے مرکب ہے ’’انگبین‘‘ کا کاف فارسی عربی میں بقاعدہ تعریب جیم کے ساتھ بدل جانے سے لفظ ’’انجبین‘‘ بن گیا۔ فرماتے ہیں کہ جس طرح سکنجبین کا مزاج اعتدال پر رکھنے کے لیے سرکہ اور قند میں تناسب ضروری ہے حتیٰ کہ جب سرکہ زیادہ ہو تو اسی تناسب سے قند کو بھی زیادہ کیا جاتا ہے اسی طرح منکرین کے رد و انکار میں زیادتی ہو تو اہل اللہ بھی اپنے افاضۂ علم و حکمت پر زیادہ زور صرف کرنے لگتے ہیں۔

19 

 قہر سرکہ لُطف ہمچون انگبین  کاین دو باشد رکن ہر اسکنجبین 

ترجمہ: قہر سرکہ (ہے اور) لطف شہد کی مانند (ہے) جو دونوں سکنجبین کے جز ہوتے ہیں۔

مطلب: جس طرح سکنجبین کی ترکیب سرکہ و انگبین سے ہوتی ہے اور اس کے اعتدال کے لیے ان دونوں اجزا کا بمقدارِ مناسب شامل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر اصلاحی و انقلابی تحریک کے سر سبز و بار آور ہونے کے لیے لازم ہے کہ کچھ مخالف طاقتیں بھی اس کے مزاحم ہوتی رہیں جس سے اہل تحریک کے استقلال اور بلند ہمتی کو اور ترقی ہوتی ہے اور وہ اس مستعدی سے اپنا کام کرتے ہیں کہ مخالف طاقتوں کے مزاحم نہ ہونے کی صورت میں شاید نہ ہو سکتا۔ نباتات کی سر سبزی کے لیے بارانِ رحمت کی ٹھنڈک کے ساتھ سورج کے نگاہِ جلال کی گرمی بھی ضروری ہے ورنہ نباتات سر سبز نہ ہوں گی لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ مخالفین کی مخالفت اور مزاحمت اہلِ تحریک کی سعی و کوشش سے بڑھنے نہ پائے ورنہ وہ تحریک دب جائے گی جس طرح سکنجبین میں سرکہ مقدارِ مناسب سے زیادہ ہو تو وہ سکنجبین نہ رہے گی۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔

20 

 انگبین گر پائے کم آرد ز خل  اندر آن اسکنجبین آید خلل

ترجمہ: اگر شہد سرکہ سے کم شامل ہو تو اس سکنجبین میں خرابی آ جائے گی (غرض اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کا جوشِ تبلیغ مخالفین کی مخالفت سے اور زیادہ ترقی کرتا تھا چنانچہ)

21 

 قوم بر وے سِِرکہا مے ریختند  نوح را دريا فزون مے ریخت قند

ترجمہ: لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر سرکے (کی سی ترش بولیاں) مارتے تھے (اور عطاۓ الٰہی کا) دریا ان کے لیے (اظہارِ حقائق کا) قند اور زیادہ برساتا تھا۔

22

 قندِ او را بُد مدد از بحر جُود  پس ز سرکہ اہلِ عالم میفزود

ترجمہ: ان کے (اظہارِ حقائق کے) قند کو بخشش (الہٰی) کے دریا سے مدد پہنچتی تھی (اس لیے) اہل عالم کے سرکہ (کے سے ناگوار طعنوں) کے سبب سے وہ اور بھی ترقی کرتا تھا۔

مطلب: یہ واقعہ قرآن مجید میں یوں مذکور ہے ﴿قالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَ نَهاراً (5) فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً (6) وَ إِنِّي كُلَّما دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصابِعَهُمْ فِي اٰذانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِيابَهُمْ وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً (7) ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهاراً (8) ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ أَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً (9) ”نوح علیہ السلام نے دعا کی اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو رات دن (ایمان کی طرف) دعوت دی، پھر میرے دعوت دینے سے وہ اور زیادہ بھاگنے لگے، اور ہر بار جب میں نے ان کو دعوت دی تاکہ تو ان کے گناہ بخش دے تو انہوں نے (میری بات نہ سننے کے لیے) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور (میرا چہرہ نہ دیکھنے کے لیے) اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور (اپنی) ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور مغرور ہو گئے، پر میں نے ان کو آواز سے پکار کر بلایا، پھر ان کو کھلم کھلا سمجھایا اور چھپ چھپا کر بھی ان سے کہا سنا‘‘ (نوح: آیت 5۔9) آگے ان مقبولانِ الٰہی کی اس پیش از پیش سعی فرمانے کی ایک وجہ بیان فرماتے ہیں۔

23 

 وَاحِدٌ کَالْاَلْف کہ بود آن ولی   بلکہ صد قرن ست آل عَبْدُ الْعَلِیْ

ترجمہ: (وجہ یہ ہے کہ بعض اکیلے انسان ہزار آدمی کا سا کام کر سکتے ہیں اور ایسا) اکیلا ہزار کے برابر کون ہوتا ہے (وہ خدا) کا ولی ہوتا ہے اور ہزار کیا بلکہ وہ خدائے بزرگ کا بندہ سو قرن (کے لوگوں کے برابر طاقتور ہے)۔

مطلب: قرن اسی اور بقولِ بعض تیس برس کے زمانے کو کہتے ہیں عرفِ عام میں صدی مراد ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ ایک صدی میں جس قدر لوگ ہوں ان سے صد چند لوگوں کے برابر اس ولی میں طاقت ہوتی ہے۔ عبد العلی سے مراد عارفِ کامل ہے جس کو اپنے سوا باقی تمام مخلوق پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں حق تعالیٰ اپنے اسم علی اور صفتِ علو کے ساتھ متجلی ہے جس نے اس کو باقی تمام مخلوق سے عالی بنا دیا آگے ایک مثال کے ذریعہ اس ولی کے علو کی توضیح فرماتے ہیں:

24 

 خُم کہ از دریا درو راہے شود  پیشِ او جیحونہا زانُو زند

ترجمہ: جب مٹکے میں سمندر سے (پانی آنے کا) راستہ ہو اس کے سامنے جیحوں کے سے دریا (ادب سے) گھٹنا ٹیکنے لگیں۔

مطلب: عام دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی موسم موسم میں اترتا اور کبھی خشک ہوتا رہتا ہے مگر سمندر ہر موسم میں موجزن رہتا ہے پس جس مٹکے میں سمندر سے براہ راست پانی آنے کا راستہ ہو ظاہر ہے کہ اس کا پانی کبھی کم یا نابود نہ ہو گا اس لیے وہ تمام دریاؤں اور ندی نالوں سے افضل ہے۔ اسی طرح جس شخص کو حضرتِ حق سے علوم و معارف اور برکات و فیوض براہِ راست حاصل ہوتے ہیں وہ ان لوگوں سے افضل و ارفع ہے جن کو یہ فضائل بالواسطہ پہنچتے ہیں اور وہ بھی ناتمام۔ دریائے حسی کے ذکر کے بعد اب دریائے معنوی یعنی فیضِ باری کا ذکر آتا ہے۔

25 

خاصہ آن دریا کہ دریاہا ہمہ  چون شنیدند آن مثال و دمدمہ

 26

 شد دہانِ شان تلخ زین شرم و خجل کہ قرین شد نامِ اعظم با اَقَل

ترجمہ: خصوصًا وہ (معنوی) سمندر (اپنے متصلہ خُم کو بے پایانی بخشنے والا ہے) کہ (جس کے بارے میں) جب ان حسی (ظاہری) دریاؤں نے (اپنی) یہ تمثیل اور شہرت سنی تو اس شرمندگی و ندامت سے ان کا منہ بے مزہ ہو گیا کہ ایک بڑی ہستی کا نام حقیر چیز کے ساتھ لیا گیا۔

مطلب: فیضِ باری کے لیے عمومًا دریا و سمندر کی مثال مشہور ہے اور اوپر کے شعر ؎ خم کہ از دریا الخ میں بھی دریا کا ذکر بطورِ تمثیل آیا ہے مگر اس شہرت اور تمثیل کو سن کر سمندروں اور دریاؤں کو اس بات کی ندامت سے بدمزگی محسوس ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ کے لیے ہماری مثال پیش کی جاتی ہے۔ چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک۔ آگے اسی مضمون کی تائید ہے:


27 

 در قِرانِ این جہان با آن جہان   این جہان از شرم میگردد جہان

ترجمہ: اس عالم کے اس عالم کے ساتھ اکٹھا ہونے سے یہ عالم شرم سے بھاگ نکلتا ہے۔

انتباہ: اوپر جو فیضِ الٰہی کا ذکر آیا ہے اس سے مراد مرتبۂ فعلِ خاص حق ہے اگر اثرِ صفت حق ہے نہ کہ صفتِ حق کہ عالم بمعنی ما سوا کا جزو نہیں ہے حالانکہ یہاں لفظ آں جہان میں اس دریائے فیض کو بھی جزوِ عالم کہا ہے۔ (کلید)

28

 این عبارت تنگ و قاصر رُتبت ست   ورنہ خس را با اخص چہ نسبت ست

ترجمہ: یہ عبارت (جس سے فیض الٰہی اور اس سے مستفیض ہونے والے بندے کی تعریف مقصود ہے) تنگ اور کم رتبہ ہے (اس لیے یہاں تمثیل سے کام لینا پڑا) ورنہ (ہم کیوں یہ تمثیل پیش کرتے کیونکہ دریائے حسی کی سی) حقیر چیز کو (ایک صفت الٰہیہ کے سے) خاص الخاص امر کے ساتھ کیا نسبت؟

مطلب: فیضِ الٰہی کی بے پایانی اور اس فیض سے مستفیض ہونے والے کی یہ بزرگی ظاہر کرنے کے لیے الفاظ میسر نہیں آتے اس لیے دریائے خُم کی تمثیل کا تکلف کرنا پڑا ورنہ تمثیل کو ممثل لہ سے کیا نسبت، وہ کجا اور یہ کجا، اس سے ظاہر ہے ایں عبارت سے مطلق زبان یا لغت یا بولی مراد ہے جو عمومََا ذوقی و وجدانی امور اور غیب کے معاملات کو دائرۂ بیان میں لانے سے قاصر ہے ایسی صورت میں اکثر تمثیل سے کام لینا پڑتا ہے اور پھر بھی امرِ مقصود کی پوری اہمیت بیان نہیں ہو سکتی۔ پہلے مصرعہ میں تمثیل پر مجبور ہونے کا عذر ہے اور دوسرے مصرعہ ورنہ الخ میں بطورِ اضراب اس تمثیل کے نامناسب ہونے کا اعتراف ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایں عبارت سے مذکورہ تمثیل مراد ہو پھر مطلب یوں ہو گا کہ مثال تنگ اور کم رتبہ ہے اگر تنگ و کم رتبہ ہیں تو یہ بتایئے خس کو اخص سے کیا نسبت ہے جس پر تمثیل مشتمل ہے غرض جب اس عالمِ فانی کے دریائے حقیر سے ساتھ اتصال ہو جانے سے اس مٹکے کے پانی میں بے پایانی پیدا ہو جاتی ہے تو اس عالمِ عظیم کے دریائے عظیم کے ساتھ اتصال ہو جانے کے باوجود اس موردِ فیض کا عزم و ہمت کیوں منقطع ہو۔ آگے پھر رجوع ہے مضمونِ سابق کی طرف یعنی ؎

چونکہ نگذارد سگ آن بانگِ سقم من مہم سیرانِ خود را کے ہلم

29

 زاغ در رز نعرۂ زاغان زند  بلبل از آوازِ خوش کے کم کند

ترجمہ: کوا انگور (کے باغ) میں کوّوں کی سی کائیں کائیں کرتا ہے تو بلبل (اپنا) چہچہا کب بند کرتا ہے (اہلِ انکار اپنی جھک مارتے جاتے ہیں تو اہلِ تحقیق بھی اپنا فرض ادا کرتے رہتے ہیں)۔

30

 پس خریدارست ہر یک را جدا   در مزادِ يَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَاء

ترجمہ : پس اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بازار میں ہر ایک (بری بھلی چیز) کا الگ خریدار (موجود) ہے (کوئی منکرین کے انکار کو پسند کرتا ہے کوئی اہلِ حق کی حق گوئی کو)۔

مطلب: مصرعہ ثانیہ ان آیاتِ قرانیہ پر مشتمل ہے ﴿وَ يَفْعَلُ اللّٰہُ مَا يَشَاءُ”اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے“ (ابراہیم: آیت 27) ﴿يَحْكُمُ مَا يُرِيْدُ ”اللہ جو چاہتا ھے حکم کرتا ھے“ (المائدۃ: آیت 1) اور اس میں اس بات کی تنبیہ ہے کہ نیک لوگوں کا نیک بات کو اختیار کرنا اور برے لوگوں کا برائی کو پسند کرنا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر مبنی ہے جس میں صدہا حکمتیں مرکوز ہیں اور ان کا اجمالاََ اعتقاد کافی ہے تفصیل کی یہاں نہ گنجائش ہے نہ چنداں ضرورت ۔ مولانا بحرالعلوم نے اس مسئلہ کو خوب بسط و اطناب کے ساتھ لکھا ہے۔ آگے چند مثالوں سے اس بیان کی تائید فرماتے ہیں:

 31 

نُقلِ خارستان غذاۓ آتش ست  بوئے گل قوتِ دماغ سرخوش ست

مطلب: جھاڑ جھنکاڑ کا کھاجا آگ کی خوراک ہے پھول کی خوشبو پاکیزہ دماغ کی غذا ہے۔

32 

 گر پلیدی پیشِ ما رسوا بود  خوک و سگ را شکر و حلوٰی بود

ترجمہ: اگرچہ گندگی ہمارے نزدیک قابلِ نفرت ہے (مگر) سور اور کتے کے لیے وہ شکر و حلوٰی (کی طرح مرغوب) ہے (کوئی انکار کو پسند کرتا ہے کوئی تصديق حق پر آمادہ ہے)۔

33 

 گر پلیدان این پلیدیہا کنند   ابرہا بر پاک کردن می تنند

ترجمہ: اگر گندے لوگ یہ گندگیاں (بے موقع واقع) کرتے رہتے ہیں۔ تو بادل بھی ان کو صاف کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

مطلب: مدعا یہ ہے کہ اگر منکرین اپنے انکار کی گندگی پھیلاتے ہیں تو اہلِ تحقیق بھی ان کے نا پاک اثر کو زائل کرنے پر مستعد رہتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ اہلِ تحقیق کا کام کس قدر اہم ضروری ہے پھر کیوں منکرین کے انکار سے گھبرا کر کلمۃ اللہ سے سکوت اختیار کیا جائے۔ ترجمہ میں بے موقع کا لفظ جو مقدر نکالا گیا ہے اس میں یہ نکتہ ملحوظ ہے کہ مطلق گندگی گرانا گندے لوگوں سے مخصوص نہیں بلکہ مثال میں جو گندگی مراد ہے وہ مقتضائے بشریت ہے۔ جس پر ابر ہا کا قرینہ شاہد ہے اور بشریت میں پاک و ناپاک سب لوگ شریک ہیں۔ البتہ بے موقع گندگی گرانا جس میں چلتے راستے یا درخت کے سایے یا نہر کے کنارے کی پروا نہ کی جائے۔ گندے اور بدفطرت لوگوں کا شیوہ ہے اور یہی نامہذبانہ فعل انکارِ حق کی مثال ہوسکتا ہے۔ آگے اس کی ایک اور نظیر مرکوز ہے:

34 

ور جہانے پُر شود از خار و خس  آتشے مَحْوَش کند در یک نفس

ترجمہ: اور اگر سارا جہان جھاڑ جھنکاڑ سے بھر جائے تو آگ ایک لمحہ میں اس کو (پھونک کر) نابود کر دے۔

35 

 گرچہ ماران زہر افشان می کنند  ور چہ تلخان مان پریشان می کنند

36

نحلہا بر کوہ و کندو و شجر می نہند از شہد انبارِ شکر


ترجمہ: اگرچہ سانپ زہر ٹپکاتے ہیں اور اگرچہ تلخ چیزیں ہم کو (اپنے ناگوار ذائقہ سے) پریشان کرتی رہتی ہیں مگر اس کے مقابلہ میں شہد کی مکھیاں پہاڑ اور اناج کے کوٹھے اور درخت میں شہد کی شیرینی کا ڈھیر لگا دیتی ہیں۔

مطلب: شہد کئی قسم کے زہروں کا تریاق ہے اس لیے فارسی میں اس کو بمعنی تریاق بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس کو یہاں زہر مار کا جواب قرار دیا گیا۔ اس کی شیرینی بھی ہر قسم کی شیرینیوں پر فائق ہے۔ اس اعتبار سے وہ تلخ اشیا کے مقابلے میں رکھا گیا۔ مدعا یہ ہے کہ اگر چہ اہلِ انکار اپنے انکار کا زہر پھیلاتے رہتے ہیں مگر اہلِ حق بھی اپنے انفاسِ زکیہ سے ان کے اثر کو زائل کرنے میں مصروف ہیں۔ آگے اسی کا اعادہ ہے۔


37

 زہرہا ہر چند زہری مے کنند  زود تریاقاتِ شان بر مے کنند

ترجمہ : زہر ہر چند زہریلا اثر کرتے ہیں (مگر) تریاق (بھی) فورًا ان کے اثر کو زائل کر دیتے ہیں۔

انتباہ: یہاں تک مقصودِ کلام یہ تھا کہ منکرین کی زہر چکانی پر اہلِ حق کو بھی برابر تریاق رسانی کے کام میں مستعد رہنا چاہیے۔ ہاتھ میں ضمنًا زہر و تریاق، نیش و نوش، پلیدی و پاکی خار وگل کے تقابل و تخالف کا ذکر آگیا تھا۔ اب اسی ضمنی مضمون کو قصدًا بیان فرماتے ہیں۔

38

 این جہان جنگ ست چون کُل بنگری  ذرہ ذرہ ہمچو دین با کافری

ترجمہ: اس جہان کو جب تم اس سرے سے اس سرے تک دیکھو تو وہ (سراپاۓ) جنگ ہے جہاں کا ذرہ ذرہ (ایک دوسرے سے) اس طرح (مخالف) ہے جس طرح دین کفر کے ساتھ۔

مطلب: ایں جہان سے مراد اگر خاص یہی عالمِ دنیا ہے تو تخصیص باقتضائے مقام ہے۔ نفی کرنا اختلاف کا عالمِ آخرت و ملکوت سے مقصود نہیں اور اگر مراد عالمِ امکان ہے تو عمومًا حکم کا خود مدلول الفاظ ہی کا ہے (کلید) غور کیجئے تو سطح ارض کا ہر انچ بھر رقبہ میدانِ حرب ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ ہر وقت مصروف پیکار ہے۔ قدرت نے ایک چیز کی بقا دوسری کی فنا پر موقوف رکھی اور یہی وہ قدرتی تار ہے جس کی غیبی تحریک دنیا کے سٹیج پر ایک ختم نہ ہونے والا تماشاۓ جدال و قتال دکھا رہی ہے۔ تالاب میں بڑی مچھلیاں اپنی زندگی قائم رکھنے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کو اپنی غذا بناتی ہیں اور انسان اپنی غذا کے لیے بڑی مچھلیوں کو شکار کرتا ہے، جنگل میں ہری گھاس پھلنے پھولنے کے لیے اجرائے ارض کو اپنے اندر جذب کرتی ہے، چوپائے اپنے جسم کی پرورش کے لیے اس گھاس کو چر جاتے ہیں اور آدمی اپنی بقائے حیات کے لیے ان چوپایوں کو کھا جاتا ہے۔ آگ دنیا کے ہر تر و خشک کو خاکستر بنا ڈالنے پر تلی رہتی ہے، پانی جب موقع ملتا ہے تو آگ کے اشتعال کو خاموش کر دیتا ہے، ہوا کا ہر وقت یہ مشغلہ ہے کہ پانی کو فنا کرتی رہتی ہے۔ ایک پیالی میں جب سوڈیم کارب اور سلفورک ایسڈ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو وہ پیالی میدانِ جنگ بن جاتی ہے اور اس وقت سوڈیم کارب کے جزو کاربانک ایسڈ اور سلفورک ایسڈ کے مابین تھوڑی دیر کے لیے خوب جنگ ہوتی ہے اور پانی میں ایک قابلِ دید جوش پیدا ہوتا ہے پھر چونکہ سلفورک ایسڈ ایک زبردست طاقت ہے اس لیے اس کے حملہ کی تاب نہ لا کر کاربانک ایسڈ کو گیس کا غیر مرئی بھیس بدل کر اڑ جانا پڑتا ہے اور اس وقت سے سوڈیم کی سرزمین ایسڈ سلفر کی قلم رو میں شامل ہو کر سوڈیم سلفاس کہلاتی ہے۔ غرض اسی طرح تمام کائنات عالم میں حرب و پیکار اور تضاد و تخالف کا ایک ہنگامہ برپا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

39

 آن یکے ذرہ ہمے پرّد بچَپ  وان دگر سوئے یمین اندر طلب

ترجمہ: ایک ذرہ بائیں جانب کو جا رہا ہے اور دوسرا (اپنے مقصود کی) طلب میں دائیں طرف کو اڑتا ہے۔

40

 ذرۂ بالا و آن دیگر نگون   جنگِ فعلی شان ببین اندر رُکوُن

ترجمہ: ایک ذرہ اوپر (کی طرف جا رہا) ہے اور وہ دوسرا نیچے کو (ہر ایک کے جدا گانہ طرف) مائل ہونے میں ان کی جنگِ فعلی دیکھ لو (آگے اس تضاد و تخالف کی وجہ ارشاد فرماتے ہیں):

41

 جنگِ فعلی ہست از جنگِ نہان  زین تخالف آن تخالف را بدان

ترجمہ: (کائناتِ عالم کی یہ) جنگِ فعلى عالمِ غیب کی جنگ پر مبنی ہے اس (عالم کے) تخالف سے اس تخالف کو سمجھ لو۔

مطلب: تمام اشیائے عالم اسمائے باری تعالیٰ کی مظہر ہیں یعنی ہر نیک و بد چیز میں کسی نہ کسی اسمِ باری کا ظہور ہے۔ چونکہ اسمائے باری تعالیٰ میں اکثر باہم تقابل ہے۔ مثلًا منعم و منتقم، نافع و ضار، معز و مذل، محی و ممیت، قابض و باسط اس لیے ان کے مظاہر میں بھی تقابل و تخالف لازم ہوا، چنانچہ ایک چیز مفید ہے تو دوسری مضر ہے، ایک معاونِ زندگی ہے تو دوسری باعثِ ہلاک و ہکذا۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ اشیائے عالم کی جنگ عالمِ غیب کی جنگ پر مبنی ہے۔ آگے یہ ارشاد ہے کہ اہل اللہ کی جنگ بمقتضائے نفس نہیں بلکہ بحکمِ حق ہوتی ہے اس لیے وہ جنگ مذموم کی قبیل سے نہیں۔

42

 ذرۂ کان محو شد در آفتاب  جنگِ او بیرون شد از وصف و حساب

ترجمہ: جو ذرہ آفتاب میں محو ہو گیا اس کی جنگ تعریف اور شمار سے باہر ہے۔

مطلب: عاشقِ حق جب اپنے وجود کو ذاتِ باری میں فنا کر دیتا ہے تو اس کے افعال ہماری تعریف سے مستغنی اور ہمارے شمار و حساب سے بالا تر ہو جاتے ہیں پھر اس کی اکیلی شخصیت ہزار اشخاص کا کام کرسکتی ہے۔ کما قال سابقًا

وَاحدٌ کَاَلْفِ کہ بود؟ آن ولی  بلکہ صدر قرن ست عبدالعلی

کیونکہ اس کی قدرت بشر یہ جو قاصر و محدود تھی فنا ہو چکی۔ اب وہ قدرت الٰہیہ سے متصف ہو چکا ہے جوکامل و غیر متناہی ہے اور یہی معنی ہے اس کے کہ ﴿وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ رَمٰى ۚ(الانفال: آیت 17) اور اس حدیث قدسی کے کہ ’’وَ کُنْتُ سَمْعَہٗ وَ بَصَرَہٗ ‘‘ (منہج)۔ آگے اسی کی تائید میں فرماتے ہیں۔

 

43 

چون ز ذرہ محو شد نفس و نفس  جنگش اکنون جنگِ خورشید ست و بس

ترجمہ: جب ذرہ کا نفس اور سانس (وغیرہ آثار بشریت) فنا ہو گئے تو اب اس کی جنگ (خود اپنی جنگ نہیں بلکہ) آفتاب کی جنگ ہے اور بس۔

44

رفت از وے جنبشِ طبع و سکون   از چہ؟ از اِنَّاۤ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

ترجمہ: اس سے طبع (بشری) کی حرکت اور سکون جاتا رہا، کیوں؟ رجوع بحق کی وجہ سے (چونکہ وہ فانی فی اللہ ہو چکا اس لیے اس کی حرکات و سکنات نفسانی نہیں بلکہ حقانی ہوں گی۔ (آگے اسی کی تفسیر فرماتے ہیں:)

45

ما ببحرِ تو ز خود راجع شدیم   وز رضاعِ اصل مُسترضع شدیم

ترجمہ: بے شبہ ہم دریائے نور کی طرف راجع ہو گئے اور اصل کے دودھ سے شیر خوار ہو گئے (عارف لوگ متوجہ بحق ہیں اور اسی سے مستفیض ہیں)۔

46

در فروعِ راہ اے ماندہ ز غُول  لاف کم زن از اصول اے بے اُصُول

ترجمہ: اے (وہ)جو شیطان (کے بہکانے) سے (ابھی) راہ (وصول) کے متعلقات ہی میں بھٹک رہے ہو، اے بے اصول (اپنے واصل بہ) اصول (ہونے) کی شیخی نہ بگھارو (تم بھی علائقِ دنیویہ سے دست گار نہیں ہوئے، واصل بحق ہونے کا کیا دعوٰی کر سکتے ہو)۔

47

 جنگِ ما و صلحِ ما در نورِ عین  نیست از ما ہست بَینَ الْاِصْبَعَیْن

ترجمہ: ہماری جنگ اور صلح جو آفتاب (حقیقت) کی روشنی میں (وقوع پا رہی) ہے ہماری طرف سے نہیں (بلکہ) منجانب اللہ ہے۔

مطلب: حدیث میں آیا ہے ’’اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْٓ اٰدَمَ بَيْنَ إصْبَعَيْنِ مِنْ أصَابِعِ الرَّحْمٰنِ يُقَلِّبُہَا كَيْفَ يَشَاۤء‘‘ بنی آدم کے دل حق تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدھر چاہتا ہے ان کو پھر دیتا ہے“ (مشکوۃ) دوسرے مصرع میں اسی حدیث کے کلماتِ اقتباس ہیں کلیدِ مثنوی سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ محض لفظی اقتباس ہے مفہومِ حدیث یہاں مراد نہیں کیونکہ مفہومِ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیّت سے جس کو چاہتا ہے مائل بحسنات کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مائل بمعاصی کر دیتا ہے اور یہاں یہ بات مراد نہیں بلکہ یہاں یہ کہا ہے کہ ہم عارف لوگ باختيارِ خود اللہ کے باندھے ہوئے اصول پر چلتے ہیں اور صلح و جنگ وغیرہ جو کام ہم کرتے ہیں اس میں اتباعِ نفس نہیں بلکہِ حکم حق کی بجا آوری ہمارے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ کلیدِ مثنوی کے اصل الفاظ یہ ہیں ’’یہاں اس حدیث کا مفہوم مراد نہیں کیونکہ وہ تکوین کے باب میں ہے اس سے اقتباسِ لفظی ہے اور معنی دوسرے ہیں یعنی تابعِ احكامِ تشریعیہ حق‘‘ (انتہی) پیچھے شعر ؎ نوح نہ صد سال الخ سے اختلافِ مذمومِ اختیاری کا ذکر ہوا تھا۔ پھر شعر ایں جہاں جنگ ست کل الخ سے بعض اختلافات غیر اختیاریہ تکوینیہ بیان کئے گئے ہیں اس کے بعد ؎ ذرہ کاں محو شد در آفتاب الخ سے بعض اختلافاتِ محمودہ اختیاریہ کا بیان فرمایا۔ اب آگے پھر بعض اختلافات غیر اختیاریہ تکوینیہ کے بیان کی طرف عود فرماتے ہیں:


48 

جنگِ طبعی، جنگِ فعلی، جنگِ قول درمیانِ جزوہا حربے ست ہول


مطلب: (دنیا کی تمام) اشیا کے مابین اختلافِ طبیعت، تضادِ فعل اور بحث و تکرار کی ایک ہولناک جنگ برپا ہے (آگے اس جنگ کی ایک حکمت بیان فرماتے ہیں):

49

 این جہان زین جنگ قائم مے بود در عناصر در نگر تا حل شود

ترجمہ: یہ جہان اسی جنگ سے قائم رہتا ہے۔ تم تمام عناصر کو دیکھو (اور غور کرو) تاکہ یہ (نکتہ) حل ہو جائے (کہ جنگ سے جہاں کیونکر قائم ہے؟)

مطلب: عناصر ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر ان کی یہی ضدیت مرکبات عنصریہ کے قیام و وجود کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر عناصر میں اختلاف و تضاد نہ ہوتا تو اس عالم کو بقا نہ ہوتا بلکہ اس وقت تو یہ اقرب الى البقا ہوتا کہ کوئی ضد کسی کو فنا نہ کرتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ عالم جس ہیئت پر اب قائم ہے کہ اس میں بکثرت تغیر و تبدل اور استحالہ و انقلاب ہے۔ یہ موقوف اسی اختلاف امزجہ عناصر پر ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اس ہیئت کا قیام نہ ہوتا۔ رہا یہ شبہ کہ اس صورت میں اس سے بھی اقویٰ قیام ہوتا اور بھی احسن تھا پھر بقا علٰی ہذہ الٰہیہ میں زیادہ مطلوب کی کیا بات ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس ہیئتِ خاصہ میں جن اسماء کا ظہور ہوتا ہے وہ ظہور نہ ہوتا اور اصل حکمت یہی ظہور ہے (کلید) آگے اس مضمون کی توضیح و تفصیل فرماتے ہیں:

50

چار عنصر چار استونِ قوی ست  کہ بر ایشان سقفِ دنيا مستوی ست

ترجمہ: (یہ) چار عنصر (عالم دنیا کے) چار قوی ستون ہیں کہ ان پر دنیا کی چھت قائم ہے۔

51

ہر ستونے اشکنندۂ آن دگر  اُستنِ آب اشکنندۂ آن شرر

ترجمہ: ہر (عنصر کا) ستون دوسرے کو توڑنے والا ہے (چنانچہ) پانی کا ستون اس آگ کے ستون کو توڑنے والا ہے۔

52

پس بنائے خلق بر اضداد بود  لاجرم جنگی شدند از ضرّ و سود

ترجمہ: پس مخلوقاتِ دنیا کی (جسمانی) بنیاد متضاد عناصر پر ہوئی اس لیے وہ (عنصری مخلوقات) نفع و ضرر کے اعتبار سے (ایک دوسرے کے) خلاف ہیں۔

مطلب: چونکہ اس مخلوق کی ترکیب جسمانی متضاد عناصر سے ہوتی ہے اس لیے خود اس مخلوق میں بھی ضدیت و مخالفت کا وصف پیدا ہو گیا چنانچہ ایک چیز اگر کسی کے لیے نافع ہے تو دوسری اس کے لیے مضر ہے۔ آگے اس سے بھی ترقی کر کے فرماتے ہیں کہ ہر چیز کو خود اپنے ساتھ اختلاف ہے۔

53

ہست احوالت خلافِ یک دگر  ہر یکے با ہم مخالف در اثر

ترجمہ: تمہارے خود اپنے حالات ایک دوسرے کے خلاف ہیں، یعنی ہر حالت اثر میں دوسری حالت کے خلاف ہے۔ (چنانچہ کبھی تم خوش ہو کبھی مغموم، کبھی صابر ہو اور کبھی بے صبر و ہٰکذا)

54

چونکہ ہر دم راہِ خود را مے زنی با دگر کس سازگاری چون کنی؟

ترجمہ: جب تم (اس اختلافِ احوال سے) خود اپنا راستہ روک رہے ہو تو کسی دوسرے شخص کے ساتھ کیا موافقت کرو گے؟

55

فوج لشکرہائے احوالت ببین  ہر یکے با دیگرے در جنگ وکین

ترجمہ: اپنے حالات کے لشکروں کی قوم کو دیکھو کہ ہر ایک حالت دوسری حالت کے ساتھ جنگ و جدال میں (مصروف) ہے۔ (جس کی مثال اوپر گزر چکی)۔

56 

مے نگر در خود چنین جنگِ گران  پس چہ مشغولی بجنگِ دیگران

ترجمہ: تم خود اپنے اندر ایسی جنگِ عظیم دیکھا کرو پس دوسروں کے ساتھ لڑنے بھڑنے میں کیا مشغول ہو۔

مطلب: اپنے اختلافِ احوال اور تراجم عادات سے عبرت پکڑ کر خود اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ کیوں دست و گریبان ہوتے پھرتے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ’’طُوْبٰی لِمَنْ شَغَلَہ عَيْبَہ عَنْ عُیُوبِ النَّاس‘‘ یعنی ”خوش خبری ہے اس شخص کو جس کو اس کا اپنا عیب لوگوں کے عیوب سے غیر متوجہ کر دے“۔ (جامع صغیر سیوطیؒ)

57

یا مگر زین جنگ حقت وا خَرد  در جہانِ صلح یک رنگت بَرد

ترجمہ: تاکہ شاید حق تعالیٰ تم کو اس جنگ (تزاحمِ احوال) سے نجات دے (اور) تم کو صلح کے یک رنگ عالم میں لے جائے۔

مطلب: جو شخص اپنی عادات کی اصلاح میں مشغول ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے درستیِ عادات کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس مضمون کی آیات بکثرت آئی ہے مثلًا ﴿وَيَزِيدُ اللّٰهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ”اور جو لوگ ہدایت پر آ گئے اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے“ (مریم: آیت 76) اور یہی معنی ہیں توفیقِ الٰہی اور تائیدِ ربانی کے صلح کے۔ عالمِ، یک رنگ سے مراد غیب ہے جو گوناگوں فیوض و برکات اور ثمراتِ اعمال پر مشتمل ہے اس عالم میں پہنچانے سے مقصود یہ ہے کہ اس کے ساتھ تعلق ہو جائے گا۔ یعنی نزولِ برکات اور حصولِ ثمرات کا استحقاق ہو جائے گا وہ عالمِ صلح اس لحاظ سے ہے کہ وہاں اختلاف و ضدیت کا نام و نشان نہیں جو عالمِ سفلی کے خواص سے ہے اور یک رنگ اس اعتبار سے ہے کہ وہ تغیر و تبدل سے پاک ہے آگے خود اس کی تفصیل فرماتے ہیں:

58 

 آن جہان جز باقی و آباد نیست   زانکہ ترکیبِ وے از اضداد نیست

ترجمہ: وہ عالم بالکل لا زوال اور معمور ہے اس لیے کہ اس کی بناوٹ ایسے اجزا سے نہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہوں۔

مطلب: ضد سے مراد یہ ہے کہ وہ اجزا ایک دوسرے کو فنا و زائل کرنے والے نہیں جیسے کہ عناصر ایک دوسرے کو فنا کرتے رہتے ہیں۔ مثلًا پانی آگ کو بجھا دیتا ہے یا آگ پانی کو ہوا میں مستحیل کر دیتی ہے۔ باں جو اجزا ایک دوسرے سے متباین ہوں تو یہ مضر نہیں کیونکہ وہ تضاد دو تزاحم کے بغیر باہم مجتمع ہیں۔ مثلًا فيوض الٰہیہ کہ ایک فیض دوسرے فیض سے مباین ہونے کے باوجود اس کے ساتھ جمع ہے اور مثلًا خوف و رجا اور انس و ہییت جو باہم متباین ہیں۔ ایک محل میں جمع ہیں۔ اسی طرح ثمراتِ اعمال مثلًا نعمائے جنت میں سے ہر نعمت دوسری نعمتوں سے جداگانہ ہونے کے باوجود بلا تزاحم ان کے ساتھ جمع ہے۔ (کلید)

 59

 این نفسانی از ضِد آید ضِد را   چون نباشد ضد نبود جُز بقا

ترجمہ: یہ ایک دوسرے کو فنا کرنے کا عملِ ضد (دوسری) ضد پر وقوع پاتا ہے جب ضد نہ ہو تو (کوئی کسی کو فنا نہیں کرتا بلکہ) سوائے بقا کے اور کچھ نہیں۔

60 

نفیِ ضد کرد از بہشت آن بے نظیر   کہ نباشد شمس و ضدش زمہریر 

ترجمہ: (چنانچہ) اس (خداوندِ) بے ہمتا نے بہشت سے ضد کی نفی (یوں) کی کہ (وہاں) نہ تیز دھوپ ہے اور نہ اس کی ضد شدت کا جاڑا ﴿لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا یعنی ”بہشتی لوگ وہاں نہ گرمی محسوس کریں گے نہ سردی“۔ (الدهر: آیت 13)

 61 

 ہست بے رنگی اصولِ رنگہا   صلحہا باشد اصولِ جنگہا

ترجمہ: (وہ) بے رنگی (کا عالم اس عالم کے) رنگوں کی اصل ہے (اس عالمِ بالا کی) صلح و آشتی (اس عالمِ سفلی کے) جنگ و جدل کی جڑ ہے۔

مطلب: عالمِ بالا کو بے رنگ اس کی لطافت کے اعتبار سے کہا ہے۔ مطقًا رنگ کی نفی مقصود نہیں ورنہ اوپر اس کو جہانِ یک رنگ کہنا صحیح نہ ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ عالمِ سفلی کے تمام وقائع و حوادث عالمِ بالا کے تصرفات پر متفرع ہوتے ہیں۔ مولانا بحرالعلوم اس شعر کی شرح میں فرماتے ہیں کہ فلاسفہ کے نزدیک مسلم ہے کہ اجسام بسیط میں کوئی رنگ نہیں اور جب یہ اجسام باہم جمع ہوتے ہیں تو رنگ پیدا ہوتا ہے پس بے رنگی جس سے اجسامِ بسیط مراد ہیں رنگوں کی اصل ہوئے، جن کی ترکیب سے مختلف رنگ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ تو معنی ظاہری ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ بے رنگی سے مراد حق ہے جو وجودِ مطلق ہے اور وہ تمام متعینات کی اصل ہے جن کو رنگوں سے تعبیر کیا ہے صلح و آشتی کے اصولِ جنگ ہونے کا مطلب یہ کہ تمام اشیا بے رنگی میں صلح رکھتی تھیں جب بے رنگی سے رنگ میں آئیں تو مصروفِ جنگ ہوگئیں (انتہٰی)۔

62 

 آن جہان ست اصلِ ایں پُر غم وثاق  وصل باشد اصلِ ہر ہجر و فراق

ترجم: وہ عالم اس غم بھرے گھر (یعنی دنیا) کی اصل ہے، وصل ہر ہجر و فراق کی جڑ ہوتا ہے۔

مطلب: اوپر کے شعر میں جو بات کنایۃً کہی تھی یہاں صراحۃً فرمائی ہے یعنی عالمِ ارواح اصل ہے عالمِ دنیا کی۔ دوسرے مصرعہ کا وہی مطلب ہے جو شعرِ سابق کے دوسرے مصرعہ کا ہے وصل سے مراد محلِ وصل یعنی عالمِ ارواح جہاں منافرت کے اسباب مفقود ہیں اور ہجر سے مقصود مقام ہجر یعنی دنیا ہے جہاں تخالف و تضاد اور فتنہ و فسادِ عام ہے۔

مطلب یہ کہ عالمِ ارواح عالمِ دنیا کی اصل ہے۔ آگے اس بیان کی تحقیق بطور سوال و جواب فرماتے ہیں:

63 

 این تخالف از چہ آید وز کجا   وز چہ زاید وحدتِ این اضداد را

ترجمہ: یہ تخالف (جو اشیائے عالم میں پایا جاتا ہے) کس چیز سے پیدا ہوتا ہے اور کہاں سے اور ان اضداد (عناصر) میں (جو عارضی) اتحاد (ہے) کس بات سے پیدا ہوا ہے (آگے خود جوابًا ارشاد فرماتے ہیں):

64 

 زانکہ ما فرعیم و چار اضداد اصل  خوئے خود در فرع کرد ایجاد اصل

ترجمہ: (یہ تخالف تو) اس لیے (ہے) کہ ہم (مخلوقات عنصریہ) نتیجہ ہیں اور چار متضاد(عناصر) ہماری اصل ہیں۔ اصل نے نتیجہ کے اندر اپنی خاصیت پیدا کر دی۔

مطلب: فرع کے معنی شاخ یا نتیجہ کے ہیں ایک مرکب چیز بھی اجزائے بسیط کی فرع کہلا سکتی ہے کیونکہ وہ انہی اجزا کی ترکیب سے بطورِ نتیجہ پیدا ہوتی ہے جس طرح ایک جڑ سے شاخ پیدا ہوتی ہے مثلًا اطریفل کی مرکب دوا ہلیلہ، بلیلہ، آملہ کی فرع ہے اور یہ تینوں مفرد دوائیں اس کی اصل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ انسان و حیوان کے افراد میں تخالف و تضاد پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم عناصر سے مرکب ہیں اور عناصر میں طبعًا تضاد ہے اس لیے ان کی فرع میں بھی ضدیت پیدا ہو گئی ہے جس طرح اطریفل کے اندر اس کے اجزائے مفردہ کے خواص کا ہونا لازم ہے۔ آگے ان عناصر کے عارضی اتحاد کی وجہ بیان فرماتے ہیں جو زندہ اجسام کے اندر ہے:

65 

گوہر جان چون وراۓ فصلہا ست   خوے آن این نیست خوے کبریا ست

ترجمہ: اور عناصر کا یہ اتفاق اس لیے ہے کہ روح اس جسمِ عنصری سے مقارن ہے اور روح کا جوہر چونکہ تضاد (تخالف سے الگ ہے جو عناصر کی خاصیت ہے اس لیے) اس کی یہ خاصیت نہیں (بلکہ اس میں) حضرت کبریا کا خلق ہے۔

مطلب: روح چونکہ حضرت کبریا کی مظہرِ اتم ہے اس لیے وہ اخلاقِ الٰہیہ سے موصوف ہے یعنی جس طرح حق تعالیٰ کو کسی سے تزاحم و تضاد نہیں اس طرح روح بھی اس عیب سے مبرا ہے اور روح کی مقارنت سے جسم کے اجزائے عنصریہ میں بھی یہ خاصیت پیدا ہو گئی۔ اس لیے روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو پھر فوراً اجزائے عنصریہ میں وہی تضاد عود کرتا ہے اور ان کا یہ باہمی تعلق منقطع ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کو انحلالِ ترکیب کہتے ہیں بعض نسخوں میں فصلہاست کے بجائے اصل ہاست درج ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ روح کا جوہر (ان اصولِ مذکورہ یعنی عناصرِ متضادہ سے خاصیت میں) جدا گانہ ہے۔ غرض معلوم ہوا کہ تضاد و تخالف ہم میں عناصر سے آیا اور اتحاد روح سے اور روح اصل ہے، عناصر اور ابدانِ عنصریہ تابع۔ پس عالمِ ارواح اصل ہوا اور عالمِ دنیا تابع اور یہی مقصود تھا۔ یہاں ارواح کے تزاحم و تنازع کی نفی سے کسی کو یہ شبہ عارض ہو سکتا ہے کہ پھر ان حضرات کو جن کی ارواح کے احکام غالب ہیں یعنی انبیائے کرام و اولیائے عظام کو خصومت ونزاع اور جنگ و جدال سے بالکل بے تعلق ہونا چاہیے حالانکہ تواریخ و سیر میں یہ حضرات بھی تیغ بکف نظر آتے ہیں اس لیے آگے بطور دفع و محل مقدر فرماتے ہیں:


66 

جنگہا بین کان اصولِ صلحہا ست   چون نبی کہ جنگِ او بہر خدا ست

ترجمہ: (اب ذرا) ان جنگوں کو (بھی) دیکھو جو (بظاہر جنگ نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں) صلح و آشتی کی اصول ہیں۔ جیسے نبی ﷺ (کے غزوات) جن کی جنگ (فتوحاتِ ملکی کے لیے نہیں بلکہ رضائے) خدا کے لیے ہے۔

مطلب: جب کسی عضو کی بیماری اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ دواؤں اور مرہموں سے نہیں جاسکتی اور اس کو اس حالت میں چھوڑ رکھنے سے باقی اعضا کو ضرر پہنچنے اور بیمار کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے تو طبیب اس عضو ہی کو کاٹ ڈالتا ہے اور اس کا یہ عملِ جراحی بیمار کے ساتھ ہرگز دشمنی یا انتقام نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ عین خیر خواہی ہے۔ بقول مولاناؒ ؎

 طفل می لرزد ز نیشِ احتجام  مادرش زان نیش باشد شادکام

اسی طرح جب صفحۂ عالم میں ظلم و بدکاری سے نورِ حق کی چمک نابود ہونے لگتی ہے اور انسانی سرکشی، زبانی ارشاد و ہدایت سے اثر پذیر ہونے کے قابل نہیں رہتی تو سیاستِ الٰہیہ کی تلوار حمایت حق کے لیے حرکت میں آتی ہے۔ کوئی خاص برگزیدہ بندۂ حق جس کو نبی یا ولی کہتے ہیں اس تلوار کا حامل ہوتا ہے اور یہی مطلب ہے اس کا کہ جنگِ اوبہرِ خداست یہ جنگ شر و فساد کے اس مادہ کو بالکل فنا کر دیتی ہے جو عمومًا اشرار و مفسدین میں باہم اور خصوصًا ضعفائے مسلمین کے لیے باعثِ اذیت رہتا تھا اور عالم میں امن و آشتی کا دورہ عام ہو جاتا ہے اس لیے فرمایا جنگہا بیں کاں اصولِ صلحہاست آگے پھر فرماتے ہیں:

67

طرفہ آن جنگے کہ اصلِ صلحہا ست   شاد آن کاین جنگِ او بہر خدا ست 

ترجمہ: وہ جنگ (بھی) عجیب ہے جو صلح و آشتی کی اصل ہے اور خوش (نصیب) ہے وہ شخص جس کی یہ جنگ خدا کے لیے ہے۔

68

غالب ست و چیر در ہر دو جہان   شرحِ ایں غالب نگنجد در دہان

ترجمہ: (یہ مردِ حق) دونوں جہانوں میں غالب ہے اس غالب (کے غلبہ) کی تفصیل منہ سے ادا نہیں ہوسکتی۔

مطلب: مردان حق کے غلبۂ دارین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ۔۔۔ ”ہم دنیا کی زندگی میں بھی اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی (مدد) کریں گے جب کہ بطور گواہ کھڑے ہوں گے“۔ (المومن: آیت 51) آخرت میں ان حضرات کا غالب ہونا تو ظاہر ہی ہے کہ وہ مقبول و ناجی ہیں اور ان کے مخالف مردود و ناری ہیں۔ دنیا میں بھی اکثر ان کو غلبہ ہوتا ہے ہاں، اگر احيانًا ان کے مخالفین کو غلبہ حاصل ہو جائے تو یہ خاص عوارض کا نتیجہ ہوتا ہے جو عارضی اور ہنگامی ہوتا ہے۔ جس کی ایک نظیر غزوۂ احد ہے اور انجام کار نصرتِ کلی انہی مردانِ حق کے حصے میں آتی ہے اور اس عارضی مغلوبیت میں بھی باطنًا انہی حضرات کو غلبہ حاصل ہوتا ہے یعنی ان کو وہ تعلق مع اللہ حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ حق کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ حتٰی کہ جان تک دے دیتے ہیں مگر باطل کے آگے سر نہیں جھکاتے۔ ایسی غالبیت کی مثال حضرت زکریا، حضرت یحیٰی علیہما السلام، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعات ہیں۔ اقبال

 زندہ حق از قوتِ شبیری ست  باطل آخر داغِ حسرت میری ست

پس اس غلبہ کی حقیقت معیت مع اللہ ہے اور چونکہ معیت امرِ حالی و ذوقی ہے، الفاظ اس کی تعبیر سے قاصر ہیں اس لیے فرماتے ہیں کہ یہ معنوی غلبہ بمعنی معیت زبان سے بیان نہیں ہوسکتا۔ (استفادہ از کلید)

69

آبِ جیحون را اگر نتوان کشید ہم ز قدرِ تشنگی نتوان برید

ترجمہ : دریائے جیحوں اگر (سارے کا سارا) سڑپ نہیں سکتے تو پیاس کے موافق (اس سے پانی پینے) سے تو ٹلنا نہیں چاہیے۔

مطلب: اگر معیتِ حق کا مضمون کما حقۂ ادا نہیں ہوسکتا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو بالکل ہی بیان نہ کیا جائے کچھ نہ کچھ تو بیان ہونا ہی چاہیے تا کہ طالبانِ معارف کو بقدرِ استعداد اس کا علم ہو سکے ’’مَا لَایُدْرَكُ کُلَّهُ لَایَتْرُکُ کُلَّهُ‘‘

70

گر شدی عطشانِ بحرِ معنوی  فرجۂ کن در جزیرہ مثنوی

ترجمہ: اگر تم دریائے معارف کے پیاسے ہو (اور اس دریا کا پی جانا تمہارے لیے نا ممکن ہے) تو ہماری اس مثنوی کے جزیرے کی سیر کیا کرو۔

مطلب: بحرِ معنوی سے مراد معارف ہیں اور یہاں خصوصًا معیتِ حق کا مضمون مقصود ہے جزیرۂ مثنوی سے مثنوی شریف کے الفاظ و عبارات مراد ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص پانی پینے کا شائق ہو وہ ساحلِ جزیرہ سے اپنا یہ مقصد پورا کر سکتا ہے۔ اس استعارہ میں فرماتے ہیں کہ اگر تم معیتِ حق کا علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ مثنوی شریف کے الفاظ کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہو۔ اسی ساحل سے اس دریا کو موج زن دیکھ لو گے۔

71

فُرجہ کن چندانکہ اندر ہر نفس  مثنوی را معنوی دانی و بس

ترجمہ: الفاظِ مثنوی کے جزیرے میں اس قدر سیر و گردش کرو کہ ہر لمحہ مثنوی کو سراپائے معنی پاؤ اور بس (یعنی کثرتِ تدبر سے اس کے معانی کا اس قدر استحضار ہو جاۓ کہ الفاظ کی طرف التفات ہی نہ رہے۔ آگے اس کو ایک مثال کے ساتھ واضح فرماتے ہیں):

72

 باد کَه را ز آبِ جُو چون وا کند   آبِ یکرنگیِ خود پیدا کند

ترجمہ: ہوا جب گھاس پھوس کو نہر کے پانی سے ہٹا دے۔ تو پانی یک رنگی ظاہر کرتا ہے۔

مطلب: سطحِ آب جب گھاس پھوس سے ڈھکی ہوتی ہے تو وہ گوناگوں رنگوں کی مرقع ہوتی ہے۔ ہوا کا جھونکا آتا ہے اور اس گھاس پھوسں کے پردے کو پرے ہٹا دیتا ہے تو اس کے نیچے بسیط و یک رنگ پانی کی رو بہتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح جب مثنوی پڑھنے والا اس کے الفاظ و عبارات سے قطع نظر کر کے معنی پر غور کرے تو اس کو علوم و معارف کے دریا موجزن نظر آئیں گے۔

73

 شاخہائے تازۂ مرجان ببین   میوه ہائے رستہ ز آبِ جان ببین

ترجمہ: اب تم اس پانی کے اندر مرجان کی تازہ شاخیں دیکھ لو، روح کے دریا سے پیدا ہونے والے میوے دیکھ لو۔

مطلب: مرجان اور اس کی شاخیں سمندر میں پانی کے نیچے ہوتی ہیں پانی کی سطح صاف ہو تو وہ نظر آسکتی ہیں۔ اسی طرح میوہ دار درخت بھی عمومًا کنارۂ آب پر ہوتے ہیں یہاں مرجان و میوہ سے معانی کے انوار و آثار مراد ہیں۔ آبِ جان میں عارف کی روح کو پانی سے تشبیہ دی ہے اور اس سے مرجان نمودار ہونا اور میوہ اگنا بدیں اختیار کہا کہ معانی کے آثار و انوار پہلے عارف کی روح پر فائض ہوتے ہیں پھر وہ ان کے ساتھ متکلم ہو کر دوسرے لوگوں کو مستفیض کرتا ہے تو گویا وہ لوگ بھی اس میوۂ مرجان سے متمتع ہو جاتے ہیں۔ آگے اس تشبیہ کی تائید میں فرماتے ہیں:

74 

چون ز حرف و صورت و دم یکتا شود  آن ہمہ بگذارد و دریا شود

ترجمہ: جب (ایک مضمون) حرف اور آواز اور کلام سے خالص ہو جاتا ہے تو وہ ان سب کو چھوڑ جاتا ہے اور (معانی و علوم کا) دریا بن جاتا ہے۔ (آگے یہی بات دوسرے پیرایہ میں فرماتے ہیں):

 75 

 حرف گو و حرف نوش و حرفہا  ہر سہ جان گردند اندر انتہا

ترجمہ: متکلم اور سامع اور گفتگو تینوں آخر میں (جسمانیت سے پاک اور) روح (مجرد) ہو جاتے ہیں۔

مطلب: متکلم و سامع کا جسم سے الگ ہو کر روح بن جانا تو ظاہر ہے باقی کلمات و الفاظ پر یہ بات اس طرح صادق آتی ہے کہ الفاظ کا قیام جسمانیت کے ساتھ اور معانی کا روح کے ساتھ ہے پھر جسم کے فنا ہونے سے الفاظ بھی فنا ہو جائیں گے اور معانی روح کے ساتھ باقی رہ جائیں گے۔ آگے اس کی تمثیل مذکور ہے:

76 

 نان دہند و نان ستان و نانِ پاک   سادہ گردند از صور گردند خاک

ترجمہ: روٹی دینے والا روٹی لینے والا اور خود روٹی (اپنی اپنی مادی و جسمانی) صورتوں سے خالی ہو جائیں گے (اور بے روح ہو کر مٹی ہو جائیں گے)۔

مطلب: نان دہندہ نان ستان مرنے کے بعد بلاواسطہ مٹی ہو جاتے ہیں۔ روٹی کا مٹی ہونا بالواسطہ ہے یعنی اس کا کچھ حصہ جسم کا جزو بن جاتا ہے اور جسم آخر مٹی ہو جاتا ہے اور کچھ حصہ فضلہ بن کر مٹی میں مل جاتا ہے۔

77

 لیک معنی شان بود در سہ مقام   در مراتب ہم ممیّز ہم مدام

ترجمہ: لیکن ان (تینوں) کی روحیں تین (الگ الگ) مقاموں میں رہتی ہیں (جو اپنے اپنے) مراتب میں ایک دوسرے سے ممتاز بھی ہیں اور دائمی بھی۔

مطلب: روٹی دینے والے اور روٹی  لینے والے کی انسانی روحیں ہر چند ایک نوع کی ہیں مگر بلحاظِ عمل کہ ایک محسن ہے دوسری محسن الیہ۔ ان کے مدارج مختلف ہیں۔ حدیث میں وارد ہے ﴿اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرُ ٗ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلٰی ۔۔۔اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے افضل ہے“ اور اس سے آخرت میں ان روحوں کا فرقِ مراتب ظاہر ہے روٹی کی روح کا کسی مرتبے میں رہنا بدیں لحاظ فرمایا کہ صوفیہ کے نزدیک ہر چیز حتٰی کہ جمادات تک کی روح ہے جس سے وہ حق تعالیٰ کی تسبیح و ذکر کرتی ہے سعدیؒ

 بذکرش ہر چہ بینی در خروش ست  ولے داند درین معنی کہ گوش ست 

 نہ بلبل بر گلش تسبیح خوانے ست  کہ ہر خارے بہ تسبیحش زبانے ست 

78

 خاک شد صورت ولے معنی نشد   ہر کہ گوید شد، تو گویش نے نشد

ترجمہ: صورت (جسم تو) مٹی ہو گئی مگر روح (مٹی) نہیں ہوئی۔ جو شخص (بعقیدۂ جاہلیت) کہے (کہ وہ بھی مٹی) ہو گئی تم اس کو کہو نہیں (مٹی) نہیں ہوئی۔

79

در جہانِ روح هر سہ منتظر  گہ ز صورت ہارب و گہ مستقر

ترجمہ: (بلکہ) تینوں (روحیں دنیا میں آنے سے پہلے) عالمِ ارواح میں (حکمِ الٰہی کی) منتظر ہیں۔ کبھی (جسمانی) صورت (کے ساتھ مقترن ہونے) سے گریز کرتی ہیں اور کبھی (اس کے ساتھ) قرار پکڑانے کو تیار ہو جاتی ہیں (آگے اس کی تفصیل ارشاد ہے کہ):

80

 امر آید در صور رو در رود  بار ہم ز امرش مجرد مے شود

ترجمہ: (جب خداوند تعالیٰ کا) حکم آتا ہے (کہ اے روحو! تم عنصری) مجسموں میں داخل ہو جاؤ تو وہ داخل ہو جاتی ہیں پھر اس کے حکم سے (مقدر زندگی گزار کر ان مجسموں سے) علیحدہ بھی ہو جاتی ہیں۔

81

 پس لَہٗ الْخَلْقُ لَہُ الْاَمْرش بدان  خلق صورت امر جان راکب بران

ترجمہ: پس (اس بات سے) اس کے (حکم) لَہٗ الْخَلْقُ وَ الْاَمْر کو سمجھ لو(جس کی تفسیر یہ ہے کہ) خلق (سے مراد) صورت (اور جسم ہے اور) امر (سے مراد) روح جو اس (بدن) پر سوار ہے۔

مطلب: صوفیہ کے نزدیک زمین و آسمان اور ان کے مابین کی کائنات عالمِ خلق ہے اور اس سے اوپر کا عالم جس میں عالمِ ارواح بھی شامل ہے عالمِ امر ہے جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہو جاتی ہے۔ ’’عَنْ جَابِر ٍ أنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْہِ و َسَلَّمَ قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ وَ ذُرِّيَّتَہ قَالَتِ المَلَائِکَةُ يَارَبِّ خَلَقْتَھُمْ يَاْكُلُوْنَ وَ یَشْرَبُوْنَ وَیَنْكِحُوْنَ وَ يَرْكَبُوْنَ فَاجْعَلْ لَہُمُ الدُنْيا وَ لَنَا الْاٰخِرۃَ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰى لَا أجْعَلُ مَنْ خَلَقْتُہُ بِيَدِىّ وَ نَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُوْحِیْ کَمَنْ قُلْتُ لَہُ کُنْ فَکَانَ‘‘۔

”جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی اولاد کو پیدا کیا تو فرشتوں نے کہا اے پروردگار یہ تیری ایسی مخلوق ہیں جو کھاتے اور پیتے ہیں اور نکاح کرتے ہیں اور سوار ہوتے ہیں پس ان کو دنیا کا حصہ دار بنا دے اور ہم کو آخرت کا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس مخلوق کو جسے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی اس مخلوق کے برابر نہیں رکھوں گا جس کو میں نے حکم دیا کہ ہو جا تو وہ موجود ہو گئی۔ (مشکوۃ) اس سے ظاہر ہے کہ زمینی مخلوق جس سے انسان مراد ہیں ’’خَلَقْتُہٗ بِیَدَیَّ‘‘ کا مصداق ہونے کے لحاظ سے عالمِ خلق ہے اور عالمِ ارواح امر کن سے پیدا ہونے کے اعتبار سے عالمِ امر۔ صاحبِ کلید مثنوی فرماتے ہیں ۔ خلق و امر کی جو تفسیر اشعارِ مذکورہ میں کی گئی ہے یہ بعض کا قول ہے دوسری تفسیر جو اقرب ہے اختیار کرنا راجح ہے وہ یہ کہ خلق سے مراد پیدا کرنا اور امر سے مراد حکم کرنا۔ یعنی خالق بھی وہی ہے اور آمر و حاکم بھی وہی۔ یہ اقرب اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰہُ الَّذِى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ اس میں خالق ہونے کا ذکر ہے اس کے بعد ہے ﴿ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِى الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرٰتٍ بِأَمْرِہٖ (الاعراف:آیت 54) اس میں بذکرِ تصرفات و تصریح لفظ بِاَمْرِہٖ آمر ہونے کا بیان ہے (انتہٰی) روح کے جسم پر سوار ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ جسم میں متصرف اور اس کے ساتھ مقارن ہے۔

82

راکب و مرکوب در فرمانِ شاہ   جسم بر درگاہ و جان در بارگاہ

ترجمہ: یہ سوار اور سواری (یعنی روح و جسم) بادشاہ (حقیقی) کے حکم میں ہیں جسم درگاہ کے اوپر (حاضر) ہے اور روح بارگاہِ خدا کے اندر (داخل ہے)۔

مطلب: یہ باہر اور اندر کا فرق اس لیے رکھا کہ روح بوجہ غیر مادی یا لطیف المادہ ہونے کے بہ نسبت بدن کثیف المادہ کے حق تعالیٰ کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے اس تفاوت کو قرب و بعد سے تعبیر فرمایا۔ (کلید)

83

 چونکہ خواہد کہ آب آید در سبُو   شاہ گوید جیشِ جان راکہ اِرْکَبُوْا

ترجمہ: جب وہ بادشاہ (حقیقی تعالیٰ شانہٗ) چاہتا ہے کہ (روح کا) پانی (جسم کے) گھڑے میں داخل ہو تو ارواح کے لشکر کو حکم دیتا ہے کہ (اپنے اپنے اجسام پر) سوار ہو جاؤ۔

84

 باز جانہا را چو خواہد بر عُلُو  بانگ آید از نقیبان کہ اُنْزِلُوْا

ترجمہ: پھر جب وہ (ان) ارواح کو عالم علوی پر (بلانا) چاہتا ہے تو (شاہی) نقیبوں سے آواز آتی ہے کہ (جسم کی سواریوں سے اتر آؤ)۔

مطلب: اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عالم میں ہر روح کو یہ رکوب و نزول کا حکم بار بار ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ مختلف اجسام کو چھوڑتی اور اختیار کرتی رہتی ہے کیونکہ یہ بوجہ بطلانِ تناسخ کے باطل ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہاں ہر روح کو ایک بار رکوب کا اور ایک بار نزول کا حکم ہوتا ہے پس یہ فرمانا کہ در جہاں روح ہر سہ منتظر الخ یہ انتظار ابتدائے خلقِ روح سے ہے نہ کہ بعد مفارقتِ ابدان کے جیسا کہ اوپر کے ظاہر مضمون سے وہم ہوسکتا ہے۔ (کلید)

85

بعد ازین باریک خواہد شد سخن   کم کن آتش ہیزمش افزُون مکن

ترجمہ: اس (بیان) کے بعد بات باریک ہو جائے گی (جو فہمِ عوام سے بالاتر ہے اس لیے بیانِ اسرار کی) آگ کو کم کر دو اس میں زیادہ لکڑیاں نہ لگاؤ۔

86

 تا نجوشد دیگہائے خِرد زُود  دیگِ ادراکات خُردست و فُرُود

ترجمہ: تاکہ تنگ (ظرف لوگوں کے ادراکات کی) دیگیں ابل نہ پڑیں (ان کے) ادراکارت (عقلیہ) کی دیگیں چھوٹی اور کم رتبہ ہیں۔

مطلب: اس مجمل بیان کے بعد اگر اس تفصیل میں پڑ گئے کہ روح کس طرح بدن میں آتی ہے اور کس طرح نکلتی ہے تو کم ظرف لوگ ردّ و انکار پر مائل ہو جائیں گے کیونکہ اہلِ عقلیات کی یہی رسم ہے (بحر) یہ امر کہ بعد مفارقت ابدانی کے پھر روحیں کس حالت میں ہوتی ہیں اس کو اس لیے نہیں لکھا کہ اس کا پورے طور پر سمجھنا موقوف ہے کشفِ تمام یا مشاہدۂ آخرت پر اور بدوں اس کے سمجھنے میں غلطی متحمل ہے اور بقدرِ ضرورت سمجھنا ممکن ہے اور اس قدر شریعت نے سمجھا دیا ہے آتش سے مراد کلام اور ہیزم سے مراد اس کی تطویل ہے۔ کلام کو آتش سے تشبیہ با عتبارِ تہیج قوائے فکریہ کے دی(کلید) پیچھے یہ ذکر چلا آیا ہے کہ معانی الفاظ میں پنہاں ہیں۔ پس الفاظ میں غور کر کے معانی تک پہنچنا چاہیے (آگے اسی بیان کا اعادہ ہے):

 

87

پاک سبحانے کہ سیبستان کند   در غمامِ حرفِ شان پنہان کند

ترجمہ: پاک ہے وہ (معبودِ) قدوس جو (معانی کے) سیبوں کا باغ تیار کرتا ہے اور ان (سیبوں) کو الفظ کے ابر میں پنہاں کر دیتا ہے۔

88

 زین غمامِ صوت و حرف و گفتگو   پردۂ کز سیب ناید غيرِ بُو

ترجمہ: آواز اور الفاظ اور گفتگو کے اس ابر سے ایسا پردہ (چھاپا ہوا) ہے کہ سیب سے سوائے خوشبو کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

مطلب: سیب کی خوشبو سے معانی کا سراغ مراد ہے فرماتے ہیں کہ ان الفاظ و عبارت کے اندر معانی کچھ اس طرح پنہاں ہیں کہ ان کو پوری طرح ادراک کرنا آسان کام نہیں۔ البتہ الفاظ پر غور کرنے والے کو ان معانی کا کچھ سراغ سا معلوم ہونے لگتا ہے اس لیے:

89

 بارے افزون کش تو این بو را بہوش   تا سوئے اصلت برد بگرفتہ گوش

ترجمہ: ذرا اس خوشبو کو تم ہوش کے ساتھ کھینچو تاکہ تم کو کان پکڑ کر اصل کی طرف لے جاۓ (معانی کے اس سراغ پر اور زیادہ غور و فکر کرو تو اصل معنی سمجھ میں آ جائیں گے)۔

90

بو نگہدارد بپرہیز از زکام   تن بپوش از باد و بودِ سرد عام

ترجمہ: (اس) خوشبو کو محفوظ رکھو اور زکام سے بچو(جوقوتِ شامہ کو بیکار کر کے خوشبو سونگھنے سے محروم کر دیتا ہے اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ اپنا) بدن عام (لوگوں) کی ٹھنڈی ہوا اور (افسردہ) بود (و باش) سے ڈھکو (جس طرح ٹھنڈی ہوا کے بدن کو چھونے سے زکام ہو جاتا ہے، اسی طرح اہلِ دنیا کی صحبت سے دل پر افسردگی چھا جاتی ہے جو وصول الى المقصود سے مانع ہے۔


91

 تا نینداید مشامت از اثر   اے ہوا شان از زمستان سرد تر

ترجمہ: تاکہ تمہارے نَتھنے اس کے اثر سے پُر نہ ہو جائیں۔ ارے ان کی ہوا تو جاڑے سے بھی زیادہ ٹھنڈی ہے (ان کی صحبت غفلت پیدا کر دیتی ہے)۔ کما قيل

اہل را صحبت نا اہل زیانہا دارد  آب درکوزۂ نا پختہ گل آلودہ شود

 91

چون جمادند و فسردہ تن شگرف   میجہد انفاسِ شان از تلِّ برف

ترجمہ: (یہ دنیا دار لوگ روحانی حیثیت سے) جمادات کی طرح (بے حس) اور افسردہ ہیں (اگرچہ ان کے) بدن اچھے خاصے ہیں ان کے سانس (گویا) برف کے ٹیلے سے اٹھتے ہیں۔

مطلب: چونکہ ان کے باطن میں محبتِ حق کی گرمی اور طلب حق کا جوش نہیں اس لیے ان کے کلمات میں بھی افسردگی پائی جاتی ہے جس سے سننے والے کے دل پر بھی افسردگی طاری ہوتی ہے۔ باطن کا یہ حال ہے اور ظاہر دیکھو تو بڑے خوشحال نظر آتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَاِذَا رَاَيْتَـہُـمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُہُـمْ ۔۔۔ ”اگر تم ان (کی ظاہری حالت) پر نظر کرو تو ان کے بدن تم کو اچھے لگتے ہیں“ (المنافقون: آیت 4) فخر جرجانی ؎

گل نرگس نکو باشد بدیدن و لیکن زہر باشد درچشیدن

93

 چون زمین زین برف در پوشد کفن  تیغِ خورشید حسام الدین بزن

ترجمہ: جب (تمہارے وجود کی) زمین (دنيا داروں کی) اس (صحبت کی) برف سے کفن پوش ہو جائے۔ تو حضرت حسام الدین کی (صحبت کی) تیغِ آفتاب (اس پر) مارو۔

مطلب: حضرت حسام الدین سے کاملین مراد ہیں برف اور کفن میں وجہِ شبہ سفیدی ہے نیز کفن پوش مردہ اور برف پوش زمین افسردگی میں مشترک ہیں جس طرح آفتاب کے طلوع سے برف ڈھلنے لگتی ہے اسی طرح کاملین کی صحبت سے یہ غفلت و افسردگی دور ہو جاتی ہے لہٰذا ان کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔

94

 ہین برار از شرق سیف اللہ را   گرم کن زان شرق این درگاہ را

ترجمہ: ہاں مشرق سے (اس) تیغِ حق کو نکالو (اور) اس آفتاب سے اس درگاہ کو گرم کرو (درگاہ سے مراد زمین ہستی اور گرمی سے مراد جوشِ طلب و محبت ہے)۔

95

 برف را خنجر زند آن آفتاب  سیلہا ریزد ز کُہ ہا بر تُراب

ترجمہ: وہ آفتاب (حق صحبتِ عوام کے اثر کی) برف پر خنجر مارے (اور قلوب قاسیہ کے) پہاڑوں سے (ہستی کی) زمین پر پانی کی رویں بہا دے (جس طرح آفتاب کی حرارت سے پہاڑوں کی برف پگھل کر دریا کی شکل میں بہ نکلتی ہے۔ اسی طرح صحبتِ کاملین قلوبِ قاسیہ پر وہ اثر کرتی ہے کہ قلوب کی رقت اجسام پر مؤثر ہو کر اشکبار کر دیتی ہے۔

96

 زانکہ لَا شَرقی و لا غَربِی ست او  با منجّم روز و شب حربی ست او

ترجمہ: اس اثرِ شدید کی وجہ یہ ہے کہ وہ (صحبت کاملین کا معنوی آفتاب طلوع ہونے کے لیے) نہ مشرق سے منسوب ہے اور نہ (غروب ہونے کے لیے) مغرب سے منسوب ہے (اور) شب و روز منجّم کے ساتھ (اس بات کی لڑائی) رکھتا ہے کہ 

97

 کہ چرا جز من نجومِ بے ہدٰی   قبلہ کردی از لئیمی و عمٰی

ترجمہ: کہ تو نے مجھ کو چھوڑ کر بے ہدایت ستاروں کو (اپنی) نالائقی اور کور چشمی سے قبلہ کیوں بنا لیا۔

مطلب: ظاہری آفتاب مشرق و مغرب سے منسوب ہے مگر صحبتِ کاملین کا معنوی آفتاب چونکہ روحانی ہے اور روح غیر مادی ہونے کے سبب سے حیّز و جہت سے منزہ ہے اس لیے یہ آفتاب شرقی و غربی نہیں اور ظاہری آفتاب سے اس معنوی آفتاب کے زیادہ مؤثر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مجردات میں اللہ تعالیٰ نے قوت زیادہ رکھی ہے۔

98

 ناخوشت آمد مقالِ آن امین  در نبے کہ لَآ اُحِبُّ ألاٰفِيْنَ

ترجمہ: تجھ کو اس (نبیِ) امین (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام) کا قول پسند نہ آیا (جو) قرآن مجید میں مذکور ہے (انہوں نے ستاروں کو دیکھ کر فرمایا)، میں چھپ جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

مطلب: یہ قصہ مفتاح العلوم کی جلد اول میں درج ہو چکا ہے۔ نجوم کو بے ہدٰی اس اعتبار سے کہا کہ وہ خود قصدًا و عملًا کسی کو ہدایت دینے والے نہیں جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت بخشتا ہے یا انبیاء علیہم السلام راہِ ہدایت دکھاتے ہیں۔ ہاں کوئی شخص خود ان ستاروں کی رفتار کو ملحوظ رکھ کر اپنا راستہ معلوم کر لے تو یہ اور بات ہے۔ اس سے ستارے ہادی نہ ہوئے بلکہ وہ سببِ ہدایت ہوئے جیسے کہ اللہ فرماتا ہے ﴿وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَھتَدُونَ یعنی ”وہ ستارے کے ذریعہ راستہ معلوم کرتے ہیں“ (النحل: آیت 16) غرض وہ شخص معنوی نجومی کو ملامت کرتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ستاروں کو رب ماننے سے بیزاری ظاہر کی تھی مگر توحماقت سے ان کو اپنا ہادی مانتا اور مستقبل کے خیر و شر کی آگاہی دینے والا سمجھتا ہے۔

99

 از فرح در پیش مہ بستی کمر  زان ہمی رنجی ز وَانْشَقَّ الْقَمَر

ترجمہ: تو نے خوشی خوشی چاند کے حضور میں کمر (خدمت) باندھ رکھی ہے اس لیے آیہ وَانْشَقَّ الْقَمَر سے تو رنجیدہ ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ سورۂ قمر میں فرماتا ہے ﴿اِقْتَـرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ یعنی ”قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا“۔ (القمر: آیت 1) اور اس میں آنحضرت ﷺ کے معجزۂ شقِ قمر کی طرف اشارہ ہے جس کا مفصل ذکر مع دلائل اس شرح کی جلد دوم میں گزر چکا ہے نجومی کی رنجیدگی اس آیت سے بدیں وجہ متصور ہے کہ اس سے چاند کا ضعف ثابت ہوتا ہے حالانکہ نجومی اس کو مؤثر بالذات اور متصرف مستقل سمجھتا ہے نیز منجم فلسفی اجرامِ فلکی کے خرق و منفعل کو محال سمجھتا ہے اس لیے شق القمر کا واقعہ اس کے خلافِ عقیدہ ہونے کی بنا پر بھی باعثِ رنجیدگی ہے اسی طرح باقی ستاروں سے متعلق ارشاد ہے۔

 100

 منکری این راکہ شَمْسٌ کُوِّرَتْ  شمس پیشِ تست اعلى مرتبت

ترجمہ: اسی طرح تو اس (آیت) کا (بھی) منکر ہے (جس میں ارشاد ہے) کہ سورج بے نور کیا جائے گا کیونکہ سورج تیرے نزدیک عالی رتبہ ہے۔ (اشارہ بآیت ﴿اِذَا الشّمْسُ کُوِّرَتْ۔ التکویر:  آیت 1)

101

 از ستارہ دیدہ تصريفِ ہوا  ناخوشت آید اِذَا النَّجْمُ ھَوٰی

ترجمہ: (تُو) ہوا(ئے موسم) کا بدلنا ستارے سے سمجھا ہوا ہے (اس لیے) تجھے یہ (آیت) شاق ہے (جس میں مذکور ہے) کہ (قسم ہے) ستارہ (کی) جب وہ غروب ہو جائے۔

مطلب: یہ سورہ نجم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوٰى(النجم: آیت 1) اور اس کا مضمون منجم پر شاق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ستارہ کا منفعل و متاثر ہونا ظاہر ہوتا ہے جو کہ نقص ہے اور یہ اعتقاد منجم کے خلاف ہے باقی نفسِ غروبِ نجم کا تو وہ بھی منکر نہیں۔ پس یہ ناگواری باعتبار اس دلالت کے ہے اور تصریفِ ہوا سے اگر ظاہری معنی یعنی ہواؤں کا چلنا مراد لیے جائیں تو یوں توجیہ ہوگی کہ فلاسفۂ طبیعین کہ منجمین بھی ان کی ایک قسم ہیں اس کے قائل نہیں کہ کواکب کی حرارت سے ہوا میں تخلل ہوتا ہے اسی سے ہوا میں حرکت ہوتی ہے تو تصریف بمعنی تحریک ہوگی۔ (کلید)

101 

 خود مؤثرتر نباشد مہ ز نان  اے بسا نانے کہ ببرد عرقِ جان

ترجمہ: چاند (فائدہ رسانی میں) یقینًا روٹی سے زیادہ مؤثر نہیں (مگر) اے (منجم) بہتیری روٹیاں رگِ جان کو کاٹ ڈالتی ہیں۔

مطلب : منجم کو چاند کی فائدہ رسانی پر اعتماد ہے حالانکہ قرصِ نان کو دیکھو تو قرصِ ماہ سے فائدہ رسانی میں کم نہیں بلکہ اس لحاظ سے قرصِ ماہ کی فائدہ رسانی محتاجِ دلیل ہے اور قرصِ نان کی فائدہ رسانی بدیہی اور غیر محتاج دلیل ہے مؤخر الذکر کو ترجیح حاصل با ایں ہمہ دیکھا جاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ روٹی کھائی جائے یا وہ کچی ہو یا جلی ہوئی ہو تو اس کے کھانے سے فائدہ حاصل ہونے کے بجائے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ روٹی میں فائدہ رسانی کی تاثير بالذات و بالاستقلال نہیں ورنہ وہ ہمیشہ فائدہ ہی پہنچاتی بلکہ وہ کسی اور مؤثر کے تابع ہے جو اپنی قدرت سے کبھی اس کو مفید بنا دیتا ہے اور کبھی مضر۔ پس جب روٹی کی سی بدیہی النفع چیز کا یہ حال ہے تو چاند کے بالذات نافع ہونے کی کیا امید ہو سکتی ہے۔

103

 خود مؤثرتر نباشد زُہرہ زاب   اے بسا آبا کہ کرد او تن خراب

ترجمہ: زہرہ ستارہ پانی سے زیادہ موثر نہیں ہوتا۔ ارے (پانی کا حال تو دیکھو کہ) بہت سے پانی بدن کو تباہ کر دیتے ہیں۔

مطلب: قمر کی کمزوری ثابت کرنے کے بعد زہرہ کی باری آئی کہ وہ بھی ایک ستارہ ہے اور اہل تنجیم کی اصلاح میں وہ سعدِ اصغر ہے اور ان کے عقیدہ میں مؤثرِ خاص ہے۔ قمر کی کمزوری کا ثبوت روٹی کی سی بدیہی النفع چیز کی مضرت سے دیا تھا تو اس کی مناسبت سے زہرہ کی کمزوری ثابت کرنے کے لیے پانی کو پیش کیا ہے جو غذا میں روٹی کے ساتھ متلازم اور اس سے زیادہ محتاج الیہ ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ یہ مفید چیز بھی بہت سے حالات میں مہلک و تباہ کن ثابت ہوتی ہے چنانچہ پانی پیتے پیتے اچھو آ جائے تو بس زندگی کا خاتمہ ہے اس کی مقدارِ کثیر جسمانی بافتوں میں جمع ہو جائے تو مرضِ استسقا پیدا کر دیتا ہے جو اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے اگر کوئی متنفس اس کے اندر غرق ہو جائے تو سانس کے گھٹ جانے سے مر جائے۔ غرض جب پانی کا یہ حال ہے تو زہرہ ہمیشہ اور بالاستقلال کیا مفید ہو گا۔

104

 مہرِ آن در جانِ تُست و پندِ دوست  می زند بر گوشِ تو بیرونِ پوست

ترجمہ: اس ستارے کی محبت تو تیری جان کے اندر (گھس رہی) ہے اور محبوب (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی نصیحت تیرے کان کے اوپر پوست کے باہر رہتی ہے۔ سعدیؒ

 گوشت حدیث می شنود ہوش بے خبر   در حلقۂ بصورت و چون حلقہ بر دری

105

پندِ ما در تو نگیرد اے فلان  پندِ تو در ما نگیرد، ہم بدان

ترجمہ: اے شخص! تیرے اندر ہماری نصیحت اثر نہیں کرتی (اور اس بات کو) یاد رکھ کہ تیری نصیحت بھی ہم پر مؤثر نہیں ہوتی (اہلِ باطل کے قول کو پند بطور مشاکلہ کہہ دیا ورنہ وہ پند نہیں بلکہ بد خواہی ہوتی ہے۔ پندِ ما اور پندِ دوست ایک ہی چیز ہے کیونکہ اہل اللہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب تعليمات الٰہیہ ہیں۔ اہل اللہ اس کے مبلغ ہیں)۔

106

 جز مگر مفتاحِ خاص آید ز دوست کہ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ آنِ اوست

ترجمہ: مگر سوائے اس (حالت) کے کہ (اس) دوست (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی طرف سے ایک خاص کنجی (تیری طرف) آ جائے جس کی ملک میں تمام آسمانوں کی کنجیاں ہیں۔

مطلب: پندِ دوست کو قبول نہ کرنے او اس سے متاثر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ﴿خَتَمَ اللهُ عَلٰى قُلُوبِهِمْ (البقرۃ: آیت 7) اس مہر کو وہی اٹھائے اور اس بندش کو وہی کھولے تو قبولِ حق کی تو فیق ہو۔ حافظؒ


گوش بگشائے کہ بلبل بفغان میگوید   خواجہ تقصیر مفرما گل توفیق ببوئے

107

 این سخن ہمچون ستارہ ست و قمر   لیک بے فرمانِ حق ندہد اثر

ترجمہ : یہ کلام (جس کو اوپر پندِ دوست کہا تھا ہدایت میں واقعی) ستارہ اور چاند کی مانند ہے لیکن حکمِ حق کے بدوں وہ اثر نہیں کرتا۔

مطلب: ستارہ و قمر کے مسافر کو راہِ راست دکھانا ظاہر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَبِالنَّجْـمِ هُـمْ يَـهْتَدُوْنَ (نحل: آیت 16) لیکن جس طرح ستارے حکمِ حق کے بغیر ہدایت نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات ان سے مسافر کو دھوکا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلامِ حق بھی حکمِ حق کے بغیر ہدایت نہیں بخشتا بلکہ بعض اوقات کج فہم لوگ اس سے گمراہ ہو جاتے ہیں ﴿يُضِلُّ بِه كَثِيرًا وَيَهْدِي بِه كَثِيرًا (البقرۃ: آیت 26) آگے فرماتے ہیں کہ کلام کا اثر کن لوگوں پر ہوتا ہے۔

108

این ستارہ بے جہت تاثیرِ او   می زند بر گوشہائے وحی جُو

ترجمہ: یہ (فیوضِ روحانیہ کا) ستارہ جو (لا شرقی و لا غربی ہونے کی وجہ سے) کوئی (خاص) جہت نہیں رکھتا ایسے کانوں پر اثر ڈالتا ہے جو وحی (سننے) کے طالب ہیں۔

مطلب: عادة اللہ اسی طرح جاری ہے کہ وہ انہی لوگوں کو ہدایت بخشتا ہے جو جویائے ہدایت ہوں چنانچہ فرمایا ﴿وَجَاءَكَ فِي ہَذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِينَ ’’ان (قصوں کے ضمن) میں (ایک تو جو) حق کی بات(تھی وہ) تمہارے پاس پہنچی اور (اس کے علاوہ) مسلمانوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی (بھی ہے“) (ہود: آیت 120) اس لیے آیہ يُضِلُّ بِہٖ میں آگے ارشاد ہے ﴿وَمَا يُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفَاسِقِيْنَ (26) اَلَّـذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ اُولٰٓئِكَ ہُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (27) ”وہ اس سے گمراہ کرتا (بھی) ہے (تو) بدکاروں ہی کو جو خدا کا عہد اس کے پکا کئے پیچھے توڑ دیتے ہیں اور جن (تعلقات) کے جوڑے رکھنے کو خدا نے فرمایا ہے ان کو قطع کرتے اور ملک میں فساد پھیلاتے ہیں یہی لوگ (آخر کار) نقصان اٹھائیں گے“ (البقرۃ: آیت 27) غرض اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو ہدایت بخشتا ہے جو جویائے ہدایت ہوں اور انہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو مائل بہ فسق اور خدا کے عہد شکن ہوں۔ یہ فیوضِ روحانیہ کا ستارہ اہلِ صلاحیت کے کانوں تک جو مؤثر بات پہنچاتا ہے وہ یہ ہے۔

109

 کہ بیائید از جہت تا بے جہات  تا ندرّاند شما را گرگ مات

ترجمہ: کہ (اے طالبو!) تم جہت (یعنی عالمِ اجسام) سے (نکل کر) بے جہت (یعنی عالمِ ارواح) کی طرف چلے آ ؤ تاکہ تم کو موت کا بھٹریا ہلاک نہ کرے۔

مطلب: مدعا یہ ہے کہ تم عالمِ ارواح کی طرف متوجہ رہو یا بزرگوں کی ارواح سے فیض حاصل کرو یا اپنی ارواح کی اصلاح کرو تاکہ تم کو وہ روحانی زندگی حاصل ہو جس پر کبھی فنا طاری نہیں ہو گی۔ آگے اس ستارۂ بے جہت کی فضیلت کا ذکر ہے۔

110

 آنچنان کہ لمعۂ دُر پاشِ اوست  شمسِ دنيا در صفت خفَّاشِ اوست

ترجمہ: اس (ستارہ) کا موتی برسانے والا ایک چمکارا (بھی) جیسا (کچھ) ہے تو دنیا کا آفتاب اس کے آگے بمنزلہ چمگادڑ کے ہے۔

مطلب: اس ستارہ کے ایک لمعہ کی یہ کیفیت ہے کہ آفتابِ عالم تاب اس کے آگے اس طرح چندھیا کر رہ جاتا ہے جس طرح خود آفتاب کے آگے چمگادڑ، تو اس کی پوری تابانی اور درخشانی کا کیا ٹھکانا اور اس کی وجہ یہ کہ اس روحانی ستارے کے انوار روحانی ہیں اور آفتاب کے انوار جسمانی اور جسمانی انوار روحانی انوار کے آگے مغلوب و ناقص ہیں۔

111

 ہفت چرخِ ازرقی در رقِّ اوست  پیکِ ماہ اندر تپ و در دقِّ اوست

ترجمہ: ساتوں نیل گونی آسماں اس کی غلامی میں ہیں چاند کا قاصد اس کے (اشتیاق کے) تپ اور دق میں ہے۔

مطلب: اس شعر میں کئی رعایاتِ لطیفہ مذکور ہیں آسمان کی نیل گونی اور غلامی میں یہ مناسبت ہے کہ غلاموں کو اکثر نیلے کپڑے پہنائے جاتے ہیں تاکہ کاروبار میں میلے نہ ہوں چاند کو اس کی سرعتِ سیر کے لحاظ سے قاصد کہا ہے کیونکہ زمین اپنے دائرہ کو ایک سال میں قطع کرتی ہے اور بعض ستارے اس سے بھی زیادہ حتٰی کہ صدیوں میں طے کرتے ہیں مگر چاند صرف ایک ماہ میں اپنے دائرہ کو طے کر جاتا ہے اور اس کے لیے تپ دق کا اثبات اس اعتبار سے کیا ہے کہ جس طرح دق کا مرض روز بروز لاغر و نحیف ہوتا جاتا ہے اسی طرح چاند بھی پندرہ تاریخ کے بعد گھٹنا شروع ہو جاتا ہے حتٰی کہ مہینے کی آخری تاریخ میں بال کی طرح بار یک رہ جاتا ہے ازراقی اور دق کے لفظوں میں ایک طرح کی تجنیس ہے۔

112

زہرہ چنگِ مسئلہ در وے زدہ   مشتری با نقدِ جان پیش آمدہ

ترجمہ: زہرہ نے سوال کا پنجہ اس (کے دامن) میں مارا ہے مشتری جان کو نقدی لیے حاضر ہے۔

مطلب: یہ ستارے اس کے محتاج اور دست نگر ہیں زہرہ کو لولی فلک کہا جاتا ہے جس کے ساتھ گانا بجانا منسوب ہے اس لیے چنگ کے لفظ میں ایہام تناسب ہے یعنی چنگ کا لفظ دو معنوں میں مستعمل ہے ایک ہاتھ دوسرا سارنگی پہلے معنی یہاں مقصود ہیں اور دوسرے معنی کی طرف ایہام ہے اسی طرح مشتری کے لفظ میں ایہام تناسب ہے یعنی مشتری کے دوسرے معنی خریدار کے ہیں جس کا کام یہ ہے کہ کسی چیز کی خریداری کے لیے نقدی پیش کرے۔

113

در ہواے دست بوسِ او زحل   لیک خود را می نبیند آن محل

ترجمہ: (ستارہ) زحل اس کے ہاتھ کو بوسے دینے کی آرزو رکھتا ہے لیکن اپنے لیے وہ رتبہ نہیں پاتا۔

مطلب: اس میں مبالغہ مقبول ہے یعنی اس ستارے کو زحل سے بھی اونچا قرار دیا ہے حالانکہ زحل کو تمام ستاروں سے بلند مانا گیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ یہ روحانی ستارہ اس قدر رفیع و برتر ہے کہ زحل ستارہ اپنی مسلمہ بلندی کے باوجود اس کے ہاتھ تک بھی اپنا منہ نہیں پہنچا سکتا کہ اس کو بوسہ دے سکے اس کے برابر ہونا تو بڑی بات ہے۔

114

 دست و پا مریخ چندین خست ازو   وان عُطارَد صد قلم بشکست ازو

ترجمہ: (ستارہ) مریخ نے (اپنے) ہاتھ پاؤں اس کی وجہ سے بہت ہی زخمی کر رکھے ہیں اور اس (ستارہ) عطارد نے اس کی وجہ سے سینکڑوں قلم توڑ ڈالے۔

مطلب: یہ ستارے اس کے لیے اپنی اپنی مخصوص خدمت بجا لانے میں مصروف ہیں مریخ جلادِ فلک کہلاتا ہے اس لیے اس نے اس کی حمایت کے لیے کشت تیغ زنی سے اپنے ہاتھ پاؤں زخمی کر رکھے ہیں۔عطارد کو دبیرِ فلک کہتے ہیں۔وہ اس لیے اس قدر خامہ فرسائی کر رہا ہے کہ سیکنڑوں قلم توڑ ڈالے۔

115

با منجم این ہمہ انجم بجنگ   کائے رہا کردہ تو جان، بگزیدہ رنگ

ترجمہ: یہ تمام ستارے نجومی سے جھگڑ رہے ہیں کہ ارے (یہ کیا حماقت ہے کہ) تو نے (روح یعنی ستارہ بے جہت) کو چھوڑ دیا (اور ہم کو جو بمنزلہ) رنگ میں اختیار کر لیا۔

مطلب: ستارہ ہائے فلک کو رنگ اس لیے کہا کہ یہ ستارے مادی ہیں او رنگ بھی مادہ کے خواص سے ہے اور ستارہ بے جہت جس کا اوپر سے ذکر چلا آتا ہے مادہ اور رنگ سے منزہ ہے آگے جان اور رنگ کی تفسیر فرماتے ہیں:

116

جان وے است و ما ہمہ رنگ و رُقوم  کوکبِ ہر فکرِ او جانِ نجوم

ترجمہ: جان تو وہ ہے اور ہم سب رنگ و نقوش ہیں اس کے ہر فکر کا ستارہ (آسمانی) ستاروں کی جان ہے۔

117

 فکر کُو آنجا ہمہ نورست پاک   بہرِ تُست ایں لفظ فکر  اے فکر ناک

ترجمہ: فکر کہاں وہاں تو سراسر نورِ مقدس ہی ہے۔ اے صاحب فکر! یہ تو محض تمہارے لیے فکر (کہہ دیا) ہے۔

مطلب: فکر کے معنی ہیں کسی غیر معلوم امر کو معلوم کرنے کے لیے معلومات کی ترتیب دینا، ہر چند فکر بایں معنی روح کا فعل ہوتا ہے مگر جس روح کا یہاں ذکر ہے یعنی قوتِ قدسیہ وہ اس کی محتاج نہیں۔ یہاں سے اکیس شعر اوپر اس ستارہ بے جہت کا یوں ذکر تھا۔

زانکہ لاشرقی و لا غربی ست او  با منجم روز و شب حربی ست او 

کہ چرا جز من نجومِ بے ہدٰی  قبلہ کردی از لئیمی و عمٰی

جس میں وہ روحانی ستارہ نجومی سے مخاطب ہے کہ تو مجھ کو چھوڑ کر نجومِ بے ہدٰی پر کیوں مائل ہے اور یہاں یہ نجوم مخاطب ہیں کہ ارے تو اس روح کو چھوڑ کر ہم رنگ و نقوش پر کیوں مر مٹ رہا ہے۔غرض مضمون ایک ہی ہے گو عنوان جداگانہ ہیں آگے پھر اس روحانی ستارے کی تعریف ہے:

118

ہر ستارہ خانہ دارد در عُلا   ہیچ خانہ درنگنجد نجمِ ما

ترجمہ: (آسمان کا) ہر ستارہ بلندی میں (حیزّ و) مکان رکھتا ہے (مگر) ہمارا (یہ روحانی) ستارہ کسی چیز میں نہیں سماتا۔

119

 جانِ بے سُو در مکان کے در رود  نورِ نا محدود را حد کَے بود

ترجمہ: (کیونکہ اس ستارہ سے مراد روح ہے (اور) روح جو کہ بے جہت ہے وہ حیز میں کب جائے گی غیر محدود نور کے لیے حد كب (ممکن) ہے (کیونکہ غیر محدود ہونا مادہ کی صفات سے ہے اور وہ ستارہ مادہ سے پاک ہے)۔

120

 لیک تمثیلے و تصویرے کنند تاکہ دریابد ضعيفِ دردمند

ترجمہ: لیکن(باوجود اس کے جو تشبیہ دی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ) ایک تمثیل اور تصویر (تجویز) کر لیتے ہیں تاکہ کمزور(عقل والا) جو (طلب کا) درد رکھتا ہو (کسی حد تک اس کو) ادراک کر لے۔ 

121

مثل نبود لیک باشد آں مثیل تا کند عقل مجمَّد را گسیل

ترجمہ: پس وہ مشبہ بہ اس روح کا مثل نہیں لیکن مثال (ہوتا) ہے تاکہ (وہ مثال) عقل بستہ کو کشادہ کر دے۔

مطلب: عقلِ متوسط جو اس روحانی ستارہ کے ادراک سے عاجز اور مقید جہل و گرفتارِ حریت ہوتی ہے یوں مثال کے ذریعہ اس کی طرف قدم بڑھانے لگتی ہے۔ 

122

عقل سر تیز ست لیکن پائے سست  زانکہ دل ویران شدست و تن درست

ترجمہ: عقل (یوں تو اپنے زعم میں) چالاک ہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ وہ ادراکِ حقائق میں) سست رفتار ہے اور یہ سستی اس لیے (ہے) کہ قلب (کو مجاہدات کے ذریعہ مصفا و مجلّا نہیں کیا گیا اور وہ) ناکارہ ہو رہا ہے اور بدن اچھی حالت میں ہے۔

مطلب: جس شخص کی ہمت بالکل تزئینِ ظاہر کی طرف مبذول ہو وہ تعمیرِ باطن کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلب پر غفلت و قسوت کی سیاہی چھا جاتی ہے اور عدمِ نورانیت کی وجہ سے اس میں حقائق و معارف منعکس نہیں ہو سکتے۔ جس شخص کے دل کا یہ حال ہے کہ اس کی عقل کو ادراکِ حقائق کی کیا توفیق ہو چنانچہ ان قاسی القلب و سست عقل لوگوں کا یہ حال ہے کہ:

123

عقلِ شان درنقلِ دنیا پیچ پیچ فکرِ شان در ترکِ شہوت ہیچ ہیچ

ترجمہ: ان کی عقل (معاملاتِ) دنیا کے تصرفات میں تو پیچ در پیچ (تدابیر کرتی) ہے اور ان کا فکر خواہشِ نفسانی کے چھوڑنے میں کچھ بھی نہیں (اور اس کا سبب عدم مجاہدہ ہے)۔

124

صدرِ شان در وقتِ دعوٰی ہمچو شرق   صبرِ شان در وقتِ تقویٰ ہمچو برق

ترجمہ: ان کا سینہ دعوٰی (بزرگی) کے وقت آفتاب کی طرح (جگمگانے لگتا) ہے (مگر) پرہیزگاری کے وقت (خواہشِ نفسانی کے خلاف) ان کا صبر بجلی (کی چمک) کی طرح (نا پائیدار) ہے۔

مطلب: اوپر مجملًا کہا تھا کہ عقل بزعمِ خود سر تیز ہے اور فی الحقیقت سست رفتار ہے یہاں اس کی تفصیل فرمائی یعنی اس کے دعوائے ہمہ دانی کے وقت سینہ آفتاب کی طرح پر نور ہو جاتا ہے اور یہ اس کی سر تیزی ہے۔ پھر جب خواہشاتِ نفسانی سے دست بردار ہونے کے لیے صبر سے کام لینا پڑتا ہے تو ناکارہ ثابت ہوتی ہے اور یہ اس کی سست رفتاری ہے یہ شعر مرصع واقع ہوا ہے۔

125

عالمی اندر ہنرہا خُودنما   ہمچو عالم بے وفا وقتِ وفا

ترجمہ: ایک جہان (کا جہان اپنی) خوبیوں میں خود نما (بن رہا) ہے (اور عہدِ الٰہی کے) ایفا کے وقت دنیا کی طرح بے وفا (ثابت ہوتا ہے)۔


126

وقتِ خود بینی نگنجد در جہان   درگلو و معدہ گم گشتہ چُو نان

ترجمہ: وہ خود بینی کے وقت تو جہان میں پھولا نہیں سماتا (اور خود فراموشی کا یہ حال ہے کہ) حلق اور معدہ (کے شغلِ لذت گیری) میں (کچھ اس طرح) گم ہو رہا ہے جیسے روٹی (کہ حلق میں جا کر روپوش اور معدہ میں جا کر بالکل ہی گم ہو جاتی ہے)۔

127

این ہمہ اوصافِ شان نیکو شود بد نماید چونکہ نیکو خُو شود

ترجمہ: ان کے یہ تمام (مذکورہ بُرے) اوصاف (مجاہدہ سے) اچھے بن سکتے ہیں جب وہ نیک خو بن جائے تو پھر وہ (اوصاف) برے نہیں رہتے۔

مطلب: غافل آدمی میں مجاہدہ سے پہلے دنیا پرستی، اتباعِ شہوات، بے صبری، ادعائے ہمہ دانی، خود نمائی، بے وفائی، شوقِ لذات وغیرہ گوناگوں ذمائم موجود ہوتے ہیں جب وہ مجاہدہ سے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو دنیا پرستی زہد سے، اتباعِ شہوات خود داری سے، بے صبری صبر سے۔ دعوے فنا سے۔ خود نمائی تواضع سے۔ بے وفائی وفا سے اور شوقِ لذات استغنا سے بدل جاتا ہے اور وہی برے اوصاف تبدیلی پا کر نیک اخلاق بن جاتے ہیں۔ آگے ایک مثال سے اس کی توضیح فرماتے ہیں:

128

گر منی گندہ بود ہمچون منی  چون بجان پیوست یابد روشنی

ترجمہ: اگرچہ منی تکبر (و غرور) کی طرح ناپاک ہوتی ہے مگر جب روح کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے تو (نورِ حیات) حاصل کر لیتی ہے۔

مطلب: جس طرح منی ایک نجس و متعفن چیز ہونے کے باوجود روح کے اتصال سے زندہ انسان اور پھر موصوف بکمالات و فضائل ہو جاتی ہے اسی طرح رذائل کی گندی صفات مجاہدہ و ریاضت سے محاسنِ اخلاق بن جاتی ہیں۔ آگے اسی قسم کے نظائر مذکور ہیں: 

129

ہر جمادے کو کند رو در نبات  از درختِ بختِ او روید حیات

ترجمہ: جو جماد نباتات (کے ساتھ ملنے کے لیے ان) کی طرف رخ کرتا ہے تو اس کی قسمت کے درخت کو (نباتی) زندگی کا پھل لگتا ہے (جس طرح جمادات مثلًا پانی اور دیگر اجزائے ارضیہ نباتات کی غذا بن کر جزوِ نباتات ہو جاتے ہیں اور نباتی زندگی حاصل کر لیتے ہیں اسی طرح رذائل مبدل بہ فضائل ہو سکتے ہیں)۔ 

130

ہر نبات کو بجان رُو آورد  خضر وار از چشمۂ حیوان خورد

ترجمہ: (پھر) جو نبات روح کی طرف رخ کرتی ہے (اور کسی زندہ مخلوق کی غذا بن جاتی ہے) وہ حضرتِ خضر کی طرح آبِ حیات کے چشمے سے (پانی) پی لیتی ہے۔

مطلب: وہ نبات موصوف بحیاتِ حیوانی ہو جاتی ہے یا تو اس طرح کہ وہ جزوِ حیوان بن گئی اور اس کے اجزا میں بعض موصوف بحیات بھی ہیں تو اس طرح وہ نبات ہی ہو گئی یا اس طرح کہ غذا ہی کے بعض اجزا روحِ حیوانی بنتے ہیں جیسے کہ اطباء نے کہا ہے وہ نبات خود حیوانی بن گئی جس پر حیوان کے ہی ہونے کا مدار ہے۔ (کليد)

131

باز چون جان رو سوئے جانان نہد  رخت را در عمرِ بے پایان نہد

ترجمہ: پھر جب وہ جانِ محبوب حقیقی کی طرف معرفت پیدا کر کے قرب و معیت حاصل کر لیتی ہے تو وہ حیاتِ جاودانی کی مستحق ہو جاتی ہے خلاصۂ مطلب ان اشعار کا یہ ہے کہ جس طرح یہ اشیا ادنٰی درجہ سے اعلٰی رتبہ کی طرف ترقی کر جاتی ہیں اس طرح اوصافِ رذیلہ مجاہدہ سے اخلاقِ فاضلہ بن سکتے ہیں۔

تحقیقِ اہم: مولانا شبلی نعمانی کا خیال ہے کہ مثنوی شریف کے ان اشعار اور اسی قسم کے دیگر اشعار میں مسئلہ ارتقا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ سوانح مولانا روم میں لکھتے ہیں:

”موجوداتِ عالم کی تقسیم چار قسموں میں کی گئی ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات، انسان لیکن ان کے مسئلۂ آفرینش کے متعلق حکما میں اختلافِ رائے ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ چاروں اپنے وجود میں مستقل ہیں۔ یعنی فطرت نے ان کو ابتدا ہی سے اسی صورت پر پیدا کیا ہے دوسرے فریق کا خیال ہے کہ اصل میں صرف ایک چیز تھی۔ وہی ترقی کرتے کرتے اخیر درجہ یعنی انسان تک پہنچی۔ انسان پہلے جماد تھا، پھر نبات، پھر حیوان، پھر انسان۔ یہ مسئلۂ ارتقا خود ان انواع کے ماتحت انواع میں بھی جاری ہے مثلًا فاختہ، قُمری،کبوتر جداگانہ نوعیں نہیں ہیں بلکہ اصل میں ایک ہی پرند تھا جو خارجی اسباب سے مختلف صورتیں بدلتا گیا اور صورت کے انقلاب کے ساتھ سیرت بھی بدلتی گئی اس مسئلہ کا موجد ڈارون خیال کیا جاتا ہے اور در حقیقت ڈارون نے جس تفصیل اور تدقیق سے اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے اس کے لحاظ سے وہی اس کا موجد کہا جاسکتا ہے‘‘۔ مولانا نے اس مسئلہ کو اشعارِ ذیل میں بصراحت لکھا ہے۔

آمدہ اول باقلیمِ جماد وز جمادی در نباتی اوفتاد

 سالہا در نباتی عمر کرد وز جمادی یاد ناورد از نبرد

وز نباتی چون بحیوان اوفتاد نامدش حال نباتی ہیچ یاد 

ہمچنین اقلیم تا اقلیم رفت تا شد اکنون عاقل و دانا و رفت 

(انتہٰی قولِ شبلی)

مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سلمہ اللہ تعالیٰ کلید مثنوی میں فرماتے ہیں ”ان دو نظائر سے مسئلۂ ارتقا و نشو کا زعم جہل ہے ارتقاء متکلم فیہ کا یہاں پتا بھی نہیں اور جو یہاں مذکور ہے اس میں کسی کو کلام ہی نہیں۔ نہ اس کی ہم نفی کرتے ہیں نہ اہل سائنس کو ان کے خاص دعوے میں وہ مفید ہے اگر اس کا نام ارتقا رکھ لیا جائے تو اصطلاح میں ہم نزاع نہ کریں گے بلکہ یوں کہہ دیں گے کہ ارتقا کی دو اقسام ہیں ایک کو ہم مانتے ہیں اور ایک کی نفی کرتے ہیں۔“

مولانا موصوف امداد الفتاوٰی میں شبلی کے اس مضمون کے متعلق جوابًا و خطابًا فرماتے ہیں ”آگے مسئلۂ ارتقا کا استنباط ہے اس میں تو معلوم ہوتا ہے کہ بالکل غور ہی نہیں کیا گیا۔ اس مسئلے کی جو جان ہے کہ اصل میں ایک ہی چیز تھی اس نے ترقی کر کے مختلف صورتیں بدل لیں ان اشعار سے یہ کہاں معلوم ہوا بلکہ اس کی تحقیق کی صورت تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب انسان مستقل مخلوق ہو پھر وہ غذائے حیوانی کھائے جس کا نشوونما نباتات سے ہوا ہے اور وہ عناصر سے حاصل ہوئی ہے۔ پھر اس غذا کا نطفہ بن جائے جو کہ وہ بھی جماد ہے پھر اس میں نشوونما ہو۔ جس سے نبات کہا جائے پھر حرکت پیدا ہو، جس کو حیوانیت کا حکم کر دیا جائے، پھر عقلِ انسان پر قابض ہو جائے، جس سے انسان بن جائے۔ تو اس معنی کو کون دلیل رد کرتی ہے۔ اقل درجہ احتمال تو اس کا بھی ہو گا“ وَ اِذَا جَاءَ الاِحْتَمَالُ بَطَلَ الاِسْتِدْلاَلُ۔“

پیچھے یہ بیان چلا آ رہا ہے جو چیز آپ سے بہتر چیز کی طرف توجہ اور اس کی معیت اختیار کرتی ہے وہ بھی بہتر و برتر بن جاتی ہے جس طرح جمادات نباتات کی معیت سے نباتات بن جاتی ہیں اور نباتات کو حیوانات میں شامل ہونے سے حیوانات کا درجہ مل جاتا ہے اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے: