دفتر 5 حکایت 188: امیروں کا ایاز کو بُرا بھلا کہنا کہ تو نے کیوں موتی کو توڑ ڈالا اور اس کا (ایاز کا) جواب

دفتر پنجم: حکایت: 188


تشنیعِ امیراں ایاز راکہ چرا چنیں گوہر را شکستی و جوابِ او

امیروں کا ایاز کو بُرا بھلا کہنا کہ تو نے کیوں موتی کو توڑ ڈالا اور اس کا (ایاز کا) جواب


1

گفت ایاز اے مہترانِ نامور امرِ شہ بہتر بقیمت یا گہر؟

ترجمہ: ایاز نے کہا: اے نامور امیرو! بادشاہ کا حکم زیادہ قیمتی ہے یا موتی؟


2

امرِ سلطاں بہ بود پیشِ شما یا کہ ایں نیکو گہر بہرِ خدا؟

ترجمہ: برائے خدا (اتنا بتاؤ کہ) تمہارے نزدیک بادشاہ کا حکم بہتر ہے یا یہ عمدہ موتی؟


3

اے نظر تاں بر گہر بر شاہ نے قبلہ تاں غول ست جادہ و راہ نے

ترجمہ: ارے تمہاری نظر تو موتی پر ہے بادشاہ پر نہیں۔ تمہارا مقصود چھلاوا ہے راستہ نہیں۔


4

من ز شہ بر مے نگردانم نظر من چو مشرک روئے نارم در حجر

ترجمہ: میں بادشاہ سے نظر نہیں پھیرتا۔ میں مشرک کی طرح پتھر (کے بُت) کی طرف رخ نہیں کرتا۔


5

بے گہر جانے کہ رنگی سنگِ راہ بر گزیند پس نہد او امرِ شاہ

ترجمہ: جو بے جوہر جان راستے کے رنگین پتھر کو (جیسے کہ یہ موتی ہے) اختیار کرے۔ وہ بادشاہ کے حکم کو پسِ پُشت ڈال دے گی۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:۔


6

پُشت سوئے لَعبتِ گلرنگ کن عقل در رنگ آورندہ دنگ کُن

ترجمہ: (اے مخاطب!) تم پھول کی سی رنگت والی پُتلی (کے کھیل میں غافل نہ ہو۔ بلکہ اس) کی طرف پیٹھ کر لو۔ (اور اس کے اندر) رنگ پیدا کرنے والے (خالق تعالیٰ شانہ کی یاد) میں اپنی عقل کو مَحْوُ کر لو۔


7

اندر آرد جو سبو بر سنگ زن آتش اندر بود اندر رنگ زن

ترجمہ: نہر میں داخل ہو جاؤ۔ گھڑے کو پتھر پر دے مارو۔ رنگ و بُو میں آگ لگا دو۔ (تَقَیُّدَات و تَعَیُّنَات کو فنا کر کے ذاتِ حق میں مَحْوُ ہو جاؤ)۔


8

گر نہ در راہِ دین از رہزنان رنگ و بو مپرست مانندِ زنان

ترجمہ: اگر تم دین کے راستے میں ایک ڈاکو نہیں تو عورتوں کی طرح رنگ و بو کی پرستش نہ کرو۔ (تَقَیُّدَات و تَشَخُّصَات کا دلدادہ خود اپنے دین کا رہزن ہے۔ آگے امرا سے خطاب ہے)۔


9

گوہر امرِ شہ بَود اے ناکساں جملہ بشکستید گوہر را عیاں

ترجمہ: اے نالائقو! (قیمتی) موتی تو بادشاہ کا حکم ہوتا ہے۔ تم سب نے (اس) موتی کو اعلانیہ توڑ ڈالا۔


10

چوں ایاز این راز بر صحرا فگند جملہ ارکان خوار گشتند و نژند

ترجمہ: جب ایاز نے اس راز کو کھلے میدان میں رکھ دیا۔ تو تمام امراء خوار و ذلیل ہو گئے۔


11

سر فرو انداختند آں سروراں عذر گویاں گشتہ زیں نسیاں بجاں

ترجمہ: اُن سرداروں نے اس غلطی سے عُذر کرتے ہوئے (دل و) جان سے سر جھکا دیے۔


12

از دلِ ہر یک دو صد آہ آں زماں همچو دودے مے شدے بر آسماں

ترجمہ: اس وقت ہر ایک (امیر) کے دل سے دو دو سو آہیں دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھتی تھیں۔

13

کرد اشارت شہ بجلادِ کہن کہ ز صدرم ایں خساں را پاک کن

ترجمہ: بادشاہ نے ایک پُرانے جلّاد کو حکم دیا کہ میرے دربار سے ان کمینوں کو نابود کر دے۔ (جلاد کے لیے کہن کی صفت اتفاقاً آ گئی۔ ورنہ قتل و قصاص کے لیے جلاد نو و کہن برابر ہیں یا شاید اس میں یہ نکتہ ہو کہ نیا جلاد وزرا، امرا کو قتل کرنے سے شاید جھجکتا ہو۔ پرانا جلاد جو گرگِ کہن ہے۔ زیادہ دلیر اور معاملہ فہم ہو سکتا ہے)۔


14

ایں خساں چه لائقِ صدرِ منند کز پئے سنگ امرِ ما را بشکنند

ترجمہ: یہ کمینے ہمارے دربار کے لائق کہاں ہیں۔ جو پتھر کے لیے ہمارے حکم کو توڑتے ہیں۔ (یہ ان لوگوں کی تمثیل ہے جو دنیا کے حقیر فوائد کے لیے خداوند تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں)۔

15

امرِ ما پیشِ چنیں اہلِ فساد بہرِ رنگیں سنگ شد خوار و کساد

ترجمہ: ہمارا حکم اہلِ فساد کے آگے۔ ایک رنگین پتھر کے لیے خوار و بے قدر ہو گیا۔