دفتر پنجم: حکایت: 191
مجرم دانستنِ ایاز دریں شفاعت گری خود را و عذرِ ایں جرم خواستین و در آں عذر خواہی خود را مجرم داشتن و ایں شکستگی از معرفتِ عظمتِ شاہ خیزد و از شناخت او کہ ”اَنَا عَلَّمَکُم وَاَخشَاکُم اللہَ اِنَّمَا یَخشَی اللّٰہَ مِن عِبَادِہ العُلُمآءُ“
ایاز کا اس سفارش کرنے میں اپنے آپ کو مجرم سمجھنا اور اس جرم کا عذر کرنا اور اس عذر خواہی میں اپنے آپ کو مجرم ٹھہرانا اور یہ کسر نفسی بادشاہ کی عظمت کو سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے اور اس کو پہچاننے سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ میں اللہ کو تم سے زیادہ جانتا ہوں اور تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں (اللہ تعالٰی نے فرمایا) اللہ کے اہلِ علم بندے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔
1
من کہ باشم کہ بگویم عفو کناے تو سلطان و خلاصہ امر کن
ترجمہ: (ایاز کہتا ہے) میں کون ہوں جو یہ کہوں کہ معاف کیجئے۔ اے (حضور) آپ سلطان ہیں۔ اور امر کن (فیکون) کے خلاصہ ہیں (معاف کرنا یا نہ کرنا آپ کا کام ہے)۔
2
من کہ باشم کہ بوم من با منتاے گرفتہ جملہ منہا دامنت
ترجمہ: میں کون ہوں جو آپ کی ہستی کے باوجود (موجود) ہوں۔ اے وہ کہ تمام ہستیوں نے آپ کا دامن پکڑ لیا ہے۔
مطلب: من ضمیر واحد متکلم سے مراد اپنی ہستی ہے۔ منت ترکیب اضافی سے ہستی تو مراد ہے اس تمثیل سے مقصود یہ ہے کہ ایک مقربِ حق جو بارگاہِ حق میں شفاعت کر رہا ہے عرض کرتا ہے کہ الٰہی جب تیرے آگے میری کوئی ہستی نہیں تو میں ان لوگوں کو معاف کرنے کا کیا حق رکھتا ہوں بلکہ تمام ہستیاں، تیری ہستی کے آگے فنا اور تیری وحدت میں گم ہیں۔ سعدیؒ ٗ
عجب ست با وجودت کہ وجود من بماندتو بگفتن اندر آئی و مرا سخن بماند
3
من کے آرم رحمِ خلم آلود رارہ نمایم علمِ حلم اندود را
ترجمہ: میں (لوگوں پر) غضب آلود، رحم کیا کروں؟ اس علم کی رہنمائی کیا کروں جو حلم سے آراستہ ہے (میرا رحم غضب آلودہ اور ناقص ہے۔ حق تعالیٰ کا علم کامِل اور حلم سے مزین ہے۔ پس حق کے علم اور حلم کی موجودگی میں میرا لوگوں کے ساتھ حِلم و عفو کا سلوک کرنا فضول ہے)۔
4
صد ہزاراں صفع را ازرانیمگر زبونِ صفعہا گردانیم
ترجمہ: اگر میں ایسی گستاخی کروں تو لاکھوں تھپڑوں کے لائق ہوں۔ بشرطیکہ آپ (یہ چاہیں کہ) مجھے تھپڑوں سے مغلوب کریں (بعض نسخوں میں اوپر کا شعر من کے آرم کے بجائے من کہ آرم الخ لکھا ہے اس صورت میں پہلا شعر مبتدا ہے اور دوسرا شعر اس کی خبر یعنی میں جو ایسی گستاخی کروں کہ اپنا ناقص رحم لوگوں پر مبذول کروں اور آپ کے رحم کی رہنمائی کرنے لگوں تو لاکھوں تھپڑوں کا مستوجب ہوں)۔
5
من کیم تا پیشت اعلامے کنمیا کہ او یادت دہم شرطِ کرم
ترجمہ: میں کون ہوں جو آپ کے حضور میں اطلاع (دینے کی جرات)کروں یا کہ حضور کو شرطِ کرم کی یاد دہانی کراؤں۔
6
آنکہ معلومِ تو نبود چیست آںوانکہ یادت نیست چیست اندر جہاں
ترجمہ: وہ کونسی چیز ہے جو (خود) آپ کو یاد نہیں اور جو آپ کو یاد نہیں وہ جہاں میں ہے ہی کیا؟
7
اے تو پاک از جہل و علمت پاک ازاںکہ فراموشی کند ویرانہاں
ترجمہ: اے حضور آپ بے خبری سے پاک ہیں اور آپ کی آگاہی اس سے پاک ہے کہ فراموشی اس کو دبا دے۔ (خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو ہر چیز کا علم ہے اور کسی چیز کی حکمت آپ سے مخفی نہیں آپ جانتے ہیں کہ مجرم لوگ مستحقِ کرم ہیں اور بزبانِ استعداد مغفرت کر رہے ہیں)۔
8
ہیچ کس را تو کسے انگاشتیہمچو خورشیدے بنور افراشتی
ترجمہ: آپ نے (مجھ جیسے) ایک نالائق کو (لائق) آدمی ٹھہرایا۔ سورج کی طرح اس کو نورِ عرفان سے سرفراز کیا۔
9
چوں کسم کردی اگر لابہ کنممستمع شو لابہ ام را از کرم
ترجمہ: جب حضور نے مجھے (لائق) آدمی بنا دیا تو اگر میں تضرع کروں تو براہِ کرم میری تضرع کو سن لیجئے۔
10
زانکہ از نقشم چو بیروں بردہآں شفاعت ہم تو خود را کردہ
ترجمہ: (کیونکہ جب حضور نے مجھے میرے) نقش (ہستی) سے نکال دیا۔ (اور میں فانی ہو گیا تو میرا قول خود حضور کا قول ہے اس حالت میں مَیں) جو سفارش کر رہا ہوں وہ) سفارش خود حضور کی ہے جو اپنے آپ سے کر رہے ہیں (اس لیے قابلِ سماعت بلکہ واجب القبول ہے)۔
11
چوں ز رختِ من تہی گشت ایں وطنترّ و خشکِ خانہ نبود آنِ من
ترجمہ: جب (میرا) یہ وطن (ہستی) میرے اسباب سے خالی ہو گیا۔ تو گھر کا رطب و یابس میری ملک نہ رہا۔ (یعنی جب میں فانی ہو گیا تو لوازمِ وجود سے مجھے کوئی تعلق نہ رہا)۔
12
ہم دعا از من رواں کردی چو آبہم ثباتش بخش و گرداں مستجاب
ترجمہ: (پس میری اس بیخودی کی حالت میں) آپ ہی نے یہ دعا مجھ سے پانی کی طرح جاری کی ہے (اب) آپ ہی اس کو مؤثر بنائیں اور قبول فرمائیں۔
13
ہم تو بودی اؤل آرندہ دُعاہم تو باش آخر اجابت را رجا
ترجمہ: پہلے آپ ہی نے دعا (مجھ سے) صادر کرائی (اب) آخر میں آپ ہی اس کے قبول ہونے کی امید (دلانے والے) ہیں۔
14
تا زنم من لاف کاں شاہِ جہاںبہرِ بندہ عفو کرد از مجرماں
ترجمہ: تاکہ میں یہ فخر کر سکوں کہ اس فرمانراوئے عالم نے
بندہ کے لئے مجرموں کو معاف کر دیا۔
15
درد بودم سر بسر من خود پسندگرد شاہم داروئے ہر درد مند
ترجمہ: میں خود پسند سراپا درد تھا۔ بادشاہ نے مجھ کو ہر دردمند کی دوا بنا دیا۔
16
دوزخے بودم پُر از شورے و شرےکرد دستِ فضل اویم کوثرے
ترجمہ: میں ایک دوزخ تھا جو شور و شر سے لبریز تھا۔ اس کے دستِ فضل نے مجھے کوثر بنا دیا۔
17
ہر کرا سوزید دوزخ در قَودمن برویانم دگر بار از جسد
ترجمہ: (اب میری خاصیت ہے کہ) جس شخص کو دوزخ (کسی جرم کی) سزا میں پھونک ڈالے ہے (اس کے) جسم سے دوبارہ گوشت پیدا کر دیتا ہوں۔
مطلب: میں پہلے علوم و معارف سے عاری تھا۔ پھر خداوند تعالیٰ نے مجھے اس دولت سے مالا مال کر دیا۔ اب اگر کوئی مرض جہل کا مریض میری طرف رجوع کرتا ہے تو میں اس کو اس مرض سے شفا دلا کر زیورِ علم سے آراستہ کر دیتا ہوں۔ اور آلائشِ معاصی میں جلتے ہوئے میری صحبت میں توبہ و انابت اور اطاعت و عبادت اختیار کر کے صحیح و سالم ہو جاتے ہیں۔
18
کارِ کوثر چیست؟ کہ ہر سوختہگردد از وَے نابت و افروختہ
ترجمہ: کوثر کا کام کیا ہے؟ (یہ ہے) کہ ہر جلا ہوا ازسرِ نو اس سے تندرست اور با رونق ہو جائے۔
19
قطرہ قطرہ او منادیِ کرمکانچہ دوزخ سوخت من بار آورم
ترجمہ: اس کا قطرہ قطرہ کرم کی ندا کر رہا ہے کہ جس (بدن) کو دوزخ نے جلا ڈالا ہے۔ میں اس کو دوبارہ (اصلی حالت پر) لے آؤں گا۔
20
ہمچو مرہم برسرِ زخمِ عفنیُنبِتُ لَحما جَدِیداً خَالِصاً
ترجمہ: جیسے مرہم گندے زخم کے اوپر نیا اور خالص گوشت پیدا کر دیتا ہے۔
21
ہست دوزخ ہمچو سرمائے خزاںہست کوثر چوں بہارِ گلستاں
ترجمہ: دوزخ (کی مثال) خزاں کی سردی کی سی ہے (اور) کوثر باغ کی بہار جیسا ہے۔
22
ہست دوزخ ہمچو مرگ و خاکِ گورہست کوثر بر مثالِ نفخِ صور
ترجمہ: دوزخ موت اور قبر کی مٹی کی سی ہے۔ کوثر نفخِ صور کی مانند ہے۔
23
اے کہ دوزخ سوختہ اجسامِ تاںسوئے کوثر می کشد اکرامِ تاں
ترجمہ: اے (لوگو!) جن کے جسم دوزخ سے جل گئے ہیں (خدا کی) مہربانی تم کو کوثر کی طرف بلا رہی ہے۔
24
چوں خَلَقتُ الخَلقَ کی یَربَح عَلَیّلطفِ تو فرمود اے قیوم حیّ
25
لَا لَانِ اربح عَلَیھمِ جودِ تستکہ شود ز و جملہ ناقصہا درست
ترجمہ: اے خداوند قیوم وحی! جب آپ کی مہربانی نے یہ فرما دیا ہے کہ میں نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھ سے فائدہ اٹھائے۔ نہ اس لیے کہ میں ان سے فائدہ حاصل کروں (اور) آپ کی بخشش (وہ) ہے جس سے تمام ناقص (امور) درست ہو جاتے ہیں۔
26
عفو کن زیں ناقصانِ تن پرستعفو از دریائے عفو اولیٰ ترست
ترجمہ: (تو) ان تن پرست ناقص بندوں کو (ان کا قصور) معاف فرمائیے (حضور عفو کے دریا ہیں اور) دریائے عفو سے عفو (کا صدور) ہی بہتر ہے۔
27
عفوِ خلقاں ہمچو جوتے و ہمچو سیلہم بداں دریا ہمے تازید خیل
ترجمہ: مخلوق کی معافی بھی نہر اور سیلاب کی طرح اسی (دریائے عفو) کی طرح گھوڑا دوڑاتی (چلی جاتی) ہے۔
مطلب: مخلوق میں سے بہت سے رحمدل و کریم النفس بزرگ ایسے ہیں جو خون تک کا دعویٰ معاف کر دیتے ہیں اور شدید ترین ظلم و زیادتی سے درگزر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا عفو حق تعالیٰ کے عفو کے ساتھ سمندر کے ساتھ قطرہ کی بھی نسبت نہیں رکھتا ہے۔ اور ان کا یہ تمام عفو و تسامح حق تعالیٰ ہی کے عفو کا پر تو ہے جو اسی کے عفو سے پیدا ہوا اور اسی کی طرف اس کا رجوع ہے۔ پس حق تعالیٰ تو بطریق اولیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے درگذر اور ان کے حال پر رحم و کرم فرمائے گا۔ آگے عفوِ مخلوق کے عفوِ خالق سے نکلنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے:۔
28
عفو ہا ہر شب ازیں دل پارہاچوں کبوتر سوئے تو آید شہا
ترجمہ: اے بادشاہ (حقیقی) معافیاں ہر شب ان دل کے ٹکڑوں سے کبوتر کی طرح آپ کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ (دل پارہ سے یا تو قلوبِ افراد مراد ہیں۔ یا وہ لوگ مراد ہیں جن کے دل فرطِ ترحم سے پارہ پارہ ہوں)۔
29
باز شاں وقتِ سحر پرّاں کنیتا بشب محبوسِ ایں ابداں کنی
ترجمہ: پھر ان کو صبح کے وقت آپ اڑا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ رات تک ان بدنوں میں مقید رکھتے ہیں۔
30
پر زناں بارِ دگر در وقتِ شاممے پرند از عشقِ آں ایوان و بام
ترجمہ: (پھر) دوبارہ شام کے وقت وہ اس بارگاہِ عالی کے ایوان و محل کے شوق میں پر مارتی ہوئی اڑ جاتی ہیں۔ (یہاں تک عفو کے منجانب اللہ ہونے اور پھر اس کے رجوع الی اللہ کرنے کا ذکر تھا۔ اس سے مولانا کا ذہن ارواح کے رجوع الی اللہ کرنے کی طرف منتقل ہو گیا۔ چنانچہ یہاں سے اسی قسم کا مضمون چلتا ہے)۔
31
تاکہ از تن تارِ وصلت بکسلندپیشِ تو آیند کز تو مقبلند
ترجمہ: حتیٰ کہ وہ (ارواح) جسم سے ملاپ کا تعلق توڑ دیتی ہیں اور حضور کے پاس آ جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ حضور (ہی کی جناب) سے آئی تھیں۔ "کُلُّ شَیء یَرجِعُ اِلیٰ اَصلِہ"۔
32
پر زناں ایمن ز رجعِ سرنگوںدر ہوا کہ اِنّآ اِلَیہِ رَاجعُونَ
ترجمہ: وہ (ارواح) پر مارتی ہوئی واپسی سے بے خطر ہو کر ہوا میں سر جھکائے ہوئے اڑتی ہوئی (اور یہ گیت گاتی ہوئی چلی جاتی ہیں) کہ ہم اسی (مالکِ حقیقی) کی طرف رجوع کرنے والی ہیں۔
33
بانگ مے آید تَعَالوا از کرمبعد ازیں رجعت نماند درد و غم
ترجمہ: (حق تعالیٰ کے) کرم سے آواز آتی ہے کہ چلی آؤ۔ اس واپسی کے بعد درد و غم نہ رہے گا۔
34
بس غریبیہا کشیدید از جہاںقدرِ من دانستہ باشد اے مہاں
ترجمہ: اے شریف لوگو! تم نے دنیا میں بہت سی بے وطنیاں سہی ہیں۔ تم میری قدر سمجھتے رہے (اس لیے بخوشی اس درس گاہ میں آ رہے ہو)۔
35
زیر سایہ ایں درختم مستِ نازہیں بیندازید پاہائے دراز
ترجمہ: (ہاں میرے فضل و کرم کے) اس درخت کے نیچے مستِ ناز ہو کر پاؤں پھیلا دو۔ (اور سو جاؤ۔ ’’نُم کَنومَۃِ العُروسِ‘‘)۔(الحدیث)۔
36
پایہائے پُر عنا از راہِ دینبر کنارِ دست حوراں خالدین
ترجمہ: وہ پاؤں جو دین کے راستے پر مسلسل گرم رفتار رہنے سے بہت تھک گئے (اب) ہمیشہ حوروں کے ہاتھوں اور گودوں میں رہیں گے (اور ان کو دبائیں گی)۔
37
حوریاں گشتہ مغمز مہرباںکز سفر باز آمدند ایں صوفیاں
ترجمہ: حوریں مہربانی سے (پاؤں) دبائیں گی کہ یہ صوفی صاحبان سفر سے (تھکے ماندے) آئے ہیں۔
مطلب: مغمز بضمِ میم اول و کسر میم دوم مشدّد غمز سے مشتق ہے اور غمز کے معنی ہاتھ سے دبانے کے بھی ہیں۔ اور آنکھ سے اشارہ کرنے کے بھی جس سے غمزہ مشہور ہے۔ یہاں دوسرے معنی بھی چسپاں ہو سکتے ہیں۔ یعنی حوریں ایک دوسرے کو آنکھ سے اشارہ کریں گی کہ یہ صوفی صاحبان سفر سے آئے ہیں ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ مگر پہلے معنی زیادہ مناسب مقام ہے۔
38
صوفیانِ صافیاں چوں نُورِ خورمدتے اُفتادہ بر خاک و قذر
ترجمہ: (یہ) صاف دل صوفی (جو) نورِ آفتاب کی طرح (عالی پایہ تھے) مدت تک (دنیا میں) خاک و گندگی پر پڑے رہے۔ (مگر ان کی پاک دامنی کا یہ عالم ہے کہ خاک و گندگی میں رہنے کے باوجود)۔
39
بے اثر پاک از قذر باز آمدندہمچو نورِ خور سوئے قصرِ بلند
ترجمہ: نورِ آفتاب کی طرح دھبے سے محفوظ اور ناپاکی سے پاک (عالمِ عقبیٰ کے) قصرِ بلند کی طرف واپس آئے ہیں۔ (آگے پھر مجرموں کے لیے شفاعت کا مضمون چلتا ہے)۔
40
ایں گروہِ مجرماں ہم اے مجیدجملہ سرہا شاں بدیوارے رسید
ترجمہ: اے بزرگ (بادشاہ) ان مجرموں کی ساری جماعت کے سر بھی (ندامت سے) دیواروں کے ساتھ لگ گئے۔
41
بر خطا و جرمِ خود واقف شدندگرچہ ماتِ کعبتینِ شہ بدند
ترجمہ: یہ لوگ (اب) اپنے جرم اور خطا سے واقف ہو گئے۔ اگرچہ (پہلے) حضور کے داؤ میں آ گئے تھے۔
مطلب: کعبتین سے پانسہ کا کھیل مراد ہے یہاں مقصود یہ ہے کہ سلطان محمود نے ان امراء کے موتی کو توڑنے سے انکار کرنے پر جو ان کی تعریف کی اور انعام عطا کیا تو یہ سلطان کا ایک داؤ تھا جس سے امراء دھوکہ کھا گئے اور اسی دھوکے سے ہر امیر یکے بعد دیگرے موتی کو توڑنے سے انکار کرتا گیا۔ حالانکہ ان کا یہ فعل سلطان کے غضب کا باعث تھا۔ اسی طرح حق تعالیٰ جب کسی بندے پر ناراض ہوتا ہے تو اس کو مال و دولت وغیرہ دنیا کا سامانِ غرور بکثرت دے دیتا ہے۔ بندہ اس کو اپنی اعلیٰ کامیابی و مرادمندی سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ اس کے لیے استدراج ہے اور اس کی نکبت و بدبختی کا باعث ہے اور استدراج انہی لوگوں سے مخصوص ہے جو معاصی و جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود دنیا میں شاد و بامراد ہوں ورنہ جو بندہ ادائے فرائض اور ترکِ معاصی اور پورے تقویٰ و دیانت کے ساتھ متمول و دولتمند ہو اس کا مال و دولت استدراج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔
42
رُو بتو کردند اکنوں آہ کناںاے کہ لطفِ مجرماں را رہ کناں
ترجمہ: اے وہ کہ آپ کا لطف مجرموں کو حصولِ عفو کی طرف راستہ دینے والا ہے۔ اب انہوں نے آہ (و زاری) کرتے ہوئے آپ کی طرف توجہ کی ہے۔
43
راہ دِہ آلودگاں را العجلدر فراتِ عفو و عین مغتسل
ترجمہ: (ان نجاستِ معاصی سے) آلودہ ہونے والوں کو (اپنی) بخشش کے (دریائے) فرات اور نہانے کے چشمے میں راستہ دو اور جلدی دو (اس میں حق تعالیٰ کے اس قول کی طرف تلمیح ہے جو حضرت ایوب علیہ السلام کے لیے ارشاد ہوا ﴿مُغتَسَلُٗ بَارِدُٗ وَّ شَرَابُٗ﴾ یعنی ’’یہ تمہارے نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے‘‘ (چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام اس چشمے سے نہا کر اور پانی پی کر اپنے جسمانی مرض سے شفایاب ہو گئے)۔
44
تاکہ غسل آرند زاں جرمِ درازدر صفِ پاکاں روند اندر نماز
ترجمہ: تاکہ (یہ مجرم لوگ) اس لمبے گناہ کی آلائش سے نہا کر پاک ہو جائیں (اور پھر) پاک لوگوں کی صف کے اندر نماز میں شامل ہو جائیں۔
45
اندریں صفہا ز اندازہ بروںغرقہ گانِ نُور نَحنُ الصَّآفُون
ترجمہ: ان صفوں کے اندر اندازے سے زیادہ لوگ نحن الصافون کے نور میں غرق ہونے والے ہیں اشارہ بآیت ﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ﴾
یعنی فرشتے کہتے ہیں کہ ’’ہم نماز میں صف بستہ ہیں‘‘۔
46
چوں قلم در وصفِ آن حالت رسیدہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید
ترجمہ: جب قلم اس حالت کی تعریف کرنے لگا تو قلم بھی ٹوٹ گیا اور کاغذ بھی پھٹ گیا (یعنی جب شفاعت اور عفو کے اسرار منکشف ہوئے تو ایک عجیب حالت طاری ہو گئی۔ جس نے متوجہ بحق کر دیا)۔
47
بحر را پیمود ہیچ اسکرّہشیر را برداشت ہرگز برّہ
ترجمہ: (مگر اس حالت کا بیان کرنا آسان نہیں جو سمندر کی طرح بے پایاں ہے) بھلا سمندر کو کوئی کوزہ ناپ سکتا ہے؟ (ہر گز نہیں) کیا شیر کو کوئی بکری کا بچہ اٹھا سکتا ہے؟ (ہر گز نہیں)۔
48
گر حجاب استت بروں شو از حجابتا بہ بینی بادشاہیِ عجاب
ترجمہ: اگر (اس حالت کے ادراک سے) تم حجاب میں ہو تو حجاب سے نکلو تاکہ عجیب عالم دیکھو۔
49
گرچہ بشکستند جامت قومِ مستآنکہ مست از تو بود عذریش ہست
ترجمہ: اگرچہ ان مست لوگوں نے آپ کے ( ضابطہ کے) جام کو توڑ ڈالا (لیکن) جو شخص آپ (کی وجہ) سے مست ہو وہ معذور ہے۔
50
مستیِ ایشاں باقبال و بمالنے ز بادہ تست اے نیکو فعال
ترجمہ: اے اچھے کاموں والے (آقا) ان لوگوں کی مستی جو اقبال و دولت سے ہے۔ لیکن آپ ہی کی شراب سے نہیں ہے؟
مطلب: بظاہر یہ سلطان محمود سے ایاز کا خطاب ہے۔ یعنی اے حضور! یہ لوگ اگر مال و دولت کی مستی میں حکم عدولی کے مرتکب ہوئے تو یہ مال و دولت حضور ہی کا بخشا ہوا ہے۔ پس سببِ مستی حضور ہی کی طرف سے پیدا ہوا اس لیے یہ لوگ قابلِ عفو ہیں اور مراد یہ ہے کہ الٰہی مجرم لوگ اگر مرتکبِ جرم ہوئے تو وہ تیری ہی رحمت بیکراں اور عفوِ بے پایاں کے بھروسے پر مرتکب ہو گئے۔ اس لیے قابلِ رحم و مستحقِ عفو ہیں۔
51
اے شہنشہ مستِ تخصیصِ تو اندعفو کن از مستِ خود اے عفو مند
ترجمہ: اے شہنشاہ! یہ لوگ آپ کی عزت افزائی سے مست ہیں۔ اے صاحبِ عفو اپنے مست کو معافی بخشیں۔
52
لذتِ تخصیصِ تو وقتِ خطابآں کند کہ ناید از صد خم شراب
ترجمہ: حضور کی عزت افزائی کی لذت (جو) خطاب کے وقت (حاصل ہوتی ہے) وہ (اثر) کرتی ہے جو شراب کے ایک سو مٹکے سے نہ ہو سکے۔
53
چونکہ مستم کردہ حَدَّم مزنشرع مستاں را نیارد حد زدن
ترجمہ: جب حضور نے مجھ کو (اپنی عنایات کی شراب سے) مست کر دیا ہے تو اب مجھے (شراب نوشی کی) سزا نہ دیجئے۔ شریعت مستوں کو (بحالتِ مستی) سزا نہیں دیتی۔ (فقہ کا مسئلہ ہے کہ شراب نوش کو بحالتِ مستیِ سزا نہ دی جائے بلکہ قید رکھا جائے اور مستی اترنے کے بعد سزا دی جائے۔) (بحر)۔
54
چوں شوم ہشیار انگاہم بزنکہ نخواہم گشت خود ہشیارِ من
ترجمہ: (پس حکمِ شرعہ کے مطابق) جب میں ہشیار ہو جاؤں تو اس وقت مجھے سزا دی جائے (اور پھر امید ہے کہ میں سزا سے بچ ہی جاؤں گا) کیونکہ میں اپنے آپ سے ہشیار ہونے والا نہیں۔
55
ہر کہ از جامِ تو خورد اے ذوالمننتا ابد رست از ہُش و از حد زدن
ترجمہ: (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) جو شخص آپ (کی شراب) کا پیالہ پی لیتا ہے۔ اے صاحبِ احسانات وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوش میں آنے اور سزا پانے سے چھوٹ جاتا ہے۔
56
خَالِدِینَ فِی فَنَآءِ السُّکرِھِممَن یُّفَانِی فِی ھَواکُم لَم یَّقُم
ترجمہ: (بحالیکہ) وہ لوگ فنائے مستی میں ہمیش رہتے ہیں (اور) جو شخص حضور کی محبت میں فنا ہو گیا وہ (دوبارہ) قائم (بہ بقا) نہیں ہوتا (کہ الفانی لَایُرَد مُسلّم ہے)۔
57
فضلِ تو گوید دلِ ما را کہ رواے شدے در دوغِ عشقِ ما گرو
ترجمہ: آپ کا فضل (و کرم) ہمارے دل کو (اکسانے کے لیے) کہتا ہے کہ ارے جا بھائی! تو ہمارے عشق کی لسّی میں ہی پڑا رہا۔
58
چوں مگس در دوغِ ما افتادہتو نہ مست اے مگس تو بادہ
ترجمہ: تو مکھی کی طرح ہماری (بناوٹی محبت کی) لسی میں پڑا ہے۔ اے مکھی! تو مست نہیں (بلکہ) دھوکے میں ہے۔ (بادہ بمعنی شراب بادیہ سے مشتق ہے جس کے معنی غرور کے ہیں۔ اور ہا نسبت کے لیے ہے۔ چونکہ شراب نوشی باعثِ غرور ہے۔ اس لیے یہ نام پڑ گیا۔ اس بناء پر یہاں بادہ بمعنی مغرور یعنی دھوکہ کھانے والا استعمال ہوا ہے۔ واللہ اعلم)۔
59
کرگساں مستِ تو گردند اے مگسچونکہ بحرِ عسل رانی فرس
ترجمہ: اے مکھی! جب تو (ہمارے محبت کے) دریائے عسل پر سواری چلائے تو (پھر تجھ میں وہ کیفیت آ جائے گی کہ) گِدھ (بھی) تیرے مست ہو جائیں گے (عشقِ الہٰی کا اثر ایک کمزور انسان میں بھی وہ طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ کہ پھر وہ اپنے سے قوی اشخاص پر بھی تصرف کر سکتا ہے)۔
60
کوہہا چوں ذرّہا سر مستِ تونقطہ و پرکار و خط در دستِ تو
ترجمہ: پھر پہاڑ بھی ذرّوں کی طرح تیرے فریفتہ ہوں گے نقطہ اور پر کار اور خط تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔
مطلب: اگر اس شعر کا مضمون ماسبق کے ساتھ مربوط ہو تو یہ مطلب ہوگا کہ پھر تم میں وہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ تمام کائنات تمہارے زیرِ تصرف ہوگی۔ صاحب منہج نے یہاں سے حق تعالیٰ کے ساتھ خطاب شروع کیا ہے۔ یعنی الٰہی تمام پہاڑ تیرے سرمست اور تمام موجودات تیرے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ان کے نزدیک نقطہ سے قطب، پرکار سے آسمان اور خطوط سے عام مخلوق مراد ہے۔
61
فتنہ کہ لرزند ازاں لرزانِ تُستہر گراں قیمت گہر، ارزانِ تست
ترجمہ: (پھر تو) وہ فتنہ جس سے (لوگ) کانپتے ہیں (خود) تجھ سے کانپنے لگے گا۔ ہر گراں قیمت موتی تیرے آگے ارزاں ہوگا۔
62
گر خدا دادے مرا پانصد دہاںگفتمے شرحِ تو اے جانِ جہاں
ترجمہ: اگر خدا مجھے پانسو زبانیں دیتا تو میں اے جانِ جہان! تیری (صفاتِ عالیہ کی) تفصیل بیان کرتا۔ کماقیلٗ
اگر ہر موئے من گردد زبانےز تو رانم بہر یک داستانے
63
یک زباں دارم من آنہم منکسردر خجالت از تو اے دانائے سر
ترجمہ: (مگر) اے واقفِ اسرار (تعالیٰ شانہ) میں صرف ایک زبان رکھتا ہوں (اور) وہ بھی تجھ سے خجل ہو کر ٹوٹ رہی ہے (پھر تیری حمد کا حق کیا ادا کر سکتا ہوں۔ مگر میں چونکہ تیرا مداح ہوں۔ اس لیے پھر بھی کچھ کم نہیں چنانچہ)۔
64
منکسر تر خود نباشم از عدمکز دہانش آمدستند ایں امم
ترجمہ: میں عدم سے تو زیادہ ٹوٹا ہوا (اور ناقص) نہیں ہوں۔ جس کے مُنہ سے یہ (انسانی) جماعتیں پیدا ہوئی ہیں۔
65
صد ہزار آثارِ غیبی منتظراز عدم بیروں جہد با لطف و بر
ترجمہ: لاکھوں غیبی آثار جو (وجود میں آنے کے) منتظر ہیں (کمال) خوبی و عمدگی کے ساتھ عدم سے نکل پڑتے ہیں (جب عدم میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے اس قدر مخلوق پیدا ہو جاتی ہے تو میں تو آخر وجود رکھتا ہوں پھر مجھ سے تیری مدح و ثنا کا ظہور کیوں نہ ہو)۔
66
از تقاضائے تو میگردد سرماے بُمردہ من بپائے آں کرم
ترجمہ: اے (وہ کہ جس کے) اس کرم کے (سایہ کے) نیچے میں جان دے چکا ہوں۔ تیری ہی تحریک سے (حمد و ثنا کے لیے) میرا سر چکرا رہا ہے۔
67
رغبتِ ما از تقاضائے تو استجذبہ حق است ہر جا و ہر وا ست
ترجمہ: ہمارا (حمد و ثناء کی طرف) راغب ہونا تیری ہی تحریک سے ہے۔ جہاں کوئی کسی بھی نیک کام کی طرف چلنے والا ہے حق تعالیٰ کا جذبہ ہی (اس کو لے جا رہا) ہے۔ ﴿مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّی عَلىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾
68
خاکِ بے بادے ببالا کے جہد؟کشتیے بے یم روانہ چوں شود؟
ترجمہ: (بھلا) غبار ہوا کے بدون بلندی پر کیونکر جائے؟ کشتی دریا کے بغیر کیونکر چلے؟ (بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں درج ہے کشتے بے بحر پا در دہ نہد۔ گو معنی درست ہو جاتے ہیں۔ مگر حرفِ استفہام مقدر ہونے کا نقص ضرور ہے)۔
69
پیشِ آبِ زندگانی کس نمردپیشِ آبت آبِ حیوان ست درد
ترجمہ: (چشہ) آب حیات کے سامنے (پہنچ کر) کوئی نہیں مرا (اور) تیرے آب (کرم) کے سامنے آب حیات گدلا پانی ہے (جب آبِ حیات کے پینے سے مرتا مرتا آدمی زندہ ہو جاتا ہے تو تیرا آبِ کرم جو آبِ حیات سے بمدارج افضل ہے مجھ کو تر زبان کر کے تیری حمد میں رطب اللسان کیوں نہ بنائے)۔
70
آبِ حیوان قبلہ جاں، دوستاںزاب باشد سبز و خنداں بوستاں
ترجمہ: اے دوستو! آبِ حیوان جان (کی سلامتی) کے لیے مقصود ہے۔ (جس طرح) باغ پانی سے سرسبز و شگفتہ ہوتا ہے۔
71
مرگ آشاماں ز عشقت زندہ انددل ز جان و آب جاں برکندہ اند
ترجمہ: (مگر) موت (کا گھونٹ خوشگوار سمجھ کر) پی جانے والے (عاشق لوگ) ترے عشق سے زندہ ہیں۔ وہ جان سے اور جان کے (سلامت رکھنے والے) پانی (یعنی آبِ حیات) سے دل برداشتہ ہیں۔ نظامیؒ ٗ
تا سر دارم سرِ تو دارمجاں پیشکشِ درِ تو دارم
سر بے تو بدو بسر درآیدجاں یا تو بود ز تن برآید
از جانِ خودت جدا ندارمجاں بے تو من ایں روا ندارم
72
آبِ عشقِ تو چو ما را دست دادآبِ حیواں شد بہ پیشِ ماکساد
ترجمہ: جب سے تیرے عشق کا آبِ حیات ہم کو حاصل ہوا تو آبِ حیات ہمارے سامنے مندا پڑ گیا۔ ٗ
مدہ تا توانی دریں جنگ پشتکہ زندہ است سعدی چو عشقش بکشت
ہر آں کسے دریں حلقہ ہست زندہ عشقبرادِ چو مردہ بفتوائے من نماز کنید
(حافظؒ ٗ)
73
زابِ حیواں ہست ہر جاں را نویلیک آبِ آبِ حیوانی توئی
ترجمہ: ہر جان کو آبِ حیات سے تازگی (حاصل ہو جاتی) ہے۔ لیکن آب حیات کی تازگی تجھ سے ہے۔ (اس لیے موت و ہلاک سے مجھے کوئی خطرہ نہیں)۔
74
ہر دمے مرگے و حشرے دادئیمتا بدیدم دستبردِ آں کرم
ترجمہ: تونے ہر لمحہ مجھ کو موت اور دوبارہ زندگی بخشی۔ حتیٰ کہ مجھے اس کرم کا غلبہ معلوم ہو گیا۔
مطلب: ہر لمحہ مجھ کو موت اور زندگی حاصل ہونے سے مراد یہ ہے کہ مجھے ہر لمحہ ایسی حالت طاری ہوتی رہتی ہے کہ میں موت کا آنا اور پھر دوبارہ زندہ ہونا مشاہدہ کرتا ہوں یا اس سے تجددِ امثال مراد ہے۔ یعنی میرا وجود ہر لمحہ جو معدوم و موجود ہوتا رہتا ہے۔ تو اس سے موت و زندگی کا نقشہ میرے زیرِ نظر رہتا ہے۔ یا اس سے یہ مراد ہے کہ میں رات سو جانے اور صبح کو جاگنے میں مرنے اور زندہ ہونے کا نمونہ دیکھتا ہوں۔ اس صورت میں ہر دمے سے ہر روزے مراد ہوگا۔ بہر کیف اس مشاہدہ اور احساس سے مجھے تیرے کرم کا بخوبی علم ہو گیا اور مجھے مرنے اور ہلاک ہونے کا مطلق خوف و خطرہ نہیں رہا۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کرے گا۔ و نعم قال سید اکبر حسین الہ آبادیؒ ٗ
موت سے ڈرنا بشر کا اک خیالِ خام ہےاصل فطرت میں فقط آرام ہی آرام ہے
75
ہمچو خفتن گشت ایں مُردن مراز اعتمادِ بعث کردن اے خدا
ترجمہ: خدایا یہ مرنا دوبارہ زندہ ہونے کے بھروسے پر میرے نزدیک سو جانے کی مانند ہے (اور تو مردہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے)۔
76
ہفت دریا ہر دم ار گردد سرابگوش گیری آوریش اے آب آب
ترجمہ: اگر ساتوں سمندر ہر دم ریت بنتے رہیں۔ تو اے پانی کی رونق (پیدا کرنے والے) تو ان کو (دوبارہ) کان سے پکڑ کر (اصلی حالت پر) لے آئے۔
77
عقل ترساں از اجل واں عشق شوخسنگ کے ترسد ز باراں چوں کلوخ
ترجمہ: عقل موت سے ڈرتی ہے اور عشق بے باک ہے (وہ موت سے نہیں ڈرتا چنانچہ) پتھر بارش سے ڈھیلے کی طرح کب ڈرتا ہے؟ صائبٗ
عارفاں تجلی و تو از بے جگریدر پس پردہ ہستی چو زناں مے لرزی
نیست پروائے عدم عاشق جاں باختہ رااز قفس مرغ بہر جا کہ رود بستان ست
(وقیل)
(اب تمام مباحث کو ختم کر کے مولانا اس دفتر پنجم کے خاتمہ پر فرماتے ہیں)۔
78
از صحافِ مثنوی ایں پنجم ستدر بروجِ چرخ جاں چوں انجم ست
ترجمہ: مثنوی کے دفتروں میں سے یہ پانچواں (دفتر)ہے جو فلکِ روح کے برجوں میں بمنزلہ کواکب ہے۔ (یعنی جس طرح ستاروں کے ذریعہ راہ رو سیدھی راہ پر چلتا ہے۔ اسی طرح اس دفتر کی رہنمائی سے لوگ حق سبحانہ کی طرف راستہ پاتے ہیں)۔
79
راہ نیابد از ستارہ ہر حواسجز کہ کشتی بان و ستاره شناس
ترجمہ: (مگر) سوائے کشتی بان اور ستارہ شناس کے ہر (شخص کے) حواس ستارہ کے ذریعہ راستہ نہیں پاتے۔ (اس کتاب کے مضامین وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو صاحبِ صلاحیت اور فرض شناس ہو۔ ہر کس و ناکس ان سے آگاہ نہیں ہو سکتا)۔
80
جز نظاره نیست قسمِ دیگراںاز سعودش غافلند و از قِراں
ترجمہ: دوسرے لوگوں کا حصہ سوائے (ظاہری) مشاہدہ کے (اور کچھ) نہیں۔ وہ ان میں سے مبارک ستاروں اور ان کے قران سے غافل ہیں (سعود اور قِران نجوم کی اصطلاحات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عام لوگ مثنوی سے صرف قصص کا لطف اٹھا سکتے ہیں ان معارف کو نہیں سمجھتے جو اس میں مضمر ہیں)۔
81
آشنائی گیر شبہا تا بروزبا چنیں استارہائے دیو سوز
ترجمہ: راتوں کو دن تک ایسے شیطان کو پھونک ڈالنے والے ستاروں کے ساتھ آشنا ہو۔ (مثنوی کے ان مضامین کے ساتھ دلچسپی پیدا کرو جو اصلاحِ باطن اور کسرِ نفس کے لیے مفید ہیں)۔
82
ہر یکے در دفعِ دیوِ بدگماںہست نفط انداز قلعہ آسماں
ترجمہ: (ان ستاروں میں سے) ہر ایک (ستارہ) بدگمان (وسواس انگیز نفس و) شیطان کے دفع کرنے میں قلعہ آسمان سے آتشگیر روغن گرانے والا ہے۔
مطلب: نفط ایک آتش گیر روغن ہوتا تھا جس کو جنگ میں دشمن پر گراتے تھے تو ان میں آگ لگ جاتی تھی۔ آج کل یہ اس مٹی کے تیل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور موجودہ طریقِ جنگ کے لحاظ سے نفط اندازی کا ترجمہ بم گرانا خوب ہوگا۔ یہاں اس سے شہابِ ثاقب مراد ہے یعنی وہ ٹوٹنے والا ستارہ جو شیطان کے جا لگتا ہے اور اس سے مقصود مثنوی کے وہ مضامین ہیں جن کا پڑھنا اور سمجھنا نفس و شیطان کی شر کو دفع کرتا ہے۔ آگے یہ بیان فرماتے ہیں کہ مثنوی کے مضامین اگرچہ شیطان سیرت لوگوں کو بوجہ حسد نا پسند اور ناگوار ہوں مگر اہلِ صلاحیت کے لیے از بس مفید و سودمند ہیں اور اس بات کو بمناسبتِ مقام ستاروں اور برجوں کے اشارات میں بیان کریں گے۔
83
اختر ار با دیو ہمچوں عقرب استمشتری را اوّلی اقرب است
ترجمہ: (یہ) ستارہ اگرچہ شیطان کے لیے بچھو کی طرح (نیشن زن) ہے (مگر اپنے) خریدار و قدردان کے حق میں وہ سب سے زیادہ قریبی تعلق دار ہے (عقرب ایک برج کا اور مشتری ایک ستارہ کا نام ہے)۔
84
قوس گر از تیر دوزد دیو رادَلو پُر آب ست زرع و میو را
ترجمہ: (اس کتاب کا برج) قوس اگر شیطان کو تیر سے بیندھ ڈالتا ہے۔ تو وہ (قدردانوں کی) کھیتی اور پھلوں کے لیے پانی سے لبریز ڈول (بھی) ہے (تیر ستارہ عطارد کا نام۔ دلو ایک برج ہے۔ میو مخفف میوہ کا)۔
85
حوت گر چہ کشتیِ غے بشکنددوست را چوں ثور کشتے میکند
ترجمہ: (اس کتاب کا برج) حوت اگر (شیطانی) سرکشی توڑ ڈالتا ہے تو دوست کے لیے بیل کی طرح کھیتی (باڑی بھی تیار) کر دیتا ہے۔
مطلب: حُوت کے معنی مچھلی۔ بڑی مچھلی ٹکر مارے تو کشتی کو پاش پاش کر دے۔ ثور ایک برج کا نام ہے جو بیل کی شکل کا ہے اور ثور کے معنی بیل کے ہیں۔ بیل ظاہراً بھی کھیتی کے کام آتا ہے اور قواعدِ نجوم میں سرسبزی زراعت اور شگفتگیِ شگوفہ اور پختگیِ اثمار کو برج ثَور کی تاثیرات سے سمجھا گیا۔ بعض نسخوں میں پہلے مصرعہ کے لفظ غے کی بجائے دے درج ہے جو موسمِ خزاں کو کہتے ہیں۔ پھر ترجمہ یوں ہوگا کہ حوت اگرچہ موسم خزاں کو زائل کر دیتا ہے۔ الخ۔ آفتاب جب برج حوت میں آتا ہے تو اس وقت سے خزاں کا موسم زائل ہونے لگتا ہے۔
86
شمس اگر شب را بدرّد چوں اسدلعل را زو خلعت و اطلس رسد
ترجمہ: آفتاب اگرچہ رات (کی تاریکی) کو شیر (کے شکار کو پھاڑ ڈالنے) کی طرح چاک کر دیتا ہے۔ تاہم لعل کو اس سے (رنگینی کا) لباس اور (درخشندگی کی) اطلس ملتی ہے۔
مطلب: اسد بمعنی شیر ایک برج ہے کہتے ہیں کہ آفتاب کی تپش کسی خاص قسم کے پتھر پر پڑتی ہے تو اس سے لعل پیدا ہو جاتا ہے۔ اطلس ایک قسم کا ریشمی کپڑا مراد پوشاک۔ مطلب یہ کہ اگرچہ اس کتاب کے مضامین گمراہی کے اندھیرے کا دامن چاک کر دیتے ہیں۔ مگر قلوب کو منور بھی کرتے ہیں۔
87
صورتِ خرچنگ اگرچہ کجرو استہیتِ میزاں از و بیروں شو است
ترجمہ: کیکڑے کی شکل اگرچہ کجرو ہے مگر میزان کی صورت اس سے الگ رہو کا اشارہ کرتی اور راستی پر آمادہ کرتی ہے۔
مطلب: خرچنگ ایک آبی جانور ہے جس کو عربی میں سرطان اور ہندی میں کیکڑا کہتے ہیں۔ سرطان ایک برج کا نام ہے اس کجرو بدیں لحاظ کہا کہ وہ معدل النہار سے دور واقع ہوا ہے۔ میزان بھی ایک برج کا نام ہے۔ اس کو راستی سے بدیں اعتبار منسوب کیا ہے کہ میزان یعنی ترازو کا کام صحیح وزن بتانا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس کتاب کے بعض مضامین پیچیدہ اور فہمِ عوام سے دور واقع ہوئے ہیں تو اکثر مضامین عام فہم اور سبق آموز بھی ہیں۔
88
پیشہ مریخ اگر خونریزی استاو زبونِ شارقِ تبریزی ست
ترجمہ: ستارہ مریخ کا پیشہ اگر خونریزی ہے تو وہ مشرق کے چمکیلے (آفتاب) سے مغلوب (بھی) ہے (جس کے آگے اس کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے)۔
مطلب: مریخ ایک ستارہ ہے جس کے ساتھ قتل و ٖغارت منسوب ہے۔ اس لیے اس کو نحسِ اصغر بھی کہتے ہیں اور بہرام فلک بھی شارق کے معنی درخشاں و تاباں کے ہیں مراد اس سے آفتاب ہے۔ تبریز ایک شہر کا نام ہے جو آذربائیجان میں واقع ہے۔ چونکہ یہ ملک روم سے بسمتِ مشرق واقع ہے۔ اس لیے مولانا نے مشرقی مفہوم کے لیے تبریزی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کے مرشد حضرت شمس تبریزی رحمہ اللہ بھی تبریز کے رہنے والے تھے جو اسماً بھی آفتاب اور معناً بھی بلحاظ اپنی ضیا پاشی کے آفتاب تھے اس لیے مولانا کی زبان سے آفتاب کے لیے مشرقی کے بجائے تبریزی کا لفظ ادا ہونا زیادہ خوشگوار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اس کتاب کے دقیق مضامین سے سطحی الخیال لوگوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے مگر مرشد کامل کی نظرِ فیض اثر سے وہ اندیشہ چنداں قوی نہیں رہا۔ آگے فرماتے ہیں کہ مضر و مفید پہلو ہر چیز میں ہوتے ہیں۔ اگر مثنوی میں بھی ہوں تو محلِ تعجب کیا ہے۔ ﴿يُضِلُّ بِهٖ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهٖ كَثِيرًا﴾
89
گرچہ در تاثیرِ نحس آمد زحلدِقَّتِ فکر آید از وے درعمل
ترجمہ: اگرچہ زحل (ستارہ) تاثیر میں منحوس ہے۔ مگر اس سے معاملات میں فکر کی گہرائی پیدا ہوتی ہے (کہتے ہیں کہ جس شخص کے طالع میں زحل واقع ہے اگرچہ وہ موردِ نحوست ہو مگر ذکی وذہین ہوتا ہے)۔
90
ہر وجودے کز عدم بنمود سربر یکے زہر ست و بر دیگر شکر
ترجمہ: ہر ایک چیز جو عدم سے ظاہر ہوئی (اس کا یہ حال ہے کہ) ایک کے لیے وہ زہر ہے اور دوسرے کے لیے شکر۔
91
ماہم از مہر ار دو کف برہم زندزہرہ نبود زُہرہ را تا دم زند
ترجمہ: (مثلاً دیکھیے) میرا ماہِ (وجود) آفتاب (کے فیضانِ انوار) سے (خوشی کے ساتھ) تالیاں بجا رہا ہے۔ مگر زہرہ کو یہ تاب نہیں کہ دم مارے۔
مطلب: چاند سورج کی روشنی سے درخشاں ہوتا ہے۔ مگر دوسرے ستارے زہرہ وغیرہ اس کے آگے ماند پڑ جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ میں اپنے مرشد کامل کے فیضان سے انوار معرفت کے ساتھ ماہ چہار دہم کی طرح درخشاں ہو گیا۔ مگر دنی الفطرت لوگ اُن سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ کاملین میں دونوں طرح کے اثر موجود ہوتے ہیں۔ بس یہی مثنوی کا حال ہے۔
92
بل عطارد خانہ خود گم کندو ز جنونِ او جوزِ جوزا بشکند
ترجمہ: (اور ایک زہرہ ہی نہیں) بلکہ عطارد بھی اپنا گھر بھول جاتا ہے اور دیوانگی سے وہ برج جوزا کی کمر توڑ دیتا ہے (جوز ہر چیز کے وسط کو کہتے ہیں۔ اس لیے یہاں کمر مناسب ہے)۔
93
مشتری را دست لرزد دل طپدبر سرِ آب اوفتد مہ چوں سبد
ترجمہ: (ستارہ) مشتری کے ہاتھ کانپتے ہیں، دل دھڑکتا ہے۔ چاند ٹوکرے کی طرح پانی (کی سطح) پر پڑا ہے۔ (چاند رات کو سورج کی شعاع سے منور ہے تو دن کو وہ اس کے آگے ماند ہے)۔
94
نسر طائر را بریزد پر ز شرمو ز طمع تنّیں شود چوں موم نرم
ترجمہ: نسر طائر (یعنی اڑتے گدھ) کے پر مارے شرم کے جھڑ جاتے ہیں اور تنین (یعنی اژدہا سلامتی کی) حرص سے موم کی طرح نرم ہوا جاتا ہے۔
95
دختران نعش آبستن شوندمجتمع گردند و دستک زن شوند
ترجمہ: بنات النعش حاملہ ہو جاتی ہیں اکٹھی ہو کر تالیاں بجانے لگتی ہیں (آگے مولانا کا کوئی حریف ان کو ٹوکتا ہے):۔
96
در گذر زیں رمزہا بیگاہ شدکہکشاں از سُنبلہ پُرکاہ شد
ترجمہ: ان اشارات کو چھوڑو، بھت وقت ہو گیا۔ کہکشاں سنبلہ کے بھوکے سے بھر گئی۔ (یعنی ستارے اِدھر سے اُدھر چلے گئے رات بہت گزر گئی)۔
97
آفتاب از کوہ سرزد اِتَّقُولیک تلخ آمد ترا ایں گفتگو
ترجمہ: سورج پہاڑ (کے پیچھے) سے بلند ہونے لگا ہے (اب اس گفتگو کو) بند کرو (مولاناؒ اس کا جواب دیتے ہیں کہ رات گزر جانے اور سورج کے نکل آنے کا تو مضائقہ نہیں) لیکن تم کو یہ گفتگو ناگوار گزرتی ہے (اس لیے تم روکتے ہو)۔
98
تو عدوئی و ز عدُو شہد و لبنبے تکلف زہر گردد در دہن
99
دوست شو و ز خوے نا خوش شو بریتا ز خمرہ زہر ہم حلویٰ خوری
ترجمہ: (پس) تم کو لازم ہے کہ اس کے دوست بن جاؤ اور بری خصلت چھوڑ دو تاکہ زہر کے پیالے سے بھی حلوہ کھاؤ۔ ٗ
انہی لوگوں کو ہے آرام اور سکھجو رہتے ہیں ہمیشہ شاد، ہنس مکھ
وہ مٹی سے بناتے کیمیا ہیںوہ لیتے زہر سے کارِ دوا ہیں
100
زاں نشُد فاروق را زہرے گزندکہ بُد از تریاق فاروقیش قند
ترجمہ: اسی لیے تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے زہر مضر نہ ہوا۔ کہ وہ ان کے فاروقی (اخلاق کے) تریاق کی بدولت قند (بن گیا) تھا۔
مطلب: تریاق فاروق ایک اعلیٰ قسم کے قیمتی و کمیاب تریاق کا نام ہے۔ جو ہر قسم کے زہروں کا اثر دور کرنے کے لیے بے مثال دوا تسلیم کی گئی ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے ذکر کی مناسبت سے یہ نام پُرلطف ہے۔ شرحِ بحر العلوم میں بعض کتب سے منقول ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے پاس کسی بادشاہ نے تین تحفے بھیجے۔ ایک اعلیٰ قسم کا باز، دوسرا ایک بیش قیمت گھوڑا، تیسرا کسی قدر زہر جو کسی دشمن پر پھینکا جائے تو وہ اس کے اثر سے فوراً ہلاک ہو جائے۔ آپ نے باز کو اسی وقت چھوڑ دیا کہ پرندے کو قید رکھنا فضول ہے۔ گھوڑا واپس بھیج دیا کہ سامانِ فخر کی ہم کو ضرورت نہیں اور زہر کو گھول کر پی گئے اور فرمایا میرا سب سے زیادہ دشمن نفس ہے۔ میں اسی کو ہلاک کرنا پسند کرتا ہوں مگر آپ کو اس زہر سے کوئی نقصان نہ پہنچا۔
101
ہیں بجو تریاقِ فاروق اے غلام!۔تاشوی فاروقِ دوراں و السّلام
ترجمہ: ہاں اے عزیز! (فاروقی اخلاق کے) تریاق فاروق کو طلب کرو تاکہ تم (اخلاقِ سیئہ کے زہر سے بچنے میں) زمانے کے فاروق بن جاؤ اور (ہمارا) سلام ہے۔
قَد تَمَّ شرحَ الدَّفتَرُ الخَامِسُ من المثنوی تَغَمِدُاللّٰہ صَاحَبَہ بِلُطفِہِ الخَفِیِ وَقتَ الظُّھرِ لِرَابِعَ عَشَرَ مِنَ الرَّجَبِ المُرَجَّب سنہ خمسَ و خَمسِینَ و ثَلٰثمِائۃ بعد الالف من الھجرۃ النبویہ من صَاحبھا السلام و التحیۃ