دفتر 5 حکایت 190: معنی ’’لَاضَیْرَ‘‘ (کے بیان) میں اور فرعون کے جادوگروں کا خطاب سزا یابی کے وقت فرعون کے ساتھ ’’کچھ مضائقہ نہیں کہ ہم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کے جانا ہے

دفتر پنجم: حکایت: 190


در معنی ’’لَاضَیْرَ‘‘ و خطاب سحرہ فرعون با فرعون در وقتِ سیاست کہ ﴿لَاضَیرَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا مُنقَلِبُون۔

معنی ’’لَاضَیْرَ‘‘ (کے بیان) میں اور فرعون کے جادوگروں کا خطاب سزا یابی کے وقت فرعون کے ساتھ ’’کچھ مضائقہ نہیں کہ ہم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کے جانا ہے‘‘

مطلب: یہ اُن ساحروں کا قول ہے جو فرعون کے حکم سے حضرت موسٰی علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے آئے تھے۔ اور آخر مغلوب ہو کر حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے ساحروں کے ایمان لانے پر ان کو سزائے موت کی دھمکی دی تو انہوں نے اس کے جواب میں یہ کلمات کہے تھے۔


1

نعرہ لَا ضَیرَ بشنید آسمان چرخ گوئے شد پئے آن صولجان

ترجمہ: آسمان نے (جادوگروں کے منہ سے) ’’لَاضَیْرَ‘‘ کا نعرہ سن لیا۔ آسمان اس بلے کے لیے گیند بن گیا۔ (یعنی آسمان کی حرکت اس نعرہ کی تابع ہو گئی)۔ یا آسمان اس نعرہ کے اثر سے بےقرار (ہو گیا)۔


2

ضربتِ فرعون ما را نیست ضیر لطفِ حق غالب بود بر قہرِ غیر

ترجمہ: فرعون کی مار ہم کو مُضرّ نہیں۔ خدا کی مہربانی غیر کے قہر پر غالب ہوتی ہے۔


3

گر بدانی سرِّ ما را اے مُضِلّ مے رہانی مان ز رنج اے کور دل

ترجمہ: اے گمراہ کرنے والے! اگر تو ہمارے راز کو سمجھ لیتا۔ تو اے کور دل! ہم کو (اس) دکھ سے چھڑا دیتا۔

مطلب: راز سے ان کی مراد یہ ہے کہ ہم کو جذبۂ الٰہیہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اب ہم کو اس کی راہ میں جو اذیّت اور تکلیف پہنچے اس کی پروا نہیں۔ فرعون اس راز سے آگاہ ہو کر ان کو اس لیے چھوڑ دیتا کہ اس پر ان کی حقانیت ظاہر ہو جاتی اور ان کا احترام کرتا۔ یا اس لیے کہ جب دیکھتا کہ یہ لوگ کسی اذیّت و عذاب سے متاثر نہیں ہوتے تو سمجھتا کہ ان کو عذاب دینا فضول ہے۔


4

ہیں بیا ایں سو ببیں کاں ارغنون میزند یَالَیتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ

ترجمہ: ہاں ہاں! ادھر آ کر دیکھ کہ یہ با جا ﴿یَالَیتَ قَومِی یَعلَمُونَ۔۔۔﴾ کے سر الاپ رہا ہے۔

مطلب: یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان حواریوں کے قصّے کی طرف اشارہ ہے جو شہر انطاکیہ کی طرف وہاں بُت پرست لوگوں کی ہدایت کے لیے گئے تھے۔ سورۃ یسٰین کے آغاز میں یہ قصہ آیا ہے اور اسی جلد میں پیچھے مفصل درج ہو چکا ہے۔ ﴿یَالَیتَ قَومِی یَعلَمُونَ۔۔۔﴾ کے معنی ہیں: کاش! میری قوم کو معلوم ہوتا (کہ میں کیسی اچھی حالت میں ہوں)۔


5

داد ما را فضلِ حق فرعونئے نے چنیں فرعونئے بے عونئے

ترجمہ: حق تعالیٰ کے فضل نے ہم کو فرعونی (یعنی بادشاہی) بخشی ہے، نہ کہ (تیری طرح) ایسی فرعونی جو مددِ (الہٰی) سے محروم ہے۔ (یعنی ہماری بادشاہی باطنی و ابدی اور لازوال ہے اور تیری بادشاہی ظاہری و فانی اور زوال پزیر ہے)۔


6

سر برآر و ملک بیں زندہ و جلیل اے شدہ غرّہ بمُلکِ مصر و نیل

ترجمہ: (ذرا) سر اٹھا اور (ہماری) زندہ و عالیشاں بادشاہی دیکھ اے مصر کی بادشاہی اور (دریائے) نیل پر مغرور ہونے والے! (فرعون فخراً کہتا تھا: ﴿یَا قَوْمِ اَلَیسَ لِی مُلکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الاَنھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ…﴾ یہ اسی کی طرف اشارہ ہے)۔


7

گر تو ترکِ ایں نجس خرقه کُنی نیل را در نیل جاں غرق کنی

ترجمہ: اگر تو (دنیاوی بادشاہی کے) اس (حیض آلودہ) ناپاک چھیچڑے سے دست بردار ہو جائے (اور متوجہ بباطن ہو جائے) تو (اس دریائے) نیل کو (اپنی) روح کے (بےپایاں) دریا میں غرق کر دے۔


8

ہیں بر آر از مصر اَئے فرعون دست درمیانِ مصر جاں صد مصر ہست

ترجمہ: ہاں اے فرعون! مصر سے دستبردار ہو جا۔ روح کے مصر میں سو مصر (موجود) ہیں۔


9

تو اَنَا رَبُّ ہمے گوئی بعام غافل از ماہیّتِ ایں ہر دو نام

ترجمہ: تو عام لوگوں کو ’’اَنَا رَبُّ‘‘ (یعنی میں پروردگار ہوں) کہتا ہے، حالانکہ تو ان دونوں ناموں کی ماہیّت سے بے خبر ہے۔

مطلب: فرعون لوگوں سے کہتا تھا: ’’اَنَا رَبُّکُم الاَعَلٰی‘‘ یعنی میں تمہارا پروردگارِ بزرگ تر ہوں۔ مگر نہ تو اس کو کلمہ ’’اَنَا‘‘ کی ماہیت معلوم تھی نہ وہ رب کی ذات و صفات سے آگاہ تھا۔ چنانچہ اس کی ان دونوں لفظوں کے متعلق عدمِ آگاہی کا ثبوت یہ ہے کہ۔

10

ربّ بر مربوب کے لرزاں بود کے انا داں بندِ جسم و جاں بود

ترجمہ: پروردگار (اپنی مخلوق) زیرِ پرورش پر کب لرزہ براندام ہوتا ہے ’’اَنَا‘‘ کو جاننے والا کب جسم و جان کا پابند ہوتا ہے۔

مطلب: پروردگار کو اختیارِ مطلق ہوتا ہے کہ اپنی مخلوق کو جس طرح چاہے رکھے پرورش کرے۔ رزق دے یا نہ دے، مارے یا جِلائے۔ وہ کسی بات میں مُضْطَرّ و مجبور نہیں۔ بخلاف اس کے فرعون کو کبھی اپنی حکومت کے جاتے رہنے کا اندیشہ ڈرا رہا ہے۔ اور کبھی اپنی قوم کی تباہی کا خوف ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ اس نے رب کا مفہوم سمجھے بدون اپنے لیے یہ قلب اختیار کر لیا ہے۔ ’’اَنَا رَبُّکُم الاَعلیٰ‘‘ کا دعویٰ اگر وہ اس معنی میں کرتا کہ ’’اَنَا‘‘ یعنی میں کہنے میں اس کی مشار الیہ ذات رب ہوتی اور پھر اس کے لیے صفتِ ربوبیت ثابت کرتا۔ جس میں اپنی بشریتِ متعینہ قطعاً ملحوظ نہ ہوتی تو پھر اس کا یہ قول صحیح تھا، مگر اس بھلے مانس کو ’’اَنَا‘‘ کے یہ لطیف اور متصوفانہ معنی کہاں معلوم تھے۔ اس نے جو صاف یہی سمجھ کر کہا کہ میں بایں تن و توش اور فلاں ابن فلاں رب ہوں۔ پس جو شخص اپنی شخصیتِ متعینہ سے جو جسم و جان پر مشتمل ہے قطع نظر نہ کر سکے۔ وہ ’’اَنَا‘‘ کے لفظ کو اس صحیح اور لطیف معنی میں کہاں ادا کر سکتا ہے؟ اور جو بندہ حق مثال منصُور بن حلاج ’’اَنَا‘‘ کا لفظ اس مفہوم میں بولتا ہے اس کو اپنے جسم و روح کی کیا پروا؟


11

نک انا ماییم رسته از انا از انائے پُر بلائے پُر عنا

ترجمہ: دیکھو (حسین بن منصور کی طرح) ہم (بھی) ’’اَنَا‘‘ (بمعنی مذکور کہتے) ہیں (اور تمہاری سی) ’’اَنَا‘‘ سے (جس میں اپنی ذاتِ مُتعیّن ملحوظ ہے) چھوٹ گئے۔ ایسی ’’اَنَا‘‘ سے (چھوٹ گئے) جو (خُودبینی کی) بلا اور (قہرِ حق کی) مصیبت سے پُر ہے۔

12

آں انائے بر تو اے سگ شوم بود در حقِ ما دولتِ محتوم بود

ترجمہ: اے کتے! وہ انانیت تیرے لیے منحوس تھی۔ ہمارے حق میں یقینی دولت تھی۔

مطلب: کیونکہ فرعون اپنی بشریت سے فانی نہ ہوا تھا اور جادوگر بشریت سے فنا ہو چکے تھے اس لیے ان کی بشریت دولتِ جاوید بن گئی۔ جس طرح حسین بن منصور کا اظہارِ انانیت فنائے بشریت کے ساتھ دولتِ جاوید تھی۔ صاحبِ منہج نے شیخ رکن الدین علاء الدولہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نے حسین بن منصور حلّاج کی قبر کی زیارت کی اور وہاں مُرَاقَبَہ کیا تو میں نے ان کی کو اعلیٰ علیین میں دیکھا۔ بس میں نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی کہ اے پروردگار! یہ کیا راز ہے کہ فرعون نے ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ‘‘ کہا اور حسین نے ’’اَنَاالْحَقُّ‘‘ کہا۔ دونوں نے ایک ہی دعویٰ کیا، مگر حسین کی روح اعلیٰ علیین میں ہے اور فرعون سجیین میں؟ تو میرے کان میں یہ ندا آئی کہ فرعون نے اَنَانِیَّت اور کِبر اختیار کیا اور اس اِدِّعَا میں خاص اپنے آپ کو دیکھا اور ہم کو بھلا دیا۔ اور حسین نے ہم کو دیکھا اور اپنے آپ کو بھلا دیا۔ اس لیے تم ان دونوں میں فرقِ کثیر دیکھ رہے ہو۔


13

گر نبودیت ایں انائے کینہ کش کے زدے بر ما چنیں اقبالِ خوش

ترجمہ: اگر یہ کینہ نکالنے والا ’’اَنَا‘‘ تجھ میں نہ ہوتا تو ایسا اچھا اقبال ہم کو کب نصیب ہوتا؟

مطلب: فرعون نے دینِ حق کی عداوت میں ساحروں کو دُکھ دیا۔ اور ساحروں نے راہِ خدا میں صبر کیا تو یہ درجہ پایا۔ اگر فرعون ان کو دُکھ نہ دیتا اور ان کو صبر و استقلال سے کام لینے کی ضرورت نہ پڑتی تو یہ درجہ ان کو کہاں ملتا؟


14

شکر آں کز دار فانی مے رہیم برسرِ ایں دار پندت می دهیم

ترجمہ: اس بات کا شکر ہے کہ (دنیا کے) اس مقامِ فنا سے  ہم چھوٹ رے ہیں- ہم تجھ کو اس دار پر چڑھتے وقت نصیحت کر رہے ہیں ( کہ مقامِ فنا میں تیرا غرور فضول ہے)۔


15

دار قتلِ مابراقِ رحلت ست دارِ ملکِ تو غرور و غفلت ست

ترجمہ: ہمارے قتل کی سولی کوچ کی سواری ہے۔ تیرا دَارُالْمُلْک غرور و غفلت (کا سامان) ہے۔


16

ایں حیاتے خفیہ در نقشِ ممات واں مماتے خفیہ در قشرِ حیات

ترجمہ: (ہمارا) یہ (کوچ) ایک زندگی (ابدی) ہے جو موت کی صورت میں مخفی ہے اور (تیرا) دَارُالْمُلْک ایک موت ہے جو زندگی کے پوست میں پنہاں ہے۔


17

مے نماید نور نار، و نار نور ور نہ دنیا کے بُدے دَارُ الْغُرُوْر

ترجمہ: (دنیا میں) ’’نور‘‘ آگ نظر آتا ہے اور آگ ’’نور‘‘ (دکھائی دیتی ہے) ورنہ دنیا کب دھوکے کا مقام ہوتی؟

مطلب: دنیا دھوکے کا مقام ہے۔ یہاں شیطان کے اِغوا سے انسان نیک اعمال کو باعثِ رنج و مصیبت اور بُرے افعال کو سرمایۂ لذت پاتا ہے۔ طاعتِ حق کو موجبِ حِرمان و خُسران اور معصیتِ حق کو باعثِ فوز و فلاح سمجھتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی اور ہر معاملہ اپنی حقیقت میں نظر آتا تو پھر دنیا کو دَارُ الْغُرُوْر کیوں کہتے؟ (یہاں تک ساحروں کا فرعون سے خطاب تھا۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:)


18

ہیں بکُن تعجیل اول نیست شو چوں غروب آری برآر از شرق ضو

ترجمہ: اے ہے (تم بھی کہیں ’’اَنَا الْحَقُّ‘‘ کہنے میں) جلدی نہ کرنا۔ پہلے فنا ہو جاؤ۔ (تب جا کر وہ مقام حاصل ہوگا) جب تم (اپنی ہستی کے آفتاب پر فَنَا فِی اللہ کا) غروب طاری کروگے۔ تو پھر (بَقَا بِاللہ کے) مشرق سے درخشاں ہو جاؤ گے۔


19

زان انائے در ازل دل تنگ شد زین انا دل بیخود و جاں دنگ شد

ترجمہ: اس (فرعونی) ’’اَنَا‘‘ سے ازل میں دل تنگ تھا (اور) اس (فنائے ہستی کی) ’’اَنَا‘‘ سے دل بےخود اور جان مست ہو گئی (جو ’’اَنَاالرَّبُّ‘‘ فنائے بشریت کے بدون کہا جائے، وہ روزِ ازل سے ناپسند و غیر محمود قرار پا چکا ہے۔ دل تنگ کے لفظ میں کسی خاص ہستی کا دل تنگ ہونا مراد نہیں، بلکہ مطلق ناپسندیدگی مراد ہے۔)

20

از انا چوں رست شد اکنوں انا آفریں بر آں انائے بے عنا

ترجمہ: صاحب! (دل اور جان اس بقائے بشریت کی) ’’اَنَا‘‘ سے چھوٹ گئے تو اب (مقامِ فنا کی) ’’انَا‘‘ (کے مصداق) ہو گئے۔ اس بے رنج ’’اَنَا‘‘ پر آفرین ہے۔


21

زاں انائے بے عنا خوش گشت جاں شد جہاں او زاں انائے ایں جہاں

ترجمہ: جان اس بے رنج ’’اَنَا‘‘ سے خوش ہو گئی۔ وہ اس دنیا کی (بشریت آمیز) انا سے کنارہ گیر ہو گئی۔

مطلب: جو ’’اَنَا‘‘ فنائے بشریت کے بعد ہو اس کو ’’بے عنا‘‘ اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ اس میں اَلْوَاثِ بشریت کی زحمت نہیں۔ بعض نسخوں میں ’’انائے بے اَنَا‘‘ لکھا ہے۔ یہ بھی درست ہے۔ یعنی وہ ’’اَنَا‘‘ جو بشریت کی ’’اَنَا‘‘ سے مُعَرّا ہے۔ ’’شُدِ جہاں‘‘ میں ’’جہاں‘‘ ’’جہیدن‘‘ سے اسم فاعل ہے۔


22

او گریزاں وَانَا اندر پئیش میدَود چوں دید وے را بے وَیش

ترجمہ: وہ (جان فَانِیْ فِی اللہ) بھاگ رہی ہے۔ اور (بشریت کی) ’’اَنَا‘‘ اس کے پیچھے(تعاقُب کرتی ہوئی) دوڑتی ہے جبکہ اس کو اپنی ہستی سے خالی دیکھتی ہے (بے ویش یعنی بے وے۔ او را)


23

طالبِ اوئی، نگردد طالبت چوں بمردی طالبت شد مطلبت

ترجمہ: (جب تک) تم اس (انائے بشریت) کے طالب ہو وہ تمہاری طالب نہیں ہوتی (بلکہ تم سے مستغنی رہتی ہے، پھر) جب تم مقامِ فنا کو پہنچ گئے تو (وہ) تمہارا مطلوب (خود) تمہارا طالب بن گیا۔ (آگے بشریت کے قیام میں طالب ہونے اور فنائے بشریت کے مقام میں مطلوب ہونے کی ایک مثال دیتے ہیں:)

24

زندہ کے مُردہ شود شوید تُرا طالبی کے مطلبت جوید تُرا

ترجمہ: (جب تک) تم زندہ ہو تو مردہ کو غسل دینے والا (تمہارا طالب کب ہوتا ہے اور) تم کو کب غسل دیتا ہے؟ (ہاں! مرجاؤگے تو غسّال تمہارا طالب ہو جائے گا۔ ورنہ تم خود غسّال کے طالب ہو اور) جب تک تم طالب ہو مطلوب تم کو کب تلاش کرتا ہے؟ (آگے ’’اَنَا‘‘ کی اس بحث کی دقّت و باریکی کے متعلق فرماتے ہیں:)


25

اندریں بحث ار خرد ره بیں بدے فخرِ رازی راز دارِ دیں بدے

ترجمہ: (اَنَا کی) اس بحث میں اگر عقل راستے کو دیکھنے والی ہوتی تو امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ (جو عقلیات کے ماہر تھے) دین کے راز دار ہوتے۔

26

لیک چوں من لم یذُق لم یَدر بود عقل و تخیّلاتِ او حیرت فزود

ترجمہ: لیکن جب یہ (اصول صحیح) تھا کہ جس کو (اس مقام کا) ذوق نہیں وہ (ان احوال کو) نہیں سمجھتا (اس لیے) ان کی عقل اور خیال آفرینیوں نے (لوگوں کو مطمئن کرنے کے بجائے ان کی) پریشانی زیادہ کر دی۔

مطلب: معاملاتِ الٰہیہ بتانے اور سمجھانے سے سمجھ میں نہیں آ سکتے، بلکہ ذوق و وِجْدان سے ان کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ذوق و وِجْدان نہ ہونے کے باوجود محض عقلی دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی جائے تو اس کے شکوک و شبہات زائل ہونے کے بجائے اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مولانا بحرالعلوم فرماتے ہیں کہ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ علومِ عقلیہ کلامیہ میں کمال رکھتے تھے حتٰی کہ دوسرے متکلّمین نے ان کو امام تسلیم کیا ہے اگرچہ وہ دین دار اور صالح بزرگ تھے، لیکن مطالبِ دینیہ کو دلائلِ عقلیہ سے ثابت کرتے تھے۔ کشفِ اسرار کا درجہ ان کو حاصل نہ تھا اور انظارِ عقلیہ کے دلائل اِدراکِ اسرار سے قاصر ہیں۔ نہ وہ وحی انبیاء علیہم السلام کی طرف اس طرح القائے سمع کرتے تھے کہ کسی پہلو سے عقل کو اکثر آیاتِ تشبیہ کی تاویل کر کے ان کو تنزیہِ مجرّد کی طرف راجع کیا ہے۔ چنانچہ ان کی تفسیر کبیر اس پر شاہد ہے ان کا علم اگرچہ کتاب و سنت سے ماخوذ ہے۔ مگر وہ ان کے انظارِ عقلیہ و فکریہ کہ حکم کے مطابق اور تنزیہِ مجرّد پر مشتمل ہے۔ اس بارے میں شیخ اکبر قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی تاویل کے مطابق کتاب و سنت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی تاویل پر ایمان رکھتا ہے، نہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے اخبار پر۔ جو شخص اسرارِ دینیہ میں جن کے اِدراک سے عقل قاصر ہے، انظار فکریہ عقلیہ کا تابع ہو وہ دین کا راز دار نہیں ہو سکتا۔ پس مولانا فرماتے ہیں کہ اگر عقل راہ بین ہوتی تو امام ممدوح دین کے راز دار ہوتے کیونکہ ان کی عقل کامل تھی۔ مولانا نے یہاں ان کی دینداری و تقویٰ کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ ان کے علمِ اسرار اور راز داری کا انکار کیا ہے۔ پس وہ عارفین، محدّثین اور مجتہدین جو کتاب و سنت کا اتباع بوجہ کمال کرتے تھے، اور نظر فکری کے ساتھ تاویل کرنے سے کلی پرہیز رکھتے تھے۔ خصوصاً مجتہدین حضرات راز دارِ دین ہیں ان کا حشر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوگا۔ اور ان کا انجام بے خطر ہے (انتہیٰ)۔ بعض بزرگوں سے راقم نے سنا ہے کہ مثنوی کے اس قسم کے اشعار کو جن میں امام فخر الدین رازی پر جرح کی گئی ہے الحاقی سمجھنا اس سے زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ مولانا روم کے ساتھ منسوب ہوں اور یہ ماننا پڑے کہ مولانا جیسے پاک نفس بزرگ نے ایک امام عالی مقام کو نا ملائم الفاظ سے یاد فرمایا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔


27

کے شود کشف از تفکّر ایں اَنَا ایں اَنَا مکشوف شد بعد الفنا

ترجمہ: یہ ’’اَنَا‘‘ دلائل فکریہ سے کب منکشف ہوتا ہے؟ یہ ’’اَنَا‘‘ تو فنا کے بعد منکشف ہوا ہے۔


28

مے فتد ایں عقلها در افتقاد در مغا کیّ حلول و اتحاد

ترجمہ: یہ عقلیں (اگر ذوقِ وِجدان یا کشف کی) تہی دستی میں (’’اَنَا‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو) حلول و اِتّحاد کے گڑھے میں جا گرتی ہیں۔

مطلب: حلول کے معنی ہیں: ایک چیز کا دوسری چیز کے اندر داخل ہو جانا، اتر جانا، سما جانا، اور اِتِّحاد کے معنی دو متغائر چیزوں کا محو ہو جانا۔ اگر کوئی شخص مقامِ فنا حاصل کئے بدون ’’اَنَا‘‘ کی ماہیت سمجھنے کی کوشش کرنے لگے تو چونکہ اس کو کشفِ صریح اور وِجدانِ صحیح حاصل نہیں اس لیے جب وہ تسلیم کرے گا کہ ’’اَنَا‘‘ کا لفظ بندے کی زبان سے نکلا اور اس کا متکلّم حق تعالیٰ ہے تو اس عقدہ کا حل اس کے نزدیک یہ ہوگا کہ معاذَ اللہ! حق تعالیٰ اس بندے میں حلول کر کے ’’اَنَا‘‘ کا لفظ بول رہا ہے، یا بندہ اور خالق میں اتّحاد ہو گیا کہ جب بندہ بولتا ہے تو وہ حق کا کلام ہوتا ہے۔ ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذَ الظَّنِّ الْفَاسِدِ وَ الْجَھْلِ الْکَاسِدِ‘‘ اور یہ سارا سوءِ عقیدہ ’’فنا کا مقام‘‘ حاصل کئے بدون ان مشکل مسائل میں غور و فکر کرنے سے پیدا ہوا۔( آگے سلطان کا خطاب ایاز سے ہے:-)


29

اے ایازِ گشتہ فانی ز اقتراب همچو اختر در شعاعِ آفتاب

ترجمہ: اے ایاز! تم جو (مقامِ) قُرب کی بدولت فانی ہو چکے ہو۔ جیسے کہ ستارہ آفتاب کی شُعاع میں (فنا ہو جاتا ہے)۔


30

بلکہ چوں نطفہ مبدّل تو بتن نز حلول و اتّحادِ مفتتن

ترجمہ: بلکہ تم (عاداتِ نفسانیہ سے صفاتِ رحمانیہ میں) اس طرح مبدل ہو چکے ہو جس طرح نطفہ جسم میں (مبدل ہو جاتا ہے) نہ کہ حلول و اتّحاد سے جو (عقائد میں) فتنہ انگیز ہیں۔


31

عفو کن اے عفو در صندوقِ تو سابقِ لطفی و ما مسبوقِ تو

ترجمہ: تم (ہم سے معافی کی سفارش کیا کرتے ہو خود ہی) معاف کر دو۔ اے وہ کہ تمہارے صندوق میں عفو (بھری پڑی) ہے۔ تم مہربانی میں سبقت لے گئے اور ہم تم سے پیچھے ہیں۔

مطلب: اس بات کی تمثیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی مقرّب کو جو لوگوں کی آمرزش کے لیے شفاعت کرتا ہے، اختیار بخشتا ہے کہ تم ہی ان لوگوں کے گناہ بخش دو۔ تم کو جو کچھ منظور ہے ہم کو بھی منظور ہے۔