دفتر پنجم: حکایت: 186
دادنِ شاہ گوہر را بدست وزیر کہ این بچند ارزد مبالغہ کردنِ وزیر در قیمت و فرمودنِ شاہ وزیر را کہ این را بشکن و گفتنِ وزیر کہ این گوہرِ نفیس چگونہ بشکنم
بادشاہ کا وزیر کے ہاتھ میں ایک موتی دینا (اور پوچھنا) کہ اس کی کتنی قیمت ہوگی اور وزیر کا قیمت کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ اور بادشاہ کا حکم دینا کہ اس کو توڑ ڈالو اور وزیر کا عرض کرنا کہ اس نفیس موتی کو کس طرح توڑ دوں۔
1
گفت روزے شاہِ محمودِ غنیآن شِہ غزنین و سُلطانِ سنی
2
یک صباحے جانب دیوان شتافتجملہ ارکان را در آن دیوان بیافت
ترجمہ: (راوی نے) کہا کہ ایک دن بادشاہ محمود غنی (یعنی) وہ شاہِ غزنی اور سلطانِ بزرگ صبح سویرے دیوان کی طرف گیا۔ تمام اہل کاروں کو اس دیوان میں (موجود) پایا۔
3
گوہری بیرون کشید او مستنیرپس نہاد آن زود بر کفّ وزیر
ترجمہ: اس نے ایک روشن موتی نکالا۔ پھر اس کو فوراً وزیر کے ہاتھ پر رکھا۔
4
گفت چون ست و چہ ارزد این گہرگفت بیش ارزد ز صد خروارِ زر
ترجمہ: (اور) پوچھا یہ موتی کیسا ہے اور کتنی قیمت کا ہے (وزیر نے) عرض کیا سونے کے سو ڈھیروں سے بھی زیادہ قیمت کا ہے۔
5
گفت بشکن گفت چونش بشکنمنیک خواہِ مخزن و مالت منم
ترجمہ: حکم دیا کہ (اس کو) توڑ ڈالو۔ عرض کیا کہ میں اسے کیونکر توڑوں۔ میں حضور کے خزانے اور مال کا خیرخواہ ہوں۔ (یہ مالی نقصان رسانی کیسے کر سکتا ہوں)
6
چُون روا دارم کہ مثلِ این گہرکہ نیاید در بہا گردد هدر
ترجمہ: میں یہ کیونکر روا رکھوں کہ ایسا موتی تلف ہو جائے جو قیمت (کے اندازے) میں نہیں آ سکتا۔
7
گفت شاباش و بدادش خلعتےگوہر از وئے بستد آن شاہِ فتے
ترجمہ: کہا شاباش اور (خیرخواہی کے اظہار کے عوض) اس کو خلعت دی (اور) اس جوانمرد بادشاہ نے موتی اس سے لے لیا۔
8
کرد ایثار وزیر آن شہ ز جُودہر لباس و حُلّہ کو پوشیدہ بود
ترجمہ: اس بادشاہ نے جو لباس و پوشاک پہن رکھی تھی ازراہِ کرم وزیر کو دے ڈالی۔
9
ساعتے شان کرد مشغولِ سخناز قضیّہ تازہ و سرِّ کہن
ترجمہ: ایک گھڑی تک ان لوگوں کو (اس) تازہ قضیہ اور پرانے راز سے (کسی دوسری) بات میں مشغول رکھا۔ (اور اس میں مصلحت یہ تھی کہ جب دوبارہ یہی سوال کسی اور سے کیا جائے تو یہ لوگ کچھ خیال نہ کریں)۔
10
بعد از آن دادش بدستِ حاجبےکہ چہ ارزد این بدستِ طالبے؟
ترجمہ: پھر اس کو ایک دربان (خاص) کے ہاتھ میں دیا۔ (اور پوچھا) کہ یہ (موتی) کسی طلب گار کے ہاتھ کیا قیمت پا سکتا ہے؟
11
گفت ارزد این بہ نیمہ مملکتحافظش بادا خدا از مہلکت
ترجمہ: کہا یہ (موتی) آدھی سلطنت کے برابر قیمت پا سکتا ہے۔ خدا اس کو تلف ہونے سے بچائے۔
12
گفت بشکن، گفت اے خورشیدِ تیغبس دریغ ست ایں شکستن بس دریغ
ترجمہ: فرمایا اس کو توڑ ڈالو۔ عرض کیا (اے آفتاب کی سی درخشاں) تلوار والے (بادشاہ) اس کا توڑ ڈالنا تو بڑا قابلِ افسوس ہے بڑا قابلِ افسوس ہے۔
13
قیمتش بگذار و بین تاب و لمعکہ شدست این نُور روز او را تبع
ترجمہ: اس کی قیمت کو (بھی) جانے دو اور (اس کی) چمک اور روشنی کو تو دیکھو کہ یہ دن کی روشنی اس کے آگے پست ہے (تبع بمعنی تابع، ما تحت مراد پست)۔
14
دست کے جنبد مرا در کسرِ اُوکے خزانہ شاہِ را باشم عدو
ترجمہ: اس کے توڑنے میں میرا ہاتھ کیونکر حرکت کر سکتا ہے۔ میں حضور کے خزانہ کا دشمن کب ہوں۔
15
شاہ خلعت داد و ادرارش فزودپس زبان در مدحِ عقلِ او گشود
ترجمہ: شاہ نے (اس کو) خلعت دی اور اس کی تنخواہ بڑھا دی۔ پھر اس کی عقل کی تعریف میں زبان کھولی۔
16
بعد یکے ساعت بدستِ میر داددُرّ را کاین امتحان کن باز داد
ترجمہ: ایک گھنٹے بعد (اس) موتی کو (کسی اور) امیر کے ہاتھ میں دیا کہ اس کا بخوبی امتحان کرو۔
17
او ہمین گفت و ہمہ میران ہمینہر یکے را خلعتے داد او ثمین
ترجمہ: اس نے (بھی) وہی کہا اور سب امرا نے وہی (کہا) اس نے ہر ایک کو قیمتی خلعت دیا۔
18
جامگی ہاشان ہمے افزود شاہآن خسیسان را ببرد از رہ به چاہ
ترجمہ: بادشاہ ان کی تنخواہیں بڑھاتا جاتا تھا۔ ان کمینوں کو (سیدھے) راستے سے کنویں کی طرف لے گیا۔
مطلب: امراءِ دربار کو یہ خیال تھا کہ ایک شاہی موتی کو نہ توڑنا ہماری کمال وفاداری ہے۔ اس لیے بادشاہ خوش ہو کر ہم کو خلعت سے سرفراز کر رہا ہے۔ حالانکہ بادشاہ کی حکم عدولی کا جرم گوہر شکنی سے زیادہ سنگین تھا۔ وہ بے وقوف اس کو نہیں سمجھے اور بادشاہ کی خلعت بخشی ان کو اور زیادہ گمراہ کر رہی تھی۔ یہی مثال کفار کی ہے جو اپنی دنیوی مراد مندیوں سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پُر خطر امتحان ہے جس میں وہ روز بروز بدبختی کی گہرائی میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ کثرتِ مال آخر ان کے لیے وبال اور یہ دولت باعثِ نکبت ثابت ہوتی ہے۔ ﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلىٰ مَا مَتَّعْنَا بِه أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ۔۔۔﴾ (طہ: آیت 131) ترجمہ پیچھے گذر چکا۔
"عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا رَأَيْتَ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا عَلٰى مَعَاصِيه مَا يُحِبُّ فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ‘‘ ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’فَلَمَّا نَسُوا ماذُكرُوا بِه فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَا هُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُبلِسُون"
"نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ عزوجل کسی بندے کو اس کے (ارتکاب) معاصی کے باوجود دنیاوی مرادیں دے رہا ہے تو یہ محض استدراج ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت پڑھی۔ پھر جس (مصیبت کے ذریعہ) اُن کو آگاہ کیا گیا تھا۔ جب (اس کو) بُھول گئے تو ہم نے ان پر ہر طرح کی (دنیاوی) نعمتوں کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں جب ان کو پا کر خوش ہوئے۔ یکایک ہم نے ان کو پکڑ لیا۔ تو اچانک وہ ناامید ہو گئے"۔ (مشکوٰۃ)۔
19
ہمچنین گفتند پنجہ شصت میرجملگان یک یک بتقلیدِ وزیر
ترجمہ: (غرض) اسی طرح پچاس ساٹھ امیروں نے کہا۔ تمام (میں سے) ایک ایک نے وزیر کی تقلید میں (وہی قول کہا جو وزیر کہہ چکا تھا)۔
20
گرچہ تقلید ست اُستونِ جہانہست رُسوا ہر مقلد ز امتحان
ترجمہ: اگرچہ تقلید جہاں کا ستون ہے (جس پر اس کی عمارت قائم ہے لیکن) ہر مقلد (جو ائمہ قابلِ تقلید کو چھوڑ کر کسی گمراہ کی تقلید کرے) امتحان سے رسوا (ہو جاتا) ہے۔
مطلب: تقلید پر نظامِ شریعت کا قیام ہے۔ تقلید ہی سے اعمالِ موصلہ پر عمل ممکن ہے۔ اسی لیے تقلید جہاں کا ستون ہے۔ مگر ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کی تقلید کی جائے۔ بلکہ گمراہ کی تقلید گمراہ کر دیتی ہے اور ایسے مقلد آخر رسوا ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ اس وزیر کے مقلدوں کا حال آگے چل کر معلوم ہوگا۔ جنہوں نے وزیر کا جواب سُن کر اسی کو رٹ لیا اور باری باری سب نے بادشاہ کو وہی جواب دیا۔ مولانا کے اس شعر سے منکرینِ تقلید کو متنبہ ہونا چاہیے کہ مولانا تقلیدِ محمود کے قائل و عامل اور تقلیدِ مذموم کے مانع و دافع ہیں۔ اور مثنوی میں جہاں کہیں تقلید کا ذکر تردیدی پیرایہ میں آیا ہے۔ وہاں وہی تقلیدِ مذموم مراد ہے۔
21
شاہ چون کرد امتحان جملگانمال و خلعت بُرد ہر یک بیکران
ترجمہ: بادشاہ نے جب سب کا امتحان کر لیا (اور) ہر ایک نے بے شمار مال و خلعت لے لیا۔
22
ہمچنان در دور گردان شد گہرتا بدستِ آن ایازِ دیدہ ور
ترجمہ: تو اسی طرح گردش کرتے ہوئے دَور میں (وہ) موتی ایاز دیدہ ور کے ہاتھ میں آگیا۔
23
آخرین بنہاد در کفِّ ایازگفت او را کائے حریفِ دیدہ باز
ترجمہ: سب سے آخر میں (اس موتی کو) ایاز کے ہاتھ میں رکھا (اور) اُسے کہا اے دیدہ باز حریف۔
24
یک بیک دیدند این گوہر، تو ہمدر شعاعش در نگر اے محترم
ترجمہ: ایک ایک نے اس موتی کو دیکھ لیا ہے اے محترم، تو بھی اس کی شعاع کو دیکھ۔