دفتر پنجم: حکایت: 185
در بیانِ ’’نَحْنُ قَسَمْنَا...‘‘کہ یکے را قوت و شہوتِ خَرَاں دہد و دیگر را صفا و صفوتِ فرشتگاں
آیۃ ’’نَحْنُ قَسَمْنَا...‘‘ کے بیان میں کہ ایک کو گدھوں کی سی قوت و شہوت دیتا ہے اور دوسرے کو فرشتوں کی سی صفائی و پاکیزگی۔
1
تُخمہائے کہ شہوتی نبودبرِ آں جز قیامتی نبود
ترجمہ: جو بیج شہوت میں مُلَوِّث نہ ہوں، ان کا پھل سوائے قیامت کے ظاہر نہ ہوگا۔
2
سَر زِ ھوا تافتن سروری ستترکِ ہوا قوت پیغمبری ست
ترجمہ: ہوس سے منہ پھیرنا سرداری ہے۔ ہوس کو چھوڑ دینا پیغمبری شیوہ ہے۔
مطلب: یہ اقتباس اس آیت سے ہے: ﴿أَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنٍٍٍٍْیَا...﴾(الزخرف:32) اور یہ کافروں کے اس قول کا جواب تھا جو کہتے تھے کہ ﴿لَوْلَا نُزِّلَ هٰـذَا الْقُرْآنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ﴾ ان دو بستیوں (یعنی مکہ و طائف) سے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ نازل کیا گیا۔(الزخرف:31) اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت (یعنی پیغمبری) کے تقسیم کرنے والے ہیں؟ اس (دنیا کی) زندگی میں ان کی روزی ان میں ہم تقسیم کرتے ہیں“۔
تخمہائے کہ شہوتی۔۔۔۔ الخ حکیم سنائی کی کتاب ”اسرار نامہ“ کا شعر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعمال خالصاً لوجہ اللہ کئے جائیں اور خواہشِ نفسانی کا ان میں دخل نہ ہو اس کا ثمرہ قیامت کو معلوم ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں ان سے تکلیف و زحمت محسوس ہو۔ مگر عقبیٰ میں ان کا ثمرہ پوری رحمت و مسرت کی شکل میں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ﴾ ”جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو، ہم اس کی کھیتی میں اس کے لیے برکت دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہو تو ہم بقدرِ مناسب اس کو دنیا دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصّہ نہیں“۔ (الشوری:20)
سر از ہوا تافتن۔۔۔۔ الخ مولانا نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”مَخْزَنُ الْأَسْرَار“ کا شعر ہے۔
3
ترکِ خشم و شهوت و حرص آوریہست مردی و رگِ پیغمبری
ترجمہ: غصے اور شہوت اور حرص کا چھوڑ دینا، پیغمبرانہ روش اور مردانگی ہے۔
4
مردیِ خر گو مباش اندر رگشحق ہمے داند اُلغ بگلربگش
ترجمہ: گدھے کی سی قوت باہ (اگر اس کی) رگ میں نہیں تو نہ سہی۔ حق تعالیٰ پھر بھی اس کو امیر الامراءِ اعظم جانتا ہے۔
5
مردۂ باشم بمن حق بنگردبِہ ازاں کہ زندہ باشم دُور و رَد
ترجمہ: (اگر) میں مردہ ہوں اور حق تعالیٰ (مجھ پر) نگاہِ کرم فرمائے تو اس سے بہتر ہے کہ میں زندہ ہوں (اور) دُور و مردود رہوں۔
6
مغزِ مردی ایں شناس و پوست آنآن بود در دوزخ و ایں درجنان
ترجمہ: اس (پیغمبرانہ شیوہ) کو مردی کا مغز سمجھو اور وہ (شہوت پرستی) پوست ہے۔ وہ دوزخ میں ہے اور یہ بہشت میں ہے۔
7
حُفَّتِ الجَنَّۃُ مکارِہ را رسیدحُفَّتِ النَّارُ از ہوا آمد پدید
ترجمہ: بہشت کو گھیرنا تکالیف کو پہنچا۔ دوزخ کا گھیرنا خواہشِ نفسانی سے ظاہر ہوا۔
مطلب: حدیث میں آیا ہے: "حُفَّتِ الجَنَّۃُ بِالمکَارِہِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّھوَاتِ" بہشت (عبادات و طاعت کی) تکالیف سے گھری ہوئی ہے۔ اور دوزخ (نفسانی) شہوتوں سے گھری ہوئی ہے۔ یعنی بہشت میں جانے کے لیے ان عبادات و طاعات کی بجا آوری سے واسطہ پڑتا ہے جو نفس کو ناگوار ہیں اور دوزخ میں داخل ہونے والا پہلے ان خواہشات و لذّات کی منزلیں طے کرتا ہے جو نفس کو مرغوب ہیں۔ مولانا بحرالعلوم اس حدیث کا مطلب یوں لکھتے ہیں کہ جنت بندوں کے اعمالِ حسنہ سے پُر ہے جو حور و قصور کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں۔ اور دنیا میں نفس پر وہ اعمال شاق تھے اور دوزخ اعمالِ سیئہ سے لبریز ہے جو آگ اور سانپ بچھو کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں اور دنیا میں نفس کو مرغوب تھے (انتہیٰ) آگے بمثلِ سابق سلطان ایاز سے خطاب کرتا ہے۔
8
اے اَیاز نرّہ شیرِ دیو کُشمردیِ خر کم، فزوں مردیِ ہُش
ترجمہ: اے ایاز شیرِ نر دیو (نفس) کو مار ڈالنے والے! گدھے کی طاقت کم ہے (کہ اس میں نفسانی شہوت کا غلبہ ہے اور) عقل کی طاقت بڑھ کر ہے۔ (جس سے نفس مغلوب ہے)۔
9
آنکہ چندیں صدر ادراکش نکردلعبِ کودک بُود پیشت اینت مرد
ترجمہ: جس بات کو اتنے امراء و وزراء نے نہ سمجھا۔ وہ تمہارے آگے بازیچۂ طفل تھی۔ دیکھو مرد تو یہ ہے (یہ قصّہ) بھی آگے آتا ہے۔ (یہاں گویا اس کی تمہید چل رہی ہے)۔
10
اے بدیدہ لذّتِ امرِ مراجاں سپردہ بہرِ امرم در وفا
ترجمہ: اے وہ (ایاز) جس نے ہمارے حکم (کی تعلیم) کا مزا محسوس کیا ہے (اور) وفاداری میں ہمارے حکم کے لیے جان فدا کر دی ہے۔
11
اے کہ از تعظیمِ امرش آگہیایں حکایت گوش کُن گر والہی
ترجمہ: اے (طالب) جو اس (خداوند تعالیٰ) کے حکم کی تعظیم سے آگاہ ہے۔ یہ کہانی سُن اگر تو عاشق ہے۔
12
داستانِ امر و ذوقِ چاشنیشبشنو اکنوں درمیانِ معنویش
ترجمہ: (یعنی بادشاہ کے) حکم کا قصہ اور اس کی چاشنی کا ذائقہ۔ اب اس کے معنوی بیان میں سنو۔
مطلب: ایاز سلطان کے حکم کی تعمیل اس خلوص و دلجمعی اور عزمِ صمیم کے ساتھ کرتا ہے کہ اگر اس کو یہ تعمیل خلافِ مصلحت بلکہ خطرناک بھی لگے تو اس کی مطلق پروا نہیں ہوتی۔ بلکہ بادشاہ کا حکم پاتے ہی اپنے عقل و قیاس اور دانش و فہم کے مشورہ سے بے نیاز ہو کر اس کی تعمیل کر ڈالتا ہے آگے یہی قصّہ شروع ہوتا ہے۔ اس کا معنوی بیان جو یہاں مقصود ہے یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اسی طرح کرنی چاہیے کہ جو حکم پائے اس میں اپنے عقلی قیاس اور ذہنی فلاسفی کو دخل نہ دے۔ بلکہ پورے وثوق و طمانیت سے مِن و عن اسی طرح عمل کرے جس طرح حکم ملا ہے۔ صائبؒ ؎
از صراطِ مستقیم شرع پا بیروں منہچوں گسست از رشتہ سوزن زورِ خود را کم کند
اسی طرح مرشد کے حکم کی تعمیل بے چون و چرا کرنی لازم ہے۔ حافظؒ ؎
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گویدکہ سالک بے خبر نبود ز راہ و رسمِ منزلہا