دفتر پنجم: حکایت: 187
رسیدنِ آن گوہر آخرِ دور بدستِ ایاز و کیاستِ ایاز و مقلد نا شدنِ او ایشاں را و مغرور نا شدنِ او بمال و خلعتِ جامگی افزون کردن و مدحِ عقلِ ایشان کردن کہ نشاید مقلد را مسلمان دانستن اگر مسلمان باشد نادر باشد کہ مقلِّد ثبات کند براں اعتقاد و مقلد از امتحانہا بسلامت بیروں نیاید کہ ثباتِ بینایاں ندارد
اس موتی کا آخری دور میں ایاز کے ہاتھ میں پہنچنا اورایاز کی دانائی اور اس کا اُن لوگوں کی تقلید نہ کرنا اور مال و خلعت اور ترقیِ تنخواہ اور ان کی عقل کی تعریف کئے جانے سے دھوکہ نہ کھانا۔ کیونکہ مقلد کو مسلمان نہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ وہ مسلمان بھی ہو تو ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے کہ مقلد اس اعتقاد پر قائم رہے اور مقلد امتحانوں سے صحیح و سلامت باہر نہیں آتا کیونکہ وہ دور اندیشوں کی سی ثابت قدمی نہیں رکھتا۔
1
اے ایاز اکنوں بگوئی کیں گہرچندمے ارزد بدیں تاب و ہُنر
ترجمہ: اے ایاز! اب تو بتا کہ یہ موتی۔ اس چمک اور خوبی کے ساتھ کس قیمت کا ہے؟
2
گفت افزوں زانچه تانم گفتِ منگفت اکنوں زود خُردش در شکن
ترجمہ: عرض کیا ہے (اس کی قیمت) جو کچھ بیان کر سکتا ہوں یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ فرمایا: اب اس کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے۔
3
سنگها در آستیں بودش شقابخرد کرد و پیش او بود این صواب
ترجمہ: اس کی آستیں میں پتھر (موجود) تھے۔ فوراً اس کے ٹکڑے کر ڈالے اور اس کے نزدیک یہی (بات) ٹھیک تھی (کہ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرے۔ اگلے زمانہ میں آستیں میں کیسا لگا ہوتا تھا۔) ایاز کے اس عاقلانہ فعل پر مولانا فرماتے ہیں:۔
4
ز اتفاقِ طالع با دولتشدست داد آں لحظہ نادر حکمتش
ترجمہ: اس کے با اقبال نصیبے کے اتفاق سے اس وقت عجیب دانائی کی بات اُسے سوجھ گئی۔
5
تا بخواب ایں دیدہ بود ایں با صفاکردہ بود اندر بغل دو سنگ را
ترجمہ: یا اس صفا دل (ایاز) نے اس (واقعہ) کو خواب میں دیکھ لیا تھا (اس لیے) دو پتھر (اپنی) بغل میں چھپا رکھے تھے۔
6
همچو یوسف کاندرونِ قعرِ چاہکشف شُد پایانِ کارش از الہٰ
ترجمہ: جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کنوئیں کی گہرائی کے اندر ہی انجام کار معلوم ہو گیا تھا۔ ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾
7
ہر کرا فتح و ظفر پیغام دادپیشِ اویک شد مراد و نا مراد
ترجمہ: جس شخص کو فتح و ظفر نے (اپنی آمد) کا پیغام دیا۔ اس کے آگے مراد اور نامرادی یکساں ہے۔ (یہ مرادمندی و نامرادی کے احوال صرف ظاہری ہیں۔ در حقیقت وہ پورا کامران و مرادمند ہے۔ آگے مولاناؒ فرماتے ہیں: کہ ایاز جو اس وقت اس خلعت و نعمت سے محروم رہا جو دوسرے امراء کے حصے میں آئی۔ یہ محرومی کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھی)۔
8
ہر کہ پابندانِ وے شد فضلِ یاراو چه ترسد از شکستِ کارزار
ترجمہ: محبوبِ (حقیقی) کا فضل جس شخص کا پابند ہو گیا وہ جنگ کی شکست سے کیا ڈرتا ہے۔
9
چوں یقیں گشتش کہ خواہد کرد ماتفوتِ اسپ و فیل باشد ترّہات
ترجمہ: جب اس کو یقین ہو گیا کہ وہ (حریف کو) مات کر دے گا۔ تو (اس کے نزدیک) اسپ و فیل (وغیرہ مہروں) کا مارا جانا بے حقیقت ہے۔
10
گر بُرد اسپش ہر آنکہ اسپ جُو ستاسپِ او گو نے کہ پیش آہنگ او ست
ترجمہ: اگر اس کے اسپ کو وہ شخص مار لے جائے جو اسپ کا طالب ہے تو اس کے پاس اسپ نہ سہی، سبقت لے جانے والا وہی ہے (اس کو اسپ کی کیا ضرورت)۔
11
مرد را با اسپ کے خویشی بودعِشقِ اسپش از پئے پیشی بود
ترجمہ: آدمی کو اسپ کے ساتھ قرابت کہاں ہے (کہ وہ اس کی محبت پر مجبور ہو بلکہ) اسپ کے ساتھ اس کی محبت پیش قدمی (حاصل کرنے) کے لیے ہے (اور پیش قدمی اس کو حاصل ہے)۔
12
بہرِ صورتہا مکش چندیں زحیربے صداعِ صورتے معنی بگیر
ترجمہ: (ظاہری) صوتوں کے لیے اس قدر پیچ و تاب نہ اٹھا۔ کسی صورت کا دردِ سر اٹھائے بغیر معنی حاصل کر۔
13
ہست زاہد را غمِ پایانِ کارتا چه باشد حالِ او روزِ شمار
ترجمہ: زاہد کو انجام کا غم ہے۔ کہ قیامت کے روز اس کا کیا حال ہوگا۔
14
عارفاں ز آغاز گشته هوشمنداز غم و احوالِ آخر فارغ اند
ترجمہ: (بخلاف اس کے) عارف لوگ ابتدا سے ہوشمند ہیں۔ وہ آخرت کے احوال اور (ان کے) غم سے فارغ ہیں۔
مطلب: عارف لوگوں کو ابتدائے آفرینش سے اپنی اعیانِ ثابتہ اور ان کی استعداد کا کشف ہے۔ بس جو احوال ان پر وارد ہونے والے ہیں سب ان پر مکشوف ہیں۔ (بحر)۔
15
بُود عارف را ہمیں خوف و رجاسابقہ دانیش خورد آں ہر دو را
ترجمہ: یہی خوف و رجا (جو زاہد کو ہے) عارف کو (بھی) مگر اس کی سابقہ دانی نے (خوف و رجا) دونوں کو نابود کر دیا۔
16
دید کو سابق زراعت کرد ماشاوہمے داند چه خواهد بود چاش
ترجمہ: (مثلاً) جس شخص نے پہلے ماش کاشت کئے ہیں اس کو نظر آ رہا ہے کہ اس کی پیداوار کیا ہوگی۔
17
عارف ست او باز رست از خوف و بیمہائے هو را کرد تیغِ حق دو نیم
ترجمہ: وہ عارف ہے، خوف و بیم سے نجات پا چکا۔ شور و فغاں کو تیغ حق نے دو ٹکڑے کر دیا۔
18
بود او را بینم و امید از خداخوف فانی شد عیاں شد آں رجا
ترجمہ: اس کو خوف و امید خدا سے تھی۔ اس کا خوف جاتا رہا۔ وہ امید قائم ہو گئی۔
19
ز امتحانِ شاه بود آگه ایازدر فریبِ شہ نشد گمرہ ایاز
ترجمہ: ایاز بادشاہ کے امتحان سے آگاہ تھا۔ اس لیے اس نے بادشاہ کے مغالطے میں دھوکہ نہیں کھایا۔
20
خلعت و اِدرار از راهش نبردکرد گوہر ز امرِ شاہ او خرد مُرد
ترجمہ: خلعت اور وظیفہ اس کو گمراہ نہ کر سکا۔ اس نے بادشاہ کے حکم سے موتی کو ریزہ ریزہ کر دیا۔
21
چوں شکست او گوہرِ خاص آن زماںزان امیران خاست بس بانگ و فغان
22
کاین چہ بی باکی ست و اللہ کافر ستہر کہ ایں پُر نُور گوہر را شکست
ترجمہ: جب اس نے (اس) خاص موتی کو توڑ ڈالا تو اس وقت ان امیروں سے بہت شور و فریاد بلند ہوئی کہ یہ کیسی بیباکی ہے۔ و اللہ وہ شخص کافر ہے جس نے ایسے پُر نور موتی کو توڑ ڈالا۔
مطلب: اس میں بطورِ تمثیل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب کسی عارف پر اتفاقاً آیاتِ قرآنیہ اور احادیث کے اَسْرَار مکشوف ہو جاتے ہیں اور ان کو بیان کرنے لگتا ہے تو معتقدان عقل و قیاس اس پر کفر کا فتوی صادر کرنے لگتے ہیں۔ اور وہ اتنا نہیں جانتے کہ ہم لوگ اپنی عقل پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ اخبارِ الٰہیہ پر اور یہ عارف اپنی عقل کو الگ رکھ کر اخبارِ الٰہیہ پر ایمان لایا ہے اور اس پر اسرار منکشف ہو چکے ہیں۔ (بکر)۔
23
و آں جماعت جملہ از جہل و عمٰیدر شکستہ دُرّ امرِ شاہ را
ترجمہ: حالانکہ اس ساری جماعت نے جہالت و کور چشمی سے حکم شاہی کے موتی کو توڑ ڈالا تھا۔
24
قیمتی گوہر نتیجہ مہر و وُدّبر چناں خاطر چرا پوشیدہ شد؟
ترجمہ: (بادشاہ کے حکم کی تعمیل کا) قیمتی موتی جو مہر و محبت کا نتیجہ تھا۔ ایسے (اُمَرَاء کے) قلب پر کیوں پوشیدہ رہا؟
مطلب: امراءِ دربار نے موتی کو قیمتی سمجھ کر اس کے توڑنے سے پہلو تہی کی۔ وہ بیوقوف یہ نہ سمجھے کہ اس کو نہ توڑنے سے شاہی حکم ٹوٹتا ہے جو اس سے زیادہ قیمتی ہے اور تعجّب یہ ہے کہ ان امراء اور وزرا کو اتنا معلوم نہ تھا کہ بادشاہ کے حکم کی تعمیل اعلیٰ خلوص و وفاداری کا ثمرہ ہے۔ پس اس کے حکم کی تعمیل نہ کرنا عملاً اپنی عدمِ وفاداری کا اعتراف ہے۔ ایاز ان تمام رُموز کو سمجھا اور ان کے مطابق عمل کیا۔