دفتر 5 حکایت 189: بادشاہ کا امیروں کو قتل کرنے کا ارادہ کرنا اور ایاز کا ان کی (جان بخشی کے لیے) سفارش کرنا

دفتر پنجم: حکایت: 189


قصد کردنِ شاہ بقتلِ امیران و شفاعت کردنِ ایاز

بادشاہ کا امیروں کو قتل کرنے کا ارادہ کرنا اور ایاز کا ان کی (جان بخشی کے لیے) سفارش کرنا


1

پس ایازِ مهر افزا برجهید پیش تختِ آں اُلُغ سلطاں دوید

ترجمہ: تو ایاز محبت بڑھانے والا اٹھا (اور) اس سلطانِ اعظم کے تخت کے آگے دوڑا گیا۔


2

سجده کرد و پس گلوئے خود گرفت کاے قبادے کز تو چرخ آرد شگفت

ترجمہ: (بادشاہ کے آگے) سر جُھکایا اور پھر اپنا گلا پکڑا (اور عرض کیا) کے اے بادشاہ! جس سے آسمان تعجّب میں ہے۔

مطلب: سجدہ سے تعظیمی سر جھکانا مراد ہے۔ سجدہ بمعنی اصطلاحی مراد نہیں۔ کیونکہ سلطان محمود جیسے دیندار بادشاہ کے دربار میں ایسا عمل غیر متوقع ہے۔ ایاز نے اس وقت اپنا گلا جو پکڑا تو اس زمانے میں سفارش کرتے ہوئے یا بإلحاح و عجز کچھ عرض کرتے وقت ایسا کرنے کا رواج ہوگا۔ ’’قباد‘‘ نو شیرواں کے باپ کا نام ہے۔ پھر ہر سلطان ذی شان کو ’’قباد‘‘ کہنے لگے۔ یہاں یہی مراد ہے۔ آسمان کو تعجّب یہ ہے کہ کائنات میں مجھ سے بلند کوئی ہستی نہ تھی، یہ بادشاہ مجھ سے بھی بلند رُتبہ ہے۔


3

اے ہمائے کہ ہمایاں فرخی از تو دارند و سخاوت ہر سخی

ترجمہ: اے وہ ہما! کہ تمام ہما آپ سے برکت حاصل کرتے ہیں اور ہر سخی، سخاوت (آپ سے) پاتا ہے۔


4

اے کریمے کہ کر مہائے جہاں محو گردد پیشِ ایثارت نہاں

ترجمہ: اے وہ کریم! کہ جہاں بھر کے کرم۔ تیرے مخفی فضل کے آگے محو ہو جاتے ہیں۔

مطلب: یہ اس معاملہ کی تمثیل ہے کہ جاہل و بے تمیز لوگ احکام الٰہیہ میں گستاخی و حکم عُدُولِیْ کے مرتکب ہو کر مُسْتَوْجِبِ عذاب ہوتے ہیں تو انبیاء و اولیاء بار گاہِ حق میں ان کی خطا بخشی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ پس یہ ایک ظاہری تمثیل ہے، ورنہ یہاں معاملہ خَلْق با خَلْق مراد ہے۔ یہاں اور اس سے آگے فضل و کرم اور عَفْوُ و غُفْرَان کا ذکر اس پیرایہ میں آیا ہے جو حق تعالیٰ سے مخصوص ہے۔


5

اے لطیفے کہ گُلِ سرخت چو دید از خجالت پیرهن را بر درید

ترجمہ: اے صاحبِ لطف! کہ جب آپ کو گلِ سرخ نے دیکھا تو خجالت سے (اپنا) پیراہن چاک کر لیا۔


6

از غفوریِ تو غفران چشم سیر روبہاں بر شیر از عدلِ تو چیر

ترجمہ: آپ کی آمرزگاہ سے آمرزش کو سیر چشمی حاصل ہے۔ لومڑیاں آپ کے عدل سے شیر پر غالب ہیں۔


7

غیر عَفوِ تو کرا دارد سند ہر کہ با امرِ تو بیباکی کند

ترجمہ: جو شخص آپ کے حکم پر بیباکی کرے (جب اس کو سزا ملنے لگے تو) وہ آپ ہی کی بخشش کے سوا کس پر بھروسہ رکھتا ہے۔


8

غفلت و گستاخیِ ایں مجرماں از وفورِ عفوِ تست اے عفوراں

ترجمہ: اے معانی بخشنے والے! ان مجرموں کی گستاخی اور غفلت آپ کی عفو کی بہتات سے ہے۔ (آگے مولانا کا مقولہ چلتا ہے)۔


9

دائما غفلت ز گستاخی دمد کہ برد تعظیم از دیدہ رمد

ترجمہ: ہمیشہ غفلت گستاخی سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ آشوبِ چشم (سے آنکھوں کی بصارت کا کم ہو جانا) آنکھوں سے تعظیم کم کر دیتا ہے۔

مطلب: جب آنکھوں سے کوئی قابلِ تعظیم ہستی نظر ہی نہ آئے تو دل میں اس کی تعظیم کیونکر پیدا ہو۔ جب تعظیم نہ ہو تو گستاخی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور گستاخی میں اس ہَستی سے بالکل بے پروائی و بے اعتنائی ہو جاتی ہے۔


10

غفلت و نسیانِ بد آموخته زاتشِ تعظیم گردد سوختہ

ترجمہ: بُری قسم کی غفلت و فراموشی جس کی عادت ہو جائے۔ وہ تعظیم کی آگ سے نابود ہو جاتی ہے۔


11

هیبتش بیداری و فطنت دہد سہو و نسیاں از دلت بیروں جہد

ترجمہ: (خداوند تعالیٰ کا) رُعب بیداری و ہوشیاری پیدا کرتا ہے (اس کے اثر سے) تمہارے دل سے سہو و نسیان نکل جاتا ہے۔ (مثلاً)۔

12

وقتِ غَارت خواب ناید خلق را تا نہ بر باید کسے زو دلق را

ترجمہ: لوٹ مچنے کے وقت لوگوں کو نیند نہیں آتی تاکہ کوئی اس کی گدڑی چھین نہ لے جائے۔


13

خواب چوں بر مے رمد از بیمِ دلق خواب و نسیاں کے بود یا بیم حلق

ترجمہ: جب (ایک) گدڑی کے خوف سے نیند اڑ جاتی ہے تو گلے (کے کٹ جانے) کے خوف کے ساتھ نیند اور فراموشی کب ہو۔


14

لَاتَواخِذان نَسِینَا شد گواه کہ بود نسیاں بوجہے ہم گناہ

ترجمہ: (یہ آیت کہ الٰہی) ’’ہم کو مواخذہ نہ کر‘‘ اگر ہم بھول جائیں۔ اس بات کی گواہ ہے کہ نسیان بھی ایک طرح سے گناہ ہے۔

مطلب: اشارہ بآیت: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ’’اے ہمارے پروردگار ہم پر مواخذہ نہ کر۔ اگر ہم بھول جائیں یا خطا کریں‘‘ (البقرۃ: آیت: 4) نسیان کا ارتکاب ان حالات میں گناہ ہے۔ جب بندہ عمداً ترکِ احتیاط اور عَدَمِ مشیّت سے کام لے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ سے یہ گناہ ساقط فرما دیا ہے جس پر یہ حدیث شاہد ہے کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنِ الْخَطَاءِ وَالنِّسْیَانِ وَمَا ذَاکَرَ ھُوَ عَلَیْہِ‘‘ یعنی "اللہ نے خطا و نسیان سے اوراس بات سے کہ جس پر مجبور کئے جائیں تجاوز فرمایا"۔ نیز واضح رہے کہ نسیان وہاں گناہ ہے جہاں احتیاط واجب ہو اور اسے ترک کیا جائے، لیکن جہاں احتیاط واجب نہ ہو یا واجب ہو اور ترک نہ کی جائے۔ وہاں نسیان کا گناہ وقوع نہیں ہوتا۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے بھی نسیان کا وقوع ہوا ہے۔ حالانکہ وہ گناہ سے معصوم ہیں۔ نیز آیت سے یہ پایا جاتا ہے کہ نسیان میں فی الجملہ گناہ ہے۔ نہ کہ تمام افرادِ انسان میں۔ (بحر)۔


15

زانکه استکمالِ تعظیم او نکرد ورنہ نسیاں ور نیاوردے نبرد

ترجمہ: کیونکہ اس (مرتکبِ نسیان) نے اس کی تعظیم پوری طرح نہ کی۔ ورنہ نسیان کوئی آفت نہ لاتی۔


16

گرچہ نسیاں لابُد و ناچار بود در سبب در زیدن او مختار بود

ترجمہ: اگرچہ نسیان لازمۂ بشریت ہے۔ اس لیے وہ ناگزیر ہے اور اس سے چارہ نہیں لیکن (نسیان کا) سبب احتیاط کرنے میں وہ مختار ہے (اس لیے نسیان گناہ ہے)۔


17

کو تہاؤن کرد در تعظیم ها تاکہ زاں نسیاں شد و سہو و خطا

ترجمہ: کیونکہ اس نے (خود) تعظیموں (کے بجا لانے) میں سُستی کی حتّی کہ اس سے نِسْیَان اور سہو اور خطا (واقع) ہوئی (تعظیم کی بجا آوری میں احکام کی پابندی کا خیال رہتا ہے۔ جب تعظیم کا خیال نہ رہے تو احکام کی بجا آوری میں غلطی ہونے لگتی ہے۔ (آگے سببِ غفلت اختیار کرنے کی مثال ارشاد ہے)۔

18

ہمچو مستے کو خرابیها کند گوید او معذور بودم من ز خود


19

گویدش لیکن سبب اے زشتکار از تُو بُد در رفتنِ آں اختیار

ترجمہ: جیسے کوئی (شراب کا) بدمست جو (ضرب و زنا و قتل وغیرہ) خرابیاں کرے (اور) وہ (مواخذاہ کے وقت) کہے میں اپنے (مسلوب الاختیار ہونے) سے معذور تھا تو (حاکم) اس کو کہے گا۔ لیکن اے بدکام! اس اختیار کے جاتے رہنے کا سبب تیری طرف سے (واقع ہوا) تھا۔ (کہ خود شراب پی لی)۔


20

بے خودی نامد بخود، تش خواندہ اختیار از خود نشد، تُش راندہ

ترجمہ: بے خودی آپ نہیں آئی، تو نے اسے بلایا ہے۔ اختیار آپ سے آپ نہیں گیا تو نے اس کو زائل کیا ہے۔

21

گر رسیدے مستئے بے جہدِ تو حفظ کردے ساقیِ جاں عہدِ تو

ترجمہ: اگر تیری کوشش کے بغیر (منجانب اللہ) مستی وارد ہوتی۔ تو روح کا ساقی تیرے عہد کو نباہتا۔

مطلب: یہاں مستِ حق کا ذکر مقصود ہے کہ مشاہدۂ حق میں استغراق اور اپنی ہستی سے غیب واقع ہونے کے باعث اس سے تکلیفِ احکام مرتفع ہو جاتی ہے۔ (بحر)۔


22

پشت دارت او بُدے و غدر خواہ من غلامِ ذلّتِ مستِ الہ

ترجمہ: وہ (روح کا ساقی تعالیٰ شَانُہٗ) تیرا مددگار اور غدر خواہ ہوتا۔ میں مست حق کی لغزش کا غلام ہوں (کیونکہ اس کی لغزش فی الواقع لغزش نہیں جس کی وجہ یہ کہ فقدانِ عقل کی وجہ سے تکلیف اس سے مرتفع ہو چکی۔ آگے حق تعالیٰ سے خطاب ہے)۔


23

عفو ہائے جملہ عالم ذرّہ عکسِ عفوت اے ز تو هر بہرہ

ترجمہ: تمام (دنیا) جہان کی معافیاں آپ کی معافی کے عکس کا ایک ذرّہ ہے۔ اے (وہ ذاتِ عالی کہ) ہر حصّہ آپ کی ہی طرف سے (پہنچتا) ہے۔

انتباہ: اس سارے بیان میں مقصود یہ ہے کہ بندے حق تعالیٰ کی نافرمانی سے سزاوارِ عذاب ہو جاتے ہیں تو پھر خاصّانِِ حق کی شفاعت سے ان کی مغفرت ہوتی ہے اور اس مقصود کو امرائے دربار کی نافرمانی، سلطان محمود کی ناراضگی اور ایاز کی سفارش کی تمثیل میں ادا کیا گیا ہے۔ مگر فرطِ ذوق میں پیرایۂ بیان بعض جگہ کچھ اس طرح واقعہ ہوا ہے۔ جس میں تمثیل کے بجائے اصلیت کا رنگ غالب آ گیا۔ یعنی ایاز کی زبان سے بعض ایسے کلمات ادا ہو گئے جو سلطان محمود کے بجائے حق تعالیٰ کے خطاب میں ہیں۔ سلطان محمود کو ان سے خطاب کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ اوپر کے شعر سے مابعد کے اشعار تک یہی سلسلہ چلا جا رہا ہے۔


24

عفوہا گفتہ ثنائے عفوِ تو نیست کفوش اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا

ترجمہ: تمام معافیوں نے آپ کی تعریف کی ہے۔ اس (معافی) کے برابر (کوئی معافی) نہیں۔ اے لوگو! (اس کی معانی کی برابری سے) بچو۔


25

جانِ شاں بخش و زِ خود شاں ہم مراں کامِ شیرینِ تو اند اے کامراں

ترجمہ: ان کی جان بخشی کرو اور ان کو اپنی درگاہ سے نہ نکالو۔ اے مرادمند! یہ (بھی) تمہارے خوشگوار مقصود ہیں۔

مطلب: اگر یہ خطاب حق تعالیٰ سے ہے تو کامِ شیریں کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ حق تعالیٰ کے بعض اسماء کے مَظْہَر ہیں۔ اور اگر یہ ایاز کا مقولہ سلطان کے خطاب میں ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ ان لوگوں نے جو گوہر کو نہیں توڑا تو یہ بھی آپ کی خیر خواہی تھی اور امراء کی وفاداری و خیر خواہی حضور کا مقصود ہے۔ بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں درج ہے: ’’کام شیریں کن توئی اے کامرا‘‘۔ یعنی اے کامران! تو ہی منہ میٹھا کرنے والا ہے۔ یہ نسخہ بلا تکلّف دونوں تقدیروں پر درست آ سکتا ہے۔ (بحر)۔ 

26

رحم کُن بر آں کہ او روئے تو دید فُرقتِ تلخِ تو چوں خواهد کشید

ترجمہ: رحم کرو اس شخص پر جس نے آپ کا جلوہ دیکھ لیا (اب وہ) آپ کی جدائی کیونکر برداشت کر سکے گا؟


27

از فراقِ تلخ مے گوئی سخن ہرچہ خواہی کن و لیکن ایں مکن

ترجمہ: آپ ناگوار فراق کا ذکر کرتے ہیں (اور) جو کچھ چاہو کرو، لیکن یہ نہ کرو۔


28

در جہاں نبود بتر از ہجرِ یار ایں سخن از عاشقِ خود گوش دار

ترجمہ: جہاں میں دوست کی جدائی سے بدتر کوئی چیز نہ ہوگی، یہ بات اپنے عاشق سے سن لو۔

29

صد ہزاراں مرگِ تلخ از دستِ تو نیست مانندِ فراقِ شصتِ تو

ترجمہ: لاکھوں تلخ موتیں (جو) آپ کے ہاتھ سے (سہنی پڑیں) آپ کے ساٹھ گنے فراق کے برابر ناگوار نہیں ہیں۔


30

تلخی ہجر از ذکور و از اِناث دور دار اے مجرماں را مستغاث

ترجمہ: اے گناہ گاروں کے فریاد رس! ہجر کی تلخی (تمام) مرد و زن سے دور رکھیے۔


31

بر امیدِ وصلِ تو مُردن خوش ست تلخیِ ہجرِ تو فوقِ آتش ست

ترجمہ: آپ کے وصل کی امید پر مر جانا اچھا ہے، آپ کے ہجر کی تلخی آگ سے بڑھ کر ہے۔

32

گبر مے گوید میانِ آں سفر چہ غمم بودے گرم بودے نظر

ترجمہ: کافر اس جہنم کے اندر (داخل ہو کر جو کافروں کا مقام ہے) کہہ رہا ہے۔ اگر مجھ پر (اُس خداوند تعالیٰ شَانُہٗ کی) نظر ہوتی تو مجھے کیا غم تھا (اس کا دیدار پانے کی صورت میں آتشِ جہنم بھی گوارا ہے)۔


33

کاں نظر شیریں کنندہ رنجہاست ساحراں راخون بہائے دست و پاست

ترجمہ: کیونکہ وہ نظر لوگوں کو خوشگوار بنانے والی ہے (اور) جادوگروں کے لیے ہاتھ پاؤں کی خون بہا ہے۔

مطلب: فرعون نے جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیے تھے۔ اس الزام میں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آگے ہار مان کر ان کا دین اختیار کر لیا۔ مگر چونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ کرم تھی۔ اس لیے یہ نگاہِ کرم ان کے ہاتھ پاؤں کٹنے کی اذیت کا معاوضہ بن گئی۔ ’’خون بہا‘‘ اس معاوضہ کو کہتے ہیں جو خون کے عوض میں دیا جاتا ہے۔ آگے ایمان لانے والے جادو گردوں کی فرعون کے ساتھ جراءت خیز و استقلال آمیز گفتگو کا ذکر فرماتے ہیں:۔