دفتر 6 حکایت 69: فقیر کا خواب دیکھنا اور (اس خواب میں) ہاتفِ (غیب) کا اس کو گنج نامہ کا سراغ بتانا

دفتر ششم: حکایت: 69



خواب دیدنِ فقیر و نشان دادنِ ہاتف اُو را بہ گنجنامہ

فقیر کا خواب دیکھنا اور (اس خواب میں) ہاتفِ (غیب) کا اس کو گنج نامہ کا سراغ بتانا


دید در خواب او شبے و خواب کو  واقعہ بے خواب صوفی راست خُو

ترجمہ: اس نے ایک شب خواب میں دیکھا اور خواب تھا ہی کہاں (بلکہ) خواب کے بدوں (ہی) واقعہ (دیکھنا) صوفی کی عادت ہوتی ہے۔ (چنانچہ یہ بھی واقعہ تھا کہ:)

 2 

ہاتفے گفتش کہ اے دیدہ تعب رقعۂ از پیشِ ورّاقان طلب

ترجمہ: (کہ) ایک ہاتف نے اس سے کہا اے مشقت دیکھے ہوئے (آدمی)! ایک پرچہ دفتریوں کے پاس تلاش کر۔

3

 خفیہ زان ورّاق کت ہمسایہ است سوئے کاغذ پارہاش آور تو دست

ترجمہ: (یہ کام) پوشیدہ طور سے (ہونا چاہیے) اس دفتری سے جو تمہارا پڑوسی ہے۔ (معمولی علیک سلیک کر کے) اس کے کاغذ کے پرزوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤ (اور ان کے اندر وہ رقعہ تلاش کرو۔)

4

 رقعۂ شکلش چنان رنگش چنین پس بخوان آن را بخلوت اے حزین

ترجمہ: وہ رقعہ جس کی شکل ایسی (اور) اُس کا رنگ ایسا ہے۔ پھر اے غمگین (آدمی)! اس کو تنہائی میں پڑھو۔

5

 چون بدُزدی آن ز ورّاق اے پسر پس برون رَو ز انبہیِ شور و شر

ترجمہ: اے عزیز! جب تم اس (رقعہ) کو دفتری (کے کاغذوں) سے اڑا لو۔ تو شور و شر کے ہجوم (عام) سے باہر نکل جاؤ۔

مطلب: عام لوگوں کے شور و شر میں ایک تو ایسے اسراری پرچہ کا پڑھنا اور سمجھنا دشوار ہے۔ دوسرے افشائے راز کا اندیشہ ہے۔ ’’بدُزدی‘‘ کا لفظ مجازاً خفیہ طور پر لے جانے کے لیے استعمال ہوا ہے کیوں کہ ایک تو چار انگل پرزۂ کاغذ کی مالیت ہی کیا کہ اس کے لے جانے پر دُزدی کا اطلاق ہو سکے۔ دوسرے ایک ہاتف سے دُزدی کی تعلیم غیر متوقع ہے۔ اور وہ بھی ایسے صوفی کو جو متوکل علی اللہ اور مستجاب الدعوات ہو اور خفیہ طور سے اس پرزہ کو لے جانا اس بنا پر نہیں کہ دفتری مانع ہو گا۔ کیونکہ ایسے ایسے صد ہا پُرزے تو دفتری صاف کرتے وقت کوڑے کرکٹ کے ساتھ باہر گرا دیتے ہیں بلکہ اس لیے کہ دفتری کو خواہ مخواہ خیال ہو گا کہ اس پرزۂ کاغذ میں کیا اہمیت ہے۔ جس سے راز افشا ہو جائے گا۔

6

 تو بخوان آن را بخود در خلوتے ہین مجو در خواندنِ آن شِرکتے

ترجمہ: تم اس کو تنہائی میں خود پڑھو۔ خبردار! اس کے پڑھنے میں کسی غیر کی شرکت کے روادار نہ ہونا۔

7

 ور شود آن فاش ہین غمگین مشو کہ نیابد غیرِ تو زان نیم جَو

ترجمہ: اور اگر (تمہاری ان احتیاطوں کے باوجود اتفاق سے) وہ (راز) ظاہر ہی ہو جائے تو دیکھنا غمگین نہ ہونا کیونکہ (وہ خزانۂ خاص تمہارے حصے میں مقدر ہو چکا ہے) تمہارے سوا (کوئی اور) اس میں سے آدھے جو برابر (مال بھی) نہ پائے گا۔

8

 ور شود آن دیر ہین زنہار تو وِردِ خود کن دمبدم لَا تَقْنَطُوْا

ترجمہ: اور اگر اس (خزانے کے حصول) میں دیر ہو جائے تو بھی خبردار تم دمبدم اپنا وِرد لَاتَقْنَطُوْا ہی رکھنا (اللہ فرماتا ہے ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ (الزمر: 53) یعنی ’’اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو‘‘)۔

9

 این بگفت و دستِ خود آن مژده وَر بر دلِ او زد کہ رَو رحمت ببر

ترجمہ: اس بشارت دینے والے نے اتنا کہا اور اپنا ہاتھ اس کے دل پر رکھ دیا (جس میں یہ اشارہ تھا) کہ جاؤ رحمت (کا انعام) پاؤ۔

انتباہ: یہاں ’’دست زدن‘‘ بمعنی دست نہادن استعمال ہوا ہے جیسے تخت نہادن محاورہ ہے۔ ایک شارح صاحب نے اس کا ترجمہ ہاتھ مارا کیا ہے حالانکہ کسی کے دل پر ہاتھ مارنا بجائے سکون و طمانیت بخشنے کے اس کے توحُّش و اضطراب کا باعث ہوتا ہے۔ فافہم۔

10

 چون بخویش آمد ز غیبت آن جوان می نگنجید از فرح اندر جہان

ترجمہ: جب وہ جوان غیبت سے ہوش میں آیا تو خوشی سے جہان میں (پھولا) نہ سماتا تھا۔

11

زہرۂ او بر دریدے از قلق گر نبودے عونِ رفق و لطفِ حق

ترجمہ: اگر حق تعالیٰ کی مہربانی اور لطف کی مدد نہ ہوتی تو اضطراب سے اس کا پِتّہ پھٹ جاتا۔

12

 یک فرح آن کز پسِ نُہ صد حجاب  گوشِ او بشنید ازان حضرت خطاب

ترجمہ: ایک خوشی تو یہ تھی کہ اس کے کانوں نے نو سو پردوں کے پیچھے سے اس بارگاہ سے خطاب سنا (نو سو کا عدد بمعنی کثرت استعمال ہوا ہے)۔

13

از حُجب چون حِسِّ سمعش درگذشت شد سر افراز و ز گردُون برگذشت

ترجمہ: جب اس کی شنوائی کی طاقت (ان) حجابات (کثیرہ) سے گذر گئی تو وہ سر افراز ہو گیا اور (رتبہ میں) آسمان سے آگے بڑھ گیا۔

14

کے بود کان حسِ چشمش ز اعتبار زان حجاب غیب ہم یابد گذار

ترجمہ: (آہ! یہ) کب (میسر) ہو گا کہ اس (شخص) کی بینائی کی قوت بھی عبرت گیری (کی برکت) سے حجابِ (عالمِ) غیب سے گذر جائے (یعنی جس طرح اس کی سماعت کو عالمِ غیب سے تعلق ہو گیا۔ رویت کو بھی ہو جائے تاکہ قرب کی جامعیت حاصل ہو)۔

15

 چون گذاره شد حواسش از حجاب پس پیاپے گرددش دید و خطاب

ترجمہ : جب اس کے حواس حجاب سے گذر جاتے ہیں تو اس کو لگا تار رویت اور خطاب (میسر) ہوتا ہے۔

16

 چون سپاہِ زنگ پنہان شد ز رُوم تیغ زد خورشید و پیدا شُد علُوم

ترجمہ: (اس کے علاوہ) جب (ظلمت شرّیہ کیا) سپاہِ زنگی (انوارِ تجلیات کے) روم سے پنہاں (اور مغلوب) ہو جاتی ہے تو خورشید (وجود) شمشیر (فنائے حقیقی) مارتا ہے اور علومِ لدنیہ القا ہوتے ہیں۔ (بمعنی فنا کے بعد جب تک تخلق باخلاق اللہ حاصل ہوتا ہے تو حضرتِ حق کی صفتِ علمیہ کے ساتھ مناسبت ہو جانے سے علوم و معارف حاصل ہونے لگتے ہیں۔ (کلید))

17

یک فرح آن کز سوال آمد خلاص خواہدش حاصِل شدن آن گنجِ خاص

ترجمہ: (غرض ایک خوشی تو وہ ہوئی اور) ایک (دوسری) خوشی یہ (تھی) کہ سوال سے چھٹکارا ملا۔ اب اس کو وہ خاص خزانہ حاصل ہوجاۓ گا۔

18

یک فرح آن کہ نشد ردّش دعا عاقبت آمد اجابت مر ورا

ترجمہ: (اور) ایک (تیسری) خوشی یہ (تھی) کہ اس کی دعا رد نہیں ہوئی۔ آخر اس کو قبولیت حاصل ہوئی۔

19 

جانبِ دكّانِ ورّاق آمد اُو دست می زد او بمشقش سُو بسُو

ترجمہ: (غرض) وہ (فقیر) دفتری کی دکان کی طرف آیا (اور) اس کے مشقی کاغذوں میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے لگا۔

مطلب: اس دفتری کی دکان پر مشقِ کتابت و خوشخطی کے نمونے فروخت ہوتے ہوں گے۔ جلی و خفی اور نسخ و نستعلیق خط کے مختلف نمونے دکان میں قرینے سے سجائے رکھے ہوں گے۔ گاہک آ کر ان نمونوں کو دیکھتے اور حسبِ پسند کوئی نمونہ خریدتے ہوں گے۔ تاکہ اس کے مطابق خوشخطی کی مشق کریں۔ یہ فقیر ایک گاہک کی طرح ان مشقی نمونوں کو یکے بعد دیگرے اٹھاتا اور دیکھتا رہا۔ دفتری سمجھتا تھا کہ یہ کوئی گاہک ہے۔ ابھی دو چار پیسے کا مال خریدے گا مگر فقیر کو اپنے الہامی و اسراری پرزۂ کاغذ کی تلاش تھی حتٰی کہ:

20

 پیش چشمشِ آمد آن مکتوب زود با علاماتے کہ ہاتف گفتہ بُود

ترجمہ: تھوڑی سی دیر میں وہ لکھا ہوا (كاغذ) انہی علامتوں کے ساتھ جو ہاتف نے (خواب میں) بتائی تھیں اس کی نگاہ چڑھ گیا۔

21 

در بغل زد گفت خواجہ خیر باد این زمان وا میرسم اے اوستاد

ترجمہ: (اور اس نے فوراً آ نکھ بچا کر اسے) بغل میں مار لیا (ساتھ ہی دکاندار کو) کہا حضرت سلامت میں ابھی واپس حاضر ہوتا ہوں اے استاد!

مطلب: فقیر کو مطلوبہ رقعہ ملتے ہی اس کے پڑھنے کی جلدی پڑ گئی اور پھر ایک لمحہ بھی دکان پر ٹھہرنے کی تاب نہ رہی۔ اس لیے وہ مصلحتًا دکاندار سے ایسے انداز کے ساتھ رخصت ہوا جیسے کسی کو ناگہاں پیشاب کی حاجت ہو جاتی ہے۔ یہاں دو طرح کے شبہے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ ایسے فقیر مستجاب الدعا نے مالکِ دکان کی اجازت کے بدوں پرزۂ کاغذ اس کی دکان سے اڑا لے جانا کیونکر روا سمجھا۔ دوسرے یہ کہ اس نے ’’وا میرسم‘‘ کہہ کر جھوٹ کیوں بولا۔ پہلے شبہ کا جواب پیچھے گذر چکا ہے۔ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ شاید وہ رقعہ کو مطالعہ کرنے کے بعد ایفائے وعدہ کے لیے دوکان پر حاضر ہو گیا ہو اور یہ بھی ممکن کہ پھر اس نے وہ پرزۂ کاغذ دفتری کو دکھا کر اس کی قیمت کے دو چار پیسے بھی دے دیے ہوں۔ بالفعل جلدی چلے جانے کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ ایک تو شوقِ مطالعہ میں بے صبری تھی دوسرے ممکن تھا کہ یہ کوئی اور کاغذ غیر مطلوب نکلے اور نا حق قیمت ضائع جائے۔ شاید مولانا نے ان باتوں کو مقصودِ قصّہ سے غیر متعلق ہونے کے سبب سے ذکر نہ کیا ہو۔

22

رفت کنجِ خلوتے آن را بخواند ور تحیُّر والہ و حیران بماند

ترجمہ: (اور غرض) وہ گوشہ تنہائی میں گیا، اس کو پڑھا اور حیرانی سے سر گشتہ و ششدر رہ گیا۔

23 

 کہ بدین سان گنجنامہ بے بہا چون فتاده ماند اندر مشقہا

ترجمہ: (حیران اس بات پر ہوا) کہ اس قسم کا بے بہا گنجنامہ کیوں کر مشقی کاغذوں میں پڑا رہا؟

24

 باز اندر خاطرش این فکر جست کز پئے ہر چیز یزدان حافظ است

ترجمہ: (پھر خود ہی بطورِ جوابِ شبہ) اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ حق تعالیٰ ہر چیز کا نگران ہے۔

25

 کَے گذارد حافظ اندر اِكتِنَاف کہ کسے چیزے رباید از گزاف

ترجمہ: بھلا (وہ) نگہبان (مطلق تعالیٰ شانہ) اپنی پناہ میں یہ کب موقع دیتا ہے کہ کوئی کسی چیز کو بے ضابطہ اڑا لے۔

26

 گر بیابان پُر شود زرّ و نقود بے رضائے حق جَوے نتوان ربود

ترجمہ: (حتٰی کہ) اگر جنگل (کا جنگل) زرّ و نقد سے پُر ہو جائے تو (اس میں سے) رضاۓ حق کے بدون ایک جو بھی نہیں لے سکتے (مطلب یہ کہ تقدیر الٰہی کے بدون کچھ حاصل نہیں ہوتا)۔

27

 ور بخوانی صد صحُف بے سکتۂ بے قدَر يادت نماند نکتۂ

ترجمہ: اور (اسی طرح) اگر تم سو کتابیں (بھی) بلا سکتہ پڑھ جاؤ تو تقدیر کے بدون ایک نکتہ تک تم کو یاد نہیں رہے گا۔

28

ور کنی خدمت نخوانی یک کتیب  علمہاۓ نادره یابی ز جیب

ترجمہ: (بخلاف اس کے) اگر تم (مرشد کامل کی) خدمت کرو (اور گو) ایک کتاب (بھی) پڑھنے کا موقع نہ پاؤ تو (بھی) نادر علوم (خود اپنے) گریبان کے اندر پاؤ گے۔

مطلب: اگر حق تعالیٰ چاہے تو بلا اسباب مراد پوری کر دے اور اگر اس کی رضا نہ ہو تو اسباب کے ہوتے بھی کچھ نہیں ملتا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

شنیدم کہ دینارے از مفلسے بیفتاد و مسکین بجستش بسے

بآخر سرِ ناامیدی بتافت یکے دیگرش ناطلب کردہ یافت

29

 شد ز جیب آن کفِ موسیٰؑ ضوفشان  کان فزون آمد ز ماہِ آسمان

ترجمہ: (دیکھو) گریبان (ہی) سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یدِ (بیضا) نور افشاں ہو گیا تھا جو (نورانیت میں) ماہِ فلک سے بھی فائق تھا۔


 30

کانچہ می جُستی ز چرخِ با نہیب سر بر آورد ست اے موسیٰ ز جيب

ترجمہ: (اور ان کو ارشاد ہوا تھا) کہ اے موسٰی علیہ السلام! جس چیز کو تم با عظمت آسمان سے تلاش کرتے تھے وہ (تمہارے) گریبان سے نمودار ہو گئی۔

31

 تا بدانی کآسمانہائے سَمی ہست عکسِ مُدرکاتِ آدمی

ترجمہ: (فقیر کے قصے میں تمثیلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس لیے بھی ہم لے آئے) تاکہ تم کو معلوم ہو کہ آسمان ہائے بلند آدمی کے (بعض) قوائے مدرکہ کے (گویا) عکس ہیں۔

مطلب: تشبیہ عکس کے ساتھ تابع ہونے میں ہے اور یہ تابعیت مقصودیت میں ہے اور بعض مُدرکات سے عقل کامل ہے، جو آلہ ہے معرفتِ حق کا اور معرفت ہی مقصودِ اصلی من الخلق ہے۔ جیسے کہ حدیث مشہور ہے ’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا الخ‘‘۔ پس اصلی مقصودِ خلائق میں سے وہ ہو گا جو عقل و معرفت رکھتا ہو اور باقی کائنات ارض و سمٰوٰت اس کے قوام و بقا کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ۔۔۔﴾ (البقرۃ: 29)۔ تو قصّۂ یدِ بیضا سے بھی انسان کے افضل من سمٰوٰت ہونے کی تائید ہوئی کہ انسانِ کامل کے ہاتھ میں وہ نور تھا جو آسمان میں نہ تھا (کلید)۔ آگے عقل کی شمولیت کی مقصودیت پر استدلال فرماتے ہیں:

32

 نے کہ اوّل دستِ یزدانِ مجید از دو عالم پیشتر عقل آفرید

ترجمہ: کیا (یہ بات) نہیں کہ خداوند تعالیٰ کے ہاتھ نے دونوں عالم سے پہلے عقل کو پیدا کیا۔

33

 این سخن پیدا و پنہان ست بس کہ نباشد محرمِ عنقا مگس

ترجمہ: یہ مضمون (اجمالاً تو) ظاہر ہے اور (تفصیلاً) بہت مخفی ہے کیونکہ عنقا کی محرم مکھی نہیں ہو سکتی۔

مطلب: بعض روایات میں آیا ہے کہ ’’اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ الْعَقَلَ‘‘ اور گو یہ حدیث محلِ بحث ہے مگر عقل کی مقصودیت و شرف کا ثبوت اسی پر موقوف نہیں۔ بلکہ آیت ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56) اس پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی اوّلیت مسلم ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ کوئی عقل کی اولیت کو اس سے متعارض سمجھے اور اس تعارض کو رفع کرنے کے لیے اسے بحث کی ضرورت محسوس ہو۔ اس کو جھگڑے سے باز رکھنے کے لیے فرماتے ہیں کہ اس راز کو سمجھنا تمہارے بل بوتے سے برتر ہے کیونکہ جس طرح مکھی عنقا کی محرم نہیں ہو سکتی اسی طرح تمہاری قوتِ فکریہ جوہرِ عقل کی ماہیت اور اس کی اولیت کے راز کو نہیں سمجھ سکتی۔

34

 باز سوئے قصہ باز آ اے پسر قصّۂ گنج و فقیر آور بَسَر

ترجمہ: اے عزیز! پھر قصے کی طرف رجوع کرو (یعنی) فقیر اور (اس کے مطلوبہ) خزانہ کا قصہ ختم کرو۔